Search This Blog

Monday, 21 April 2014

قرآن کا شاعر اور شاعر کا قرآن . Quran ka Shaer aur Shaer ka Quran

قرآن کا شاعر اور شاعر کا قرآن

کالم نگار  |  نعیم مسعود

سن 1996 کے لگ بھگ کی بات ہے کہ پروفیسر عبدالحئی صدیقی میرے آفس میں آئے اور بڑی سنجیدگی سے سوال کیا کہ ’’کیا قائدؒ اور اقبالؒ بھی ’کلوننگ‘ سے پیدا کئے جا سکیں گے؟ ان دنوں کلوننگ کی تحقیق کا بہت چرچا تھا، روزانہ اخبارات میں جنیٹک انجینئرنگ اور بائیو ٹیکنالوجی کی باتیں چل رہی تھیں۔ میرے جیسے بائیالوجی کے طالب علم کیلئے یہ باتیں نئی نہ تھیں تاہم عام فہم یا وہ اساتذہ اور طلبہ جو حیاتیاتی علوم سے ناآشنا تھے اُن کیلئے یہ باتیں بہت عجیب اور نئی نئی تھیں۔ بہرحال پروفیسر صاحب کی بات کا جو جواب میں نے عرض کیا وہ یہ تھا کہ وہ ’’قائد اور اقبال‘‘ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں حالات، چیلنجز، فہم و فراست اور جذبوں کی صداقت قائد اور اقبال بناتی ہے، انہیں کلوننگ کے ذریعے پیدا کرنا ممکن نہیں مگر ان کے درس و تدریس اور پیغامات قوم میں اقبال اور قائد ضرور پیدا کرتے ہیں۔ نوجوانوں کی بیٹریاں ان کے افکار اور اقدامات سے چارج اور ری چارج ضرور ہوتی ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ جنیٹک انجینئرنگ یا کلوننگ سے نہیں بن سکتے لیکن یہ خود اتنے بڑے سوشل انجینئر اور ’’جنیٹک انجنیئر‘‘ ہوتے ہیں کہ جن کے دم خم اور فکر و عمل سے اقبالیات کو پیدائش، نمو اور نشو و نما ملتی ہے  ؎

