امام غزالیؒ
اسلام کے نہایت مشہور مفکر اور متکلم کا نام محمد، اور ابو حامد کنیت تھی، جبکہ لقب زین الدین تھا۔ ان کی ولادت 450ھ میں طوس میں ہوئی۔ آپ کے والد محمد بن محمد کا انتقال 465ھ میں اُس وقت ہوا جب آپ کی عمر پندرہ برس تھی۔ آپ کے چھوٹے بھائی حضرت شیخ احمد غزالی کی عمر بارہ تیرہ برس کی تھی۔ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں ہوئی۔ نیشاپور اُن دنوں علم و فن کا عظیم مرکز تھا۔ بڑے بڑے جید اور قابل ترین اساتذہ کرام نیشاپور میں موجود تھے۔ آپ نے نیشاپور میں مدرسہ نظامیہ میں اپنے وقت کے مشہور عالم دین علامہ ابوالمعالی جوینی کے زیرسایہ داخلہ لے لیا۔ علامہ جوینی کو امام الحرمین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ان کی خدمت میں حاضر رہ کر امام غزالی نے دیگر علوم کے علاوہ علم مناظرہ، علم الکلام اور علم فلسفہ کی تکمیل کی اور ان علوم میں اس قدر کمال حاصل کیا کہ علامہ جوینی کے تین سو شاگردوں میں سبقت لے گئے اور تھوڑی سی مدت میں فارغ التحصیل ہوکر سند حاصل کرلی۔ آپ کی عمر صرف اٹھائیس برس تھی جب آپ نے تمام علوم اسلامیہ یعنی فقہ و حدیث، تفسیر، علم مناظرہ، علم کلام، ادبیات، فارسی و عربی، ولایت اور علم فلسفہ میں درجۂ کمال حاصل کرلیا۔ 478ء میں علامہ جوینی کا انتقال ہوگیا۔ آپ کی علم شناسی، علم دوستی، قابلیت و اہلیت کو دیکھتے ہوئے آپ کو اپنے استادِ محترم کی زندگی میں ہی مدرسہ نظامیہ میں نائب مدرس مقرر کردیا گیا تھا، پھر کچھ عرصے کے بعد آپ مدرسہ کے مدرس اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوگئے۔ امام کی علمی قابلیت کا اعتراف ان کے استادِ محترم امام جوینی بھی کیا کرتے تھے اور آپ کی شاگردی پر فخر کرتے تھے۔ امام غزالی نے اپنی کتاب ’’منحول‘‘ تصنیف فرمائی تو اسے اپنے استاد محترم علامہ جوینی کی خدمت میں پیش کیا۔ استاد محترم نے کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد فرمایا ’’غزالی تم نے مجھے زندہ درگور کردیا ہے۔ یعنی یہ کتاب میری تمام شہرت پر حاوی ہوگئی اور میری شہرت دب کر رہ جائے گی‘‘۔ استاد محترم کی زبان سے نکلی ہوئی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ امام غزالی آسمانِ علم و ہدایت کا ایک روشن ستارہ ہیں جس کی روشنی سے تاقیامت انسانیت مستفید ہوتی رہے گی۔ آپ کی کتاب’’المنقذ من الضلال‘‘ آپ کے تجربات کی آئینہ دار ہے۔ سیاسی انقلابات نے امام غزالی کے ذہن کو بہت متاثر کیا اور وہ دو سال تک شام میں گوشہ نشین رہے، پھر حج کرنے چلے گئے اور آخر عمر طوس میں گوشہ نشینی میں گزاری۔ آپ کی دیگر مشہور تصانیف احیاء العلوم، تحافتہ الفلاسفہ، کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب ہیں۔ آپ کا انتقال505ھ میں طوس میں ہوا۔
غلطی سے
اردو کے منفرد مزاح نگار شوکت تھانوی اپنی شاعری کی ابتدا کا ذکر ایک مختصر سی ریڈیائی تقریر ’’میری سرگزشت‘‘ میں اس طرح کرتے ہیں:
’’لکھنؤ کے ایک رسالے میں، جس کے نام سے ہی اس کا معیار ظاہر ہے یعنی ’’ترچھی نظر‘‘… میری ایک غزل چھپ گئی۔ کچھ نہ پوچھیے میری خوشی کا عالم۔ میں نے وہ رسالہ کھول کر ایک میز پر رکھ دیا تاکہ ہر آنے جانے والے کی نظر اس غزل پر پڑ سکے۔ مگر شامتِ اعمال کہ سب سے پہلے نظر والد صاحب کی پڑی اور انہوں نے غزل پڑھتے ہی ایسا شور مچایا کہ گویا چور پکڑ لیا ہو۔ والدہ محترمہ کو بلا کر کہا:
’’آپ کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ:
ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
ترے کوچے میں ہم جا کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں
میں پوچھتا ہوں کہ ’’یہ جاتے ہی کیوں ہیں؟ کس سے پوچھ کر جاتے ہیں؟‘‘ والدہ بے چاری سہم کر رہ گئیں اور خوف زدہ آواز میں بولیں:
’’غلطی سے چلا گیا ہو گا!‘‘
دل کے اندھے
ایک دیہاتی کو اپنی پالتو گائے سے بہت محبت تھی۔ دن رات اس کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتا اور ہر دم اس کی دیکھ بھال میں لگا رہتا۔ ایک دن وہ گائے کو باڑے میں باندھ کر اچانک ضروری کام سے چلا گیا۔ اتفاق سے اس دن دیہاتی باڑے کا دروازہ بند کرنا بھول گیا۔ جنگل کا شیر کئی دنوں سے گائے کی تاک میں تھا۔ اس دن اسے موقع مل گیا۔ شیر رات کی تاریکی میں دبے پائوں آیا، باڑے کے اندر گھسا اور گائے کو چیر پھاڑ کر ہڑپ کر گیا۔ شیر گائے کو کھانے کے بعد وہیں باڑے میں بیٹھ گیا۔ دیہاتی رات گئے گھر واپس آیا اور گائے کو دیکھنے کے لیے پہلے سیدھا باڑے میں گیا۔ وہاں گھپ اندھیرا تھا۔ شیر گائے کو کھا کر مست بیٹھا ہوا تھا۔ دیہاتی نے شیر کو اپنی گائے سمجھ کر پیار سے پکارا۔ پھر اس کے پاس بیٹھ کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ دیہاتی احمق کو اگر پتا چل جاتا کہ وہ جسے اپنی گائے سمجھ کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا ہے وہ آگے بیٹھا ہوا جنگل کا بادشاہ شیر ہے تو مارے دہشت کے اس کا جگر پھٹ جاتا اور دل خون ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کا نام ہم نے صرف پڑھا اور سنا ہے اور لفظ اللہ صرف زبان سے ہی پکارتے رہتے ہیں۔ اگر اس پاک ذات کی ذرا سی حقیقت بھی ہم پر واضح ہوجائے تو جو ہمارا حال ہوگا ہم اسے نہیں جان سکتے۔ کوہِ طور پر تجلی پڑنے سے جو اُس کا حال ہوا اس کی سب کو خبر ہے۔ اس پر مزید قلم کشائی میری بساط سے باہر ہے۔
درسِ حیات:
٭ تیرا نفس اس خونخوار شیر سے بھی زیادہ خطرناک ہے جسے تُو اندھے پن میں فریب خوردہ ہوکر اور گائے سمجھ کر پال رہا ہے۔ اس کا ڈسا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا۔ ابھی وقت ہے اپنی اصلاح کرلے۔
(حکایت رومی)
کلام اقبال فارسی کا منظوم ترجمہ
شفق ہاشمی
’’پیامِ مشرق‘‘
غلطی سے
اردو کے منفرد مزاح نگار شوکت تھانوی اپنی شاعری کی ابتدا کا ذکر ایک مختصر سی ریڈیائی تقریر ’’میری سرگزشت‘‘ میں اس طرح کرتے ہیں:
’’لکھنؤ کے ایک رسالے میں، جس کے نام سے ہی اس کا معیار ظاہر ہے یعنی ’’ترچھی نظر‘‘… میری ایک غزل چھپ گئی۔ کچھ نہ پوچھیے میری خوشی کا عالم۔ میں نے وہ رسالہ کھول کر ایک میز پر رکھ دیا تاکہ ہر آنے جانے والے کی نظر اس غزل پر پڑ سکے۔ مگر شامتِ اعمال کہ سب سے پہلے نظر والد صاحب کی پڑی اور انہوں نے غزل پڑھتے ہی ایسا شور مچایا کہ گویا چور پکڑ لیا ہو۔ والدہ محترمہ کو بلا کر کہا:
’’آپ کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ:
ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
ترے کوچے میں ہم جا کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں
میں پوچھتا ہوں کہ ’’یہ جاتے ہی کیوں ہیں؟ کس سے پوچھ کر جاتے ہیں؟‘‘ والدہ بے چاری سہم کر رہ گئیں اور خوف زدہ آواز میں بولیں:
’’غلطی سے چلا گیا ہو گا!‘‘
دل کے اندھے
ایک دیہاتی کو اپنی پالتو گائے سے بہت محبت تھی۔ دن رات اس کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتا اور ہر دم اس کی دیکھ بھال میں لگا رہتا۔ ایک دن وہ گائے کو باڑے میں باندھ کر اچانک ضروری کام سے چلا گیا۔ اتفاق سے اس دن دیہاتی باڑے کا دروازہ بند کرنا بھول گیا۔ جنگل کا شیر کئی دنوں سے گائے کی تاک میں تھا۔ اس دن اسے موقع مل گیا۔ شیر رات کی تاریکی میں دبے پائوں آیا، باڑے کے اندر گھسا اور گائے کو چیر پھاڑ کر ہڑپ کر گیا۔ شیر گائے کو کھانے کے بعد وہیں باڑے میں بیٹھ گیا۔ دیہاتی رات گئے گھر واپس آیا اور گائے کو دیکھنے کے لیے پہلے سیدھا باڑے میں گیا۔ وہاں گھپ اندھیرا تھا۔ شیر گائے کو کھا کر مست بیٹھا ہوا تھا۔ دیہاتی نے شیر کو اپنی گائے سمجھ کر پیار سے پکارا۔ پھر اس کے پاس بیٹھ کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ دیہاتی احمق کو اگر پتا چل جاتا کہ وہ جسے اپنی گائے سمجھ کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہا ہے وہ آگے بیٹھا ہوا جنگل کا بادشاہ شیر ہے تو مارے دہشت کے اس کا جگر پھٹ جاتا اور دل خون ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کا نام ہم نے صرف پڑھا اور سنا ہے اور لفظ اللہ صرف زبان سے ہی پکارتے رہتے ہیں۔ اگر اس پاک ذات کی ذرا سی حقیقت بھی ہم پر واضح ہوجائے تو جو ہمارا حال ہوگا ہم اسے نہیں جان سکتے۔ کوہِ طور پر تجلی پڑنے سے جو اُس کا حال ہوا اس کی سب کو خبر ہے۔ اس پر مزید قلم کشائی میری بساط سے باہر ہے۔
درسِ حیات:
٭ تیرا نفس اس خونخوار شیر سے بھی زیادہ خطرناک ہے جسے تُو اندھے پن میں فریب خوردہ ہوکر اور گائے سمجھ کر پال رہا ہے۔ اس کا ڈسا ہوا پانی بھی نہیں مانگتا۔ ابھی وقت ہے اپنی اصلاح کرلے۔
(حکایت رومی)
کلام اقبال فارسی کا منظوم ترجمہ
شفق ہاشمی
’’پیامِ مشرق‘‘
’’رموزِ اقبال‘‘
ز انجم تا بہ انجم صد جہاں بوو
ز انجم تا بہ انجم صد جہاں بوو
ستاروں میں بسے صدہا جہاںہیں
خرد ہر جا کہ پَر زد آسماں بود
خرد ہر جا کہ پَر زد آسماں بود
خرد جس جا گئی وہ آسماں تھا
و لیکن چوں بخود نگریستم من
و لیکن چوں بخود نگریستم من
مگر جب اندروں دیکھا تو پایا
کرانِ بیکراں در من نہاں بود
کرانِ بیکراں در من نہاں بود
کہ خود میں بیکراں عالم نہاں تھا
آخری خواہش
سقراط کو سزا دینے سے پہلے پوچھا گیا: ’’تمہاری سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میں شہر کے سب سے اونچے مکان پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہوں کہ اے لوگو! حرص اور طمع کی وجہ سے اپنی زندگی کے بہترین اور پسندیدہ ترین دن مال و دولت جمع کرنے میں کیوں بسر کر رہے ہو! یہ قیمتی وقت اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کیوں نہیں لگاتے! جبکہ تم یہ ساری دولت چھوڑ کر خالی ہاتھ چلے جائو گے۔
(ماہنامہ پھول، لاہور۔ جون 1999ء صفحہ 4)
موبائل فون ایپس صارفین کی ’مجبوری‘
مارکیٹنگ ریسرچ فرم ’فلری‘ نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسمارٹ فون کے عادی افراد کی تعداد میں حیرت انگیز اضافے کی ایک بڑی وجہ موبائل فون ایپلی کیشنز ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دن میں 60 بار موبائل ایپلی کیشن کھولنے والے افراد موبائل فون کے عادی پائے جاتے ہیں، تاہم خواتین اس مسئلہ میں سب سے زیادہ گرفتار پائی گئی ہیں۔
’فرلی‘ کے تجزیہ کاروں نے کثرت سے موبائل فون استعمال کرنے والوں کے رویّے کا جائزہ لینے اور مشاہدہ کرنے کے لیے عالمی سطح پر مشہور محقق میری میکر کی انٹرنیٹ رجحانات پر مبنی رپورٹ کے اعداد و شمار کا استعمال کیا۔ گزشتہ برس کی اس تجزیاتی رپورٹ میں تحقیق کار میکر نے موبائل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ایک عام صارف ہر روز دن میں اوسطاً 150 بار اپنی ڈیوائس چیک کرتا ہے۔ موبائل فون کے ساتھ لوگ کتنا جڑے ہوئے ہیں اور اسے کن مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اس حوالے سے ماہرین نے موبائل فون استعمال کرنے والوں کو تین درجوں میں منقسم کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دن میں کم از کم 10 بار موبائل ایپ کا استعمال کرنے والا شخص اوسط صارف کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ سپر درجے میں ایسے افراد شامل ہیں جو ایک دن میں 16 سے زائد بار موبائل ایپ کھولتے ہیں۔ لیکن دن میں 60 بار سے زائد ایپلی کیشن کا استعمال کرنے والوں کو موبائل فون کا عادی بتایا گیا ہے۔
