Search This Blog

Showing posts with label SCIENCE. Show all posts
Showing posts with label SCIENCE. Show all posts

Friday, 27 April 2018

حشراتُ الارض

حشراتُ الارض

قاضی مظہر الدین طارق

یہ حشرات کی دنیا ہے،اب تک صرف حشرات’انسیکٹس‘ کی نو لاکھ مختلف اَقسام ’اسپیشیز‘ اس زمین پر شناخت کی جا چکی ہیںجو سب قبیلوں میں سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔خیال ہے کہ بیس فیصد اور بھی ہیں جن کو اب تک شناخت نہیں کیا جا سکا ہے،(یاد رہے یہ صرف چھے پیر والے کیڑوں مکوڑوں کی بات ہو رہی ہے،چھے سے زیادہ پیروں والے جیسے: مکڑی، کیکڑے، صد پا ،وغیرہ۔اور دیگر سارے ’آرتھوپوڈز‘ ان میں شامل نہیں) ۔
یہ تو دور کی بات ہے کہ زمین پر ہم کواِن سے کیا فائدہ ہے ،اِن کی سب سے بڑی اہمیّت یہ ہے کہ اگرکسی بھی وجہ سے ان کی ساری یاچند نسلیںبھی ختم ہو جائیں تو سبزیاں اور پھل جو ہم مزے لے کر کھاتے ہیں زمین سے ناپید ہو جائیں گے ،نہ شہد ہوگا نہ ریشم ،کیا یہ کچھ کم نقصان ہوگا؟
صرف ایک شہد کی مکھی اتنے پھلوں اور سبزیوں کی ’پولی نیشن‘ میں مدد دیتی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتی توہم شہد کے علاوہ تین چوتھائی پھلوں اور سبزیوں سے محروم ہو جاتے۔
اس کے بر خلاف اگر سب انسان بھی اس زمین سے رُخست ہوجائیں تو اس زمین کی زندگی پر کچھ نمایاں فرق نہ پڑے سوائے اس کے کہ چند جونؤں اور پیٹ کے کیڑوں کو غذا کی تلاش میںذراسی مشکل ہوگی۔
پھردوسرے جانوروں کے مقابلے میںحشرات کی زندگی بھی عجیب زندگی ہے۔پیدا ہونے کے بعد، چارچار،چھے چھے، آٹھ آٹھ بالکل مختلف شکلیں تبدیل کرکے جوان ہوتی ہیں۔
حشرات اُس خاندان ’فائیلم ‘سے تعلق رکھتے ہیں جس کا نام ’آرتھو پوڈا‘ ہے۔’آرتھو‘ معنی جُڑے ہوئے، ’پوڈ‘معنیٰ پیر۔ان کے جسم کی ساخت کو قائم رکھنے کے لئے جسم کے اندر زِندَہ ہڈیوں کے بجائے باہر مُردہ خَول ہوتا ہے،جب یہ پیدا ہوکر نشونما پاتا ہے تو ان کے جسم کے لئے پرانا خَول چھوٹا پڑجاتا ہے ۔ہربار ان کو اپنا خول توڑ کر باہر آنا پڑتا پھر ان کو نیا خَول ملتا ہے۔
پھراِن میںکسی کی آدھی سے زیادہ زندگی پانی کے اندر گزرتی ہے،کوئی پھولوں کا رس چوستا ہے تو کوئی خون،کوئی دوسرے کیڑوں کو کھاتا ہے توکوئی اپنے سے بڑے جانوروں کا گوشت، تو کوئی نباتات۔
سب سے حیرت انگیززندگی ریشم کے کیڑے کی ہے ،جوجوان ہونے کے بعد کچھ کھاتا ہی نہیں صرف انڈے دیتا ہے اور مرجاتا ہے۔
اس صفحے پر ہم صرف چند ایک نمونے ہی پیش کر یں گے۔

شہد کی مکھیاں

اس کی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم،ملکہ مکھی :اس کے پیدا ہو کر بڑا ہونے تک ۱۶ دن لگتے ہیں ،اس کی زندگی۲سے ۳ سال کی ہوتی ہے ۔
دوسری قسم، مَکّھے(ڈرونز):ان کوپیدا ہوکربڑے ہو نے تک۲۴ دن لگتے ہیں،ان کی زندگی دو ہفتے کی ہوتی ہے۔
تیسری قسم، مزدور مکھی(ورکر)،۲۱دن میں بڑی ہوتی ہے،اور ۶ہفتے تک زندہ رہتی ہے۔
ایک چھتّے میں تقریباًپچاس ہزار مکھیاں ہوتی ہیں۔
ملکہ مَکّھی کا کام صرف انڈے دینا ہے۔ایک چھتّے میں ایک سے زیادہ ملکہ مکھیاں پیدا ہوجائیں ، تو ایک مکھی کا فرض ہرتا ہے کہ وہ اپنی سب بہنوں کو ختم کر دے۔ملکہ مکھی اپنے چھتّے سے دور جا کردوسرے مَکھے تلاش کرتی ہے۔
مَکّھے ، ملکہ مکھی کو ڈھونڈ کر ان سے ملتے ہیں اوراس کے بعد فوراً ہی مرجاتے ہیں۔
پھرملکہ اپنے چھتّے میں واپس آکر اس کے ہر خانے میں ایک انڈہ دیتی ہے،تین سے چار دن میں اس میں سے لاروا نکلتا ہے، جس کو مزدور مکھی کھلاتی ہے۔
جب کئی مرتبہ جون تبدیل کرنے کے بعد لاروا بڑا ہوجاتا ہے تو آخر میںپیوپا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
پیوپا کے اندردو ہفتے تک زبردست تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جس کے بعد وہ مکھی بن کر اپنے سخت اور مُردہ خَول کو توڑ تی ہے اور خانے سے باہرآ جاتی ہے۔

تتلیاں

یہ درخت کے پَتَّوں پر انڈے دیتی ہیں،اس سے رینگنے والا کیڑے’کیٹرپلّرز‘پیدا ہوتے ہیں ،جواِن ہی پَتَّوں کو کھاتے ہیں، بڑے ہوتے جاتے ہیں،خَول بدلتا جاتا ہے ،پھرآخر میں خود اپنے اطراف ایک خَول بنا کر خود ہی اس میں قید ہو جاتے ہیں،ہے کوئی جو اپنی مرضی سے اپنی قید خود پسند کرے؟ اس کی زندگی کے اس حصے کو ’پیوپا‘ کہتے ہیں،دیکھنے میں تو یہ مُردہ لگتا ہے کھاتاہے نہ پیتا ہے، لیکن اس کے اندر اتنا زبردست کام ہورہا ہے جو باہر سے نظربھی آتا ہے،پورے کاپورا ڈزائین ہی تبدیل ہوتا ہے، ایک رینگنے والے کیڑے سے ایک اُڑنے والی تِتْلِی بن کر باہر آ رہا ہے،اس میں حیرت بھی ہے اور غور و فکر کا اعلیٰ مقام بھی۔
آئیے !آج ایک بالکل نئی دنیا کی طرف چلتے ہیں۔

کھٹمل

اِس کی زندگی ان تینوں سے مختلف ہے۔سب سے پہلے انڈے سے ایک بچہ نکلتا ہے جس کو ’نِمْف‘ کہا جاتا ہے،یہ بچہ تقریباً اپنے ماں باپ جیسا ہی ہوتا ہے،صرف رنگ کا فرق ہوتا ہے، شروع میں یہ بہت چھوٹا اوراِس کا رنگ بالکل ہلکہ ہوتا ہے،جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے ،اس کارنگ بھورا پھر سُرخ ہوتا جاتا ہے۔
خاص کر’نمف‘بچے انسانی خون زیادہ پسند کرتا ہے،جب یہ خون پی کر اپنے سخت اور بے جان خَول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے،توپھر رب تعالیٰ اس کو دوسرا خَول عطا کرتا ہے،اس کو بچپن سے جوانی تک پانچ بار اپنا خَول بدلنا ہوتا ہے،پانچویں بار جب یہ اپنی جون بدلتا ہے تو مکمل جوان ہو چکا ہوتا ہے،اب وہ جو خون پیتا ہے تواس کارنگ زیادہ سُرخ اور پیٹ لمبا ہو جاتا ہے۔
توجہ کیجیے! اب تک ’اِنسیکٹس ‘کی نولاکھ(۰۰۰,۹۰۰) مختلف اَقسام’اسپیشیز‘دریافت ہو چکی ہیں ۔ان کو دریافت کرنے والوں،نام رکھنے والوں،پڑھنے اور پڑھانے والوں میں کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جو کہے کہ’’اللہ کے پاس ’چوآئیس‘نہیں تھی،اُس نے جو بنادیا سو بنادیا،‘‘۔اس زمین پر زندگی کاربن کی بنیاد پر ہے،کیا وہ چاہتا تو سیلیکون کی بنیاد پر حیات کو تشکیل نہیںدے سکتا تھا؟

چیونٹیاں

اس کی بھی تین قسمیں ہوتی ہیں:
پہلی قسم ،ملکہ چیونٹی۔
دوسری قسم،نر چیونٹا’ڈرون‘۔
تیسری قسم،کام والی’ورکر چیونٹی‘۔
ملکہ چیونٹی ہزاروں کی تعداد میں انڈے دیتی ہیں۔اِن سے تین قسم کے لاروے نکلتے ہیں، جن کو کام والی چیونٹیاں غذا تیار کرکے فراہم کرتی ہیں۔لاروے کھا کھا کر جب موٹے ہوتے جاتے ہیں تو ہر بار اپنا نر م خَول بدلتے جاتے ہیں۔
پھرآخر میں وہ لاروے سخت خَول والے پیوپوں میں خود اپنے آپ کو بند کر لیتے ہیں۔اور پیوپوں میں خالق جیسے چاہتا اُن کو نرم کیڑوں سے بالکل مختلف ڈیزائیں میں بنا کر باہر نکال ے آتا ہے، اِن میں سے چند ملکہ بناتے ہیں چند سونر چیونٹے’ڈرونز‘ بناتے ہیں، اور لاکھوں کی تعداد میں کام والی چیونٹیاں ’ورکر‘مادہ پیدا کرتے ہیں مگریہ انڈے نہیں دے سکتیں۔
کام والیاں کئی قسم کی ہوتی ہیں،پورے کنبے کی حفاظت کرنے والیاں’فوجی‘،باہر سے پتّے دانے لانے والیاں’شکاری‘، اِن کو جراثیم سے پاک کرنے والی ’صفائی والیاں‘،پھروہ چیوٹیاں جو سخت دانوں اور پتّوں کو خانوں میں جما کر اِس سے نرم پھپوند اُگاتی ہیں ’کاشتکارچیونٹیاں‘، تب جاکرلاروں اور پورے کنبے کو کھلاتی ہیں۔
اِن سب کے اعضاء اِن کے کام کے مطابق ہوتے ہیں،جیسے فوجی کے کاٹنے والے،شکاری چبانے والے ،صفائی والوں کے منہ سفنج جیسے تاکہ اِس سے وہ اپنے انزائیمز کا پوچا لگا سکیں۔

Friday, 23 February 2018

How Islam Created the Modern World : Mark Graham

How Islam Created the Modern World

By: Mark Graham

In a clear and concise language, Mark Graham endeavours to show in his book How Islam Created the Modern World the decisive influence of the civilisation of Islam in setting the stage for the modern world.

Review of How Islam Created the Modern World by Mark Graham. Beltsville, Maryland: Amana Publications, 2006. Hardcover, 208 pages. ISBN-10: 1590080432 - ISBN-13: 978-1590080436.

For several centuries, corresponding to the European Middle Ages, Baghdad was the intellectual center of the world. It was there that a huge community of translators and scholars appropriated in Arabic culture the knowledge of ancient civilisations and combined it with the cultural traditions and imperatives of the Islamic context to create a scientific, mathematical and philosophical golden age.

This golden age of Islam embraced all the products of human spirit practiced at that time, including different scientific disciplines, medicine, symbolic and artistic creation, social organisation and material culture, including productive branches12 of applied knowledge in industry, architecture and the making of instruments.

These accomplishments were so numerous and original that they realised an unprecedented stage of civilisation and occupied a high rank in human creation. Being unique and at the front of inventivity, they gained the admiration of other peoples who were aware of the existence of these treasures. Hence a dynamic process of transmission was set up between the Muslim and the Latin worlds all over the Mediterranean coasts.

This transfer process was progressive and uninterrupted for several centuries, mainly in the Andalus, but also in Sicily, Southern France and in the Middle East during the Crusades.

At the dawn of the Renaissance, Christian Europe was wearing Persian clothes, singing Arab songs, reading Spanish Muslim philosophy and eating off Mamluk Turkish brassware. This is the story of how Muslims taught Europe to live well and think clearly. It is the story of how Islam created the Modern World.


It is this story of civilisation that Mark Graham describes in his book. Who would have thought an Edgar-winning mystery novelist could explain to us in clear, concise language that without Islam, western civilization as we know it might not exist? Underlying that dramatic proposition is an important thesis: The ongoing debate about a supposed "clash of civilizations" misses the reality that Islam and the West developed from essentially the same roots and, despite their rivalry, helped each other in profound ways along the path to "civilisation". In fact, the West and Islam can be viewed as merely different faces of the same civilization. He explains how Arabic-speaking Muslims not only preserved the scientific and philosophical knowledge of the Greeks but also "made it their own", greatly extending and improving on it. For example, the newly developed concepts of Andalusian philosopher Ibn Rushd (Averroes) found their way into western universities, where they were viewed as challenges to church orthodoxy and ushered in the beginnings of the scientific method.

Muslim thinkers, poets and scientists set the stage for the European Renaissance: Graham points out specific borrowings in Dante's Divine Comedy from the works of the great Andalusian writer Ibn ‘Arabi, and shows how these intercultural transfers were likely mediated by Dante's mentor Brunetto Latini, who had brought back learning from the libraries of Toledo, where, even after the Christian reconquista Muslims and Christians continued to live together and to work along the same paths as when the Muslims were the rulers of the Iberian peninsula.


In other places of his book, Graham shows more concrete ways in which the West is indebted to Islam: A Mongol invasion of Europe was thwarted when Egypt's Mamluk army defeated the Mongols at ‘Ain Jalut, Palestine, in 1260. Imagine how different the West would be today if the Mongols had triumphed! As it turned out, the West never again faced the threat of Mongol invasion after ‘Ain Jalut, and the breather which thus provided Europe a chance to absorb what Graham terms "the other great gift of Islam—knowledge".

Mark Graham is a mystery novelist whose works were translated in several languages. He is the winner of the Edgar award. He studied medieval history and religious studies at Connecticut College and has a Master's degree in English literature from Kutztown University. He lives in the Lehigh Valley, Pennsylvania.
Contents of the book
Acknowledgements 9
Foreword 11
Introduction 15
Chapter 1: Islam becomes an empire 17
Chapter 2: The House of wisdom 37
Chapter 3: Hippocrates wears a turban 51
Chapter 4: The great work 63
Chapter 5: Beyond the Arabian nights 77
Chapter 6: Islam's secret weapon 97
Chapter 7: A medieval war on terror 117
Chapter 8: The first World war 139
Chapter 9: Raiders of the last library 157
Chapter 10: Children of Abraham, children of Aristotle 175
Appendix 1: What the Qur'an says 183
Appendix 2: Arabic words in English 185
Further reading 189
Index 197
Further reading
"Centuries in the House of Wisdom", The Guardian, Thursday September 23, 2004. Online here.
"Ibn Tufayl, Abu Bakr Muhammad (before 1110-85)", online here.
Islam and Islamic History in Arabia and The Middle East: The Legacy. Online here.
MacDonald, Duncan B. Development of Muslim Theology, Jurisprudence and Constitutional Theory [1903]. Online on The Internet Sacred Text Archive here.
Morgan, Michael Hamilton, Lost History: the Enduring Legacy of Muslim Scientists, Thinkers and Artists.Washington DC: The National Geographic Books 2007. Lost History Homehere.
Leaman, Oliver1998. "Islamic philosophy", in E. Craig (Ed.), Routledge Encyclopedia of Philosophy. London: Routledge. Retrieved August 23, 2007, from here.
Courtesy: http://www.muslimheritage.com/article/how-islam-created-modern-world

Friday, 5 January 2018

بن الہیثم ایک عظیم مسلمان سائنس دان ۔ Al-Haitam a great scientist




ابن الہیثم
ایک عظیم مسلمان سائنس دان

(امیر سیف اللہ سیف)
یورپی ماہرین عام طور پر یہ باور کراتے ہیں کہ نشاط ثانیہ کے دور کے تمام عرصے میں دنیا میں کوئی بڑی سائنسی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مغربی یورپ کی حد تک تو اس بیان میں حقیقت ضرور ہے کیونکہ اس عرصے میں تمام مغربی یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن یہ بات دنیا کے دوسرے حصوں اور خاص طور پر عرب دنیا کی حد تک قطعی غیر حقیقی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ مغربی مورخین اپنےحسد اور تعصب کے باعث اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکا ر کرتے ہیں یا کم از کم اس حقیقت کو بیان کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔
نویں اور تیرہویں صدی کے درمیانی عرصے میں عرب اور مسلمان سائنس دانوں نے سائنس کی مختلف شاخوں میں جوتحقیق کی اور تجربات کی روشنی میں جو اصول وضع کیے وہ موجودہ ترقی یافتہ سائنس کے لئے بنیادبنے۔ اس عرصے میں عرب دنیا میں ریاضی، فلکیات، طب، طبعیات، کیمیا اور فلسفے کے میدان میں بہت کام کیا گیا۔ اس دور میں مسلمان سائنس دانوں نے محیر العقول تحقیق کی اور ان کے قائم کردہ نظریات کو جدید ترین تحقیق بھی غلط ثابت نہیں کر سکی۔ اس تمام عرصے میں عرب اور خاص طورپر مسلمان دنیا میں سائنسی علوم میں جس قدر تحقیق و ترقی ہوئی وہی جدید سائنس کی بنیاد ثابت ہوئی۔ اس دور کے بڑے ناموں میں ابن الہیثم کا نام شاید سب سےزیادہ نمایاں اور روشن ہے۔
ابن الہیثم کا پورا نام ”ابو علی الحسن بن الہیثم“ہےلیکن ان کی عمومی شہرت، ابن الہیثم کے نام سے ہے۔ ان کی پیدائش عراق کے شہر بصرہ میں 354 ہجری (965ء)اور وفات 430 ہجری میں ہوئی ۔ وہ طبعیات ، ریاضی ، انجنیئرنگ، فلکیات اورادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔
تقریباً تمام درسی کتب میں لکھا ہے کہ جدید بصری علوم کے بانی آئزک نیوٹن تھے۔ عدسوں اورمنشور پر کئے گئے روشنی کے تجربات مثلاً روشنی کا انعکاس،ا نعطاف اور منشور سےسفید روشنی گزار کر اس کے مختلف رنگوں کا مشاہدہ وغیرہ سب نیوٹن سے منسوب ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئزک نیوٹن دنیا کے عظیم ماہر طبعیات تھے لیکن یہ گمان کہ بصری علوم کے پہلے ماہر نیوٹن تھے، تاریخی شواہد کی رو سے قطعاً غلط ہے۔ نیوٹن سے سات سو سال قبل ابن الہیثم نے بصریات پر تحقیق کی اور قدیم نظریات کو غلط ثابت کیا۔
ابن الہیثم وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے درست طور پر بیان کیا کہ ہم چیزیں کیسے دیکھ پاتے ہیں۔ ان کی کتاب ”کتاب المناظر“بصریات کی دنیا میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے افلاطون، بطلیموس اوراس وقت کے کئی دوسرے ماہرین کے اس خیال کو غلط ثابت کیا کہ آنکھ سے روشنی کی شعاع نکل کر کسی جسم سے ٹکراتی ہے تو ہمیں وہ جسم نظر آتا ہے۔ ابن الہیثم نے اس نظریہ کو قطعاً رد کیا اور ثابت کیا کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ روشنی کی شعاع آنکھ سے نکل کر جسم سے نہیں ٹکراتی بلکہ جسم سے منعکس ہونے والی روشنی ہماری آنکھ کے عدسے پر پڑتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں نظر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو ریاضی کی مدد سے ثابت بھی کیا جواس وقت تاریخ میں پہلی مثال تھی۔
ابن الہیثم نے روشنی کا انعکاس اور روشنی کا انعطاف دریافت کیا۔ انہوں نے نظر کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے عدسوں کا استعمال کیا۔ ان کی سب سے اہم دریافتوں میں آنکھ کی مکمل تشریح بھی ہے. انہوں نے آنکھ کے ہر حصہ کے کام کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جس میں آج کی جدید سائنس رتی برابر تبدیلی نہیں کرسکی۔ ابن الہیثم نے آنکھ کا ایک دھوکا یا وہم بھی دریافت کیا جس میں مخصوص حالات میں نزدیک کی چیز دور اور دور کی چیز نزدیک نظر آتی ہے۔
ابن الہیثم نے روشنی، انعکاس اور انعطاف کے عمل اور شعاؤں کے مشاہدے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ زمین کی فضا کی بلندی ایک سو کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔
ابن ابی اصیبعہ ”عیون الانباء فی طبقات الاطباء“میں کہتے ہیں: “ابن الہیثم فاضل النفس، سمجھدار اور علوم کے فن کار تھے، ریاضی میں ان کے زمانے کا کوئی بھی سائنسدان ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا۔ وہ ہمیشہ کام میں لگے رہتے تھے۔ وہ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے”۔
یورپی تاریخ نویسوں کی اکثریت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ جدید سائنسی طرز عمل سترہویں صدی کے اوائل میں فرانسس بیکن اور رینے ڈیکارٹ نے متعارف کروایا تھا۔ تاہم تاریخی شواہد اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابن الہیثم ہی نے اس جدید سائنسی ضابطۂ عمل کو متعین کیا اور ان ہی کو اس کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ طریقۂ کار ہے جس کو سائنسدان معلومات کے حصول، معلومات کی درستگی، الگ الگ معلومات کو ملا کر نتیجہ اخذ کرنے اورمشاہدے کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کو بنیاد بنا کر سائنسدان اپنا تحقیقی کام کرتے ہیں۔
ابن الیثم 996 ء میں فاطمی خلافت، مصر کے دربار سے منسلک ہو گئے تھے۔ انہوں نے دریائے نیل پر اسوان کے قریب تین طرف بند باندھ کر پانی کا ذخیرہ کرنے کی تجویز پیش کی لیکن ناکافی وسائل کی وجہ سے اسے ترک کرنا پڑا۔ اب اسی جگہ مصر کا سب سے بڑا ڈیم یعنی اسوان ڈیم قائم ہے۔
قفطی کی ”اخبار الحکماء“میں ابن الہیثم کی زبانی یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں:

“لو کنت بمصر لعملت بنیلھا عملاً یحصل النفع فی کل حالہ من حالاتہ من زیادہ ونقصان”
ترجمہ: ”اگر میں مصر میں ہوتا تو اس کی نیل کے ساتھ وہ عمل کرتا کہ اس کے زیادہ اور نقصان کے تمام حالات (یعنی اس میں پانی کم ہوتا یا زیادہ) میں نفع ہی ہوتا”
ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ نیل کے پانی کو آبپاشی کے لیے سال کے بارہ مہینے دستیاب کر سکتے تھے، ان کا یہ قول مصر کے حاکم الحاکم بامر اللہ الفاطمی کو پہنچا تو انہوں خفیہ طور پر کچھ مال بھیج کر انہیں مصر آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی اور مصر کی طرف نکل کھڑے ہوئے جہاں الحاکم بامر اللہ نے انہیں اپنی کہی گئی بات پر عمل درآمد کرنے کو کہا۔ ابن الہیثم نے نیل کے طول وعرض کا سروے شروع کیا اور جب اسوان تک پہنچے (جہاں اس وقت “السد العالی” (السد العالی ڈیم) قائم ہے) تو ان کو اندازہ ہوا کہ اس وقت کےموجودہ وسائل اور تکنیکی سہولتوں کی ناکافی دستیابی کے باعث یہ کام ناممکن ہے اور انہوں نے جلد بازی میں ایک ایسا دعوی کردیا ہے جسے پورا کرنا ممکن نہیں۔
انہوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا اور الحاکم بامراللہ سےمعذرت کر لی۔ الحاکم بامراللہ نے ان کے عذر کو قبول کر لیا۔ چند شواہد کی بنیاد پر ابن الہیثم نے الحاکم بامراللہ کی خاموشی کو وقتی چال سمجھا اور سزا سے بچنے کے لئے پاگل پن کا مظاہرہ شروع کردیا۔ الحاکم بامر اللہ کی موت تک ابن الہیثم نے یہ مظاہرہ جاری رکھا۔ یہ عرصہ1011ء سے 1021ء تک، دس سال کی طویل مدت پر مبنی تھا۔ ایک اور حوالے کے مطابق ابن الہیثم کو دریائے نیل پر بند باندھنے میں ناکامی کی پاداشت میں دس سال کی مدت تک نظر بند کر دیا گیا تھا۔ حقیقت کچھ بھی ہو،کہتے ہیں کہ اس مدت کے اختتام پر ابن الہیثم نے جامعہ ازہر کے پاس ایک کمرے میں رہائش اختیار کر لی تھی اور اپنی باقی زندگی کو تحقیق وتصنیف کے لیے وقف کردیا تھا۔
جیسا کہ ابن ابی اصیبعہ نے کہا وہ واقعی کثیر التصنیف تھے، سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی 237 تصنیفات شمار کی گئی ہیں۔ سکندریہ میں ایک محقق نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے پاس ابن الہیثم کا فلکیات کے موضوع پر تحریر کردہ ایک مقالہ موجود ہے جو حال ہی میں دریافت ہوا ہے۔اس مقالے میں ابن الہیثم نے سیاروں کے مدار کی وضاحت کی تھی جس کی بنیاد پر بعد میں کوپر نیکس، گیلیلیو، کیپلر اور نیوٹن جیسے یورپی سائنسدانوں نے کام کیا۔ ابن الہیثم کی کچھ تصانیف درج ذیل ہیں۔
1.کتاب المناظر.2. کتاب الجامع فی اصول الحساب.3. کتاب فی حساب المعاملات.
4.کتاب شرح اصول اقلیدس فی الہندسہ والعدد.5.کتب فی تحلیل المسائل الہندسیہ.6. کتاب فی الاشکال الہلالیہ.
7.مقالہ فی التحلیل والترکیب.8.مقالہ فی برکار الدوائر والعظام.9.مقالہ فی خواص المثلث من جہہ العمود.
10. مقالہ فی الضوء.11.مقالہ فی المرایا المحرقہ بالقطوع.12.مقالہ فی المرایا المحرقہ بالدوائر.
13.مقالہ فی الکرہ المحرقہ.14.کقالہ فی کیفیہ الظلال.15.مقالہ فی الحساب الہندی.
16. مسألہ فی الحساب.17. مسألہ فی الکرہ.18.کتاب فی الہالہ وقوس قزح.
19.کتاب صورہ الکسوف.20. اختلاف مناظر القمر.21. رؤیہ الکواکب ومنظر القمر.
22.سمت القبلہ بالحساب.23. ارتفاعات الکواکب.24. کتاب فی ہیئہ العالم.
بعض محققین کا خیال ہے کہ ابن الہیثم نے طب اور فلسفہ کے موضوعات پر بھی مقالے تحریر کئے تھے۔

Monday, 21 November 2016

ظلمت یوروپ میں تھی جن کی خر د راہ بیں

ظلمت یوروپ میں تھی جن کی خر د راہ بیں

         ڈاکٹرمحسن عثمانی ندوی

مسلمان جب دنیا میں سائنس ، صنعت اور تجارت کی بلندیوں پر پہونچ چکے تھے، اس وقت یوروپ قرون مظلمہ کے اندھیروں میں گھرا ہوا تھا، عالم اسلام کی ترقی کازمانہ یوروپ کی انتہائی پسماندگی کا زمانہ ہے، یوروپ کے لوگ ا س کو قرون مظلمہ کہتے ہیں یعنی تاریکی کی صدیاں ، لیکن یہ نام یوروپ کے ملکوں کے لئے تو بالکل درست ہے ، لیکن مسلمانوں کے شہروں کے لئے درست نہیں، کیوں کہ وہاں اس وقت تہذیب وتمدن کی روشنی پھیلی ہوئی تھی، ڈاکٹر فلپ ہٹی اور بہت سے دوسرے مغربی مصنفین نے اعتراف کیا ہے کہ جب لندن اور یوروپ کے دوسرے شہروں میں سڑکیں کچی ،انتہائی ناہموار اور دھول سے اٹی ہوئی ہوتی تھیں جن میں گڑھے ہوتے تھے اور، جن پر رات کے وقت اندھیرے میں سفر کرنا ناممکن تھا، اس وقت اسپین اور مسلمانوں کے دوسرے ملکوں کے شہروں میں سڑکیں کشادہ ، ہموار ہوا کرتی تھیں، جس کے دونوں طرف روشنی کا انتظام تھا، تاکہ رات کے وقت بھی قافلے اپنی گاڑیوں کے ساتھ بے خطر سفر کر سکیں۔ مغربی مصنفین نے یہ بھی لکھا ہے کہ جس وقت قرطبہ ، غرناطہ اور اشبیلیہ اور بغداد وغیرہ شہروں میں ایسے کتب خانے موجود تھے جن میں ایک ایک لاکھ کتابیں مخطوطات کی شکل میں موجود تھیں، اور کتابوں کی خطاطی اور جلد سازی کی بہت سی دکانیں ہوا کرتی تھیں، اس وقت یوروپ کے لوگ اپنے ناموں کی حروف تہجی سیکھ رہے تھے، نہ وہاں کوئی صنعت تھی اور نہ تہذیب وتمدن کے مراکز ۔بغداد اور قرطبہ کے مہذب اور تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اور لندن اور پیرس کے جاہل اور غیر مہذب باشندوں میں وہی فرق تھا جو ایک تعلیم یافتہ انسان اور ایک گڈریا اور چرواہے میں ہوتا ہے۔

