Search This Blog

Thursday 29 August 2013

اسلامی مالیاتی انڈسٹری پر ایک بڑا سوالیہ نشان

اسلامی مالیاتی انڈسٹری پر ایک بڑا سوالیہ نشان

محمد زبیر مغل…
zubair.mughal@alhudacibe.com
یہ امر بظاہر خوشی کا باعث ہے کہ عالمی اسلامی مالیاتی انڈسٹری 1.3ٹریلین ڈالرسے زائد حجم تک پہنچ چکی ہے جو یقینی طور پر لوگوں کو سود سے نجات کے ساتھ ساتھ ایک اچھے کاروبار کا ذریعہ بھی میسر کر رہی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 2000 سے زائد اسلامی مالیاتی ادارے اسلامی بنکاری، اسلامی انشورنس (تکافل)، اسلامی فنڈ، مضاربہ، اجارہ، اسلامی بانڈ (سکوک) اور اسلامی مائیکرو فنانس سمیت چند دیگر صورتوں میںشریعہ سے ہم آہنگ اسلامی مالیاتی خدمات میں سرگرم ہیں۔اگرہم ان تمام خدمات کے مارکیٹ شیئرز کو بظاہر دیکھیں تو دل دکھا دینے والے اعداد و شمار کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی بنکاری و مالیات صرف امراء تک ہی محدود ہوکر رہ گئی اور Capitalism کے مطابق منافع کی ہوس نے اسلامی مالیاتی انڈسٹری کو بھی آ گھیرا ہے جس کی وجہ سے اسلامی مالیاتی انڈسٹری میں غریبوں کے لیے خدمات میسر نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کمرشلزم نے انہیں اس طرح اپنے سحر میں لے لیا ہے کہ غریبوں کے ساتھ کاروبار یا فنانس کرنا ان کے ایجنڈے سے بالکل نکل چکا ہے۔
ورلڈ بنک سے متعلقہ ایک ادارے (CGAP) Consultative Group to Assist the Poor کی مارچ 2013,ء کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں اسلامی مائیکروفنانس کے اداروں کا کل حجم 800 ملین USD تک جا پہنچاہے جو تقریبا 1.3 ملین افراد کو خدمات دستیاب کر رہے ہیں جبکہ الہدیٰ سنٹر آف ایکسی لینس برائے اسلامی مائیکروفنانس کی ایک حالیہ ریسرچ رپورٹ کے مطابق اسلامی مائیکروفنانس کے اداروں کا کل حجم جولائی 2013ء میںتقریباایک بلین ڈالر ہے اور دنیا بھر میں کل اسلامی مائیکروفنانس اداروں کی تعداد 300 سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اسلامی مالیاتی انڈسٹری کے 1.3 ٹریلین کے حجم میں اسلامی مائیکروفنانس کا حصہ 1% سے بھی کم ہے جو کہ اسلامی مالیاتی انڈسٹری پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے اوران اداروں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت بھی۔ان اعدادوشمار سے ذہن میں بے شمار سوالات جنم لیتے ہیںمثلا معاشرے میں امیر اور غریب کا توازن 1%:99% ہے؟ کیا اسلامی مالیات میں صرف امیر کے لیے مالیاتی مصنوعات ہیں؟ غریب کے لیے نہیں؟ کیا اسلامی فنانس ایک خاص طبقہ کے لیے ہے؟ کیا یہ ایک طبقاتی نظام ہے؟ وغیرہ وغیرہ، اور یقینی طور پر ان ابھرنے والے سوالات کے جوابات نفی میں ہیں۔
اسلام کی تعلیمات کے تناظر میں اسلامی مالیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی مالیات کا اصل محور ہی غریب کی فلاح ہے اور اس میں غربت کے خاتمے کے بہتریں اصول موجود ہیں اسلام تو غریب سے شروع ہو کر غریب پر ہی ختم ہونے کا دین ہے ،اگر ہم دیگر مذاہب کا مطالعہ کریںتو یہ بات علم میں آتی ہے کہ غربت کا خاتمہ اسلام میں معاشرتی ذمہ داری نہیں بلکہ مذہبی ذمہ داری ہے جو کہ زکوۃ، صدقہ، فطر، عشر، قرض وغیرہ وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں کے مذہبی فرائض میں شامل ہے جبکہ دیگر مذاہب کے نزدیک یہ مذہبی فریضہ کے بجائے معاشرتی فریضہ ہے اور وہCorporate Social Responsibility (CSR)کے نام سے دنیا میں غربت کے خاتمے کے لیے مصروف عمل ہیں 

شام کی خانہ جنگی میں کلیسا کا کردار

شام کی خانہ جنگی میں کلیسا کا کردار

فتح محمد ملک

آغازِکار ہی سے شام میں بشر الاسدکی حکومت کا تختہ اُلٹنے میں پادری حضرات سرگرمِ عمل چلے آ رہے ہیں۔ اسی جُرم کی پاداش میں اطالوی پادری Paolo Dall'Oglioکو جون 2012ءمیںملک بدر کر دیا گیا تھامگر وہ جلد ہی باغیوں کے زیرِ تسلط علاقے میں واپس آ گئے تھے۔ موصوف شام کی آبادی کے آٹھ فیصد کے رہبر و رہنما تھے مگر خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد تمام باغی گروپوں سے نظریاتی اور عملی تعاون میں مصروف ہو گئے تھے۔ گزشتہ دنوں جب دو بڑے باغی گروہوں کے درمیان باہمی جنگ و جدل شروع ہو گئی اور نتیجتاً القاعدہ نے آزاد شامی فوج کے قائد کمال حمامی کو قتل کر دیا تو پادری موصوف القاعدہ کے ٹھکانے پر پہنچے تاکہ ہر دو متحارب گروہوں کو باہمی اتفاق و اتحاد کی دولتِ نایاب سے فیض یاب کر سکیں۔یہاں پہنچنے کے بعد وہ لاپتہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ اُنکی وفات حسرت ِآیات کی خبر روم میں پہنچی تو پوپ نے اُن کیلئے اجتماعی دُعا کا اہتمام فرمایا۔ ہر چند موصوف کی گمشدگی یا وفات انتہائی افسوسناک ہے تاہم ایک پادری کا بشرالاسد کی حکومت کیخلاف علمِ بغاوت بلند کرنا اور باغیوں کی نظریاتی اور عملی رہنمائی کا دم بھرنا بھی انتہائی افسوسناک ہے ۔اِس پر مجھے مغرب کی سامراجی سیاست میں کلیسا کے کردار پر اقبال کی نظم ”لادین سیاست“ ایک بار پھر یاد آئی ہے۔ اِس نظم میں اقبال نے فرنگی سیاست کو ایک ”دیوِبے زنجیر“قرار دے کر ہمیں متنبہ کیا ہے کہ :
متاعِ غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اِس کی
تو ہیں ہراولِ لشکر کلیسیا کے سفیر!

آج کی صلیبی جنگ میں عیسائی طالبان کی اِس وقتی ناکامی نے مغرب کی سامراجی قوتوں کو بوکھلا کر رکھ دیا ہے۔ چنانچہ اب وہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے الزام میں شام پر براہِ راست حملہ آور ہونے کے بہانے ڈھونڈنے لگے ہیں۔ اُنکے اِن سامراجی عزائم کی راہ کی سب سے بڑی رُکاوٹ رُوس کی حکومت ہے جواقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور سے لیس ہے۔ روس کا کہنا یہ ہے کہ ثبوت کے بغیر شام پر یہ الزام سراسر فریب ہے۔ شام کی حکومت کا کہنا یہ ہے کہ جن علاقوں میں باغی گروہوں کی عملداری ہے اُنہیں مغربی سامراج کیمیائی ہتھیار مہیا کر رہا ہے۔ جہاں تک شام کی حکومت کا تعلق ہے وہ اپنے ہی عوام سے یہ سلوک ہر گز نہیں کر سکتی ۔اِن تازہ ترین الزامات پر مجھے عراق میں صدام حسین کی حکومت پر ہمہ گیر تباہی کے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگایا گیا تھا۔عراق کی تباہی کے بعد وہاں سے ایسا کوئی ہتھیار برآمد نہ ہوا تھا۔ یہ گویا عراق پر حملہ آور ہونے کا ایک بہانہ تھا۔ 

میں یہاں یہ یاد دلانے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ عراق پر بعث پارٹی کی حکومت تھی۔ ہر چند صدام حسین کا طرزِحکمرانی آمرانہ تھا تاہم بعث پارٹی ایک سوشلسٹ پارٹی تھی جسے ایک عیسائی مائیکل افلاک نے اب سے دُور اُسی سال قائم کیا تھا جس سال آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں قراردادِ پاکستان منظور کی تھی۔ 1940ءسے یہ سوشلسٹ پارٹی عرب دُنیا میں ایک انسانی فلاحی نظام پر کاربند چلی آ رہی تھی۔ صدام حسین کے عراق میں تعلیم اور علاج مُفت مہیا کیا جاتا تھا۔ بچوں کودرسی کتابوں اور سٹیشنری کے ساتھ ساتھ دوا اور دُودھ بھی مُفت مہیا کیا جاتا تھا۔ امریکی جارحیت نے صرف صدام حسین سے اقتدار ہی نہیں چھینا تھا بلکہ عراق کے بچوں سے مُفت علاج اور مُفت تعلیم کے سے انسانی حقوق بھی چھین لیے تھے۔ ہمارے ایک شاعر حسن عابدی نے اپنی متعدد نظموں میں امریکی جارحیت کے باعث بغداد کی ہمہ گیر تباہی کا موازنہ ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی سے کیا ہے جن میں عراق پر بلاجواز امریکی یلغار کے نظریہ سازوں اور ہلاکت آفریں حکمتِ عملی وضع کرنیوالوں کے مقابلے میں ہلاکو خان فقط ایک طفلِ مکتب نظر آتا ہے۔ یہاں میں حسن عابدی مرحوم کی فقط ایک نظم بعنوان ”ہلاکواب جو تم بغداد آﺅ گے“کا ذکر کرونگا جس میں امریکی جارحیت کے باعث بغداد کی ہمہ گیر تباہی کا موازنہ ہلاکو خان کے ہاتھوں قدیم بغداد کی تباہی سے کیا گیا ہے۔ نظم کے اختتامی حصے میں ہلاکو کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اب وہ بغداد آیا تو اُسے اپنے سے کہیں بڑے ہلاکو خان سے پنجہ آزمائی کرنا پڑیگی: .... ہلاکو اب جو تم بغداد آﺅ گے‘ علی بابا کے سونے کے خریطے، خیمہ و خرگاہ سارے لٹ چکے ہوں گے....
جہاں عشوہ طراز و حیلہ گر مرجینا رہتی تھی
وہاں اک اور ہی دنیا کے نوسرباز بیٹھے ہیں
یہاں مٹی میں جادو ہے، زمیں سونا اگلتی ہے
ہوا میں تیل کی بُو ہے
ہلاکو اب جو تم بغداد آﺅ گے
تو پھر واپس نہ جاﺅ گے۔
آج کی دُنیا کے یہ” نوسرباز “عراق میں اپنے اہداف حاصل کرنے کے بعد اب مصر اور شام میں اپنی عقلِ عیّار کے جوہر دکھانے میں مصروف ہیں۔فیض نے برسوں پہلے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ:
برباد کر کے بصرہ و بغداد کا جمال
کس کھوج میں ہے تیغِ ستم گر لگی ہوئی؟
آج اس سوال کا جواب شام مصر کی خانہ جنگی ہے۔ امریکہ نے شام کی حکومت پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کیا ہے تو روس نے باغیوں کو یہی الزام دیا ہے۔ ایران نے بھی رُوس کی پرزور تائید کی ہے۔ امریکہ تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اِسے اِس خوف نے گھیر لیا ہے کہ اگر وہ براہِ راست حملہ کر کے شام کی حکومت کو گرا دیتا ہے تو النصرہ، احرار الشام اور القاعدہ کی سی قوتیں زور پکڑ کر شام اور عراق پر مشتمل ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کے تصور کو حقیقت بنا سکتی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کو نہ اسلامی جمہوریت گوارا ہے نہ سوشِلسٹ آمریت۔ چنانچہ شام اور مصر میں خانہ جنگی کو مسلسل ہوا دی جا رہی ہے۔ نیویارک ٹائمز (24- 25۔اگست )میں Edward N. Luttwak کا مضمون بعنوان Keep Syria in Stalemate چشم کُشا ہے۔ کاش دُنیائے اسلام کا حکمران طبقہ ان عزائم سے عبرت پکڑ سکے!

Tuesday 27 August 2013

علم وعمل کے بغیر دعا ؟

علم وعمل کے بغیر دعا ؟

مولانا ابوالکلام آزاد
صلیبی جہاد نے ازمنہ وسطیٰ کے یورپ کو مشرق وسطیٰ کے دوش بدوش کھڑا کردیا تھا۔ یورپ اس عہد کے مسیحی دماغ کی نمائندگی کرتا تھا اور مشرق وسطیٰ مسلمانوں کے دماغ کی۔ اور دونوں کی متقابل حالت سے ان کی متضاد نوعیتیں آشکارا ہوگئی تھیں۔ یورپ مذہب کے مجنونانہ جوش کا عَلم بردار تھا اور مسلمان علم و دانش کے عَلم بردار۔ یورپ دعائوں کے ہتھیار سے لڑنا چاہتا تھا اور مسلمان لوہے اور آگ کے ہتھیاروں سے لڑتے تھے۔ یورپ کا اعتماد صرف خدا کی مدد پر تھا، مسلمانوں کا خدا کی مدد پر تھا لیکن خدا کے پیدا کئے ہوئے سرو سامان پر بھی تھا۔ ایک صرف روحانی قوتوں کا معتقد تھا، دوسرا روحانی اور مادی دونوں کا۔ پہلے نے معجزوں کے ظہور کا انتظار کیا، دوسرے نے نتائجِ عمل کے ظہور کا۔ معجزے ظاہر نہیں ہوئے لیکن نتائج عمل نے ظاہر ہوکر فیصلہ کردیا۔
ژاویل کی سرگزشت میں بھی یہ متضاد تقابل ہر جگہ نمایاں ہے۔ جب مصری فوج نے منجنیقوں کے ذریعے سے آگ کے بان پھینکنے شروع کئے تو فرانسیسی جن کے پاس پرانے دستی ہتھیاروں کے سوا اور کچھ نہ تھا، بالکل بے بس ہوگئے۔
ژاویل اس سلسلے میں لکھتا ہے:
’’ایک رات جب ہم ان برجیوں پر جو دریا کے راستے کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھیں، پہرہ دے رہے تھے تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایک انجن جسے پٹریری (یعنی منجنیق) کہتے ہیں، لاکر نصب کردیا اور اس سے ہم پر آگ پھینکنے لگے۔ یہ حال دیکھ کر میرے لارڈ والٹر نے جو ایک اچھا نائٹ تھا، ہمیں یوں مخاطب کیا: ’’اس وقت ہماری زندگی کا سب سے بڑا خطرہ پیش آگیا ہے کیونکہ اگر ہم نے ان برجیوں کو نہ چھوڑا اور مسلمانوں نے ان میں آگ لگا دی تو ہم بھی برجیوں کے ساتھ جل کر خاک ہوجائیں گے، لیکن اگر ہم برجیوں کو چھوڑ کر نکل جاتے ہیں تو پھر ہماری بے عزتی میں کوئی شبہ نہیں، کیونکہ ہم ان کی حفاظت پر مامور کیے گئے ہیں۔ ایسی حالت میں خدا کے سوا کوئی نہیں جو ہمارا بچائو کرسکے۔ میرا مشورہ آپ سب لوگوں کو یہ ہے کہ جوں ہی مسلمان آگ کے بان چلائیں ہمیں چاہیے کہ گھٹنوں کے بل جھک جائیں اور اپنے نجات دہندہ خداوند سے دعا مانگیں کہ اس مصیبت میں ہماری مدد کرے۔‘‘
چنانچہ ہم سب نے ایسا ہی کیا۔ جیسے ہی مسلمانوں کا پہلا بان چلا، ہم گھٹنوں کے بل جھک گئے اور دعا میں مشغول ہوگئے۔ یہ بان اتنے بڑے تھے کہ جیسے شراب کے پیپے، اور آگ کا جو شعلہ ان سے نکلتا تھا اس کی دم اتنی لمبی ہوتی تھی جیسے ایک بہت بڑا نیزہ، جب یہ آتا تو ایسی آواز نکلتی جیسے بادل گرج رہے ہوں۔ اس کی شکل ایسی دکھائی دیتی تھی جیسے ایک آتشیں اژدھا ہوا میں اڑ رہا ہے۔ اس کی روشنی نہایت تیز تھی۔ چھائونی کے تمام حصے اس طرح اجالے میں آجاتے تھے جیسے دن نکل آیا ہو۔‘‘
اس کے بعد خود لوئس کی نسبت لکھتا ہے:’’ہر مرتبہ جب بان چھوٹنے کی آواز ہمارا ولی صفت بادشاہ سنتا تھا تو بستر سے اٹھ کھڑا ہوتا تھا اور روتے روتے ہاتھ اٹھا اٹھا کر ہمارے نجات دہندہ سے التجائیں کرتا: مہربان مولیٰ ہمارے آدمیوں کی حفاظت کر۔ میں یقین کرتا ہوں کہ ہمارے بادشاہ کی ان دعائوں نے ہمیں ضرور فائدہ پہنچایا۔‘‘
لیکن فائدے کا یہ یقین خوش اعتقادانہ وہم سے زیادہ نہ تھا، کیونکہ بالآخر کوئی دعا بھی سودمند نہ ہوئی اور آگ کے بانوں نے تمام برجیوں کو جلا کر خاکستر کردیا۔
یہ حال تو تیرہویں صدی مسیحی کا تھا، لیکن چند صدیوں کے بعد جب پھر یورپ اور مشرق کا مقابلہ ہوا تو اب صورتِ حال یکسر الٹ چکی تھی۔ اب دونوں جماعتوں کے متضاد خصائص اسی طرح نمایاں تھے جس طرح صلیبی جنگ کے عہد میں رہے تھے، اور جو جگہ مسلمانوں کی تھی اسے اب یورپ نے اختیار کرلیا تھا۔
اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب نپولین نے مصر پر حملہ کیا تو مراد بک نے جامع ازہر کے علماء کو جمع کرکے ان سے مشورہ کیا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ علمائے ازہر نے بالاتفاق یہ رائے دی تھی کہ جامع ازہر میں صحیح بخاری کا ختم شروع کردینا چاہیے کہ نجات کے لیے تیر بہدف ہے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ لیکن ابھی صحیح بخاری کا ختم، ختم نہیں ہوا تھا کہ اہرام کی لڑائی نے مصری حکومت کا خاتمہ کردیا۔ شیخ عبدالرحمن الجبرتی نے اس عہد کے چشم دید حالات قلمبند کیے ہیں اور یہ بڑے ہی عبرت انگیز ہیں۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تھا تو امیر بخارا نے اسے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھا جائے۔ اُدھر روسیوں کی قلعہ شکن توپیں شہر کا حصار منہدم کررہی تھیں، اِدھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے یا مقلب القلوب، یامحول الاحوال کے نعرے لگا رہے تھے۔ بالآخر وہی نتیجہ نکلا جو ایک ایسے مقابلے کا نکلنا تھا، جس میں ایک طرف گولہ بارود ہو دوسری طرف ختم خواجگان۔ دعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں مگر انہی کو پہنچاتی ہیں جو عزم و ہمت رکھتے ہیں۔ بے ہمتوں کے لیے تو وہ ترک ِعمل اور تعطلِ قویٰ کا حیلہ بن جاتی ہیں۔
(بحوالہ غبار خاطر سوئے حرم۔ ماہ جولائی 2008ئ)
مولانا ابوالکلام آزاد

مولانا مودودی کے مطالعہ کی وسعت

مولانا مودودی کے مطالعہ کی وسعت

پروفیسر سید محمد سلیم

دوسری ہجری میں یونانی فلسفہ عالم اسلام میں داخل ہو گیا جس کی وجہ سے اچھے خاصے طبقے میں فکری انتشار اور فکری گمراہی پھیل گئی۔ مباحثہ اور مجادلہ کے نتیجے میں مسلمانوںمیں دو حریف گروہ پیدا ہو گئے۔ معتزلہ اور اشاعرہ ۔ یہ حالات جاری رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے امام غزالی ؒکو پیدا کردیا۔ امام غزالیؒ اپنے زمانہ کی نابغہ روزگار (Genuis) ہستی تھی۔ ’’انہوں نے پہلے یونانی فلسفہ کا گہری ‘‘نظر سے مطالعہ کیا اور ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘ کتاب لکھی۔ پھر اس پرناقذانہ نظر ڈالی اور ’’نہا فتہ الفلاسفہ‘‘ کتاب لکھی اور یونانی فلسفہ کارد لکھا۔ اس دن سے عالم اسلام میں یونانی فلسفہ کا زور ٹوٹ گیا۔
اس مطالعہ کے نتیجے میں امام غزالی میں خاص ایمان، یقین اور اسلام کی حقانیت پر پختہ ایمان پیدا ہو گیا۔ پھر انہوں نے اس ایقان و اعتماد کے قلم سے اسلام کی تشریح کی۔ نظام اسلام کی حکمتیں بیان کیں۔ ’’احیائے علوم الدین‘‘ اسی دور کی کتاب ہے۔ ایک مدت تک یہ کتاب اسلام کی سب سے بڑی شارح شمار کی جاتی رہی ہے۔
گزشتہ دو صدیوں سے مغربی اقوام کا عالم اسلام پر غلبہ رہا ہے۔ اس دوران مغربی فلسفہ، مغربی فکر، الحاد و دہریت اور آزاد خیالی نے مسلمانوں کے دل و دماغ میں نفوذ حاصل کرلیا، جس کے بعد مسلمانوں میں فکری انتشار اور فکری گمراہی پھیلی۔ اس صورت حال کے تدارک کے لیے اللہ تعالیٰ نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ [1903-1979ئ] کو پیدا فرمایا۔ انہوں نے اپنی خداداد ہمت اور قابلیت سے پہلے تمام مذاہب کا گہرا مطالعہ کیا اور ناقدانہ نظر سے ان کو پرکھا۔گزشتہ چار صدیوں میں یورپ کے اندر الحاد، دہریت اور آزاد روی کی جو فصل پروان چڑھی ہے، اس کا مطالعہ کیا۔ اس فکر کے اساطین کی فکری اور عملی زندگیوں کا مطالعہ کیا۔ اس تقابل اور تنقید کے نتیجے میں مولانا مودودیؒ کے اندر اسلام کی حقانیت پر پختہ یقین اور ایمان پیدا ہوگیا۔ مغربی فکر سے مغلوبیت اور مرعوبیت کا رجحان ہوا ہوگیا۔
پھر مولانا مودودیؒ نے ایمان و یقین کی خوشبو پھیلانی شروع کی، اسلام کی تشریح کے لیے کتابیں لکھنا شروع کیں، اور سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی تفہیم جدید فکری انداز میں پیش کرنا شروع کی۔ مولانا نے قرآن مجید کی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کے نام سے پیش کی۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا کی فکر میں وہ گیرائی اور بیان میں وہ گہرائی عطا فرمائی ہے کہ مولانا کی کتابیں عوام اور خواص ہر طبقے میں مقبول ہیں۔ ان کتابوں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان ترجموں کو بھی ان زبانوں میں قبولیتِ عامہ حاصل ہو رہی ہے اور اسلامی فکر کی اشاعت ہورہی ہے۔
مولانا مودودیؒ نے اپنے وسیع مطالعہ کی داستان کہیں بیان نہیں کی تھی۔ تیس سال کی طویل مدت کے بعد جب تفہیم القرآن تکمیل کو پہنچی تو اس سلسلے میں کئی تقریبات منعقد ہوئی تھیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں مولانا مودودیؒ نے اپنے مطالعہ کی وسعت کو بیان کیا تھا (15 جولائی 1972ئ)، وہ فرماتے ہیں:
’’اس موقع پر میں مختصر طور پر آپ کو یہ بتائوں گا کہ تفہیم القرآن میں اور اپنی دوسری کتابوں میں مَیں نے جو طرز استدلال اسلام کو حق ثابت کرنے اور توحید اور رسالت اور وحی اور آخرت اور اسلام کے اخلاقی و تمدنی اصولوں کو برحق ثابت کرنے کے لیے اختیار کیا ہے، وہ دراصل میری ان تحقیقات کا نتیجہ ہے جو میں نے اپنی زندگی میں ہوش سنبھالنے کے بعد شروع کیں۔ اگرچہ میں ایک دیندار گھرانہ میں پیدا ہوا تھا۔ میرے والد مرحوم اور میری والدہ مرحومہ دونوں نہایت دیندار تھے اور میں نے اُن سے پوری مذہبی تربیت پائی تھی۔ لیکن جب میں ہوشیار ہوا اور جوانی کی عمر میں داخل ہوا، تو میرا طرز فکر یہ تھا کہ کیا میں صرف اسی وجہ سے مسلمان ہوں کہ مسلمان کا بیٹا ہوں؟ اگر اس وجہ سے میرا مسلمان ہونا برحق ہے تو اس وجہ سے پھر ایک عیسائی کا بھی جو عیسائی گھر میں پیدا ہوا ہے، عیسائی ہونا برحق ہوگا۔ اور ایک ہندو کا بھی جو ہندو کے گھر میں پیدا ہوا ہے، ہندو ہونا برحق ہوگا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے خود تحقیق کرکے معلوم کرنا چاہیے کہ حق فی الواقع کیا ہے۔ اس حالت میں مَیں نے اپنے فیصلے کو معطل رکھا۔ میں دہریہ یا ملحد نہیں ہوگیا بلکہ میں نے اپنے فیصلے کو صرف معطل رکھا اور تحقیقات کرنے کی کوشش کی۔
اس سلسلے میں مَیں نے ویدوں کے تراجم لفظ بہ لفظ پڑھے۔ گیتا لفظ بہ لفظ پڑھی۔ ہندو مذہب کے فلسفے اور ہندو مذہب کی تاریخ اور ہندو شاستروں کو پڑھا۔
بدھ مذہب کی اصل کتابیں جو انگریزی میں ترجمہ ہوئی ہیں ان کو پڑھا۔ اس طرح بائبل پوری کی پوری پڑھی اور پادری ڈومیلو کی تفسیر کی مدد سے پڑھی، تاکہ یہ نہ ہو کہ میں کوئی متعصبانہ مطالعہ کروں، بلکہ میں نے اپنے دماغ سے ہر تعصب کو نکال کر ان چیزوں کو پڑھا تاکہ تحقیق کروں کہ حق کیا ہے۔ عیسائیت اور یہودی مذہب دونوں کے متعلق میں نے وسیع معلومات فراہم کیں اور خود عیسائیوں اور یہودیوں کی اپنی لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھا۔ تلمود کے جتنے بھی حصے مجھے مل سکے، میں نے وہ سب پڑھے۔
پھر میں نے دہریوں اور ملحدوں اور مادہ پرستوں کے فلسفے پڑھے، اور جن لوگوں نے سائنس کے نام سے دنیا میں الحاد اور دہریت پھیلائی ہے ان کو پڑھا، نہ صرف ان کو پڑھا بلکہ جن مغربی مفکرین کے پیچھے مغربی دنیا چل رہی ہے، ان کے شخصی حالات میں نے پڑھے، تاکہ یہ معلوم کروں کہ یہ لوگ سلیم الطبع (Sane) اور ہوشمند (Sober) تھے بھی یا نہیں۔ کیونکہ ایک انسان بسا اوقات بڑے دلائل کے ساتھ ایک نظریہ پیش کرتا ہے مگر اس کا کردار بتاتا ہے کہ اس کا ذہن متوازن نہیں ہے۔ اس لیے میں نے ان کے خیالات پڑھنے کے ساتھ ان کی سوانح عمریاں بھی پڑھیں تاکہ معلوم کروں کہ فی الواقع وہ انسانیت کے قابل اعتماد راہبر ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
اس سارے مطالعہ کے بعد میں نے پھر قرآن مجید کو بغور پڑھا۔ کیونکہ بچپن سے میری تعلیم عربی کی تھی، اس وجہ سے مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی کہ میں ترجموں کی مدد سے اس کو پڑھتا۔ میں براہِ راست قرآن کو سمجھ سکتا تھا اور میں نے بارہا اچھی طرح سمجھ کر اسے پڑھا۔ اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر اصل ماخذ کا مطالعہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کو جاننے کے لیے حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ اس تفصیلی مطالعہ اور غور وخوض کے بعد میں اس نتیجے پرپہنچا کہ:
اس سے زیادہ معقول اور اس سے زیادہ مدلل مذہب کوئی نہیں ہے جسے قرآن مجید پیش کرتا ہے۔
اور اس سے زیادہ مکمل رہنماکوئی نہیں جیسے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اور انسانی زندگی کے لیے اس سے زیادہ مفصل اور صحیح پروگرام کہیں نہیں پیش کیا گیا جیسا کہ قرآن و حدیث میں پیش کیا گیا ہے۔
پس میں محض دین آبائی ہونے کی وجہ سے اسلام کا معتقد نہیں ہوا بلکہ اپنی تحقیق سے خوب جانچ پڑتال کرکے میں اس دین پر ایمان لایا ہوں۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تفہیم القرآن میں جہاں جہاں بھی عقائد اور ایمانیات اور احکام کے متعلق قرآن مجید کی آیات کی تفسیر کرتا ہوں وہاں معقول طریقے سے ان کی حقانیت دلائل کے ساتھ ثابت کرتا ہوں۔ یہ وہی دلائل ہیں جن سے درحقیقت میں اسلام کی حقانیت کا قائل ہوا، جن سے میں توحید کا قائل ہوا، جن سے میں رسالت کا قائل ہوا، جن سے میں وحی کا قائل ہوا، جن سے میں اسلام کے ایک مکمل نظام زندگی ہونے کا قائل ہوا، جن سے میں اس بات کا قائل ہوا کہ اسلام ہر زمانے کے لیے انسان کی بہترین رہنمائی ہے۔ یہی وہ بات ہے جسے میں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ میں دراصل ایک نومسلم ہوں، محض نسلی مسلمان نہیں ہوں۔
اس مطالعہ و تحقیق کے ثمرات میں جن کی مدد سے میں ایک مدت تک خلقِ خدا کو اسلام سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ دین پوری طرح لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا جب تک کہ براہِ راست قرآن کے ذریعہ سے اسے نہ سمجھا جائے۔ میری دلی خواہش تھی کہ تفہیم القرآن کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور حدیث کا ایک مجموعہ مع شرح مرتب کروں تاکہ فہم دین میں کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ مگر تیس سال اس پہلے ہی کام میں گزر گئے اور اب کوئی محنت طلب کام کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں رہی۔‘‘
(آئین: تفہیم القرآن نمبر15 دسمبر 1972ئ)
اس خطاب میںمولانا مودودیؒ نے اپنے مطالعہ کی تفصیل اور وسعت بیان کی ہے۔ بعض دوسرے مقامات پر صرف مدتِ مطالعہ کا ذکر کیا ہے۔
رسالہ مسلم دہلی بند [1923ء ] ہو جانے کے بعد مولانا اپنے بڑے بھائی ابو محمد مودودی کے پاس بھوپال چلے گئے۔ وہاں کے قیام کے متعلق مولانا لکھتے ہیں:
’’ڈیڑھ سال تک سوائے خالص مطالعہ کے دیگر مشاغل ترک کر دیئے۔ ڈیڑھ سال میں نے بالکل پڑھنے سوچنے کے لیے وقف کردیا۔ علوم قدیم و جدید کے جتنے ذخائر تک میری رسائی ممکن تھی، میں نے ان سے استفادہ کرنے میں کوتاہی نہیں کی۔ غور وفکر اور مطالعہ کو میں نے اس شدت اور تسلسل سے جاری رکھا کہ آخر کار میرے اعصاب پر تکان کے آثار ہویدا ہونے شروع ہو گئے۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر مدت ِمطالعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ’’جب میں نے اخبار الجمیعتہ دہلی سے علیحدگی اختیار کر لی [1928ء ] تو مزید پانچ سال صرف مطالعہ اور لکھنے پڑھنے اور اپنی علمی استعداد بڑھانے میں صرف کیے‘‘۔ اس مدت میں مولانا نے منقولات کی تعلیم کاندھلوی بزرگ سے حاصل کی اور معقول کی تعلیم مولانا عبدالسلام نیازی خیر آبادی سے حاصل کی۔
مدتِ مطالعہ کا ایک اور مقام پر ذکر کیا ہے۔ پاکستان میں بیس ماہ کی پہلی گرفتاری کے بعد جب رہائی ملی [27مئی 1950ء ] تو ایک تقریر میں مولانا مودودیؒ نے فرمایا:
’’میں نے اپنی 47 سالہ عمر میں تقریباً دو تہائی حصہ مطالعہ اور تحقیق میں اور غور وفکر میں صرف کیا ہے۔ اس تیس سال کی مدت میں پڑھ کر، سن کر، سوچ کر، سمجھ کر، مشاہدہ اور تجربہ کرکے میرے ذہن کا ایک خاص سانچہ بن چکا ہے اور میری زندگی کا ایک نصب العین قرار پا چکا ہے۔ میں اس پر پورے اطمینانِ قلب سے ایمان لایا ہوں۔ کوئی مجھے یہاں سے ہلا نہیں سکتا۔‘‘
وسعت ِمطالعہ کا ذکر مولانا مودودیؒ نے اس طرح کیا ہے:
’’جاہلیت کے زمانے میں مَیں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اتار چکا ہوں، مگر جب آنکھ کھول

