Search This Blog
Showing posts with label ECONOMICS. Show all posts
Showing posts with label ECONOMICS. Show all posts
Friday, 18 November 2016
Tuesday, 17 March 2015
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت تاجر
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت تاجر
از: مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف واستاذ جامعہ فاروقیہ کراچی
کائنات میں بسنے والے ہر ہر فرد
کی کامل رہبری کے لیے اللہ رب العزت کی طرف سے رحمة
للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا
گیا، سب سے آخر میں بھیج کر، قیامت تک کے لیے
آنجناب کے سر پر تمام جہانوں کی سرداری ونبوت کا تاج رکھ کر اعلان کر
دیا گیاکہ اے دنیا بھر میں بسنے والے انسانو! اپنی
زندگی کو بہتر سے بہتر اور پُرسکون بنانا چاہتے ہو تو تمہارے لیے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی
مبارک ہستی میں بہترین نمونہ موجود ہے(الاحزاب:۲۱) ان سے رہنمائی حاصل کرو اور دنیا
وآخرت کی ابدی خوشیوں اور نعمتوں کو اپنا مقدر بناوٴ، گویا
کہ اس اعلان میں دنیا میں بسنے والے ہر ہر انسان کو دعوت ِعام دی
گئی ہے کہ جہاں ہو، جس شعبے میں ہو، جس قسم کی رہنمائی
چاہتے ہو، جس وقت چاہتے ہو، تمہیں مایوسی نہ ہو گی، تمہیں
تمہاری مطلوبہ چیز سے متعلق مکمل رہنمائی ملے گی، شرط یہ
ہے کہ تم میں طلبِ صادق ہو، چنانچہ! تاجر ہو یا کاشتکار،شریک ہو
یا مضارب، مزدور ہو یا کوئی بھی محنت کَش، ماں ہو یا
باپ، بیٹا ہو یا بیٹی، میاں ہو یا بیوی،
مسافر ہو یا مقیم، صحت مند ہو یا مریض، شہری ہو یا
دیہاتی، پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ؛ اگر وہ چاہے کہ میرے لیے
میرے شعبے میں رہنمائی ملے، تو اس کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک
ہستی میں نمونہ موجود ہے، مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ
تعالیٰ نے ہر شخص کے سامنے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کھڑا کیا
ہے کہ میرے اس محبوب کو دیکھو، تمہیں ہر چیز ملے گی،
اپنے سے متعلق روشنی حاصل کرو اور اس پر عمل پیرا ہو کر اللہ کے محبوب
بن جاوٴ، تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تشریح
میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”ھٰذہ
الآیة الکریمة أصلٌ کبیرٌ في التأسّي برسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم في أقوالہ، وأفعالہ، وأحوالہ“ (تفسیر ابن کثیر، سورة
الأحزاب:۳۱، ۶/۳۹۱)
کہ یہ آیت کریمہ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے
اقوال، افعال اور احوال کی اتباع کرنے میں بہت بڑی بنیادی
حیثیت رکھتی ہے۔
یہی
وجہ ہے کہ علماء امت نے امتِ محمدیہ کی آسانی اور سہولت کی
خاطر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے ہر ہر پہلو کو پوری طرح
واضح کرنے کے لیے خوب سے خوب محنت کی، بے شمار کتب تصنیف کیں؛
تا کہ کوئی بھی شخص اپنے شعبے سے متعلق جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک
زندگی کو دیکھنا چاہے تو اسے بغیر دقّت کے آپ علیہ الصلاة
والسلام کی تعلیمات معلوم ہو سکیں، جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع
کرنا نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کا ہم پر حق بھی ہے، اور محبت کا تقاضا بھی، اور یہ
بات بھی پوری طرح واضح رہنی چاہیے کہ یہ حق اور
تقاضا صرف ماہِ ربیع الاول کے پہلے بارہ دن یاپورے مہینے کے لیے
ہی نہیں؛ بلکہ پوری زندگی اور زندگی کے ہر ہر لمحے
کے لیے ہے۔
ان
سطور سے مقصود نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ طیبہ کو سمیٹنا
نہیں ہے؛ بلکہ صرف آپ علیہ الصلاة والسلام کی سیرتِ طیبہ
سے تجارت کے پہلو کو واضح کرنا مقصود ہے،آپ علیہ الصلاة والسلام نے تجارت کا
پیشہ اپنایا اور رزقِ حلال سے اپنی زندگی کا رشتہ اُستوار
رکھا، نبوت کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی حیات ِ مبارکہ کے دو حصے ہیں، ایک: نبوت ملنے سے
قبل کا اوردوسرا: نبوت ملنے کے بعد کا، اول الذکر کا دورانیہ چالیس
سال ہے اور ثانی الذکر کادورانیہ تیئس سال، اس دوسرے حصے کے پھر
دو حصے ہیں، ایک: مکی دور اور دوسرا: مدنی دور۔
نبوت سے قبل کی معاشی کیفیت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوت سے پہلے
والا دور مالی اور معاشی اعتبار سے کوئی خوش الحال دور نہیں
تھا؛ لیکن اس کے برعکس یہ کہنا بھی درست نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی زیادہ
مفلوک الحال زندگی بسرکر رہے تھے؛ البتہ یہ ضرور تھا کہ آنجناب بچپن
سے ہی محنت ومشقت کر کے اپنی مدد آپ ضروریاتِ زندگی پورا
کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔
والد کی طرف سے ملنے والی میراث
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش
ہوئی تو آپ کے سرسے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، ان کی طرف سے
بطورِ میراث بھی کوئی جائیداد آپ کی طرف منتقل نہیں
ہوئی تھی، جیسا کہ کتب ِ سیرت میں اس کی تفصیل
میں صرف یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میراث
میں صرف پانچ اونٹ، چند بکریاں اور ایک باندی ملی،
جس کا نام ”ام ایمن“ تھا، (اس باندی کو بھی جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ
رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت یعنی: پچیس سال کی
عمر میں آزاد کر دیا تھا) اس کے علاوہ مزید کوئی چیز
میراث میں نہ ملی تھی، ملاحظہ ہو:
”ترک
عبدُ اللّٰہ بنُ عبدِ المطلب أمَ أیمنَ وخمسةَ أحمالِ أوارکَ، یعني:
تأکل الأراک، وقطعة غنم، فورث ذٰلک رسول اللّٰہ صلی اللہ
علیہ وسلم “․ (الطبقات الکبریٰ لابن
سعد، ذکر وفات عبد اللہ بن عبد المطلب: ۱/۸۰)
میراث
میں ملنے والی اشیاء اس قابل نہ تھیں کہ آپ کی
کفالت کے لیے کافی ہو جاتی، یہی وجہ تھی کہ دیہاتی
علاقوں سے آکر جو عورتیں بچوں کو پرورش اور تربیت کے لیے لے جایا
کرتی تھیں، آپ علیہ الصلاة والسلام کی طرف ان میں
سے کسی کا بھی رجحان آپ کی طرف نہیں ہوا کہ یہ تو یتیم
اور غریب بچہ ہے،اس کی پرورش کرنے پر ہمیں اس کی والدہ کی
طرف سے کچھ خاص معاوضہ نہ مل سکے گا، اور حضرت حلیمہ سعدیہ رضی
اللہ عنہا نے جو آپ علیہ الصلاة والسلام کا انتخاب کیا تھا، وہ بھی
ابتداء نہیں کیا تھا؛ بلکہ جب ان کے لیے کوئی اور بچہ نہ
بچا ، تو پھر ان کو خیال آیا چلو خالی ہاتھ واپس جانے کے بجائے
اس یتیم بچے کو ہی لے جانا چاہیے۔
دادا اور چچا کی کفالت میں
ان
ابتدائی دو سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ
کے دادا عبد المطلب کرتے رہے، دو سال کے بعد آپ کے دادا بھی اس دنیا
سے رخصت ہو گئے، دادا کے انتقال کے بعد آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت
اپنے ذمہ لے لی، ابو طالب آپ کے حقیقی چچا تھے، جو بہت ہی
ذوق وشوق اور محبت سے آپ کی پرورش کرتے رہے اور آپ کی ضروریات