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
علامہ اقبال جدید دنیا کی وہ پہلی مسلمان شخصیت تھی جس نے اپنے تصورات اور پیغامات سے مسلمانوں کو یہ سبق سکھانے کی کوشش کی کہ آپ گلوبل ولیج میں ہیں۔ دنیا کے گلوبل ولیج ہونے کو اقبال نے سب سے پہلے ثابت کیا اور اس کی اہمیت پر زور دیا۔ آج کی قیادت اچانک بول کر کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہے کہ ’تعلیم یہ، نوجوان وہ، جہاد ایسے اور فرنگی یوں! قیادت کی چشمِ بینا اور وسعت نظر صدیوں پرانی تاریخ کو مستقبل سے موازنہ کر کے دیکھتی ہے۔ قیادت اذان دینے کی صلاحیت، بات پر کھڑے رہنے کی ہمت اور اہمیت کے علاوہ دلیل کی طاقت اور مظاہراتی و انکشافی طرز عمل سے بخوبی آگاہ بلکہ اس کی پریکٹیکل شہادت ہوتی ہے۔ قیادت کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ صرف اشرافیہ کی نمائندہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات اور نفوذ ملت کے ہر فرد تک رسائی رکھتے ہیں۔ وہ ہر فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ سمجھتے ہیں۔ ایسی نیچرل اور باصلاحیت قیادت ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ اور مال و متاع کے سمیٹنے سے اجتناب کرتی ہے۔ بگاڑ سے کہیں دور بسیرا اور بنائو کی تراش خراش ہی ان کا نظریہ اور نصب العین ہوتا ہے  ؎
ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے
ڈاکٹر اقبال 21 اپریل 1938ء سے اس جہانِ فانی سے کوچ ضرور کر گئے لیکن ان کی بازگشت مؤثر پیغام بن کر تلاطم خیز موجوں کے سامنے ٹھہرنے کا کلیہ اور فارمولا بن کر دل و دماغ کی فضا میں موجود ہے۔ پیغامِ اقبال جب اپنے عروج پر تھا تو وہ برصغیر پاک و ہند کے ماحول کو دیکھ کر اقوال زریں بن کر کانوں تک پہنچتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح سے مولانا مودودی تک کی ہمت افزائی اقبال نے اُس وقت کی جب ان کے گرد فرسٹریشن کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ شاعر مشرق کے تدبر کو مغرب بھی مانتا تھا۔ خطبہ الہ آباد کا فکر مشرق و مغرب کیلئے حیرانی کا باعث بنا۔ مصور پاکستان نے صرف پاکستان کا خواب ہی نہیں دیکھا تھا بلکہ اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے منزل کی جانب والی شاہراہ کا تعین بھی کیا۔ وہ کہتے کہ مایوس نہیں ہونا، بڑھتے رہنا ہے، غم کو ہمت سے ختم کرنا ہے  ؎ 
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اقبال پُرعزم قیادت کے حق میں تھے ان کی فلاسفی تھی کہ اگر قحط الرجال نہ ہو تو ہر فرد مردِ مومن کی طرح سمجھ اور سوچ سکتا ہے۔ اسی لئے تو وہ کہتے تھے کہ ’’خالی ہے کلیموں سے کوہ و کمر ورنہ --- تو شعلۂ سینائی میں شعلہ سینائی‘‘ کرگس کا جہاں اور، اور شاہیں کا جہاں اور جیسی باتیں، گویا شہباز کی باتیں وہ قوم کی اٹھان کیلئے کرتے۔ ان کی شاعری امید کی شمع فروزاں کرتی تھی۔ تیرگی اور ظلمتوں کا سماں اُن کی فلاسفی، حکمت اور پیغام میں کوئی جگہ نہ رکھتا  ؎
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
شیخ سعدی شیرازیؒ نے جس طرح ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر چڑیوں میں اتحاد ہو جائے تو وہ شیر کی کھال اتار سکتی ہیں۔ اقبال بھی ملت کا ایسا ہی غم رکھتے تھے اور نیل کے ساحل سے تابخاکِ کاشغر وہ مسلم کو ایک دیکھنا چاہتے تھے۔ اگر آج ہم ایک نہیں تو یہی وجہ ہے کہ شام و مصر، لبنان، عراق، ایران حتیٰ کہ پاکستان کے ساتھ عہدِ حاضر کے چودھری امریکہ کا رویہ کیا ہے۔ او آئی سی ہے مگر اُس کی بے توقیری اُس کے دامن کا لباس ہے۔ اپنی ہی سرزمین کو دیکھ لیں غیروں نے ہمیں طالبان، نسل پرست، شیعہ سُنی، بلوچ و غیر بلوچ میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ہمیں ہمارے مرکز اور نظریہ سے دور کر رکھا ہے۔ موساد، را، اور سی آئی اے نے ہمیں کمزور کرنے کیلئے ہمارے حقیقی مجاہدوں اور حقیقی طالبان کے مقابلے پر ’’اپنے طالبان‘‘ کھڑے کر دئیے ہیں۔ اپنے ہی لوگوں سے اپنوں کی گردنیں کٹوائی جا رہی ہیں۔ ابھی وقت ہے کہ ہم صراطِ مستقیم پر آ جائیں  ؎
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
بابا فریدالدین گنج شکرؒ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’جو سچائی جھوٹ کے مشابہ ہو اسے اختیار مت کرو‘‘ گویا سچ کی سچائی کی دُہائی جو اقبال سے ملتی ہے وہ دیگر مفکرین اور شعراء کے ہاں نہیں پائی جاتی ہے  ؎
خُدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام!

مجددّ الف ثانی ؒسے علامہ اقبال ؒ. Mujaddid Alfsani se Allama Iqbal

مجددّ الف ثانی ؒسے علامہ اقبال ؒ

رانا عبدالباقی
 

تاریخ اِس بات کی شاہد ہے کہ آریا ہندو سماج یا ہندوازم کے علمبردار 1700 سے1500 قبل مسیح کے دوران افغانستان میں پہلا پڑائو ڈالنے کے بعد موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی دراوڑی تہذیب کو شکست دے کر فاتحین کے طور پر ہندوستان میں داخل ہوئے ۔ اُنہوں نے برّصغیر جنوبی ایشیا کو "بھارت ماتا" قرار دے کر ہندوستان کو اپنا وطن بنایا اور مقامی لوگوں کیساتھ ظالمانہ سلوک کرتے ہوئے اُنہیں غلاموں سے بدتر یعنی شودر اورملیچھ کی پوزیشن میں رکھ کے سیاسی اور سماجی طور پر مقامی آبادیوں پر غلبہ حاصل کرلیا ۔ آریا ہندو سماج یاہندوازم کے ماننے والے ذات پات کے نظام کے تابع تھے چنانچہ ذات پات کے نظام کو سماجی ہتھیار کے طور استعمال کرتے ہوئے اُنہوں نے مقامی باشندوں کے علاوہ ہندوستان پر حملہ آور ہونے والی دیگر فاتح قوموں کے زوال پزیر ہونے پر اُنہیں بتدریج اپنے سماجی نظام میں جذب کرلیا۔ حتیٰ کہ وقت گزرنے کیساتھ ہندو سماج کے ذات پات کے ظالمانہ نظام کے خلاف جنم لینے والی مقامی سماجی تحریکوں جین مت اور بل خصوص بدھ مت جسے جنوبی ایشیا میں مضبوط مرکزی ہندو حکومت کے بانی چندرگپت موریا کے پوتے اشوک بادشاہ کے بودھ ازم قبول کرنے کے بعد کابل سے بنگال تک چند صدیوں تک عروج حاصل رہا کو کچھ عرصہ برداشت کرنے کے بعد ہندوازم نے انتہائی ظالمانہ اور وحشیانہ شکل اختیار کرتے ہوئے اِن دونوں مقامی تہذیبوں کو بھی شودر اور ملیچھ کے طور پر ہندوازم میں جذب ہونے پر مجبور کر دیا ۔ ہندوازم کے جذب و کمال کا یہ سلسلہ ہندوستان میں ظہور اسلام تک جاری و ساری رہا ۔ محمد بن قاسم کی سندھ کی فتوحات نے بلاآخر ہندوازم کی اِس سماجی قوت کو موثر طور پر چیلنج کیا اور بعد میں افغانستان کے راستے آنے والے اسلامی اثرات کے باعث مسلمان فاتحین نے ہندوستان میں سلطنتیں قائم کیں اور غلبہ اسلام کو ایک ہزار برس پر محیط کر دیا ۔ ہندوستان میں فکر اسلامی کے خلاف ہندوازم کی شدت پسندی ہندو مورخوں اور دانشوروں میں پیدا ہونے والی اِس سوچ کو بخوبی واضح کرتی ہے کہ ہندوازم نے ہندوستان میں آنے والے ہر مذہب اور قوم کو اپنے اندر جذب کرلیا لیکن یہ مسلمان کیسے لوگ ہیں جو شدہی سنگھٹن اور جبر و تشدد کے باوجود اسلامی تہذیب سے منحرف ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں ؟

