اعجازِکلام اللہ قرآن فہمی اور عصری انکشافات ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی
قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری آسمانی کتاب ہے جو نبی کریمؐ پر نازل ہوئی۔ یہ مکمل دستور الحیات ہے اور اس کا اصل موضوع تمام انسانوں کو راہِ ہدایت پر گامزن کرناہے۔یہ اُم الکتاب جن حقائق پر روشنی ڈالتی ہے ، اُن کا بنیادی محور صحیح عقیدہ اور حسن عمل کی تلقین ہے۔ گویا قرآنِ حکیم کابنیادی مقصد انسان کے فکر ونظر اور عمل وکردارکی صحیح سمت متعین کرنا ہے۔ قرآن نے اللہ پر ایمان، اْس کی وحدانیت کے اقرار، رسالت کی ضرورت واہمیت ، قیامت اور حشر ونشر کے واقع ہونے کی معقولیت اور دوسرے اعتقادی امور کو باور کرانے کے لئے اس تمام کائنات ہی کو ایک بڑی نشانی اورواضح دلیل کے طور پرپیش کیاہے۔ واقعی جو بھی انسان بغیر کسی تعصب ،زمین ، آسمان ، چاند،سورج ، ستارے اور اس تمام کہکشانی نظام پر غوروفکر کرے گا وہ ضروران میں کائنات کی عظیم الشان نشانیوں کو دیکھے گا۔
اُمت مسلمہ کے عظیم نابغہ علامہ اقبال نے بھی اپنی تصانیف میں مدلل طور پر قرآن حکیم کی علمی اور عملی نوعیت کی طرف اشارہ کرکے قرآنی آیات بینات ہی کے حوالے سے بے شمار نشانیوں کی نشاندہی کی ہے۔اسی لئے عقل وتدبر رکھنے والے لوگ قرآنی آیات مبارکہ کے مطابق ہمیشہ ان نشانیوں کو دیکھ کر بے ساختہ پکاراْٹھتے ہیں کہ ربنا ماخلقت ھٰذا باطلاًء ( ترجمہ): اے ہمارے رب! آپ نے یہ ساری کائنات فضول پیدا نہیں کی ہے۔
علامہ اقبال اپنی فکر کے مطابق اس آیت کی توضیح کرتے ہوئے خطبات میں بیان کرتے ہیں کہ دنیا میں وسعت اور بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے بلکہ ہم کائنات میں اہم تبدیلیاں بھی دیکھتے رہتے ہیں اور لیل ونہار کی حرکت کے ساتھ ہم زمانہ کا خاموش اُتار چڑھائو کا بھی مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانیاں ہیں۔اسی قرآنی حقیت کو اْجاگر کرنے کے لئے علامہ نے اپنے بلیغ شاعرانہ پیرائے میں بھی ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے ‘‘ کے عنوان سے کہا ہے ؎
کھول آنکھ ،زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ،فضاء دیکھ!
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ!
ایام جدائی کے ستم دیکھ ، جفا دیکھ!
بے تاب نہ ہو ،معرکہ بیم ورجا دیکھ!
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گٹھائیں!
یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں
یقیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردُوں کے ستار ے
دراصل قرآن حکیم کی تعبیرات کا کمال یہی ہے کہ اس میں قدرت کی ظاہری نشانیوں کو غیبی حقائق کے لئے بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔ ایک عام انسان بھی اس سے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق دلیل کے طور پر اخذ کرسکتاہے اور بالغ نظر دانشور،حکیم یافلسفہ دان بھی انہی الفاظ وتعبیرات میں اپنا مدعا پاکر اس پر مزید غور وفکر کرسکتاہے۔ اس طرح وہ عقلی دلائل اور براہین کی روشنی میں بھی ان حقائق کو تسلیم کرنے لگتاہے۔
کائنات کی ظاہری نشانیوں کو دلیل کے طورپر پیش کئے جانے کا یہ قدرتی نتیجہ ہے کہ اس کتاب مبین میں ضمنی طور پر مختلف علوم وفنون سے تعلق رکھنے والے مسائل کی طرف بھی اجمالاً اشارات وکنایات کئے گئے ہیں لیکن اصل مقصد ان علمی حقائق کا بیان نہیں ہے بلکہ غیبی حقائق کوتسلیم کراناہے جن کے لئے بطور دلیل ان کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی سورہ ’’المومنون‘‘ میں انسان کی تخلیق کے بارے میں ایک جگہ ارشاد ربانی ہے۔
ترجمہ: ’’ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا ، پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ میں نطفہ بنایا پھر ہم نے اس نطفے سے خون کا لوتھڑا بنایا۔ پھر اس خون کے لوتھڑے سے گوشت کی بوٹی بنایا ، پھر گوشت کی بوٹی کوہڈی بنایا ،پھر ہم نے ہڈیوںپرگوشت چڑھایا ، پھر ہم نے اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنادیا۔ کیسی شان والا ہے اللہ تمام صناعوں سے بڑھ کر ‘‘۔
اس آیت قرآنی میں جوحقیقت بیان کی گئی ہے جدید علم الجنین (Embroyology)سے حرف بہ حرف اس کی تصدیق ہوتی ہے اوریورپ کے بڑے بڑے اطباء یہ جان کر حیران ہوتے ہیں کہ ان حقائق کا اظہار چودہ سوسال پہلے کس طرح کیا گیا ہے۔لہٰذا بے شک یہ بھی قرآن پاک کا ایک بہت بڑا علمی اعجاز ہے جس کا مقصد اللہ کی قدرت او رشان تخلیق کا اظہار ہے لیکن یہ بھی ایک بین حقیقت ہے کہ اس بنیاد پر ہم قرآن کو "Embroyology"کی کتاب قطعاً قرار نہیں دے سکتے ہیں اور نہ ہی اس علم کی تمام جزوی تفصیلات کو جو ابھی تکمیل طلب ہیں قرآن پر مسلط کرسکتے ہیں بلکہ قرآن حکیم کی شان کتاب ہدایت کی رہے گی اور علمی اعجاز اس کی صداقت کی دلیل۔ دراصل کسی جدید یا قدیم انسانی علم کی فنی جزئیات سے اسی حد تک اس کا رشتہ جوڑا جاسکتاہے جو اس کے بنیادی مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔ اس کے بعد وہ قطعی اور یقینی بھی ہو۔
اس حقیقت کی مزید تشریح وتوضیح کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں واضح طور پر کہاہے کہ سائنس ابھی اْن حقائق تک مکمل طور پر نہیں پہنچ پایا ہے جن حقائق اور واردات کی نشاندہی قرآن نے آج سے چودہ سوسال پہلے کرکے رکھی ہے ،اس لئے کہ سائنسی انکشافات واخترافات بدلتے رہتے ہیں۔ آج ایک سائنسی ایجاد حقیقت دکھائی دیتی ہے کل وہی مفروضہ ثابت ہوتی ہے۔
قرآن کے سورہ السجدہ آیت نمبر 53میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: ’’عنقریب یہ ہماری نشانیاں آفاق میں بھی دیکھیں گے اور اپنے آپ میں بھی ، یہاں تک کہ انہیں معلوم ہوجائے گاکہ یہ حق ہے یعنی ہم عنقریب انہیں دْنیا میں بھی اپنے نمونے دکھلائیں گے ‘‘۔
