Search This Blog

Wednesday 2 January 2013

سماج کا اندھا سفر SAMAJ KA ANDHA SAFAR

سماج کا اندھا سفر
آدمیت پرشکستہ مر گیا انسان ہے


زیادہ وقت نہیں گزرا جب ہم الحاد ، اباحیت ، بے حیائی ، بے قید آزادی ،ظلم او رفساد ،خون آشامی وخون ریزی ، حرص وہوسناکی اور قوم پرستی وطن پرستی کی ضمیر سے اُٹھنے والی یورپی تہذیب وتمدن کے انسانیت اور اخلاق کش روّیے اور اثرات پر چیخ اٹھتے تھے اور برجستہ ہماری زبان سے علامہ اقبالؒ کا یہ شعر نکل پڑتاتھا ؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
 جو شاخِ نازک پہ آشیانے بنے گا ناپائیدار ہوگا
مگراب ہم اُس مقام پر آچکے ہیں جب ہم نے اسلام کے حیات آفرین نظرئے ، اس کے اصول و اقدار اور تعلیمات واحکامات سے مزین تہذیب وتمدن کو چھوڑ کر اسی یورپی نظامِ شر وفساد اوراباحیت ومنکرات کواپنی زندگیوں میں رائج کردیا ہے ۔اس لئے ہم ہی علامہ مرحوم کی تنبیہات کے مصداق بن چکے ہیں ۔ ہم نے اسلام کو کب کے اپنی زندگیوں سے نکال باہر کیا ہے۔اس کوفرمانروائی ،قیادت وسیادت ، منصفی اورعدل گستری کے مقام سے سبکدوش کرکے ہم نے اس کی جگہ اپنی خودساختہ یا یورپ سے درآمد ’’شریعت‘‘ لائی ہے اور اس کو اپنی زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کردیاہے ۔نتیجہ یہ ہے کہ ہم بھی اب اسی شاخِ نازک پر اپنا آشیانہ بنابیٹھے ہیں اور اس خنجر مستعار سے اپنی پاکیزہ قدروں،صالح روایات ، بلند خیالی،پاک ضمیری اورحیاء وعفت ، ہرچیز کو ختم کرنے کی جنونی رفتار پکڑے ہوئے ہیں۔ظاہرہے  کہ خودفریبی اور خدافراموشی کے ہاتھوں میں اٹھنے والا خنجر دوسروں کے نشیمن برباد کرے گا ہی ، اپنی خودکشی بھی اس کے مقدر کا حصہ بن کر رہے گی   ؎
ترا وجود سراپا تجلیٔ افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر
مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط نیام ہے تو زر نگار و بے شمشیر
                                                (اقبالؒ)
افسوس کہ جس ’’جہانِ نو‘‘ کو فرنگی مقامروں (قماربازوں)نے قمارخانہ میں تبدیل کیاہے ،اسی کے حصول کو ہم نے منزل مقصود بنادیا ہے اور صبح وشام ، رات دن اسی کے دیوانوں بنے جارہے ہیں، جس شمشیرلادینی سے مغرب خود بسمل فتاد ہے اسی سے ہم عشق لگائے ہوئے ہیں او رتمام مسائل کا حل اسی میں تلاش کرتے ہیں۔نتیجہ ہم بھی مرغِ بسمل کی طرح تڑپ رہے ہیں ، ہمارادَم گھٹ رہاہے ،ہم بے بسی کی سرد آہوں میں منجمد ہورہے ہیں ۔ ہم میں سے ہرایک کی کہانی اضطراب ، اسی آہ وفغان اور اسی بے چینی اور عدم اطمینان کی ٹریجڈی بن گئی ہے اور ہرایک اپنے فرض کا حصہ دوسرے کے سرپر ڈال کر فرار کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے۔
چاروں طرف نظر دوڑائیے اور دیکھئے ہمارا معاشرہ کدھر جارہاہے ؟ وہ کون سا ایسا بُرافعل نہیں جو اس معاشرے میں رفتہ رفتہ سرایت نہیں کرتا جارہاہے ۔ کون سا ایساجرم نہیں جس کا ارتکاب نہیں ہورہاہے۔ بے راہ روی کا ایسا کون سا ’’اندازِ دلبری‘‘ نہیں جس کے ’’شوقِ دیدار‘‘ میں ہماری نئی نسل پاگل نہیں ہورہی ہے ۔ تکریم زن اور حصارِ حیا کو پھلاندتے ہوئے عورتیں مرد بننے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں اور اس غیرفطری عمل میں جو کچھ دیکھنے کو مل رہاہے اس کے ہم سب شاہدعادل ہیں ۔ گھرکا سکون درہم برہم ہوچکاہے ،فیملی سسٹم بکھرچکاہے ،بڑوں کی عزت ،چھوٹوں کے لئے شفقت ،عورت ذات کی عزت وتقدیس ، والدین کی خدمت ، بچوں کی تعلیم وتربیت ، ہمسایوں سے ہمسائیگی کے تعلقات ، صلہ ٔرحمی ، یتیموں اور محتاجوں کی دست گیری اور معاونت ، یہ تمام قدریں دَم توڑ رہی ہیں ۔ اب ان کی جگہ اخلاقی بُرائیاں ، جرائم ، عدم برداشت ،جذبۂ نفرت ، انتقام گیری ،جعل سازی ، دھوکہ بازی ، لوٹ کھسوٹ ، جھوٹ ، بدعات ، توہمات ، ناانصافی ،ظلم او رفساد سماجی اخلاق کے اجزائے ترکیبی بن رہے ہیں ۔ ’’اخلاقی انارکی کے جس دلدل میں ہم گر چکے ہیں،اس میں دیدہ دلیری ، ظلم وتعدی کے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں ۔اب نازونعمت سے پرورش پانے والا لخت جگر خود اپنے باپ کا قتل کرتاہے ۔ اب صنف نازک کی تقدیس کا بھی پاس ولحاظ نہیں ۔اس لئے ’’رکاوٹ ‘‘ کو دور کرنے کے لئے اپنے ہی زوج کو ٹھکانے لگانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔آئے روز ایسے لرزہ خیز واقعات رونما ہورہے ہیں جن سے صاف ظاہرہورہاہے کہ معاشرہ جرائم زدہ بنتا جارہاہے ۔ آ سیہ اور نیلو فر کاالمیہ زبان زد عام ہے اور یہ تا حشر ایسا ہی رہے گامگر کیا ہمارے اجتماعی حافظے میں مزید ایسی ٹریجڈیاں بھی تروتازہ ہیں ؟ ہم سب جا نتے ہیں کہ فتح کدل کی 11سالہ اقراء کی پُراسرار ہلاکت ،دبی پورہ خانصاحب میں 8سالہ لاپتہ بچی کی لاش کسی ٹرنچ سے بازیاب کیاجانا اور اس سے پہلے تابندہ غنی ، صبرینہ فیاض ، رومانہ جاوید جیسی عفت مآب بچوں کا حشر پہلے ہی سرِانسانیت کو شرمسار کرچکاہے ۔ افسوس کہ اب منبر ومحراب سے وابستہ بعض لوگوں کا دامن بھی اسی قسم کی سیاہیوں سے آلودہ ہورہاہے ۔ چند ماہ پہلے بٹہ مالو سرینگر میں ایک امام کا رومانس اور پھر اس کے ہاتھوں ایک شخص کے قتل کا واقعہ اسی معاشرتی بگاڑ کا مظہرہے ۔ دوسر ی طرف نشیلی ادویات ،چرس ، بھنگ ، افیم ، برائون شوگر کا روز بڑھتا استعمال ہماری پوری نئی پود کو اپنی موت آپ ماررہاہے ۔ ڈکیتیوں اور رہزنیوں اور قتل کے واقعات جو پہلے بھی عنقا تھے ، اب لگتاہے ممبئی اور دلی یہاں بنتاجارہاہے ۔ سرراہ لڑکیوں کی اغوا ء کاری اور پھر پھر ان کی عصمت دری اور امیر طبقہ سے تعلق رکھنے والے بعض بچوں کو یرغمال بنانا، یہ سب یہاں اس طرح ہورہاہے جیسے کہ یہ معمول بن گیا ہے ۔
سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ ہماری بے حسی ، ہماری خاموشی ، ہماری چشم پوشی ، ہماری بے عملی اور تجاہل عارفانہ کا روّیہ برائیوں ،بدکاریوں اور جرائم کے حق میں ، معاشرے کی طرف سے قبولیت کاتاثر پیدا کررہاہے۔میرے پائوں تلے زمین کھسک گئی کل جب اسلامی اقدار کے مالک باپ نے اپنی پاکدامن بیٹی کے نکاح کے حوالے سے بتایا کہ اس کی ہمسایہ عورت نے اسے بتایا کہ ’’تم کیوں اتنی فکر کررہے ہو، آج تو سب ’’لو میرج‘‘(Love Marriage)کر رہے ہیں ‘‘ او رفخر کے ساتھ کہا کہ ’’میری بیٹی نے یہی کیا اور ہم اس کے حوالے سے فارغ ہوئے ‘‘۔ صاف ظاہرہے کہ یو ں معاشرے کاایک بے حمیت طبقہ غیر اسلامی روایات اور غیرشریعتی طریقۂ کار کو سوسائٹی اپنی طرف سے جواز بخشتا ہے یعنی "Legitimise" کرتا ہے ۔
ہم اس خوفناک دلدل تک کیسے پہنچ چکے ہیں؟ اوپر جوکچھ بتایا گیا اس میں ان اسباب کی جھلک بھی صاف عیاں ہے جو ہمیں اس حد تک لے آئی ہیں ۔ ظاہرہے سماج افراد سے بنتاہے اور فرد ہی اس کی بنیادی اکائی ہے ۔ یہ اکائی فکر کی سلامتی اور کردار کے حوالے سے جتنی صحت مند اور مستحکم ہو ، سماج کی تشکیل بھی اسی پیمانے کی ہوگی ۔فکر اباحیت پسند ہو ، بے قید آزادی کی دلدادہ ہو اور الحاد کے سوتے سے پھوٹ رہی ہو تولازماً اسی سوچ کے چلتے پھرتے نمونے ہرجگہ اپنا تعارف اسی انداز سے دیں گے۔ گھر سے بازار، دفاتر ،تعلیمی اداروں،سرکاری منصبوں ،انصاف کی کرسیوں ، قانون اور آئین کے ایوانوں اور قصرِ صدارت تک ہر جگہ اسی اکائی کے ’’عفویات‘‘ اپنی اصل فنکشن اور کارکردگی دکھائیں گے ۔اور حق یہ ہے ہم اس بنیادی اکائی اور اپنے گھر کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنے میں انتہائی حد تک لاپرواہ ہورہے ہیں ۔آخر جن برائیوں اور جرائم کو معاشرے میں پنپتے ہوئے دیکھ کر ہم تڑپ رہے ہیں ان کا ارتکاب کیا اسی اکائی سے ترتیب پانے والے خاندانی افراد سے ہی نہیں ہوتا؟ وہ تھوڑے ہی مریخ سے آٹپکے ہیں ۔
معاشرتی بگاڑ کا دوسرا سبب بیرونی ماحول کی دخل اندازی ہے ۔اگر یہ آ پ کے گھر پر حاوی ہوا تو داخلی سلامتی اور نیک سیرت بھی اس سے اثر انداز ہوکر رہتی ہے ۔ یہ سلامت روی ایک مدافعاتی قوت ہے جو ماحول کی خباثت ، کثافت اور زہرناکی کا بہرحال ایک توڑ ہے مگر جب یہ زہرناک ماحول طوفان کی شکل اختیار کرچکاہو تو اندرونی محاذ بھی کمزورپڑتاہے۔آج کل پرنٹ ،الیکٹرانک میڈیا ،نیوز چینلوں ،سنیمائوں ، مخرب اخلاق لٹریچر ،موبائل سیٹوں ، دین بیزار تعلیمی اداروں اور حکومتی اداروں سے اسلام کش تہذیب وتمدن او رافکار ونظریات کی جو مسلسل اور باقاعدہ ترویج اورتبلیغ ہورہی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ سماج جرائم او ربدکاریوں اور بے حیائی کے حوالہ سے سرطان زدہ ہورہاہے ۔ ماں کے قدموں سے جنت دور نکلتی جارہی ہے ،نسوانیت اپنا وقار اورآبرو کھورہی ہے ، شکم ِ مادرمیں لڑکیاں زندہ قتل کی جاتی ہیں ، فراڈ، قتل اور ڈکیتیاں عام ہورہی ہیں۔
تیسر اسبب اس معاشرتی کافقدان ہے جو جرائم اور بدیوں اور معاشرے میں پنپ رہی دوسری بیماریوں کے پھیلائو میں کافی حد تک سدراہ بن رہا تھا ۔ اس خوف کے اٹھنے سے بدی کا اکتساب کرنے میں جنسی تلذذ کے کوشاں لوگوں اور جرائم پیشہ افراد کے راہیں آسان ہورہی ہیں۔ یہ خوف پہلے گھر سے اور بعد میں سماج کے تمام شعبوں سے اُٹھ چکاہے ۔ آخر کیوں نہیں، جس گاگھرکے تمام افراد، مائیں ،بہنیں ، بہو، بچے ، بزرگ سبھی جنسی لذت اور اخلاقی قدروں کی پائمال کرنے والی فلمیں ایک ساتھ دیکھتے ہوں ،وہاں بزرگ اپنی ’’بزرگی‘‘ اور ’’دبدبہ‘‘ کھو نہ ڈالے تو کیا نظروں سے اوجھل خلیفہ وقت کے دبدبے اور عزت ووقار کا مستحق ہوگا؟
ایک اور اہم سبب اس معاشرتی بگاڑ کا یہ ہے کہ جرائم میں ملوث افراد کو حکومتی سطح پر قرار واقعی سزائیں نہیں ملتیں ۔ انصاف کی فراہمی میں پولیس اور عدلیہ کا رول اطمینان بخش نہیں ہوتا۔ پیشیاں گزارتے گزارتے سالہاسال گزرجاتے ہیں ،تب جاکر بھی یا تومجرم صاف بری نکلتاہے یا چند سال کی قید کاٹ کر دوسروں کے لئے قانون اور انصاف کی کلائیاں موڑنے کی مثال بن کر سرخ رو نکلتاہے ۔ایسے میں تابندہ ، صبرینہ ،رومانہ اور اقراء جیسی ہماری بیٹیاں ہوس پرست درندوں سے بچ پائیں تو کیسے ؟
اسباب واضح ہوں تو جرائم اور برائیوں کا سدباب بہتر طور کیا جاسکتاہے ۔اس بارے میں قوانصسکم وھلیکم نارا اور  واَنْذِر عشیرتک الاقربین کی اصل خوداحتسابی سے شروعات کی جاسکتی ہیں ۔ گھریلوماحول اور کردار کی پختگی اس قدرمستحکم ہو کہ باہر برائیوں کی سونامی کے شدید جھٹکوں سے بھی یہ عمارت ہل نہ اُٹھے ورنہ اگر گھر ہی مغرب کا دلدادہ ہو اور ’’صاحب‘ ہرنفسانی خواہش پر زبان پھیرتا رہے تو ظاہرہے یہاں اخلاقیات کا گذر نہیں ہوسکتا ۔ نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلاکت میں ڈالنے والی تین باتیں فرمائیں:
(۱)-ایسی خواہش جس کا انسان تابع اور غلام بن کر رہ جائے ۔
(۲)-ایسی حرص جسے مقتداء اور پیشوا مان لیا جائے ، اور
(۳)-خودپسندی ۔فرمایا یہ بیماری تینوں میں زیادہ خطرناک ہے ،جب تک ان تینوں بیماریوں کا قلع قمع نہ ہو ،گھر اور ایمان کی تندرستی نہیں ہوسکتی ۔
پھر اسی پر بس نہیں کیا جاسکتا کہ آپ نے اپنے آپ کو ،اپنے افراد خانہ کو فتنوں سے بچایا ہے ۔ باہر سڑاند ہے ، عفونت ہے اور اخلاقی اور جنسی انارکی کے جراثیم اس پر پنپ رہے ہیں ۔ آپ نے حفظانِ صحت کے تمام تدابیر اختیار کرکے اپنے گھریلو ماحول کو صاف ستھرا رکھا ہے مگر کواڑبند کرکے بھی آپ گھرمیں رہیں ممکن نہیں آپ اس متعدد بیماری سے بچ سکتے ہیں جو باہر دوسروں کے دروازوں پر پڑی غلاظت کے ڈھیروں سے پھیل رہی ہے ۔ اس امرحق کو اللہ تعالیٰ اس آیت میں کس بلیغ انداز میں واضح کررہاہے۔…اور بچواس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف ان ہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو ۔
یہ سوچ کہ معروف کو اتنا عام کرو کہ منکرات خودبخود جب جائیں گے ، تمام انبیاء کرام ؑ،رسول کریمؐ اور خلفائے راشدینؓ کی زندگیوں سے میل نہیں کھاتا ۔ منکرات کو دبانے کے لئے شریر قوتوں کے ساتھ بہرحال پنجہ آزمائی ناگزیر ہے ۔ سوسائٹی میں بہرحال ایسے گروہ ضرور ہونے چاہیں جو منکرات کے خلاف بیزاری کا ماحول بنائیں تاکہ کھلے عام کسی کی اہمیت نہ ہو کہ وہ سوسائٹی کے اخلاقی ماحول کو تباہ کرے ۔ معاشرے کی مجموعی بھلائی کے لئے نظام عدل ایسا ہو کہ جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف سخت سے سخت سزائیں دی جائیں ، انصاف سستا ہو اور بروقت ہو ، جسے آج کی اصطلاح میں Speedy Trial کہاجاتاہے ۔ اسلام میں سخت سزائیں نہ صرف مجرم سے اس زیادتی کا بدلہ لینے جو اس نے مظلوم شخص اورمعاشرے کے ساتھ کی ہے بلکہ اعادہ جرم سے بازرکھنے اوراس کو عبرت بنادینے کے لئے دی جاتی ہیں ۔اسلامی قانون پر عمل درآمدکرکے ہی دلی میں پیش آمدہ واقعات کوروکاجاسکتاہے ۔یہ گونج بھارت کے پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی ہے اور دل کو پا ش پا ش اور جگر کو زخمی کر دینے والی دلی ریپ کے ضمن میںحالیہ دنوں جب شسما سوراج اور جیا بچن جب مجرمین کے خلاف پھانسی کی سزا کا مطالبہ کررہی تھیں تو وہ بزبان حال وقال اسلام کی حقانیت کا نادانستہ طور اعتراف بھی کررہی تھی ۔

courtesy: Kashmir Uzma Srinagar

No comments:

Post a Comment