 پروفیسر منّور کی یہ دلیل اپنی جگہ درست ہے کہ مسلم فاتحین کیساتھ لاکھوں مسلمان صحرائے عرب ، ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں سے ہندوستان میں آئے لیکن یہ بھی درست ہے کہ دینِ اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے لاکھوں مقامی ہندوئوں نے بھی اسلام قبول کیا اور پھر وہ دین اسلام پر ہی قائم رہے ۔ گو کہ ہندوستان میں مسلم حکومتوں کے دور میں مسلمانوں کی عددی تعداد ہندوئوں کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم رہی لیکن مسلم سلطنتوں کے زوال پزیر ہونے پر بھی ہندوازم اسلامی تہذیب کو ہندو سماج میں جذب کرنے میں ناکام رہا۔ہندوازم کی جانب سے ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کو ختم کرنے کیلئے تین منظم کوششیں کی گئیں پہلی 1527 میں جب تاریخ میں رانا سانگا کے نام سے موسوم راجپوت جنگجو سردار کی قیادت میں ایک سو راجپوت راجوں اور مہاراجوں کی ایک لاکھ سے زیادہ پُر جوش افواج جن کے دلوں کو جنگی جنون سے گرمانے کیلئے ہزاروں ہندو خواتین و نوجوان بچے ہندو مذہبی جنگی ترانوں گاتے ہوئے آخری وقت تک میدان جنگ میں موجود رہے ، نے کنواح کے مقام پر جنگ کا آغاز کیا جہاں مغل بادشاہ ٔ اسلام ظہیرالدین بابر نے ہندوازم کی افواج کو شکست فاش دے دوچار کیا ۔ دوسری کوشش شہنشاہ اکبرا ور جہانگیر کے زمانے میں کی گئی جب راجپوت ہندو سرداروں نے دربار مغلیہ میں غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل کرکے فکر اسلامی کو اندر سے کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن مجدّد الف ثانی ؒ نے اِس کوشش کو ہندوازم کی جانب سے بدھ مت اور جین مت کی طرز پر ہندوستان میں اسلام کو مٹانے کی جارہانہ سماجی سازش سے تعبیر کرتے ہوئے مسلمان علماء و فقیہ کو خوابٔ خرگوش سے جگانے کیلئے تجدیدٔ احیائے دین کی موثر آواز بلند کی اور ہندوازم کی فکرِ اسلامی کو جذب کرنے کی پالیسی کا زور کسی حد تک توڑ ڈالا۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے بال جبریل میں مجدّد الف ثانی ؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا :
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
 جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار
وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہباں
 اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
درج بالا منظر نامے میں جب شہنشاہ شاہ جہاں کے بیٹوں کے درمیان جنگ تخت نشینی شروع ہوئی تو ہندوازم کے حمایت یافتہ شہزادہ دارالشکوہ کے خلاف مجدّد الف ثانی ؒ کی فکرِ اسلامی کے علمبرداروں نے خونریز جنگِ تخت نشینی میں اورنگ زیب عالمگیر کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ تیسری کوشش اورنگ زیب عالمگیر کی موت کے بعد زوال پزیر مغلیہ سلطنت کے خلاف 1761 میں منظم مرہٹہ افواج نے تخت دہلی کے ارد گرد کے تمام علاقوں پر قبضہ مستحکم بنانے کے بعد کی لیکن زوال پزیر مغلیہ سلطنت کی حالت زار کودیکھتے ہوئے اپنے وقت کے ولی ، شاہ ولی اللہ کی اپیل پر احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست فاش دیکر ہندوازم کی اِس کوشش کو بھی ناکام بنا دیا ۔ لیکن اِن کڑے امتحانوں سے سرخرو ہونے کے بعد حالات پر مسلمان امراء اور نوابین کے درمیان مفادات کی سوچ حاوی ہوگئی اور احمد شاہ ابدالی کی ہندوستان سے واپسی پر ہندو پس پردہ سازشوں کے باعث مغلیہ سلطنت زوال پزیر ہوکر مسلم نوابین و امراء میں تقسیم ہوتی چلی گئی چنانچہ ہندوازم نے اپنی حکمرانی کے احیاء کیلئے مسلمان نوابین کے خلاف اپنی سازشوں کو جاری رکھا اور بالآخر ہندوستان میں انگریز کمپنی بہادر کی اُبھرتی ہوئی طاقت کیساتھ گٹھ جوڑ کر کے 1857 کی جنگ آزادی میں تخت دہلی پر انگریزوں کے قبضے کے بعد ہندوستان میں مسلم حاکمیت کی آخری نشانی کو مٹا دیا گیا ۔ گو کہ 1857 کی تخت دہلی کی جنگ میں برہمن ہندو سماج سے بیزار چھوٹی ذات کے ہندوئوں نے بشمول مرہٹہ پیشوا کے جانشین المعروف نانا صاحب، جھانسی کی رانی وغیرہ نے اپنے مفادات کے پیش نظر انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے سے گریز نہیں کیا لیکن اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے بیشتر ہندو راجوں مہاراجوں اور سکھوں کی مدد سے نہ صرف انگریزوں کو ہندوستان کی تقدیر کا مالک بنا دیا بلکہ 1857 کی جنگ آزادی کی تمام تر ذمہ داری بھی مسلمانوں پر عائد کر کے مسلمانوں کے خلاف تاریخ کی بدترین انتقامی کاروائی کو مہمیز دی ۔(جاری)