اسی طرح ایک حدیث ہے کہ رسول رحمت ؐ کے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور یہ خبر دی کہ آئندہ آنے والے دور میں فتنے اُٹھیں گے۔ آپؐ نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ اس سے نکلنے کا راستہ کیاہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب یعنی قرآن حکیم۔ اس میںآپؐ سے پہلے کی خبریں بھی ہیں او رآپؐ کے بعد جو کچھ پیش آنے والا ہے اس ک بھی خبریں ہیں۔
اللہ کے بھیجے ہوئے دین حنیف یعنی اسلام میں قیامت تک کی باتیں چھپادی گئی ہیں اور لازم ہے کہ یہ باتیں ہردور میں ظاہرہوجائیں گی تب ہی ہم اس کی آیات پر غور وفکر کرکے اجتہادی کاوشیں تیز کرسکتے ہیں۔ تاریخ کے آئینے میں اس کی ایک اہم مثال ہم یوں پیش کرسکتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت کا مصری مغرور بادشاہ فرعون سمندر میں غرق کردیا گیا اور قرآن میں فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا : ’’پس آج ہم تیرے بدن کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لئے عبرت بنے رہو او ربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ‘‘۔
اس آیت مبارکہ کے مطابق فرعون کا جسم معجزاتی طور پر محفوظ رکھا گیا تاکہ اہل اسلام اس صداقت کا استعمال کرکے بعد کی نسلوں کے سامنے کتاب اللہ کی صداقت کا ثبوت پیش کرسکیں مگر آج تک ملت مسلمہ میں سے کوئی فرد اس اہم ترین قرآنی صداقت پر عملی اور تحقیقی انداز سے غوروفکر نہیں کرسکا،یعنی اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی مسلم علماء اس نشانی پر پردہ نہ اٹھاسکے اور نہ ہی مزید غورو فکر اور جستجو کرسکے تاکہ قرآن کی ایک ناقابل انکار صداقت کے طور پر اس فرعونی جسم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے متحمل ہوسکتے۔ یہاں تک کہ ایک فرانسیسی اسکالر پروفیسر لورٹ (Lort) نے 1898ء میں فرعون کے اس محفوظ جسم کو اہرام کے اندر سے نکالا۔ پھر اس ممی کئے ہوئے جسم کو قاہرہ کے میوزیم میں رکھا گیا۔ اس کے بعد پہلی بار 1907ء کو پروفیسر سمتھ(Ellist Smith) نے اس جسم کے غلاف کو کھول کر اس کا مشاہدہ اور مطالعہ کرکے اس پر"The Royal Mummies" نام کی کتاب تصنیف کی۔
اس کے بعد ایک فرانسیسی دانشور ڈاکٹر موریس بکائی نے اس دریافت شدہ مواد (Material)کواسلام کی صداقت کیلئے استعمال کیا۔ موریس بکائی 1975ء میں خود قاہرہ گیا اور وہاں اس نے براہِ راست طور پر میوزیم میں اس کا مطالعہ کیا۔ اس معاملہ کی کامل تحقیق وتفتیش کے لئے بکائی نے باضابطہ عربی زبان وادب سیکھی۔ پھر اپنی بھرپورتحقیق کے بعد اپنی شاہکار تصنیف فرانسیسی زبان میں رقم کی۔
اس طرح قرآن کی مذکورہ پیشین گوئی کو علمی اور عملی طور پر ثابت کرنے والا ایک غیر مسلم عالم یا دانشور بن گیا جوبعد میں مسلمان ہوا۔اس کو اللہ کی طرف سے یہ توفیق نصیب ہوئی کہ وہ اس قرانی صداقت کو تمام دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اہل ہوا کہ وہ لوگ جو اس مقدس کتاب یعنی قرآن پاک کی سچائی کیلئے جدیدثبوت چاہتے ہیں وہ قاہرہ کے مصری میوزیم میں شاہی ممیوں کے کمرہ کو دیکھیں وہاں وہ قرآن کی اُن آیات کی شاندار عملی تصدیق پالیں گے جو کہ فرعون کے جسم سے متعلق ہیں۔
یہاں ہمیں رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک فرمان پر بھی نظر رکھنی چاہئے جو صحیح البخاری کتاب الجہاد میں مذکورہے اورجس میں رسول اکرمؐ فرماتے ہیں کہ :’ ’اللہ کسی فاجر شخص کے ذریعہ بھی اس دین حنیف کی مدد فرمائے گا ‘‘۔