یوروپ میں تہذیب وتمدن کا دور اس کی نشاۃ ثانیہRenaissance کے بعد آیا، یوروپ کی نشاۃ ثانیہ او ر بیداری کا دور پندرہویں صدی عیسوی کے بعد شروع ہوتا ہے، یورپ کی نشاۃ ثانیہ اور علمی بیداری اوردور جہالت سے علم کی روشنی کی طرف واپسی کے اسباب حسب ذیل ہیں :

۱۔ سائنس اور طب اور دوسرے علوم کی عربی کتابوں کا داخل نصاب ہونا اور ان کے ترجمے اور اسپین میں اہل یوروپ کا تعلیم حاصل کرنا

۲۔ صلیبی جنگوں کے ذریعہ فلسطین اور دوسرے مقامات پر مسلمانوں کی تہذیب وتمدن سے واقفیت 
 
۳۔ نئی دنیا یعنی امریکہ کی دریافت جس کا سہرا کولمبس کے سر باندھا جاتا ہے حالانکہ مسلمان کولمبس سے پانچ سال پہلے امریکہ کو دریافت کرچکے تھے 
 ۴پریس کی ایجاد

اسلام نے اس وقت کی عیسائی دنیا کو بھی متاثر کیا تھا ۔ عیسائیت کا مذہبی انقلاب جو یوروپ میں مارٹن لوتھر کے ذریعہ آیا، اس کی وجہ بھی مسلمانوں کی مذہبی کتابیں تھیں، مارٹن لوتھر کو ریفارمیشن کا بانی کہا جاتا ہے، اس نے پروٹسٹنٹ کاایک باغی اور احتجاجی فرقہ قائم کیا تھا جو عیسائیت میں اصلاحات کاداعی تھا ۔ وہ جرمنی کا باشندہ تھا اور پادری کے عہدے پر فائز ہوا ،اس نے پوپ کی سخت مخالفت کی اور مروجہ عیسائیت پر تنقید کی ،اس نے آخرت میں نجات کے لئے چرچ کے معافی نامہ اور مغفرت نامہ کو تنقید کال نشانہ بنایا جس سے جرائم پیشہ لوگ فائدہ اٹھاتے تھے وہ سونے چاندے کے بھائو پادریوں سے مغفرت نامے اور جنت کے قبالے خریدتے تھے اور ’ رند کے رند رہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ کا مزہ لوٹتے تھے ۔ وہ سر سے پیر تک گناہوں میں ڈوب کر بھی خود کو جنت کا حق دار سمجھتے تھے ۔ مارٹن لوتھر نے نے اس مغفرت نامہ کو باطل قرار دیا وہ خود اسلامی تہذیب سے اتنا زیادہ متاثر تھا کہ آرتھوڈوکس کرسچن اس پر خفیہ طور پر مسلمان ہونے کا الزام لگاتے تھے۔اس نے گرجا گھروں کی بہت سی رسوما ت وبدعات کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔یوروپ میں اصلاح دین کی تحریک اسلام کے زیر اثر شروع ہوئی تھی ۔

ایک بات جو بالکل طے شدہ ہے اور جس کا اعتراف انصاف پسند مغربی مصنفین نے بھی کیا ہے ، وہ یہ کہ مسلمان برتر ثقافت اور تہذیب کے مالک تھے، اس حد تک کہ یوروپ کے لوگ بدن کی صفائی کے لئے صابن کے استعمال سے بھی واقف نہیں تھے،یہی صابن کا عربی لفظ ہے یورپی زبانوں میں’’ سوپ‘‘ بن گیا ہے  صلیبی جنگوں میں بیشمار عیسائی ملکوںکے باشندے شریک ہوئے تھے ، اس لئے کہ یہ ان کے نزدیک مقدس جنگ تھی، لیکن جب شام وفلسطین میں انھوں نے مسلمانوں کی تعمیرات اور معاشرت اور تہذیب کو نزدیک سے دیکھا تو انھوں نے ہر چیز میں مسلمانوں کی نقل کرنی شروع کی ، جیسے اب مسلمان یوروپ کی نقل کرنے لگے ہیں ۔اسلحہ سازی میں تفوق مسلمانوں کا اتنا زیادہ تھا کہ جب رات کے وقت صلیبی فوج کے لوگ آسمان سے اژدہوں کے مانند آتشی بان کو سروں پر گرتے ہوئے دیکھتے تو راہ فرار اختیار کرتے، اور کہیں پناہ لیتے اور ان کے پادری دعاوں میں مشغول ہوجاتے ۔

یونان کے لوگوں نے علم وحکمت میں بڑا نام پیدا کیا تھا، اور وہ حکمت وفلسفہ کے مینار سمجھے جاتے ہیں ، لیکن یونان کی تمام کتابیں اہل یوروپ تک مسلمانوں کے واسطے سے پہونچی تھیں، اور مسلمانوں نے یونان کے تمام علوم کا عربی زبان میں ترجمہ کیا تھا، ریاضی کا فن ہو یا فلکیات کا ، طبعیات کا ہو یا کیمیاء کا ، یا حیاتیات اور طب کا یہ تمام کتابیں عربی زبان میں تھیں، اور ان کتابوں سے یوروپ کے لوگوں نے اس طرح فائدہ اٹھایا کہ اطالوی اور دوسری مغربی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے، اور یہ ترجمے ایک طویل عرصے تک یوروپ کی جامعات میں پڑھائے گئے، اور پندرہویں صدی کے بعد جب یوروپ میں پریس کی ایجاد ہوئی تو مسلمانوں کی عربی کتابیں باربار چھپنے لگیں، ابن سینا کی القانون ، زکریا رازی کی الحاوی، ابو القاسم زہراوی کی التصریف، ابن رشد کی کلیات ، ابن زہر کی التیسیراور ابن الہیثم کی کتاب المناظر، اور بہت ساری دوسری کتابیں یوروپ کے اہل علم کے ہاتھوں میں پہونچیں اور بہت سی کتابوں کے پچاس سے زیادہ ایڈیشن نکلے، پریس کی ایجاد نے یوروپ کی نشاۃ ثانیہ اور بیداری اور نھضت میں بہت بڑا کردار اداکیاہے، پریس کے دور سے پہلے کاغذ سازی اگر مسلمان ملکوں میں نہ ہوتی تو پریس کی ایجاد کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، مسلمان چونکہ قافلہ علم کے سالار تھے اس لئے کاغذ سازی کی طرف انھوں نے بہت توجہ کی تاکہ کتابیں لکھی جا سکیں،ایک وقت ایساتھا کہ یوروپ کے مختلف شہروں میں تقریباً ہر محلے میں کاغذ سازی کے چھوٹے چھوٹے کارخانے قائم تھے اور بہت سے شہروں میں اس کی حیثیت گھریلو صنعت کی ہوگئی تھی۔آج  یوروپ کے بہت سے کتب خانوں میں عربی مخطوطات ہزاروں کی تعداد میں ہیں جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا 
 
                       مگر وہ علم کے  موتی  کتابیں  اپنے  آباء کی 
                       جو دیکھیں ان کو یوروپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

بہت سے لوگ اس شعر کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مذہبی نوعیت کے مخطوطات ہوں گے جسے انگلینڈ کے لوگ اپنے کتب خانوں کے لئے کوہ نور ہیرے کی طرح  ہندوستان اور مشرقی ملکوں سے چرا کر لے گئے ہوں گے یہ خیال درست نہیں ہے ۔یہ عربی مخطوطات زیادہ تر سائنس طب اور عصری علوم سے متعلق ہیں یہ وہ کتابیں ہیں جو کسی زمانہ میں یوروپ میں پڑھی اور پڑھائی جاتی تھیں یہ وہ کتابیں تھیں جن سے یوروپ میں نشات ثانیہ  Renaissance کا آغاز ہوا تھا ۔

مغربی مصنفین آرنلڈ(sir Thomas Arnold) اور اسپین کے دانشور جیسوٹ ایندریز(jesuit Andriz)اور کئی دیگر مصنفین نے کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ یوروپ کے لوگوں نے مسلمانوں سے عربی ہندسے سیکھے اور قدیم رومن ہندسے ترک کردئے، اور عربی ہندسے اختیار کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ جمع، تفریق، ضرب اور تقسیم جوریاضی کے چار بنیادی لوازم ہیں یہ چیزیں اندلس اور پھر یوروپ کے ملکوں کے باشندوں میں عام ہوگئیں ، یہ بات مغربی ملکوں کے فضلاء کے سمجھ میں آگئی تھی کہ ریاضی اور فلکیات اور طب اور دیگر سائنسی علوم کو سیکھنے کے لئے عربی جاننا ضروری ہوگیا ہے، چنانچہ عربی زبان صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ یوروپ کی عیسائی دنیا میں بھی عام ہوگئی، اسپین کے کلیساؤں نے بھی انجیل اور اپنی مذہبی کتابوں کے ترجمے عربی زبان میں کئے ، عربی کی اشاعت اور تعلیم اتنی عام ہوگئی تھی کہ یوروپ کے کئی ملکوں میںتعلیم یافتہ اس شخص کو سمجھا جاتا تھا جس نے عربی زبان سیکھی ہو اور عربی زبان کے علوم کو پڑھ لیتا ہو، اس طرح سے مسلمانوں کی سائنس کے علوم تمام اہل یورپ میں پھیل گئے ۔ سائنس کے ان علوم کو مسلمانوں نے دنیا کی دوسری تہذیبوں سے فائدہ اٹھا کر تیار کیا تھا اور انہیں ترقی دی تھی ، یہ سائنس کا تخم تھا ، یوروپ کے ملکوں میں موسم اچھا تھااور پانی وافر تھا اور مٹی بھی زرخیز تھی، چنانچہ یہ تخم خوب برگ وبار لایا اور اس کے شیریں ثمرات یوروپ کے ملکوں میں پھیل گئے اور پھر ان علوم وفنون کی یوروپ میں مزید ترقی ہوئی، مسلمانوں نے اصطرلاب ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے ایک ۱۰۹۲ عیسوی کو انھوں نے ایک چاند گرہن کا مشاہد ہ کیا تھا، یوروپ کے لوگوں نے فلکیات کے علوم میں آگے چل کر اتنی ترقی کی کہ خود ان کے قدم چاند تک پہونچ گئے۔اب مسلمانوں کو سائنسی علوم کو مغرب سے لینے اور سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ پیغمبر اسلامﷺنے فرمایا ہے کہ حکمت وعلم مومن کی گمشدہ میراث ہے وہ جہاں بھی  ہو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے ۔ اب مسلمانوں کے لئے عزت وعظمت کی بازیابی کی یہی راہ ہے ۔

Friday, 7 December 2012

غیر متشکل خلیہ:انسانی جسم کی ’مرمت‘ کا دریچہ

غیر متشکل خلیہ:انسانی جسم کی ’مرمت‘ کا دریچہ



کسی جسم میں موجود زیادہ تر بالغ خلیوں کا ایک مخصوص مقصد ہوتا ہے جسے تبدیل نہیں کیا سکتا۔ مثلاً جگر کا ایک خلیہ مخصوص کام کرنے کے لیے بنتا ہے اور اسے فوری طور پر دل کے خلئے کا کام نہیں لیا جا سکتا۔سٹیم سیلز ان سے مختلف خلئے ہوتے ہیں۔ وہ افزائش کے ابتدائی مرحلے میں ہوتے ہیں اور ان میں مختلف قسم کے خلیوں کی شکل اختیار کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔جب ایک سٹیم سیل تقسیم ہوتا ہے تو ہر نئے خلئے میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یا تو وہ سٹیم سیل کی شکل میں قائم رہے یا ایک ایسا خلیہ بن جائے جو کوئی مخصوص کام سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس صلاحیت پر قابو پا کر سٹیم سیلز یا بنیادی خلیوں کو انسانی جسم کی ’مرمت کے سازوسامان‘ کی شکل دی جا سکتی ہے۔ان کے مطابق ان سٹیم سیلز کو ایسی تندرست بافتیں تیار کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے جو ایسی بافتوں کی جگہ لیں گی جو بیماری سے متاثر ہوئی ہوں۔سائنسدانوں کے مطابق وہ بیماریاں جن کا علاج سٹیم سیل کی مدد سے ہو سکتا ہے ان میں پارکنسن، الزائمر، دل کی بیماری، آرتھرائٹس اور ریڑھ کی ہڈیوں کی تکالیف شامل ہیں۔سٹیم سیلز کو تجرباتی ادویات کے نتائج جاننے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان پر تحقیق سے یہ بھی پتہ چل سکتا ہے کہ انسانی جسم میں ٹشوز یا بافتیں کیسے بنتے ہیں اور کیسے بیماریاں انسانی جسم پر غلبہ حاصل کرتی ہیں۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ سب سے کارآمد سٹیم سیل ایمبریوز کی بافتوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا کثیر بارآور ہونا ہے۔ ان میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ انسانی جسم کے کسی بھی خلئے کا روپ دھار سکتے ہیں۔سٹیم سیل انسانی اعضاء میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ ایسے خلئے ہوتے ہیں جن کا کوئی مخصوص کام نہیں ہوتا اور انہیں اسی عضو میں کسی اور مخصوص کام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ان کا کام اس عضو میں پیدا ہونے والی خرابی کو صحیح کر کے اسے تندرست رکھنا ہوتا ہے۔لیکنان کے استعمال کی بڑے پیمانے پر مخالفت ہوئی ہے۔یہ سیل تجربہ گاہ میں تیار کیے جانے والے ایسے ایمبریوز سے لیے جاتے ہیں جن کی عمر چار سے پانچ دن ہوتی ہے۔ ان کے استعمال کے مخالفین کے مطابق تمام ایمبریوز چاہے وہ قدرتی طریقے سے بنیں یا انہیں تجربہ گاہ میں تیار کیا جائے، ان میں انسانی شکل میں ڈھلنے کی صلاحیت ہوتی ہے اس لیے ان پر تجربات کرنا اخلاقی طور پر صحیح نہیں۔یہ گروپ بالغ بافتوں سے لیے گئے سٹیم سیلز کے استعمال کے حامی ہیں۔ کچھ محققین کو خدشہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ سٹیم سیل کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں جبکہ کچھ کے خیال میں ان میں موجود بیماریاں علاج کروانے والے شخص کو منتقل ہو سکتی ہیں۔ حالیہ تحقیق کے دوران برطانوی سائنسدانوں نے ایک مریض کے اپنے ہی خون سے اس کے ذاتی استعمال کے لیے سٹیم سیل بنایا ہے۔ڈاکٹروں کو امید ہے کہ بالاخر اس سے مختلف قسم کی بیماریوں کے علاج میں مدد ملے گی۔کیمبرج یونیورسٹی کی ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ سٹیم سیل حاصل کرنے کے آسان ترین اور محفوظ ترین طریقوں میں سے ایک ہوگا۔عالمی طبی جریدے ’سٹیم سیل: ٹرانسلیشنل میڈیسن‘ میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سٹیم سیل کا استعمال شریان بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔طبی تحقیق کے میدان میں سٹیم سیل سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ یہ کسی بھی قسم کے خلیوں میں تبدیل ہو سکتی ہیں جن سے جسم کی تعمیر ہوئی ہے اس لیے اس کے ذریعے دل سے لے کر دماغ تک اور آنکھوں سے لے کر ہڈیوں تک کسی بھی عضو کی مرمت کی جا سکتی ہے۔طبی محققین کا کہنا ہے کہ کسی بالغ کی جلد سے لیے گئے سیل کو سٹیم سیل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جسے جسم اپنے حصے کے طور پر قبول کرے اور اسے باہری عنصر سمجھ کر رد نہ کرے۔کیمبرج کی ٹیم نے خون کے نمونوں کو سیل کی مرمت کے لیے منتخب کیا اور اسے خون کے دوران کے ساتھ شریانوں میں دوڑایا تاکہ شریانوں کی دیوار کی مرمت ہو سکے۔ اس کے بعد انہیں سٹیم سیل میں تبدیل کر لیا گیا۔ ادھرایک امریکی بایو ٹیکنالوجی کمپنی بارہ نابینا افراد کی بینائی واپس لانے کے لیے ان کی آنکھ میں انسانی سٹیم سیل یعنی بنیادی خلئے داخل کرنے کے تجربے کا آغاز کرنے والی ہے۔چوہوں پر کامیاب آزمائش کے بعد انسانوں پر اس تجربے کی منظوری امریکہ کے خوراک و ادویات کے منتظم ادارے نے دی ہے۔تجربہ کرنے والی کمپنی ایڈوانس سیل ٹیکنالوجی کے سینئر ایگزیکٹو نے بتایا ہے کہ چوہوں پر کی گئی آزمائش کے دوران ان کی بصارت میں سو فیصد اضافہ ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربہ سٹیم سیل تحقیق میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ابتدائی طور پر جن بارہ مریضوں پر تجربہ کیا جائے گا ان کی بصارت بحال ہونے کا امکان نہیں ہے بلکہ اس تجربے کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ یہ علاج کتنا محفوظ ہے۔تجربے کی کامیابی کی صورت میں سٹیم سیل کا یہ علاج نوجوان مریضوں پر آزمایا جائے گا تاکہ ان کی بینائی مکمل طور پر ختم ہونے سے بچائی جا سکے۔سٹم سیلز میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ کسی دوسری قسم کے خلیوں میں ڈھل سکتے ہیں اور کئی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ سٹم سیلز کی اس صلاحیت کی بنیاد پر یہ ممکن ہے کہ انہیں مختلف ٹشوز میں ڈھال کر جسم کے اندر متاثرہ اعضاء کی مرمت اور بیماری کا علاج کیا جا سکے۔سٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے بعد جسم میں کسی بھی طرح کے خلئے میں تبدیل ہوسکتے ہیں اور حال ہی میں ایک اور امریکی کمپنی نے ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ کا شکار افراد کے علاج کے لیے انسانی بنیادی خلیوں کے استعمال کے تجربات بھی شروع کیے ہیں۔سائنسدانوں کا موقف ہے کہ سٹیم سیل پر مزید تحقیق سے انسانی جسم کے لیے ’سپیر پارٹس‘ حاصل کیے جا سکیں گے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ سٹیم سیل پر مزید تحقیق سے کئی ناقابل علاج بیماریوں جیسے ذیابیطس، رعشہ اور الزائمر کے علاج میں بھی مدد مل سکتی ہے۔سٹیم سیل ریسرچ کے دو بانی سائنسدانوں کو اس سال مشترکہ طور پر طب کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا ہے۔برطانیہ کے جان گرڈن اور جاپان کے شنیایمنا کو یہ انعام بالغ خلیوں کو سٹیم سیلز میں بدلنے کی تحقیق پر دیا گیا۔ یہ سٹیم سیلز بعد ازاں جسم میں کسی بھی قسم کے خلئے کی شکل اپنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

موبائل نمبر:-8803003787
courtesy: Kashmir Uzma Srinagar

Tuesday, 30 October 2012

CHAND - HAMARA NAZDEEK TAREEK HAMSAYA

چاند۔۔۔۔۔۔ہمارا نزدیک ترین ہمسایہ


چاند ہماری زمین کااکلوتا سیارہ ہے۔ زمین سے تقریباً دو لاکھ چالیس ہزار میل دورچاند کا قطر 2163 میل ہے۔ چاند کے متعلق ابتدائی تحقیقات گلیلیو نے 1609ء میں کیں۔ اس نے بتایا کہ چاند ہماری زمین کی طرح ایک کرہ ہے۔ اس نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ چاند پر پہاڑ اور آتش فشاں پہاڑوں کے دہانے موجود ہیں۔ اس میں نہ ہوا ہے نہ پانی۔ جن کے نہ ہونے کے باعث چاند پر زندگی کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ یہ بات انسان بردار جہازوں کے ذریعے ثابت ہو چکی ہے۔ دن کے وقت اس میں سخت گرمی ہوتی ہے اور رات سرد ہوتی ہے۔ یہ اختلاف ایک گھنٹے کے اندر واقع ہو جاتا ہے۔چاند کادن ہمارے پندرہ دنوں کے برابر ہوتا ہے۔ یہ زمین کے گرد 29 یا 30 دن میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔ چاند کا مدار زمین کے اردگرد بڑھ رہا ہے یعنی اوسط فاصلہ زمین سے بڑھ رہا ہے۔ قمری اور اسلامی مہینے اسی کے طلوع و غروب سے مرتب ہوتے ہیں۔ چاند ہمیں رات کو صرف تھوڑی روشنی ہی نہیں دیتا بلکہ اس کی کشش سے سمندر میں مدوجرز بھی پیدا ہوتا ہے۔ سائنس دان وہاں سے لائی گئی مٹی سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چاند کی ارضیات زمین کی ارضیات کے مقابلے میں زیادہ سادہ ہے۔ نیز چاند کی پرت تقریباً ایک میل موٹی ہے۔ اور یہ ایک نایاب پتھر اناستھرو سائٹ سے مل کر بنی ہے۔چاند کی ہیت کے متعلق مختلف نظریات ہیں، ایک خیال یہ ہے کہ یہ ایک سیارہ تھا جو چلتے چلتے زمین کے قریب بھٹک آیا، اور زمیں کی کشش ثقل نے اسے اپنے مدار میں ڈال لیا۔ یہ نظریہ خاصہ مقبول رہا ہے، مگر سائنسدانوں نے اعتراض کیا ہے کہ ایسا ممکن ہونے کے لیے چاند کو ایک خاص رفتارسے زمین کے قریب ایک خاص راستے پر آنا ضروری ہو گا،جس کا امکان بہت ہی کم ہے۔موجودہ دور میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ 4.6 بلین سال پہلے ایک دمدار ستارہ زور دار دھماکے سے زمین سے ٹکرایا، جس سے دمدارستارہ اور زمین کا بہت سا مادہ تبخیر ہو کر زمین سے نکل گیا۔ آہستہ آہستہ یہ مادہ زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے اکٹھا ہو کر چاند بن گیا۔ پانی اور ایسے عناصر جو آسانی سے اُڑ سکتے تھے نکل گئے، اور باقی عنصر چاند کا حصہ بنے۔ اس نظریہ کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ چاند کی کثافت زمین کی اوپر والی مٹی کی پٹیوں کی کثافت کے تقریباً برابر ہے، اور اس میں لوہا کی مقدار بہت کم ہے۔ کیونکہ دمدارستارے کا آہنی حصہ زمین میں دھنس گیا تھا جو زمین کا آہنی گودا بنا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک نئی تھیوری پیش کی ہے جس کے مطابق چاند کبھی زمین کا حصہ تھا جو کسی دوسرے سیارے سے ٹکرانے کے نتیجے میں وجود میں آگیا۔ سارہ سٹوارٹ اور میتجا نے جو نال میگزین میں جاری رپورٹ میں دونوں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ان کی پیش کردہ نئی تھوری اس بات کی وضاحت کرے گی کہ زمین اور چاند کی مسافت اورکیمسٹری ایک جیسی کیوں ہے۔ نئی تھیوری کے مطابق چاند کے   وجود میں آنے کے وقت زمین آج کی نسبت نہایت تیزی سے گردش کررہی تھی اس وقت دن صرف دو یا تین گھنٹے رہتا تھا۔ اتنی تیزی سے گردش کی وجہ سے کسی دوسر ے فلکی جسم کے ساتھ ٹکر کے نتیجے میں چاند وجود میں آگیا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بعدازاں زمین سورج کے گرد اپنی مدار اور زمین کے گرد چاند کے مدار کے درمیان کشش ثقال باہمی تعامل کے ذریعے موجود ہ شرح کے گردش پر پہنچ گئی۔
چاند کی تسخیر20 جولائی 1969ء کو نیل آرم سٹرانگ وہ پہلے انسان تھے جس کے قدم چاند پر پڑے۔چاند کی حقیقت سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ عام نظریہ یہ ہے کہ یہ زمین سے جدا ہوا ہے۔ چاند پر ہوا اور پانی نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہاں سبزہ وغیرہ ہے۔ چاند پر سب سے پہلے اپالو 2 اتارا گیا تھا۔ اس کی سر زمین سے جو نمونے اکھٹے کئے گئے ان کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کی ان میں کثیر مقدار میں لوہا، ٹیٹانیم، کرومیم اور دوسری بھاری دھاتیں پائی جاتی ہیں۔
چاند پر کالونیامریکا 2020ء تک چاند کے جنوبی قطب پر ایک کالونی کے قیام کا ارادہ رکھتا ہے ناسا کے مطابق اس کا مقصد نظامِ شمسی کے بارے میں دریافتوں کی غرض سے مزید انسان بردار مشن روانہ کرنا ہے۔ 1972ء  کے بعد یہ کسی انسان کو چاند کی سطح پر بھیجنے کا پہلا منصوبہ ہے۔ قومی ہوائی و خلائی انتظامیہ (این اے ایس اے) نے کہا ہے کہ یہ طویل المدتی منصوبہ دنیا کے 14 خلائی اداروں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ کشش ثقل اس کی کشش ثقل  force gravitational  زمین کی نسبت چھ گنا کم ہے۔ چودہ دنوں میں سورج اس پر چمکتا ہے تو اس کا درجہ حرارت 120 ڈگری فارن ہائیٹ پر جا پہنچتا ہے۔زمین سے ہمیں ہمیشہ چاند کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی محوری گردش اور چاند کے زمین کے اردگرد گردش کا دورانیہ ایک ہی ہے۔ ہمیں زمین سے کسی ایک وقت میں چاند کا تقریباً41 فی صد حصہ نظر آتا ہے اگر چاند پورا ہو۔ مگر یہ حصہ کچھ بدلتا ہے اور ہم مختلف اوقات میں چاند کا نصف سے کچھ زیادہ حصہ ملاحظہ کر سکتے ہیں جو 59 فی صد بنتا ہے مگر ایک وقت میں 41 فی صد سے زیادہ نظر نہیں آ سکتا۔ زمین سے چاند کا اوسط فاصلہ 385000 کلو میٹر ہے جو افزائشِ مدوجزری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اگر زمین چاند اور سورج کے درمیان آ جائے تو جزوی یا مکمل چاند گرہن لگتا ہے۔ اس وقت چاند سیاہ یا سرخی مائل نظر آتا ہے۔ اگر چاند سے زمین کو دیکھا جائے تو زمین ہمیشہ آسمان میں ایک ہی جگہ نظر آتی ہے۔تحقیق کاروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چاند جیسے مزید سیاروں کا وجود ہو سکتا ہے محققین کا کہنا ہے کہ زمین کے چاند کی مانند نظامِ شمسی سے باہر ستاروں کے گردگردش کرنے والے سیاروں کے بھی اپنے چاند ہو سکتے ہیں۔ان کے مطابق ایسے سیاروں میں سے ہر دس میں سے ایک کا چاند کی طرح کا اپنا سیارہ بھی ہو سکتا ہے۔ہمارا چاند نسبتاً بڑا ہے اور اس کا سائز زمین کے ایک چوتھائی حصے کے برابر ہے۔ اب تک سمجھا جاتا تھا کہ زمین کے گرد چکر لگانے والے چاند کا وجود اپنے آپ میں انوکھی بات ہے۔لیکن لگتا ہے کہ اب ایسا نہیں ہے۔کمپیوٹر کے ذریعے سیاروں کی تخلیق کے عمل کو دہرا کر تحقیق کاروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایسے بڑے دھماکے جس کے نتیجے میں چاند وجود میں آیا تھا عام ہو سکتے ہیں اور چاند جیسے مزید سیاروں کا وجود ہو سکتا ہے۔اس تحقیق سے ایسے دوسرے سیاروں کی نشاندہی کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو شاید زندگی کے لائق ہوں۔گزشتہ برس میونخ یونیورسٹی اور امریکہ کی کولاراڈو یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے بھی کمپیوٹر کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سیاروں کی تخلیق کس طرح گیس اور پتھروں سے ہوتی ہے۔خیال ہے کہ چاند کی تخلیق بھی زمین کی تاریخ کے ابتدائی اوائل میں ہوئی تھی جب مریخ کے گرد گھومنے والا ایک سیارہ زمین سے آ ٹکرایا تھا۔ یہ سیارہ زمین کے گرد چکر لگانے لگا جسے بعد میں چاند کہا جانے لگا۔میونخ یونیورسٹی کے پروفیسر سباستین ایلسر کا کہنا ہے کہ چاند کے حجم کے سیاروں کے اندازوں کے بعد نظامِ شمسی سے باہر موجود سیاروں کا پتہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چاند کی موجودگی سے زمین کے ماحولیات پر ایسا اثر پڑا ہے جس میں زندگی کی تخلیق آسانی سے ہو سکے۔
چاند کا مدارچاند زمین کے اردگرد 27.3 دن میں چکر لگاتا ہے۔ اس کے راستے کو چاند کا مدار کہا جاتا ہے۔ چاند زمین کے مرکز سے اوسطاً 385000 کلومیٹر کے فاصلے پر 1.023 کلومیٹر فی سیکنڈ کی اوسط رفتار سے چکر لگاتا ہے۔ عمومی سیارچوں کے برعکس اس کا چکر خطِ استوا کے مستوی کی بجائے اس مستوی کے قریب ہے جس میں زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ چاند کا مدار بڑھ رہا ہے یعنی زمیں سے اوسط فاصلہ زیادہ ہو رہا ہے۔ اسے افزائش مدوجزری کہا جاتا ہے۔ کئی لاکھ سال پہلے چاند کی محوری گردش کا دورانیہ اس کے زمین کے گرد ایک چکر پورا کرنے سے زیادہ تھا مگر زمین کی کشش نے چاند کی محوری گردش کی رفتار کم کر کے اسے اس طرح محدود کر دیا ہے کہ اس کی محوری گردش کا دورانیہ زمین کے گرد مدار میں ایک چکر پورا کرنے کے برابر ہو چکی ہے۔
چاند اور زمینزمین سے ہمیں ہمیشہ چاند کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی محوری گردش اور چاند کے زمین کے اردگرد گردش کا دورانیہ ایک ہی ہے۔ ہمیں زمین سے کسی ایک وقت میں چاند کا تقریباً 41 فی صد حصہ نظر آتا ہے اگر چاند پورا ہو۔ مگر یہ حصہ کچھ بدلتا ہے اور ہم مختلف اوقات میں چاند کا نصف سے کچھ زیادہ حصہ ملاحظہ کر سکتے ہیں جو 59 فی صد بنتا ہے مگر ایک وقت میں 41 فی صد سے زیادہ نظر نہیں آ سکتا۔ زمین سے چاند کا اوسط فاصلہ 385000 کلو میٹر ہے جو افزائشِ مدوجزری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اگر زمین چاند اور سورج کے درمیان آ جائے تو جزوی یا مکمل چاند گرہن لگتا ہے۔ اس وقت چاند سیاہ یا سرخی مائل نظر آتا ہے۔ اگر چاند سے زمین کو دیکھا جائے تو زمین ہمیشہ آسمان میں ایک ہی جگہ نظر آتی ہے۔ 