اقبالؒ اور احترام انسان . Iqbal aur Ihterame Insan

اقبالؒ اور احترام انسان

ڈاکٹر سید محمد اکرم 


اقبالؒ کے نزدیک انسان کائنات کی تخلیق کا عالی ترین مقصد ہے۔ اس کی تخلیق احسن تقویم پر ہوئی ہے۔ اس کے فکروعمل کی وسعتوں کا کوئی حساب نہیں اس  کے ہنگامہ ہائے نوبہ نو کی کوئی انتہا نہیں۔ اقبال انسانی تہذیب کی روح ورواں اس بات کو قرار دیتے ہیں کہ انسان کا احترام کیا جائے:۔  …؎
برتر از گردوں مقام آدم است 
اصل تہذیب  احترام آدم است 
انہوں نے کہا میں انسان کے شاندار اور درخشاں مستقبل پر پختہ یقین رکھتا ہوں اور میراعقیدہ ہے کہ انسان نظام کائنات  میں ایک مستقل عنصر کی حیثیت حاصل کرنے کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہے۔ یہ عقیدہ میرے خیالات وافکار میں آپ کو عموماً جاری وساری نظر آئے گا۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک جو انسان کا احترا م نہیں کرنا وہ انسان دوست نہیں ہے وہ خدا دوستی اور خدا پرستی کا دعوی نہیں کر سکتا۔ مخلوق سے محبت ہی خالق سے محبت ہے۔ 
اقبالؒ جہاں انسان دوست قوتوں کا احترام کرتے ہیں وہاں انسان دشمن قوتوں کے رویوں کو بھی بے نقاب کرتے ہیں تاکہ آج پردہ تہذیب  میں جو غاری گری اور آدم کشی کا عمل جاری ہے اسے روکا جا سکے۔ اقبالؒ کے دور میں مغربی استعمار نے قبائے انسانی کو چاک کیا۔ یہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس اقبالؒ نے مغربی تہذیب کے تباہ کن رویوں کے خلاف ہو گئے۔ ان کے کلام کا ایک عظیم حصہ لادین سیاست کی نفی اور بے رحم اور خودغرض ملوکیت کے خلاف آواز ہے۔ 
علامہ اقبالؒ نے کیمبرج میں کہا میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دہریت ومادیت سے محفوظ رہیں۔ اہل یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے مذہب وحکومت کو علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ اس طرح ان کی تہذیب اخلاق سے محروم ہو گئی۔لیگ آف نیشنز طاقتور اقوام نے کمزور اقوام کو اپنے تصرف میں لانے کا ایک ادارہ بنا لیا۔ اقبالؒ نے اسے کفن چوروں کی انجمن کا نام دیتے ہوئے کہا…؎ 
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند  
بہر تقسیم قبور انجمنے  ساختہ اند 
علامہ اقبالؒ کا تمام  کلام انسان کے احترام، اس کی حفظ وبقا اور ترقی وارتقا کی تعلیمات پر مشتمل ہے۔ انہوں نے پروفیسر نکلسن کے نام ایک خط میں لکھا:۔  
’’میری فارسی نظموں کا مقصد اسلام کی وکالت نہیں بلکہ میری طلب وجستجو تو صرف اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ ایک جدید  معاشرتی نظام تلاش کیا جائے اور عقلاً  یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کوشش میں ایک ایسے معاشرتی نظام سے قطع نظر کر لیا جائے جس کا مقصد وحید ذات پات، رتبہ ودرجہ اور رنگ ونسل کے تمام امتیازات کو مٹا دینا ہے۔ یورپ اس گنج گراں مایہ سے محروم ہے۔
تاریخ میں اکثر جنگوں کی بنیاد علاقائی، لسانی اور نسلی اختلافات ہیں۔ اسلام دنیا کا واحد نظام حیات جس نے ان فساد انگیز اور تباہ کن اختلافات کو ختم کرنے اور انسانی برادری کو انسانیت کے نام پر متحد کرنے کی کوشش کی۔ پیغمبرؐ اسلام نے فرمایا…’’تم میں کسی عربی کو عجمی پر فوقیت نہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا تھا۔
اقبالؒ لکھتے ہیں:۔ ’’قرآن مجید کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر ان گوناں گوں روابط کا ایک اعلی اور برتر شعور پیدا کرے جو اس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں۔ قرآنی تعلیمات کا یہی وہ بنیادی پہلو ہے جس کے پیش نظر گوئٹے نے (بہ اعتبار ایک تعلیمی قوت) اسلام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا:۔ اس تعلیم میں کوئی خامی نہیں۔ ہمارا کوئی نظام اور ہمیں پر کیا موقوف ہے کوئی انسان بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔  
ہر بڑا تخلیقی مفکر ایک مثالی انسان کا تصور پیش کرتا ہے۔ علامہ اقبالؒ سے کسی نے سوال کیا کہ انسان کامل کے متعلق آپ کا تصور کیا ہے تو انہوں نے کہا نبیؐ اکرم تمام انسانوں کے لئے کامل ترین نمونہ ہیں جو بھی آپؐ کے اخلاق کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے وہ انسان کامل بن جاتا ہے۔ اقبالؒ کی تمام تصنیفات اور منظومات و بیانات نبی علیہ اسلام کے اعلی اخلاق کی توصیف وتعریف سے مملو ہیں۔ اللہ تعالی نے آپؐ کے حلق کو خلق عظیم سے تعبیر فرمایا انک لعلی خلق عظیم۔ نبیؐ  اکرم نے فرمایا کہ میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث  ہوا ہوں۔ حضور علیہ السالم سراپا رحمت ہیں۔ مومنین کے لئے رئوف رحیم ہیں۔ رحمتہ للعالمین  ہیں یعنی سارے جہانوں کے لئے رحمت۔ فتح مکہ آپؐ کی رحمتہ للعالمینی کا وہ بے مثال مظاہرہ ہے جو چشم تاریخ نے اس سے پہلے  اور اس کے بعد کبھی نہ دیکھا۔ آپؐ نے فرعون  صفت تمام دشمنوں کو لاتژیب علیکم الیوم کہہ کر بلاشرط معاف فرما دیا۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ رسولؐ پاک کی ذات میں تمہارے  لئے بہترین نمونہ ہے۔ لقدکام لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ۔ تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ نبیؐ مکرم کے اسوہ حسنہ کو اپنے انفرادی  اور اجتماعی معاملات میں پیش نظر رکھیں اور سب انسانوں کے ساتھ رحمت و شفقت سے پیش آئیں۔  
اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔ اس کی تعلیمات کا خلاصہ محبت و مساوات کی بنیاد پر ایک آفاقی معاشرے کی تشکیل ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان  کا یکساں احترام کیا جائے۔ اسلام ناگزیر طور پر عالم انسانی کے لئے امن کا مذہب ہے۔ کیونکہ اسلام اتحاد  انسانی کا عظیم داعی ہے۔ اسلام نے بنی نوغ انسان کے اتحاد کے ضمن میں جو پہلا قدم اٹھایا وہ ایک ہی نوع کے اخلاقی ضابطے رکھنے والوں کو اتحاد کی دعوت دیتا ہے۔  قرآن کریم نے اعلان کیا کہ اے اہل کتاب آئو ہم اللہ تعالی کی توحید پر متحد ہو جائیں  جو ہم سب کے درمیان مشترک ہے۔‘‘ 
علامہ اقبالؒ نے اپنی وفات سے چند ماہ پیشتر سال نو کے پیغام میں جو یکم جنوری 1938 کو ریڈیو لاہور سے نشر کیا گیا کہا:۔ 
’’تمام دنیا کے ارباب فکر دم بخود سوچ رہے ہیں کہ تہذیب کے اس عروج اور انسانی ترقی کے اس کمال کا انجام یہی ہونا تھا کہ ایک انسان دوسرے انسان کی جان و مال کے دشمن بن کر کرہ ارض پر زندگی کا قیام ناممکن بنا دیں۔  دراصل انسان کی بقا کا راز انسانیت کے احترام میں ہے اور جب تک دنیا کی تمام علمی قوتیں اپنی توجہ کو احترام انسانیت پر مرکوز نہ کر دیں یہ دنیا بدستور  درندوں کی بستی بنی رہے گی۔ قومی وحدت بھی ہرگز قائم دائم نہیں۔ وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے جو رنگ و نسل و زبان سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت، اس ناپاک قوم پرستی اور ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو مٹایا نہ جائے گا جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے اعتبارات کو ختم نہ کیا جائے گا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح وسعادت کی زندگی بسر نہ کر سکے گا اور اخوت، حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندہ معنی  نہ ہوں گے …؎ 
بہ آدمی نرسیدی خدا چہ می جوئی 
ز خود گریختہ ای آشنا چہ می ہوئی 

