متروکاتِ سخن
اردو کے کچھ الفاظ ایسے ہیں جو متروک تو نہیں ہوئے لیکن ان کا استعمال محدود ہوگیا ہے۔ کوئی استعمال کر بیٹھے تو مطلب پوچھنا پڑتا ہے۔ حالانکہ یہی الفاظ کبھی عام بول چال میں شامل تھے۔ گزشتہ دنوں بارش رک جانے کے بعد بھی چھجے سے پانی ٹپک رہا تھا تو ہمارے ایک ساتھی نے کہا ’’اولتی‘‘ ٹپک رہی ہے۔ عرصے بعد یہ لفظ سنا تھا، خوشی ہوئی کہ ابھی اس کا استعمال ہے۔ اولتی ہندی سے اردو میں آئی ہے اور مونث ہے۔ مطلب اس کا واضح ہے کہ سائبان یا چھت کا وہ کنارہ جہاں سے بارش کا پانی نیچے گرتا ہے۔ ایک محاورہ ہے ’’اولتی کا پانی یلینڈی نہیں چڑھتا‘‘۔ لیجیے ایک اور مشکل لفظ آگیا۔ یلینڈی جھونپڑی (یا جھوپڑی) کی لکڑی کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کمینہ شرافت کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ اسی طرح ایک ناممکن امر کی نسبت کہتے ہیں۔ یہ شعر دیکھیے:
دل کو اس سرو کے یہ اشک کریں کیا پانی
اولتی کا تو یلینڈی نہیں چڑھتا پانی
اسی ضمن میں ایک لفظ ’’اُول‘‘ پر نظر پڑی۔ اس کو تو بالکل ہی متروک جانیے کہ اب پڑھنے، سننے میں نہیں آتا۔ یہ لفظ ہندی میں مونث ہے لیکن امیر مینائی نے امیراللغات میں مذکر لکھا ہے۔ مطلب ہے ضمانت۔ روپیہ ادا نہ ہونے یا کسی وعدے کے ایفا تک اپنے کسی عزیز کو ضمانت کے طور پر کسی کے حوالے کردیتے ہیں، اسی کو اُول کہتے ہیں۔ داغ دہلوی مزے میں آکر کہتے ہیں:
آنے کا وعدہ کرتے ہو کیا اس کا اعتبار
بلوا دو اپنی اُول میں میرے رقیب کو
اُول دینا، رکھنا، لینا کے ساتھ۔ ایک مصرع ہے
جان لینے کے لیے اُول میں دل رکھتے ہیں
اُول کے مطلب سے خواہ واقف نہ ہوں لیکن یہ عمل گاؤں، دیہات میں تو بہت عام ہے۔ کسی کسان یا مزدور پر قرض چڑھ جائے تو زمیندار، وڈیرے یا جاگیردار پورے پورے خاندان کو بطور ضمانت رکھ لیتے ہیں۔ بھٹہ مزدور بھی ضبط کرلیے جاتے ہیں اور پھر کبھی کبھی عدالت اپنا نمائندہ بھیج کر رہائی دلواتی ہے، لیکن جنہوں نے قید میں رکھا تھا، ان کو یہی کارروائی دوہرانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اُول ان معنیٰ میں تو لغت میں رہ گیا لیکن ’’اول جلول‘‘ کا استعمال عام ہے۔ یہ ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کا حلیہ خراب ہو۔
لاہور سے جناب افتخار مجاز نے پوچھا ہے کہ اکثر ’’نظر نواز‘‘ ہوتا ہے ادیبہ، شاعرہ، محققہ، دانشورہ، لکھاریہ، صحافیہ، یا پھر خاتون شاعرہ، خاتون ادیبہ، خاتون دانشورہ وغیرہ۔ درست کیا ہے؟ بھائی مجاز، حقیقت تو یہ ہے کہ سوال مشکل ہے۔ یوں بھی خواتین کے بارے میں ہے۔ ادیبہ، شاعرہ، لکھاریہ، محققہ سے ظاہر ہے کہ یہ کسی خاتون کی صفات ہیں۔ شاعرہ، ادیبہ وغیرہ کے ساتھ خاتون کا سابقہ تو مضحکہ خیز ہے۔ جہاں تک دانشورہ، لکھاریہ، صحافیہ کا تعلق ہے تو یہ نامانوس الفاظ ہیں۔ بہتر ہے کہ ان سے پہلے خاتون لگا دیا جائے۔ اور محققہ تو اتنا ثقیل لفظ ہے کہ خواتین سے ادائیگی بھی مشکل ہوگی۔ بہتر ہے کہ اس میں بھی خاتون کا سابقہ لگا دیا جائے۔ لیکن افتخار مجاز کس کھکھیڑ میں پڑتے ہیں۔