اس حدیث مبارکہ پر غور وفکر کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اگر ایک فاجروفاسق انسان کے اندر غوروفکر کی صحیح اسپرٹ موجود ہو تو وہ بڑے بڑے تخلیقی کارنامے انجام دے سکتاہے اور اس کے برخلاف ایک مسلمان ومومن اگر اس صلاحیت او رصلابت سے محروم ہو تو اس دنیا میں وہ کوئی بڑا معرکہ قطعاً انجام نہیں دے سکتا۔ لہٰذا ہمیں یہاں سوچ بچار کرنا چاہئے کہ ہم کیوں لایعنی اور فضول باتوں اورفروعات پر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔علامہ اقبال نے بھی غالباً اسی صداقت کے پس پردہ اپنے یہ اشعار رقم کئے ہیں کہ ؎
کافر بیدار دل پیش صنم
بہ زدیندار کہ خفت اندرحرم
یا
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مردِ مسلمان بھی کافر وزندیق
اسی لئے علامہ اقبال کے نزدیک قرآن حکیم عظیم الشان نفسیاتی اور ذہنی انقلاب کا مظہرہے جس نے ہر دور کے ذی حس اور باصلاحیت نابغائوں (Genius Personalities )کو زبردست متاثر کیا ہے۔ اپنے انگریزی خطبات یعنی "The Reconstruction of Religious Thought in Islam"کے پہلے لیکچر میں علامہ اسی حقیقت کی پردہ کشائی کرتے ہوئے گوئٹے اور ایکرمین کی مثال دیتے ہوئے یوں قرآن کی علمی عظمت اُجاگر کرتے ہیں۔
"The main purpose of the Quran is to awaken in man the higher consciousness on his manifold relations with Allah and the universe. It is in view of this essential aspect of the Quranic teachings that Goethe, while making a general review of Islam as an educational force, said to Eckermann; you see this teaching never fails; with all our systems, we cannot go, and generally speaking no man can go, farther than that.
اس خطبے میں اقبالؒ اسی حقیقت کی طرف واضح اشارات کرتے ہیں کہ قرآن حکیم کا مقصد مشاہدات فطرت کے اندر پنہاں حقائق کا شعور انسان کے دل ودماغ میں پیدا کرناہے۔لیکن قرآن کا اندازِ بیان اور طریق فکر مسلمانوں کو واقعات وحقائق پر عملی وتجرباتی اسلوب سے غور وفکر کی دعوت دیتاہے ،جس پر لبیک کہہ کر ماضی میں مسلمانوں نے جدید سائنس کی بنیاد ڈالی۔ یہ کام انہوں نے اْس دور میں انجام دیا جب لوگوں نے حق کی تلاش کیلئے مظاہر کو عبث سمجھ کر ترک کردیاتھا۔ قرآن نے خارجی تغیرات سے نبردآزما ہوکر اپنی اندرونی قوتوں کو اْبھارنے کی طرف انسان کی توجہ مبذول کرائی۔ اس طرح انسان عارضی چیزوں سے نمٹ کر دائمی وجود کی جانب مائل ہوئے۔
رسول مقبولؐ نے اس طریق تعلیم کو فرض قرار دے کر اور علم کو اپنا ہتھیار بتلا کر اُمت کے ہرفرد کو غوروفکر کی ترغیب دے دی۔اسی علم وفکر کی ترغیب اور اسی ذہنی انقلاب کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان سیاست ، تہذیب او رتمدن کے علاوہ علم وفن کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے گئے اور کوئی پانچ سوسال تک علمی دنیا پر پورے آن بان کے ساتھ چھائے رہے۔ مشاہدے اور نظریے کے اسی امتزاج (Synthesis)سے جدید سائنس کی بناء مسلم علماء اور دانشوروں نے رکھی۔علامہ اقبال اسی لئے قرآن وسائنس یا کتاب وحکمت دونوں چیزوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں ؎
برگ وساز ماکتاب وحکمت است
ایں دو قوت اعتبارِ ملت است
آں فتوحات جہان ذوق وشوق
اہل فتوحات جہان تحت وفوق
