قرآن کا شاعر اور شاعر کا قرآن
سن 1996 کے لگ بھگ کی بات ہے کہ پروفیسر عبدالحئی صدیقی میرے آفس میں آئے اور بڑی سنجیدگی سے سوال کیا کہ ’’کیا قائدؒ اور اقبالؒ بھی ’کلوننگ‘ سے پیدا کئے جا سکیں گے؟ ان دنوں کلوننگ کی تحقیق کا بہت چرچا تھا، روزانہ اخبارات میں جنیٹک انجینئرنگ اور بائیو ٹیکنالوجی کی باتیں چل رہی تھیں۔ میرے جیسے بائیالوجی کے طالب علم کیلئے یہ باتیں نئی نہ تھیں تاہم عام فہم یا وہ اساتذہ اور طلبہ جو حیاتیاتی علوم سے ناآشنا تھے اُن کیلئے یہ باتیں بہت عجیب اور نئی نئی تھیں۔ بہرحال پروفیسر صاحب کی بات کا جو جواب میں نے عرض کیا وہ یہ تھا کہ وہ ’’قائد اور اقبال‘‘ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں حالات، چیلنجز، فہم و فراست اور جذبوں کی صداقت قائد اور اقبال بناتی ہے، انہیں کلوننگ کے ذریعے پیدا کرنا ممکن نہیں مگر ان کے درس و تدریس اور پیغامات قوم میں اقبال اور قائد ضرور پیدا کرتے ہیں۔ نوجوانوں کی بیٹریاں ان کے افکار اور اقدامات سے چارج اور ری چارج ضرور ہوتی ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ جنیٹک انجینئرنگ یا کلوننگ سے نہیں بن سکتے لیکن یہ خود اتنے بڑے سوشل انجینئر اور ’’جنیٹک انجنیئر‘‘ ہوتے ہیں کہ جن کے دم خم اور فکر و عمل سے اقبالیات کو پیدائش، نمو اور نشو و نما ملتی ہے ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
علامہ اقبال جدید دنیا کی وہ پہلی مسلمان شخصیت تھی جس نے اپنے تصورات اور پیغامات سے مسلمانوں کو یہ سبق سکھانے کی کوشش کی کہ آپ گلوبل ولیج میں ہیں۔ دنیا کے گلوبل ولیج ہونے کو اقبال نے سب سے پہلے ثابت کیا اور اس کی اہمیت پر زور دیا۔ آج کی قیادت اچانک بول کر کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی ہے کہ ’تعلیم یہ، نوجوان وہ، جہاد ایسے اور فرنگی یوں! قیادت کی چشمِ بینا اور وسعت نظر صدیوں پرانی تاریخ کو مستقبل سے موازنہ کر کے دیکھتی ہے۔ قیادت اذان دینے کی صلاحیت، بات پر کھڑے رہنے کی ہمت اور اہمیت کے علاوہ دلیل کی طاقت اور مظاہراتی و انکشافی طرز عمل سے بخوبی آگاہ بلکہ اس کی پریکٹیکل شہادت ہوتی ہے۔ قیادت کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ صرف اشرافیہ کی نمائندہ نہیں ہوتی بلکہ اس کے اثرات اور نفوذ ملت کے ہر فرد تک رسائی رکھتے ہیں۔ وہ ہر فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ سمجھتے ہیں۔ ایسی نیچرل اور باصلاحیت قیادت ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ اور مال و متاع کے سمیٹنے سے اجتناب کرتی ہے۔ بگاڑ سے کہیں دور بسیرا اور بنائو کی تراش خراش ہی ان کا نظریہ اور نصب العین ہوتا ہے ؎
ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے
ڈاکٹر اقبال 21 اپریل 1938ء سے اس جہانِ فانی سے کوچ ضرور کر گئے لیکن ان کی بازگشت مؤثر پیغام بن کر تلاطم خیز موجوں کے سامنے ٹھہرنے کا کلیہ اور فارمولا بن کر دل و دماغ کی فضا میں موجود ہے۔ پیغامِ اقبال جب اپنے عروج پر تھا تو وہ برصغیر پاک و ہند کے ماحول کو دیکھ کر اقوال زریں بن کر کانوں تک پہنچتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح سے مولانا مودودی تک کی ہمت افزائی اقبال نے اُس وقت کی جب ان کے گرد فرسٹریشن کا دائرہ تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ شاعر مشرق کے تدبر کو مغرب بھی مانتا تھا۔ خطبہ الہ آباد کا فکر مشرق و مغرب کیلئے حیرانی کا باعث بنا۔ مصور پاکستان نے صرف پاکستان کا خواب ہی نہیں دیکھا تھا بلکہ اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے منزل کی جانب والی شاہراہ کا تعین بھی کیا۔ وہ کہتے کہ مایوس نہیں ہونا، بڑھتے رہنا ہے، غم کو ہمت سے ختم کرنا ہے ؎
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اقبال پُرعزم قیادت کے حق میں تھے ان کی فلاسفی تھی کہ اگر قحط الرجال نہ ہو تو ہر فرد مردِ مومن کی طرح سمجھ اور سوچ سکتا ہے۔ اسی لئے تو وہ کہتے تھے کہ ’’خالی ہے کلیموں سے کوہ و کمر ورنہ --- تو شعلۂ سینائی میں شعلہ سینائی‘‘ کرگس کا جہاں اور، اور شاہیں کا جہاں اور جیسی باتیں، گویا شہباز کی باتیں وہ قوم کی اٹھان کیلئے کرتے۔ ان کی شاعری امید کی شمع فروزاں کرتی تھی۔ تیرگی اور ظلمتوں کا سماں اُن کی فلاسفی، حکمت اور پیغام میں کوئی جگہ نہ رکھتا ؎
یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
شیخ سعدی شیرازیؒ نے جس طرح ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر چڑیوں میں اتحاد ہو جائے تو وہ شیر کی کھال اتار سکتی ہیں۔ اقبال بھی ملت کا ایسا ہی غم رکھتے تھے اور نیل کے ساحل سے تابخاکِ کاشغر وہ مسلم کو ایک دیکھنا چاہتے تھے۔ اگر آج ہم ایک نہیں تو یہی وجہ ہے کہ شام و مصر، لبنان، عراق، ایران حتیٰ کہ پاکستان کے ساتھ عہدِ حاضر کے چودھری امریکہ کا رویہ کیا ہے۔ او آئی سی ہے مگر اُس کی بے توقیری اُس کے دامن کا لباس ہے۔ اپنی ہی سرزمین کو دیکھ لیں غیروں نے ہمیں طالبان، نسل پرست، شیعہ سُنی، بلوچ و غیر بلوچ میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ہمیں ہمارے مرکز اور نظریہ سے دور کر رکھا ہے۔ موساد، را، اور سی آئی اے نے ہمیں کمزور کرنے کیلئے ہمارے حقیقی مجاہدوں اور حقیقی طالبان کے مقابلے پر ’’اپنے طالبان‘‘ کھڑے کر دئیے ہیں۔ اپنے ہی لوگوں سے اپنوں کی گردنیں کٹوائی جا رہی ہیں۔ ابھی وقت ہے کہ ہم صراطِ مستقیم پر آ جائیں ؎
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
بابا فریدالدین گنج شکرؒ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’جو سچائی جھوٹ کے مشابہ ہو اسے اختیار مت کرو‘‘ گویا سچ کی سچائی کی دُہائی جو اقبال سے ملتی ہے وہ دیگر مفکرین اور شعراء کے ہاں نہیں پائی جاتی ہے ؎
خُدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام!