Search This Blog

Thursday, 29 March 2012

نسوانیت کا استحصال

نسوانیت کا استحصال
تحریر: غلام علی گلزار
8 مارچ کو کئی دہائیوں سے دنیا کے بیشتر ممالک میں ”خواتین کا بین الا قوامی دن“ منایا جاتا ہے، یہ خوش آیند بات ہے کہ چند برس سے متعدد مشرقی ممالک میں عورت کے مثبت رول کے حوالہ سے اس یوم کا انعقاد کیا جانے لگا ہے، اگرچہ اس کو متعارف کرنے کی تحریک میں زیادہ تر وہی حلقے پیش پیش رہ چکے ہیں، جنہوں نے ”نسوانیت“ کا استحصال کر رکھا ہے، ذیل میں اُنیسویں صدی عیسوی کے اواخر سے سرمایہ دارانہ نظریہ کے حامل اداروں کی طرف سے اس سمت میں مذموم رول کی اجمالی نشان دہی کی جاتی ہے، جس کے ذریعے انہوں نے خاتوں کی اصلیت و افادیت کو مادّی منفعت کی بھینٹ چڑھا کر رکھا ہے اور اسطرح نسوانی ماہیت کا استحصال کیا ہے، جس کے نتیجہ میں عورت "عافیت و آبرو" کے مقام سے گِر کر ذلّت و خطرات کی منزل تک پہنچ چکی ہے۔
تاریخی جائزہ:
یورپی مفکرین اور سیاست دان اسلام کے بارے میں ایک مبہم تصور کے حامل تھے، انہوں نے اپنے سماج میں انیسویں صدی کے دوران پرانی روایات کے اندر اصلاح کی غرض سے چند تبدیلیاں لانے کی کوشش کی، اس سلسلے میں انہوں نے مسلمانوں میں بعض سطحی طور پر پائی جانے والی باتوں کو اچھال کر اسلام کے متعلق غلط تائثر پیش کیا، لیکن اُن کی صفوں میں چند ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے اسلام کے اعلٰی اصولوں کے بارے میں جانکاری حاصل کی تھی، خصوصاً خواتین کے حقوق اور انکے اختیارات کے بارے میں، اس لئے ان خطرات سے اپنے معاشرہ کو آگاہ کرنے کی کوشش کی جو اسلام کے حوالے سے مذکورہ غلط تائثر کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتے تھے۔ اس دور کے متعلقہ مکار سیاست کاروں کو بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ اگر مسلمان اسلام کی سماجی خوبیوں کو قول و فعل کی ہم آہنگی کے ساتھ اپنائیں، اُس کے مثبت اثر و نفوذ کی چھاپ پورے انسانی معاشرہ پر پڑ سکتی ہے، کیونکہ ایسا تائثر دنیا کو اُن محرکات کے حوالے سے متوجہ و مربوط کر سکتا ہے، جن کی رُو سے اس دور میں مغربی معاشرہ فرسودگی سے نکلنے کے لئے آب و تاب کے ساتھ متمنّی تھا۔

یورپ کی سطح پر عورت ایک گڑیا کی طرح رہ گئی تھی، بلکہ مبالغہ نہ ہو گا اگر کہا جائے کہ سماج میں وہ ایک غلام کی طرح تھی، کئی تحریکیں اس کو اپنے شوہر کی غلامی اور اُس ماحول میں اُسکی پسماندہ صورتحال سے نکالنے کے لئے شروع کی گئیں، چنانچہ ایک یورپی مفکر ڈاکٹر شیگان (بہ حوالہ مسلم میڈیا،بواسطہ کریسنٹ انٹر نیشنل وسط 1948ء) نے مذکورہ سِمت میں بعض مغربی ممالک کے اندر، اُٹھائے گئے چند اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے اُس رحجان پر افسوس کا اظہار کیا ہے جو مذکورہ تحاریک کے نفوذ میں کارفرما رہا، چنانچہ انکا کہنا تھا کہ، ”اس قسم کی آزادی اور اختیار مسلم خواتین کو چند شرائط کے ساتھ پہلے ہی حاصل ہے لیکن جس طریقہ سے اس کا نفاذ، اصلاحی تحاریک کی مناسبت سے یورپ میں کیا جا رہا تھا اس کا قطعی نتیجہ عورت کی نسوانیت کے استحصال کے سِوا کچھ نہ ہو سکتا تھا“ حالانکہ برطانیہ میں اس حوالے سے جو قوانین1870ء اور 1882ء کے دوران نافذ کئے گئے، ان میں اہم حصہ سرمایہ دار طبقہ نے ادا کیا تھا۔

متعلقہ ”اعلامیہ“ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ عورتوں کو آزادی کے ساتھ کارخانوں، ملوں اور دفتروں میں جا کے پیسہ کمانا چاہئے اور جس طرح وہ چاہیں صرف کریں، اس میں شوہروں کی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سماج میں کثرت سے خواتین کارخانوں اور بازاروں میں کام کرنے لگیں، جس کا سب سے زیادہ نفع سرمایہ دار طبقہ نے کمایا، اسی طرح اٹلی میں 1919ء تک عورت شوہر کی نوکرانی کی طرح ہوتی تھی۔ تقریباً یہی حالات جرمنی میں بھی 19 ویں صدی کے آواخر تک تھے، البتہ سویڈن میں یہ حالت1907ء تک رہی، جبکہ فرانس میں 1939ء تک اس قسم کی پائی جانے والی صورتحال میں تبدیلیاں رونما نہ ہوئیں، چنانچہ مذکورہ تبدیلیوں کے بعد خواتین زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ٹوہ میں رہیں، اکثر یورپی ممالک کے اندر سرعت کے ساتھ شرم و حیا اور مہرو وفا کے اقدار روزافزوں ماند پڑتے گئے۔

پہلے گھروں میں جو خلوت گزینی اور امن و آشتی کا ماحول دیکھنے کو ملتا تھا وہ افراد خانہ خصوصاً میاں بیوی کے درمیان محبت اور کشش کو بڑھاوا دینے کا باعث ہوتا تھا جس کے اثر سے شوہروں کے اندر شام کو دیر تک آوارہ گردی میں گھومتے رہنے کی بجائے جلدی گھر پہنچ جانے کی لگن جلا پاتی تھی، لیکن یہ آہستہ آہستہ ماضی کی داستان رہ گئی، دوسری جانب تبدیل پذیر ماحول میں، کرایہ کی خواتین، نائٹ کلبوں میں مردوں کے لئے مصنوعی مسکراہٹوں اور راحتوں کا اہتمام مہیا رکھتی تھیں، جس کا روح اور وجدان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا، ان حالات میں ایک کام کرنے والی خاتوں کے لئے یہ ناگزیر بنتا گیا کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کی جانب توجہ سے دامن چھڑائے یا جی چرائے، اس کا بیشتر کمایا ہوا مال میک اپ اور بدلتے فیشنوں کے بڑھتے رحجانات کا شکار ہو جاتا تھا، پہلے تو عموماً یہ صورتحال تھی کہ عورت اپنے شوہر یا قبیحہ بندھنوں کی سینہ زوری کی شکار تھی، لیکن اب ”نئے نظام“ کی زور زبردستی کی چکی میں اُن کی نسوانیت پستی رہی، زنا بالجبر، خودکشی، قتل و اغوا اور دیگر قسم کی اذیتیں عام نوعیت کی جھلکیاں ہیں، جو دوسرے نفسیاتی امراض کے علاوہ ”کنبہ“ اور ”خانوادگی“ کی مرکزیت کو تباہ کرتی رہی۔

شادی اور گھرانہ کے بارے میں مغربی ماحول اوائل بیسویں صدی عیسوی سے عموماً گھناونی اور تخریبی صورتحال پیش کرتا رہا ہے، شہری مراکز میں روز افزوں اُن (غیر قانونی) جوڑوں کی بڑھتی جا رہی بھیڑ ہوتی ہے، جن میں جوان بھی ہوتے ہیں اور اوسط عمر کے مرد و خواتین بھی، تاکہ وہ شادی کی رجسٹریشن کرائیں۔ ان میں اکثریت ایسے جوڑوں کی ہوتی ہے جن کے لئے شادی کا اشتیاق اور ایک دوسرے کی قُربت کا جذبہ تازہ نہیں ہوا کرتا ہے، کیونکہ برسوں تک آپس میں جنسی تعلقات کا مادّی جذبہ، روحانی تقدس، احساس ذمہ داری اور نکاح کے ثوابی تصور کی عدم موجودگی میں محبت کی گرمجوشی کا حامل نظر نہیں آتا ہے، زیادہ تر جوڑے چرچ میں رسم نکاح پورا کرنے کی بجائے حکومت کے میسر کردہ سٹی سنٹروں میں رجسٹریشن کو ترجیح دیتے ہیں، (سٹی سنٹروں کے سہولیت حکومت نے مہیا کر رکھی ہوتی ہے)۔

چنانچہ رجسٹریشن کے بعد کئی برسوں تک عموماً (شادی شدہ/رسم شادی سے فراغت پانے والے جوڑے) بچہ کی تولید نہیں چاہتے ہیں، جب اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے یا کنبہ والی زندگی کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے اس وقت خاصی تعداد جوانی کی حدوں کو پار چکے ہوتے ہیں، اس طرح بچوں کی صحت مند اور تعمیری تربیت و پرورش کی خاطر مہر و جذبہ، حرکت و ولولہ نہیں پایا جاتا ہے جو اُن کو فیملی لائف سے جڑا رکھنے کا باعث بن جاتا! عموماً ننھے بچوں کے لئے اطفال کی پرورش گاہوں (Creches) میں پال پوس کا اہتمام کیا جاتا ہے، یہ بچے ماں کی آغوش کی ممتائی آہٹوں کی لوریوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔

 مذکورہ مجموعی مغربی ماحول کے مقابلے میں جب ہم مشرقی معاشرتی ماحول کا مشاہدہ کرتے ہیں، عام طور پر دو قسم کے لوگ دکھائی دیتے ہیں، ایک وہ جو مغربی طرز زندگی سے مختلف تو ہیں لیکن کئی پہلوﺅں سے قابل مذمت طریقہ کار اپنا رکھا ہے، نیز ایسے لوگوں کا حلقہ اُبھر چکا ہے جو مغرب کے بڑھتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی نفوذ کے تحت موہومیت کی صورتحال میں ہو بہو مغربی معاشرہ کی نقالی کرتے ہیں حالانکہ یہ براہ راست اپنے اخلاقی و تمدنی اقدار میں خود اعتمادی نہ ہونے (مشرق کے) اقتصادی نظاموں کی ناکامی اور کمزور سیاسی حکمت عملی کے نتائج ہیں، جس نے یہاں گروہی طبقاتی اور مذہبی تعصب اور توہمات کی وجہ سے سر اٹھا رکھا ہے۔

اکثر مشرقی اقوام کے اندر شادی بیاہ کے رسوم میں اسراف و تبذیر کا شدید مظاہرہ ہوتا ہے، کبھی کبھی اس طرح کی مجالس کو سماجی یا سیاسی دبدبہ کے مظاہرہ میں تبدیل کیا جاتا ہے، متعدد حلقوں/علاقوں میں نجومی علامات و اوقات سے جڑے اثرات کے خوف و توہم سے سرگرمئی حیات کو مفقود و محدود رکھا جاتا ہے جس سے متعلقہ لوگوں کے اندر امتزاجی اور نفسیاتی قوتوں کے صحیح و مثبت استعمال کی جہت و جہد سرد پڑ جاتی ہے، اس سے انکی مثبت فکر اور تعمیراتی نظر کا جذبہ کمزور ہو جاتا ہے، مشرق میں لوگ عام طور پر ذات پات، قبیلہ بندی، لسانی طبقوں اور قومیاتی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان اتحاد کا اصلی و داخلی جذبہ نہیں پایا جاتا ہے، بلکہ نفرت، عدم رواداری اور خاندانی و قبائلی دبدبہ کے منفی جذبات پائے جاتے ہیں، کبھی وہ ایک دوسرے کو وقتی طور یا مصلحتاً برداشت کر لیتے ہیں، یہ ایسی نازک صورتحال ہے جو کبھی اور کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہے اور مغربی استعمار اس سے سُوء استفادہ کرتا ہے اور کر سکتا ہے!

سرمایہ دارانہ نظام سرعت کے ساتھ عالمی سطح پر مادیّت زدہ ذہنیت کے ساتھ نفاذ کر چکا ہے، ایک ایسے معاشرہ میں جہاں قریباً تمام سوچ پیداوار، سپلائی اور کھپت کے تناسب اور مادّی منفعت کے گرد گھومتی ہو، ایک خاتوں کی جبلت و حیثیت کی صحیح شناخت کا اندازہ ممکن نہیں، اس کی وفا کا تقدس، اطاعت کا اخلاص، رحم دلی کا جذبہ، شفقت کا سرمایہ، صبر کی اصالت اور شرم و حیا کی فطرت، نیز اس کی شخصیت سے مربوط صلاحیتوں سمیت دیگر نسوانی خصوصیات کو ایسے ماحول میں محسوس کرنا یا بارآور کرنا مشکل ہے، بلکہ ان کا نکھار و سُدھار نہایت مشکل ہے۔

افسوس ہے کہ مالی مفادات کے لئے، جنسی خواہشات کو برانگیختہ کر کے پُر کشش طرز اَدا کے ذریعے اُنکا استحصال کیا جاتا ہے، خواتین کی مذکورہ طبعی خصوصیات سے ناجایز فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے، چنانچہ عالمی سطح پر مادی منافع کے لئے مختلف حربے حتٰی کہ شرمناک ذرائع آزمانے کی لَت پڑی ہے، روحانی اور اخلاقی اقدار زندگی گزارنے کی واقعیت کے اسرار ناپید ہوتے جا رہے ہیں، حتٰی کہ واضح طور پر ایڈز کی بیماری کا پھیلاﺅ 37 فیصد جنسی بے راہ روی کا نتیجہ ہوتا ہے، پھر بھی عریانیت اور شہوانی نظاروں اور آوازوں کو حق شمار کر کے آڈیو وِژول (Audio Visual) اشتہارات کے ذریعے بھڑکاتے رہنے میں سرعت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔

لواطہ(homosexuality) کو کئی امریکی اور یورپی ممالک میں آئینی حق دیا گیا ہے، جو واضح طور پر مجموعی و اصولی معنوں میں حقوق خواتین کے ساتھ خیانت ہے، ہمارے معاشرہ میں خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، شادی کے لئے نوکر پیشہ (employed) خواتین کو ”سیرت و صورت“ پر ترجیح دی جاتی ہے، بعض حلقوں میں مشاہدہ کے مطابق، لالچی مرد اور لالچی عورتیں نکاح کرنے اور طلاق لینے کو تجارت بنا چکے ہیں، ننھے بچے اس معاشرتی انحطاط کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں، نونہالوں کو فلموں کے ذریعے قتل، ڈاکہ زنی اور دیگر جرائم کی تربیت دی جا رہی ہے، الیکٹرانک میڈیا سے تخریبی نقالی کو ہوا ملتی جا رہی ہے، اس ماحول میں نفس انسانی زوال پذیر ہوتا ہے۔ 