قرآن حکیم ایک ایسا لافانی معجزہ ہے جس میں دنیا ئے عالم کو اللہ کی طرف سے یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسی ایک سورت یا آیت بنا کرپیش کیجئے۔یہ چیلنج پچھلے پندرہ سوبرسوں سے برابر برقرار ہے۔ یہ ایک عظیم الشان اعجاز ہے قرآن حکیم کا اور علامہ اقبال کے نزدیک قرآن مجید کی قوتِ تاثیر کی تعلیمات اس کا سب سے بڑا وجہ اعجاز ہے ؎
نسخۂ اسرارِ تکوین حیات
بے ثبات از قوتش گیردثبات
حضرت عمرفاروق ؓ کے ایمان لانے کے تاریخی واقعہ کو علامہ اقبال اس قرآنی قوتِ تاثیر اور تعلیمات کا اعجاز قرار دیتے ہوئے یوں نغمہ سنج ہیں ؎
زشام ما بروں آور سحر را
بہ قرآں بازخواں اہل نظر را
تو میدانی کہ سوزِ قرأتِ تو
دِگر گوں کرد تقدیر عمرؓ را
علامہ اقبال کی نظر میں قرآن کوئی ایسی نظریاتی کتاب نہیں ہے جوانسان کی زندگی یا اس کائنات کی وسیع اور تہہ در تہہ پنہائیوں سے لاتعلق ہو بلکہ قرآن رشد وہدایت کے پورے نظام کوزندگی اور کائنات کے حوالے اور ان کے تقاضوں سے ترتیب دیتاہے۔ قرآنی تعلیم وتربیت کے مطابق انسان اور کائنات کی تخلیق بغیر کسی مقصد کے عمل میں نہیں لائی گئی بلکہ اس کائنات کا ہر ایک مظہرکسی نہ کسی پوشیدہ حقیقت کے اظہار کا نام ہے اور ان پوشیدہ مظاہر کے ظاہر ہوتے ہی اہل علم تفکر وتدبر کے بعد قرآنی الفاظ ہی کے مطابق پکار اْٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب! آپ نے اس کائنات کو عبث پیدا نہیں کیا۔ مظاہر کائنات او رشخصیت انسانی کے متعلق یہی مثبت اور اجتہادی نظریہ قرآنی اسپرٹ کی ایک بہترین توضیح ہے جو علامہ اقبال اپنے ایک انگریزی مقالہ میںیوں پیش کرتے ہیں۔
"In the words of the Quran, the universe that confronts us is not "batil". It has its uses, and the most important use of it is that the effort to overcome the obstruction offered by it sharpens our insight and prepares us for an insertion into what lies below the surface of phenomena."
علامہ ملت اسلا میہ کو اسی لئے فروعات میں اْلجھنے کے بجائے روح قرآن تک پہنچنے کی ترغیب دیتے ہیں اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق قرآن کی طرف مجتہدانہ توجہ کرنے کی اشد ضرورت پر زور دیتے ہیں۔آپ فقر قرآن اختیار کرنے یعنی سادگی ، پاکیزگی اور ایثار وغیرت پر مبنی معاشرہ کی تعمیر وتشکیل نو کے لئے انفرادی واجتماعی ذمہ داریوں کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے ملت کو یہی پیغام دیتے ہیں ؎
فقر قرآن احتساب ہست وبود
نے رباب ومستی و رقص و سرود
فقر مومن چیست ؟ تسخیر جہات
بندہ از تاثیر او مولاصفات
فقر کافر خلوت دشت ودراست
فقر مؤمن لرزۂ بحر و براست
ترجمہ:قرآن کا فقر ہست وبود کا احتساب کا نام ہے۔یعنی کائنات اوراس میں جو کچھ موجود ہے،اس کا حساب رکھنا ہے ۔ اس کے اچھے بُرے کو پرکھنا ہے نہ کہ راگ اور رنگ میں مست ہوناہے جو کہ آج کل مشاہدے میں آتا رہتاہے ۔
مومن کا فقرکیا ہے؟یعنی مومن کے فقر سے کیا آپ واقف ہیں ؟ مومن کا فقر کائنات کو تسخیر کرناہے ۔ اپنے تصرف میں لانا ہے ۔ اس پر چھاجاناہے ،اسی فقر سے اللہ کے ایک بندے میں اُس کی صفات عالیہ پیدا ہوسکتی ہیں،جب کہ کافر کا فقر بیابان اور گھر میں تنہا رہنے کا نام ہے ،اس کے برعکس مومن کافقر بحر وبر یعنی خشکی اور تری پر لرزہ طاری کرتاہے یا تمام بحر وبر کو متحرک بناتاہے ۔
|
Search This Blog
Wednesday, 12 September 2012
QURAN FAHMI AUR ASRI INKASHAFAT - DR. MUSHTAQ GANAI
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment