نسوانیت کا استحصال
تحریر: غلام علی گلزار
8 مارچ کو کئی دہائیوں سے دنیا کے بیشتر ممالک میں ”خواتین کا بین الا قوامی دن“ منایا جاتا ہے، یہ خوش آیند بات ہے کہ چند برس سے متعدد مشرقی ممالک میں عورت کے مثبت رول کے حوالہ سے اس یوم کا انعقاد کیا جانے لگا ہے، اگرچہ اس کو متعارف کرنے کی تحریک میں زیادہ تر وہی حلقے پیش پیش رہ چکے ہیں، جنہوں نے ”نسوانیت“ کا استحصال کر رکھا ہے، ذیل میں اُنیسویں صدی عیسوی کے اواخر سے سرمایہ دارانہ نظریہ کے حامل اداروں کی طرف سے اس سمت میں مذموم رول کی اجمالی نشان دہی کی جاتی ہے، جس کے ذریعے انہوں نے خاتوں کی اصلیت و افادیت کو مادّی منفعت کی بھینٹ چڑھا کر رکھا ہے اور اسطرح نسوانی ماہیت کا استحصال کیا ہے، جس کے نتیجہ میں عورت "عافیت و آبرو" کے مقام سے گِر کر ذلّت و خطرات کی منزل تک پہنچ چکی ہے۔
تاریخی جائزہ:
یورپی مفکرین اور سیاست دان اسلام کے بارے میں ایک مبہم تصور کے حامل تھے، انہوں نے اپنے سماج میں انیسویں صدی کے دوران پرانی روایات کے اندر اصلاح کی غرض سے چند تبدیلیاں لانے کی کوشش کی، اس سلسلے میں انہوں نے مسلمانوں میں بعض سطحی طور پر پائی جانے والی باتوں کو اچھال کر اسلام کے متعلق غلط تائثر پیش کیا، لیکن اُن کی صفوں میں چند ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے اسلام کے اعلٰی اصولوں کے بارے میں جانکاری حاصل کی تھی، خصوصاً خواتین کے حقوق اور انکے اختیارات کے بارے میں، اس لئے ان خطرات سے اپنے معاشرہ کو آگاہ کرنے کی کوشش کی جو اسلام کے حوالے سے مذکورہ غلط تائثر کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتے تھے۔ اس دور کے متعلقہ مکار سیاست کاروں کو بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ اگر مسلمان اسلام کی سماجی خوبیوں کو قول و فعل کی ہم آہنگی کے ساتھ اپنائیں، اُس کے مثبت اثر و نفوذ کی چھاپ پورے انسانی معاشرہ پر پڑ سکتی ہے، کیونکہ ایسا تائثر دنیا کو اُن محرکات کے حوالے سے متوجہ و مربوط کر سکتا ہے، جن کی رُو سے اس دور میں مغربی معاشرہ فرسودگی سے نکلنے کے لئے آب و تاب کے ساتھ متمنّی تھا۔
یورپ کی سطح پر عورت ایک گڑیا کی طرح رہ گئی تھی، بلکہ مبالغہ نہ ہو گا اگر کہا جائے کہ سماج میں وہ ایک غلام کی طرح تھی، کئی تحریکیں اس کو اپنے شوہر کی غلامی اور اُس ماحول میں اُسکی پسماندہ صورتحال سے نکالنے کے لئے شروع کی گئیں، چنانچہ ایک یورپی مفکر ڈاکٹر شیگان (بہ حوالہ مسلم میڈیا،بواسطہ کریسنٹ انٹر نیشنل وسط 1948ء) نے مذکورہ سِمت میں بعض مغربی ممالک کے اندر، اُٹھائے گئے چند اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے اُس رحجان پر افسوس کا اظہار کیا ہے جو مذکورہ تحاریک کے نفوذ میں کارفرما رہا، چنانچہ انکا کہنا تھا کہ، ”اس قسم کی آزادی اور اختیار مسلم خواتین کو چند شرائط کے ساتھ پہلے ہی حاصل ہے لیکن جس طریقہ سے اس کا نفاذ، اصلاحی تحاریک کی مناسبت سے یورپ میں کیا جا رہا تھا اس کا قطعی نتیجہ عورت کی نسوانیت کے استحصال کے سِوا کچھ نہ ہو سکتا تھا“ حالانکہ برطانیہ میں اس حوالے سے جو قوانین1870ء اور 1882ء کے دوران نافذ کئے گئے، ان میں اہم حصہ سرمایہ دار طبقہ نے ادا کیا تھا۔
متعلقہ ”اعلامیہ“ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ عورتوں کو آزادی کے ساتھ کارخانوں، ملوں اور دفتروں میں جا کے پیسہ کمانا چاہئے اور جس طرح وہ چاہیں صرف کریں، اس میں شوہروں کی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سماج میں کثرت سے خواتین کارخانوں اور بازاروں میں کام کرنے لگیں، جس کا سب سے زیادہ نفع سرمایہ دار طبقہ نے کمایا، اسی طرح اٹلی میں 1919ء تک عورت شوہر کی نوکرانی کی طرح ہوتی تھی۔ تقریباً یہی حالات جرمنی میں بھی 19 ویں صدی کے آواخر تک تھے، البتہ سویڈن میں یہ حالت1907ء تک رہی، جبکہ فرانس میں 1939ء تک اس قسم کی پائی جانے والی صورتحال میں تبدیلیاں رونما نہ ہوئیں، چنانچہ مذکورہ تبدیلیوں کے بعد خواتین زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ٹوہ میں رہیں، اکثر یورپی ممالک کے اندر سرعت کے ساتھ شرم و حیا اور مہرو وفا کے اقدار روزافزوں ماند پڑتے گئے۔