گزشتہ دنوں انجمن ترقی اردو کی جاری کردہ ایک اطلاع نظر نواز ہوئی۔ یہ پریس ریلیز انجمن کے شعبۂ نشرواشاعت نے بغرضِ اشاعت نشر کی تھی۔ خبر کے مطابق ’’اردو زبان کے مایا ناز شاعر‘‘ کے حوالے سے کوئی تقریب ہوئی تھی۔ اب چوں کہ یہ اردو کے ایک ’مایا ناز‘ ادارے کی طرف سے تھی تو ہم شش و پنج میں پڑ گئے کہ یہ ’’مایاناز‘‘ کیا ہوتا ہے۔ غالباً وہ جس پر مایا، ناز کرے۔ مایا تو غالباً ہندی میں روپے، پیسے، دولت وغیرہ کو کہتے ہیں جیسے ایک مثل ہے ’’مایا ری مایا تیرے تین نام۔ پرسو، پرسا، پرس رام‘‘۔ ایک غریب شخص پرس رام کے پاس جب مایا یعنی دولت نہیں تھی تو سب اسے ’’پرسو‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ کچھ پیسہ آگیا تو وہ پرسا صاحب ہوگیا۔ اور جب دولت میں کھیلنے لگا تو احتراماً سب اسے پرس رام کہنے لگے۔ اس پر اُس نے کہا کہ مایا ری مایا تیرے تین نام۔ یہ رواج آج بھی ہے۔ کوئی اللہ دتہ صرف ’دتو‘ کہلاتا ہے، کچھ پیسہ آجائے تو اللہ دتہ، اور جب شہرت و منصب حاصل ہوجائے تو خود ہی والدین کے رکھے ہوئے نام میں تبدیلی کرکے ’’اے ڈی اظہر‘‘ یا اے ڈی خواجہ ہوجاتا ہے۔ لیکن صاحب، کسی شاعر و ادیب کا مایا ناز ہونا سمجھ میں نہیں آیا۔ غالبا یہ ’’مایۂ ناز‘‘ ہوگا۔ شاعروں اور ادیبوں کے پاس صرف یہی ناز رہ جاتا ہے، مایا تو عموماً کترا کر نکل جاتی ہے۔
سنسکرت میں مایا خدا کی قدرت کو بھی کہتے ہیں۔ رحم، دَیا، کرپا کو بھی۔۔۔ اور دھوکا، فریب، دھن دولت کو بھی۔ مایا جال تو اردو میں بھی مستعمل ہے۔ تلسی داس کا یہ مصرع تو سنا ہوگا
مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ
انجمن ترقی اردو کے ذمے داران اپنے ادارے سے جاری ہونے والی پریس ریلیز پر خود بھی ایک نظر ڈال لیا کریں۔ رہی بات ’’مایۂ ناز‘‘ کی، تو اس کا مطلب ہے فخر و ناز کا سبب۔ مصحفی کا شعرہے:
ہوش کا اس کی میں کشتہ ہوں کہ وہ مایۂ ناز
شب رہا گھر مرے اور غیر نے جانا نہ رہا
مایہ کثیر المعنیٰ لفظ ہے اور اس کا مطلب بھی پونجی، مقدار، سرمایہ وغیرہ ہے۔
اپنے صحافی بھائیوں، کمپوزروں اور پروف پڑھنے والوں کی توجہ کے لیے۔ شبہ، تہ، وجیہ وغیرہ میں غیر ضروری طور پر ایک ’ہ‘ بڑھا دی جاتی ہے یعنی شبہہ، تہہ، وجیہہ وغیرہ لکھا جارہا ہے، یہ غلط ہے۔ خاص طور پر اگر وجیہہ لکھا جائے تو یہ وجیہ کی مونث بن جاتی ہے، یعنی وجی ہہ۔ تہ تہے پڑھا جاتا ہے۔
ہم نے اب تک ’’ہڑبونگ‘‘ پڑھا اور بولا۔ اس میں ’ڑ‘ کا استعمال ’’ہڑ‘‘ کا مزہ دیتا ہے لیکن لغت کہتی ہے کہ یہ ’’ہربونگ‘‘ ہے۔ اور ہندی سے اردو میں آیا ہے۔ مطلب ہے اندھیر، بدنظمی، شورش وغیرہ۔ کہیں دھماکا ہوجائے تو ہر طرف ہربونگ مچ جاتا ہے۔ ویسے ہم اس کو مونث ہی سمجھتے رہے۔ واجد علی شاہ اختر کا شعر ہے:
بزم میں سر پہ قیامت کو اٹھا رکھا ہے
یار لوگوں نے تو ہربونگ مچا رکھا ہے
ہربونگ بھیڑ بھاڑ کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ شعر دیکھیے:
جا نہیں سکتی نگاہ شوق تک
اس گلی میں اس قدر ہربونگ ہے
ہم پھر اصرار کریں گے کہ ہر بونگ میں ’ڑ‘ ہی مزا دیتاہے، ورنہ اس کے بغیر ہڑبونگ کا پورا تصور ہی نہیں آتا۔
No comments:
Post a Comment