Tuesday, 9 October 2012

INTERNET KA ZAMANA

انٹرنیٹ کا زمانہ
ایک تحفہ ایک خطرہ؟

ریڈیو ،ٹیلی ویژن اور رسائل وجرائد میں بیک وقت اچھا ئیا ں اور تباہ کاریاں دو نو ں اپنی جگہ مو جو دہیں۔ انٹر نیٹ کی انقلا ب آفریںایجاد بھی اپنے دامن میں ذرائع ابلاغ کی مفید اور نتیجہ خیز بلا ئیو ں کے ساتھ ساتھ تباہ کاریوں اور برائیوں کی پکی فصلیںاپنے وسیع وعریض دامن میں سمیٹے لائی ہیں ۔انٹرنیٹ کاا سکرین آ ن کیجئے تو اس کے صفحات جہا ں آ پ کے سامنے اپنی با نہیں کھو ل کر آ پ کو خو ش آمدید کہے گا اورچشم زدن میں آ پ کو علم ، ٹیکنالوجی، ترقی اور ما ضی ، حال اورمستقبل کی پرچھا ئیو ں کی سیر کرا ئے گا، وہیں وہ تمام عریاںوفحش مناظر ، ایمان متز لزل کر نے والے ویڈیواور اخلاق سوز تصاویر تک کی ایک تا ریک دنیا میں دھکیل کر آ پ کی شرافت، تہذ یب، انسا نی اقدار اور ضمیر ، کی روشنی بھی سلب کر سکتا ہے ۔ عام عریاں جرائد ورسائل بھی جس ننگے پن اور ما در پدر آزادکلچر کی نما ئندگی سے قاصر رہتے ہیں ،اسے کھلم کھلا نشر کرنے سے خوف کھا تے ہیں یا لا ج شرم ان کے آ ڑے آ تی ہے وہی چیز بغیر کسی ہچکچاہٹ کے الیکٹرانک میڈ یا کے توسط سے یا گھر بیٹھ بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے دکھا ئی جا تی ہے ۔ اس کے کتنے زہر یلے اثرات نو جو انو ں پر پڑتے ہیں اس کا الفا ظ کی تنگنا ئیو ں میں احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔بعض اسلامی ممالک نے اس طوفان بد تمیزی کو روکنے کے لئے عریاں، فحش اور جذ با ت کو برا نگیختہ کر نے والی ویب سائٹس بند کر نے کی کوششیں کیں لیکن روز کتنی ایسی websitesوجود میں آتی ہیں ، اس کا شما ر نہیں۔ یہا ں تک کہ ایک غلیظ websiteاگر آ ج ایک نام سے بند ہو تی ہے تو دوسرے عنوانات سے یا دوسرےwebsitesکے ضمن میں اس تک رسائی حاصل کر نا کوئی مشکل نہیں۔
اصولی طورانٹرنیٹ ایک تعلیم اور تعلم کے میدان میںایسی شاہر اہِ عظیم ہے جس پر چلنے کے بعد انسان کسی بھی شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والا فرد چا ہے وہ اسٹو ڈنٹ ہو یا ٹیچر،ڈاکٹر ہو یا انجینئر ،صحافی ہو یاسیاست داں ، بچہ ہو یا والدین ،ان سب کو نہ صرف اپنی اپنی لائن سے متعلق وسیع ترمعلومات دستیاب ہو تی ہیں اور ان کی ذہنی نشوونما اور معلو ما ت کا خزینہ ہر پل بڑ ھ جا تا ہے بلکہ اپنے اپنے دائرہ ٔ کا ر سے متعلق دیگر ایکسپرٹ افراد سے تبادلۂ خیالا ت کا مو قع بھی ملتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک انتہائی مفید ایجاد ہے جس کا مقصد دنیا کی بھلائیوں سے ہی استفادہ کر نا نہیں بلکہ اس کی وساطت سے ہم کو دینی رہنمائی کا ایک سنہرا مو قع بھی حاصل ہو سکتا ہے کیو نکہ آ ج کل ایسی سائٹو ں کی کو ئی کمی نہیں جن سے علمائے کرام کے وعظ وتبلیغ او دیگر مذہبی سر گر میو ں سے بھر پور استفا دے کا بخوبی مو قع ملتا ہے۔ وائے افسوس اسی انٹرنیٹ پر وہ شیطا نی مو اد اور ابلیس کو شرمندہ کر نے والی ایسی ہیجا ن انگیز فلمیں اور بر ہنہ تصویریں بھی دستیا ب ہو تی ہے کہ کو ئی بھی انسان جس کے دل ودما غ مین یہ خیا ل سکہ طور بیٹھا ہو کہ کو ئی اس کی بھی ماں بہن بیٹی اور بیو ی ہے وہ ان سائٹوں سے اللہ کی پناہ ما نگتا ہے۔ با لفا ظ دیگر انٹر نیٹ ایک تلوار ہے جو اگرملک وملت اور قانو ن واخلاق کے کسی محا فظ کے ہا تھ میں ہے تو دشمن پر اس تلوار کی ہر ضرب دوستو ں کے لئے حفاظت اور نگہداشت کی ضما نت ہے اور جب یہی تلوار ایک ڈاکو اور لٹیرے کے ہا تھ میں ہو تو اس کا استعمال کسی بھی صورت میں انسانیت کے لئے ضرر رساں ہونے میں اختلاف کی کو ئی گنجائش نہیں ۔ صحیح تر الفا ظ میں یہ اس اہم سائنسی نعمت کا استعمال ہے جو اس کو برا یا بھلا بنا دیتا ہے۔ بد قسمتی سے انسان جب اللہ کے مقرر کردہ حدود وقیود کو پھلا نگ کر اس کی عطا کردہ نعمتوں کا نا جا یز استعمال کر تا ہے تو چا ہے کو ئی چیز کتنی ہی مفید ہو اس کا وجود ضمیر کی آ نکھ کو اند ھا، اخلاق کے دل کو مردہ، انصاف کے کا ن کو بہرہ اور اصول کی زبان کو گونگا کر دیتا ہے۔ بہ نظر غا ئر دیکھا جا ئے تو انٹر نیٹ کا جا یز استعمال کم اور غلط استعمال پوری دنیا  ، تما م ملتو ں اور جملہ قومو ں میں زیا دہ ہو رہا ہے ۔ اس کے ذریعے اخلا قیات کی متاع گراں ما یہ کو لو ٹنے کی غرض سے مغربی تہذیب کی بے ہو دہ روایات ، ننگا پن ، فحش کا ری اورلغو یات کا سیلا ب مشرق کی ’ خشک سالی‘ دور کر نے کے لئے سونا می کی صورت میں امڈا آ رہا ہے ۔خصوصا ًہماری ریاست میں جو اقتصادی اور سما جی طور پسماندہ اور بیک ورڈ سمجھی جا تی ہے لیکن ہمیں فخر ہے کہ یہاں اب بھی شرم وحیا معاشرتی زندگی میں حددرجہ اہمیت کی حامل ہے۔ صوفی سنت اور ریشیوں کی اسی سر زمین پر انٹر نیٹ کی تباہ کا ریاں درآ مد کی جائیں تو اس کا نتیجہ یہ کیو ں نہ نکلے کہ نو جو انو ں میں بے راہ روی اور آورا گی فروغ پا ئے، منشیا ت کا دھندا خوب چمکے، جسم فروشی کا ننگ انسانیت پیشہ تک پھلنے پھو لے لگے، لا لچ کا پیٹ بھر نے کے لئے ارتداد کا زہر فروخت ہو نے لگے ، بے غیرت بھا ئی بہن کو قتل کریں تا کہ ایکس گریشیا ریلیف حاصل کر سکیں اور سنگدل با پ اپنی پھول چہرہ بیٹی کو اس وجہ سے ذبح کر ے تا کہ پنچو ں کو کو ئی گزند پہنچنے کی صورت میںما لی امداد حاصل ہو۔ انہی دلدوزواقعات پر بس نہیںہو گا بلکہ اس بھی آ گے شیطان کا سفر تخریب و بد بختی چلتا رہے گا اگر الیکٹرا نک میڈ یا سماجی اصلا ح کی بجا ئے اپنا مخر ب اخلاق رویہ جا ری رکھے گا۔ دلچسپ بات تویہ ہے کہ ان حالا ت و کو ائف کو نظر انداز کر تے ہو ئے ارباب اقتدار انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ہر شہر ودیہات میںمتعارف کرانے کے نام پہ انٹرنیٹ کنکشن کا حصول کو اتنا آ سا ن بنا رہی ہے جتنا کہ ضروریات زندگی مثلا ً اشیا ئے خوردنی، بجلی ، گیس اور دیگر اجنا س کو سہل الحصول بنا نا چا ہیے تھا ، تما م مو با ئل کمپنیا ں انٹر نیٹ کی سہولت ہر انسان کے جیب میں پہنچا نے کی غرض سے ان سہو لیا ت کو روز بروز سستاکر رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جو نو جو ان اپنی جسما نی اور ورحا نی صحت مندی پر ایک دمڑی تک خر چ کر نے کی بجائے اسی غمزہ ٔکا فر ادا میں گم ہو کر اپنی پاکٹ منی تک خو شی خوشی لٹادے اوربد لے میں انتہائی بیہودہ اور فحش ویب سائٹ کی سولی پر چڑھ کر معاشرے کے لئے بد نمادھبہ بن جائے ،نتیجہ یہ کہ فحاشی اور عریانیت کو فروغ دینے والی  websitesطوفان کی طرح ہر جا نب سے امڈ آرہی ہیں۔اس وجہ سے ہماری نوجوان نسل اس قدر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے کہ لگتا ہے قیا مت سر پر آ ن کھڑی ہے۔
آج جب ہما ری ملت کابے راہ ر نوجوان انٹر نیٹ پر شہوانیت کے نت نئے تما شوںسے خدا کے پسندیدہ اصولو ں کی خلا ف ورزی پر اُتر آ تاہے تو وہ یہ دیکھتا ہی نہیں کہ اس نئے شیطا ن کی آ غو ش میں وہ ماں بہن ،بیٹی جیسے پاک رشتو ں کی تکریم سے ہا تھ دھو رہا ہے۔ (اللہم احفظنا منہ ) انٹرنیٹ کی ایک ابلیسی سہولت یہ بھی ہے کہ کہ چیٹنگ یامراسلت کے ذریعہ طویل اوقات تک بیماردل نوجوان غیر عورتوں سے اور عورتیں غیر مردوں سے ہرطرح کی فحش اور غیر اخلاقی گفتگو بڑی بے فکری کے ساتھ کرتے رہتے ہیںبلکہ بارہا کو ئی شرارتی لڑکا اپنا الو سیدھا کر نے کے لئے خود کو لڑکی ظاہر کر کے دوسروں کو دھوکہ میں رکھتا ہے ۔ اس انتہائی درجہ کی اخلا قی پستی پر پہنچ کر شاید مغربی معاشرہ بھی ہنس ہنس کر لوٹ پو ٹ ہو رہا ہو ۔یہی نہیں بلکہ بہت ساری انٹرنیٹ کمپنیاںقابل اعتراض سروس مفت فراہم کرتی ہیں ۔جیسے ہی آپ نے انٹرنیٹ کو آ ن کیاوہ آپ کو آپ کی پسندیدہ ( نا پسند یدہ کہنا مو زو ں ہے)  جگہوں پر پہنچادیں گی۔ اس کا چلن اگر چہ ہندوستان میں ابھی کم ہی ہے مگر بیرونی ممالک میں جاکر پتہ چلتا ہے کہ یہ وبا کس قدر تیزی کے ساتھ یہ وبا پھیل رہی ہے ۔ بظا ہر اس میںآپ کا ایک پیسہ بھی صرف نہیں کرنا ہوتا کیوں کہ یہ کمپنیاں اپناسارا منافع اشتہاروں کی شکل میں ایڈوانس وصول کر لیتی ہیں۔ جونہی کو ئی اس شیطا نی کا رگاہ کی طرف قدم بڑ ھا تا ہے تو جا بجا بدقماش و ذلیل طوائفوں کی برہنہ تصاویر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور جس شخص کے زیرا ستعمال انٹرنیٹ ہو اس کے تفنن طبع کے لئے اپنے نیم بر ہنہ اور بسا اوقات الف ننگے بدن سے اس کا استقبال کر تی ہیں کہ ما رے شرم کے سر جھک جائے ۔
راقم الحروف اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ انٹرنیٹ کے جہاں بے شمار مثبت نتائج ہیں ،وہاں یہ انٹرنیٹ جرائم اور غلط کاریوںکے فروغ کا سب سے بڑاہتھیار بن رہا ہے۔امریکہ میں انٹرنیٹ کے ذریعے سے جرائم اس قدر تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں کہ یہ خیال عام ہو چلا ہے کہ اس صورتحال پر قابو پانا اب ناممکن ہے کیوں کہ یہ بے راہ روی کی جانب لے جانے والاسب سے مہلک شیطا نی حر بہ بن چکا ہے ۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ یہ آج طلاق کا سب سے بڑا سبب بنتا جارہا ہے ۔ نہ جانے کیسے کیسے دل دہلادینے والے واقعات صرف اس لئے رونما ہو رہے ہیں کہ انٹر نیٹ نے غلط اور گناہ گا رانہ طرزعمل اپنا نے کا راستہ کھو لا۔اس بنا پر عام آدمی حیران وپریشان ہے کہ اور تو اور دنیا کو ہدایت کی راہ پر گا مز ن کرا نے کے لئے ما مو ر امت یعنی امت ِ مسلمہ انٹر نیٹ کی کرم فر ما ئی سے کس طرح دین سے دور ہو کر مغرب کی بدکارانہ گود میں جارہی ہے ۔
  ریاست کے نوجوانوں کی بے راہ روی کے بہت سے اسباب وعلل ہیں ۔ ان میں ہمارے نوجوانوں کے بگاڑ کا ایک سبب انٹرنیٹ کی کا رستا نیا ںاور تبا ہ کا ریا ں ہیں۔ چونکہ دین اسلام جیسی عظیم وراثت کوہم اپنی حقیقی زندگی سے بے دخل کر چکے ہیں اس لئے یہ برائیاں ہمارے تعاقب میں ہیں ۔ اگر ہم خلو ص دل کے ساتھ اس سچویشن کو بدلنے کی آ رزو اور اس سلسلے مٰن ایک واضح نقش ِ راہ رکھتے ہیں تو ہمیں نوجواں پو د کی اخلا قی تعمیر نو کے لئے اسی جذ بہ کے ساتھ آ گے آ نا ہو گا جس جذ بے کو غالباً علامہ اقبال نے واویلا کر تے ہو ئے جو انو ں کو مخا طب کر کے اظہار کی زباں دی تھی   ؎
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن ا ٓسانی
امارت کیا شکوہ ِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زورِ حیدری تجھ میں نہ استغنائے سلمانی
 جو انو ں کی تن آ سانی اور نفس پر ستی جیسے امراض کا علاج کر نے اور ان میں زور ِ حیدریؓ اور استغنا ئے سلمانیؓ پیدا کر نے کے لئے ہم سب مل کر آ ج کل کے جدید ٹیلی مو اصلا تی ایجا دات کے صحیح استعمال کا چلن  عام کر یں اور ان کے مخرب اخلا ق اثرات سے خودکو بچا نے کے علاوہ دوسروں کو بھی ان سے محفو ظ رکھنے مٰن اپنا کلیدی کردار ادا کر یں ۔ اس سلسلے میں والدین، اساتذہ ،بچو ں بچیو ں اور معاشرے کے تما ذی حس لو گو ں بشمول میڈ یا اور ادیب ودانش وروں اور ائمہ مساجد وسماجی اصلا ح کا روں کا ایک اہم کردار بنتا ہے جس کو ہر ح ال مین نبھا نا ہو گا۔تب جا کر انٹر ینٹ کی پھیلا ئی ہو ئی وبا ئی بیماریو ں کا قلع قمع ہو سکتا ہے ۔  

