Search This Blog

Monday 26 March 2012

’ترجیحات‘

تمہید

علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی (قطر) | ترجمہ: گل زادہ شیرپاؤ



آج کل ہمارے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ’ترجیحات‘ کا ہے۔ میں نے اپنی کئی کتابوں میں اس کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے پہلے میں اپنی کتابوں میں۔۔۔ خاص طور پر الصَّحوۃُ الاسلامیۃُ بینَ الجُحُودِ والتَّطرُّفِ میں۔۔۔ اسے ’مراتبِ اعمال کا مسئلہ‘ کہا کرتا تھا۔ اس سے میری مراد یہ تھی کہ احکامِ شریعت، قومی اَقدار اور اعمال میں سے ہر چیز کو پورے اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر رکھا جائے۔ اس ترتیب کا معیار اور اس کی بنیاد شریعت ہو۔ ان امور میں سے بعض کا ادراک نورِ وحی سے ہوتا ہے اور بعض کا نورِ عقل سے: نُوْرٌ عَلٰی نُوْرِ (النور:۳۵)
ان میں سے جو پہلے ہو اُسے پہلے درجے پر رکھا جائے اور جو بعد میں ہو اُسے بعد میں رکھا جائے۔ نہ غیراہم کو اہم پر مقدم کیا جائے اور نہ اہم کو اہم تر پر۔ اسی طرح مرجوع کو راجح سے پہلے نہ رکھا جائے اور مفضول کو فاضل یا افضل پر ترجیح نہ دی جائے۔
پوری باریک بینی کے ساتھ مقدم اسی چیز کو کیا جائے جو تقدیم کی مستحق ہو اور مؤخر بھی وہی ہو جو تاخیر کے قابل ہو۔ چھوٹی چیز کو بڑھا کر پیش نہ کیا جائے اور بڑی چیز کو چھوٹا کر کے نہ دکھایا جائے۔ بلکہ [قرآنی اصطلاح کے مطابق] قسطاسِ مستقیم کے ساتھ ہر چیز کو اپنے صحیح مقام پر رکھا جائے۔ اس میں کسی طرح کی کمی بیشی بالکل نہ کی جائے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالسَّمَآءَ رَفَعَہَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَo اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِo وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَo (الرحمن:۷۔۹)
’’اس نے آسمان کو بلند کیا اور میزان قائم کر دی۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔‘‘
اس کی بنیاد یہ ہے کہ اَقدار، اعمال اور ان کے احکام شریعت کی نظر میں بہت مختلف اور متفاوت ہوتے ہیں۔ ان ساری چیزوں کا ایک رتبہ نہیں ہوتا۔ ان میں سے کوئی چھوٹی ہوتی ہے کوئی بڑی۔ کوئی اصل ہوتی ہے کوئی فرع۔ کوئی رکن ہوتی ہے اور کوئی تکملہ۔ اسی طرح ان میں سے بعض چیزیں وہ ہوتی ہیں جن کا مقام متن میں ہوتا ہے اور بعض ایسی جو حاشیے میں رکھنے کے قابل ہوتی ہیں؛ ان میں سے کوئی اعلیٰ ہوتی ہے اور کوئی ادنیٰ، کوئی فاضل اور کوئی مفضول۔
یہ بات بھی نصوص سے واضح ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اﷲ پر، اور روزِ آخر پر، اور جس نے جاں فشانی کی اﷲ کی راہ میں؟ اﷲ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اﷲ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اﷲ کے نزدیک تو انہی لوگوں کا بڑا درجہ ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا، وہی کامیاب ہیں‘‘۔ (التوبہ: ۱۹۔۲۰)
اسی طرح رسولِ کریمﷺ فرماتے ہیں:
’’ایمان کے ۷۰ کے لگ بھگ شعبے ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ شعبہ لا الہ الا اﷲ ہے اور ادنیٰ یہ کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹایا جائے۔‘‘
صحابۂ کرامؓ اس بات کے بہت زیادہ شوقین رہتے تھے کہ وہ اعمال میں اعلیٰ اور ادنیٰ کو پہچانیں، تاکہ وہ اس سے تقرب الی اﷲ حاصل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے کئی مواقع پر یہ بات روایت کی گئی ہے کہ وہ اﷲ کے ہاں افضل الاعمال اور احب الاعمال کے بارے میں سوال کرتے تھے، جیسا کہ حضرت ابن مسعودؓ ، حضرت ابو ذرؓ اور دیگر صحابۂ کرام کے سوال اور نبیﷺ کی طرف سے ان کے جواب سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی بنا پر احادیث میں اس چیز کا بہت ذکر آتا ہے کہ اﷲ کے ہاں افضل الاعمال یہ ہے اور اس کے ہاں احب الاعمال یہ ہے۔
’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ تم ایسی حالت میں صدقہ دو جب تم صحت مند اور تندرست ہو، تجھے غریبی کا خوف بھی ہو اور مال داری کی امید بھی‘‘۔ ’’بہترین جہاد یہ ہے کہ جابر امام یعنی حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہا جائے‘‘۔ ’’اللہ کے ہاں محبوب ترین عمل وہ ہوتا ہے جسے ہمیشہ کیا جائے، خواہ وہ کم ہی ہو‘‘۔ ’’تمہاری بہترین دین داری وہ ہے جس میں آسانی ہو‘‘ وغیرہ۔
یہاں ہم اس حدیث پر اکتفا کریں گے:
حضرت عمرو بن عبسۃؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: یارسول اﷲ! اسلام کیا ہے؟