س باب میں ہم اسلامی قانون و اخلاق کی رُو سے عورت کی حیثیت پر گفتگو کریں گے تاکہ اس عظیم خاتون کی منزلت معلوم ہو جائے اور فی الوقت رائج حقوق خواتین کی پامالیاں پتا چل سکیں۔ قرآن و حدیث(متفقہ) کی رُو سے عورت کی حیثیت، اس کے حقوق اور فرائض کو درج ذیل نکات میں اجمالاً پیش کیا جا سکتا ہے:
۱۔ جنّت ماں کے قدموں میں ہے۔
۲۔ ماں کے حقوق، باپ کے حقوق کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
۳۔ بیٹیوں کے ساتھ اچھے سلوک کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔ بیٹی کو نیکی اور رحمت قرار دیا گیا ہے۔
۴۔ ماں کی خدمت بہت سے گناہوں سے پاک کرتی ہے۔
۵۔ ماں اگرچہ غیر مسلم بھی ہو، اس کے ساتھ اچھا برتاو لازمی ہے۔
۶۔ بیوی سے متعلق حقوق اور ذمہ داریوں کو خاص فوقیت دی گئی ہے۔
۷۔ رسول اللہ کا برتاﺅ اپنی بیویوں کے ساتھ مثالی تھا۔
۸۔ نکاح کے سلسلے میں ایک عورت/لڑکی سے اس کی رضا مندی معلوم کر نا واجبی ہے۔ بروئے سنت
۹۔پیغام نکاح کا اقدام مرد(صاحب پسر) کی جانب سے عورت(صاحب دختر) کی طرف رُوبہ عمل لایا جا تا ہے۔
۱۰۔ ایجاب و قبول کے ساتھ مہر کا تعیّن اور اس کی ادائیگی واجب ہے۔
۱۱۔ لواطہ(Homosexuality) کر نے والے پر اللہ کہ لعنت ہے۔
۱۲۔ ایک سے زیادہ بیویاں ہونے پر، اُن کے درمیان مساوی برتاو اور انصاف ضروری ہے۔
۱۳۔ طلاق کو اسلام میں قبیح عمل سمجھا جاتا ہے (یعنی اس سے جس قدر ممکن ہو بچنا چاہئے)۔
۱۴۔ جو کچھ (مال) دلہن کو شادی کے موقع پر بشمول مہر دیا جائے وہ اس کی ملکیت ہے، اس کا واپس لینا حتیٰ کہ طلاق کی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔
۱۵۔ باپ اور شوہر کی حیثیت میں مرد پر اپنے اہل و عیال (بیوی، بچوں) کی کفالت و پرورش واجب ہے۔
۱۶۔ اگر اپنی بنیادی ذمہ داریوں کے علاوہ کوئی عورت (بیوی) فالتو وقت کے دوران کسی کام سے کچھ کماتی ہے، وہ اس کی اپنی جائیداد ہے۔
۱۷۔ رسول اکرم ص ان کے اصحاب اور آل (اہل بیت ع) کی سیرت میں بیویوں سے برتاو کی شاندار عکاسی ملتی ہے، وہ اُن کے گھریلو کام میں اُن کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
۱۸۔ بحیثیت بیوی شوہر کے تیئں، اور بحیثیت ماں بچوں کے تئیں، اُس کے حقوق و فرائض کے علاوہ گھریلو امور کے دوسرے مساعی، عورت کے حق میں مستحب امور قرار دئیے گئے ہیں، اس کے عوض اُس کے لئے جہاد کا ثواب لکھا جا تا ہے، اگر بچے کو جنم دیتے ہوئے کسی ماں کی موت واقع ہو جائے، اس کا انعام ایک شہید کے برابر ہے۔
۱۹۔ رسول اللہ نے اس شخص کے حق میں جنّت میں داخلہ کی بشارت دی ہے، جو شفقت کے ساتھ ایک بیٹی یا ایک بہن (یا زیادہ کی) پرورش کرے۔
۲۰۔ حدیث نبوی ص کی رُو سے اگر (تحفہ/کھانے کی) کوئی چیز گھر میں لاﺅ، بانٹنے کی پہل بیٹی/بیٹیوں سے کرو۔
۲۱۔ اسلام کی رُو سے حصول علم مسلم مردوں اور مسلم عورتوں پر فریضہ ہے۔

حدیث کی رُو سے تمام کتابوں میں بطریق شیعہ و سنی، عورت کی خصوصی حیثیت اور اس کے مخصوص حقوق کے بارے میں روایات موجود ہیں، مثال کے طور پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث رسول ص، بی بی عائشہ کی روایت سے ہے کہ فرمایا رسول اکرم ص نے کہ جس کسی مرد یا عورت پر بیٹیوں کی پرورش کی ذمہ داری آچکی ہے، اگر وہ مہربانی کے ساتھ اُن سے بر تاو کرے، وہ جہنم کی آگ سے اُس کے حق میں سپر ثابت ہو گی، کئی ذرایع سے من جملہ بخاری و مسلم ایک واقعہ حضرت نعمان بن بشیر کے متعلق نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم ص نے اُس کے حق میں اس کے والد کے ”ھبہ نامہ“ پر گواہ رہنے سے انکار کر دیا جس کے ذریعے، اُس کی والدہ کے اصرار پر، نعمان کے والد نے بیٹیوں کو نظر انداز کر کے اپنی جائیداد نعمان کے نام کر دی تھی۔ اس موقع پر رسول اکرم ص نے فرمایا، ”میں نا انصافی کے نوشتہ کا گواہ نہیں رہوں گا“۔

کتاب حدیث ”الکافی“ کے حوالہ سے حضرت امام جعفر صادق ع کی نقل کردہ حدیث رسول ص کی رُو سے، ایک مرد کے لئے ہدایت دی گئی ہے کہ کسی عورت سے نکاح کے وقت اس کو ان الفاظ میں اِعادہ کر نا چاہئے، کہ اُس نے اللہ کو حاضر و ناظر مان کر قسم کھائی ہے کہ وہ ہونے والی بیوی کے ساتھ مناسب برتاو کر ے گا، اور اگر طلاق کی نوبت ناگزیر ہو جائے، اُس صورت میں اِسکو مہربانی اور احسان کے ساتھ الگ کر دے گا“، یہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے کہ ایک شخص بیوی کو معطل حالت میں رکھے، نہ بسالے نہ طلاق دے!

قرآن سورۃ النساء کی آیت ۵۳ میں اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان (کسی) تضاد کو حل کر نے کے لئے ہدایات جاری فرمائی ہیں کہ ”ایک مُنصف کو مرد کے خاندان سے اور ایک کو عورت کے خاندان سے مقرر کر دو، اگر وہ دونوں معاہدہ صلح کرنا چاہیں، اللہ میاں بیوی کے درمیان تسلیم و آشنی کو فروغ دے گا، چنانچہ بعض شرائط کے ساتھ اسلام کے اندر دونوں مرد اور عورت کو حق طلاق (مرد کی طرف سے طلاق دینا عورت کی طرف سے خُلع حاصل کرنا) سے نوازا ہے۔ عورت کے لئے اسلام نے پردہ (حجاب) کو ضروری قرار دیا ہے اگرچہ اس کی شکل و طریقہ کے بارے میں ماحول، جغرافیہ اور قومیات کے مطابق اختلاف پایا جاتا ہے، البتہ قرآن و سنت کی رُو سے غالب نظریہ یہ ہے کہ عورت کے لئے بالوں اور جسم کو چھپانا وجوبی ہے، چہرہ کی گولائی اور کلائی سے نیچے ہاتھوں کو کھلا رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بعض حلقے آنکھوں اور اس کے ارد گرد کے کچھ حصہ کے کھلا رکھنے کی حد پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ پردہ کا بنیادی مقصد اس کے قواعد کی پیروی کر کے عصمت کی حفاظت ہے، اس سے خواتین کی نسبت احترام کا احساس بھی اُبھرتا ہے اور مردوں کے اندر ضبط کا احساس بھی نکھرتا ہے۔

اسلام میں ہو نے والے شوہر اور بیوی کا شریفانہ ماحول میں ایک بار ایک دوسرے کو دیکھنے، بات کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے، سیرت کو زیادہ مقدم قرار دے کر شادی کی حقیقی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ص ہے کہ جو شخص ظاہری خوبصورتی کی بنا پر کسی عورت سے شادی کر ے گا وہ اس میں اپنی محبوب چیز نہیں پا ئے گا، شادی (نکاح) کی تقریب/رخصتی وغیرہ سے پہلے میل جول کے (مغربی) طریقہ سے اکثر اچھے نتائج برآمد نہیں ہوتے ہیں اور نہ مذکورہ حدود کے علاوہ یہ جائز ہے، حدیث کی رُو سے خوبصورت اور نیک سیرت بیوی اللہ کی طرف سے نعمت ہے، نعمت کا شکریہ ہے کہ شوہر بیوی باہم محبت و مروّت، عفت و امانت کی پاسداری کے ساتھ رہیں، آج کل دنیا میں ہر سطح پر جو آزادانہ میل جول کی فضا قائم ہو تی جا رہی ہے، اس سے نوع انسانی کے لئے تباہ کن مسائل پیدا ہوئے ہیں جن کا علاج اشد ضروری ہے۔ 
’’جاری ہے‘‘

Monday, 26 March 2012

ISLAM AGAINST RACISM AND PREJUDICE

ISLAM AGAINST RACISM AND PREJUDICE
Islam's manifesto of Universal brotherhood of human beings
by Abdul Malik Mujahid
From the Quran
"O Mankind, We created you from a single (pair) of a male and a female and made you into nations and tribes, that you may know each other. Verily the most honored of you in the sight of God is he who is the most righteous of you" (Quran 49:13).
Explanation: There are several principles, which this verse presents:
  1. This message is not just for Muslims only because God is addressing all of humanity. While Muslims are one brotherhood, this is part of a larger brotherhood of humanity.
  2. God is telling us that He has created us. Therefore He knows the best about us.
  3. He says that He created us from one man and one woman meaning then that we are all the same.
  4. It also means that all human beings are created through the same process, not in a manner in which some are created with a better mechanism than others.
  5. God is the One who made human beings into different groups and people.
  6. These differences are not wrong, rather a sign from God ("And among His Signs is the creation of the heavens and the earth, and the difference of your languages and colors. Verily, in that are indeed signs for those who know" [Quran 30:22]).
  7. Note that no word equivalent to race is used in this ayah or any other verse of the Quran.
  8. Islam, however, limits the purpose of these distinctions to differentiation and knowing each other. This is not meant to be a source of beating each other down with an attitude of ‘my group is better than your group' or false pride as is the case with tribalism, nationalism, colonialism, and racism.
  9. The only source of preference or greatness among human beings is not on a national or group level, but it is at the individual level.
  10. One individual who is (higher in Taqwa), more conscious of his Creator and is staying away from the bad and doing the good is better, no matter what nation, country or caste he is part of. Individual piety is the only thing that makes a person better and greater than the other one.
  11. However, the only criterion of preference, Taqwa, is not measurable by human beings. Indeed God is the One Who knows and is aware of everything so we should leave even this criterion to God to decide instead of human beings judging each other.
These are the deeply embedded ideals of Islam which still bring people to this way of life even though Muslims are not on the best level of Iman today. This is what changed the heart of a racist Malcolm X when he performed Hajj in Makkah. This is the power that brought Muhammad Ali to Islam. This is what still attracts the Untouchables of India towards Islam. This is the theory which convinced noted historian Professor A.J. Toynbee in 1948 to say that: "The extinction of race consciousness as between Muslims is one of the outstanding achievements of Islam, and in the contemporary world there is, as it happens, a crying need for the propagation of this Islamic virtue."
Let's ask ourselves if the Muslim Ummah today, in its individual and collective behavior is striving to adopt and promote these Islamic ideals?
From the Sunnah
1. Prophet's response to racist comments:
A man once visited the Prophet's mosque in Madinah. There he saw a group of people sitting and discussing their faith together. Among them were Salman (who came from Persia), Suhayb who grew up in the Eastern Roman empire and was regarded as a Greek, and Bilal who was an African. The man then said:
"If the (Madinan) tribes of Aws and Khazraj support Muhammad, they are his people (that is, Arabs like him). But what are these people doing here?"
The Prophet became very angry when this was reported to him. Straightaway, he went to the mosque and summoned people to a Salat. He then addressed them saying:
"O people, know that the Lord and Sustainer is One. Your ancestor is one, your faith is one. The Arabism of anyone of you is not from your mother or father. It is no more than a tongue (language). Whoever speaks Arabic is an Arab." (As quoted in Islam The Natural Way by Abdul Wahid Hamid p. 125)
2. Statement of the universal brotherhood in the last Sermon:
O people, Remember that your Lord is One. An Arab has no superiority over a non-Arab nor a non-Arab has any superiority over an Arab; also a black has no superiority over white, nor a white has any superiority over black, except by piety and good action (Taqwa). Indeed the best among you is the one with the best character (Taqwa). Listen to me. Did I convey this to you properly? People responded, Yes. O messenger of God, The Prophet then said, then each one of you who is there must convey this to everyone not present. (Excerpt from the Prophet's Last Sermon as in Baihiqi)
3. Don't take pride in ancestry:
The Prophet said: Let people stop boasting about their ancestors. One is only a pious believer or a miserable sinner. All men are sons of Adam, and Adam came from dust (Abu Dawud, Tirmidhi).
4. Looking down upon other people will stop you from entering the Jannah:
The Prophet said: Whoever has pride in his heart equal to the weight of an atom shall not enter Paradise. A man inquired about a person who likes to wear beautiful clothes and fine shoes, and he answered: God is beautiful and likes beauty. Then he explained pride means rejecting the truth because of self-esteem and looking down on other people (Muslim).
5. The Prophet condemnation of Arab racial pride:
There are many hadith, which repeatedly strike on the Arab pride of jahiliyyah. Arabs before Islam used to look down upon others specially blacks. The Prophet repeatedly contrasted the believing Africans versus non-believing Arab nobles.
The Prophet said: You should listen to and obey your ruler even if he was an Ethiopian slave whose head looked like a raisin (Bukhari).

A Call for Shia Sunni Dialog Why and How

A Call for Shia Sunni Dialog
Why and How

By Abdul Malik Mujahid

Shia-Sunni violence has been on the rise in the last few years, particularly in Iraq and Pakistan. Every month, it seems, scores of Shias and Sunnis are killed in a vicious tit-for-tat between extremists on both sides. Many of the victims are killed as they pray or are in mosques.

These incidents belie the reality of Shia-Sunni coexistence and cooperation. In Iraq, it is estimated that up to 30 percent of marriages are between Shias and Sunnis; victims of violence between the two groups frequently attend each other's funeral prayers; one group often helps the other's victims after an incident.

This silent majority must come together through dialog to defeat the terrorists who have been responsible for these killings.

Seven reasons why a dialog between Shia and Sunni is needed:

  • Theological differences between Shia and Sunni are old and are better left for God to judge, as He knows best and has said in the Quran that He is the final judge of religious disagreements. The killing of Shias or Sunnis will not resolve these disputes.
  • The principle of "no compulsion in matters of faith" (Quran 2:256) is not just limited to Muslim-non-Muslim relations. It applies to Muslim interpretations of Islam as well. This instruction of God serves as a guideline for the Muslim community to not impose one's interpretation on others. That is why throughout history, not only have Hanafis and Shafis worked with each other despite differences, but Shias and Sunnis have lived and worked side by side with each other as well.
  • When human beings sit down and talk to each other, they learn to respect each other.
  • Dialog allows parties to understand each other better by allowing participants to acquire direct knowledge about beliefs instead of relying on propaganda and stereotypical images. (Quran 49:6-12)
  • Dialog will isolate the extremist fringe. It is a major sin to kill a human being. Killing a human being is like killing the whole of humanity. By talking to each other, Shias and Sunnis will be able to save lives, which is like saving the whole of humanity. (Quran 5:32)
  • Revenge is not justice. Killing in revenge is unjust, inhuman, and un-Islamic. Retribution through the state, which the Quran sanctions via capital punishment does not amount to individuals taking the law in their hands or killing an innocent person in revenge. The call for, "an eye for an eye," does not mean an innocent eye for an innocent eye.
  • Even if some Shias and Sunnis consider each other enemies, the Quran asks us to be just even toward one's enemy "O you who believe! Stand out firmly for God, as witnesses to fair dealing, and let not the hatred of others to you make you swerve to wrong and depart from justice. Be just: that is next to Piety: and fear Allah. For Allah is well-acquainted with all that you do." [Quran 5:8]
Some considerations for dialog:

The Shia community like Sunnis is diverse. There are many differences between one Shia group and another. This is why it is important that dialog between Sunnis and Shias becomes a movement and a process throughout society instead of everyone waiting for one high powered dialog to yield some results at the leadership level. Here are some preliminary thoughts on how a dialog between Shias and Sunnis can be beneficial for each side.