علامہ اقبالؒ اور نواب بھوپال . ALLAMA IQBAL AUR NAWAB BHOPAL

علامہ اقبالؒ اور نواب بھوپال

ڈاکٹر محمد سلیم

سلطان جہاں بیگم ریاست بھوپال کی آخری خاتون حکمران تھیں۔ اپنے دو بڑے صاحبزادوں کے انتقال کے بعد‘ 1926ء میں وہ اپنے بیٹے پرنس حمید اللہ خاں کے حق دستبردار ہو گئیں۔ عنان حکومت سنبھالتے ہی نواب حمید اللہ خان کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ وہ نہ صرف مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے چانسلر مقرر ہوئے بلکہ چیمبر آف پرنسز کے چانسلر بھی منتخب ہو گئے۔ نواب حمید اللہ خاں (نواب بھوپال) کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ وہ ایک بیدار مغزوالئی ریاست تھے۔ انہوں نے اپنی رعایا کی فلاح و بہبود اور تعلیمی و ثقافتی ترقی کے لئے بہت کام کیا۔ ان کا دور 1927ء سے شروع ہوا اور 1949ء میں ختم ہوگیا جب ریاست انڈین یونین میں ضم ہو گئی۔

نواب بھوپال شدید آرزو مند تھے کہ مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو ایک مرتبہ پھر حاصل کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے 10مئی 1931ء کو بھوپال میں جداگانہ اور مخلوط انتخابات کے حامی مسلمان رہنماؤں کی کانفرنس بلائی تاکہ ان میں اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ اس کانفرنس میں علامہ اقبالؒ‘ ڈاکٹر مختار انصاری، سر محمد شفیع، تصدق احمد شیروانی اور شعیب قریشی کے علاوہ خود نواب بھوپال بھی شریک ہوئے۔ علامہ اقبال لاہور سے 9 مئی بھوپال کے لئے روانہ ہوئے اور 10مئی بھوپال پہنچے۔ اقبال حسین خان، ندیم خاص (ADC) نے اسٹیشن پر ان کا استقبال کیا۔ محل تک کار میں آتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا کہ بھئی ہمارے خیال میں تو ریاست کشمیر نواب بھوپال کو دے دی جائے اور بھوپال مہاراجہ کشمیر کو۔ وہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہاں ہندوؤں کی، اسی دن صبح گیارہ بجے علامہ اقبال کی نواب بھوپال سے ایک گھنٹے کی ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے بعد علامہ اقبال نے کہا‘ میں نہیں سمجھتا تھا کہ ہندوستان کا ایک والئی ریاست ایسا عالی دماغ بھی ہو سکتا ہے۔ نواب صاحب قوم و ملک کے لئے ایک قابل فخر ہستی ہیں‘‘۔
اسی شام مسلمان رہنماؤں کا اجلاس ہوا۔ 12 مئی کو علامہ اقبال‘ سر محمد شفیع‘ مولانا شوکت علی اور تصدق احمد خاں شیروانی کے دستخطوں سے یہ بیان شائع ہوا:‘‘ ہم 10مئی کو بھوپال میں ایک غیر رسمی اجلاس میں جمع ہوئے تاکہ ان اختلافات کو مٹائیں جن کی بنا پر مسلمان اس وقت دو سیاسی طبقوں میں تقسیم ہو رہے ہیں، ہمارا مقصد ہندو مسلم سوال کے حل کرنے میں آسانیاں پیدا کرنا تھا۔ ہماری متفقہ رائے ہے کہ اس منزل پر بحث و تمحیص کی تفصیلات شائع کرنا مفاد عامہ کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ ہم خوشی سے بیان کرتے ہیں کہ طرفین کے درمیان انتہائی خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں گفتگو ہوتی رہی۔۔۔ جون کا پہلا ہفتہ مزید گفت و شنید کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اس وقت آخری اور تسلی بخش فیصلہ ہو جائے گا‘‘۔
لاہور پہنچنے پر انہوں نے یہ خبر پڑھی کہ ڈاکٹر انصاری اور شعیب قریشی بھوپال سے واپسی پر شملہ میں گاندھی جی کے مکان پر گئے اور انہیں اطلاع دی کہ نواب بھوپال نے جن اصحاب کو مدعو کیا تھا۔ انہوں نے عارضی میثاق مرتب کر لیا ہے۔ اس میثاق میں جو فامولا پیش کیا گیا ہے اس میں جداگانہ اور مخلوط انتخاب کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ فارمولہ تقریباً دس سال تک نافذ رہے گا اور اس کے بعد ہر جگہ مخلوط انتخاب ہو گا۔ اس پر 15مئی 1931ء کو علامہ اقبالؒ نے ایک بیان میں  کہا: ’’چونکہ میں بھی مدعو تھا اس لئے میں یہ ظاہر کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اگر ڈاکٹر انصاری اور مسٹر شعیب نے بھوپال کانفرنس میں پیش کردہ ایسی تجاویز کو جن پر بحث بھی نہیں ہوئی بمنزلہ عارضی میثاق پیش کیا ہے تو انہوں نے یقیناً نہ صرف ان لوگوں کے ساتھ جن سے انہوں نے گفت و شنید کی بلکہ تمام مسلم قوم کے ساتھ برائی کی۔ میں اسے کامل طور پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عارضی میثاق کی قسم کی کوئی چیز حاضرین جلسہ کے خیال میں بھی نہیں آئی تھی۔۔۔ ایسی تجاویز کو جن پر کسی قسم کی بحث بھی نہیں ہوئی، گاندھی جی کے پاس بھاگے بھاگے لے جانے اور انہیں عارضی میثاق کے نام سے تعبیر کرنے سے شبہ ہوتا ہے کہ بھوپال کانفرنس کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر اس میںکوئی حقیقت ہے  تو مجھے کامل یقین ہے کہ بھوپال کانفرنس کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر اس مں کوئی حقیقت ہے تو مجھے کامل یقین ہے کہ بھوپال یا شملہ میں دوسرا جلسہ کرنا نہ صرف مفید نہ ہوگا بلکہ لازمی طور پر مسلمانون ہند کے مفاد کے لئے ضرر رساں ہوگا‘‘۔ اس طرح گاندھی جی کی آشیر باد حاصل کرنے کے لئے ڈاکٹر انصاری اور شعیب قریشی نے مسلم رہنماؤں کو متحد کرنے کی نواب بھوپال کی کوشش کو سبوتاژ کر دیا۔ اس جلاس کے انعقاد سے پتہ چلتا ہے کہ نواب بھوپال سمجھتے تھے کہ جو چند افراد مسلمانوں  کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے بارے میں علامہ اقبال کی باتوں  سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ 10 مئی 1931ء کو ان سے پہلی دفعہ ملے اور پہلی ہی ملاقات میں ان کا یہ تاثر تھا کہ وہ عالی دماغ حکمران ہیں۔
سر راس مسعود نے علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے سے استعفیٰ دیا تو نواب بھوپال کے کہنے پر ان کی ریاست میں وزیر تعلیم و صحت و امور عامہ کا عہدہ سنبھال لیا۔ اس کے بعد علامہ اقبالؒ اور نواب بھوپال کے تعلقات میں جو فروغ ہو اس میں سرراس مسعود کا اہم رول ہے۔ علامہ اقبال اپنے گلے کی بیماری کی وجہ سے سخت پریشان رہتے تھے کیونکہ کوئی علاج کارگر نہیں ہو رہا تھا۔ سر راس مسعود کو علامہ اقبال کی مسلسل علالت سے پریشانی تھی۔ نواب بھوپال بھی ان کی علالت سے فکر مند تھے۔ دونوں حضرات کی خواہش تھی کہ وہ بھوپال آکر بجلی کا علاج کرائیں۔ چنانچہ جب راس مسعود نے انہیں گلے کے علاج کے لئے بھوپال بلایا تو انہوں نے حامی بھر لی۔ 31 جنوری 1935ء کو اقبال بھوپال پہنچے۔ راس مسعود کے پرنسل سیکرٹری ممنون حسن خاں لکھتے ہیں: علامہ اقبالؒ کو لینے کے لئے سر راس مسعود اور میں ریلوے اسٹیشن گئے تھے۔ اگرچہ شاہی مہمان کی حیثیت سے نہیں آرہے تھے۔ پھر بھی نواب بھوپال نے اپنے ملٹری سیکرٹری کرنل اقبال محمد خاں کو اپنے نمائندے کو طور پر ان کے استقبال کے لئے بھیجا تھا۔ جب گاڑی آئی تو ایک صاحب افغانی ٹوپی شلوار اور پنجابی کوٹ میں  ملبوس پلیٹ فارم پر اترے ۔ یہ علامہ اقبالؒ تھے سر راس کی ان پر نظر پڑی، تو استقبال کے لئے تیزی سے ان کی طرف بڑھے۔۔۔۔۔  کرنل اقبال محمد خاں نے آگے بڑھ کر کہا کہ نواب بھوپال نے سلام کے بعد کہا ہے کہ اگر آپ اور سرراس مسعود اجازت دیں تو آپ کے قیام کا انتظام شاہی مہمان خانے میں کیا جائے۔ آپ کے وہاں قیام سے نواب صاحب کو بے حد خوشی ہو گی۔ علامہ اقبالؒ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں تو اس وقت اپنے دوست سے ملنے آیا ہوں۔ نواب صاحب سے ضرور ملوں گا۔ ان کو میرا سلام اور شکریہ پہنچا دیجئے گا۔ دوسرے دن نواب بھوپال سے ملاقات کے لئے علامہ اقبالؒ ’’قصر سلطانی‘‘ روانہ ہوئے۔ گاڑی محل آکر رکی تو نواب صاحب نیچے کی سیڑھی پر علامہ اقبالؒ کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ وہ (نواب بھوپال) ان سے بڑے احترام اور محبت سے ملے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنے کسی بزرگ سے مل رہے ہیں۔ پھر نواب صاحب علامہ (اقبالؒ) کو اپنے کمرے میں لے گئے جہاں ہم صرف چار آدمی تھے۔ میں سب سے پیچھے ایک گوشے میں بیٹھا ہوا تھا۔ جلد ہی کافی کا دور چلا۔ نواب صاحب نے صحت کے بارے میں پوچھا تو علامہ اقبالؒ نے بیماری اور علاج کی تفصیل بتائی۔ اس کے بعد گفتگو کا موضوع بدل گیا۔ نواب صاحب نے "An Interpretation of Holy Quran in the Light of Modern Philosophy" (جدید فلسفہ کی روشنی میں قرآن مجید کی تشریح) کے بارے میں دریافت کیا۔ علامہ اقبال نے بتایا کہ اس کتاب کا خاکہ میرے ذہن میں ہے۔ کچھ تیار بھی کر لیا ہے۔ لیکن کچھ کتابیںبیرون ملک ہیں انہیں دیکھ لینا چاہتا ہوں۔ یہ بھی کہا کہ مجھے آکسفورڈ اور کیمبرج میں توسیعی خطبات کے لئے بلایا جا رہا ہے۔ اگر میں وہاں گیا تو ان کتابوں کو دیکھنے کی کوشش کروں گا۔ نواب صاحب نے کہا کہ اگر یہ کتاب مکمل ہو جائے تو ان کتابوں کو دیکھنے کی کوشش کروں گا۔ نواب صاحب نے کہا کہ اگر یہ کتاب مکمل ہو جائے تو ساری ملت اسلامیہ بلکہ ساری دنیا اسے قدر کی نگاہ دے دیکھے گی۔