کر قرآن کو پڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھاسب ہیچ تھا۔ علم کی جڑ تو اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل، نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں۔ بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھاتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کر ڈالیں، پھر بھی حل نہ کر سکے، ان کو اس کتاب نے ایک دو فقروں میں حل کرکے رکھ دیا۔ میری محسن بس یہی کتاب ہے۔ اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔ حیوان سے انسان بنا دیا۔ تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی۔ ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملہ کی طرف نظر ڈالتا ہوں حقیقت اس طرح برملا دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر پردہ نہیں ہے۔ انگریزی میں ایسی کنجی کو شاہِ کلید (Master Key)) کہتے ہیں جس سے ہر قفل کھل جائے۔ سو میرے لیے یہ قرآن مجید شاہِ کلید ہے۔ مسائلِ حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں، کھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے، اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔‘‘
[محمد عمران ندوی: میری محسن کتابیں]
اس بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ اس مقام پر پہنچتے پہنچتے مولانا مودودیؒ قرآن کی روشنی میں علوم کی چوٹی پر پہنچ چکے تھے۔ ان کی نظر آفاقی ہو گئی تھی۔ دنیا کے مفکرین اور دانشور ان کو بچے اور بونے نظر آتے تھے۔ علم و فضل کی دنیا میں اس سے بلند کوئی مرتبہ نہیں۔ فکری بلندی سے عملی میدان میں قدم رکھنے کے لیے بس ایک ہی قدم کی ضرورت تھی۔ سو وہ بھی ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ لکھتے وقت مصنف کو حاصل ہو گیا تھا۔ اس کتاب کے آغاز میں وہ لکھتے ہیں:
’’اس کتاب (الجہاد فی الاسلام) نے سب سے زیادہ فائدہ خود مجھے پہنچایا ہے۔ میں نے جب اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ کیا تھا تو میرے اندر دینی حمیت سے زیادہ قومی حمیت کا جذبہ کام کررہا تھا، لیکن تالیف اور تحقیق کے دوران جب مجھے ایک ترتیب کے ساتھ اسلام کے اساسی نظریات اور اس کے تفصیلی احکامات کا غور سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھ میں نہ صرف نظام شریعت کا فہم اور اس کی حقانیت کا غیر متزلزل یقین ابھر آیا بلکہ اس نظام کے احیاء کا ولولہ بھی مجھ میں پیدا ہو گیا اور اس کے لیے کام کرنے کا طریقہ بھی میری سمجھ میں آ گیا… اس کے بعد میں نے اخبار نویسی کے مروج اور پامال راستے کو خیر باد کہنے کی ٹھان لی، ’’الجمعیت‘‘ سے علیحدگی اختیار کر لی اور یہ طے کیا کہ صحافت کی دنیا میں اگر قدم رکھوں گا تو صرف اس شرط پر کہ اسے دینِ حق کی خدمت کا ایک ذریعہ بنائوں۔ اس کے بعد مزید پانچ سال تک پھر صرف مطالعے، لکھنے پڑھنے اور اپنی علمی استعداد بڑھانے کا کام کرتا رہا۔
( آئین، تفہیم القرآن نمبردسمبر 1972۔ ص 183)

نماز میں خشوع کی تدبیر

نماز میں خشوع کی تدبیر

خرم مراد

Oپانچ وقت کی نماز ہم سب پڑھتے ہیں لیکن روزانہ پانچ دفعہ اس نہر میں غسل کرنے کے باوجود بالعموم ہماری روحانی اور اخلاقی گندگیاں ویسی کی ویسی ہی رہ جاتی ہیں جیسی غسل سے پہلے تھیں اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور بات چیت کرنے اور ان کے سامنے اپنی فقیری اور محتاجی، شکر، محبت اور عجز و تذلل کے اظہار کے باوجود ہمیں اس سے کچھ تقرب حاصل نہیں ہوتا۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے! حالانکہ نماز خود ہی تقرب ہے اور قربِ الٰہی کے حصول کا یقینی نسخہ۔ اس صورتِ حال کا بدلنا ضروری ہے۔ جب محنت بھی لگ رہی ہے، وقت بھی لگ رہا ہے تو اس سے نفع کیوں نہ ہو۔ اس نفع کے لیے اس سے زیادہ کچھ کرنا بھی ضروری نہیں کہ اقامت الصلوٰۃ کی ظاہری شرائط… صحیح وقت، تعدیل ارکان اور جماعت کی پابندی کے ساتھ ساتھ جو بالکل آپ کے اختیار میں ہے، ہر نماز میں خشوع کے حصول کی کوشش بھی کریں۔ یعنی نماز کو ایک بے روح رسم کے بجائے اپنے رب سے ملاقات اور گفتگو میں بدلنے کی کوشش کریں۔ یہ کوشش بھی ہمارے اختیار میں ہے۔ اس کے لیے نہ وقت درکار ہے، نہ محنت، نہ طویل نماز، نہ کوئی اضافی عمل… صرف توجہ درکار ہے۔ توجہ بھی خیالات کو بہکنے اور دل کو وسوسوں سے بچانے پر لگانے کی ضرورت نہیں، بلکہ ایک یا ایک سے زیادہ درج ذیل چیزوںپر توجہ مرکوز کرنا بھی کافی ہوسکتا ہے:
٭ جو لفظ یا کلمہ زبان سے کہیں، اس کے معنی ساتھ ساتھ دل میں دُہرائیں۔
٭اللہ میرے سامنے ہیں۔ جو میں کہہ رہا ہوں یا کررہا ہوں، اسے وہ سن رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں۔
٭ اپنی غلامی، تذلل اور عاجزی کی جسمانی وضع پر نگاہ اور تصور جما دیں کہ اللہ تعالیٰ میری اس وضع کو دیکھ رہے ہیں۔
٭ میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور بات چیت کررہا ہوں۔
٭ یہ میری آخری نماز ہوسکتی ہے۔
٭ میری یہ نماز آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کی جائے گی، اپنے اعتبار سے کوئی ایسی چیز نہ کروں کہ یہ قبول نہ ہو۔
خشوع کے حصول کی جو ترکیب قرآن نے بتائی ہے وہ یہی ہے کہ دل کو دھڑکا لگا رہے کہ اپنے رب سے ملاقات کرنا ہے اور اسی کے پاس واپس جانا ہے۔
آنے والی نماز ہی سے آپ خشوع پیدا کرنے کے لیے ان تدابیر پر عمل شروع کردیں اور پھر ان پر برابر عمل کرتے رہیں تو انشاء اللہ نماز سے آپ کو مطلوبہ زادِ راہ ملنا شروع ہوجائے۔

مصر سیکولر قوتوں کی وحشت و درندگی

مصر سیکولر قوتوں کی وحشت و درندگی

سید وجہیہ حسن

مصر کا بحران سنگین تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ 14 اگست کے دن اخوان کے احتجاجی دھرنا کیمپوں پر فوجی حملے اور قتل عام کے بعد جنرل السیسی کی حکومت کو ہر طرف سے ہی تنقید کا سامنا ہے۔ اس قتلِ عام کے بعد عام خیال یہی تھا کہ اخوان اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کریں گے اور ممکن ہے اس کے نتیجے میں جنرل السیسی کے فوجی اقتدار کے ساتھ کسی شراکت کے فارمولے پر بات آگے بڑھے۔ لیکن فوج کی طرف سے روا رکھے جانے والے ظلم و جبر کے باوجود اخوان کے مؤقف میں تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیئے ہیں۔ پچھلا پورا ہفتہ اس حال میں گزرا ہے کہ فوج کی طرف سے کرفیو اور ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے باوجود اخوان کے کارکنان اور حامیوں نے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے ہیں اور فوجی حکومت سے اپنی بیزاری کا اعلان کیا ہے۔ فوجی حکومت کا ظلم و ستم بھی اپنے عروج پر ہے۔ اب تک حکومتی تشدد کے نتیجے میں 3 سے 4 ہزار مصری شہید ہوچکے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں‘ جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہیں۔ اخوان کے مرشدِ عام محمد بدیع گرفتار کرکے نظربند کردیے گئے ہیں‘ جبکہ دیگر اہم رہنمائوں سمیت ہزاروں افراد گرفتار ہیں۔ گرفتار افراد پر بہیمانہ تشدد اور دورانِ حراست گرفتار افراد کے قتل کی خبریں اخباروں کی زینت بن رہی ہیں۔ دوسری طرف فوجی جنتا اخوان المسلمون اور اس کے سیاسی ونگ ’’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘‘ پر پابندی عائد کرنے کے متعلق غور و خوض کررہی ہے۔ ایسی صورت حال میں مصری عوام کا مستقبل اخوان المسلمون کی جدوجہد کے نتائج سے براہِ راست وابستہ ہوگیا ہے۔ اخوان کی کامیابی کا مطلب ملک میں جمہوریت کا فروغ‘ اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کی بحالی ہوگا، جب کہ خدانخواستہ جنرل السیسی کی اخوان المسلمون کو کچل دینے کی حکمت عملی کی کامیابی کا نتیجہ حسنی مبارک دور کی واپسی ہوگا۔ حسنی مبارک کے وکیل نے دو دن قبل ہی بیان دیا ہے کہ حسنی مبارک جلد ہی رہا کردیئے جائیں گے۔ ایسے میں مصر میں ملٹری ڈکٹیٹر شپ کی واپسی کے آثار گہرے ہوتے نظر آرہے ہیں۔
صدر مرسی کی حکومت کا خاتمہ دراصل مصری فوج‘ خلیجی ریاستوں‘ امریکہ اور مصر کے لبرل عناصر کی مشترکہ سازش کا مرہونِ منت تھا۔ مصری فوج تو دیگر مسلم ممالک کی افواج کی طرح اقتدار اور ڈالروں کی حرص میں مبتلا اور اسلام سے الرجک ہے۔ اخوان کے برسراقتدار آنے کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مصری فوج کو نہ صرف اپنے لامحدود اختیارات میں عوام کو شریک کرنا پڑے گابلکہ اس کی شاہ خرچیاں بھی جاری نہ رہ سکیں گی۔ چنانچہ جوں ہی امریکہ اور خلیجی ممالک کی طرف سے گرین سگنل ملا، اس نے مصر کے لبرل عناصر کو مجتمع کرنا شروع کردیا۔
مصر کے لبرل عناصر قبطی عیسائیوں‘ شیعہ فرقہ اور لبرل اشرافیہ پر مشتمل ہیں۔ یہ تینوں کسی نہ کسی طرح حسنی مبارک کے اقتدار سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ چنانچہ امریکی آشیرباد اور ڈالروں کی مدد سے ان سب کو یکجا کرنا مشکل نہ تھا۔ ان کے ساتھ پروپیگنڈہ کے لیے مصری میڈیا مشین موجود تھی۔ چنانچہ ’’تمرد‘‘(Tamarrod) تحریک وجود میں آگئی، اور عوامی مظاہروں اور قرارداد کے ذریعے جنرل السیسی سے اپیل کی گئی کہ وہ ملک کی بقاء اور جمہوریت کے فروغ کی خاطر صدر مرسی کی منتخب حکومت کو برطرف کرکے اقتدار سنبھال لیں۔
خلیجی ریاستوں میں سعودی حکمرانوں کے پاس یہ سنہری موقع موجود تھا کہ وہ مصر کی 60 سالہ تاریخ کی پہلی منتخب حکومت کا ساتھ دیتے اور پوری عرب دنیا میں مقبول اخوان المسلمون کے محسن بن جاتے۔ لیکن سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں نے اخوان کی مقبولیت کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے مصری فوج کو ایک بار پھر مصری عوام پر مسلط کرنے میں مدد دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ ان ریاستوں ہی کا اثر و رسوخ تھا کہ مصر کی سیاست میں موجود دوسری مقبول ترین پارٹی (نور پارٹی)جو سلفی نظریات کی حامل ہے، اس نے اخوان کو دھوکا دیتے ہوئے لبرلز‘ امریکہ اور فوجی جنرلوں کا ساتھ دیا۔ یہی حال جامعہ الازہر کا تھا۔ ایک لکھنے والے نے لکھا ہے کہ نور پارٹی اور جامعہ الازہر کا جرنیلوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ دراصل مصر کے مذہبی طبقات کو اخوان کی متوقع جدوجہد سے دور رکھنے کی شعوری کوشش تھی۔ سعودی حکمران تو اخوان کی مخالفت میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ انہوں نے مصری افواج کی طرف سے اخوان کے حامیوں کے قتل عام اور تشدد کو ’’دہشت گردی اور شدت پسندی‘‘ کے خلاف لائقِ تحسین اقدام قرار دے دیا۔
صدر مرسی کی حکومت کا خاتمہ تو بلاشبہ مصری فوج‘مصر کے لبرل عناصر‘ خلیجی عرب ریاستوں اور امریکہ کا مشترکہ ہدف تھا، لیکن فوج کے اقتدار میں آجانے کے بعد اب ان سب کے اہداف مختلف نظر آتے ہیں۔
امریکہ مشرق وسطیٰ کے لیے اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے۔ ’’عرب بہار‘‘ کی پذیرائی کے پیچھے واضح امریکی مقاصد ہیں۔ لیکن ان مقاصد کی راہ میں اخوان المسلمون کی مقبولیت رکاوٹ ہے۔ امریکہ نے اس کا حل ’’سول وار‘‘ کی شکل میں ڈھونڈا ہے۔ چنانچہ لیبیا ہو یا شام… امریکہ کو غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان دونوں ممالک میں امریکہ‘ اقوام متحدہ کے ذریعہ فوری انتخابات کا مطالبہ کرسکتا تھا جو عوام کا مطالبہ تھا۔ لیکن اس کے برعکس امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ذریعہ ان دونوں ممالک میں اپوزیشن کے ہاتھ میں ہتھیار تھما دیے ہیں۔ کیوں؟ جواب واضح ہے، انتخابات کے نتیجے میں اخوان یا کوئی اور مذہبی گروہ ہی برسراقتدار آئے گا۔ چنانچہ ان دونوں ممالک کی حکومتیں مسلح باغیوں سے لڑنے کے لیے ہر طرح کا اسلحہ استعمال کررہی ہیں اور امریکی سینیٹر جان مکین مسلح باغیوں سے خفیہ ملاقاتیں کررہے ہیں۔ یوں دو اہم مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بج رہی ہے۔ امریکہ مصر میں بھی ایسی ہی ’’سول وار‘‘ کا خواہشمند ہے۔ لیکن یہ اخوان کی دانشمندی ہے جس نے ابھی تک یہ صورت حال پیدا نہیں ہونے دی ہے۔
خلیجی ریاستیں ’’اسٹیٹس کو‘‘ چاہتی ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ جنوری 2011 ء سے پہلے والا مصر واپس آجائے۔ یعنی حسنی مبارک یا اس کے کسی جانشین کی آمریت ایک بار پھر طویل عرصہ کے لیے مصر پر مسلط ہوجائے۔ کیونکہ اگر اخوان کی عوامی اسلامی حکومت کا تجربہ مصر میں کامیاب ہوگیا تو پھر اس تجربے کو دیگر ملکوں کے عوام میںبھی پذیرائی ملے گی اور کئی دہائیوں پر مشتمل چودھراہٹ کا نظام خطرے میں پڑجائے گا۔
مصر کے لبرل عناصر اب یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ مصر ایک بار پھر فوجی آمریت کی طرف جارہا ہے۔ چنانچہ ان کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ جنرل السیسی اپنے چنیدہ کچھ افراد کے ذریعے آئین نہ تشکیل دیں بلکہ اس کے لیے غیر متنازع افراد کو ذمہ داری دی جائے۔ پھر انہیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ حسنی مبارک دور کے فوجی جرنیلوں کو مصر کے مختلف صوبوں کا گورنرنامزد کردیا گیا ہے۔
ایسے میں اصل امتحان اخوان المسلمون کی قیادت کی سیاسی بصیرت اور وسیع القلبی کا ہے۔ اخوان کی قربانیوں نے بلاشبہ ان کے سیاسی مخالفین کے دل میں بھی ان کے لیے نرم گوشہ پیدا کردیا ہے۔ اخوان اس موقع پر ا پنے مخالفین کے ساتھ کسی کم از کم مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہوکر ایک نئی مشترکہ جدوجہد شروع کرسکتے ہیں۔ ایک ایسی جدوجہد جو مصر کی موجودہ ’’فوج بمقابلہ اخوان المسلمون‘‘ کشمکش کو ’’بمقابلہ مصری عوام‘‘ جدوجہد میں تبدیل کردے۔
بلاشبہ مصر میں اخوان کی جدوجہد نے پورے مشرق وسطیٰ میں امکانات کے نئے در کھول دیے ہیں۔ مصر میں تبدیلی مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی بنیاد ہوگی۔ اسی طرح مصر میں ڈکٹیٹرشپ کی واپسی کے اثرات بھی پورے مشرق وسطیٰ پر مرتب ہوں گے۔

خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں ہے؟

خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں ہے؟

…شاہنواز فاروقی…

ایک وقت تھا کہ خاندان ایک مذہبی کائنات تھا۔ ایک تہذیبی واردات تھا۔ محبت کا قلعہ تھا۔ نفسیاتی حصار تھا۔ جذباتی اور سماجی زندگی کی ڈھال تھا… ایک وقت یہ ہے کہ خاندان افراد کا مجموعہ ہے۔ چنانچہ جون ایلیا نے شکایت کی ہے   ؎
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
ٹوکنے کا عمل اپنی نہاد میں ایک منفی عمل ہے۔ مگر آدمی کسی کو ٹوکتا بھی اسی وقت ہے جب اُس سے اس کا ’’تعلق‘‘ ہوتا ہے۔ جون ایلیا کی شکایت یہ ہے کہ اب خاندان سے ٹوکنے کا عمل بھی رخصت ہوگیا ہے۔ یہی خاندان کے افراد کا مجموعہ بن جانے کا عمل ہے۔ لیکن خاندان کا یہ ’’نمونہ‘‘ بھی بڑی نعمت ہے۔ اس لیے کہ بہت سی صورتوں میں اب خاندان افراد کا مجموعہ بھی نہیں رہا۔ اسی لیے شاعر نے شکایت کی ہے   ؎
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
بعض لوگ اس طرح کی باتوں کو مشترکہ خاندانی نظام کے ٹوٹ جانے کا سانحہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام مشترکہ خاندانی نظام پر نہیں صرف خاندان پر اصرار کرتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے تو اپنی خرابیوں کی وجہ سے ٹوٹ رہا ہے اور اسے ٹوٹ ہی جانا چاہیے۔ اور اب اگر لوگ الگ گھر بناکر رہ رہے ہیں تو اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے! لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اب کوئی کہیں، کوئی کہیں رہتا ہے، بلکہ  یہ ہے کہ جو جہاں بھی رہتا ہے محبت کے ساتھ دوسرے سے نہیں ملنا چاہتا۔ ایک وقت تھا کہ لوگ کسی ضرورت کے تحت خاندان سے سیکڑوں بلکہ ہزاروں میل دور جاکر آباد ہوجاتے تھے، مگر یہ فاصلہ صرف جغرافیائی ہوتا تھا… نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی نہیں ہوتا تھا۔ اب لوگ ایک گھر میں رہتے ہیں تو ان کے درمیان ہزاروں میل کا نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی فاصلہ ہوتا ہے… اور یہی فاصلہ اصل خرابی ہے، یہی فاصلہ خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کی علامت ہے، یہی ہمارے عہد کا ایک بڑا انسانی المیہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس المیے کی وجہ کیا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خاندان اپنی اصل میں ایک مذہبی تصور ہے۔ کائناتی سطح کے مفہوم میں مرد اللہ تعالیٰ کی ذات اور عورت اللہ تعالیٰ کی صفت کا مظہر ہے، چنانچہ شادی کا ادارہ ذات اور صفت کے وصال کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شادی کی غیرمعمولی اہمیت ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو نصف دین کہا ہے۔ مرد اور عورت کے تعلق کی اسی نوعیت کی وجہ سے اسلام طلاق کو سخت ناپسند کرتا ہے، کیونکہ اس سے انسانی سطح پر ذات اور صفت میں علیحدگی ہوجاتی ہے۔ لیکن مرد اور عورت کے اس تعلق کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسی ذات نے انسانوں کو ’’جوڑے‘‘ کی صورت میں پیدا کیا۔ اسی ذات نے زوجین کے درمیان محبت پیدا کی۔ اسی ذات نے بچوں کی پیدائش کو عظیم نعمت اور رحمت میں تبدیل کیا اور اسی ذات نے بچوں کی پرورش پر بے پناہ اجر رکھا۔ مذہبی معاشروں میں خاندان کا یہ تصور انسانوں کے شعور میں پوری طرح راسخ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا ادارہ لاکھوں یا ہزاروں سال کا سفر طے کرنے کے باوجود بھی نہ صرف یہ کہ باقی اور مستحکم رہا بلکہ اس میں کروڑوں انسان ایک حسن و جمال اور ایک گہری رغبت بھی محسوس کرتے رہے۔ لیکن جیسے ہی خدا انسانوں کے باہمی تعلق سے غائب ہوا خاندان کا ادارہ اضمحلال، انتشار اور انہدام کا شکار ہوگیا۔
مذہب کی وجہ سے خاندان کے ادارے کی ایک تقدیس تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ تھا۔ اس میں کائناتی سطح کی معنویت تھی جس کا کچھ نہ کچھ ابلاغ بہت کم پڑھے لکھے لوگوں تک بھی کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا تھا۔ مذہبی بنیادوں کی وجہ سے خاندان میں ایک برکت تھی اور اس کے ساتھ اجروثواب کے درجنوں تصورات وابستہ تھے۔ لیکن خدا کے تصور کے منہا ہوتے ہی اور مذہب سے رشتہ توڑتے ہی خاندان اچانک صرف ایک حیاتیاتی، سماجی اور معاشی حقیقت بن گیا۔ یعنی انسان محسوس کرنے لگے کہ خاندان انسانی نسل کی بقا اور تسلسل کے لیے ضروری ہے۔ خاندان نہیں ہوگا تو انسانی نسل فنا ہوجائے گی۔ خاندان کے خالص حیاتیاتی تصور نے مرد اور عورت کے باہمی تعلق کو صرف جسمانی تعلق تک محدود کردیا۔ اس تعلق کی اہمیت تو بہت تھی مگر اس میں معنی کا فقدان تھا، اور اس سے کوئی تقدیس وابستہ نہ تھی۔ خدا اور مذہب سے بے نیاز ہوتے ہی انسان کو محسوس ہونے لگا کہ خاندان صرف ہماری سماجی ضرورت ہے۔ انسان ایسی حالت میں پیدا ہوتا ہے کہ اسے طویل عرصے تک ماں باپ اور دوسرے خاندانی رشتوں کی ’’ضرورت‘‘ ہوتی ہے، لیکن ضرورت ایک ’’مجبوری‘‘ اور ایک ’’جبر‘‘ ہے اور اس کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ چنانچہ مغربی دنیا میں کروڑوں انسانوں نے اس مجبوری اور جبر کے طوق کو گلے سے اتار پھینکا۔ انسان صرف سماجی نفسیات کا اسیر ہوجاتا ہے تو اس سے ’’معاشی ضرورت‘‘ کے نمودار ہونے میں دیر نہیں لگتی، اور معاشی ضرورت دیکھتے ہی دیکھتے سماجی ضرورت کو بھی ’’ثانوی ضرورت‘‘ بنادیتی ہے۔ خاندان کے ادارے کے حوالے سے یہی ہوا۔ خاندان کے سماجی ضرورت ہونے کے تصور سے معاشی ضرورت کا تصور نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے خاندان کے ادارے کے تشخص کا نمایاں ترین پہلو بن گیا۔
خاندان کے ادارے کے حوالے سے خدا اور مذہب کے بعد سب سے زیادہ اہمیت محبت کے تصور کو حاصل ہے۔ محبت انسانی زندگی میں کتنی اہم ہے اس کا اظہار میر تقی میرؔ نے اس سطح پر کیا ہے جس سے بلند سطح کا تصور ذرا مشکل ہے۔ میرؔ نے کہا ہے  ؎
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
میرؔ نے اس شعر میں محبت کو پوری کائنات کی تخلیق کا سبب قرار دیا ہے۔ محبت نہ ہوتی تو یہ کائنات ہی وجود میں نہ آتی۔ محبت کے حوالے سے میرؔ کا ایک اور شعر بے مثال ہے۔ انہوں نے کہا ہے   ؎
محبت مسبّب محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
محبت کے ’’کارِ عجب‘‘ کرنے کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف کائنات ہوتا ہے، لیکن محبت شادی کی صورت میں دو کائناتوں کو اس طرح ایک کردیتی ہے کہ ان کے درمیان کوئی تضاد اور کوئی کش مکش باقی نہیں رہتی۔ یہ عمل معجزے سے کم نہیں، مگر محبت نے اس معجزے کو تاریخ و تہذیب کے سفر میں اتنا عام کیا ہے کہ یہ معجزہ کسی کو معجزہ ہی نظر نہیں آتا۔ بچوں کو پالنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اس میں ماں باپ کی شخصیت کی اس طرح نفی ہوتی ہے کہ اس کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں۔ بچوں کی پرورش ماں باپ کی نیندیں حرام کردیتی ہے، ان کا آرام چھین لیتی ہے، ان کی ترجیحات کو تبدیل کردیتی ہے۔ لیکن ماں باپ کی محبت ہر قربانی کو سہل کردیتی ہے۔ ماں باپ کے دل میں بچوں کے لیے محبت نہ ہو تو وہ بچوں کو پالنے سے انکار کردیں، یا ان کو ہلاک کر ڈالیں۔ لیکن محبت، بے پناہ مشقت کو بھی خوشگوار بنادیتی ہے اور انسان کو تکلیف میں بھی ’’راحت‘‘ محسوس ہونے لگتی ہے، پریشانی بھی بھلی معلوم ہوتی ہے، قربانی میں بھی بے پناہ لطف کا احساس ہوتا ہے۔ بچوں کو ماں باپ کی محبت کا جو تجربہ ہوتا ہے وہ ان کی شخصیت کو ایسا بنادیتا ہے کہ جب ماں باپ بوڑھے ہوجاتے ہیں تو اکثر بچے اسے لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ محبت ہی ہے جو بچوں ہی نہیں بڑوں کو بھی اس لائق بناتی ہے کہ وہ اپنے وقت، خوشیوں اور وسائل میں دوسروں کو شریک کریں۔ لیکن مغرب میں انسان خدا اور مذہب سے دور ہوا تو اس کے دل میں محبت کا کال پڑگیا، اور محبت کے قحط نے والدین کے لیے بچوں اور بچوں کے لیے والدین کو بوجھ بنا دیا۔ یہاں تک کہ شوہر اور بیوی بھی ایک دوسرے کو ایک وقت کے بعد ’’اضافی‘‘ نظر آنے لگے۔ مغرب کا یہ ہولناک تجربہ اب مشرق میں بھی عام ہے، یہاں تک کہ اسلامی معاشرے بھی اس سے محفوظ نہیں۔ اس سلسلے میں اسلامی اور غیر اسلامی معاشروں میں فرق یہ ہے کہ غیر اسلامی معاشروں میں خدا اور مذہب لوگوں کی زندگی سے یکسر خارج ہوچکے ہیں، جبکہ اسلامی معاشروں میں مذہب آج بھی اکثر لوگوں کے لیے ایک زندہ تجربہ ہے۔ البتہ جدید دنیا کے رجحانات کا دبائو اتنا شدید ہے کہ مسلم معاشروں میں بھی مذہب پیش منظر سے پس منظر میں چلا گیا ہے۔ چنانچہ مسلم معاشروں میں بھی خاندان کا ادارہ اضمحلال، انتشار اور انہدام کا شکار ہورہا ہے۔
مادی دنیا حقیقی خدا کے انکار تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے دولت کی صورت میں اپنا خدا پیدا کرکے دکھایا، اور وہ معاشرے جو کبھی ’’خدا مرکز‘‘ یا God Centric تھے وہ دولت مرکز یا Money Centric بنتے چلے گئے۔ ان معاشروں میں دولت ہر چیز کا نعم البدل بن گئی۔ اس نے حسب نسب کی صورت اختیار کرلی۔ وہی شرافت اور نجابت کا معیار ٹھیری۔ اسی سے علم و ہنر منسوب ہوگئے، اسی سے انسانوں کی اہمیت کا تعین ہونے لگا، اسی نے خوشی اور غم کی صورت اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ دولت ہی ’’تعلق‘‘ بن کر رہ گئی۔ دولت کی اس بالادستی اور مرکزیت نے معاشروں میں قیامت برپا کردی۔ مغرب کی تو بات ہی اور ہے، ہم نے اپنے معاشرے میں دیکھا ہے کہ والدین تک معاشی اعتبار سے کامیاب بچوں کو اپنے اُن بچوں پر ترجیح دینے لگتے ہیں جو معاشی اعتبار سے نسبتاً کم کامیاب ہوتے ہیں، خواہ معاشی اعتبار سے کمزور بچوں میں کیسی ہی انسانی خوبیاں کیوں نہ ہوں۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں مشرق وسطیٰ جانے کا رجحان پیدا ہوا تو کروڑوں لوگ اپنے خاندانوں کو چھوڑ کر بہتر معاشی مستقبل کے لیے عرب ملکوں میں جا آباد ہوئے۔ یہ لوگ دس پندرہ اور بیس سال کے بعد لوٹے تو ان کے پاس دولت تو بہت تھی مگر وہ اپنے بچوں کے لیے تقریباً اجنبی تھے۔ یہاں تک کہ ان کی بیویوں اور ان کے درمیان بھی ’’نیم اجنبی‘‘ کا تعلق استوار ہوچکا تھا۔ انسانوں کی شخصیتوں کی جڑیں معاشیات میں اتنی گہری پیوست ہوئیں کہ ہم نے متوسط طبقے کے بہت سے بچوں کو یہ کہتے سنا کہ ہمیں ہمارے باپ نے دیا ہی کیا ہے؟ حالانکہ ان کے پاس شرافت کی دولت تھی، ایمان داری کا سرمایہ تھا، علم کی میراث تھی، تخلیقی رجحانات کا ورثہ تھا۔ لیکن انہیں ان میں سے کسی چیز کی موجودگی کا شعور نہ تھا، کسی چیز کی موجودگی کا احساس نہ تھا۔ انہیں شعور اور احساس تھا تو صرف اس چیز کا کہ ان کے پاس دولت نہیں ہے۔ کار اور کوٹھی نہیں ہے۔ بینک بیلنس نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ شادی بیاہ کے معاملات میں دولت تقریباً واحد معیار بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں مذہبی اور سیکولر کی کوئی تخصیص نہیں۔ دولت کے حمام میں سب ننگے ہیں۔ اس کے بعد بھی لوگ سوال کرتے ہیں کہ خاندان کا ادارہ کیوں کمزور پڑرہا ہے!

Monday 26 August 2013

اسلامی نظام تجارت و معیشت اور دور جدید کی معاشیات

اسلامی نظام تجارت و معیشت اور دور جدید کی معاشیات
 از:۔محمداحمد ترازی
 
زندگی میں تجارت اور معیشت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے،اچھی ومنافع بخش تجارت مضبوط اور مستحکم معیشت کو جنم دے کر ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنتی ہے،اسلام دین ِ کامل ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں رہبری ورہنمائی کیلئے جامع اصول وقواعد فراہم کرتا ہے،تجارت ومعیشت پر شارح اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شرح وبسیط کے ساتھ روشنی ڈالی،تاکہ اِس شعبے کوجھوٹ،دھوکہ دہی،ملاوٹ،جھوٹی قسمیں کھانے اور ذخیرہ اندوزی و منافع خوری جیسی تجارتی خرابیوں سے دور کیا جاسکے، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں”جو شخص (تاجر)خرید تا اور بیچتا ہے اُسے پانچ خصلتوں یعنی”سوداورقسم کھانا، مال کاعیب چھپانا، بیچتے وقت تعریف کرنااورخریدتے وقت عیب نکالنے“ سے دور ی اختیار کرنا چاہئے،ورنہ نہ وہ ہر گز خریدے اور نہ بیچے۔“اسلامی تعلیمات کی رُو سے جو شخص مسلمانوں کے بازار میں تجارتی کارو بار کرتا ہے اُس میںکچھ مشخص صفات و خصوصیات کا ہونا بہت ضروری ہے،یعنی اُس میں خرید و فروخت کی عقل موجود ہو اور وہ( صاحب ِتفقہ)خرید و فروخت کے احکام کا علم رکھتا ہو۔اسلام معیشت کے بارے میں یہ بنیادی تصورات فراہم کرتاہے کہ کسب و صَرف یعنی مال کا حاصل کرنا اور اُس کا خرچ کرنا اِس طورپر ہوکہ وہ افراد اور سماج کیلئے نفع بخش ہو،نقصان دہ نہ ہو، اسلام نے ایسی چیزوں کی تجارت سے منع کیا جو لوگوں کیلئے نقصان دہ ہو،جیسے نشہ آور منشیات وغیرہ۔اسلام تجارت میں احتکار سے منع کرتا ہے،اسی طرح خرچ کرنے میں بھی فرد اور سماج کے نفع و نقصان کو ملحوظ رکھا گیا ہے،فضول خرچی کی ممانعت اِس لیے کی گئی کہ اِس سے قومیں معاشی پسماندگی میں مبتلا ہوتی ہیں اور تعلیم و صحت اور دیگر معاشرتی مفید کاموں میں خرچ نہیں کرپاتی،جبکہ اسلام نے اِس بات کو بڑی اہمیت د ی کہ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے ، بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو کرگردش میں رہے ۔
 
دین اسلام میں نفع کا بھی ایک جائز فطری تصور موجود ہے اور نفع خوری کی مد میں سود کو حرام قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ ایک غیر فطری چیز ہے،خود پیسوں سے پیسے پیدا نہیں ہوسکتے،جبکہ سود خور یہ فرض کرکے نفع یعنی سود وصول کرتا ہے کہ اُس کے پیسوں سے لامحالہ پیسوں میں اضافہ ہوگا،اسی طرح اسلام میں انسانی محنت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے،فطری اصول یہ ہے کہ جب تک مال کے ساتھ انسانی محنت کی شمولیت نہ ہو،وہ منافع بخش نہیں ہوتا،اسی اصول پر اسلام میں استثمار کے طریقوں میں مضاربت اور مزارعت شامل ہے،مضاربت میں ایک شخص کا سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرے کی محنت اورمزارعت میں ایک شخص کی زمین ہوتی ہے اور دوسرے کی محنت،دونوں صورتوں میں یہ ضروری ہے کہ فریقین کی رضامندی ہو اور کہ محنت کار کے نفع کا تناسب زیادہ رکھا جائے۔ اسلام کے پورے نظام حیات میں اِس بات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ کوئی ایسا عمل نہیں ہونا چاہئے،جو فطرت سے بغاوت پر مبنی ہو،اِسی لیے تلقی جلب،بیع حاضر للبادی،تناجش اور احتکار وغیرہ کو منع کیا گیا، کیوں کہ اِن تمام صورتوں میں قیمتوں میں غیر فطری اتار چڑھاؤ پیدا کیا جاتا ہے، آج کل تشہیری وسائل اور ترغیبی اشتہارات کے ذریعہ مصنوعی طورپر چیزوں کی طلب بڑھائی جاتی ہے،یہ بھی اسلام کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں ہے،چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت میں جھوٹ بولنے اور دھوکہ دینے سے منع فرمایا ہے اور کسی چیز کے فائدہ کو مبالغہ کے ساتھ بیان کرنا اور اُس کے نقصانات کے پہلو پر پردہ ڈالنا بھی جھوٹ میں داخل ہے،جس کا زبردست مظاہرہ موجودہ دور کے اشتہارات میں ہمیں نظر آتا ہے۔
 