Goals of dialog

Although I consider dialog a process that is beneficial to all, it is necessary that everyone involved recognize some of its tangible benefits. The following are a set of achievable goals for Shia-Sunni dialog.

  • Developing an agenda of common concerns
  • Identifying issues of conflict
  • Issuing joint Fatwas against the killings
  • Isolating extremists on each side
  • Preventing a potential conflict or mediating an existing conflict
  • Education to clarify stereotypes about each other
  • Setting up joint task forces to deal with outstanding issues
Who should participate in the dialog
  • Imams and caretakers of Masjids
  • Students of Madrassas
  • University students
  • National level religious leadership
  • Shia and Sunni media persons
  • Shia and Sunni businesspersons
Mechanism of dialog

Dialog is a process that should occur at all levels of society. In the 1960s in Pakistan, when Shia- Sunni fights were far less significant, city officers used to convene joint meetings of Shia and Sunni leaders to chalk out Muharram plans so no confusion would result in rioting. These government-arranged dialogs helped keep conflicts at a minimum. Considering the current level of mistrust, it will be beneficial if civil society takes initiatives for dialog at all levels of society.

  • Private Dialog: Host roundtable discussions initially at the top leadership level that should later expand to include
  • thers working on different committees.
  • Public Dialog: Shia and Sunni both use public forums and media to speak to each other's audiences
  • Visiting each other's Masjids to enhance confidence and to demonstrate that they are not supportive of the extremists who isolate each other.
  • Shia-Sunni Dinners: Masjids and social associations should invite Shia and Sunni friends to eat with each other publicly.
Publicity of dialog

Publicity of the dialog will generate hope and confidence in it and will empower those in dialog vis-a-vis the extremists.

  • Media should facilitate self-criticism and introspection by the religious leadership
  • Those leaders who participate in dialog should be recognized through interviews, reports, and documentaries
  • Investigative reports should be aired and published about the truth behind sectarian propaganda
  • It is important for society to honor those Shia and Sunni leaders who take initiative and demonstrate leadership in participating in dialog. Sunnis, being members of the majority community, have the higher level of responsibility towards initiating and participating in dialog
Sponsors of Dialog

Funding always facilitates the beginning of a process in civil society. Every task requires time and money. While participating organizations and individuals can take care of their own costs, it would be very rewarding if some individuals and businesses came forward with funds to sponsor and host these dialogs. American Muslims can start a dialog in North America where there is no conflict in the Shia-Sunni community and then inspire and sponsor dialogs where it is needed the most.

Beyond Dialog

Considering that Shias and Sunnis live side by side in the Muslim world, they are not unknown to each other, and considering that most of them have nothing to do with the current extremism which is responsible for the killings and violence, it is important for the moderate majority to come up with a few initiatives which are beneficial for Shia- Sunni harmony. These could be communicated in the print form or in any other media. They should discuss the following themes and/or use the methods outlined here:

  • Khutba points which can help harmony
  • What type of talk can hurt at personal level
  • What is common between Shias and Sunnis
  • Common Hadith between Shias and Sunnis
  • What is hate speech
  • Islamic teachings of tolerance
  • A Shia-Sunni security force, jointly safeguarding each otherâs houses of worship will be a significant blow to the extremist agenda.
Conclusion

Shia-Sunni conflict and sectarian terrorism is tearing our community apart.

The Quran, the Prophet Muhammad, peace and blessings be upon him, the Kaba and the five pillars of Islam are common to Shias and Sunnis. That is why no one in Islamic history has stopped Shias from performing Hajj, although the Kaba has always been in the control of Sunnis. Even today, when those currently in charge of the Kaba are part of a predominantly Salafi establishment, which maintains extremely negative views of Shias, Shias like other Muslims are free to perform Hajj. Shias, by the same token, since the 1979 Iranian revolution, are ordered by Imam Khomeini to pray behind these same Salafi imams instead of praying separately.

This mutual recognition gives us hope that a dialog can bear fruit of peace and harmony between both the communities.

Muslims and Jews: a historical perspective that reveals surprises

Muslims and Jews: a historical perspective that reveals surprises
Once upon a time, a widely circulated Jewish document described Islam as "an act of God's Mercy".
Also, Jews in the near East, north Africa and Spain threw their support behind advancing Muslim Arab armies.
No, these aren't fairy tales or propaganda. The relationship between Muslims and Jews really was that cooperative and marked by peaceful coexistence.
Just ask Khalid Siddiqi of the Islamic Education and Information Center in San Jose, California where he also teaches Islamic Studies and Arabic at Chabot College and Ohlone College.
Siddiqi notes that the first quote above is from S. D. Goitein's book Jews and Arabs. The second is from Merlin Swartz's 'The Position of Jews in Arab lands following the rise of Islam' (reprinted from The Muslim World. Hartford Seminary Foundation LXI1970).
Swartz also says the Muslim Arab conquest marked the dawn of a new era. Those forces that had led to the progressive isolation and disruption of Jewish life were not only checked they were dramatically reversed.
In an interview with Sound Vision, Siddiqi gave numerous examples of Jews flourishing under Muslim rule in places like Spain, Morocco, North African in general and various parts of the Middle East.
Siddiqi points out that Islam as a religion has given specific guidelines for the followers of Islam to base their relationship with any non-Muslim. These include People of Scripture, like the Jews, people who belong to other religions, and even atheists. Non-Muslims must be treated on the basis of Birr (kindness) and Qist (justice), as referred to Surah 60 verse 8 of the Quran.
It started at the time of the Prophet Mohammad (peace and blessings be upon him)
The peaceful coexistence of Muslims and Jews began at the time of the Prophet.
Siddiqi notes that the Jews welcomed the Prophet when he arrived in Madinah at the time of Hijrah (migration), along with the rest of the city's inhabitants.
But the Prophet had begun the step towards good relations with Jewish and other communities in Madinah even before getting there.
After receiving an invitation to Madinah from one of the city's tribes that had accepted Islam, the Prophet signed treaties with the city's Jewish, Christian and polytheist tribes before he arrived there.
These treaties clearly laid out responsibilities of each of the parties. It was based on these that the Prophet established the Mithaq al Madinah, the constitution of Madinah.
Siddiqi says this was the first constitution of the world and one of the greatest political documents ever prepared by any human being. It is the oldest surviving constitution of any state.
Under this constitution, any Jew who followed the Muslims was entitled to their assistance and the same rights as anyone of them without any injustice or partisanship.
It said the Jews are an Ummah (community of believers) alongside the Muslims. The Jews have their religion and the Muslims theirs. As well, it noted that each will assist one another against any violation of this covenant.
Jews during the Muslim era
Despite this early breach of contract, there are still numerous examples from Muslim history of Muslim-Jewish cooperation and coexistence.
Siddiqi gave examples of how Muslim Spain, which was a "golden era" of creativity and advancement for Muslims was also one for Jews.
While Europe was in its Dark Ages and Jews were reviled there, Muslims in Spain during the same period worked side by side with Jews in developing literature, science and art.
Together, they translated classical Greek texts into Arabic. This task later helped Europe move out of the Dark Ages and into the Renaissance.
Jews flourished under Muslim rule in Egypt as well, where they achieved very high positions in government.
Siddiqi quotes some lines from an Arab poet of that time, to illustrate: 'Today the Jews have reached the summit of their hopes and have become aristocrats. Power and riches have they and from them councilors and princes are chosen'.
Today: the forced expulsion of Palestinians from their homeland has destroyed good Muslim-Jewish relations
So what happened?
Although not the only cause, a large part of the deterioration in Muslim-Jewish relations comes from the emergence of Zionism, the forced expulsion of Palestinians from their homeland by Zionist Jews and British colonizers, as well as their continuing oppression.
Siddiqi says, "while this reaction results in anti-Jewish feeling it must be seen in its proper historical context. It must be remembered that anti-Jewish sentiments in so far as it is to be found in the contemporary Arab world is strictly a modern phenomenon and one that runs counter to the time honored Islamic tradition of fraternity and tolerance.
"The very widespread popular notion that present day Arab-Jewish hostility is but another chapter in a long history of mutual animosity is totally false. If there is one thing the past makes clear it is precisely that Arabs and Jews can live together peacefully and in a mutually beneficial relationship. History also makes it very clear that they are the heirs to the Islamic tradition of openness and tolerance."
The key to reestablishing good relations between Muslims and Jews again is justice, notes Siddiqui. This principle is foreign to neither Islam nor Judaism.
In Islam, standing up for justice, he points out, must be done even if it is against ourselves, our parents, our kin, the rich or the poor. This is clearly mentioned in the Quran (4:135).
Siddiqi points out that the emphasis on justice is also mentioned in Jewish scripture in the prophecies of Michael in chapter three: "Zion shall be redeemed with justice and by those who will come to her with righteousness."

Challenging Ignorance on Islam: a Ten-Point Primer for Americans

Challenging Ignorance on Islam: a Ten-Point Primer for Americans

by Gary Leupp

"We should invade [Muslim] countries, kill their leaders and convert them to Christianity."
Columnist Ann Coulter,
National Review Online, Sept. 13, 2001
"Just turn [the sheriff] loose and have him arrest every Muslim that crosses the state line."
Rep. C. Saxby Chambliss (R-GA),
chairman of the House Subcommittee on Terrorism and Homeland security and Senate candidate, to Georgia law officers, November 2001
"Islam is a religion in which God requires you to send your son to die for him. Christianity is a faith where God sent his Son to die for you."
Attorney General John Ashcroft,
interview on Cal Thomas radio, November 2001
"(Islam) is a very evil and wicked religion wicked, violent and not of the same god (as Christianity)."
Rev. Franklin Graham, head of the Billy Graham Evangelistic Association, November 2001.
"Islam is Evil,Christ is King."
Allegedly written in marker by law enforcement agents on a Muslim prayer calendar in the home of a Muslim being investigated by police in Dearborn, Michigan, July 2002.
People with power and influence in the U.S. have been saying some very stupid things about Islam and about Muslims since September 11. Some of it is rooted in conscious malice, and ethnic prejudice that spills over into religious bigotry. But some is rooted in sheer historical and geographical ignorance. This is a country, after all, in which only a small minority of high school students can readily locate Afghanistan on the map, or are aware that Iranians and Pakistanis are not Arabs. As an educator, in Asian Studies, at a fairly elite university, I am painfully aware of this ignorance. But I realize it serves a purpose. It is highly useful to a power structure that banks on knee-jerk popular support whenever it embarks on a new military venture, at some far-off venue, on false pretexts immediately discernable to the better educated, but lost on the general public. The generally malleable mainstream press takes care of the rest.
I don't mean to suggest that the academic cognosenti, as a "class," habitually counter this ignorance and protest the imperialist interventions that Washington routinely undertakes. Some of them may indeed support the venture, cynically asserting that the advertised pretext fulfills some sort of valid function, regardless of the lies and distortions that surround it. (I think of the depiction in the media of the "Rambouillet Accords" concerning Yugoslavia in 1999 as "the will of the international community," when one Contact Group member, Russia, rejected the U.S.-dictated plan for Kosovo outright, and several European states only signed on after their arms were twisted nearly out of their sockets. I think of the calculated, extreme exaggeration of the number of Kosovar victims of Serbian forces as the bombing of Yugoslavia began. The lies surrounding that bombing were obvious to anyone studying the situation, but even some rather progressive academics were all for "Operation Allied Force.") American academe is---unfortunately--- whatever its right-wing critics may contend, not particularly left or anti-imperialist. In any case, such ignorance is not just a national embarrassment; it's really dangerous. Raw material for a made-in-USA version of fascism.
To understand the contemporary world, we all need to know something about Islam-beyond the inane contribution of the Attorney General cited above. So I have prepared this little primer on Islam for Americans (suitable for ages 13 and above, so appropriate for high school use), dealing not with its theology so much as its general character as an important force in the world, presently encountering unprecedented, unprincipled attack from various quarters. (Oh, and by the way, I'm not a Muslim, but what those on the Christian right revile as a "secular humanist.")
1. Islam has been around for approximately 1400 years. Established on the west coast of Arabia 900 years before European settlement in America, and spreading rapidly throughout Southwest Asia and North Africa soon thereafter, it was not designed as an anti-U.S. movement!
The basic teachings or requirements of Islam are not difficult to grasp. They constitute the "Five Pillars of Islam": (1) profession that there is no God but God ("Allah," in Arabic), and his Prophet (the last of the prophets, the "seal of the prophets") is Muhammad; (2) daily prayer; (3) fasting during the month of Ramadan; (4) charity; and (5) the pilgrimage to Mecca. Whatever you may think of this package, it's not terribly threatening to the non-Muslim.
2. Islam's teachings are contained in a fairly compact book, the Qur'an, which Muslims believe was dictated to the Prophet Muhammad by the archangel Gabriel. They believe of it precisely what Jews and Christians believe of their scriptures: that is, it's the Word of God. This book, like the Bible, demands belief in monotheism; refers to Adam, Noah, Abraham, Jesus, etc. (far more space is given to Mary, mother of Jesus, in the Qur'an than in the New Testament); has a substantial legalistic component reminiscent of the Old Testament Book of Leviticus, and poetic content as beautifully uplifting as the Book of Psalms. For religious and secular scholars alike, it is absolutely clear that Islam stems from the Judeo-Christian tradition. Indeed, we should think in terms of the "Judeo-Christian-Islamic tradition."
(Some fundamentalist Christians, of course, see Islam as the work of Satan, and medieval Christians in Europe saw it as a heresy rather than as "paganism. The point is---for better or worse---Muslims have a whole lot more in common with the dominant religious trends in the U.S. than do, say, Buddhists or Hindus.)
3. Muslims are about 20% of the world's population; Christians, about 30%. (The U.S. Muslim population is estimated between 5 and 8 million; U.S. Jews between 5 and 6 million). The global Jewish population is statistically quite small, so one can say the Judeo-Christian-Islamic population is roughly half the world's total. The consequences of a protracted religious war, pitting Christians and Jews against Muslims, are highly unpleasant to consider.
4. The Qur'an depicts Jews and Christians as "People of the Book," meaning that they have their own scriptures bestowed upon them by God (Allah is simply the Arabic world for God, related to the Hebrew Elohim; we should see it as analogous to the German word Gott, the French Dieu, or the Spanish Dios. It's not the personal name of a deity within a pantheon, like Thor, Aphrodite or Siva.)
Muslim scripture counsels respect for these communities, and indeed, in the history of Islam, within Islamic societies Jews and Christians have fared FAR better than non-Christians in Christendom. Muslims ruled all or part of Spain from around 800 to the late 15th century, when Columbus' great patrons, King Ferdinand and Queen Isabella "drove the Moors (Muslims) out of Spain," forced everybody to embrace Catholic Christianity (or be killed), and promoted the exquisite Christian tortures of the Inquisition. Under Muslim rule, Christian and Jewish communities generally flourished from Spain to Iraq. On the other hand, until recent times, Christian intolerance prevailed throughout Europe.
5. The Qu'ran does NOT call upon Muslims to KILL all non-Muslims. It calls for the destruction of "infidels," meaning principally Arabs who, during the time of Muhammad, practiced idolatry and polytheism. Again: this is a seventh-century book, produced in a specific historical context! It, and the Muslim religion, should be studied and understood objectively, dispassionately. Islam emerged very quickly, and within decades united under its banner-the banner of monotheism---the various tribes of Arabia. Its violent rejection of idolatry, however offensive to the modern, secular, humanist mind, is hardly unique. It can be compared to the ferocious suppression in Christian Europe of paganism (often associated with witchcraft).
And for perspective, while the Qu'ran does call for the extermination of "infidels," the Old Testament is replete with its own exhortations to genocide. According to the Biblical narrative (of dubious historicity, but believed by hundreds of millions), the Hebrews under Joshua's leadership, invading Canaan from Egypt, killed twelve thousand "men and women together" in the town of Ai-because God wanted them to (Joshua 8:25). The Hebrews put all the people of Hazor to the sword (they "wiped them all out; they did not leave one living soul." Judges 11:14). The poetics of hatred are as conspicuous in the Bible as in the Qu'ran. A personal favorite of mine, from Psalm 137, refers to the Babylonians: "A blessing on him who takes and dashes your babies against the rock!" Such references are characteristic of Judeo-Christian-Islamic literature, and are best examined in historical perspective.
6. Islamic "fundamentalism" is not a species apart from other fundamentalisms, including the Christian, Jewish, and Hindu varieties. They are all anti-modern, anti-science, anti-intellectual, rarely harmless and potentially (if not necessarily) fascistic. They demand belief in received dogma, inscribed in texts, rather than open-ended scientific inquiry. They either legitimate the existing order, or call for a return to a past social order in which class and gender relations were properly sorted out in line with the Divine Will.
Some (including non-religious people in or from Muslim countries) criticize Islam (appropriately, in my view) for what they consider backward and reactionary features. This is not the place to deal with such criticisms, nor am I the right person to do it. I will merely observe what many others have observed: Christendom underwent the Enlightenment-an evolution towards secularism, rationalism, and scientific thought in the seventeenth and eighteenth centuries-which the Islamic world, in general, has not yet experienced. To become "modern" (more specifically, to become capitalist), the West had to become more ideologically tolerant (i.e., less religious), and allow a freer market in ideas than had been possible when the Church monopolized learning. If mullahs monopolize education in much of the Muslim world, they serve a function identical with that of Europe's medieval Catholic clergy.
But our own Enlightenment is not irreversible. Top U.S. officials reject the theory of evolution in favor of the ludicrous "theory" of "creationism,"and seek to criminalize abortion on the grounds that a fetus is a human being created by God. Recent changes in U.S. law (allowing the use of vouchers to support religious schools at taxpayer's expense), and the failure of the courts to prosecute behavior which plainly violates the constitutional separation of church and state, demonstrate that medieval thinking and fundamentalism retain a strong hold in sections of U.S. society, and are well represented in the Bush administration. The American people are, I submit, far more threatened by Christian fundamentalism than its Islamic counterpart. And for a Pentecostalist Christian like John Ashcroft, who believes every word of the Bible literally, to inveigh against Islam (as he has) is (to use the English proverb) the "pot calling the kettle black."
7. Islamic fundamentalism (or what some, including CNN Moneyline's Lou Dobbs calls "Islamism," meaning a specifically political Islam) has NOT, historically, posed a great threat to Western interests (by which I mean corporate, oil, and geopolitical interests) but rather been exploited to SERVE those interests. Remember Lawrence of Arabia? What was his objective other than to forge a British alliance with the Hashemites, who would certainly qualify as "Islamists" by Lou Dobb's standards, during World War I? Later, the British boosted the Saudi royal family (patrons of the Wahhabi school of Islam, usually described as among the most conservative, embraced by Osama bin Laden as well as the Saudis in general) into power. The U.S. inherited Saudi Arabia as a client state after World War II, and we all know how well U.S. oil companies have done there ever since. (Aramco alone, prior to its nationalization in the mid-1980s, yielded some $ 3 trillion from the Arabian reserves.)
The U.S. helped create, recruit, and finance the fundamentalist Mujahadeen, including some 30,000 young volunteers who came from throughout the Muslim world to fight "godless Communism" in Afghanistan in the 1980s. The U.S. encouraged them to view their war as a jihad (in the sense of a "Holy War," a meaning the term usually does NOT carry), and put many in contact with young Osama bin Laden, then an ally. The Reagan administration was in love with fundamentalist Islam, so long as it served its purposes.
The California-based company Unocal was cordially negotiating right up to Sept. 11 with Afghanistan's Taliban for an oil pipeline through Afghan territory, State Department official and oilman Zalmay Khalilzad was arguing up through 1998 that the Taliban were friendly, potential business partners who did "not practice the anti-U.S. style of fundamentalism practiced in Iran."
8. Muslims of the world have many thoroughly LEGITIMATE reasons to resent U.S. policy. Nearly absolute support for the settler state of Israel in its relationship with the indigenous Palestinian people. Imposition of brutal sanctions on Iraq, contrary to logic and morality. Maintenance of bases throughout the Persian Gulf, in defiance of local sensibilities and interests. Support for brutal regimes, including that of the Shah of Iran and that of Indonesia's Suharto (who unquestionably has more blood on his hands than even that arch-villain and former U.S. buddy Saddam Hussein).
9. Muslims typically DO NOT hate the U.S. as an abstract concept, reject U.S. culture in toto, or seek the destruction of American civilization. Many are, indeed, uncomfortable with some aspects of American behavior, as are most people in the world, from Central America to Japan. But a Zogby International poll, released June 11 of this year, shows that in nine Muslim countries, including Bangladesh and Malaysia, the most admired foreign country is the U.S.
10. Muslims and Jews in Palestine/Israel have NOT always hated one another, and the current Middle East conflict does NOT go back many centuries. Rather, it began with the influx of foreign Jews into the region after World War I, which became a flood as a result of the Holocaust, and with international support resulted in the formation of Israel as a specifically Jewish state in 1948. Jewish settlement and terrorism (well-documented by the Jewish Israeli historian Ilan Pappe) resulted in the displacement of 750,000 Palestinian Arabs (including both Christians and Muslims). The Arab-Israeli conflict is not, fundamentally, about Islam, or a clash between Islam and other faiths, but about this-worldly land grabbing, settlement, dispossession and oppression that has enraged the Muslim world, as it should enrage any thinking, moral human being. Unfortunately, fundamentalist Christians in this country tend to depict this history of injustice as the fulfillment of Biblical prophecy, and they will brook no dissent when it comes to the Zionist cause that they have embraced as their own. ("God gave them the land, so don't bother me with historical details. End of discussion.") Hard to imagine a delusion more injurious to world peace and to the cause of justice.
Finally: In understanding Islam, Americans should give some thought to one of the pivotal episodes in world history, the Crusades, or Wars of the Cross, that ripped up the Holy Land between 1096 and 1291. During these two centuries, European Christians seeking to "win back for Christendom" territory that had fallen to the Muslim Turks-territory that had been ruled by Muslims since the early seventh century anyway, on terms generally agreeable to Jews and Christians as well as Muslims-committed unspeakable atrocities. In July 1099 Jerusalem was conquered, the Roman Catholic soldiers massacring all the Muslim and Jewish inhabitants, including women and children. Nor was the Crusaders' zeal exhausted upon non-Christians; frustrated at lack of success in Palestine in 1204, they instead sacked Constantinople (modern Istanbul), then the center of Eastern Orthodoxy. In comparison, the behavior of the Muslim armies was chivalrous, the twelfth-century Kurdish leader Saladin in particular winning high praise from Christians and Muslims alike for his humanity.
The Islamic world remembers the Crusades; George Bush, like many Americans, is clueless about them. Hence his amazingly dim-witted reference to the "War on Terrorism" as a "Crusade" last September 16-a statement that produced immediate, widespread outrage in the Muslim world. No offense intended, no doubt. But such ignorance, in action, in a world where religious prejudice generates idiotic action from Belfast, to the Balkans, to Gujarat, to the Moluccas, is perilous ignorance indeed.
Gary Leupp is an an associate professor, Department of History, Tufts University and coordinator, Asian Studies Program
He can be reached at: gleupp@tufts.edu

شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ

شیخ محمد الغزالی رحمہ اللہ

شیخ محمد غزالی ؒ ایک جید عالم او ر مشہور داعی تھے ۔آپ ان کمیاب اور نایاب شخصیات میں سے تھے جن کے علم وفضل سے کئی نسلوں نے فائدہ اٹھایا۔ شیخ غزالیؒ ۱۹۱۷ء میں مصر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔تاجر گھرانے میں پرورش وپرداخت ہوئی۔ والد قرآن کریم کے حافظ اور ایک خدا ترس انسان تھے ۔ انہوں نے بیٹے کی پرورش بھی اسی انداز سے کی، چنانچہ شیخ غزالی نے دس سال کی عمر ہی میں قرآن مجید حفظ کرلیا۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی پھر ۱۹۳۷ء میں قاہرہ میں کلیۃ اصول الدین میں داخلہ لیا جہاں سے عالمیت،پھر دعوت وارشاد میں تخصص اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔آپ نے اپنے دور کے زبردست علماء ،مفکرین ،اساتذہ اور عظیم علمبرادران دعوت کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا جن میں سرفہرست امام حسن البنا شہیدؒ تھے ۔
عملی زندگی: تعلیم کی تکمیل کے بعد مسجد القبہ الخضراء میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دئیے۔ازہر میں بھی واعظ کے منصب پر فائز رہے۔ شعبہ مساجدکی ذمہ داریاں بھی تفویض رہیں،پھر تربیتی امور کے ناظم اور دعوت وارشاد کے ڈائرکٹر بھی رہے۔ ۱۹۴۹ء میں تقریباً ایک سال ’طور‘ کے قید خانے میں اور ۱۹۶۵ء کے دوران طرہ قیدخانے میں ہزاروں اخوانیوں کے ساتھ مقید رہے۔ ۱۹۷۱ء میں جامعہ ام القریٰ مملکت سعودی عرب کی عظیم اسلامی یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۱ء میں وکیل الوزارۃ(Under Secretary of State) بنائے گئے ۔ اسی طرح پانچ سال تک الجزائر کی جامعۃ الامیر عبدالقادر الجزائری الاسلامیہ کی مجلس علمی کی صدارت کے فرائض انجام دئیے۔
شیخ غزالی ؒ روشن دماغ ،پرجوش طبیعت ، عمیق ایمان والے، صاحب عزیمت ،خوش بیان ،اثر پذیر واثر انداز ،خوش مزاج اور نرم دل انسان تھے ۔ عصر حاضر کی ممتاز اسلامی شخصیت اور عالم اسلام کے عظیم داعی تھے ۔اپنی حاضر دماغی اور پرکشش انداز بیان کے لیے مشہور تھے ۔مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے بقول:’’وہ اخوان المسلمون کی سرکردہ شخصیت اور مصر میں دینی بیداری اور انقلاب کے ایک اچھے مصنف تھے۔ اور اخوان المسلمون کو صحیح فکری وروحانی غذ ا کے ساتھ ساتھ پر مغز اسلامی ادب سے بھی نواز رہے تھے‘‘۔
شیخ غزالیؒ ایک شعلہ بیاں خطیب بھی تھے اور بلند پایہ ادیب بھی۔آپ کو تقریر وتحریر پر مکمل عبور حاصل تھا۔ آپ مجلہ ’الاخوان المسلمون‘ میں مسلسل لکھتے رہتے ۔جوانی میں ہی آپ کے شاندار انداز بیاں،دوررس معانی اور پختہ وشائستہ ادب سے متاثر ہوکر حسن البنا شہیدؒ نے ایک خط کے ذریعہ آپ کی حوصلہ افزائی کی تھی ،یہ خط شیخ غزالیؒ کے لیے کسی فخر واعزاز سے کم نہ تھا۔ آپ کی تحریریں جہاں ایک طرف داخلی امور کا مکمل احاطہ کرتی ہیں وہیں دوسری طرف خارجی چیلنجوں کا بھی سامنا کرتی نظر آتی ہیں۔
جامعہ ازہر مصر، ام القریٰ مکہ مکرمہ،کلیۃ الشریعہ قطروغیرہ میں آپ کے شاگر د موجود ہیں جنھوں نے آپ کے علم ، جرأت ،صاف گوئی ،صداقت اور واضح بیانی سے بھرپور استفادہ کیا۔ اس کے علاوہ تقاریر ،دروس ،لکچرس، کتابوں ،مقالات واجتماعات کے ذریعہ ایک بڑی تعداد نے آپ سے کسب فیض کیا۔
آپ کے تلامذہ کی تعداد عالم اسلامی کے گوشوں گوشوں میں پائی جاتی ہے جنھوں نے پرچم اسلام کو سنبھالا اور اللہ کی دعوت کی تبلیغ و ترسیل اور پیغام اسلام کی اشاعت کے لیے آگے بڑھے ،جو خیر وفلاح ،نصرت وکامیابی کی شاہراہ پر امت کی قیادت کررہے ہیں، ان میں کچھ عظیم اساتذہ اور عبقری شخصیات کے طور پر افق عالم پر ابھر چکے ہیں جیسے علامہ یوسف قرضاوی، شیخ مناع القطان،ڈاکٹر احمد عسال وغیرہ۔
علمی خدمات: شیخ غزالیؒ کی مختلف موضوعات پر ساٹھ سے زائد کتابیں ہیں ۔ اس کے علاوہ لکچرس، مباحثے ، خطبات ، مواعظ ،دروس اور مناظرے ہیں جو مصر اور بیرون مصر انہوں نے پیش کیے۔آپ کی متعدد قیمتی کتابوں کو عربی زبان سے دوسری اہم زبانوں میں بھی منتقل کیاگیا ہے۔چند مشہور کتابوں میں ’اسلام اور اقتصادی حالات،اسلام اور اشتراکی مناہج،مسلمانوں کے ثقافتی اتحاد کا دستور، زندگی کی تجدید کرو، اسلام اور مسیحیت کے درمیان تعصب اور رواداری،اندرونی عجز اور بیرونی سازش کے درمیان معرکۂ دعوت،عقل ودل میں ایمان کے دفینے‘،وغیرہ اہم کتابیں ہیں۔
اردو زبان میں آپ کی بیشتر کتابوں کو منتقل کرنے کا کارنامہ جناب ابومسعود اظہرمرحوم نے انجام دیا، مرحوم کا اردو داں طبقہ پر یہ ایک ناقابل فراموش احسان ہے۔ عقیدہ پر ان کی مایہ ناز اور بے مثال کتاب عقیدۃ المسلم کا ترجمہ’عقیدہ اسلامی‘ کے نام سے مولانا محمدعنایت اللہ سبحانی اور خلق المسلم کا ترجمہ مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم (سابق امیر جماعت اسلامی ہند)نے کیا ہے،یہ اور اس کے علاوہ آپ کی متعدد کتابیں مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی سے شائع ہوچکی ہیں۔
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ بہت ہی جرأتمند عالم دین تھے، مختلف علمی آراء کے اظہار کے سبب کافی طعن وتشنیع کا بھی سامنا کرنا پڑا، علامہ یوسف القرضاوی ان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’بعض امور میں تمہیں غزالی سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جب تم انہیں اچھی طرح پہچان لوگے تو تم بے ساختہ ان سے محبت اور ان کی تعظیم کرنے لگو گے ۔ ان کے اخلاص وللہیت ،حق کے لیے یکسوئی ،راہ حق پر استقامت اور اسلام کی خاطر سچی غیرت کی وجہ سے ان کے گرویدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکو گے ۔شیخ غزالی گرچہ سریع الغضب تھے لیکن ان کا غصہ جلد ٹھنڈا ہوجاتا تھا ۔ جب ان کے سامنے حق واضح ہوجاتاتو حق کو گلے لگا تے ،اپنی غلطی کا اظہار واعتراف کرنے میں کسی بات کی پروا نہ کرتے تھے ‘‘۔ اسی طرح شیخ غزالی کی ایک اور اہم خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے باکمال ساتھیوں کے علم وفضل کے معترف تھے‘‘۔شیخ الازہر ڈاکٹر عبدالحلیم محمود بھی شیخ غزالی کے قدر شناس اور ان کی عظمت کے معترف تھے کہاکرتے تھے کہ ’ہمارے پاس کوئی نہیں سوائے دو غزالیوں کے ،ایک موجودہ دور کے شیخ غزالی اور ایک احیاء علوم الدین کے مصنف امام غزالیؒ ‘۔
وفات: دعوت وعزیمت سے بھرپور ایک طویل حیات کے بعد عالم اسلام کا یہ عظیم داعی ومفکر ۱۹۹۶ء کو ریاض سعودی عرب میں داعئ اجل کو لبیک کہہ گیا۔ جنت البقیع مدینہ منورہ میں تدفین ہوئی۔ اللہ تعالی آپ کو اپنی رحمت سے نوازے اور آپ کی علمی و عملی خدمات کو قبول فرمائے ۔آمین
(عبدالعظیم قاسم)
بہ شکرءیہ  رفیق منزل

آزادئ فکر وعمل اور اسلام — علامہ یوسف القرضاوی

آزادئ فکر وعمل اور اسلام — علامہ یوسف القرضاوی

اسلام نے عالم انسانی کو حقوق انسانی کی آزادی کا ایک واضح تصور دیا ہے۔ اس نے لوگوں کے مطالبات اور خواہشات کے بغیر انسانی عظمت کی پاسداری کا حکم دیا، اور ان کو آزادی کی دولت سے سر فراز کیا چنانچہ اس نے لوگوں کو فکر و نظر کی آزادی ، تعلیم کی آزادی ، بات چیت کی آزادی ، تنقید و تبصرے کی آزادی ، مذہب و عقیدے کی آزادی اور تصرف وملکیت کی آزادی سے سرفراز کیا بشرطیکہ اس آزادی کے نتیجہ میں کسی کی ایذارسانی نہ ہو۔ غرضیکہ اس نے تمام بنیادی اور اہم حقوق کی آزادی سے فیضیاب کر کے ہماری عزت افزائی فرمائی ۔
آزادی کے تعلق سے اسلام کا ایک عام قاعدہ ہے، اور وہ ہے ’’ لا ضرر و لا ضرار ‘‘ نقصان اٹھاؤ نہ نقصان پہنچاؤ ۔چنانچہ ہر وہ آزادی جو کسی کے حق میں باعث ضرر بنے وہ اسلام کی نگاہ میں آزادی نہیں ہے یا اسلام اس آزادی کو حدود وقیود کا پابند بنادیتا ہے کیونکہ یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ ایک انسان کی آزادی وہیں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے دوسرے کی آزادی شروع ہو تی ہے ۔
آزادی کی ایک اور قسم ہے جس کو حریت فسوق سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کا دعوی کرنے والے اس کا استعمال فساد اور بگاڑ کی خاطر کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں زندگی کے ہر گوشے کو آلودہ کر ڈالتے ہیں مذہب ہو یا عقل ، مال ہو یا عزت حتی کہ ان کے اپنے جسم بھی اس گندگی و نجاست سے محفوظ نہیں رہتے اسلام اس قسم کی آزادی کا سخت مخالف ہے ۔
اسلام نے لوگوں کے سامنے آزادی کے چند بنیادی اصول پیش کیے ہیں،امیر المومنین حضرت عمرؓ بن الخطاب نے بہت ہی پیاری بات کہی ہے، انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ’’تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا‘‘ اورحضرت علیؓ بن ابی طالب کی وصیت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ’’سنو !کسی کی غلامی نہ کرنا، تم کو اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے‘‘ یہ الفاظ حقوق کی آزادی کے سلسلہ میں اسلام کے نظریہ کی بہت اچھی غمازی کر تے ہیں ۔لوگ اپنی حقیقت کے اعتبار سے آزاد اور خود مختار ہیں، کیونکہ اللہ تعالی نے ان کو آزاد پیدا کیا اور ان کی ماؤں نے ان کو اسی آزاد فطرت پر جنا ہے چنانچہ ان کو آزادی کاپورا حق ہے اور وہ کسی کے غلام یا ما تحت نہیں ہیں ۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ لوگ غلامی کے خوگر تھے، فکری و مذہبی غلامی ، سیاسی و معاشی غلامی نیز سماجی و تہذیبی غلامی غرض انسان مختلف قسم کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا، اسلام نے اس وقت آزادی کی صدائے باز گشت لگائی اور وہ ہرآزادی جس کی انسانی فطرت کو ضرورت تھی، عقیدے کی آزادی ، فکر و نظر کی آزادی ، قول و عمل کی آزادی اوردین و مذہب کی آزادی سے نوع انسانی کو ہمکنار کیا، ہر قسم کی غلامی سے انسان کو نجات دلائی۔ چنانچہ کسی کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ کسی کو کسی مخصوص مذہب کے اختیار کرنے پر مجبور کرے۔قرآن نے صراحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی کہ : افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مومنین۔ یہ فرمان مکی زندگی کا ہے ۔ مدنی دور میں ان لفظوں میں تاکید فرمائی کہ : لا اکراہ فی الدین، اس آیت کے شان نزول پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام نے انسان کو کس قدر آزادی دی ہے اور اس کے یہاں کتنی وسعت و ہمہ جہتی ہے اور اس نے اس پر کتنا شدید زور دیا ہے ۔
دور جاہلیت میں قبیلہ اوس و خزرج کی کسی عورت کو جب اولاد نہیں ہوتی تھی تو وہ نذر مانتی تھی کہ اگر وہ اولاد کی نعمت سے سرفراز ہو گئی تو اس اولادکو یہودیت کا خرقہ پہنائے گی ۔اس طرح ان دونوں قبیلوں میں بہت سے یہودیوں نے بھی پرورش پائی ۔جب اسلام آیا اور اس کے ذریعے اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر ردائے رحمت دراز کی اور ان کو اپنی نعمتوں سے ڈھانپ لیا تو بہت سے لوگوں کو اس بات کی تمنا ہوئی کہ ان کے نور نظر اور لخت جگر بھی اس اسلام کی آغوش میں آجائیں اور اس بے حقیقت یہودیت سے ان کو واپس لوٹا دیا جائے لیکن ان تمام احوال و کوائف کے باوجود جن سے یہودیت دو چار تھی اور مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین ہونے والی معرکہ آرائی کے باوجود اسلام نے کسی فرد کو بزور طاقت کسی مذہب کو قبول کرنے یا چھوڑنے کی اجازت نہیں دی،اگربعض اہل اسلام کی جانب سے بھی اس قسم کی کوشش کی گئی تو اسلام اس کو ناجائز اور ممنوع ٹھہراتا ہے
آزادی کے یہ اصول و قوانین کسی سماجی ارتقا ء کے نتیجے میں یا کسی انقلاب کی بدولت وجود پذیر نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی لوگوں کی کد و کاوش کا ثمرہ تھے بلکہ یہ قوانین وقت کے تمام معاشرتی قوانین سے بلند و بالا تھے، یہ قوانین آسمان کی بلندی سے اترے تھے تا کہ زمین والوں کو بلندی سے ہمکنار کریں۔
مذہب و عقیدے کی آزادی : اسلام نے اس آزادی کا تصور دے کر انسانیت کو ترقی کے بام عروج پر پہنچادیا لیکن اسلام نے اس آزادی کے ساتھ کچھ شرائط و ضوابط بھی متعین کر دیئے ہیں تا کہ دین لوگوں کے کھیل کود کی آماجگاہ نہ بن جائے ….. جیسا کہ یہود نے بنایا چنانچہ انہوں نے کہا (آمنوا بالذی انزل علی الذین آمنوا وجہ النھار واکفروا آخرہ لعلھم یرجعون )۔ صبح میں ایمان لاؤ اور شام میں پلٹ جاؤ اور کہو کہ ہم نے محمد ؐ کے دین میں یہ یہ خامیاں پائیں چنانچہ ہم کو پلٹنا پڑا ۔یا آج کے دن ایمان لاؤ اور آنے والے کل یا آنے والے ہفتے انحراف کر جاؤ ۔اس طرح انہوں نے اس نئے دین کی خوب تحقیر و تذلیل کی ۔چنانچہ اس راستے کے سد باب کے لئے یہ قاعدہ وضع کر دیا گیاکہ جو شخص غورو فکر اور فہم وبصیرت کے بعد اسلام قبول کرے گا اس کے لئے اعراض کی گنجائش نہیں ہو گی اور بصورت اعراض اس کو سزائے ارتداد بھگتنا پڑے گی۔
فکرو نظر کی آزادی : اسلام نے لوگوں کو اپنے گردو پیش کی دنیا میں غور و فکر کرنے کی پر زور دعوت دی ہے (انما اعظکم بواحدۃ ان تقوموا للہ مثنی و فرادی ثم تتفکروا ) ( قل انظروا ماذا فی السمٰوات والارض ) (افلم یسیروا فی الارض فتکون لھم قلوب یعقلون بھا او آذان یسمعون بھا فانھا لا تعمی الابصار ولٰکن تعمی القلوب التی فی الصدور ) اسلام نے ان لوگوں کے خلاف عام اعلان جنگ کیا ہے جو اوہام پرستی کا شکار ہوتے ہیں او رخواہشات نفس کی پیروی کرتے ہیں فرمایا (ان الظن لا یغنی من الحق شیئاً ) اور جو اتباع شہوات اور تقلید آباء و اجداد اور اقتدائے اہل ثروت و سطوت کو اپنا شیوہ بناتے ہیں یہی لوگ بزبان شکوہ قیامت کے روز کہیں گے ( انا اطعنا سادتنا و کبراء نا فاضلونا السبیلا ) اور یہی دنیا میں کہتے ہیں ( انا وجدنا آباء نا علی امۃ و انا علی آثارھم مھتدون )چنانچہ ان کو اللہ تعالی نے جانوروں سے بھی بدتر بنادیا ۔
اسلام نے اندھی تقلید کی سخت مذمت کی ہے اور سوچنے سمجھنے ، غورو فکر کرنے اور عقل و فہم کا استعمال کرنے کی دعوت دی ہے اور بآواز بلند یہ صدالگائی کہ ( ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین )
عقیدۂ اسلامی کے اثبات میں عقلی دلائل کا بھر پور سہارا لیا گیا ہے، علماء اسلام نے صحیح لکھا ہے کہ ’’: سچ تو یہ ہے کہ عقل سلیم نقل صحیح کا ستون ہے ۔ عقل نقل کی بنیاد ہے چنانچہ وجود باری تعالی عقل سے ثابت ہے ، نبوت محمدی ؐ کی صحت پر عقل دلیل اول ہے ۔عقل ہی ہے جو دو ٹوک انداز میں کہتی ہے یہ کے رسول ہیں کیونکہ ان کی صداقت پر دلیل موجودہے، ان کی صحت نبوت پر معجزات شاہد ہیں یا یہ کہ یہ کذاب ہے ، دجال ہے کیونکہ اس کا دعوی بے بنیاد ہے ، اس کے پاس کوئی معجزہ نہیں ہے ۔چنانچہ اسلام میں عقل و فکر کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے۔
اس آزادئ فکرو نظر کے نتیجے میں ایک اور آزادی وجود میں آتی ہے جس کو ہم حریت عمل یا قول وفعل کی آزادی کہتے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علماء اسلام کے درمیان علمی تحقیقات و تدقیقات میں بے شمار اختلافات واقع ہو تے ہیں اور ان میں سے بعض بعض کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور ان کے کاموں پر تنقید کرتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی نہ عار محسوس کرتا ہے اور نہ تنگ دامانی کا شکار ہوتاہے ۔ہم ایک ہی کتاب میں دیکھتے ہیں کہ معتزلی عالم کا بھی ذکر ہے اور اہل السنۃ کا بھی ۔ تفسیر کشاف جو ایک معتزلی امام یعنی امام زمخشری کی لکھی ہوئی ہے، اہل السنہ اس سے خوب خوب استفادہ کرتے ہیں اور اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، حتی کہ بعض علماء اہل السنہ اس کتاب کا دفاع بھی بھر پور انداز سے کرتے ہیں مثلاً ابن المنیر نے ان پر ’’الانتصاف من الکشاف ‘‘ کے نام سے حاشیہ چڑھایا ،حافظ ابن حجر نے ایک کتاب ’ الکافی الشافی فی تخریج احادیث الکشاف ‘ کے نام سے تصنیف کی ۔
اس طرح ہمارے علماء بلا جھجک ایک دوسرے کی تصانیف اور تحقیقات سے مستفید ہوتے تھے۔فقہاء کے درمیان علمی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے سینے ہمیشہ کشادہ ،جبیں خندہ اور ظرف اعلی ہوتے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیشہ ملت اسلامیہ کے اندر آزادئ فکر و نظر کے ساتھ آزادئی قول وعمل کا دروازہ بھی کھلا رہا ہے ۔
نقد وتبصرہ کی آزادی: اسلام نے نہ صرف اس کو بحیثیت ایک حق منظور کیاہے بلکہ جب امت کی کوئی مصلحت اس سے متعلق ہوجائے یا عام اخلاق و آداب اس کے متقاضی ہو جائیں تو اس کو ایک واجب کا درجہ دیا ہے ۔تمہارے اوپر واجب ہوگا کہ تم حق بات کہو اور اللہ کے سلسلے میں کسی کی ملامت کی پروا نہ کرو ،معروف کا حکم دو اور منکر سے روکو اور خیر کی طرف دعوت دو، نیکوکار کی اس کی نیکی پر تحسین کی جائے ،اس کی تائید کی جائے اور بدکار و بد اخلاق کی برائی پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا جائے،اس کو اس بات سے روکنے کی کوشش کی جائے۔یہ حق پھر ایک و اجب کی صورت اختیار کرلیتا ہے، اگر کوئی اس سے عہدہ برآ نہ ہو یا اس پر خاموشی سے امت کے اندر مضر اثرات یا فساد عام کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں واجب ہوگا کہ تم حق بات کہو اور بیباکی کا مظاہرہ کرتے رہو، ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ اور’’ واصبر علی ما اصابک ان ذلک من عزم الامور‘‘ کی جیتی جاگتی تصویر بن جاؤ ۔
اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگوں کے افکارو خیالات مقید کرکے رکھ دیا جائے یا لوگوں کی لگام بالکلیہ کسی ایک فردکے حوالے کردی جائے کہ کوئی اس کی اجازت کے بغیر لب کشائی نہ کرسکے جیسا کہ فرعون نے اپنے جادوگروں سے کہا تھا (آمنتم لہ قبل ان آذن لکم ) وہ چاہتا تھا کہ لوگ اس سے اجازت طلب کئے بغیر یا اس کے حکم کے بغیر نہ ایمان لائیں، نہ زبان کو گویائی کی اجازت دیں، اسلام اس قسم کی کسی بھی پابندی کا ہرگزروادار نہیں۔
اسلام نے نہ صرف لوگوں کے لئے غورو فکر کے دروازے وا کیے بلکہ ان کو حکم دیا کہ وہ غوروفکر سے کام لیں ،اس نے نہ صرف حق پر یقین کرنے اور عقیدہ رکھنے کی آزادی دی بلکہ ان کو حکم دیا کہ وہ اسی پر عقیدہ رکھیں جس کو حق سمجھتے ہوں اور صاحب عقیدہ پر واجب کردیا کہ اپنے عقیدے کی حمایت و حفاظت کی خاطر پورا زور بازو اور قوت اسلحہ جھونک دیں ۔
اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ آزادئ عقیدہ کو عام کرنے کے لیے سخت جدوجہد سے کام لیں یہاں تک کہ فتنہ دب کر رہ جائے اور دین پورا کا پورا اللہ رب العالمین کے لئے ہو جائے، اسلام نے یہاں تک کہاں کہ آزادی کی حمایت اور فتنہ کی سرکوبی کے لئے تیغ وتفنگ اور اسلحہ کا استعمال بھی بلا جھجھک جائز ہے تاکہ کوئی اپنے دین اور عقیدے کے تعلق سے فتنہ کا شکار نہ ہوجائے۔قتال وجہاد کی مشروعیت و حقیقت پر جو پہلی آیت نازل ہوئی اس میں اللہ تعالی فرماتا ہے (اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا ) آگے فرمایا (و لو لا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیراً) یعنی اگر اللہ تعالی نے مومنوں کو ان کی تلواروں کے ذریعے آزادی کا دفاع کرنے کی قوت نہ بخشی ہوتی …..خصوصاً بنیادی آزادی کرنے کی قوت نہ بخشی ہوتی تو اس روئے زمین پر کوئی اللہ کی عبادت کی تاب نہیں لاسکتا تھا، اور نہ ہی اس نیلگوں آسمان کے نیچے کنائس ، کلیسے ، مساجد اور عبادت گاہوں کے نشانات ہوتے جن میں کہ اللہ تعالی کا ذکر ہو ۔
اسلام ہی ہے جس نے اس قسم کی بیش قیمت آزادی کا تصور دیا، لیکن اسلام جس آزادی کو پیش کرتا ہے وہ حقوق کی آزادی ہے نہ کہ فسق و فجور کی ۔اسلام قطعاً اس آزادی کے حق میں نہیں ہے جس کو لوگ شخصی آزادی کا نام دیتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ ہر مضر و نقصاندہ آزادی کا دعوی کرتے ہیں یعنی یہ کہ تم اپنی خواہشات کی پیروی کرو،خواہشات کے مطابق زنا کرو ،شراب نوشی کرو اور ہر مہلک اور نقصان دہ فعل کا ارتکاب کرو ۔ اسلام حقوق کی آزادی دیتا ہے، جائز خواہشات اور مطالبات پورے کرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن وہ کبھی اور کسی صورت میں فسق وفجور کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح کچھ معاملات ہوتے ہیں جہاں مصلحت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس میں آزادی مشروط اور مقیدہونی چاہئے جیسے کہ ہر بات پر تنقید نہ کرو ،ہر وہ چیز جس کو تم صحیح سمجھتے ہو اس کااظہار نہ کرو، ہر عمل کی تائید نہ کرو اور کسی معذور کو برے القاب سے نہ پکارو مثلاً کسی لنگ پا کو لنگڑا مت کہو۔ ایسے میں شخصی آزادی کا دعوی کرنا کہ جس سے خود تمہارے اخلاق و کردار ، روح و ضمیر اور گھر خاندان میں فساد و بگاڑ کا خطرہ ہو، اسلام میں اس قسم کی آزادی کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔اگر آزادی کا مفہوم اس انداز کا ہے تو ہرگز اسلام ایسی آزادی کا قائل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس طرح یہ حقوق کی آزادی نہیں بلکہ فسق و فجور اور فساد و بگاڑ کی آزادی ہے یعنی تم خود تو آزادی کا دعوی کرو اور پھر لوگوں کی آزادی کو ٹھیس پہونچاؤایسی آزادی کا قائل کون ہو سکتا ہے ؟
تمہیں راہ نوردی کا پورا حق حاصل ہے لیکن ساتھ ہی کچھ آداب کا پاس بھی تم پر واجب ہے ۔تم لوگوں کو دھکا مت مارو، گاڑیوں سے مت ٹکراؤ ، پیادہ پا لوگوں کو ڈھکیل مت دو اوراخلاق واقدار کو پامال مت کرو اس طرح کے اصول تمہاری آزادی کے لئے شرط ہیں اور یہ عام مصلحت کے پیش نظر ہے ۔ہر دین اور ہر نظام اس طرز کے شرائط و قوانین کا پاسدار ہوتا ہے جبکہ اسلام کے لائے ہوئے قوانین تو بشریت کے بالکل مطابق اور فطرت کے عین موافق ہیں ۔
(عربی سے ترجمہ: ذوالقرنین حیدر ندوۃ العلماء لکھنؤ)

پاپولر کلچر اور اسلام

پاپولر کلچر اور اسلام

تہذیب و ثقافت کی تاریخ ا تنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ ہے۔انسانی تاریخ اور اس کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا میں انسانی سماج اپنی آنے والی نسل کو علم سے روشناس کراتا رہا ہے۔ علم دو طرح کا ہوتا ہے، ایک حقیقی علم جس میں خیالات، عقائد، رویے، روایات، اور طور طریقے شامل ہیں۔اس طرئقہ علم کو کلچر بھی کہا جا تا ہے۔اور دوسری قسم کا علم جس میں ، سائنسی، تکنیکی اور انتظامی امور کا علم ہے۔ اس طریقہ علم کو تہذیب بھی کہا جا تاہے۔جدید دانشوروں نے علم کو آرٹ اور سائنس میں تقسیم کردیاہے۔یہ ایک غیر مناسب تقسیم ہے۔انسانی سماج میں تہذیب و ثقافت ((culture and civilizationکی بڑی اہمیت ہے۔اور یہی اس کی شناخت بھی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس میں فرق ہے لیکن یہ دونوں الفاظ اکثر یکساں معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔اوراس وقت یہ پوری دنیا اوربالخصوص ہندوستان میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ہندوستان ایک واحد ملک ہے یہاں کی گنگا جمنا تہذیب پوری دنیا میں انفرادیت رکھتی ہے۔لیکن ان دنوں ہندوستان میں ثقافتی تصادم کا ایک نیا باب کھلا ہے۔جیسے پب پر حملہ، ویلنٹائن ڈے کے خلاف علم بغاوت اور جواباً گلابی انڈرویر کے تحفے دینا اور اس طرح کے عمل کو ’مورل پولسنگ‘ بتانا وغیرہ۔بہرحال کلچر کیا ہے؟ اور انسانی زندگی میں کلچر کی کیا اہمیت ہے اور کیسے نظریہ کے فروغ کے لیے اسے استعمال کیا جارہا ہے اور سماج پر اس کے اثرات کیا ہیں؟۔اس بات کا جائزہ لینا یہاں مقصود ہے۔
کلچر انگریزی زبان کا سب سے پیچیدہ لفظ ہے۔ کلچر یعنی ثقافت کی تشریح اس طرح ہے۔’ آکسفورڈڈکشنری کے مطابق روایات اور عقائد،زندگی گزارنے کا طریقہ اور کسی ملک یا گروپ کی سماجی تنظیم کا نام کلچر ہے‘۔کلچر کسی بھی فرد و سماج اور قوم و ملک کے عادات و اطوار اور ان کے رویے کے تشخص کا نام ہے۔مشہور ماہر معاشیات امرتیہ سین نے اپنی کتاب (Identity and Violance ) میں کلچر پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کے کلچر کوئی Homogeneousشئے نہیں ہے بلکہ اس کے اندر مختلف شکلیں ہیں۔اور اس میں کوئی ٹھہراؤ نہیں ہوتا اور کلچر سماج کے دیگر عوامل اور تصورات کے ساتھ تبادلہ کرتا ہے۔ مشہور انگریزی شاعر میتھیوآرنلڈ (Mathew Arnold)کہتے ہیں۔کلچر کو مناسب طور پر اگر بیان کیا جائے تو اسکی بنیاد تجسس میں نہیں بلکہ اسکی بنیاد محبت اور کمال میں ہے۔ یہ کمال Perfection کا مطالعہ ہے۔ یہ حقیقی معلومات کی سائنسی قوت سے نہیں چلتا بلکہ بہتر کام کرنے کی اخلاقی اور سماجی قوت کے بل بوتے پر چلتا ہے۔
ہندوستان میں ثقافت کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ ہے۔چار ہزار سال سے زائد عرصہ پر محیط یہ تاریخ کئی ادوار میں بٹی ہوئی ہے۔اندس ویلی کی تہذیب سے، آرئین، اشوک، گپتہ، ہندوازم، جین مت، بدھ مت سے یہ تاریخ مسلمانوں تک پہنچتی ہے۔اور مغلیہ دور حکومت کے طویل باب کے بعد انگریزوں سے ملتی ہے۔ اس طویل تار یخ کے ہر دور کی کچھ اہم خصوصیات ہیں جو ہندوستانی ثقافت کی تعمیر کرتی ہیں۔ جیسے آرٹ، موسیقی، مصوری، سائنس، ریاضیات، اور فلکیات وغیرہ میں نمایاں ترقی ہوئی ہے۔ہرش وردھن کے دور کی ہندوستانی تہذیب و کلچر کو اس دور کا کلاسیکل دور کہا جاتاہے۔اس کی وفات کے بعد اور ہندوستان میں اسلام کی آمد سے قبل مذہبی روایتوں کی مضبو طی ہوتی ہے جیسے بھکتی گیت،یوگا،اور جنس sexکے کئی مظاہرے عام ہوتے ہیں۔ اور اس کا راست اثر یہاں کی ثقافت پر پڑتا ہے۔مغلوں کی ہند میں آمد کے بعد یہا ں کی ثقافت کے نئے باب کا آغازہوتا ہے۔فن تعمیرات کے نئے ماڈلس وجود میں آتے ہیں۔کاغذ عام ہوتا ہے۔ سنسکرت کی جگہ اردو لینا شروع کرتی ہے وغیرہ، مغلوں کے زوال کے بعد پھر ایک مرتبہ ہندوستانی تہذیب و کلچر انگریزوں کی حکومت اور ان کے کلچر کی زد میں آجاتی ہے۔یہ سلسلہ ہنوز آزادی ہند کے بعد بھی جاری ہے۔ اس مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہندوستانی تہذ یب و ثقافت پر کسی دور کا غلبہ نہیں رہا ہے۔ یہ مختلف دور میں بٹی ہوئی ہے اور مختلف مرحلوں سے گزر کر یہ بنی ہے۔اور نہ ہی یہاں کی ’ سنسکرتی‘ پر کسی کی اجارہ داری ہے۔ ہندوستان میں تہذیب، کلچر، اور روایات کی ایک لمبی تاریخ ہے، اس وقت یہاں تفصیلی گفتگو کی اجازت نہیں۔
پاپولر کلچر ایک ایساذریعہ ہے جس کے ذریعہ سے نظریات کا فروغ کیا جارہا ہے۔مختلف ذرائع کا استعمال کرکے پاپولر کلچر کو پھیلایا جارہا ہے۔ فلم، موسیقی، گانے، انٹرنیٹ، سوشل ویب سائٹس، موبائیل فون، اور اخباروغیرہ کے ذریعہ محض تفریح کے نام پرذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہے۔پاپولر کلچر نے ایک ایسی بحث کا آغاز کیا ہے۔جس سے فرد کی آزادی، لباس، مزاج، غذا، پسند و نا پسند کے پیمانوں پر سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔اور جنسی تعلقات، ہم جنس پرستی، عریانیت ،ویلنٹائن ڈے ، نظام تعلیم میں جنسی تعلیم اور شراب نوشی کو قانونی حیثیت دینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔اس وقت ملک میں بڑھتا ہوا پب کلچر بھی زیر بحث ہے۔ پب کلچر پاپولر کلچر کی ایک قسم ہے۔پب کلچر ستّرکی دہائی میں دبے پاؤں ملک میں داخل ہوا اور اسّی کی دہائی میں پب کلچر سماج کے چند نام نہاد و اعلی طبقات اور میٹروز تک محدود تھا۔ نویں دہائی میں آزاد معاشی پالیسوں کے نتیجہ میں بیرونی کمپنیوں نے ملک میں اپناجال پھیلایا، ان کمپنیوں نے نہ صرف تجارت اور روزگار کے مواقع ساتھ لائے بلکہ اپنی تہذیب و کلچر بھی لائے۔مغربی کلچر اب مخصوص طبقے یا مخصوص شہروں تک محدود نہیں ہے بلکہ اب یہ چھوٹے شہروں اور ٹاؤنس تک بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔پب کلچر کیا ہے؟ دن بھر کام میں مصروف افراد اپنی تھکان کو دور کرنے ایک ایسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں شراب و شباب کے نشے میں اور نیم تاریک ماحول میں ناچ و ہنگاموں کے ذریعہ ذہنی تھکان و تناؤ کو دور کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔جہاں غیر اخلاقی حرکات پر کوئی پاپندی نہیں ہوتی اور یہاں ہر شخص اپنی آزادی چاہتا ہے۔چاہے اس کی مذہبی شناخت یا خاندانی روایات پامال ہورہے ہوں۔پب کلچر اس ملک کی روایات، مزاج اور شناخت کے خلاف ہے۔اس پر روک تھام کے لیے بہتوں نے کوشش کی، اب ہندوتوا طاقتیں اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کی غرض سے کلچر کی حفاظت کا نعرہ بلند کرکے تشدد کا سہارا لے رہی ہیں۔اس تشدد کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ہے۔ اور کئی سوالات کھڑے ہوئے ہیں جیسے، فرد کی آزادی کے حدودکیا ہیں؟ سماج فرد پر کس حد تک پابندیاں عائد کرسکتا ہے،وغیرہ۔ پب کلچر سے سب سے زیادہ نوجوان نسل متاثرہے۔اور اس کے اثرات کو بڑی تیزی سے قبول کررہی ہے۔اس کلچر کے فروغ میں بالی وڈ اہم کردار ادا کررہا ہے اور میڈیا نے بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
اسلامی تہذیب و ثقافت کے چار اصول ہیں۔۱) تو حید ، ۲)رسالت، ۳)آخرت، اور ۴)ذوق جمال وفکری طہارت۔ان نظریاتی اصولوں پرزبان، علاقہ، موسمی تغیرات، جغرافیائی فاصلے اور تاریخی عوامل میں سے کسی کا اثر نہیں پڑتا۔یہ اصول ہر دور میں، ہر علاقہ اور ہر نسل میں غیر متغیر رہتے ہیں۔ لیکن ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے عملی مظاہر ہر معاشرے اور ہر جغرافیائی تبدیلی کے ساتھ بدلتے رہیں گے۔لیکن ان میں تبدیلی اور تغیر کے باوجود وہ سب اسلامی کلچر کے مظاہر کہلائیں گے۔اسلامی کلچر کی بنیاد یہ ہے کہ انسان صرف حیوان نہیں بلکہ اللہ تعالی کا خلیفہ ہے۔اسی تصور کے ساتھ انسان کی زندگی کا مقصداللہ کی خشنودی بن جاتا ہے۔مقصد کی طرف موڑنے میں عقائد کا اہم رول ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے میدان عمل، میدان فکر، اور میدان تخلیق میں اپنا ایک مخصوص نقشہ قائم کیا تھا۔میدان عمل میں معاشیات، معاشرت، سیاست، تعلیم، اور عمرانیات میں ایک خاص قسم کا نظام قائم کیا تھا۔ میدان فکر میں ان کی ذہانت نے جدید سائنس کی بنیاد رکھی اور آئندہ ارتقاء کی راہ بھی متعین کردی۔میدان تخلیق میں انہوں نے اپنی جمالیاتی روح کی حرکت سے زندگی کے جمال کو نکھارنے اور مالا مال کردینے کا سامان کیاجو ان کے ادب، فنون لطیفہ اور فلسفہ میں نمودارہوا۔اسلام ایک مکمل تہذیب و کلچر کا نقشہ دیتا ہے۔توحید پرستی، انسانیت کا احترام، آفاقیت، عالمی اخوت، عالمی بھائی چارہ، عالمی امن، وحدت انسانیت، وحدت فکر و عمل، فرد شناسی، فرض شناسی، جوابدہی کا احساس، اور اعتدال و توازن وغیرہ۔ یہ سب اسلامی کلچر کی خصوصیات ہیں۔اور اسلامی کلچر جن غیر اخلاقی صفات کو اپنانے سے منع کرتا ہے وہ اس طرح ہیں شرک و بت پرستی، نسل پرستی، قوم پرستی، علاقہ پرستی، تنگ نظری، فتنہ و فساد، نمود و نمائش، بے قید آزادی اور رہبانیت وغیرہ ہیں۔
کلچر کسی بھی سماج کی شناخت اور کسی بھی نظریہ کا ترجمان ہوتا ہے۔ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام ایک مکمل کلچر انسانیت کو دیتا ہے۔اور امت اس کلچر کے فروغ و استحکام کی علمبردار بنائی گئی ہے۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ایک تکثیری سماج میں اسلام کے نفوذ کی راہیں تلاش کررہے ہیں۔ اس لیے اسلامی خطوط پر کلچرکی ترقی کے لیے پاپولر کلچر(popular culture) کا استعمال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔عربی کلچر کے دو مظاہرے شاعری اور خطابت تھے ۔ حضورؐکا اسوۂ ہمیں یہاں رہنمائی کرتاہے کہ آپؐ نے عہد جاہلیت کی شاعری کو مسترد نہیں کیا، البتہ اخلاقی اصول بیان کرکے اس کی حد بندی کردی۔ اورفن خطابت کو جوں کا توں قبول کیا، البتہ اسے صداقت کے تابع کردیا۔اب ہمیں اس دور کے پاپولر کلچر کا استعمال کرکے اسلام کی اشاعت کا کام انجام دینا ہے۔ اور سماج کو کلچر کے غلط استعمال سے روکنا ہے۔ پب کلچر کے مضر اثرات سے طلبہ برادری کو بچانا ہے ۔ آج اسلام دشمن طاقتیں اسی پاپولر کلچرکو اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔اس لیے ہمیں پاپولر کلچر کے وہ تمام ذرائع جو کہ تفریح کے نام پر عام کیے جارہے ہیں ان تمام ذرائع کو صحیح مقاصدکے لیے استعمال کرنے پر سماج کو آمادہ کرنا ہوگا۔
محمدآصف علی، بگدل

پاپولر کلچر۔ تنقیدی جائزہ

پاپولر کلچر۔ تنقیدی جائزہ

“why this kolaveri kolaveri kolaveri di 133. distance la moon-u moon-u, moon-u color-u white-u, white background night-u nigth-u, night-u color-u black-u”
مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ کیا چیز ہے۔ یہ نوجوان نسل کے ذہنوں میں نمودارہونے والا تازہ ترین دھماکہ (BUZZ) ہے۔ لیکن میں نے یہاں اس کا حوالہ کیوں دیا ہے؟ آخر ہم لوگ (پرانی نسل کے لوگ)موجودہ کلچر کے بارے میں یہی سب کچھ سوچتے ہیں۔۔۔ بے معنیٰ ، بے سمت، کسی آہنگ کے بغیر۔ جیسے کہ کولاوری کا یہ گانا۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہر پرانی نسل کا خیال نئی نسل کے متعلق یہی ہوتا ہے کہ وہ ان کے کلچر کی پیروی نہیں کررہی ہے۔ اس لئے کلچر بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا بلکہ یہ پرانے کلچر سے ہی اخذ کیا جاتا ہے اس معمولی تبدیلی کے ساتھ کہ اس میں نئی ٹیکنالوجی اور نئی معلومات کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ سمجھنا اہم ہوجاتا ہے کہ کلچر میں کیا چیزیں شامل ہوتی ہیں او ر کیا چیز اسے عوام میں پاپولر بنادیتی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ ہمیں یہ بھی سمجھاتا ہے کہ انسانی زندگی کے ان مختلف پہلوؤں کو نوجوان نسل میں کیسے لایا جائے جن کو ہم عام کرنا چاہتے ہیں۔
پاپولر کلچر کیا ہے؟
کلچر ایک ایسا لفظ ہے جس کے کئی معنیٰ پائے جاتے ہیں۔ البتہ بالعموم اس کا استعمال مندرجہ ذیل معنوں میں کیا جاتا ہے۔
*ہیومنیٹیز اور فائن آرٹس کے میدانوں میں بہترین ذوق کا مظاہرہ جس کو بالعموم ہائی کلچر بھی کہا جاتا ہے۔
*انسانی معلومات، عقائداور رویوں کا ایک ملا جلا مظاہرہ جو سماجی علم اور خیالات پر منحصر ہوتا ہے۔
*کسی تنظیم ادار ہ یا گروہ کے مشترکہ رویے، اقدار ، مقاصد اور روایات۔
پاپولر کلچر دراصل کئی چیزوں کے مجموعے کا نام ہے جو موسیقی، ٹی وی، کتابیں، ریڈیو، کار، کپڑے، تفریحات وغیرہ پر مشتمل ہے اور یہ فہرست طویل تر ہے۔ اگر کوئی چیز کسی کے لئے پاپولر نہیں ہے تو عین ممکن ہے کہ کسی اور کے لئے ہو۔ ڈاکٹر رے براؤن کا مندرجہ ذیل قول پاپولر کلچر کی اچھی تشریح پیش کرتا ہے۔
پاپو لر کلچر لوگوں کے کسی گروہ ، چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا، کے روزمرہ کلچر کا نام ہے۔
پاپولر کلچر ہماری روزمرہ زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتا ہے۔
پاپولر کلچر لوگوں کی آوز ہے، ان کی روایات، ان کی پسند اور ناپسند اور ان کی روزمرہ کی زندگی کے معمولات ہیں۔
آج کل کس قسم کا پاپولر کلچر پایا جاتا ہے؟
پاپولر کلچر آج کل لوگوں کے ذہن و دماغ میں پایا جاتا ہے۔ یہ وہ معلومات ہیں جو وہ اخبارات، میڈیا اور میگزینس کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ اگر پاپولر کلچر اس کا نام ہے کہ عوام الناس کن چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں تب یہ ہمارے اطراف پائے جانے والی ہر چیز میں موجود ہے۔
گھر میں اپنے اطراف چیزوں پر نظر ڈالئے ۔ کیا آپ کے پاس لیپ ٹاپ،کمپیوٹر، ٹی وی ، اسٹیریو، بیڈ، فریج، کار ، پلے اسٹیشن، کتابیں وغیرہ پائی جاتی ہیں یہ تمام پاپولر کلچر کا حصہ ہیں اس وجہ سے کہ لوگ ان چیزوں کو رکھنا پسند کرتے ہیں۔ آج کل متوسط طبقے کے کس گھر میں ان میں سے کم از کم ایک چیز بھی پائی نہیں جاتی۔
آج کل یہ پاپولر بات ہے کہ ٹی و ی دیکھی جائے اس لئے لوگ دیکھتے ہیں ، اسی طرح کھیل کھیلے جائیں، کرکٹ میچ دیکھا جائے، پارٹیز میں جایا جائے، گرل فرینڈ رکھی جائے، پیسے اڑائے جائیں وغیرہ۔ لوگ اس پاپولر کلچر میں رہتے اور بستے ہیں اور اس کا حصہ بننا چاہتے ہیں صرف اس بنا پر کہ وہ اس ماحول میں پلے بڑھے ہیں اور اسی ماحول میں سوچنے اور رہنے کے عادی بنائے گئے ہیں۔
یہ پاپولر کلچر صرف چند مخصوص اشیاء کے ذریعے اظہار کا نام نہیں جیسے ٹی وی ، ریڈیو وغیرہ بلکہ یہ جذبات اور روحانی احساسات کے اندر بھی پایا جاتا ہے۔ ہر شخص ڈر، نفرت،خوشی، غم ، پیار محبت جیسے مختلف جذبات سے گزرتا ہے۔ کچھ لوگوں کے پا س کوئی چیز پائی نہیں جاتی اور اس کو حاصل کرنے کے لئے وہ بے چین رہتے ہیں۔ یہ تمام احساسات ہر کوئی محسوس کرتا ہے اور یہ تمام اس کلچر کا بڑا حصہ ہیں۔
یہ پاپولر کلچر بالخصوص شہری علاقوں میں مرکوز ہے۔ چونکہ بڑے تعلیمی ادارے اور تکنیکی سہولیات بڑے شہروں میں بآسانی دستیاب ہوتی ہیں بالمقابل چھوٹے دیہاتوں کے اس لئے پاپولر کلچر شہروں سے شروع ہوتا ہے اور دیہاتوں اور چھوٹے شہروں تک پھیل جاتا ہے۔ اس بات میں کم ہی شبہ ہے کہ اس جدید دور میں بھی جغرافیائی فاصلوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی بنیاد پرپاپولر کلچر مختلف گروہوں کو تقسیم کرتا ہے۔ کسی کالے اور گورے کے مابین کوئی فرق نہیں ہوگا لیکن کسی کپمیوٹر کے جاننے والے اور کمپیوٹر سے ناواقف فرد کے مابین کافی فرق پائے جائیں گے۔
سوسائٹی میں یہ کس طرح تشکیل پاتا اور پھیلتا ہے؟
جن طریقوں سے پاپولر کلچر نوجوانوں اور معاشرے کے درمیان جگہ بناتا ہے وہ لامحدود ہیں لیکن مختصراً صرف دو اہم ذرائع پر ہم بات کریں گے۔ پہلا ہیرو (رول ماڈل)ہے اور دوسرا ٹی وی ، خبریں ، ای میڈیا یا پرنٹ میڈیا ۔
ہر مشہور شخص پاپولر کلچر پر اثرانداز ہوتا ہے وہ کس طرح کے لباس پہنتا ہے ، کس طرح اداکاری کرتا ہے ، کس طرح نظر آتا ہے ، کس سے اس نے شادی کی ہے ، یہاں تک کہ اس کے بچے کون ہیں، ان کی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں لوگ جانتے ہیں، کیونکہ کسی میگزین میں لوگوں نے اسے پڑھ لیا یا یہ خبر ، ٹی وی یا کسی دوسرے طریقے سے دیکھ لی۔
ہیروز یا فلمی اداکار پاپولر کلچر کو نوجوانوں تک پھیلانے کے لئے ذرائع ابلاغ کا ضروری حصہ ہیں۔ہر کسی کا ایک پسندیدہ ہیرو ہوتا ہے یا کم از کم ان ہیروز کے بارے میں اسے کوئی چیز پسند ہوتی ہے۔ ہیروز لوگوں کے لئے رول ماڈل ہوتے ہیں ، خاص طور سے نوجوانوں کے لئے ، جن کا وہ احترام کرتے ہیں۔ لیکن یہ اداکار یا ہیروز صرف سپرمین کی طرح روایتی قسم کے ہیروز نہیں ، بلکہ ڈیوڈ بیکہم ،، دلائی لامہ ، عامر خان ، مہاتما گاندھی ، اور اسی طرح کی طرح مشہورشخصیتیں بھی ہیں۔
نیوز میڈیاسائنسدانوں اوردانشوران کا کام عام لوگوں تک پہنچاتاہے ، اکثر ان چیزوں کو جن میں موثر اپیل یامتاثر کن کشش ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر ،جئینٹ پانڈا(giant pandas )پاپولر کلچر کی ایک معروف شئے بن چکی ہے ، جبکہ parasitic worms نہیں بن پائے۔ میک ڈونلڈ ، پزا ہٹ اور KFC کے بارے میں کون نہیں جانتاہے ؟ آپ ماحول دوست اشیاء کے بارے میںیا جن لوک پال کے متعلق بحث کیوں کرتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں بات کرناآج کل پاپولر ہے ۔
اورپاپولر کلچر کیسے پھیلتا ہے اور کیوں؟ اس کا کوئی واضح جواب نہیں ہے اگرچہ اس کے کئی جواب موجود ہیں۔یہ جان بوجھ کر یابنا سوچے سمجھے کیا جانے والا عمل ہوسکتا ہے ، بزنس پر مبنی یا نظریے پر مبنی کوئی تھیوری ہوسکتی ہے ، طاقت یا تحفظ کا کھیل ہوسکتا ہے ۔ اس کے پیچھے کئی دلائل دیئے جاسکتے ہیں مختصر اً یہ کہ یہ سماج کے اجتماعی فہم پر انحصار کرتاہے کہ وہ اپنی اگلی نسل کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔
آج کے دور میں اس کلچر کی اہم خصوصیات
کلچر کی طرح ، پاپولر کلچرکی بھی چند خصوصیات ہیں۔ پاپولر کلچر سیکھا جاتا ہے ، اور اسے وضع کیاجاتا ہے۔ہم یہاں بجائے تفصیل کے اس کو آسان انداز میں پیش کرتے ہیں۔
1۔ تبدیلی ہی مستقل ہے۔ ۔۔تیزرفتار اور مختلف ذرائع ابلاغ کے اثرات کی بنا پرپاپولر کلچروقت کی ایک قلیل مدت کے اندر اندر بنتا بھی ہے اور ختم بھی ہوجاتا ہے۔ آپ جینس کی ایک مخصوص قسم آج پہن رہے ہوں گے اور کل یہ مختلف ہوگی۔ تبدیلیاں کافی تیز رفتار ہیں اور انسان مجبوراً انھیں اختیار کرلیتا ہے۔
2۔ بے صبری ہی صبر ہے ۔۔۔ اگر ہم پاپولر کلچر کا تجزیہ کریں تب ہم پائیں گے کہ یہ بیتاب ہوتا ہے۔ یہ اپنے پیروکاروں کو بے صبرا بناتا ہے۔ مثال کے طور پر براڈبینڈ انٹرنیٹ کنکشن آج کل پاپولر ہے اور اگر کہیں ہم سست رفتار ڈائل اپ دیکھیں تو ہمارا رد عمل کیا ہوگا؟یہ نیا کلچر بے صبراہے ، یہ زیادہ دیر تک انتظار نہیں کرسکتا ہے۔اس کی بہترین مثال فیس بک پر اپ لوڈ کئے جانے والے اسٹیٹس اپ ڈیٹ یا فوٹو اپ لوڈ ہیں ۔ فوری طور پر ہم توقع کرتے ہیں کہ کتنے Commentsیا Likesاس پوسٹ کے لئے آئے ہیں۔
3. تخلیقیت مقصد ہے ۔۔۔نوویشن کسی بھی کلچر کی بقا کے لئے اہم ہے۔پاپولر کلچر اپنے آپ کو مستقل تبدیل کرتا رہتا ہے تاکہ اپنے چاہنے والوں کو مسحور کرتا رہے۔ مثال کے طور پر ، عامر خان کی مختلف فلموں میں بالوں کا اسٹائل۔۔۔!
4 ۔تفریح میں سنجیدگی، سنجیدگی میں تفریح۔۔پاپولر کلچر سے ہم جن بنیادوں پر شکایت کرتے ہیں ان میں ایک اہم یہ ہے کہ وہ ہر چیز میں تفریح اور مزہ دیکھ لیتے ہیں۔ میں نے اپنے دفتر میں مشاہدہ کیا کہ جب لوگ کسی بھی واقعہ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان کی توجہ کا پہلو یہ نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر اہم تھا یا اس سے کیا مدد حاصل ہوئی بلکہ یہ کہ اس میں کیا مزہ حاصل ہوا۔مسئلہ یہ نہیں کہ لوگ پر معنی پیغامات سے بھی تفریح کا پہلو اخذ کرتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ اس کے تفریحی پہلو پر ہی توجہ دی جائے اور بقیہ کو نظرانداز کردیا جائے۔
5۔ موبائل اور انٹرنیٹ ہی اصل دنیا ہے۔۔اگرچہ کہ موبائل اور انٹرنیٹ کلچر کو پھیلانے کا ذریعہ ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ پاپولر کلچر کی خاصیت بن گئے ہیں۔ کیوں؟ تیزرفتار انٹرنیٹ اور سب سے نیا موبائل رکھنا اب ایک فیشن بن گیا ہے۔. لوگ اپنے والدین یا بڑوں کے بالقابل گوگل سے زیادہ سوالات کرنے لگے ہیں۔۔!کسی نے سچ ہی کہا “گوگل نوجوان نسل کا سرپرست ہے”
6۔سماجی تعلقات رکھنا بہترین عمل ہے۔۔ میں نے چند دن قبل ہی فیس بک میں شمولیت اختیار کی۔ اس سے قبل ، جب بھی میں نے اپنے ساتھیوں سے کہاکہ میں سوشل میڈیا سے غائب ہوں انہوں نے سوچا میں مذاق کر رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر موجودرہنا آج سب سے زیادہ پاپولر چیز ہے۔ اس نے بڑی تیزی سے ہمارے نوجوانوں کی سوچ کو تبدیل کر دیا۔ یہ ان کے دماغ اور روح کی تشکیل کررہا ہے۔ انہوں نے اپنے ارد گرد ایک مجازی دنیا پیدا کر لی ہے۔ ان کی زندگی سنہری پنجروں کی طرح ہوتی جا رہی ہے۔اسی کے ساتھ سوشل میڈیا کا استعمال خیالات ، انقلابات ، کاروباروغیرہ کی بڑے پیمانے پر تبلیغ کے لیے بھی کیا جارہا ہے۔ عرب انقلابات میں فیس بک کا کردار کون نہیں جانتا۔۔!!