رپورٹ کے اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے ایک سال میں موبائل فون کے عادی افراد کی تعداد میں 123 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موبائل فون کا عادی ہونے کے امکانات خواتین میں مردوں سے زیادہ ہیں۔ تجزیہ کاروں نے موبائل فون کے عادی افراد کی عمروں کا جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ اس رپورٹ کی تیاری میں یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ نوجوانوں کے مقابلے میں درمیانی عمر کے افراد موبائل فون کے زیادہ عادی پائے گئے۔
سقراط کو سزا دینے سے پہلے پوچھا گیا: ’’تمہاری سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میں شہر کے سب سے اونچے مکان پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہوں کہ اے لوگو! حرص اور طمع کی وجہ سے اپنی زندگی کے بہترین اور پسندیدہ ترین دن مال و دولت جمع کرنے میں کیوں بسر کر رہے ہو! یہ قیمتی وقت اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کیوں نہیں لگاتے! جبکہ تم یہ ساری دولت چھوڑ کر خالی ہاتھ چلے جائو گے۔
(ماہنامہ پھول، لاہور۔ جون 1999ء صفحہ 4)
موبائل فون ایپس صارفین کی ’مجبوری‘
مارکیٹنگ ریسرچ فرم ’فلری‘ نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسمارٹ فون کے عادی افراد کی تعداد میں حیرت انگیز اضافے کی ایک بڑی وجہ موبائل فون ایپلی کیشنز ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دن میں 60 بار موبائل ایپلی کیشن کھولنے والے افراد موبائل فون کے عادی پائے جاتے ہیں، تاہم خواتین اس مسئلہ میں سب سے زیادہ گرفتار پائی گئی ہیں۔
’فرلی‘ کے تجزیہ کاروں نے کثرت سے موبائل فون استعمال کرنے والوں کے رویّے کا جائزہ لینے اور مشاہدہ کرنے کے لیے عالمی سطح پر مشہور محقق میری میکر کی انٹرنیٹ رجحانات پر مبنی رپورٹ کے اعداد و شمار کا استعمال کیا۔ گزشتہ برس کی اس تجزیاتی رپورٹ میں تحقیق کار میکر نے موبائل فون کے بڑھتے ہوئے استعمال کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ایک عام صارف ہر روز دن میں اوسطاً 150 بار اپنی ڈیوائس چیک کرتا ہے۔ موبائل فون کے ساتھ لوگ کتنا جڑے ہوئے ہیں اور اسے کن مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اس حوالے سے ماہرین نے موبائل فون استعمال کرنے والوں کو تین درجوں میں منقسم کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دن میں کم از کم 10 بار موبائل ایپ کا استعمال کرنے والا شخص اوسط صارف کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ سپر درجے میں ایسے افراد شامل ہیں جو ایک دن میں 16 سے زائد بار موبائل ایپ کھولتے ہیں۔ لیکن دن میں 60 بار سے زائد ایپلی کیشن کا استعمال کرنے والوں کو موبائل فون کا عادی بتایا گیا ہے۔
رپورٹ کے اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے ایک سال میں موبائل فون کے عادی افراد کی تعداد میں 123 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موبائل فون کا عادی ہونے کے امکانات خواتین میں مردوں سے زیادہ ہیں۔ تجزیہ کاروں نے موبائل فون کے عادی افراد کی عمروں کا جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ اس رپورٹ کی تیاری میں یہ دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی کہ نوجوانوں کے مقابلے میں درمیانی عمر کے افراد موبائل فون کے زیادہ عادی پائے گئے۔
جاپان: بچے کم، بوڑھے زیادہ
جاپان کی وزارت داخلہ اور مواصلات نے کہا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں جاپان کی آبادی میں 2 لاکھ 84 ہزار افراد کی کمی ہوگئی ہے۔
آبادی کے نئے اعداد و شمار کے مطابق جاپان کی آبادی میں پینسٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی شرح 25.6 فیصد ہوگئی ہے جبکہ 14 سے کم عمر کے بچوں کا تناسب پہلے سے گر کر صرف 13 فیصد رہ گیا ہے۔ جاپان کی کل آبادی 12 کروڑ 70 لاکھ ہے۔ جاپان میں 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد تین کروڑ سے زیادہ ہے جو آبادی کا 25.6 فیصد ہے۔ اسی طرح جاپان میں چودہ سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کی تعداد ایک کروڑ 60 لاکھ ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں ایک لاکھ 60 ہزار کم ہے۔ آبادی کے نئے اعداد و شمار کے مطابق جاپان کی آبادی میں بوڑھوں کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اندازوں کے مطابق اگر جاپان میں آبادی کے موجودہ رجحانات برقرار رہے تو 2060ء تک جاپان کی آبادی میں پینسٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کا تناسب 40 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ جاپان کی آبادی میں گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل کمی ہورہی ہے۔ جاپانی حکومت کے اعلان کے مطابق آبادی کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی آبادی 1950ء کے بعد سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے۔ رواں سال جاپان میں لمبے عرصے سے مقیم غیر ملکیوں کو بھی مردم شماری میں شامل کیا گیا تھا۔ گزشتہ برس فوکوشیما میں ہونے والے جوہری حادثے کی وجہ سے غیر ملکی آبادی کے تناسب میں کمی ہوئی ہے اور غیر ملکی جاپان سے چلے گئے ہیں۔
جاپان کی وزارت داخلہ اور مواصلات نے کہا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں جاپان کی آبادی میں 2 لاکھ 84 ہزار افراد کی کمی ہوگئی ہے۔
آبادی کے نئے اعداد و شمار کے مطابق جاپان کی آبادی میں پینسٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی شرح 25.6 فیصد ہوگئی ہے جبکہ 14 سے کم عمر کے بچوں کا تناسب پہلے سے گر کر صرف 13 فیصد رہ گیا ہے۔ جاپان کی کل آبادی 12 کروڑ 70 لاکھ ہے۔ جاپان میں 65 سال سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد تین کروڑ سے زیادہ ہے جو آبادی کا 25.6 فیصد ہے۔ اسی طرح جاپان میں چودہ سال یا اس سے کم عمر کے بچوں کی تعداد ایک کروڑ 60 لاکھ ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں ایک لاکھ 60 ہزار کم ہے۔ آبادی کے نئے اعداد و شمار کے مطابق جاپان کی آبادی میں بوڑھوں کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اندازوں کے مطابق اگر جاپان میں آبادی کے موجودہ رجحانات برقرار رہے تو 2060ء تک جاپان کی آبادی میں پینسٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کا تناسب 40 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ جاپان کی آبادی میں گزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل کمی ہورہی ہے۔ جاپانی حکومت کے اعلان کے مطابق آبادی کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کی آبادی 1950ء کے بعد سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہے۔ رواں سال جاپان میں لمبے عرصے سے مقیم غیر ملکیوں کو بھی مردم شماری میں شامل کیا گیا تھا۔ گزشتہ برس فوکوشیما میں ہونے والے جوہری حادثے کی وجہ سے غیر ملکی آبادی کے تناسب میں کمی ہوئی ہے اور غیر ملکی جاپان سے چلے گئے ہیں۔