پہلے گھروں میں جو خلوت گزینی اور امن و آشتی کا ماحول دیکھنے کو ملتا تھا وہ افراد خانہ خصوصاً میاں بیوی کے درمیان محبت اور کشش کو بڑھاوا دینے کا باعث ہوتا تھا جس کے اثر سے شوہروں کے اندر شام کو دیر تک آوارہ گردی میں گھومتے رہنے کی بجائے جلدی گھر پہنچ جانے کی لگن جلا پاتی تھی، لیکن یہ آہستہ آہستہ ماضی کی داستان رہ گئی، دوسری جانب تبدیل پذیر ماحول میں، کرایہ کی خواتین، نائٹ کلبوں میں مردوں کے لئے مصنوعی مسکراہٹوں اور راحتوں کا اہتمام مہیا رکھتی تھیں، جس کا روح اور وجدان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا، ان حالات میں ایک کام کرنے والی خاتوں کے لئے یہ ناگزیر بنتا گیا کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کی جانب توجہ سے دامن چھڑائے یا جی چرائے، اس کا بیشتر کمایا ہوا مال میک اپ اور بدلتے فیشنوں کے بڑھتے رحجانات کا شکار ہو جاتا تھا، پہلے تو عموماً یہ صورتحال تھی کہ عورت اپنے شوہر یا قبیحہ بندھنوں کی سینہ زوری کی شکار تھی، لیکن اب ”نئے نظام“ کی زور زبردستی کی چکی میں اُن کی نسوانیت پستی رہی، زنا بالجبر، خودکشی، قتل و اغوا اور دیگر قسم کی اذیتیں عام نوعیت کی جھلکیاں ہیں، جو دوسرے نفسیاتی امراض کے علاوہ ”کنبہ“ اور ”خانوادگی“ کی مرکزیت کو تباہ کرتی رہی۔
شادی اور گھرانہ کے بارے میں مغربی ماحول اوائل بیسویں صدی عیسوی سے عموماً گھناونی اور تخریبی صورتحال پیش کرتا رہا ہے، شہری مراکز میں روز افزوں اُن (غیر قانونی) جوڑوں کی بڑھتی جا رہی بھیڑ ہوتی ہے، جن میں جوان بھی ہوتے ہیں اور اوسط عمر کے مرد و خواتین بھی، تاکہ وہ شادی کی رجسٹریشن کرائیں۔ ان میں اکثریت ایسے جوڑوں کی ہوتی ہے جن کے لئے شادی کا اشتیاق اور ایک دوسرے کی قُربت کا جذبہ تازہ نہیں ہوا کرتا ہے، کیونکہ برسوں تک آپس میں جنسی تعلقات کا مادّی جذبہ، روحانی تقدس، احساس ذمہ داری اور نکاح کے ثوابی تصور کی عدم موجودگی میں محبت کی گرمجوشی کا حامل نظر نہیں آتا ہے، زیادہ تر جوڑے چرچ میں رسم نکاح پورا کرنے کی بجائے حکومت کے میسر کردہ سٹی سنٹروں میں رجسٹریشن کو ترجیح دیتے ہیں، (سٹی سنٹروں کے سہولیت حکومت نے مہیا کر رکھی ہوتی ہے)۔
چنانچہ رجسٹریشن کے بعد کئی برسوں تک عموماً (شادی شدہ/رسم شادی سے فراغت پانے والے جوڑے) بچہ کی تولید نہیں چاہتے ہیں، جب اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے یا کنبہ والی زندگی کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے اس وقت خاصی تعداد جوانی کی حدوں کو پار چکے ہوتے ہیں، اس طرح بچوں کی صحت مند اور تعمیری تربیت و پرورش کی خاطر مہر و جذبہ، حرکت و ولولہ نہیں پایا جاتا ہے جو اُن کو فیملی لائف سے جڑا رکھنے کا باعث بن جاتا! عموماً ننھے بچوں کے لئے اطفال کی پرورش گاہوں (Creches) میں پال پوس کا اہتمام کیا جاتا ہے، یہ بچے ماں کی آغوش کی ممتائی آہٹوں کی لوریوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
مذکورہ مجموعی مغربی ماحول کے مقابلے میں جب ہم مشرقی معاشرتی ماحول کا مشاہدہ کرتے ہیں، عام طور پر دو قسم کے لوگ دکھائی دیتے ہیں، ایک وہ جو مغربی طرز زندگی سے مختلف تو ہیں لیکن کئی پہلوﺅں سے قابل مذمت طریقہ کار اپنا رکھا ہے، نیز ایسے لوگوں کا حلقہ اُبھر چکا ہے جو مغرب کے بڑھتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی نفوذ کے تحت موہومیت کی صورتحال میں ہو بہو مغربی معاشرہ کی نقالی کرتے ہیں حالانکہ یہ براہ راست اپنے اخلاقی و تمدنی اقدار میں خود اعتمادی نہ ہونے (مشرق کے) اقتصادی نظاموں کی ناکامی اور کمزور سیاسی حکمت عملی کے نتائج ہیں، جس نے یہاں گروہی طبقاتی اور مذہبی تعصب اور توہمات کی وجہ سے سر اٹھا رکھا ہے۔
اکثر مشرقی اقوام کے اندر شادی بیاہ کے رسوم میں اسراف و تبذیر کا شدید مظاہرہ ہوتا ہے، کبھی کبھی اس طرح کی مجالس کو سماجی یا سیاسی دبدبہ کے مظاہرہ میں تبدیل کیا جاتا ہے، متعدد حلقوں/علاقوں میں نجومی علامات و اوقات سے جڑے اثرات کے خوف و توہم سے سرگرمئی حیات کو مفقود و محدود رکھا جاتا ہے جس سے متعلقہ لوگوں کے اندر امتزاجی اور نفسیاتی قوتوں کے صحیح و مثبت استعمال کی جہت و جہد سرد پڑ جاتی ہے، اس سے انکی مثبت فکر اور تعمیراتی نظر کا جذبہ کمزور ہو جاتا ہے، مشرق میں لوگ عام طور پر ذات پات، قبیلہ بندی، لسانی طبقوں اور قومیاتی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان اتحاد کا اصلی و داخلی جذبہ نہیں پایا جاتا ہے، بلکہ نفرت، عدم رواداری اور خاندانی و قبائلی دبدبہ کے منفی جذبات پائے جاتے ہیں، کبھی وہ ایک دوسرے کو وقتی طور یا مصلحتاً برداشت کر لیتے ہیں، یہ ایسی نازک صورتحال ہے جو کبھی اور کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہے اور مغربی استعمار اس سے سُوء استفادہ کرتا ہے اور کر سکتا ہے!
سرمایہ دارانہ نظام سرعت کے ساتھ عالمی سطح پر مادیّت زدہ ذہنیت کے ساتھ نفاذ کر چکا ہے، ایک ایسے معاشرہ میں جہاں قریباً تمام سوچ پیداوار، سپلائی اور کھپت کے تناسب اور مادّی منفعت کے گرد گھومتی ہو، ایک خاتوں کی جبلت و حیثیت کی صحیح شناخت کا اندازہ ممکن نہیں، اس کی وفا کا تقدس، اطاعت کا اخلاص، رحم دلی کا جذبہ، شفقت کا سرمایہ، صبر کی اصالت اور شرم و حیا کی فطرت، نیز اس کی شخصیت سے مربوط صلاحیتوں سمیت دیگر نسوانی خصوصیات کو ایسے ماحول میں محسوس کرنا یا بارآور کرنا مشکل ہے، بلکہ ان کا نکھار و سُدھار نہایت مشکل ہے۔
افسوس ہے کہ مالی مفادات کے لئے، جنسی خواہشات کو برانگیختہ کر کے پُر کشش طرز اَدا کے ذریعے اُنکا استحصال کیا جاتا ہے، خواتین کی مذکورہ طبعی خصوصیات سے ناجایز فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے، چنانچہ عالمی سطح پر مادی منافع کے لئے مختلف حربے حتٰی کہ شرمناک ذرائع آزمانے کی لَت پڑی ہے، روحانی اور اخلاقی اقدار زندگی گزارنے کی واقعیت کے اسرار ناپید ہوتے جا رہے ہیں، حتٰی کہ واضح طور پر ایڈز کی بیماری کا پھیلاﺅ 37 فیصد جنسی بے راہ روی کا نتیجہ ہوتا ہے، پھر بھی عریانیت اور شہوانی نظاروں اور آوازوں کو حق شمار کر کے آڈیو وِژول (Audio Visual) اشتہارات کے ذریعے بھڑکاتے رہنے میں سرعت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
لواطہ(homosexuality) کو کئی امریکی اور یورپی ممالک میں آئینی حق دیا گیا ہے، جو واضح طور پر مجموعی و اصولی معنوں میں حقوق خواتین کے ساتھ خیانت ہے، ہمارے معاشرہ میں خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، شادی کے لئے نوکر پیشہ (employed) خواتین کو ”سیرت و صورت“ پر ترجیح دی جاتی ہے، بعض حلقوں میں مشاہدہ کے مطابق، لالچی مرد اور لالچی عورتیں نکاح کرنے اور طلاق لینے کو تجارت بنا چکے ہیں، ننھے بچے اس معاشرتی انحطاط کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں، نونہالوں کو فلموں کے ذریعے قتل، ڈاکہ زنی اور دیگر جرائم کی تربیت دی جا رہی ہے، الیکٹرانک میڈیا سے تخریبی نقالی کو ہوا ملتی جا رہی ہے، اس ماحول میں نفس انسانی زوال پذیر ہوتا ہے۔
8 مارچ کو کئی دہائیوں سے دنیا کے بیشتر ممالک میں ”خواتین کا بین الا قوامی دن“ منایا جاتا ہے، یہ خوش آیند بات ہے کہ چند برس سے متعدد مشرقی ممالک میں عورت کے مثبت رول کے حوالہ سے اس یوم کا انعقاد کیا جانے لگا ہے، اگرچہ اس کو متعارف کرنے کی تحریک میں زیادہ تر وہی حلقے پیش پیش رہ چکے ہیں، جنہوں نے ”نسوانیت“ کا استحصال کر رکھا ہے، ذیل میں اُنیسویں صدی عیسوی کے اواخر سے سرمایہ دارانہ نظریہ کے حامل اداروں کی طرف سے اس سمت میں مذموم رول کی اجمالی نشان دہی کی جاتی ہے، جس کے ذریعے انہوں نے خاتوں کی اصلیت و افادیت کو مادّی منفعت کی بھینٹ چڑھا کر رکھا ہے اور اسطرح نسوانی ماہیت کا استحصال کیا ہے، جس کے نتیجہ میں عورت "عافیت و آبرو" کے مقام سے گِر کر ذلّت و خطرات کی منزل تک پہنچ چکی ہے۔
تاریخی جائزہ:
یورپی مفکرین اور سیاست دان اسلام کے بارے میں ایک مبہم تصور کے حامل تھے، انہوں نے اپنے سماج میں انیسویں صدی کے دوران پرانی روایات کے اندر اصلاح کی غرض سے چند تبدیلیاں لانے کی کوشش کی، اس سلسلے میں انہوں نے مسلمانوں میں بعض سطحی طور پر پائی جانے والی باتوں کو اچھال کر اسلام کے متعلق غلط تائثر پیش کیا، لیکن اُن کی صفوں میں چند ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے اسلام کے اعلٰی اصولوں کے بارے میں جانکاری حاصل کی تھی، خصوصاً خواتین کے حقوق اور انکے اختیارات کے بارے میں، اس لئے ان خطرات سے اپنے معاشرہ کو آگاہ کرنے کی کوشش کی جو اسلام کے حوالے سے مذکورہ غلط تائثر کے نتیجہ میں پیدا ہو سکتے تھے۔ اس دور کے متعلقہ مکار سیاست کاروں کو بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ اگر مسلمان اسلام کی سماجی خوبیوں کو قول و فعل کی ہم آہنگی کے ساتھ اپنائیں، اُس کے مثبت اثر و نفوذ کی چھاپ پورے انسانی معاشرہ پر پڑ سکتی ہے، کیونکہ ایسا تائثر دنیا کو اُن محرکات کے حوالے سے متوجہ و مربوط کر سکتا ہے، جن کی رُو سے اس دور میں مغربی معاشرہ فرسودگی سے نکلنے کے لئے آب و تاب کے ساتھ متمنّی تھا۔
یورپ کی سطح پر عورت ایک گڑیا کی طرح رہ گئی تھی، بلکہ مبالغہ نہ ہو گا اگر کہا جائے کہ سماج میں وہ ایک غلام کی طرح تھی، کئی تحریکیں اس کو اپنے شوہر کی غلامی اور اُس ماحول میں اُسکی پسماندہ صورتحال سے نکالنے کے لئے شروع کی گئیں، چنانچہ ایک یورپی مفکر ڈاکٹر شیگان (بہ حوالہ مسلم میڈیا،بواسطہ کریسنٹ انٹر نیشنل وسط 1948ء) نے مذکورہ سِمت میں بعض مغربی ممالک کے اندر، اُٹھائے گئے چند اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے اُس رحجان پر افسوس کا اظہار کیا ہے جو مذکورہ تحاریک کے نفوذ میں کارفرما رہا، چنانچہ انکا کہنا تھا کہ، ”اس قسم کی آزادی اور اختیار مسلم خواتین کو چند شرائط کے ساتھ پہلے ہی حاصل ہے لیکن جس طریقہ سے اس کا نفاذ، اصلاحی تحاریک کی مناسبت سے یورپ میں کیا جا رہا تھا اس کا قطعی نتیجہ عورت کی نسوانیت کے استحصال کے سِوا کچھ نہ ہو سکتا تھا“ حالانکہ برطانیہ میں اس حوالے سے جو قوانین1870ء اور 1882ء کے دوران نافذ کئے گئے، ان میں اہم حصہ سرمایہ دار طبقہ نے ادا کیا تھا۔
متعلقہ ”اعلامیہ“ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ عورتوں کو آزادی کے ساتھ کارخانوں، ملوں اور دفتروں میں جا کے پیسہ کمانا چاہئے اور جس طرح وہ چاہیں صرف کریں، اس میں شوہروں کی کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہئے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سماج میں کثرت سے خواتین کارخانوں اور بازاروں میں کام کرنے لگیں، جس کا سب سے زیادہ نفع سرمایہ دار طبقہ نے کمایا، اسی طرح اٹلی میں 1919ء تک عورت شوہر کی نوکرانی کی طرح ہوتی تھی۔ تقریباً یہی حالات جرمنی میں بھی 19 ویں صدی کے آواخر تک تھے، البتہ سویڈن میں یہ حالت1907ء تک رہی، جبکہ فرانس میں 1939ء تک اس قسم کی پائی جانے والی صورتحال میں تبدیلیاں رونما نہ ہوئیں، چنانچہ مذکورہ تبدیلیوں کے بعد خواتین زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ٹوہ میں رہیں، اکثر یورپی ممالک کے اندر سرعت کے ساتھ شرم و حیا اور مہرو وفا کے اقدار روزافزوں ماند پڑتے گئے۔
پہلے گھروں میں جو خلوت گزینی اور امن و آشتی کا ماحول دیکھنے کو ملتا تھا وہ افراد خانہ خصوصاً میاں بیوی کے درمیان محبت اور کشش کو بڑھاوا دینے کا باعث ہوتا تھا جس کے اثر سے شوہروں کے اندر شام کو دیر تک آوارہ گردی میں گھومتے رہنے کی بجائے جلدی گھر پہنچ جانے کی لگن جلا پاتی تھی، لیکن یہ آہستہ آہستہ ماضی کی داستان رہ گئی، دوسری جانب تبدیل پذیر ماحول میں، کرایہ کی خواتین، نائٹ کلبوں میں مردوں کے لئے مصنوعی مسکراہٹوں اور راحتوں کا اہتمام مہیا رکھتی تھیں، جس کا روح اور وجدان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا، ان حالات میں ایک کام کرنے والی خاتوں کے لئے یہ ناگزیر بنتا گیا کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کی جانب توجہ سے دامن چھڑائے یا جی چرائے، اس کا بیشتر کمایا ہوا مال میک اپ اور بدلتے فیشنوں کے بڑھتے رحجانات کا شکار ہو جاتا تھا، پہلے تو عموماً یہ صورتحال تھی کہ عورت اپنے شوہر یا قبیحہ بندھنوں کی سینہ زوری کی شکار تھی، لیکن اب ”نئے نظام“ کی زور زبردستی کی چکی میں اُن کی نسوانیت پستی رہی، زنا بالجبر، خودکشی، قتل و اغوا اور دیگر قسم کی اذیتیں عام نوعیت کی جھلکیاں ہیں، جو دوسرے نفسیاتی امراض کے علاوہ ”کنبہ“ اور ”خانوادگی“ کی مرکزیت کو تباہ کرتی رہی۔
شادی اور گھرانہ کے بارے میں مغربی ماحول اوائل بیسویں صدی عیسوی سے عموماً گھناونی اور تخریبی صورتحال پیش کرتا رہا ہے، شہری مراکز میں روز افزوں اُن (غیر قانونی) جوڑوں کی بڑھتی جا رہی بھیڑ ہوتی ہے، جن میں جوان بھی ہوتے ہیں اور اوسط عمر کے مرد و خواتین بھی، تاکہ وہ شادی کی رجسٹریشن کرائیں۔ ان میں اکثریت ایسے جوڑوں کی ہوتی ہے جن کے لئے شادی کا اشتیاق اور ایک دوسرے کی قُربت کا جذبہ تازہ نہیں ہوا کرتا ہے، کیونکہ برسوں تک آپس میں جنسی تعلقات کا مادّی جذبہ، روحانی تقدس، احساس ذمہ داری اور نکاح کے ثوابی تصور کی عدم موجودگی میں محبت کی گرمجوشی کا حامل نظر نہیں آتا ہے، زیادہ تر جوڑے چرچ میں رسم نکاح پورا کرنے کی بجائے حکومت کے میسر کردہ سٹی سنٹروں میں رجسٹریشن کو ترجیح دیتے ہیں، (سٹی سنٹروں کے سہولیت حکومت نے مہیا کر رکھی ہوتی ہے)۔