7۔مختلف ایام منانا ۔۔ مختلف قسم کے ایام منانا آج کل پاپولر بن گیا ہے ۔ ویلینٹائن ڈے،روز ڈے، مدر ڈے، فادر ڈے، ۔۔۔فہرست لامتناہی ہے۔کسی مقصد کے لئے یا پھرمحض تجارتی فوائد کے لئے ان کو فروغ دیا جاتا ہے۔وجہ کچھ بھی ہو، لوگ کچھ نہ کچھ جشن منانا چاہتے ہیں۔
پاپولر کلچر کے مثبت پہلو
پاپولر کلچر کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم سوچتے ہیں کہ یہ ناقابل برداشت ہورہا ہے۔اگرچہ اس کے نوجوان نسل پر بہت بڑے اثراتہیں، پرانی نسل اب بھی ان کے ساتھ شامل ہونے کے لئے جدوجہدمیں لگی ہوئی ہے۔ لیکن جلد یا بدیرانہیں ایسا کرنا پڑتا ہے بصورت دیگر وہ تقریبا ہر چیزجیسے ریلوے بکنگ ، فضائی ٹکٹ بکنگ سے لے کربینک کے لین دین تک میں پیچھے رہ جائیں گے۔جب ہم پاپولر کلچر کو غیر جانبدارانداز میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تب ہم آسانی سے نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں :
1۔یہ جرأت مند ہے ۔۔ اگرچہ پاپولر کلچر بہت متحرک ہے ، ساتھ ہی یہ جرأت مند ہے چونکہ اس کے پیروکاروں میں زیادہ تر نوجوان ہیں۔ دلیری کی کمی کی وجہ سے ان کی گزشتہ نسلوں نے جس کا خواب نہیں دیکھاتھا، لوگ ایسے اقدامات اٹھانے میں ججھک کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ایک بار پاپولر کلچرکو سماجی رنگ دیا جائے اوراسے متحرک کیاجائے تو اسکا عظیم مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عرب انقلابات کے دوران اس میں سرگرم لوگوں کی زیادہ تر تعداد دراصل پاپولر کلچر کی ہی پروردہ تھی۔ ان حالات کا چند دہائیوں قبل سوچنا بھی دشوار کام تھا۔
2۔کمال کی تلاش ۔۔ مسابقتی دور کی بنا پر ، پاپولر کلچر خود چاہتا ہے کہ اس کے پیروکار اپنے میدانوں میں ماہر بنیں۔ اس کی مثال مختلف اشہارات ہیں جو دکھائی دیتے ہیں۔دوسروں سے بہتر اور منفرد نظر آنے کی چاہت موجودہ پاپولر کلچر کا ایک لازمی حصہ بنتا جا رہا ہے۔
3. روح میں سکون و اطمینان ۔۔ عیش و آرام میں سکون کی تلاش قابل فہم ہے ، کیونکہ اسکا پاپولر کلچروں کے تمام ذرائع کی جانب سے کیا جاتاہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاپولر کلچر کے پیروکاروں میں دماغ کے اس سکون کے مقابلے میں روح میں سکون کی زیادہ تلاش پائی جاتی ہے۔ کلچر کے بہت زیادہ متحرک ہونے کی، لوگوں کو روح کے سکون کی تلاش ہوتی ہے۔ چونکہ دنیا میں عیش و آرام عارضی ہے اسلئے بالآخر لوگوں کو امن اور اطمینان کے لئے اپنے اندرو ن کا رخ کرنا ہوتا ہے۔اس رجحان کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اگرہم اپنے آس پاس پائے جانے والے مختلف باباؤں کو دیکھیں۔
4. منفرد اور بہادر بنئے۔۔ پاپولر کلچر کے پیروکاروں میں ایک اور مثبت پہلوان کی منفرداور جرأت مندانہ کوششیں ہیں جس سے وہ دوسروں سے مختلف نظر آتے ہیں۔وہ اپنے دل کی خواہشات کی تکمیل میں یقین رکھتے ہیں (جو کچھ بھی ان کو پسند آجائے) اورضرورت ہو تو ایورسٹ پہاڑ پرچڑھنے میں بھی نہیں ہچکچاتے۔
پاپولر کلچر کے منفی پہلو
چونکہ ہم ایک نظریاتی تنظیم سے ہیں (کم از کم دوسروں کے مقابلے میں معاشرے کے لئے ہمارے یہاں مزید کچھ احساسات پائے جاتے ہیں) ، اس لئے ہمیں گہرائی سے اس کا مطالعہ اورتجزیہ کرنا ہوگا۔میرے خیال میںآج کے پاپولر کلچر میں مندرجہ ذیل منفی پہلو پائے جاتے ہیں۔
1. اصولوں کی کمی ۔۔ موجودہ پاپولر کلچر مادہ پرستی کے علاوہ کوئی بھی نظریاتی پس منظر نہیں رکھتاہے۔ اس میں واضح طور پر مناسب اصولوں کا فقدان ہے جو عام طور پر معاشروں کی تعمیر کرتے ہیں۔پاپولر کلچر کے پیروکار یہ نہیں جانتے اور نہیں جاننا چاہتے کہ اخلاقیات کسے کہتے ہیں، مذہب کیا کہتا ہے، سماج کیا کہتا ہے، کیونکہ انھیں اس کی زیادہ پرواہ نہیں ہے ۔وہ کلچر صحیح ہے یا غلط اس سے قطع نظراس پر عمل کیا جا رہا ہے۔اصولوں کی اس کمی کی وجہ صرف پاپولر کلچرنہیں بلکہ یہ رجحان اب عالمی ہے۔
2۔ منظم ارتقاء کی کمی ۔۔ پاپولر کلچرمیں واضح طور پر منظم ارتقاء کے عمل کا فقدان ہے۔ اس کامطلب ہے اصولوں کی کمی پیش رفت کے لئے صحیح راہ نہیں سجھاتی۔ ہوسکتا ہے کہ ٹیکنالوجی کومنظم طریقہ میں بڑھایا گیا ہو لیکن پاپولر کلچرکو نہیں۔یہ اچانک ہے ، بے صبرا ہے اور کچھ ہی دیرمیں یکسر بدل سکتا ہے۔
3 ۔ ناپائیدار اور غیر حقیقی۔۔ پاپولر کلچر کا گلیمربجائے اصولوں یا اندرونی دنیا کے انسان کے بیرونی دنیا پر پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے۔ عارضی خوشی مستقل خوشی یا اطمینان کی ضمانت نہیں دے سکتی۔
معاشرے کی عمارت میں کلچر کا کردار
آئے معاشرے کی تعمیرمیں کلچر کے کردار کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ دراصل معاشرے کی بیرونی شکل و صورت ہی کلچر ہے۔آج کل ہر کوئی کسی نہ کسی طرح پاپولر کلچر کا شکار ہے۔ بھارت کے کرکٹ میچ ، BMW کی نئی کار، فیراری 360 کار یا نیا G5 لیپ ٹاپ کی طرف کون متوجہ نہیں ہوتا ہے ۔یہ تمام باتیں آج ہمارے پاپولر کلچر کا حصہ ہیں۔آج کل سب جانتے ہیں کہ بگ باس پرکیاہو رہا ہے یا تو ٹی وی پر دیکھ کر یا اخبارات میں پڑ ھ کر، بنیادی طور پر آپ کو پاپولر کلچر سے بچنے کا کوئی راستہ کوشش کے باوجود نہیں ملتا۔
لوگ آج بھی اداکاروں یا باباؤں کی تلاش میں رہتے ہیں ، کیونکہ ہمیں کسی کی ضرورت ہے جس میں ہم بھروسہ کریں یا جن کی تعریف کریں۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ مصیبت کے وقت کوئی ہماری مدد کرسکے گا، انسانی ناکامیوں کے بغیر۔ کارٹونس بھی بچوں اور نوجوانوں کے لئے ہیروز ہوتے ہیں۔
انسانی بچے بھوک اور پیاس کی بنیادی ضروریات کے ساتھ دنیا میں آتے ہیں، لیکن ان کے اس رویے کی تشفی کے لئے درکار طریقوں سے ناواقف ہوتے ہیں ۔اس طرح وہ کسی بھی کلچرل علم کے بغیر ہوتے ہیں۔ انسانی نسل میں کمسن بچوں میں کلچر کو سیکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہوتی ہے۔ کسی بھی خاندان میں کسی عام بچے کو رکھا جا ئے تووہ اس کلچر کوسیکھتا ہے اور اسے اپنے کلچر کے طور پرقبول کرلیتا ہے ۔ ایک بچے سے بلوغت تک آدمی کا سفر، یہ تمام عمل پاپولر کلچرسے متاثر ہوتا ہے۔ اس طرح کلچر علم اور ٹیکنالوجی کے موجودہ دور میں نہ صرف تشکیل افراد بلکہ معاشروں کی تشکیل کی بڑی قوت ہے ۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے۔ ہر بچہ اپنی فطرت پہ (مسلمان) پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اسے نصرانی یا یہودی بنادیتے ہیں۔
منفی اثرات سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟
سب سے مشکل سوال یہ ہے کہ پاپولر کلچر کے منفی اثرات سے کیسے بچا جاسکتا ہے اور اس کے مثبت پہلوؤں سے کیسے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ جواب آسان ہے، ہمیں پاپولر کلچرکے اصل چلانے والے کا کردار نبھا نا ہوگا۔ ہمیں دانشوروں کا ایک ایسا بڑا گروپ چاہئے جو پاپولر کلچر کے ضمن میں ہماری راہنمائی کرے اورنئے خیالا ت پیش کرے۔ ہمیں میڈیا کی ضرورت ہے تاکہ ہم متاثر کرسکیں اور اس میدان میں داخل ہوسکیں۔ یہ سب غیر حقیقی لگتا ہے، ہے نا؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے سنہری دور میں، یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے انسانی سائنس اور ٹیکنالوجی کے تقریبا ہر میدان میں دنیا کو پاپولر کلچر دیا تھا۔ بنیادی سطح پر، مجھے لگتا ہے کہ ہم کم از کم ان چیزوں کو کر سکتے ہیں :
۱۔ نئے اصولوں کو فروغ دینے کے لئے اورپاپولر کلچر پر مثبت طریقیسے اثرانداز ہونے کے لئے غور و فکر۔
۲۔ مختلف عملی اقدامات کے ذریعہ اسلامی تعلیمات، اخلاق و اقدار، اور اللہ کا خوف لوگوں میں داخل کر نا اور اس کے لئے غور و فکر۔
* متبادل کلچرکی ضرورت ہے.اس متبادل کی تعمیر میں SIO کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟
آج کل کے پاپولر کلچر میں مختلف بڑی کمیاں ہیں اور اس کے اثرات نوجوانوں کے ذہنوں کو فاسد کر رہے ہیں۔ یہ ایک انسانی وجودکو محض ایک مادی وجود میں تبدیل کررہا ہے جس کا مادی فوائد کے لئے استحصال کیا جاسکتا ہے اور اللہ تعالی کی قربت سے انسانیت کودور لے جارہا ہے۔ یہ ضرور ہوگا چونکہ اس کلچر کے کرتا دھرتا خدا سے ڈرنے والے لوگ نہیں،وہ مسلمان نہیں ہیں۔اگر ہم اپنی اگلی نسل کو اسلام کاسچا پیرو بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں پاپولر کلچر کے اقدامات کے ذریعہان اسلامی اصولوں یا تعلیمات کو متعارف کرانے کے انتظامات کے بارے میں سوچنا ہوگا۔میرے خیال میں،بحیثیت ایک فرد، والدین یا ایک تنظیم کے طور پر کم از کم ان چیزوں کے ساتھ شروعات کی جاسکتی ہے۔
1. تازہ ترین پاپولر کلچر، آلات اور ٹیکنالوجی سے واقفیت۔
2. پاپولر کلچر کے ان اوزار سے واقفیت جن کاہماریمقاصدکے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے، ان کو تلاشکیا جائے۔ اس کے لئے عظیم دماغوں کی ضرورت ہے۔
3.ان آلات یا معلومات کو ہٹایا جائے جس سے دماغ پر منفی اثرات ہوتے ہیں۔
4. نوجوانوں کی زندگیوں کو ‘مشن’ فراہم کیا جائے ، جس کے نتیجے میں انہیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
5. کلچر کی بنیاد کے طور پر ‘علم’ کو فروغ دینا۔ اس طرح، ہم اسلام کا صحیح علم قرآن اور حدیث کے ذریعے دے سکتے ہیں۔
اختتام
اسلام ذاتی عبادت تک محدود نہیں ہے، یہ زندگی گزارنے کے طریقہ کا نام ہے۔ یہ انسانی زندگی سے متعلق تمام خصوصیات اور جہتوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے پیروکار کے طور پر ہمیں سمجھنا ہوگا او ر ہمارے ارد گرد کے ماحول میں اس بات کو پھیلانا ہوگا۔کلچر ہو یا سائنس، ارضیات یا جغرافیہ چاہے جو بھی میدان ہو ،ہمیں ہماری نسلوں کو بلندیوں تک پہنچانا ہے جسکااللہ تعالی کی طرف سے وعدہ کیاگیا ہے؛
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم و پائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں۔(سورہ نور :55).
اگر ہم اپنی پوری کوشش پاپولر کلچر کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے میں لگاتے ہیں ،اس سے نہ صرف ہماری نسل کو اسلام کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدددملے گی بلکہ ساتھ ہی ساری انسانیت کے لئے مفید ثابت ہوگا۔ وکی پیڈیاسے ذیل کا اقتباس اس بحث کے اختتام کے لئے انتہائی موزوں ہے:
’’اسلامی گولڈن ایج کے دوران (750 عیسوی ۔۔ 1258 عیسوی) اسلامی دنیا کے فلسفیوں، سائنسدانوں اور انجینئرز نے ٹیکنالوجی اور کلچر کے لئے بہت زیادہ خدمات انجام دیں۔ پچھلی روایات کے تحفظ اور ا ن میں اپنی جانب سے نئی دریافتوں کو شامل کرتے ہوئے۔ سائنسی اور دانشورانہ کامیابیوں میں اس دور میں بہت نکھا ر آیا‘‘۔
فیروز پٹیل ۔ ممبئی

بہ شکرءیہ رفیق منزل