دنیا میں اسلام کے نظام معیشت کے مقابلے میں دو بڑے معاشی نظام وجود میں آئے،ایک اشترکیت دوسرا سرمایہ دارآنہ نظام۔اشتراکیت نے ستر سالہ تجربہ کے بعد اپنی ہی جائے پیدائش میں دم توڑدیا اور اگر آج کہیں باقی بھی ہے تو وہاں اُس نے اپنے بعض بنیادی تصورات سے ہی سبکدوشی قبول کرلی ہے،اشتراکیت کے مقابلے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ بنیادی ضرورتیں سب کو مہیا ہوں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ معاشی معیار بھی سب کا ایک جیسا ہی ہو،اسی طرح اسلام انفرادی ملکیت کا قائل ہے،لیکن افراد پر اِس بات کو واجب قرار دیتا ہے کہ وہ اپنے مال میں سماج کا حق محسوس کریں اور مفلس و نادار طبقے کی مددکریں،زکوٰۃ اور صدقات و خیرات اسی کی مختلف اشکال ہیں،ساتھ ہی شریعت اسلامی میں زیادہ تر قدرتی وسائل کو حکومت کی ملکیت قرار دیا گیا ہے،تاکہ اُس کا نفع زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام بھی اِس وقت موت و زیست کی کیفیت میں مبتلا ہے،اِس نظام نے افراد کو ایسا بے لگام بنادیا کہ اُن کیلئے کوئی اخلاقی سرحد نہیں رہی،سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خرابی سود اور قمار کی اجازت ہے، جو نفع حاصل کرنے کے غیر فطری طریقے ہیں،اِس میں مال کو مبالغہ آمیز اہمیت دی جاتی ہے اور مزدوروں کی محنت کو کوئی خاص درجہ مقرر نہیں،یہ نظام ذخیرہ اندوزی کی اجازت دیتا ہے،جو معاشرے کے غریب لوگوں کے ساتھ ظلم ہے ، اِس میں مصنوعی طورپر صارفیت کو بڑھایا جاتا ہے اوراشتہارات اور بے جا ترغیبات کے ذریعہ معاشرے کا مزاج بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ضروریات پر قانع نہ رکھے، بلکہ خواہشات کا غلام بن جائے اور اپنی صلاحیت سے زیادہ خرچ کرے، تاکہ سرمایہ داروں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچے،اب چاہے غریب و نادار طبقے کے لوگ قرض اور فضول خرچی کے بوجھ کے نیچے دب کر ہی کیوں نہ مر جائیں۔
 
جبکہ اسلام کے معاشی نظام انسانیت کی حقیقی فلاح و بہبود اور معاشی اعتبار سے عدل کے قیام کا مظہر ہے،اسلام نے مثبت طور پر رزق کی جد وجہد کی ترغیب دی اور اسے ہرمسلمان پر فرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جب تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنی روزی کی تلاش سے غافل ہوکر سوتے نہ رہو“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص دنیا کو جائز طریقے سے حاصل کرتا ہے کہ سوال سے بچے اور اہل وعیال کی کفالت کرے اور ہمسایہ کی مدد کرے تو قیامت کے دن جب وہ اُٹھے گا تو اُس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح روشن ہوگا۔“اسلامی معاشیات کا ایک اساسی اصول یہ ہے کہ تمام انسانوں کیلئے معاشی سہولتیں فراہم کی جائیں،قدرت کے ودیعت کردہ وسائل کو ترقی دی جائے،رزق کے مخزنوں کو چند ہاتھوں میں اِس طرح مرکوز نہ ہونے دیا جائے کہ دوسروں پر اُس کے دروازے بند ہوجائیں،اسلام کے معاشی نظام کے مثبت معاشی مقاصد میں غربت کا انسداد اور تمام انسانوں کو معاشی جد وجہد کے مساوی مواقع فراہم کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے،اسلام سب کو حصول رزق کے مواقع عطا کرنے اور مثبت طور پر ایسی حکمت عملیاں بنانے کی تاکید کرتا ہے،جس سے غربت وافلاس ختم ہو اور انسانوں کو اُن کی بنیادی ضروریات لازماً حاصل ہوں اور اُن تمام ذرائع کو ممنوع قرار دیا ہے جو ظلم وزیادتی اور دوسروں کی حق تلفی پر مبنی ہوں، اسلام محض افلاس، غربت، معیار زندگی کے گرنے کے خطرات اور قلت وسائل کے غوغا ءسے انسان کشی اور نسل کشی کی پالیسی کی اجازت نہیں دیتا،قرآن واضح تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ” تم اپنی اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی اُن کو رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی،اُن کا مارنا بڑی خطا ہے۔“درحقیقت اسلام کا مزاج مغرب کی تمام معاشی تحریکات سے منفرد اور جداگانہ ہے،وہ ہر فرد اور پوری اُمت کی توجہ کو معاشی وسائل کی ترقی اور پیداواری امکانات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے میں مرکوز کرتا ہے،معاشرت میں انصاف اور آزادی کے قیام کے ساتھ ساتھ غربت وافلاس کا انسداد کرکے بہتر معاشی زندگی کا قیام ممکن بناتاہے، قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میںرزق حلال کی جتنی اہمیت بیان کی گئی ہے،وہ اِس اَمر پر دلالت کرتی ہے کہ اسلام کے معاشی نظام میں صرف جائز اور حلال رزق کے فروغ کے مساعی ہوں گی۔
 
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں”کسی نے بھی اپنے ہاتھ کے کمائے ہوئے عمل سے زیادہ بہتر طعام نہیں کھایا،اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔“ اسلام نے معاشی جد وجہد کو حلال وحرام کا پابند کیا ہے،یہ ایک ایسا اصول ہے جس سے دور جدید کی معاشیات قطعاً نا آشنا ہے،اسلامی معیشت میں صرف کی تکثیر کی جگہ اس کے انسب سطح کا حصول پیش نظر رہتا ہے اور ایک حقیقی فلاحی معیشت ظہور میں آتی ہے،اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک حرمت ربوا ہے جو معاشی ظلم کا سب سے بڑا ذریعہ ہے،اسلام میں سود کو اس کی ہر شکل میں حرام قرار دیا ہے اور اس کے لینے والے کو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے،درحقیقت اسلام نے تجارتی اخلاقیات کا ایک ضابطہ پیش کیا ہے،اسلام تجارتی لین دین میں دیانت داری اور خدا ترسی کے جذبات کو فروغ دیتا ہے اوراُن تمام ذرائع کو ممنوع قرار دیا ہے جو ظلم وزیادتی اور دوسروں کی حق تلفی پر مبنی ہوں،اسلام تجارت کے سلسلے میں باہمی آزاد رضامندی کی تلقین کرتا ہے،تجارت کی بنیاد تعاون باہمی پرہے،اس کے ساتھ ساتھ دیانت، جائز اور مباح کی تجارت،ذخیرہ اندوزی کی ممانعت،اسراف کی بندش بھی عائد کرتے ہوئے کہتا ہے،”کلوا واشربوا ولاتسرفوا“کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو۔اسلام دولت کے ارتکاز کو پسند نہیں کرتا اوراِس بات کاا نصرام کرتاہے کہ مختلف معاشرتی،ادارتی،قانونی اور اخلاقی تدابیر سے دولت کی تقسیم زیادہ سے زیادہ منصفانہ ہو اور پورے معاشرہ میں گردش کرے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں” اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق اپنا مال اُن لوگوں میں تقسیم کرو جن کا حق مقرر کیا گیا ہے ۔
 
درحقیقت اسلام جہاں معاشی ترقی کا خواہاں ہے،وہاں دینی،روحانی اور اخلاقی ہدایات کا معلم بھی ہے،اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کر کے فلاحی نظامِ معیشت کا قیام ممکن نہیں ہے،اسی لیے اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ انسان حصولِ مال کی خاطر شتر بے مہار بن جائے اورحلال و حرا م کا امتیاز ہی ختم کرڈالے،آج اسلامی تعلیمات سے نا آشنا بعض حلقے یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ معیشت و تجارت کے بارے میں اسلامی احکام پر عمل کر نے سے ہمارا سار اکاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور ہم معاشی اعتبارسے بہت پیچھے رہ جائیں گے،مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حقیقی اور دیرپا ترقی کیلئے تجارتی سرگرمیوں کو مناسب ا_صول و ضوابط کے دائرہ میں رکھنا انتہائی ضروری ہے، اقتصادی ماہرین کے نزدیک ہمارے موجودہ معاشی واقتصادی بحران کا بنیادی سبب معاشی سرگرمیوں کا اخلاقی قیود اور پابندیوں سے مستثنیٰ ہونا ہے اگر یہ ناقدین اسلام کے تجارتی احکام کاحقیقت پسندی سے جائزہ لیں توخودگواہی دیں گے کہ اسلامی طریقہ تجارت میں شتر بے مہار آزادی،ہوس،مفاد پرستی اور خود غرضی کو کنٹرول کرنے کاشاندار نظام اور طریقہ کار موجود ہے جو معاشرے کے اجتماعی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور معاشی بے اعتدالیوں اور نا ہمواریوں کو روکتا ہے،آج بھی ہم اپنی تجارت و معیشت کو اسلام کے ان جامع اصولوں کی روشنی میں صحت مند بنیادوں پر استوار کرایک مضبوط و مستحکم معیشت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں،یاد رکھیں جب تک کسی معاشرہ کے معاشی اور مالی معاملات مناسب اصول و ضوابط کے پابند نہ ہو ں،اُس وقت تک اس معاشرہ کی منصفانہ تشکیل ممکن نہیں ہوسکتی

Wednesday 21 August 2013

جدید فرعونیت اور بیلٹ بکس کا مستقبل






ادب اور سنجیدگی

ادب اور سنجیدگی

رضی مجتبی
میں ادب اور سنجیدگی کے باہمی اور گہرے رشتے کا پوری سنجیدگی سے قائل ہوں، اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ اعلیٰ ادب میں جس چیز کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ہم محسوس کرتے ہیں، وہ اعلیٰ سطح کی سنجیدگی ہے۔ لہٰذا اگر اعلیٰ اور ادنیٰ ادب میں فرق کے حوالے سے یہ کہا جائے کہ اس میں ایک بہت بنیادی کردار سنجیدگی ادا کرتی ہے، تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ یہ سنجیدگی ہی ہوتی ہے جو کسی ادب پارے کو انسانی احساس کی کایا کلپ کرنے کی طاقت عطا کرتی ہے۔ اس سنجیدگی کا اظہار دونوں طرح سے ہوتا ہے، یعنی کسی فن پارے کے جہانِ معنی کی سطح پر بھی، اور اُس کے تخلیق کار (ادیب یا شاعر) کے رویّے کی سطح پر بھی۔ ادیب یا شاعر کے رویّے کا اندازہ اُس کے اندازِ نگارش یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلوبِ فن کی بنیاد بننے والے عناصر سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ عناصر موضوع اور ہیئت کے انتخاب سے لے کر الفاظ اور تکنیک تک کے استعمال میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
لفظوں میں تھوڑا بہت ردو بدل ہوسکتا ہے لیکن ویسے کچھ اسی طرح کے خیالات تھے جن کا اظہار میں نے گزشتہ دنوں اپنے قریبی دوستوں کی ایک مختصر سی محفل میں کیا تھا۔ میری بات سن کر ایک دوست نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سب سے پہلے تو ایک سوال کیا: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ادب کے لیے سنجیدگی ایک لازمی شرط ہے؟‘‘
میں نے اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہا کہ بالکل ایسا ہی ہے کہ میں ادب کے لیے سنجیدگی کو ایک لازمی شرط سمجھتا ہوں۔
بس میرے یہ کہنے ہی کی دیر تھی کہ محفل کا رنگ بدل گیا اور ایک بحث چھڑ گئی۔ ایک صاحب نے جو غالب کے بڑے پرستار ہیں اور انھیں غالب کا شاید پورا نہیں تو آدھا دیوان ضرور حفظ ہوگا، مجھے مخاطب کرکے کہا: ’’میں کوئی ادیب یا دانش ور تو نہیں ہوں، اس لیے آپ سے کوئی علمی وادبی بحث نہیں کر سکتا، لیکن مجھے آپ کی بات سے اتفاق نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا کہ آپ کو اپنی الگ رائے رکھنے کا پورا حق ہے۔ اس پر انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو غالب کے کچھ شعر سنانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: ضرور ضرور، بسم اﷲ کیجیے۔ اس لیے کہ غالب کا تو میں خود بڑا عاشق ہوں، لہٰذا اُس کو ہر بار سننا یا پڑھنا میرے لیے قندِ مکررکی طرح ہوتا ہے۔ موصوف نے غالب کے شاید درجن بھر سے زیادہ شعر سنا ڈالے، جن میں سے چند میں یہاں درج کرتا ہوں:
گو نہ سمجھوں اُس کی باتیں ، گو نہ پائوں اُس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا
———
بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل اور آپ فرماویں گے کیا
———
یہ مسائلِ تصوف ، یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
———
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
———
گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اُس محفل میں ہے
———
کعبہ کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اشعار سنانے کے بعد انھوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ غالبؔ کے ان شعروں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ یہ سارے کے سارے اشعار قابلِ توجہ ہیں۔ ان کو سن کر آدمی محظوظ بھی ہوتا ہے اور ان کے معانی پر غور بھی کرتا ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ لگ بھگ یہ سب وہ اشعار ہیں جو غالب کو غالب ثابت کرتے ہیں۔ وہ صاحب بولے کہ یوں نہیں، صاف لفظوں میں بتائیے کہ یہ شعر اچھے ہیں یا نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ جو اشعار غالب کو واضح طور پر غالب ثابت کرتے ہیں، ان کے اچھا ہونے میں بھلا کیا شبہ ہے! یہ غالب کے کرافٹ اور اسٹائل کو اُس کی انفرادیت کا ایسا جواز ثابت کرتے ہیں جو پوری اردو شاعری میں کسی اور کا حصہ نہیں۔ ساتھ ہی میں نے یہ وضاحت بھی کی کہ اس فقرے میں، مَیں نے اسٹائل کے وہی معنی لیے ہیں جو Style is the man والے بیان میں استعمال ہوتے تھے۔
میرے اس جواب پر وہ دوست مسکرائے اور بولے: بس تو پھر آپ کا مقدمہ رد ہوگیا۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ہوگیا؟ کہنے لگے: اس لیے کہ ان میں سے کسی شعر میں وہ سنجیدگی تو نہیں پائی جاتی، جس کی آپ نے ادب کے لیے شرط عائد کی تھی۔
میں ابھی اس بات کا کوئی جواب دینے ہی والا تھا کہ محفل میں موجود ایک اور صاحب نے جو ہمارے دوستوں میں بہت پڑھاکو مشہور ہیں اور طنز ومزاح کے تو وہ ان تھک قاری ہیں، کہا کہ اگر آپ کے اس سنجیدگی والے ایشو کو سامنے رکھ لیا جائے تو پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی، کرنل محمد خاں، شفیق الرحمن، ابنِ انشا، مشتاق احمد یوسفی، ضمیر جعفری، دلاور فگار اور عطاء الحق قاسمی وغیرہ میں سے کسی کو بھی بڑا ادیب قرار نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ ان میں سے کسی نے بھی ایسا ادب تخلیق نہیں کیا جو آپ کی سنجیدگی والے معیار پر پورا اُتر سکے۔ بحث میں خاصی گرما گرمی آگئی تھی اور دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہو رہے تھے۔ جو لوگ شامل نہیں تھے، وہ بھی اس گفتگو کو دل چسپی سے سن رہے تھے۔ بہرحال پھر یہ ہوا کہ میرے جواب سے قبل ایک اور صاحب نے بات آگے بڑھائی اور بولے: اس طرح طنز ومزاح کا تو پورا کا پورا ذخیرہ ہی ادب سے خارج ہوجائے گا، کیوں کہ اس میں تو آپ کو سنجیدگی کا نام ونشان تک نہیں ملے گا۔ اس حوالے سے کیا کہیں گے آپ؟
مجھے پوری سچائی کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ان میں سے کسی بات نے ایک لمحے کے لیے بھی مجھے پریشان نہیں کیا، نہ ہی کوئی الجھن پیدا ہوئی اور نہ ہی غصہ آیا… بلکہ اگر آپ کو اندر کی بات بتائوں تو میں کہوں گا کہ ان باتوں یا سوالوں سے مجھے دل ہی دل میں یک گونہ خوشی ہورہی تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ میں جن لوگوں کے ساتھ اس وقت بیٹھا ہوں، وہ نہ صرف یہ کہ ادب پڑھتے ہیں، بلکہ پوری توجہ اور سنجیدگی سے پڑھتے ہیں۔ صرف پڑھتے ہی نہیں بلکہ اُس کے بارے میں سوچتے بھی ہیں اور اُس کے لیے اپنی ایک رائے بھی قائم کرتے ہیں۔ میرے لیے زیادہ خوشی کی بات اس گفتگو میں یہ تھی کہ میرے وہ سب دوست جو اس محفل میں تھے، ان میں سے کسی ایک نے بھی ادب کو اپنا کیریئر نہیں بنایا تھا، بلکہ سب کے سب پیشے کے لحاظ سے بینکر تھے۔ ہاں اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور تھے جو شعر کہتے یا افسانہ لکھتے رہے ہیں، شاید اب بھی لکھتے ہیں۔ بہرحال دیکھا جائے تو ہم انھیں باقاعدہ ادیب یا شاعر کہنے کے بجائے شوقیہ فن کار کہہ سکتے ہیں۔ سو مجھے اسی بات کی زیادہ خوشی تھی کہ اس گفتگو کے دوران کسی طرح کی ادیبانہ یا شاعرانہ خودسری یا نظریہ بازی کا مظاہرہ نہیں ہورہا تھا، اور نہ ہی کسی کو اپنی بات کو منوانے کی ضد اور عجلت تھی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سب ادب کے اچھے اور سنجیدہ قاری تھے۔ اُن کی طرح میں بھی خود کو صرف اور صرف ادب کا ایک ادنیٰ قاری سمجھتا ہوں۔ لہٰذا اس بات چیت کا مقصد اس نکتے یا مسئلے کو سمجھنا سمجھانا تھا، خود کو دانش ور ثابت کرنا ہرگز نہیں تھا۔
ہمارے درمیان خاصی بحث ہوتی رہی۔ اپنے اپنے نکتۂ نظر کا اظہار سب نے پورے زور شور سے کیا۔ جس کے ذہن میں جو بات آئی اور جو دلائل سمجھ میں آتے رہے، انھیں پیش کیا گیا۔ بہرحال خلاصہ یہ کہ نشست کے اختتام پر میں خوش تھا، بلکہ ہم سب خوش تھے کہ ہم نے بہت اچھا وقت گزارا اور بہت اچھی باتیں ہوئیں۔ مجھے زیادہ خوشی تھی، اس بات کی کہ میں اپنی بات واضح کرنے اور اپنا نکتۂ نظر دوستوں تک پہنچانے میں کامیاب رہا اور یہ کہ ساری بحث و تمحیص کے بعد بھی ہم میں سے کوئی hurt نہیں ہوا تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس نشست کا اختتام ایک طرح سے اتفاقِ رائے پر اور خوشی کے ساتھ ہوا۔
اس گفتگو کے نتیجے میں یہ خیال میرے ذہن میں آیا کہ میں اپنی تحریروں میں بارہا ادب کے لیے سنجیدگی کا سوال اٹھاتا رہا ہوں اور اعلیٰ ادب کے لیے high seriousness کی بات کرتا رہا ہوں۔ اس کا پورا امکان ہے کہ میرا یہ بیان کچھ لوگوں کے لیے الجھن کا سبب بنتا رہا ہو۔ سو کیا مضائقہ ہے اگر میں اس حوالے سے اپنے مؤقف کی وضاحت کردوں۔ اس لیے آئندہ سطور میں یہی کوشش کروں گا۔ تاہم اس سے پہلے میں اپنے اُن دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جو اس گفتگو کا محرک بنے۔ ان کی باتوں نے نہ صرف مجھے اپنے اس نکتۂ نظر کی وضاحت کی تحریک دی، بلکہ خود میرے ذہن میں اس کے کئی اور پہلو روشن کیے جو شاید پہلے اتنے روشن اور واضح نہ تھے۔
ادب میں یہ سوال یعنی high seriousness کا تقاضا سب سے پہلے مغرب میں میتھیو آرنلڈ نے کیا تھا۔ بعد ازاں اور بھی کئی لوگوں نے اس مسئلے پر بات کی اور یہ ایک باقاعدہ مکتبِ فکر سا بن گیا۔ اب میں جن نکات کو بیان کرنے جارہا ہوں، وہ اصل میں زیادہ تر اسی مکتبِ فکر سے ماخوذ ہیں اور مغرب کے اُن نمائندہ دانش وروں اور ادیبوں کی آرا پر مبنی ہیں جنھوں نے اس مسئلے پر بات کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس بیان میں میرا اپنا زاویۂ نظر بھی شامل ہوگیا ہے۔ میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ میرے اپنے زاویۂ نظر سے اصل میں میری مراد یہ ہے کہ میں نے مغربی اہلِ دانش اور اہلِ ادب کی اس بحث میں جن باتوں کو قبول کیا ہے، ان میں اپنے مشرقی ذہن کی بھی کچھ نہ کچھ چیزیں شامل کردی ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس گفتگو میں، ساری نمائندگی صرف مغرب کی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ اپنے کلاسیکی ادب (جس میں شاعری اور داستان دونوں کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے) کے علاوہ جو تھوڑا بہت فارسی ادب میں نے پڑھا ہے اور اس سے جتنا کچھ اور جس طرح سمجھا ہے، اس کو بھی ان نتائج میں شامل کرلیا ہے۔
ادب میں سنجیدگی سے مراد ہے ایک ذمہ دارانہ اور باشعور رویّے کا اظہار۔ یہ اظہار موضوع کے انتخاب میں بھی ہوتا ہے، اُس کے ٹریٹمنٹ کے مرحلے میں بھی ہوتا ہے، اسلوبِ بیان کے ذریعے بھی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس رویّے کا اظہار لفظیات میں اور متن کے سانچے میں بھی ہوتا ہے اور اس کے ساتھ معنی کی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اس سے آگے معنی کے معنی میں بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک لکھنے والے کے لیے سنجیدگی دراصل ایک ذہنی رویّے کا درجہ رکھتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ایک سطح پر اسے طرزِ فکر بھی کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح کسی نظریے یا فلسفے کے ضمن میں ہم دیکھتے ہیں اس طرح سنجیدگی کے کوئی set parameters تو نہیں ہیں کہ جن کو اختیار کرنا ہر ایک کے لیے لازمی ہو۔ ہر ادیب، شاعر اس سلسلے میں آزاد ہے کہ وہ اسے اپنے انداز اور اپنے طریقے سے اختیار کر سکتا ہے۔ بس اُس کے لیے ایک بات ناگزیر ہے کہ وہ اس کے لیے جو چاہے طریقہ اختیار کرے، لیکن وہ اسے شعوری طور پر اختیار کرے گا اور اس ضمن میں اپنے ہر اقدام کا ذمہ دار ہوگا۔ میتھیو آرنلڈ کا کہنا ہے کہ کسی نظم (ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی شعری اظہار) کو پرکھنے کے لیے ہمارے پاس بنیادی طور سے دو معیارات ہوتے ہیں، ایک اس میں ’’اعلیٰ صداقت‘‘ اور دوسرے ’’اعلیٰ سنجیدگی‘‘ کا اظہار۔ برطانیہ کا بے مثال (مگر اتنا ہی متنازع یا بدنام) ڈراما نگار آسکر وائلڈ تو یہ کہتا ہے کہ انسان کی پوری زندگی ہی اتنی اہم شے ہے کہ اُس کے لیے سنجیدگی کا رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ مجھے اُس کی اس بات پر غور کرتے ہوئے اکثر یہ خیال گزرتا ہے کہ اپنی زندگی کے ایک غیر سنجیدہ تجربے نے شاید آسکر وائلڈ کو اس نتیجے تک پہنچایا ہوگا۔ بہرحال، سارتر نے اس سلسلے میں بہت اہم اور قابلِ غور بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’سنجیدگی کی روح‘‘ دراصل یہ یقین ہے کہ اشیا میں ایک معروضی اور خود مختار اچھائی (خیر) ہوتی ہے، جسے لوگ اپنے اپنے انداز سے دریافت کرتے ہیں۔
میتھیو آرنلڈ کے پیش کردہ سنجیدگی کے اس تصور کو جہاں ہم خیال اور تائید کرنے والے لوگ میسر آئے وہیں اس تصور کو مسترد کرنے والے بھی کچھ لوگ سامنے آئے اور نمایاں ہوئے۔ اس خیال کو رد کرنے والوں کا کہنا تھا کہ سنجیدگی کو اوپر سے کسی فن پارے میں شامل کرنا اُسے مصنوعی بنا دیتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ سنجیدگی فن پارے کی تروتازگی ختم کرکے اُسے بوسیدہ بنا دیتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ جس طرح ایک اہم اور غور طلب تصور یا نظریے کے ساتھ ہوتا ہے کہ اُسے حق میں بولنے والوں کے ساتھ ساتھ خلاف بولنے والے بھی ملتے ہیں، ایسا ہی میتھیو آرنلڈ کے سنجیدگی کے تصور کے ساتھ بھی ہوا۔ انیسویں صدی کی اس بحث کے دو طرفہ دلائل آج مغربی ادب کی فکری تاریخ کا حصہ ہیں۔
اہلِ مشرق کے ہاں دیکھا جائے تو سنجیدگی کے اس تصور پر الگ سے کوئی بحثیں نہیں ملتیں۔ اس کی وجہ اصل میں یہ ہے کہ ہمارے ہاں اسے انفرادی حیثیت میں دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ اس لیے کہ مشرق کا مزاج کلیت کا ہے۔ یہاں fragmentationکے بجائے اپروچ کو composite رکھنے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ بہرحال مشرق ہو یا پھر مغرب، ادب میں سنجیدگی سے مراد یبوست، خشکی یا پژمردگی ہرگز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں نہ ہی اس طرزِ فکر سے مراد یہ ہے کہ کسی ادب پارے کو غیر ضروری طور پر ادق یا گنجلک بنایا جائے یا اُسے فلسفیانہ رنگ دیا جائے۔ سنجیدگی کے نکتۂ نظر کا مقصود یہ بھی نہیں ہے کہ ادب سے عوام کو دور کر دیا جائے اور اسے صرف اور صرف خواص کی ایک سرگرمی بنا کر رکھ دیا جائے۔
پھر آخر یہ سنجیدگی ہے کیا؟ سنجیدگی سے مراد ہے (جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا) تخلیقِ ادب میں شعور اور ذمہ داری کے ساتھ اختیار کیا گیا ایسا طرزِ عمل جو متانت اور خلوص کا اظہار کرتا ہے اور اپنے قاری کے اندر انھی جذبوں کو سب سے پہلے بیدار بھی کرتا ہے۔ ادب میں سنجیدگی کرافٹ اور اسٹائل کو نقصان نہیں پہنچاتی، بلکہ انھیں زیادہ مؤثر اور معنی خیز بنادیتی ہے۔ ادب انسانی جذبوں اور احساسات کی اگر تہذیب کرتا ہے تو سنجیدگی اس تہذیب کے نقش کو زیادہ اُبھارتی اور روشن کرتی ہے۔ یہ سنجیدگی ہی ہے جو کسی ادب پارے کے ذریعے قاری کے دل اور دماغ کی صورتِ حال پر سب سے پہلے اثرکرتی ہے اور اکثر اوقات انسانی ذہن کی کایا کلپ کردیتی ہے۔
اب یہ سوال کہ اگر سنجیدگی کو ادب کا جزوِ لازم گردانا جائے تو پھر وہ نگارشاتِ ادب جو طنز ومزاح کے شعبے سے تعلق رکھتی ہیں، اور سنجیدہ فن پاروں کے وہ اجزا جن میں مزاح کا عنصر شامل ہوتا ہے، کیا انھیں ادب کے زمرے میں شامل نہیں کیا جائے گا؟ میرا خیال ہے کہ یہ رائے، یہ خیال یا یہ سوال سراسر ایک بہت بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اب اس غلط فہمی کو مکمل طور پر دور ہوجانا چاہیے۔ اس لیے کہ مندرجہ بالا سطور میں اس بات کی وضاحت بالکل صاف لفظوں میں کر دی گئی کہ سنجیدگی سے مراد یبوست یا خشکی نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد ہے لکھنے والے کی متانت، خلوص اور ذمہ داری کا اظہار اور اس کے پورے شعور کے ساتھ۔ چناں چہ وہ تحریریں جو مزاح کے پیرائے میں پیش کی جاتی ہیں، انھیں ادب سے خارج کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے، بلکہ وہ اعلیٰ ادب کا حصہ ہیں بشرطے کہ وہ ادب کے اپنے داخلی معیارات پر کما حقہٗ پوری اُترتی ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا لکھنے والا بھی اتنا ہی کمیٹڈ ہوتا ہے، جتنا کسی بھی دوسری صنفِ ادب کا لکھنے والا۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ مزاح کی تحریریں خواہ وہ نثر میں ہوں یا شعر میں، ان کی تخلیق کے لیے بھی گہری سنجیدگی درکار ہوتی ہے، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ان کے لیے تخلیق کار کو زیادہ سنجیدگی سے کام لینا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اسی متانت اور خلوص کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو کسی دوسری صنفِ ادب کے لیے مطلوب ہوتی ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو غالب کے ایسے اشعار:
کعبہ کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
———
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی
یا اقبال کے ایسے اشعار:
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
میں ان اشعار میں مزاح کے عنصر سے انکار نہیں کرتا۔ وہ یقینا موجود ہے، لیکن یہ مزاح ایک گہری سنجیدگی، متانت اور خلوص کا پیدا کردہ ہے۔ مزاح ان اشعار میں صرف تفریحِ طبع کا سامان نہیں ہے، بلکہ جب میں ایسے شعروں پر غور کرتا ہوں تو مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے ان میں اپنی بات کو آسانی اور شگفتگی کے ساتھ بیان کردیا ہے، ورنہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے، جس نکتے کی طرف اشارہ کر رہا ہے، وہ بہت گہرا اور دقیق ہے۔ اسی اصول کا اطلاق پورے مزاحیہ ادب پر ہوتا ہے، خواہ وہ نثر میں تخلیق کیا گیا ہو یا شعر میں۔ یعنی بات اصل میں اس شعور اور احساس کی ہے جو کسی فن پارے کے پس منظر میں کارفرما ہوتا ہے۔ یہاں مثال کے طور پر میں نثری ادب سے پطرس بخاری کے دو مضامین ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ اور ’’میبل اور میں‘‘ کا حوالہ دوں گا۔ اس کے بعد کرنل محمد خاں کی ’’جنگ آمد‘‘ کا، ابنِ انشا کی ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ یا مشتاق احمد یوسفی کی ’’آبِ گم‘‘ کا حوالہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کسی فن پارے پر ذرا توجہ اور سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ مصنف نے بیان کی ساری شگفتگی کے باوجود اس میں پیش کیے گئے نکتے کو پوری ذمہ داری، متانت اور خلوص کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اور یہ کہ اس کا منشا یہ ہے کہ اس کے قارئین ذرا ان پہلوئوں پر دوسرے زاویے سے بھی غور کریں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ایک بڑی ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے اور نہایت سنجیدگی سے ہی سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ تو بس یہی وہ نکتہ ہے جس کے ذریعے ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ادب کے لیے سنجیدگی ایک ناگزیر شے ہے اور یہی سنجیدگی تخلیق کار کے رویّے کا تعین کرتی ہے اور اس کے ذریعے ادب زیادہ بامعنی اور باوقار ہوتا ہے۔


اردو کی حمدیہ شاعری میں جدید اسالیب کی دھنگ

اردو کی حمدیہ شاعری میں جدید اسالیب کی دھنگ

لغوی اعتبار سے حمد وہ نثر پارہ یا شعری مرقع ہوتا ہے جس میں خالقِ کائنات کی تعریف کی جائے۔ میرے خیال میں حمدیہ شاعری وہ شعری کاوش ہے جس میں تعلق مع اللہ ظاہر ہو اور رب کائنات کو اس کے ذاتی یا صفاتی ناموں سے اس طرح پکارا جائے کہ اس کی عظمت و جلالت، رحمت و رافت اور محبوبیت کا اظہار ہوتا ہو، اور کسی نہ کسی سطح پر بندے کا اپنے معبود سے تعلق خاطر ظاہر ہو۔ اللہ کی عظمت اس کی مخلوقات کے حوالے سے بیان ہو، انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور اس کی فتوحات کے توسط سے عظمتِ خالق کا تذکرہ آئے یا انسانی عجز و انکسار کا احساس اشعار میں ڈھل جائے۔ کائنات کی وسعتوں کے ذریعے تکبیر رب کا پہلو نکلتا ہو یا معرفتِ نفس کے راستے سے رب تک پہنچنے کی خواہش کا شعری مرقع بنتا ہو۔ اللہ کی بڑائی کے تصور کے ساتھ آفاق (کائنات) سے مکالمہ ہو یا انفس (اپنی ذات) سے، یا براہِ راست ربّ العالمین سے… ہر قسم کی شعری آواز (Poetic Voice) حمد کے ذیل میں آئے گی۔
جدید اسالیب کا ذکر نکلا ہے تو یہ بھی دیکھتے چلیں کہ ذاتِ قدیم کی تعریف میں اسلوب کی جدت کے کیا معانی ہوسکتے ہیں۔ سو عرض ہے کہ کائنات کی ہر شے تغیر پذیر ہے، کیوںکہ اس کا خالق ہر آن نئی شان سے جلوہ گر ہوتا ہے۔ کل یوم ھو فی شان (29) الرحمن۔ (اللہ ہر آن نئی شان میں ہے) یعنی اس کی بنائی ہوئی کائنات کبھی ایک حال پر نہیں رہتی۔ اس کے حالات بدلتے رہتے ہیں اور ربّ تعالیٰ اسے ہر بار ایک نئی صورت دیتا ہے جو پچھلی صورتوں سے مختلف ہوتی ہے۔
ذاتِ باری تعالیٰ قدیم ہے اور کائنات حادث۔ انسان کی تخلیق کائنات کی تخلیق کے بہت بعد میں عمل میں آئی ہے، اس لیے حادث مخلوقات میں انسان جدید ترین مخلوق ہے۔ کائنات میں اس جدید مخلوق کو شعور، علم، احساس اور تخیل کی دولت سے مالامال کرکے اس کی فطرت میں تغیر پسندی ودیعت فرما دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے تخلقوا باخلاق اللہ (خود کو اللہ کے اخلاق سے آراستہ کریں) کی تعلیم بھی دے دی گئی۔ اخلاقِ عالیہ کا بنیادی تصور وہی ہے جو سورۃ رحمن کی درج بالا آیت میں مذکور ہوا، یعنی رب کائنات ہمہ وقت نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ پھر مومن کو ہدایت کی گئی کہ اس کے دو دن یکساں نہیں گزرنے چاہئیں۔
اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کو قوانین فطرت کے عین مطابق خود کو ڈھالنے کی تعلیم دیتا ہے۔ تغیرپذیری بھی فطرت کا اٹل قانون ہے جس پر انسان کچھ تو بحالت ِمجبوری (بے اختیارانہ) عمل پیرا ہے اور کچھ شعوری طور پر خود کو اس قانون سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اسے شعوری طورپر ایسا کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
تکرار (Repetition) نہ تو کائنات کے خمیر میں رکھی گئی ہے اور نہ ہی انسان کے ضمیر میں یکسانیت (غیر متبدل ماحول) کو قبول کرنے کا داعیہ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ یکسانیت سے اکتا کر انسان شعوری طور پر خود کو اور اپنے ماحول کو بدلتا رہتا ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل انسانی زندگی کے ہر شعبے پر اثرانداز ہوتا ہے۔
ادب چوںکہ زندگی کا آئینہ ہوتا ہے اس لیے لسانی رویوں، لفظیات اور نثری و شعری تخلیقات میں تبدیلی عہد بہ عہد جاری رہتی ہے۔ جس طرح انسان کی انفرادی زندگی میں اس کی عمر کے ہر حصے کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں اسی طرح معاشرے کی اجتماعی زندگی کی عہد بہ عہد ضروریات مختلف ہوتی ہیں جن کا عکس کم و بیش ہر ادبی تخلیق پر پڑتا ہے۔ چناںچہ انفرادی اسلوب (Style) اگر فکر کے انفرادی زاویے، ترتیب الفاظ سے معانی پیدا کرنے کی مخصوص صلاحیت، تخلیق کے مواد یا مافیہ (Content) اور اس کی صورت، ہیئت یا پیکر (Form)، لفظ برتنے کے مخصوص ڈھنگ، بات کرنے کے خاص آہنگ یعنی انفرادی لہجہ (گو یہ شعر گوئی میں بڑی مشکل بات ہے۔ انفرادی لہجہ ہزاروں شعرا میں سے صرف دو چار ہی کو میسر آتا ہے)، زندگی کے عکس قبول کرنے کے ذاتی نقطہ نظر اور انفرادی افتاد طبع کے تحت وجود میں آتا ہے۔ اسی طرح کسی خاص عہد کے اجتماعی اسلوب میں زبان کے عصری استعمالات، سائنسی اکتشافات کے ادراک، فکری بلوغت کی عمومی سطح اور فکر غالب کی مخصوص رَو (روحِ عصر) نیز عمرانی حالات سے طبائع پر پڑنے والے اجتماعی اثرات سے پیدا ہونے والی حسیت کی وہ زیریں رو (Undercurrent) بھی شامل ہوتی ہے… جو کاریز کی طرح کسی عہد کی تمام تخلیقی تحریروں میں لفظوں کی ساخت (یا زمین) کے نیچے تیزی سے بہہ رہی ہوتی ہے۔گویا اجتماعی سطح پر ادب میں بننے والا اسلوب کسی خاص عہد کا مکمل اسلوبِ زندگی ہوتا ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ حمدِ باری تعالیٰ کے ضمن میں اردو شاعری کی دنیا میں کیسے کیسے رنگ ابھرے اور کیسی کیسی آوازیں سنائی دیں۔
اردو کی پہلی معلومہ تصنیف مثنوی ’’کدم رائو پدم رائو‘‘ فخرالدین نظامی نے سن 839ھ تا 860ھ مطابق 1421ء تا 1435ء کے درمیانی عرصے میں لکھی تھی۔ آج اس مثنوی کی زبان کے دو تین فی صد الفاظ ہی سمجھ میں آسکتے ہیں۔ اس مثنوی کی ابتدا حمدیہ اشعار سے ہوئی ہے۔ اردو کی ابتدائی شکل دیکھنے کے لیے اس کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
گسائیں تمہیں ایک دنہ جگ ادار
برو برد نہ جگ تہیں دینہار
آقا مالک تُو ہی دونوں جہانوں (یا زمانوں) کا سہارا ہے۔ ٹھیک ٹھیک بحروبر، خشکی و تری دونوں جہانوں کا دینے والاہے۔
چنہار انگھے رچنہار توں
رہنبار بہ بچھیں رہنہار توں
بنانے والا آگے بنانے والا تُو، رہنے والا پیچھے رہنے والا تُو۔
اس شاعری کا اسلوب نہایت سادہ ہے جس میں صداقت بلا کم و کاست، بالکل غیر جذباتی انداز میں بیان کر دی گئی ہے۔لیکن الفاظ سمجھنے مشکل ہیں۔اب ذرا بعد کی مروج زبان سے اس کا موازنہ کیجیے!
سراج اورنگ آبادی (پیدائش 1124ھ وفات 1177ھ، 1714ء تا 1767ئ) تک آتے آتے زبان کس قدر صاف ہوگئی اور بیان میں کیسا لوچ پیدا ہوگیا، اس کا اندازہ ان کے حمدیہ اشعار سے ہوگا:
دیکھا ہے سراج آتش و خاک آب و ہوا کوں
سب میں صفتِ ذاتِ الٰہی نظر آئی
میں سمجھتا تھا کہ اس یار کا ہے نام و نشاں
یار بے نام و نشاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
سامنے ہے جس کوں حسن لایزال
دم بدم خوش حال ہیں ہر حال میں
تجلیاتِ الٰہی کا اوس میں پرتو ہے
ہوا ہے جب سیں دل آئینہ دار گلشنِ حسن
سراج کا کلام تین سو سال بعد کا ہے۔ ان کی لفظیات آج کے لسانی ڈھانچے سے مختلف ہونے کے باوجود غیر مانوس نہیں ہیں۔ سراج اورنگ آبادی کی حمدیہ شاعری میں تلاشِ حق کی روداد بھی ہے، احساسات کی بو قلمونی بھی اور قلبی واردات کا عکس بھی۔
رفتہ رفتہ تصوف کی آمیزش نے شاعری کا رخ مجاز سے حقیقت کی طرف موڑ دیا۔ حمدیہ شاعری علیحدہ صنفِ سخن کے طور پر تو بہت کم ہوئی لیکن محبوب ِحقیقی کا حسن، قدما کی غزل کے بیشتر اشعار میں جھلکنے لگا، مثلاً:
مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا
پردے کو تعین کے درِ دل سے اٹھا دے
کھلتا ہے ابھی پل میں طلسمات جہاں کا
(سوداؔ)
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تُو سما سکے
وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال تجھے منھ دکھا سکے
(خواجہ میر دردؔ)
یاں خار و خس کو بے ادبی سے نہ دیکھنا
ہاں عالمِ شہود ہے آئینہ ذات کا
(شیفتہؔ)
دل ہو کہ جان تجھ سے کیوں کر عزیز رکھیے
دل ہے سو چیز تیری جاں ہے سو مال تیرا
(حالیؔ)
محبوبِ حقیقی کے تصور میں شعر گوئی کی ایک مضبوط روایت قائم تو ہوئی لیکن اس شاعری میں بیشتر بیانیہ لہجہ اور سادہ اسلوب ہی سامنے آسکا۔ فلسفیانہ خیالات کی پیچیدہ بیانی اور مابعد الطبیعاتی مسائل کی گہرائی غالب کے قلم کی محتاج تھی۔ غالب نے اردو شاعری کو فکری بلندی اور فلسفیانہ عمق سے آشنا کیا اور وحدت الوجودی افکار کو شعری جمالیات سے اس طرح ہم آہنگ کیا کہ ان کی شاعری زمان و مکان کی حدود سے بہت آگے کی چیز بن گئی۔ غالب روشِ عام پر چلنے والے شاعر نہ تھے، اس لیے انھوں نے خاص اہتمام سے حمدیہ شاعری نہیں کی بلکہ اپنے دیوان کی ابتداء ایسے شعر سے کی جو وحدت الوجودی فکر کی گہرائی، اسلوب کی جدت اور امیجری کی ایک نادر مثال ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
غالب کی غزلوں میں تصوف کا فکری نظام ان کی تخلیقی دانش کا اس طرح حصہ بن گیا تھا کہ انھوںنے جہاں محبوبِ حقیقی کی بات کی، خیال کی رفعت اور بیان کی ندرت نے شاعری کو شعری لطافت کے ساتھ ساتھ صوفیانہ قلبی حرارت بھی عطا کردی۔غالب نے کہیں تو خالق کو اپنی ذات میں جھانک کر اپنے اور خالق کے موازنے کے توسط سے عرفان کی کوشش کی، کہیں شکوۂ نارسی کیا اور کہیں اپنی حیرت کے احساس سے نگارخانۂ تخلیق کو حیرت کدہ بنا دیا، مثلاً:
کس کی برقِ شوخیٔ رفتار کا دلدادہ ہے
ذرّہ ذرّہ اس جہاں کا اضطراب آمادہ ہے
گردشِ ساغرِ صد جلوۂ رنگیں تجھ سے
آئینہ داریِ یک دیدۂ حیراں مجھ سے
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے
پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں
غالب کے اس شاعرانہ رویّے اور اسلوب نے اردو شاعری کو اعتبار اور موضوعاتِ شاعری کو وقار عطا کیا۔ اس طرح حمدیہ مضامین کے حوالے سے بھی غالب اردو شاعری میں جدید رجحانات اور نادر طرزِ احساس کا اولین شاعر قرار پایا۔ غالب کے بعد اقبال کو اپنا پورا نظامِ تخلیق انہی خطوط پر استوار کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جن کی وجہ سے شعری پردے پر محبوبِ حقیقی کے صفاتی نقوش اُبھر رہے تھے۔ اقبال کی فکری اساس مابعدالطبیعاتی تفکر پر تو تھی لیکن انھوںنے وحدت الوجودی فلسفہ ٔ تصوف کے بر عکس ایک الگ نظام فکر کی بنا رکھی جس میں عبد و معبود کے اتحاد کا شائبہ تک نہ تھا۔ انھوںنے عبد کو الگ تشخص دیا اور خود کو (یا انسان کو) ایک پروانۂ ہوش مند بنا کر پیش کیا۔ جو وصل کو مرگِ آرزو سمجھ رہا تھا اور ہجر کی لذتِ طلب کو ایک نعمت ِغیرمترقبہ جانتا تھا۔
اقبال کی شاعری میں فرد کی انائے جزوی انائے کلی میں کہیں مدغم نہیں ہوئی، جب کہ انائے کلی کے قریب ہونے کی آرزو کو اس نے مختلف جہتوں سے دیکھا اور اپنے داخلی احساسات کو فکری اصابت کے ساتھ تخلیقی تجربے کا جزو بنایا۔ اقبال کی شاعری عبد و معبود کے درمیان مکالمہ بھی ہے اور عشقِ حقیقی کی کیفیتوں کا اظہار بھی۔ اس کی شاعری میں آفاق کی تسخیر کی فکری حرارت بھی ہے اور کائنات میں غورو خوض کے نتیجے میں حقیقت ِکبریٰ تک رسائی کا اشاریہ بھی۔ اقبال کو اس کے ہمہ وقتی مکالماتِ عبدو معبود نے جرأتِ رندانہ بھی عطا کی جس میں وہ نازِ عبودیت کے زیر اثر عبد ِبے باک نظر آتے ہیں۔ اس رویّے نے اقبال کی پوری شاعری کو ایک نوع کی حمدیہ شاعری کا پیکر دے دیا، کیوںکہ اس شاعری کے مطالعے سے تصورِ خالق ہی کے مختلف لونی عکس (Shades) ظاہر ہوتے ہیں۔
اقبال کی شاعری میں حمدیہ شاعری کی روح اس طرح جاری و ساری ہے کہ اس میں حمد کے تمام امکانات جلوہ ریز ہیں۔ شکوہ جواب شکوہ تو بیانیہ قسم کی نظمیں ہیں، لیکن ’’جگنو‘‘ ان کی ایسی نظم ہے جس میں مظاہرِ قدرت کو بڑی فنکارانہ چابکدستی اور ہنرمندی سے شعری جامہ پہنایا گیا ہے۔
ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانے کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی
رنگیں نوا بنایا مرغانِ بے زباں کو
گل کو زبان دے کر تعلیمِ خامشی دی
نظارۂ شفق کی خوبی زوال میں تھی
چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی
رنگیں کیا سحر کو بانکی دلہن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
سایہ دیا شجر کو، پرواز دی ہوا کو
پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی
اس قسم کی مثالوں کی اقبال کے تخلیقی نگار خانے میں کوئی کمی نہیں ہے۔ بالِ جبریل کی بیشتر غزلوں میں اقبال اپنے رب سے مکالمہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
تُو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یا ربّ لامکاں تیرا ہے یا میرا
محمدؐ بھی ترا جبریلؑ بھی، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی زیاں ترا ہے یا میرا
تُو ہے محیطِ بے کراں میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خذف تو تُو مجھے گوہرِ شاہوار کر
نغمۂ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر
یہ مشتِ خاک یہ صرصر یہ وسعتِ افلاک
کرم ہے یا کہ ستم، تیری لذتِ ایجاد
قصور وار، غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کرسکے آباد
مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشتِ سادہ وہ تیرا جہانِ بے بنیاد
مقامِ شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائیدار سے نا پائیدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
میری بساط کیا ہے تب و تاب یک نفس
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کر پہلے مجھ کو زندگیٔ جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
اقبال کے ہاں حمدیہ مضامین کا تنوع دیدنی ہے اور عبد کا اپنے معبود سے مکالمہ بالکل نئے انداز کا ہے۔ اقبال کی شاعری میں تصورِ الہ کی تفہیم فلسفیانہ سطح پر بھی ہوئی ہے اور ایمانیاتی نہج پر بھی، لیکن ان کی تفہیم میں بنیادی عنصرعشق کاہے جوسب تفہیمات پر غالب ہے۔
حمدیہ مضامین کا غزلوں میں منعکس ہونا اقبال کے بعد تقریباً معدوم ہوگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تصوف کی روایت نے ادب پر جو کچھ اثرات مرتب کیے تھے زندگی کے بے رحم مادّی تقاضوں نے اس روایت ہی کا گلا گھونٹ دیا۔ اقبال کی سطح کا شاعر اقبال سے قبل اور ان کے بعد تلاش کرنا سعی لاحاصل ہے، اس لیے اس حقیقت کا اعتراف کرلینے میں عافیت ہے کہ اقبال کا لہجہ اور فکری نظام اقبال پر ہی ختم ہوگیا۔ اب کسی شاعر پر اقبال کی چھوٹ تو پڑسکتی ہے، اس کی کلّیت کا دوبارہ ظہور ممکن نہیں ہے۔