چنانچہ رجسٹریشن کے بعد کئی برسوں تک عموماً (شادی شدہ/رسم شادی سے فراغت پانے والے جوڑے) بچہ کی تولید نہیں چاہتے ہیں، جب اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے یا کنبہ والی زندگی کا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے اس وقت خاصی تعداد جوانی کی حدوں کو پار چکے ہوتے ہیں، اس طرح بچوں کی صحت مند اور تعمیری تربیت و پرورش کی خاطر مہر و جذبہ، حرکت و ولولہ نہیں پایا جاتا ہے جو اُن کو فیملی لائف سے جڑا رکھنے کا باعث بن جاتا! عموماً ننھے بچوں کے لئے اطفال کی پرورش گاہوں (Creches) میں پال پوس کا اہتمام کیا جاتا ہے، یہ بچے ماں کی آغوش کی ممتائی آہٹوں کی لوریوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
مذکورہ مجموعی مغربی ماحول کے مقابلے میں جب ہم مشرقی معاشرتی ماحول کا مشاہدہ کرتے ہیں، عام طور پر دو قسم کے لوگ دکھائی دیتے ہیں، ایک وہ جو مغربی طرز زندگی سے مختلف تو ہیں لیکن کئی پہلوﺅں سے قابل مذمت طریقہ کار اپنا رکھا ہے، نیز ایسے لوگوں کا حلقہ اُبھر چکا ہے جو مغرب کے بڑھتے ہوئے سیاسی اور اقتصادی نفوذ کے تحت موہومیت کی صورتحال میں ہو بہو مغربی معاشرہ کی نقالی کرتے ہیں حالانکہ یہ براہ راست اپنے اخلاقی و تمدنی اقدار میں خود اعتمادی نہ ہونے (مشرق کے) اقتصادی نظاموں کی ناکامی اور کمزور سیاسی حکمت عملی کے نتائج ہیں، جس نے یہاں گروہی طبقاتی اور مذہبی تعصب اور توہمات کی وجہ سے سر اٹھا رکھا ہے۔
اکثر مشرقی اقوام کے اندر شادی بیاہ کے رسوم میں اسراف و تبذیر کا شدید مظاہرہ ہوتا ہے، کبھی کبھی اس طرح کی مجالس کو سماجی یا سیاسی دبدبہ کے مظاہرہ میں تبدیل کیا جاتا ہے، متعدد حلقوں/علاقوں میں نجومی علامات و اوقات سے جڑے اثرات کے خوف و توہم سے سرگرمئی حیات کو مفقود و محدود رکھا جاتا ہے جس سے متعلقہ لوگوں کے اندر امتزاجی اور نفسیاتی قوتوں کے صحیح و مثبت استعمال کی جہت و جہد سرد پڑ جاتی ہے، اس سے انکی مثبت فکر اور تعمیراتی نظر کا جذبہ کمزور ہو جاتا ہے، مشرق میں لوگ عام طور پر ذات پات، قبیلہ بندی، لسانی طبقوں اور قومیاتی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں، مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان اتحاد کا اصلی و داخلی جذبہ نہیں پایا جاتا ہے، بلکہ نفرت، عدم رواداری اور خاندانی و قبائلی دبدبہ کے منفی جذبات پائے جاتے ہیں، کبھی وہ ایک دوسرے کو وقتی طور یا مصلحتاً برداشت کر لیتے ہیں، یہ ایسی نازک صورتحال ہے جو کبھی اور کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی ہے اور مغربی استعمار اس سے سُوء استفادہ کرتا ہے اور کر سکتا ہے!
سرمایہ دارانہ نظام سرعت کے ساتھ عالمی سطح پر مادیّت زدہ ذہنیت کے ساتھ نفاذ کر چکا ہے، ایک ایسے معاشرہ میں جہاں قریباً تمام سوچ پیداوار، سپلائی اور کھپت کے تناسب اور مادّی منفعت کے گرد گھومتی ہو، ایک خاتوں کی جبلت و حیثیت کی صحیح شناخت کا اندازہ ممکن نہیں، اس کی وفا کا تقدس، اطاعت کا اخلاص، رحم دلی کا جذبہ، شفقت کا سرمایہ، صبر کی اصالت اور شرم و حیا کی فطرت، نیز اس کی شخصیت سے مربوط صلاحیتوں سمیت دیگر نسوانی خصوصیات کو ایسے ماحول میں محسوس کرنا یا بارآور کرنا مشکل ہے، بلکہ ان کا نکھار و سُدھار نہایت مشکل ہے۔
افسوس ہے کہ مالی مفادات کے لئے، جنسی خواہشات کو برانگیختہ کر کے پُر کشش طرز اَدا کے ذریعے اُنکا استحصال کیا جاتا ہے، خواتین کی مذکورہ طبعی خصوصیات سے ناجایز فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے، چنانچہ عالمی سطح پر مادی منافع کے لئے مختلف حربے حتٰی کہ شرمناک ذرائع آزمانے کی لَت پڑی ہے، روحانی اور اخلاقی اقدار زندگی گزارنے کی واقعیت کے اسرار ناپید ہوتے جا رہے ہیں، حتٰی کہ واضح طور پر ایڈز کی بیماری کا پھیلاﺅ 37 فیصد جنسی بے راہ روی کا نتیجہ ہوتا ہے، پھر بھی عریانیت اور شہوانی نظاروں اور آوازوں کو حق شمار کر کے آڈیو وِژول (Audio Visual) اشتہارات کے ذریعے بھڑکاتے رہنے میں سرعت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
لواطہ(homosexuality) کو کئی امریکی اور یورپی ممالک میں آئینی حق دیا گیا ہے، جو واضح طور پر مجموعی و اصولی معنوں میں حقوق خواتین کے ساتھ خیانت ہے، ہمارے معاشرہ میں خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے، شادی کے لئے نوکر پیشہ (employed) خواتین کو ”سیرت و صورت“ پر ترجیح دی جاتی ہے، بعض حلقوں میں مشاہدہ کے مطابق، لالچی مرد اور لالچی عورتیں نکاح کرنے اور طلاق لینے کو تجارت بنا چکے ہیں، ننھے بچے اس معاشرتی انحطاط کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں، نونہالوں کو فلموں کے ذریعے قتل، ڈاکہ زنی اور دیگر جرائم کی تربیت دی جا رہی ہے، الیکٹرانک میڈیا سے تخریبی نقالی کو ہوا ملتی جا رہی ہے، اس ماحول میں نفس انسانی زوال پذیر ہوتا ہے۔