آپﷺ
نے فرمایا: اَنْ یُّسْلِمَ اﷲِ قَلْبُکَ، اَ اَنْ یَّسْلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِکَ وَیَدِکَ ’’یہ کہ تیرا دل اﷲ کے آگے جھک جائے اور تیرے ہاتھ اور تیری زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
اس نے کہا: کون سا اسلام افضل ہے؟

آپﷺ نے فرمایا: اَلْاِیْمَانُ۔ ایمان۔

اس نے پوچھا: ایمان کیاہے؟

آپﷺ
نے فرمایا:اَنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِ وَمَلَاءِکَتِہٖ، وَ کُتُبِہٖ، وَ رُسُلِہٖ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ۔ ’’یہ کہ تم اﷲ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور بعث بعد الموت پر یقین کر لو۔‘‘
اس نے پوچھا: کون سا ایمان افضل ہے؟

آپﷺ نے فرمایا: اَلْھِجْرَۃُ۔ ہجرت۔

اس نے پوچھا: ہجرت کیا ہے؟

آپٌ نے فرمایا: اَنْ تَھْجُرَ السُّوْء ’’یہ کہ تم برائی کو چھوڑ دو۔
‘‘
اس نے کہا: کون سی ہجرت افضل ہے؟

آپﷺ نے فرمایا: اَلْجِھَادُ۔ جہاد۔ اس نے پوچھا: جہاد کیا ہے؟

آپﷺ نے فرمایا: اَنْ تُقَاتِلَ الْکُفَّارَ اِذَا لَقِیْتَھُمْ ’’یہ کہ جب کفار کے ساتھ مڈبھیڑ ہو جائے تو اُن کے خلاف لڑو۔
‘‘
اس نے کہا: کون سا جہاد افضل ہے؟