لیکن اقبال کے بعد شعری اسالیب میں جو تبدیلیاں آئیں اور شاعری میں، بالخصوص نظم گوئی میں جو فکری رو داخل ہوئی اُس کے اثرات آج کی حمدیہ شاعری پر پڑے، اور ان اثرات کی وجہ سے حمدیہ شاعری بھی شعری جمالیات سے قریب تر ہوگئی اور اس شاعری میں صرف مافیہ، مواد یا متن (Text) ہی لائقِ توجہ نہ رہا بلکہ اسلوبِ بیاں بھی مرکز ِنگاہ بننے لگا۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد شعراء و ادبا کو اپنی شناخت کے مسئلے سے دوچار ہونا پڑا تو کچھ شعراء و ادباء تو پاکستانی ثقافت کی بنیادوں کی تلاش میں دور تک نکل گئے اور کچھ ان بنیادوں میں دہریت (Secularism) کے عناصر داخل کرنے میں مصروف ہوگئے۔ لیکن جن شعراء و ادبا نے تحریک پاکستان کے اصل مقاصد سے وابستگی کو اپنی بقا کے لیے ضروری جانا، انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا رخ اسلامی ادب و شعر کی آبیاری کی طرف موڑ دیا۔ نتیجتاً حمدونعت کی شاعری کا ایک واضح رجحان پیدا ہوگیا جس کے باعث نعتیہ شاعری کو ادبی سطح پر اس طرح ابھر نے کا موقع ملا کہ اس عہد کی شعری تحریکوں میں نعت گوئی کی تحریک ہی غالب تحریک ٹھیری۔ نعت کے مقابلے میں حمد کم لکھی گئی جس کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ انسان کی نظر خوگرِ پیکر محسوس ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ والا صفات ورالوریٰ ہے۔ حمد و نعت کی طرف شعراء کے عمومی میلان نے یہ اثر دکھایا کہ وہ شعراء بھی اس طرف متوجہ ہونے لگے جو شعر گوئی کی نزاکتوں اور ادبی ضرورتوں سے آگاہ تھے، چناں چہ ان شعراء نے جب حمدو نعت کے موضوعات کو اپنایا تو اپنا شاعرانہ وقار برقرار رکھا اور اس طرح شاعری کی ان اصناف پر بھی جدید شاعری کے وہ تمام اسالیب اثرانداز ہونے لگے جو عمومی شاعری کو اپنی گرفت میں لے چکے تھے۔
اسلوب (Style) موضوع کے انسلاک سے بھی بنتا ہے، صنفِ سخن کی ہیئت کے حوالے سے بھی وجود میں آتا ہے، اور زندگی پر پڑنے والے اجتماعی عمرانی اثرات کے تخلیقی انعکاس سے بھی اپنی نمود پاتا ہے۔ انفرادی اسلوب، ذاتی لہجہ اور مخصوص شاعرانہ طرزِ ادا پانے والے شعرا تو دنیا کی تمام زبانوں کی طرح اردو میں بھی گنے چنے ہیں۔ اس مضمون میں تو ایسے شاعروں میں سے صرف دو ہی مذکور ہوئے ہیں: غالب اور اقبال۔ لیکن شاعری کی اجتماعی فضا پر تخلیقی رجحانات، ادبی میلانات، عصری حسیت، لسانی رویوں، سائنسی شعور اور طرز احساس نے جو اثرات بھی مرتب کیے ہیں ان اثرات کا انعکاس حمدیہ شاعری پر بڑا واضح ہے۔
ایسے سوالات کے ذریعے وجودِ باری تعالیٰ ثابت کرنے کی کوشش کرنا جن کا جواب صرف اور صرف اثبات ہی میں دیا جاسکے، متکلمین کا وتیرہ رہا ہے۔ شعرا میں غالب نے استفہامیہ لہجہ اختیار کیا۔ ہمارے عہد میں اس سوال پر بھرپور طریقے سے سوچا گیا اور اس سوال کے مختلف رنگ حمدیہ شاعری میں بکھیرے گئے ہیں۔ حفیظ تائب نے مظاہرِ کائنات کی مادی صداقتوں کے حوالے سے اس سوال پر غور کیا اور صنعت ترصیع و تکرار لفظی کے جمالیاتی تاثر سے اپنی حمدیہ شاعری کو ایک خوبصورت تخلیقی پیکر میں ڈھالا ہے۔ واضح رہے کہ صنعتوں کو محض صنعت گری کے لیے برتنے والے شاعر عام طور سے لفظوں کے بڑھئی (Carpenter of words) تو بن جاتے ہیں، شاعر نہیں بن پاتے۔ لیکن حفیظ تائب نے بہ یک وقت دو شعری صنعتوں کو اپنی تخلیقی جینئس کا حصہ بناکر حمد کہی ہے جس سے شاعری میں دلکشی بھی پیدا ہوگئی ہے اور فلسفیانہ گہرائی بھی۔
کس کا نظام راہ نما ہے اُفق اُفق
کس کا دوام گونج رہا ہے اُفق اُفق
شانِ جلال کس کی عیاں ہے جبل جبل
رنگِ جمال کس کا جما ہے اُفق اُفق
کس کے لیے نجوم بکف ہے روش روش
بابِ شہود کس کا کھلا ہے اُفق اُفق
کس کے لیے سرودِ صبا ہے چمن چمن
کس کے لیے نمودِ ضیاء ہے اُفق اُفق
مکتوم کس کی موجِ کرم ہے صدف صدف
مرقوم کس کا حرفِ وفا ہے اُفق اُفق
کس کی طلب میں اہلِ محبت ہیں داغ داغ
کس کی ادا سے حشر بپا ہے اُفق اُفق
سوزاں ہے کس کی یاد میں تائبؔ نفس نفس
فرقت میں کس کی شعلہ نوا ہے اُفق اُفق
وجودِ باری تعالیٰ کے حوالے سے پیدا ہونے والے سوال کی پر چھائیاں بڑے شاعرانہ اسلوب اور خلاقانہ عمل کے ساتھ عاصی کرنالی نے اپنی حمدیہ شاعری میںاُبھاری ہیں۔ فکری ترفع اور تخلیقی لطافتِ احساس کا مرقع دیکھنا ہو تو ان کی درج ذیل حمد ملاحظہ فرمائیے:
مشتِ گِل کو آدم زندہ بنا دیتا ہے کون
دل میں احساسات کی شمعیں جلا دیتا ہے کون
کون میرے ذہن میں کرتا ہے مضمونوں کی کاشت
میرے آگے شعر کے خرمن لگا دیتا ہے کون
ہاتھ کس کا شب کی زلفوں میں پروتا ہے نجوم
صبح کے رخسار پر سورج سجا دیتا ہے کون
کس کا دشتِ نقش گر کرتا ہے مٹی پر عمل
فرش پر خوش رنگ تصویریں بچھا دیتا ہے کون
کون رکھ دیتا ہے شب کو نطق بلبل میں غزل
صبح دم کلیوں میں چھپ کر مسکرا دیتا ہے کون
جب مسافر کے قدم رک جائیں ہمت ٹوٹ جائے
منزلِ امید پر آکر صدا دیتا ہے کون
کس کا پا کر حکم پھر جاتے ہیں طوفانوں کے رُخ
ڈوبتی کشتی کو ساحل پر لگا دیتا ہے کون
جب حجاب روبرو چھونے کو ہوتی ہے نظر
دیدۂ تحقیق پر پردے گرا دیتا ہے کون
جس کے دریا میں سفینوں کی طرح بہتے ہیں ہم
ہاں اسی نادیدہ قوت کو خدا کہتے ہیں ہم
ریاضؔ حسین چوہدری نے بھی اسی حوالے سے نقشِ فن ابھارے ہیں۔ ان کی کاوشِ فن میں اسلوب کی جدت، لفظیات کی نادرہ کاری اور اپنی داخلی کیفیات کے حوالے سے ربِّ کائنات کی حمدکرنے کا رجحان جھلکتا ہے:
لذتِ غم کو محیطِ داستاں کس نے کیا
دل کی ہر دھڑکن کو پابندِ فغاں کس نے کیا
کس نے مجھ کو بخش دی لوح و قلم کی مملکت
آب و گل کی کشمکش کا ترجماں کس نے کیا
کس کے اذنِ عام سے سرگوشیاں کرتا ہے دل
منحرف چہروں کا اس کو رازداں کس نے کیا
ان ہوائوں کو دیا کس نے تغیر کا نصاب
آبشاروں کو پہاڑوں سے رواں کس نے کیا
ہر کلی کے دامنِ صد چاک میں رکھ کر گلاب
ہر برہنہ شاخ کو رشکِ جناں کس نے کیا
نام کس کا ہے جزیروں کی سحر کے وردِ لب
پھر ہوا کو کشتیوں کا بادباں کس نے کیا
کس نے لکھی ہے درودوں سے کتابِ ارتقا
حور و غلماں کو بھی اپنا ہم زباں کس نے کیا
کس نے مدحت کے چراغوں کو شعاعِ نور دی
ایک شاعر کو حریفِ کہکشاں کس نے کیا
خوشبوئوں کو کس نے بخشا ہے تکلم کا ہنر
تتلیوں کو ملک گل کا حکمراں کس نے کیا
آخرِ شب کون سلجھاتا ہے میری اُلجھنیں
ماسوا اس کے علاجِ دردِ جاں کس نے کیا
کس نے توصیفِ پیمبر کا کیا منصب عطا
مجھ کو مداح شہؐ کون و مکاں کس نے کیا
تابش نعت نبیؐ کو کس نے بخشا ہے دوام
میرے فن کی چاندنی کو جاوداں کس نے کیا
ہر قدم پر منزلوں نے نقشِ پا چومے ریاضؔ
اپنی رحمت کو شریکِ کارواں کس نے کیا
تشکیک، لاادریت (Agnosticism) اور بے یقینی و لادینی کے زیراثر وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں مختلف النوع سوالات اُبھرتے رہے ہیں۔ متکلمین، فلاسفہ، علمائے دین اور اہلِ دانش و بینش اپنے اپنے انداز میں ان سوالات کے جوابات دیتے رہے ہیں۔ شاعر، ان سوالات پر غور کرتا ہے تو تخلیقی لطافت، فکری نظافت اور لہجے کی صباحت میں جواب دیتا ہے۔ شاعر کا جواب سازِ اندروں کے تار چھیڑنے کے لیے مضراب کا کام کرتا ہے۔ غالب نے کہا تھا:
محرم نہیں ہے تُو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
اور افتخار عارف بے یقینی کے گنبد میں اس طرح اذانِ یقین دیتے ہیں:
ہوا کے پردے میں کون ہے جو چراغ کی لو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
جو خلعتِ انتساب پہنا کے وقت کی رو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
حجاب کو رمزِ نور کہتا ہے اور پر تو سے کھیلتا ہے
کوئی تو ہوگا
’’کوئی نہیں ہے‘‘
کہیں نہیں ہے
یہ خوش یقینوں کے، خوش گمانوں کے واہمے ہیں
جو ہر سوالی سے
بیعتِ اعتبار لیتے ہیں
اس کو اندر سے ماردیتے ہیں
کون ہے وہ جو لوحِ آبِ رواں پہ سورج کو ثبت کرتا ہے
اور بادل اچھالتا ہے
جو بادلوں کو سمندروں پر کشید کرتا ہے اور بطنِ صدف میں
خورشید ڈھالتا ہے
وہ سنگ میں آگ، آگ میں رنگ، رنگ میں روشنی کے
امکان رکھنے والا
وہ خاک میں صوت، صوت میں حرف، حرف میں زندگی کے سامان رکھنے والا
نہیں کوئی ہے
کہیں کوئی ہے
کوئی تو ہوگا! (مکالمہ)
(جاری ہے)
افتخار عارف نے بے یقینی کے گنبد میں دراڑیں ڈالیں تو صبیح رحمانی نے احساس کی قندیل روشن کرتے کرتے براہِ راست رب تعالیٰ کے وجود کی نشاندہی کردی اور یقین کی کیفیت کو حسیاتی سطح پر بیان کی روشنی سے ہم کنار کردیا:
فصیل پر ہیں ہوا کی، روشن چراغ جس کے
سیاہ راتوں میں جس نے روشن شجر کیے ہیں
رقم چٹانوں پہ راز ہائے ہنر کیے ہیں
وہ جس کی رحمت نے دشت کے دشت
سبزہ و گل سے بھر دیے ہیں
وہ جس کی مدحت میں حرف و آواز گنگنائیں
خموشیاں جس کے گیت گائیں
وہ جس کے جلوے اُفق اُفق ہیں
وہ جس کی کرنیں شفق شفق ہیں
ازل سے پہلے
ابد سے آگے
اسی کو ہر اختیار حاصل
اسی کو عزو وقار حاصل
وہ ایک مالک
اسی کا سب ہے
وہی تو رب ہے
کائنات کے مشاہدے کے ذریعے نگاہِ تصور سے ذاتِ واجب الوجود تک رسائی اور غیب الغیب حقیقتِ کبریٰ کا ادراک، شعرا کو وجدانی سطح پر ہوتا ہے اور وہ اس ادراک کو جب شعر کا جامہ پہناتے ہیں تو اپنے تجربے کو اس طرح بھی جزوِ ہنر بناتے ہیں جس طرح محسن احسان نے اپنے احساسات کو لفظوں میں ڈھالا ہے:
سرِ افلاک ہے وہ اور تہہِ دریا وہ ہے
ذرۂ خاک سے ہر آن ہویدا وہ ہے
شبنمِ صبح میں وہ اور شفقِ شام میں وہ
کتنی شکلوں سے مری روح میں اترا وہ ہے
اس کا احساس دلاتی ہے سیاہی شب کی
نورِ خورشید میں ہر لمحہ دمکتا وہ ہے
پپڑیاں جمتی ہیں جب خشک زمیں کے لب پر
رحمتیں بن کے گھٹائوں سے برستا وہ ہے
سینۂ سنگ میں کرمک کو بھی دے رزق مدام
یہ حقیقت ہے کہ ہر ذات کا داتا وہ ہے
نوک ہر خار پہ جب رقص میں ہو اوس کی بوند
دل پہ یہ راز کھلے ارفع و اعلیٰ وہ ہے
آدمی نے کئی اصنام تراشے لیکن
آخرش سمجھا فقط لائقِ سجدہ وہ ہے
اک نظر دیکھ کہ اے بے خبر کاوشِ رنگ
پس ہر پردۂ گل انجمن آرا وہ ہے
نعمتیں اس کی میں جھٹلائوں تو جھٹلا نہ سکوں
میرا رازق، مرا مالک، مرا ملجا وہ ہے
اس حمدیہ کاوشِ ہنر میں کائناتی مشاہدہ، اپنی ذات کا روحانی سفر، تاریخی شعور اور احساسِ تشکر اس خوب صورتی سے شعری پیکر کا حصہ بنے ہیں کہ قاری کو عظمتِ خالق کا احساس بھی ہوتا ہے اور ایک قسم کی روحانی مسرت بھی میسر آتی ہے۔ متصوفانہ شاعری میں قرآن کریم کی آیت ’’ونحن اقرب الیہ من حبل الورید‘‘ (آیت 16 سورہ ق پ26) (اور ہم اس کی رگِ گردن سے بھی بڑھ کر اس کے قریب ہیں) کے داخلی تجربات کو بھی بیان کیا گیا ہے اور اس طرح کی باتیں کی گئی ہیں کہ میری جان بھی تُو ہے، میرا ایمان بھی تُو ہے اور میرا سب کچھ تُو ہی ہے۔ مقبول نقش نے اس تجربے کو شاعرانہ نقشِ جمیل میں اس طرح ڈھالا ہے کہ ان کا ذاتی احساس کائناتی حوالہ معلوم ہونے لگا ہے۔ مقبول نقش کے بیان میں شعریات کی باز آفرینی کا عمل بھی ہے اور جدید اسلوب کا نمونہ بھی!
حاصلِ ہر نفس بھی تُو، منزلِ ہر نظر بھی تُو
شوقِ تمام کے لیے زادِ رہِ سفر بھی تُو
فکر مری شکستہ پا، ذکر ترا کروں تو کیا
واقعہ بعد ازاں بھی تُو، قصۂ پیشتر بھی تُو
کیسا نشیب اور فراز، یہ تو ہے اک حجابِ راز
شاخِ بلند تر بھی تُو، حسرتِ بال و پر بھی تُو
حسنِ نظر کی بات ہے، ذوقِ سفر کی بات ہے
منزلِ دل نشیں بھی تُوُ، جلوۂ رہ گزر بھی تُو
پھیلے ہوئے ہیں میرے ہاتھ اور اسی یقیں کے ساتھ
فلسفۂ دعا بھی تُو، فلسفۂ اثر بھی تُو
ہنستا ہے مجھ پہ آج بھی یہ مرا دامنِ تہی
پھول بھی تُو ثمر بھی تُو، شاخ بھی تُو، شجر بھی تُو
اہلِ نظر کی این و آں، نقش کے واسطے کہاں
نقش کا رنگِ فن بھی تُو، نقش کا نقش گر بھی تُو
حمدِ باری تعالیٰ کے بہت سے پہلو تو صرف انسان کی اپنی ذات اور اس وسیع کائنات کے بارے میں غور و فکر کرنے سے ہی نکل آتے ہیں۔ شاعر اپنے موضوع کے ساتھ جتنا مخلص اور شعری آہنگ سے جتنا مانوس ہوتا ہے، فکر کے موتی اور فن کے گوہر اسی قدر دامن قرطاس میں بھر لیتا ہے۔ شاعر اپنی سانسوں کی آمد و شد پر غور کرتا ہے تو اسے ہر دھڑکن اور سانسوں کے زیر وبم میں حمد کی آواز سنائی دیتی ہے:
اپنے رب کی حمد و ثناء میں
دھڑکن کا مدھم آہنگ ہو
یا سانسوں کے زیر وبم کا
اک بے نام تسلسل
کیا ہے؟
اگر یہ تسبیح و تہلیل نہیں ہے؟
(وظیفہ گردش لہو، سرشار صدیقی)
شاعر تو جب اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں پر بھی غور کرتا ہے تو اسے ہر اسم میں حمد مضمر نظر آتی ہے۔
خوبیوں کے تری شایاں کلمہ ہے نہ کلام
تیرے ہر اسم میں مضمر ہے مگر حمد تمام
(حشمت یوسفی)
منور بدایونی نے اپنی ذات کا سفر کیا تو یہ حقیقت کھلی کہ ان کا دل ہی چراغِ طور بن گیا ہے۔
منور میں نے جب دل پر نظر کی
منور اک چراغِ طور دیکھا
(منوربدایونی)
پہلے حمد ربّ العزت میں اس کے جلال کی ہیبت کا احساس جھلکتا تھا تو اب جدید شاعر رب کائنات کے جمالِ جہاں آراء کا متلاشی ہو کر اسے نیم رومانی لہجے میں یاد کرتا ہے اور حمدیہ شاعری کرتے ہوئے اپنی شخصیت کا بھرپور تداخل (Involvement) ظاہر کرتا ہے۔
اے خدا!
میری دعا ہے
کہ گجر دم کی پر اسرار فضائوں میں
ترانطق
کسی شاخِ برہنہ پہ اترتی ہوئی چڑیا کی طرح
میرے دل میں
کسی بے نام سے احساسِ مسرت سے
مسلسل چہکے!
(احمد ندیم قاسمی)
رب تعالیٰ سے اس طرح مخاطب ہونے میں مُلَّا کی خشیت کے بجائے صوفی کی بے باکی ظاہر ہوتی ہے، لیکن اس پکار میں داخلی کیفیات کا بھرپور عکس موجودہ ہے۔ آج کی شعری کاوشوں میں داخلیت کا عنصر اس لیے غالب ہے کہ خارجی ماحول ایک عذاب بن گیا ہے۔ آشوبِ امروز کا علاج قوموں اور افراد نے ہمیشہ داخلیت کی پناہ میں جاکر کیا ہے۔ شعرا کا تو وتیرہ ہی یہ رہا ہے کہ جہاں عیش و آرام کی زندگی میسر آئی انھوں نے ظاہر پرستی شروع کردی اور خارجی ماحول کی رنگینیوں کو شعر کا موضوع بنا لیا… لیکن جہاں زمانے نے آنکھیں پھیریں اور دن کڑے ہونے لگے، وہ داخلی دنیا میں کھو گئے۔ لکھنوی اور دہلوی دبستانوں کا فرق یہی تو ہے۔
بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ میں یہ عرض کررہا تھا کہ آج پوری دنیا میں جو خوف و ہراس کا عذاب آیا ہوا ہے اور دانشِ حاضر نے جو قیامت برپا کررکھی ہے اس کا اثر ادب میں مختلف قسم کے رجحانات کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ حمدیہ شاعری میں جو تصورِالٰہ اُبھرا ہے اس میں بھی رومانویت کے عناصر صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان عناصر کو ملائیت قبول کرے یا نہ کرے، تصوف کی روایت سے آگاہ اور شعر کی داخلیت کے پرستار اس رجحان کو ضرور سراہیں گے۔ دیکھیے اسی طرز احساس نے حنیف اسعدی کو رب سے شاعرانہ مکالمہ (Poetic discourse) کرنے کا کیسا سلیقہ ارزانی کیا ہے:
روح میں، تن میں، رگ و پے میں اتاروں تجھ کو
اور پھر دل کی صدا بن کے پکاروں تجھ کو
تیرے مظہر ہیں مری ذات کے زنداں میں اسیر
خود کو پامال کروں اور ابھاروں تجھ کو
(حنیف اسعدی)