س باب میں ہم اسلامی قانون و اخلاق کی رُو سے عورت کی حیثیت پر گفتگو کریں
گے تاکہ اس عظیم خاتون کی منزلت معلوم ہو جائے اور فی الوقت رائج حقوق
خواتین کی پامالیاں پتا چل سکیں۔ قرآن و حدیث(متفقہ) کی رُو سے عورت کی
حیثیت، اس کے حقوق اور فرائض کو درج ذیل نکات میں اجمالاً پیش کیا جا سکتا
ہے:
۱۔ جنّت ماں کے قدموں میں ہے۔
۲۔ ماں کے حقوق، باپ کے حقوق کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
۳۔ بیٹیوں کے ساتھ اچھے سلوک کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔ بیٹی کو نیکی اور رحمت قرار دیا گیا ہے۔
۴۔ ماں کی خدمت بہت سے گناہوں سے پاک کرتی ہے۔
۵۔ ماں اگرچہ غیر مسلم بھی ہو، اس کے ساتھ اچھا برتاو لازمی ہے۔
۶۔ بیوی سے متعلق حقوق اور ذمہ داریوں کو خاص فوقیت دی گئی ہے۔
۷۔ رسول اللہ کا برتاﺅ اپنی بیویوں کے ساتھ مثالی تھا۔
۸۔ نکاح کے سلسلے میں ایک عورت/لڑکی سے اس کی رضا مندی معلوم کر نا واجبی ہے۔ بروئے سنت
۹۔پیغام نکاح کا اقدام مرد(صاحب پسر) کی جانب سے عورت(صاحب دختر) کی طرف رُوبہ عمل لایا جا تا ہے۔
۱۰۔ ایجاب و قبول کے ساتھ مہر کا تعیّن اور اس کی ادائیگی واجب ہے۔
۱۱۔ لواطہ(Homosexuality) کر نے والے پر اللہ کہ لعنت ہے۔
۱۲۔ ایک سے زیادہ بیویاں ہونے پر، اُن کے درمیان مساوی برتاو اور انصاف ضروری ہے۔
۱۳۔ طلاق کو اسلام میں قبیح عمل سمجھا جاتا ہے (یعنی اس سے جس قدر ممکن ہو بچنا چاہئے)۔
۱۴۔ جو کچھ (مال) دلہن کو شادی کے موقع پر بشمول مہر دیا جائے وہ اس کی ملکیت ہے، اس کا واپس لینا حتیٰ کہ طلاق کی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔
۱۵۔ باپ اور شوہر کی حیثیت میں مرد پر اپنے اہل و عیال (بیوی، بچوں) کی کفالت و پرورش واجب ہے۔
۱۶۔ اگر اپنی بنیادی ذمہ داریوں کے علاوہ کوئی عورت (بیوی) فالتو وقت کے دوران کسی کام سے کچھ کماتی ہے، وہ اس کی اپنی جائیداد ہے۔
۱۷۔ رسول اکرم ص ان کے اصحاب اور آل (اہل بیت ع) کی سیرت میں بیویوں سے برتاو کی شاندار عکاسی ملتی ہے، وہ اُن کے گھریلو کام میں اُن کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
۱۸۔ بحیثیت بیوی شوہر کے تیئں، اور بحیثیت ماں بچوں کے تئیں، اُس کے حقوق و فرائض کے علاوہ گھریلو امور کے دوسرے مساعی، عورت کے حق میں مستحب امور قرار دئیے گئے ہیں، اس کے عوض اُس کے لئے جہاد کا ثواب لکھا جا تا ہے، اگر بچے کو جنم دیتے ہوئے کسی ماں کی موت واقع ہو جائے، اس کا انعام ایک شہید کے برابر ہے۔
۱۹۔ رسول اللہ نے اس شخص کے حق میں جنّت میں داخلہ کی بشارت دی ہے، جو شفقت کے ساتھ ایک بیٹی یا ایک بہن (یا زیادہ کی) پرورش کرے۔
۲۰۔ حدیث نبوی ص کی رُو سے اگر (تحفہ/کھانے کی) کوئی چیز گھر میں لاﺅ، بانٹنے کی پہل بیٹی/بیٹیوں سے کرو۔
۲۱۔ اسلام کی رُو سے حصول علم مسلم مردوں اور مسلم عورتوں پر فریضہ ہے۔
حدیث کی رُو سے تمام کتابوں میں بطریق شیعہ و سنی، عورت کی خصوصی حیثیت اور اس کے مخصوص حقوق کے بارے میں روایات موجود ہیں، مثال کے طور پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث رسول ص، بی بی عائشہ کی روایت سے ہے کہ فرمایا رسول اکرم ص نے کہ جس کسی مرد یا عورت پر بیٹیوں کی پرورش کی ذمہ داری آچکی ہے، اگر وہ مہربانی کے ساتھ اُن سے بر تاو کرے، وہ جہنم کی آگ سے اُس کے حق میں سپر ثابت ہو گی، کئی ذرایع سے من جملہ بخاری و مسلم ایک واقعہ حضرت نعمان بن بشیر کے متعلق نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم ص نے اُس کے حق میں اس کے والد کے ”ھبہ نامہ“ پر گواہ رہنے سے انکار کر دیا جس کے ذریعے، اُس کی والدہ کے اصرار پر، نعمان کے والد نے بیٹیوں کو نظر انداز کر کے اپنی جائیداد نعمان کے نام کر دی تھی۔ اس موقع پر رسول اکرم ص نے فرمایا، ”میں نا انصافی کے نوشتہ کا گواہ نہیں رہوں گا“۔
کتاب حدیث ”الکافی“ کے حوالہ سے حضرت امام جعفر صادق ع کی نقل کردہ حدیث رسول ص کی رُو سے، ایک مرد کے لئے ہدایت دی گئی ہے کہ کسی عورت سے نکاح کے وقت اس کو ان الفاظ میں اِعادہ کر نا چاہئے، کہ اُس نے اللہ کو حاضر و ناظر مان کر قسم کھائی ہے کہ وہ ہونے والی بیوی کے ساتھ مناسب برتاو کر ے گا، اور اگر طلاق کی نوبت ناگزیر ہو جائے، اُس صورت میں اِسکو مہربانی اور احسان کے ساتھ الگ کر دے گا“، یہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے کہ ایک شخص بیوی کو معطل حالت میں رکھے، نہ بسالے نہ طلاق دے!