آپﷺ نے فرمایا: مَنْ عُقِرَ جَوَادُہٗ
وَاَھْرِیْقَ دَمُہٗ۔ ’’اس شخص کا جہاد جس کے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹی جائیں اور وہ اس سے گر کر شہید ہو جائے۔‘‘
قرآن و سنت میں اس حوالے سے کسی سوال کے جواب یا کسی حقیقت کے اظہار اور بیان کے سلسلے میں جو تعلیمات وارد ہوئی ہیں، جو شخص ان کی تحقیق کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ہمارے سامنے کچھ معیارات رکھے گئے ہیں جن کے ذریعے ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں افضل، اولیٰ اور سب سے زیادہ پسندیدہ اَقدار و اعمال کیا ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ان کے درمیان بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ بعض احادیث میں ان کے درمیان جو نسبت ہوتی ہے وہ بھی بیان کی گئی ہے۔ جیسے:
’’نمازِ باجماعت انفرادی نماز سے ۲۷ درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘
’’ایک درہم ہزار درہموں پر غالب آگیا‘‘۔
[ایک آدمی کے پاس دو درہم تھے۔ اس نے ان میں ایک لے کر صدقہ کردیا (یعنی اس نے اپنے آدھے مال کا صدقہ کیا، حالانکہ وہ خود اس کے لیے محتاج تھا) دوسرا آدمی تھا جس کے پاس بہت سارا مال تھا۔ اس نے اپنے مال کے ایک کونے سے ایک لاکھ روپے لیے اور ان کو صدقہ کیا]
’’ایک دن رات اﷲ کی راہ میں پہرہ دینا اس سے بہتر ہے کہ آدمی ایک عرصے تک دن کو روزہ رکھے اور رات کو نماز پڑھتا رہے۔‘‘
’’اﷲ کی راہ میں ایک لمحے کے لیے کھڑا ہونا گھر میں ستّر سال تک نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘
دوسری طرف برے اعمال کے لیے بھی کچھ معیار مقرر کیے گئے ہیں اور اﷲ کے ہاں ان کے تفاوت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ صغائر ہیں، کچھ کبائر، بعض مشتبہات ہیں اور بعض مکروہات۔
بعض اوقات ان کی آپس میں نسبتیں بھی بیان کی جاتی ہیں۔ جیسے:
’’اگر ایک آدمی جان بوجھ کر ایک درہم سود کھائے تو یہ اس سے زیادہ شدید ہے کہ ایک شخص ۳۶ بار زنا کا مرتکب ہو جائے۔‘‘
نیز بعض چیزوں سے محتاط رہنے کی تلقین کی گئی ہے، جسے شریعت نے دوسرے اعمال کے مقابلے میں زیادہ اور بدتر قرار دیا ہے۔ جیسے:
’’آدمی کی بدترین صفت بے صبری میں مبتلا کرنے والی حرص اور بے انتہا بزدلی ہے۔‘‘
’’بدترین آدمی وہ ہے جو اﷲ کے نام پر مانگتا ہے (مگر جب اس سے مانگا جائے تو) پھر نہیں دیتا۔‘‘
’’میری امت کے بدترین لوگ وہ ہیں جو منہ ٹیڑھا کر کے فضول بولتے رہتے ہیں اور اَکڑ کر چلتے ہیں۔ اور بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔‘‘
’’سب سے بڑا چور وہ ہے جو نماز میں چوری کرتا ہے، اس طرح کہ وہ رکوع اور سجدہ ٹھیک طریقے سے ادا نہیں کرتا۔ اور سب سے بڑا بخیل وہ ہے جو سلام میں بھی بخل کرتا ہے۔‘‘
اس طرح قرآن پاک نے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ سارے لوگ مرتبے کے لحاظ سے آپس میں برابر نہیں ہیں، اگرچہ انسانیت کے لحاظ سے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ علم و عمل کے لحاظ سے لوگوں کے درمیان میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اﷲ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔ (الحجرات: ۱۳)
قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَط (الزمر:
۹)
’’ان سے پوچھو: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟‘‘
’’مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو کسی معذوری کے بغیر گھر بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اﷲ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔ اﷲ نے بیٹھنے والوں کی بہ نسبت جان و مال سے جہاد کرنے والوں کا درجہ بڑا رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک کے لیے اﷲ نے بھلائی ہی کا وعدہ فرمایا ہے۔ مگر اُس کے ہاں مجاہدوں کی خدمات کا معاوضہ بیٹھنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔ اُن کے لیے اﷲ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت و رحمت ہے، اور اﷲ بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے‘‘۔ (النساء:۹۵۔۹۶)
وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی
وَالْبَصِیْرُo وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُo وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُo وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُط (فاطر:۲۹۔۲۲)
’’اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہے، نہ تاریکی اور روشنی یکساں ہیں، نہ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی ہے اور نہ زندے اور مردے مساوی ہیں۔‘‘
’’پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنایا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چُن لیا۔ اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اﷲ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے‘‘۔ (فاطر:۳۲)
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان بھی اسی طرح فرق اور باہمی فضیلت پایا جاتا ہے جس طرح کہ اعمال آپس میں متفاوت اور متفاضل ہیں۔ مگر لوگوں کے درمیان جو تفاوت اور تفاضل ہے، وہ صرف علم، عمل، تقویٰ اور جہاد کی بنیاد پر ہے۔

No comments:

Post a Comment