ROBOT TECHNOLOGY KE LAMAHDUD IMKANAT

روبوٹ ٹیکنالوجی کے لامحدود امکانات


روبوٹ ایک خود کار مشین ہے  جو کمپیوٹر  پروگراموں کی بدولت کا م کرتے ہیں۔ یہ شعبہ جدید ٹیکنالجی کا بھرتا ہوا شعبہ ہے اور مستقبل قریب میں اس سے سائنس دانوں نے کافی امیدیں باندھ کریں ہیں۔ حال ہی میں جاپانی سائنس دانوں نے انسانی خصوصیات کا حامل ایک نیا روبوٹ متعارف کرایا ہے جسے سونامی اور زلزلے سے تباہ ہونے والے 'فوکو شیما جوہری بجلی گھر' کے بحران سے نمٹنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔جاپان کی ہونڈا موٹر کمپنی کی جانب سے ٹوکیو کے نزدیک منعقدہ ایک تقریب میں نئے روبوٹ کی رونمائی کی گئی جو کمپنی کے ’اسیمو‘ روبوٹ سیریز کا نیا ورژن ہے۔نیا روبوٹ نو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے اور پیچھے کی جانب دوڑنے کے علاوہ ایک فٹ تک چھلانگ لگانے، بند کنٹینر کو کھولنے اور گلاس میں مائع  سیال  انڈیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔روبوٹ تیار کرنے والے سائنس دانوں بتایا کہ روبوٹ انسانی صورتوں کو پہنچاننے اور انہیں ردِ عمل دینے اور بیک وقت پکار کر دیے گئے تین مختلف احکامات  پر عمل درآمد کر سکتا ہے۔'ہونڈا' کا کہنا ہے کہ وہ  'فوکو شیما جوہری بجلی گھر' کے منتظم ادارے 'ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی' کے اشتراک سے تباہ شدہ بجلی گھر کی صورتِ حال پر قابو پانے کی کوششیں کر رہی ہے۔واضح رہے کہ مذکورہ بجلی گھر کے ایٹمی ری ایکٹرز رواں برس مارچ میں آنے والے زلزلے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے سونامی  کے باعث  متاثر ہوئے تھے۔ ادھرامریکی حکومت نے حال ہی میں ایک نیا روبوٹ متعارف کرایا ہے جس میں ہر ہفتے انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہزاروں کیمیکلز کی نشان دہی کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس روبوٹ کے ذریعے نہ صرف لیبارٹریوں کی کارکردگی بڑھانے میں مدد ملے گی بلکہ مختلف چیزوں میں موجود مضر اجزا کی جانچ کے لیے انہیں  جانوروں پر آزمانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اس نئے تیز رفتار روبوٹ کو ماہرین ایک انقلابی اقدام کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے امریکی ادارے کے ڈائریکٹر رابرٹ کابلیک کا کہنا ہے کہ اس وقت ایک سائنس دان  سال بھر میں دس یا 20 کیمیائی مرکبات پر کام کرسکتا ہے لیکن نیا روبوٹ ہر ہفتے ایک ہزار ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔نئے روبوٹ پر پانچ بڑی امریکی وفاقی اداروں نے مشترکہ طورپر سرمایہ کاری ہے۔ یہ پانچوں ادارے کیمیائی مادوں کی جانچ پڑتال کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان اداروں میں ای پی اے اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ بھی شامل ہے۔ روبوٹ انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں موجود رہے گا۔ایک منصوبے کے تحت زہریلے اور صحت کے لیے نقصان دہ کیمیائی مرکبات کا ڈیٹا مرتب کرنے کے لیے ایک لائبریری بنائی جارہی ہے۔ فی الحال امریکہ میں ایسی کوئی لائبریری موجود نہیں ہے۔اس وقت روبوٹ کو صنعتی شعبے  ،مصنوعات ، خوراک اور ادویات میں انسانی صحت کے لیے مضر اجزا کی موجودگی کا پتا لگانے کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔تیزی سے ٹیسٹنگ کی  سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ روبوٹ میں ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کسی وقفے کے بغیر مسلسل کام کرسکتا ہے۔ اسے چھٹی کی ضرورت ہے اور نہ ہی آرام کے لیے وقت درکارہے۔اس سے قبل بعض تجربات جانداروں پر کیے جارہے تھے۔ ماہرین کا کہناہے کہ اب یہ کام بھی روبوٹ ہی سنبھال لے گا۔ آجکل انسان کے زیر استعمال بہت سے کیمیائی مرکبات کے تحفظ کے بارے میں معلومات موجود نہیں ہیں۔ ہر سال تقریباً 15 سونئے کیمیکلز مارکیٹ میں متعارف کرائے جاتے ہیں۔ نیا روبوٹ سائنس دانوں کو نئے کیمیکلز کی ایک واضح تصویر پیش کرے گا جس سے انہیں مضر صحت اجزا سے پاک کرنے میں مدد ملے گی۔ نسل انسانی بقاء کیلئے سائنس دانوں کی نظر روبوٹوں پر ہے۔امریکہ میں مقیم ریمنڈ کرزوائل کی عمر اس وقت 63 سال ہے۔ انہیں یقین ہے کہ اگر وہ خود کو 2050ء تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوگئے تو پھروہ اپنے آپ کو روبوٹ میں  تبدیل کر لیں گے۔نیویارک میں رہنے والے کرز وائل ،سائنس دان اور کمپیوٹر کے ماہر ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں انہوں نے دنیا اورانسانیت کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کرتے ہوئے اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ وہ کئی ایجادیں کرچکے ہیں جن میں الیکٹرانک کی بورڈ اور ایک ایسا آلہ بھی شامل ہے جس کے ذریعے نابینا افراد ہر کتاب پڑھ سکتے ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے وہ ایسی خوراک پر کام کررہے ہیں جس سے انسان لمبے عرصے تک جی سکے۔کرزوائل کے پاس 13 یونیورسٹیوں کی پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگریاں ہیں اور وہ فلسفہ، روحانیت اور سائنس سے متعلق کئی تنظیموں کے عہدے داروں میں شامل ہیں۔کرزوائل کہتے ہیں کہ 21 ویں صدی کا انسان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس ہمیشہ زندہ رہنے کا موقع موجود ہے۔ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے والے پہلے شخص بننا چاہتے ہیں۔ کرزوائل کا کہناہے کہ میڈیکل شعبے میں ترقی سے انسان کی اوسط عمر میں اضافہ ہورہاہے۔ اکثر ترقی یافتہ ملکوں میں اوسط عمر 80 سال سے بڑھ چکی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 2050ء تک ایسے لوگ بڑی تعداد میں نظر آئیں گے جن کی عمریں سوسال سے زیادہ ہوں گی۔ ان کے اعضاء قوی اور ذہنی صلاحیتیںبرقرار ہوں گے اور وہ اپنے معمولات عام افراد کی طرح سرانجام دینے کے قابل ہوں گے۔کرزوائل کہتے ہیں کہ 2050ء سے پہلے پہلے طبی شعبے میں حیرت انگیز تبدیلیاں آئیں گے۔ علاج معالجے کا طریقہ کار یکسر بدل جائے گا۔ ٹیکنالوجی کے فروغ سیانسانی اعضا بنانا آسان ہوجائے گا۔ مشینوں اور موٹر گاڑیوں کے کل پروزوں کی طرح انسان اپنے خراب اعضا کاعلاج کرانے کی بجائے انہیں باآسانی تبدیل کراسکے گا۔مستقبل کانقشہ پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ بیماریوں کے علاج کے لیے آج کل کی دواؤں کی بجائے نینو ٹیکنالوجی سے کام لیا جانے لگے گا اورجوہری سطح پر کام کرنے والی یہ ٹیکنالوجی جسم کے بیمار حصے میں پہنچ کر، کسی دوسرے حصے کو متاثر کیے بغیر اسے ٹھیک کردے گی۔ کرزوائل کہتے ہیں کہ مستقبل کے انسان کی غذا زیادہ تر وٹامنز اور معدنیات پر مشتمل ہوگی جو اسے طویل عرصے تک زندہ اور صحت مند رکھیں گے۔ وہ 2050ء تک خود کو زندہ اور صحت مند رکھنے کے لیے روزانہ 150 سے زیادہ وٹامن اور معدنیات استعمال کررہے ہیں۔ روزانہ پانی کے آٹھ کلاس اور سبز چائے کے دس کپ پیتے ہیں۔ گوشت ، چکنائی اور چینی سے پرہیز ، باقاعدگی سے ورزش اور ہر مہینے اپنا طبی معائنہ کراتے ہیں۔ تاہم کرزوائل ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے صرف میڈیکل کے شعبے کی ترقی پر بھروسہ نہیں کرتے۔ وہ اسے ہمیشہ کی زندگی کی سیڑھی پرایک قدم سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسان اس زینے پر چند قدم اور چڑھ کر ہمیشہ کے لیے جی سکتاہے۔
 سوال یہ ہے کہ کیسے؟ زیادہ ترسائنس دانوں کا خیال ہے کہ تمام ترسائنسی ترقی کے باوجود انسانی جسم سے لامحدود عرصے تک کام نہیں لیا جاسکتا اور نہ ہی زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ گوشت پوست سے بنا جسم آخر کس حد تک ساتھ دے سکتاہے؟ ڈیڑھ دوسوسال یا اس سے کچھ زیادہ اور پھر اس کے بعد۔؟کرزوائل کا جواب بہت سادہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ تب بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے۔ مگرکیسے…؟ کرزوائل کا خیال ہے کہ اس کے بعد ٹیکنالوجی انسان کو زندہ رکھے گی۔ وہ کمپیوٹر میں انسان کا مستقبل دیکھ رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں کمپیوٹر کو انسان پر سبقت حاصل ہوجائے گی اور وہ انسانوں کے احکامات کی تکمیل کی بجائے خود سوچنے اور خود فیصلے کرنے لگے گا۔ وہ ذہانت میں انسان کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔کرزوائل اپنی ایک کتاب میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر کئی پیش گوئیاں کرچکے ہیں، جن میں سے کئی ایک حرف بحرف اور کئی ایک جزوی طورپر پوری ہوچکی ہیں۔حال ہی میں آئی بی ایم کے ایک کمپیوٹر واٹسن نے ذہانت کے مقابلے میں تمام انسانوں کو شکست دے کر77 ہزار ڈالر کا انعام جیتاہے۔کرزوائل کا نظریہ ہے کہ اس سے پہلے کہ ذہانت رکھنے والا کمپیوٹر انسان پر حاوی ہوکر اسے اپنا غلام بنا لے، انسان کو اس کے اندر داخل ہوجانا چاہیے۔ بظاہر یہ نظریہ کسی سائنس فکشن فلم جیسا لگتا ہے ، مگرکرزوائل مستقبل میں ایسا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ کئی تجزیہ کار ان کے اس تصور کو روحانیت کے قریب تر سمجھتے ہیں ، جس کے مطابق جسم فنا ہوجاتا ہے مگر روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور بعض روحانی علوم کے ماہرین کے خیال میں روح ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہوسکتی ہے۔ کرزوائل بھی منتقلی کی ہی بات کرتے ہیں۔کرزوائل کے نظریے کی وضاحت میں ماہرین کا کہناہے کہ انسان کو اس کا دماغ کنٹرول کرتا ہے۔ دماغ کمپیوٹر کی طرح ایک مخصوص برقی نظام پر کام کرتا ہے۔ اور یہی نظام غالباً اس کی اصل روح ہے۔کمپیوٹر کے برقی نظام کو، جو اس کے آپریٹنگ سسٹم ، یاداشت اور دوسری چند چیزوں پر مشتمل ہے، اسے دوسرے کمپیوٹر یا کسی ہارڈ ڈسک میں منتقل کیا جاسکتا ہے، اس کی نقل تیار کی جاسکتی ہے، اسے دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ روبوٹ کی شکل کے ذہین کمپیوٹروں  میں ایسی چپ نصب ہوگی جس پرانسانی دماغ کا برقی آپریٹنگ سسٹم اور اس کی یاداشت کو منتقل کرنا ممکن ہوجائے گا۔لیکن وہ عام روبوٹ نہیں ہوں گے، بلکہ انسان ہوں گے مگرروبوٹ کی شکل میں…غالباً رے کرزوائل نے ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی کا نظریہ پیش کرتے ہوئے اسی سمت اشارہ کیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ 2050ء کا پہلی انسانی روبوٹ ریمنڈ کرزوائل ہی ہو۔
موبائل نمبر :-9906834557
courtesy: Kashmir Uzma Sringar

Sunday, 7 October 2012

INFORMATION TECHNOLOGY -- HAR DAM BADALTI DUNIA

انفارمیشن ٹیکنالوجی۔۔۔۔۔ہر دم بدلتی دُنیا


دُنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری روزمرہ زندگیوں میں جتنی تبدیلی پہلے 100 سال میں آتی تھی، اب وہ محض 10 سال میں آجاتی ہے اور بہت جلد تبدیلی کی رفتار اس سے بھی دگنی ہوجائے گی۔امریکہ سمیت بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ڈیسک ٹاپ کمپیوٹراب اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ڈیجیٹل الیکٹرونکس کے اسٹورز میں اب ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر خال خال ہی دکھائے دیتے ہیں، کیونکہ ان کی جگہ اب لیپ ٹاپ کمپوٹرز لے چکے ہیں۔ لیپ ٹاپس کے اکثر نئے ماڈلز میں استعمال کیا جانے والا مائیکرو پروسسر ڈیسک ٹاپ کے مقابلے میں طاقت، ریم میموری اور ہارڈ ڈسک کے ضمن میں نمایاں طور پر بہتر ہے۔ ان لیپ ٹاپس کے گرافک کارڈ بہتر ہیں اور انٹرنیٹ کیلئے زیادہ طاقتور وائی فائی بھی استعمال کئے گئے ہیں۔لیپ ٹاپ کے اکثر نئے ماڈلز کو ڈیسک ٹاپ کے متبادل کا نام دیا جارہا ہے، جبکہ ان کی قیمت بھی کچھ زیادہ نہیں۔ 20 سے 50 ہزار روپے تک میں آپ ایک ایسا جدید ترین لیپ ٹاپ خرید سکتے ہیں جو آپ کو ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کی ضرورت سے بے نیاز کرسکتا ہے، اور مزے کی بات یہ کہ لیپ ٹاپ کی بدولت اب آپ جس جگہ چاہیں آرام سے بیٹھ کر اپنا کام کرسکتے ہیں۔ نہ بجلی کے کنکشن کا جھنجھٹ اور نہ ہی انٹرنیٹ کیلئے تار کھینچنے کی زحمت۔ نئے طاقت ور لیپ ٹاپ وزن میں ہلکے ہیں اور ان کی بیٹری بھی دیر تک چلتی ہے۔ یعنی آپ6 سے 8 گھنٹوں تک بیٹری چارچ کئے بغیر باآسانی کام کرسکتے ہیں، بلکہ اب تو ایسے لیپ ٹاپس بھی دستیاب ہیں جن کی بیٹری مسلسل 15 گھنٹوں تک چلتی ہے۔ایک طرف جہاں لیپ ٹاپ نے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کی جگہ پر قبضہ جمایا، وہیں دوسری طرف اب لیپ ٹاپ کی بقاء  بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ تقریباً ۵ سال پہلے لیپ ٹاپس کے مقابلے میں نیٹ بک متعارف ہوئی تھی۔ یہ ہلکا پھلکا لیپ ٹاپ ایسے لوگوں کیلئے تھا جو زیادہ تر انٹرنیٹ پر مصروف رہتے ہیں۔ نیٹ بک کے بعد کے ماڈلز کو لیپ ٹاپ کا متبادل بنانے کیلئے ان میں طاقتور مائیکرو پروسیسر، زیادہ میموری اور بڑی ہارڈ ڈسک بھی نصب کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیٹ بک ابھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہورہی تھی، کہ اس پر شب خون مارا ایپل نے آئی پیڈ نے۔یوں تو آئی پیڈ بھی ایک طرح سے نیٹ بک ہی ہے، لیکن اس کا وزن کم اور کارکردگی نیٹ بک سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اس کی بیٹری زیادہ چلتی ہے اور دیکھنے میں کہیں زیادہ جاذب نظر ہے۔ آئی پیڈ کی نقل میں اب بہت سی ڈیجیٹل کمپنیاں بھی اسی طرح کے کمپیوٹر مارکیٹ میں لا چکی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اب نیٹ بک انتہائی تلاش کے بعد ہی کہیں دکھائی دیتی ہے، کیونکہ اب ہر جگہ اپنے جلوے دکھارہے ہیں آئی پیڈ طرز کے منی کمپیوٹر۔منی کمپیوٹرز کی اس نئی نسل نے صرف نیٹ بک اور روایتی لیپ ٹاپ کو ہی اپنا نشانہ نہیں بنایا، بلکہ الیکٹرونک بک ریڈرز بھی اس کی زد میں آچکے ہیں، کیونکہ یہ منی کمپیوٹرز اپنی شکل و شباہت اور حجم میں بک ریڈرز سے بہت قریب ہیں، جس پر آپ ڈیجیٹل کتابیں پڑھنے کے علاوہ کمپیوٹر کی سہولت کا بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ان منی کمپیوٹرز یا لیپ ٹاپس کی بہتات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ بک ریڈر جو چند سال پہلے تک 20 یا30 ہزار روپے میں ملتا تھا، اب 10 ہزار روپے سے کم میں بھی دستیاب ہیں، لیکن افسوس کہ اب ان کا کوئی خریدار نہیں ہے۔مائیکرو پروسیسر ٹیکنولوجی میں ایکدوسرے کی جگہ لینے کا یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں، بلکہ آئی پیڈ طرز کے کمپیوٹرز کو اب نگل رہا ہے اسمارٹ موبائل فون۔ گذشتہ 4 سال کے دوران اسمارٹ فونز کے سائز نمایاں طور پر بڑے ہوچکے ہیں اور مارکیٹ میں پانچ سے سوا پانچ انچ سائز کے فونز عام فروخت ہورہے ہیں، جن میں طاقتور مائیکرو پروسیسر نصب ہیں۔نئی نسل کے کئی اسمارٹ فونز اب ڈبل کور پروسیسر ز کے ساتھ آرہے ہیں اور ان کی میموری2 جی بی ہے، جبکہ قابل استعمال میموری 21 سے32 جی بی ہے۔ اس کے علاوہ ان اسمارٹ فونز میں 46جی بی تک فلیش میموری کی گنجائش بھی فراہم کی گئی ہے۔ گویا ایک طرح سے آپ کے پاس 69 جی بی ہارڈ ڈسک موجود ہے، جو نیٹ بک اور آئی پیڈ ٹائپ منی کمپیوٹرز سے کہیں زیادہ ہے۔اس کے علاوہ ان اسمارٹ فونز میں این ٹائپ طاقت ور وائے فائے انٹرنیٹ اور جی فور کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے، جس سے ان کی انٹرنیٹ کارکردگی ایک اچھے اور معیاری لیپ ٹاپ جیسی بن چکی ہے۔ ان اسمارٹ فونز میں 2 کیمرے فراہم کئے جارہے ہیں جن میں سے سامنے کی طرف ویڈیو چیٹنگ کیلئے تقریباً ۲ میگا پکسلز کا کیمرہ نصب گیا ہے، جبکہ پیچھے کی جانب ۸ میگا پکسلز تک کا زوم کیمرہ ہے، جو نہ صرف معیاری تصویر بناتا ہے بلکہ ۰۸۰۱ ایچ ڈی ویڈیو فلم بھی بناسکتا ہے۔اسمارٹ فونز کے بعض ماڈلز میں ۶۱ میگا پکسلز کے کیمرے بھی نصب ہیں، جبکہ نئے اسمارٹ فونز کے کیمروں میں کئی ایسے فنکشنز بھی شامل کردیئے گئے ہیں جو اس سے پہلے صرف اعلیٰ معیار کے پروفیشنلز کیمروں میں ہی ملتے تھے۔نئے اسمارٹ موبائل فونز اب لیپ ٹاپ کی ہائی ریزلوشن اسکرین کے ساتھ آرہے ہیں۔ اس طرح اسمارٹ فونز کی نئی نسل صرف فون ہی نہیں، بلکہ بیک وقت ایک طاقتور منی کمپیوٹر، ایک معیاری اسٹل اینڈ ویڈیو کیمرہ، ڈیجٹل بک ریڈر اور ایک جدید جی پی ایس بھی ہے جس سے آپ راستوں کیلئے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے سیٹلائٹ لنک کے ذریعے سڑکوں پر ٹریفک کی تازہ ترین صورت حال سے بھی باخبر رہ سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسمارٹ فون کلاک بھی ہے اور کلینڈر بھی۔نہ صرف یہ، بلکہ متعدد نئے اسمارٹ فونز میں ٹی وی کی سہولت بھی موجود ہے جن پر آپ اپنی پسند کے ٹی وی چینلز لائیو دیکھ سکتے ہیں۔ گویا ایک فون میں کئی ڈیجیٹل آلات کی خصوصیات کو یکجا کردیا گیا ہے۔اکثر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ آج ہمارے زیر استعمال بہت سے سائنسی آلات آئندہ 5 سے 10 سال میں روزمرہ زندگی سے نکل جائیں گے اور ان سب کی جگہ لے گا ایک اسمارٹ فون، جو کمپیوٹر سے لے کر گھر کے الیکٹرونک آلات کو کنٹرول کرنے والے ریموٹ تک کی جگہ استعمال کیا جانے لگے گا۔دیگر الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنسی ترقی اور بالخصوص مائیکرو پروسیسرز کے مرہون منت آئندہ ۵ سے 10 سال میں بہت کچھ بدلنے جارہا ہے اور عین ممکن ہے کہ آج پیدا ہونے والے بچے ۵ سال کے بعد جب اسکول کی عمر کو پہنچیں گے تو انہیں آج کی بہت سی مقبول سائنسی ایجادات تصویروں یا کباڑخانوں میں نظر آئیں گی۔ 

WAHEDATE INSANI KE SCIENCI SHAWAHED

وحدت انسانی کے سائنسی شواہد
یہ دوئی کیوں من وتُو کی ؟

محض صورتیں‘ سیرتیں اورآوازیںہی مختلف ہیں لیکن انسانوں کے مابین قدرمشترک وہی ہے جس کا ذکر یوں فرمایاگیا ہے کہ ’اے لوگو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں نفس ِواحدہ یاایک ہی جان سے پیدا کیاہے تاہم وحدت انسانی کے سلسلہ میں ایک اہم اورنئی تحقیق نے انسانی عقلوں کو ششدر کردیا ہے جس کے تحت پتہ چلا ہے کہ انسانی دماغ حیرت انگیز طور پرنہ صرف یکساں ہوتے ہیں بلکہ ان کا بنیادی سالمیاتی یا مالیکیولرmolecular نقشہ بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ہفتہ 22 ستمبر 2012کو موصولہ رپورٹ میںیہ نقشہ 3 دماغوں کے 9سو حصوں کے جینیاتی تجزیے سے بنایا گیا ہے اور اس میں جینز کے اظہار کی10کروڑ پیمائشیں شامل ہیں۔امریکہ کی سیئیٹل یونیورسٹی American Sentinel Universityکے ایلن انسٹی ٹیوٹ فار برین سائنسزAllen Institute for Brain Science اور اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرا یونیورسٹی Edinburgh Universityکی مشترکہ ٹیم کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ جینیاتی خرابی سے دماغی امراض کیسے پیدا ہوتے ہیں۔یہ تحقیق سائنسی رسالے نیچر میں شائع ہو رہی ہے۔انسانی دماغ دنیا کی پیچیدہ ترین چیز ہے۔ یہ10 کھرب خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسے ابھی تک مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکا۔تحقیق کے مصنفین میں سے ایک محقق ایلن انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ایڈ لین Prof Ed Leinکہتے ہیں کہ اس نقشے سے ’دماغ کی کارکردگی، نشوونما، ارتقاء اور بیماری کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوں گی۔‘تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ ایک انسان کے دماغ کے جین دوسرے انسان کے دماغ کے جینز سے بہت زیادہ ملتے جلتے طریقے سے ظاہر ہوتے ہیں‘ جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کی شخصیات میں فرق کے باوجود دماغوں کی ساخت حیرت انگیز طور پر یکساں ہے۔ایڈنبرا یونیورسٹی کے نیوروسائنس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر سیٹھ گرانٹProf Seth Grantکے مطابق اگرچہ انسانی جینوم کی نقشہ بندی یاسیکونسنگ خاصہ عرصہ پہلے کی جا چکی ہے، ’اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس سے جین کس طرح تشکیل پاتے ہیں اور یہ جین انسانی دماغ میں کس طرح ظاہر ہوتے ہیں۔‘انسانی ذہن پر تحقیق سے قبل سائنس دان چوہے کے دماغ پر کئی برس سے اسی قسم کی تحقیقات کرتے رہے ہیںلیکن چونکہ انسانی دماغ کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے، اس لئے انہیں بہترین نتائج حاصل کرنے کیلئے اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لانا پڑی۔ہر دماغ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنے کے بعد سائنس دانوں نے ایک کمپیوٹر سافٹ ویئر کی مدد سے ہر ٹکڑے کا مشاہدہ کیا تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ جینز کا دماغ میں اظہار کس طرح ہوتا ہے۔پروفیسر گرانٹ کہتے ہیں ’اس سے پہلے والی تحقیقات میں چوہے کے دماغوں میں انفرادی جینز کا مطالعہ کیا گیا تھا اور ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک کر کے جانچا کیا کہ وہ دماغ میں کہاں ظاہر ہوتے ہیں’لیکن اب ہم نے دماغ کے ٹشو کا ہر چھوٹا ٹکڑا لیا اور تمام جینز کو ایرے ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ساتھ جانچ لیا۔‘پروفیسر گرانٹ نے مزید کہا کہ اس سالمیاتی نقشے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس کو ایک ایسے فارمیٹ میں تیار کیا جائے جسے وہ سائنس دان بھی استعمال کر سکیں جو بالکل مختلف دماغی معاملات پر کام کر رہے ہیں۔
پوری انسانیت ایک ماں باپ کی اولاد:
واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلیزٹائم کے حوالے سے سڈنی مارننگ ہیرلڈکے مطابق سائنس دانوں نے 1987میں ایک تحقیق شائع کی تھی جس سے ثابت ہوا تھا کہ دنیا بھر میں جو مختلف رنگ و نسل کے لوگ پھیلے ہوئے ہیں ان میں ایک ایسا جین Gene مشترک ہے جو صرف ماں ہی بچے کو منتقل کر سکتی ہے۔ یعنی Mitochondriaگویا تحقیق سے یہ تصور درست معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسان ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔ سائنس دانوں نے بھی اس ماں کا نام Eve یعنی حوا رکھا ہے۔ اس تحقیق کے8 سال بعد1995میں دنیا کی تین معروف یونیورسٹیوںشکاگو Chicago‘ہاردورڈ Harward اور ییل Yal نے Y-Chromosomeوائی کروموسوم کا تجزیہ کیا جو ان 38 مردوں سے لئے گئے تھے جن کا تعلق مختلف قوموں اور نسلوں سے تھا۔ وائی کروموسوم وہ ہوتے ہیں جو جنینEmbryoکو لڑکا بناتے ہیں۔ تینوں یونیورسٹیوں کی تحقیق نے ثابت کیا کہ اپنی ولدیت میں بھی سب انسان مشترک ہیںلیکن اس بار اس جد امجد کانام انہوں نے آدم نہیں رکھا بلکہ یہ خیال ظاہرکیا کہ دنیا کے سب انسان شاید چند ہزار پر مشتمل ایک گروپ کی شاخیں در شاخیں ہیں جن میں باپ کی طرف سے ایک قدرمشترک تھی۔ پچھلی تحقیق کو موجودہ سے ملا کر اگر دیکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے انسان خواہ وہ کسی ذات پات یاملک وقوم کے ہوں ان میں ماں باپ دونوں کی طرف سے ایک قدر مشترک ضرور موجود ہے۔ چنانچہ اخبار نے اس رپورٹ پر جو عنوان قائم کی وہWe are all related تھا یعنی ہم سب انسان باہم رشتہ دار ہیں جب کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کسی دو انسانوں میں خون کی رشتہ داریاں کتنی قریبی یا کتنی پرانی ہے۔ ایسے بہت سے مطالعوںکے بعد سائنسدانوں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آج کی دنیا کے گوشہ گوشہ میں آباد تمام انسان کالے، گورے، پیلے یا سانولے، سب کے سب ایک ہی جوڑے کی اولاد ہیں۔ شہر در شہر، گاؤں در گاؤں جاکر اور خون کے نمونے اٹھا کر ڈی این اے ٹیسٹ کئے گئے ہیں۔ ابھی تک ایک بھی شخص ایسانہیں ملا جو دیگرتمام انسانوں کا رشتہ دار نہ ہو، بھلے ہی یہ رشتہ داریاں 5پشت پرانی ہو یاپانچ ہزاربرس۔ سائنسدانوں نے ایک خاتون کا اتہ پتہ بھی ڈھونڈ نکالا ہے جو ہم سب انسانوں کی پڑ پڑ  نانی تھی اور جن کا خون تمام انسانوں کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ آج سے 2 لاکھ سال قبل وہ خاتون مشرقی افریقہ میں رہتی تھیں۔
ڈی این اے ٹیسٹ نے کئے متعدد انکشافات:
کل تک نسل انسانی کی تاریخ کی تفتیش قدیم دستاویزات، عمارتوں، فنی شہ پاروں، اوزاروں، قبروں، ہڈیوں، بولیوں وغیرہ کی مدد سے ہوا کرتی تھی۔ آج ہمیں ایک اور آلہ مل گیا ہے۔ انسان شریانوں میں پائے جانے والے ڈی این اے ٹیسٹ سے نسل انسانی کے ہزاروں لاکھوں سال پرانی تاریخ میں جھانکنا ممکن ہوگیا ہے۔بنی انسان کے جدامجد کہاں رہتے تھے؟ کب اورکیسے وہ وہاں سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلے اور بسے ؟یہ دلچسپ کہانی اب تصور کا موضوع نہیں رہی۔ آج سے 160 ہزار سال پہلے انسانی ذات کے ادم آبائو اجداد مشرقی افریقہ میں رہتے تھے۔ وہ دریاؤں اور جھیلوں کے کنارے، جھاڑی دار جنگلوں میں آباد ہوئے تھے۔ سردی، گرمی، بارش، آندھی اور طوفانوں کو وہ  اپنی جانوں پر برداشت کرتے تھے۔ پھل ، چھوٹے موٹے جانوروں اور مچھلیوں کا شکار کر کے پیٹ بھرتے تھے۔ لاٹھی ڈنڈے اور تیز دھار والے نوکیلے پتھر ان کے اوزار تھے۔پرتشدد جانوروںکے سبب زندگی غیر محفوظ تھی۔ خصوصا ننھے بچوں کو بچانا بڑے خطرے کا کام تھا لیکن ان کی معاشرت نے انہیں بہت مجبورکر دیا۔ اندازہ ہے کہ انسانوں کے اولین قافلے کی کل آبادی اس وقت تقریبا ایک لاکھ تھی۔ پھر آبادی میں اضافہ ہوا تو وہ نئی نئی ریاستوں کو تلاش کر کے وہاں بستیاں بسانے لگے۔ باقی ماندہ افراد افریقہ، ایشیا، آسٹریلیا، یوروپ، اور دو امریکی براعظموں کی سرزمین پر بسنے لگے۔ ان کے پھیلاؤ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 160 سے 135 ہزار سال پہلے نسل انسانی میں سے تین اہم شاخیں افریقہ کے جنوب اور مغرب میں پھیل کر بس گئیں۔ ایک کیپ آف گڈ ہوپ تک پہنچ گئی، دوسری جنوبی کانگو تک اور تیسری گھانا اور اور کوسٹ تک۔ 135 سے 115 ہزار سال قبل ان جرأت مندوں کی ایک شاخ دریائے نیل کی چڑھائی چڑھتے ہوئے مصر پہنچ گئی اور وہاں سے بحر احمر کو عبور کرکے ترکی تک جا بسی۔ 115000 سے 90000 سال پہلے گرم ہوائیں چلیں۔ سہارا ریگستان بن گیا اور رہنے بسنے کے قابل نہیں رہا۔ نسل انسانی کی جو شاخ مصر اور ترکی تک بسی تھی، وہ ختم ہو گئی۔ آج اس کا کوئی نام لیوا تک نہیں بچا ہے۔ 90000 سے 85000 سال پہلے کے وقفے میں ایک گروپ نسل انسانی کے بنیادی رہائش گاہ سے شمال کی طرف جاکر ایتھوپیا کو آباد کرتا ہوا یمن تک پہنچ گیا اور وہاں سے سمندر کے کنارے کیساتھ ساتھ جنوبی ایران تک پھیل گیا۔ یہ لوگ گوشت خور تھے جن کی خوراک کا ایک اہم حصہ مچھلی تھی۔ جنوبی ایران سے چل کر وہ صرف دس ہزار سال میں جنوبی سندھ، ممبئی، گوا، کوچین، لنکا، چنئی، کولکتہ، سماترا، جاوا میں بستے بساتے بورنیو تک پھیل گئے۔ یمن سے لے کر شنگھائی تک کئی ہزار میل طویل ساحل سمندر پر جہاں کہیں سندھ کے ڈیلٹا تھے، وہاں نسل انسانی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔
تہذیبوں کے بننے بگڑنے کا عمل:
آج سے 74000 سال پہلے سماترا کے توبا پہاڑ میں ایک شدید دھماکہ ہوا جس سے زمین آسمان میں کھلبلی مچ گئی۔ برصغیر ہند-پاک پر چھ سال تک سورج دکھائی نہیں دیا۔ ایک ہزار سال کڑاکے کی سردی پڑی اور 5 میٹر موٹی راکھ کی تہہ زمین پر بچھ گئی۔ زندگی تباہ ہو گئی۔ تہذیب دو ٹکڑوں میں بٹ کر رہ گئی۔ 75000 سے 65000 سال پہلے کے دور میں ہندوستان کی ساحلی ریاست بتدریج پھر سے آباد ہونے لگی۔ لوگوں کا پہلے کی طرح آنا جانا اور بسنا پھر شروع ہو گیا۔ بورنیو گروپ کی ایک شاخ ملیشیا سے ہوتی ہوئی ہندوستان کے اطراف و جوانب میں بس گئی جبکہ اسی کی دوسری شاخ نے آسٹریلیا کے مشرقی مغربی ساحلوں کو آباد کر دیا۔ 65000 سے 52000 سال پہلے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی آئی۔ گرمی میں اضافہ ہوا۔ برف پگھلی۔ ندیوں اور سمندروں میں طغیانی آئی۔ کئی جزیرے ڈوب گئے۔ آبادی شمال کی طرف سرکنے لگی۔ جنوبی ایران میں آباد لوگوں میں سے کچھ ترکی پہنچے اور وہاں سے انہوں نے یوروپ میں داخلہ حاصل کیا جب کہ اگلے سات ہزار سال میں تقریبا پورے یوروپ میں پھیل گئے۔ادھر یوروپ آباد ہو رہا تھا، ادھر وسطی ایشیا میں انسانی ذات کی تین چار قسموں کا وسیع امتزاج قائم ہورہا تھا۔ ایک شاخ جنوبی ایران سے آ کر یہاں آبادہوئی اور دوسری سندھ دریا کے کنارے کنارے، پنجاب ہوتے ہوئے اور ہمالیہ کوعبورکرکے یہاں آبادہوئی۔ تیسری ویت نام سے چل کر اور تبت ہوتے ہوئے یہاں پہنچی۔ تہذیبوں کے اس استحکام میں انسانوں نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا - ہنر، مہارت، فنون اور زبانیں۔ 40000 سے 25000 سال قبل اس مجمع سے کئی شاخیں نکلیں، جن میں تین اہم رہیں۔ ایک نے شمالی یوروپ کا رخ کیا، دوسری نے اسکیڈی نیویائی ممالک کا۔ تیسری سائبیریا اور الاسکا ہوتے ہوئے شمالی امریکہ براعظم میں داخل ہوکر جنوبی امریکہ میں داخل ہوئی۔ اگلے دس ہزار سال میں اس نے جنوبی امریکہ براعظم کو بھی آباد کر دیا۔ ان لوگوں کو تاریخ دانوں نے غلطی سے انڈین نام دے دیا ہے لیکن یہ ایک وجہ سے صحیح بھی ہے کیونکہ ان کے آباء و اجداد کبھی انڈیا میں بھی ہوا کرتے تھے۔آج سے 10000 سال پہلے پوری دنیا نسل انسانی کے قدموں کے نیچے تھی، لیکن ان کے اوزار بھی نوکیلے پتھر ہی تھے۔ ان کا خوراک اب بھی شکار کے علاوہ  پھلوں تک ہی محدود تھا۔ پہیہ اورتیر کمان کی ایجاد ہونی باقی تھا۔ تانبے، لوہے وغیرہ کی دریافت ابھی نہیں ہوئی تھی۔ غلہ بانی اور زراعتی سائنس تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ گھوڑے کی سواری تک رسائی نہیں ہوئی تھی۔ نسل انسانی ایک انقلابی تہذیب کے دروازے پر کھڑی تھی لیکن اس تہذیب کی ترقی کی کہانی تاریخ کہلاتی ہے۔
جِین کی مدد سے انسانی شکل کا اندازہ:
ایک سائنسی تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے ایسے پانچ جین دریافت کئے ہیں جو عنقریب صرف ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے انسانی چہرے کی پہچان کروانے میں مددگار ثابت ہو سکیں گے۔پیر 17 ستمبر 2012کو شائع تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ یہ جین انسانی چہرے کی بناوٹ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس کی دریافت سے جرائم کا سراغ لگانے والے فورنزک ٹیسٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے میں اہم پیش رفت ہو گی ۔ اس دریافت سے قبل انسانی چہرے کی بناوٹ کے ذمہ دار جین کے بارے میں کوئی معلو مات نہیں تھیں۔جینیاتی مطالعے سے قبل ایم آر آئی تصاویر کی مدد سے لوگوں کے چہروں کے خدوخال کا اندازہ لگایا گیا۔ تقریباً 10ہزار افراد کے نمونوں پر مشتمل یہ تحقیق پلوس جنیٹکس نامی رسالے میں شائع ہوئی ہے۔نیدرلینڈ کیارازمس یونیورسٹی میڈیکل سنٹر سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے سربراہ مینفرڈ کیسر کا کہنا ہے کہ ’یہ دلچسپ قسم کے ابتدائی نتائج ہیں جن سے انسانی چہرے کے بننے کے عمل اور بناوٹ سمجھنے آغاز ہو ا ہے۔‘ان کا مزید کہنا ہے کہ ’شاید کسی وقت یہ ممکن ہو جائے گا کہ اگر کسی انسان کا صرف ڈی این اے مل جائے تو اس سے اس کے چہرے کا خاکہ بنایا جا سکے گا جس کے کئی فوائد ہوں گے مثلاً یہ جرائم کا سراغ لگانے میں بہت کارآمد ثابت ہوگا۔‘محققین نے تمام جینوم کا تفصیلی جائزہ لے کر چھوٹے چھوٹے تغیرات کا مشاہدہ کیا جو ان لوگوں میں زیادہ عام ہوتے ہیں جن کے مخصوص قسم کے خدوخال ہوتے ہیں۔اس کے بعد انھوں نے لوگوں کے سروں کی ایم آر آئی تصویرں، چہروں کی تصویروں اور جین کا مطالعہ کر کے 5 جین دریافت کئے۔اس دریافت کا مطلب ہے کہ ان جین کی مدد سے انسانی شباہت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ 2010کے دوران ایک دیگر تحقیق سامنے آئی تھی جس سے بالوں اور آنکھوں کے رنگ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان دونوں پیش رفتوں کی مدد سے ڈی این اے کی بنیاد پر فورنزک ٹیسٹوں کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کے نئے دروازے کھل گئے ہیں۔