قرآن سورۃ النساء کی آیت ۵۳ میں اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان (کسی) تضاد کو حل کر نے کے لئے ہدایات جاری فرمائی ہیں کہ ”ایک مُنصف کو مرد کے خاندان سے اور ایک کو عورت کے خاندان سے مقرر کر دو، اگر وہ دونوں معاہدہ صلح کرنا چاہیں، اللہ میاں بیوی کے درمیان تسلیم و آشنی کو فروغ دے گا، چنانچہ بعض شرائط کے ساتھ اسلام کے اندر دونوں مرد اور عورت کو حق طلاق (مرد کی طرف سے طلاق دینا عورت کی طرف سے خُلع حاصل کرنا) سے نوازا ہے۔ عورت کے لئے اسلام نے پردہ (حجاب) کو ضروری قرار دیا ہے اگرچہ اس کی شکل و طریقہ کے بارے میں ماحول، جغرافیہ اور قومیات کے مطابق اختلاف پایا جاتا ہے، البتہ قرآن و سنت کی رُو سے غالب نظریہ یہ ہے کہ عورت کے لئے بالوں اور جسم کو چھپانا وجوبی ہے، چہرہ کی گولائی اور کلائی سے نیچے ہاتھوں کو کھلا رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بعض حلقے آنکھوں اور اس کے ارد گرد کے کچھ حصہ کے کھلا رکھنے کی حد پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ پردہ کا بنیادی مقصد اس کے قواعد کی پیروی کر کے عصمت کی حفاظت ہے، اس سے خواتین کی نسبت احترام کا احساس بھی اُبھرتا ہے اور مردوں کے اندر ضبط کا احساس بھی نکھرتا ہے۔
اسلام میں ہو نے والے شوہر اور بیوی کا شریفانہ ماحول میں ایک بار ایک دوسرے کو دیکھنے، بات کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے، سیرت کو زیادہ مقدم قرار دے کر شادی کی حقیقی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ص ہے کہ جو شخص ظاہری خوبصورتی کی بنا پر کسی عورت سے شادی کر ے گا وہ اس میں اپنی محبوب چیز نہیں پا ئے گا، شادی (نکاح) کی تقریب/رخصتی وغیرہ سے پہلے میل جول کے (مغربی) طریقہ سے اکثر اچھے نتائج برآمد نہیں ہوتے ہیں اور نہ مذکورہ حدود کے علاوہ یہ جائز ہے، حدیث کی رُو سے خوبصورت اور نیک سیرت بیوی اللہ کی طرف سے نعمت ہے، نعمت کا شکریہ ہے کہ شوہر بیوی باہم محبت و مروّت، عفت و امانت کی پاسداری کے ساتھ رہیں، آج کل دنیا میں ہر سطح پر جو آزادانہ میل جول کی فضا قائم ہو تی جا رہی ہے، اس سے نوع انسانی کے لئے تباہ کن مسائل پیدا ہوئے ہیں جن کا علاج اشد ضروری ہے۔ ’’جاری ہے‘‘
۱۔ جنّت ماں کے قدموں میں ہے۔
۲۔ ماں کے حقوق، باپ کے حقوق کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
۳۔ بیٹیوں کے ساتھ اچھے سلوک کے بارے میں تاکید کی گئی ہے۔ بیٹی کو نیکی اور رحمت قرار دیا گیا ہے۔
۴۔ ماں کی خدمت بہت سے گناہوں سے پاک کرتی ہے۔
۵۔ ماں اگرچہ غیر مسلم بھی ہو، اس کے ساتھ اچھا برتاو لازمی ہے۔
۶۔ بیوی سے متعلق حقوق اور ذمہ داریوں کو خاص فوقیت دی گئی ہے۔
۷۔ رسول اللہ کا برتاﺅ اپنی بیویوں کے ساتھ مثالی تھا۔
۸۔ نکاح کے سلسلے میں ایک عورت/لڑکی سے اس کی رضا مندی معلوم کر نا واجبی ہے۔ بروئے سنت
۹۔پیغام نکاح کا اقدام مرد(صاحب پسر) کی جانب سے عورت(صاحب دختر) کی طرف رُوبہ عمل لایا جا تا ہے۔
۱۰۔ ایجاب و قبول کے ساتھ مہر کا تعیّن اور اس کی ادائیگی واجب ہے۔
۱۱۔ لواطہ(Homosexuality) کر نے والے پر اللہ کہ لعنت ہے۔
۱۲۔ ایک سے زیادہ بیویاں ہونے پر، اُن کے درمیان مساوی برتاو اور انصاف ضروری ہے۔
۱۳۔ طلاق کو اسلام میں قبیح عمل سمجھا جاتا ہے (یعنی اس سے جس قدر ممکن ہو بچنا چاہئے)۔
۱۴۔ جو کچھ (مال) دلہن کو شادی کے موقع پر بشمول مہر دیا جائے وہ اس کی ملکیت ہے، اس کا واپس لینا حتیٰ کہ طلاق کی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔
۱۵۔ باپ اور شوہر کی حیثیت میں مرد پر اپنے اہل و عیال (بیوی، بچوں) کی کفالت و پرورش واجب ہے۔
۱۶۔ اگر اپنی بنیادی ذمہ داریوں کے علاوہ کوئی عورت (بیوی) فالتو وقت کے دوران کسی کام سے کچھ کماتی ہے، وہ اس کی اپنی جائیداد ہے۔
۱۷۔ رسول اکرم ص ان کے اصحاب اور آل (اہل بیت ع) کی سیرت میں بیویوں سے برتاو کی شاندار عکاسی ملتی ہے، وہ اُن کے گھریلو کام میں اُن کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
۱۸۔ بحیثیت بیوی شوہر کے تیئں، اور بحیثیت ماں بچوں کے تئیں، اُس کے حقوق و فرائض کے علاوہ گھریلو امور کے دوسرے مساعی، عورت کے حق میں مستحب امور قرار دئیے گئے ہیں، اس کے عوض اُس کے لئے جہاد کا ثواب لکھا جا تا ہے، اگر بچے کو جنم دیتے ہوئے کسی ماں کی موت واقع ہو جائے، اس کا انعام ایک شہید کے برابر ہے۔
۱۹۔ رسول اللہ نے اس شخص کے حق میں جنّت میں داخلہ کی بشارت دی ہے، جو شفقت کے ساتھ ایک بیٹی یا ایک بہن (یا زیادہ کی) پرورش کرے۔
۲۰۔ حدیث نبوی ص کی رُو سے اگر (تحفہ/کھانے کی) کوئی چیز گھر میں لاﺅ، بانٹنے کی پہل بیٹی/بیٹیوں سے کرو۔
۲۱۔ اسلام کی رُو سے حصول علم مسلم مردوں اور مسلم عورتوں پر فریضہ ہے۔
حدیث کی رُو سے تمام کتابوں میں بطریق شیعہ و سنی، عورت کی خصوصی حیثیت اور اس کے مخصوص حقوق کے بارے میں روایات موجود ہیں، مثال کے طور پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث رسول ص، بی بی عائشہ کی روایت سے ہے کہ فرمایا رسول اکرم ص نے کہ جس کسی مرد یا عورت پر بیٹیوں کی پرورش کی ذمہ داری آچکی ہے، اگر وہ مہربانی کے ساتھ اُن سے بر تاو کرے، وہ جہنم کی آگ سے اُس کے حق میں سپر ثابت ہو گی، کئی ذرایع سے من جملہ بخاری و مسلم ایک واقعہ حضرت نعمان بن بشیر کے متعلق نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم ص نے اُس کے حق میں اس کے والد کے ”ھبہ نامہ“ پر گواہ رہنے سے انکار کر دیا جس کے ذریعے، اُس کی والدہ کے اصرار پر، نعمان کے والد نے بیٹیوں کو نظر انداز کر کے اپنی جائیداد نعمان کے نام کر دی تھی۔ اس موقع پر رسول اکرم ص نے فرمایا، ”میں نا انصافی کے نوشتہ کا گواہ نہیں رہوں گا“۔
کتاب حدیث ”الکافی“ کے حوالہ سے حضرت امام جعفر صادق ع کی نقل کردہ حدیث رسول ص کی رُو سے، ایک مرد کے لئے ہدایت دی گئی ہے کہ کسی عورت سے نکاح کے وقت اس کو ان الفاظ میں اِعادہ کر نا چاہئے، کہ اُس نے اللہ کو حاضر و ناظر مان کر قسم کھائی ہے کہ وہ ہونے والی بیوی کے ساتھ مناسب برتاو کر ے گا، اور اگر طلاق کی نوبت ناگزیر ہو جائے، اُس صورت میں اِسکو مہربانی اور احسان کے ساتھ الگ کر دے گا“، یہ کسی صورت میں جائز نہیں ہے کہ ایک شخص بیوی کو معطل حالت میں رکھے، نہ بسالے نہ طلاق دے!
قرآن سورۃ النساء کی آیت ۵۳ میں اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان (کسی) تضاد کو حل کر نے کے لئے ہدایات جاری فرمائی ہیں کہ ”ایک مُنصف کو مرد کے خاندان سے اور ایک کو عورت کے خاندان سے مقرر کر دو، اگر وہ دونوں معاہدہ صلح کرنا چاہیں، اللہ میاں بیوی کے درمیان تسلیم و آشنی کو فروغ دے گا، چنانچہ بعض شرائط کے ساتھ اسلام کے اندر دونوں مرد اور عورت کو حق طلاق (مرد کی طرف سے طلاق دینا عورت کی طرف سے خُلع حاصل کرنا) سے نوازا ہے۔ عورت کے لئے اسلام نے پردہ (حجاب) کو ضروری قرار دیا ہے اگرچہ اس کی شکل و طریقہ کے بارے میں ماحول، جغرافیہ اور قومیات کے مطابق اختلاف پایا جاتا ہے، البتہ قرآن و سنت کی رُو سے غالب نظریہ یہ ہے کہ عورت کے لئے بالوں اور جسم کو چھپانا وجوبی ہے، چہرہ کی گولائی اور کلائی سے نیچے ہاتھوں کو کھلا رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بعض حلقے آنکھوں اور اس کے ارد گرد کے کچھ حصہ کے کھلا رکھنے کی حد پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ پردہ کا بنیادی مقصد اس کے قواعد کی پیروی کر کے عصمت کی حفاظت ہے، اس سے خواتین کی نسبت احترام کا احساس بھی اُبھرتا ہے اور مردوں کے اندر ضبط کا احساس بھی نکھرتا ہے۔
اسلام میں ہو نے والے شوہر اور بیوی کا شریفانہ ماحول میں ایک بار ایک دوسرے کو دیکھنے، بات کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے، سیرت کو زیادہ مقدم قرار دے کر شادی کی حقیقی عظمت کو اجاگر کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ص ہے کہ جو شخص ظاہری خوبصورتی کی بنا پر کسی عورت سے شادی کر ے گا وہ اس میں اپنی محبوب چیز نہیں پا ئے گا، شادی (نکاح) کی تقریب/رخصتی وغیرہ سے پہلے میل جول کے (مغربی) طریقہ سے اکثر اچھے نتائج برآمد نہیں ہوتے ہیں اور نہ مذکورہ حدود کے علاوہ یہ جائز ہے، حدیث کی رُو سے خوبصورت اور نیک سیرت بیوی اللہ کی طرف سے نعمت ہے، نعمت کا شکریہ ہے کہ شوہر بیوی باہم محبت و مروّت، عفت و امانت کی پاسداری کے ساتھ رہیں، آج کل دنیا میں ہر سطح پر جو آزادانہ میل جول کی فضا قائم ہو تی جا رہی ہے، اس سے نوع انسانی کے لئے تباہ کن مسائل پیدا ہوئے ہیں جن کا علاج اشد ضروری ہے۔ ’’جاری ہے‘‘