پوری کرنے کی اپنی مقدور بھر سعی کرتے رہے؛ چنانچہ ! آپ
کے چچا جب تجارت کی غرض سے دوسرے شہروں میں جاتے تو اپنے بھتیجے
کو بھی ہمراہ لے جاتے۔
بکریاں چرانا
مکہ مکرمہ میں حصولِ معاش کے لیے
عام طور پر گلہ بانی اور تجارت عام تھی؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ
مبارکہ کی ابتداء میں ہی اپنے معاش کے بارے میں از خود
فکر کی، ابتداء ً اہلِ مکہ کی بکریاں اجرت پر چراتے تھے، بعد میں
تجارت کا پیشہ بھی اختیار کیا، اور یہ کوئی عیب
کی بات نہیں تھی؛ بلکہ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت
اور تواضع کی کھلی دلیل ہے؛ اس لیے کہ بکریاں چرانے
والے شخص میں جفاکشی، تحمل وبردباری اور نرم دلی پیدا
ہو جاتی ہے؛ اس لیے کہ بکریاں چرانا معمولی کام نہیں
ہے؛ بلکہ بہت ہی زیادہ ہوشیاری اور بیدار مغزی
والا کام ہے؛ اس لیے کہ بکریاں بہت کمزور مخلوق ہوتی ہیں،
تیز اور پھرتیلی ہوتی ہیں، انھیں قابو میں
رکھنے کے لیے بھی خوب پھرتی کی ضرورت ہوتی ہے، دوسری
بات یہ ہے کہ اس جانور کے قابو سے باہر ہونے کی صورت میں ان پر
غصہ اتارنا بھی ممکن نہیں، یعنی: غصہ کی وجہ سے مار
بھی نہیں سکتے؛ کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں، اس بنا
پر بکریاں چرانے والوں میں کافی تحمل پیدا ہو جاتا ہے، یہی
وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے بکریاں چرائی
ہیں، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ما
بعث اللہ نبیاً إلّا رعیٰ الغنمَ، فقال أصحابُہ: وأنتَ؟ فقال:
نعم! کنتُ أرعاھا علیٰ قَراریط لأھلِ مکةَ․ (صحیح البخاري، کتاب الإجارات،
باب رعی الغنم علی قراریط، رقم الحدیث: ۲۲۶۲)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ نے جو بھی نبی بھیجا، اس نے بکریاں ضرور چرائیں،
صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا
آپ نے بھی ؟ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے جواب دیا: ہاں! میں بھی مکہ والوں کی
بکریاں قراریط پر چراتا تھا۔
”قراریط“ سے کیا مراد ہے؟
اس میں اختلاف ہے ، بعض کا قول یہ ہے کہ یہ درہم یا دینار
کے ایک ٹکڑے کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ بنے گا کہ کچھ قراریط
کے عوض بکریاں چرائیں، اور بعض کا قول ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کے ایک
محلہ ”جیاد“کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ مقام قراریط
میں بکریاں چرائیں، علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسی قول
کو ترجیح دی ہے کہ یہ ایک جگہ کا نام ہے۔(التوضیح
لشرح الجامع الصحیح ، کتاب الإجارات، باب رعی الغنم، رقم الحدیث:
۲۲۶۲، ۱۵/
۳۵، ۳۶)
اسی طرح ایک بار نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ جنگل تشریف لے گئے، صحابہ بیریاں توڑ توڑ کر کھانے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو خوب سیاہ ہوں وہ کھاوٴ، وہ زیادہ مزے کی ہوتی ہیں،
یہ میرا اس زمانے کاتجربہ ہے، جب میں بچپن میں یہاں
بکریاں چرایا کرتا تھا۔ (صحیح
ابن حبان، کتاب الإجارة، ذکر العلة التي من أجلھا قال صلی اللہ علیہ
وسلم للکباث الأسود: إنہ أطیب من غیرہ، رقم الحدیث: ۵۱۴۴، ۱۱/۵۴۴)
ملک ِ شام کی طرف پہلا سفر
نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے
شام کی طرف دو سفر کیے، پہلا: اپنے چچا کے ہمراہ؛ لیکن اس سفر میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطورِ
تاجر شریک نہ تھے؛بلکہ محض تجارتی تجربات حاصل کرنے کے لیے آپ
کے چچا نے آپ کو ساتھ لیا تھا، اسی سفر میں بحیرا راہب
والا مشہور قصہ پیش آیا، جس کے کہنے پر آپ کے چچا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حفاظت کی
خاطر مکہ واپس بھیج دیا۔ (الطبقات
الکبریٰ، ذکر أبي طالب وضمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
إلیہ، وخروجہ معہ إلی الشام في المرة الأولی: ۱/۹۹)
ملکِ شام کی طرف دوسرا سفر
اور دوسرا سفر: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تاجر
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامان لے کر اجرت پر کیا۔قصہ
کچھ اس طرح پیش آیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس برس
کے ہوگئے تو آپ کے چچا ابو طالب نے کہا کہ اے بھتیجے! میں ایسا
شخص ہوں کہ میرے پاس مال نہیں ہے، زمانہ کی سختیاں ہم پر
بڑھتی جا رہی ہیں، تمہاری قوم کا شام کی طرف سفر
کرنے کا وقت قریب ہے، خدیجہ بنت خویلد اپنا تجارتی سامان
دوسروں کو دے کر بھیجا کرتی ہے، تم بھی اجرت پر اس کا سامان لے
جاوٴ، اس سے تمہیں معقول معاوضہ مل جائے گا، یہ گفتگو حضرت خدیجہ
کو معلوم ہوئی تو اس نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیج
کر بلوایا کہ جتنا معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں، آپ کو اس سے دوگنا
دوں گی، اس پر ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ یہ
وہ رزق ہے جو اللہ نے تمہاری جانب کھینچ کر بھیجا ہے، اس کے بعد
آپ صلی اللہ علیہ وسلم قافلے
کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، آپ کے ہمراہ حضرت خدیجہ کا غلام ”میسرہ
“بھی تھا، جب قافلہ شام کے شہر بصریٰ میں پہنچا تو وہاں
نسطورا راہب نے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم میں نبوت کی علامات پہچان کر آپ کے نبی آخر
الزمان ہونے کی پیشین گوئی کی۔
دوسرا اہم واقعہ یہ پیش آیا
کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے تجارتی سامان فروخت کر لیا تو ایک شخص سے کچھ بات چیت
بڑھ گئی، اس نے کہا کہ لات وعزیٰ کی قسم اٹھاوٴ، تو
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: ”مَا حَلَفْتُ بِھِمَا قَطُّ، وَإنّي لَأَمُرُّ فَأَعْرِضُ
عَنْھُمَا“․میں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی،
میں تو ان کے پاس سے گذرتے ہوئے ان سے منہ موڑلیتا ہوں۔اس شخص
نے یہ بات سن کر کہا، حق بات تو وہی ہے، جو تم نے کہی، پھر اس
شخص نے میسرہ سے مخاطب ہو کر کہا: ”ھٰذا
وَاللّٰہِ نَبِيٌ، تَجِدُہ أَحْبَارُنَا مَنْعُوْتاً فِيْ
کُتُبِھِمْ“۔خدا کی قسم یہ تو وہی نبی ہے، جس کی صفات
ہمارے علماء کتابوں میں لکھی ہوئی پاتے ہیں۔
تیسرا واقعہ یہ پیش
آیا کہ میسرہ نے دیکھا کہ جب تیز گرمی ہوتی
تودو فرشتے نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم پر سایہ کر رہے ہوتے تھے، یہ سب کچھ دیکھ کر میسرہ
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
بہت ہی زیادہ متاثر تھا، واپسی میں ظہر کے وقت جب واپس
پہنچے تو حضرت خدیجہ نے اپنے بالاخانے میں بیٹھے بیٹھے دیکھا
کہ نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم اونٹ پر بیٹھے اس طرح تشریف لا رہے تھے کہ دو فرشتوں
نے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا، حضرت خدیجہ اور ان کے ساتھ بیٹھی
ہوئی عورتوں نے یہ منظر دیکھ کر بہت تعجب کیا، اور پھر جب
میسرہ کی زبانی سفر کے عجائب، نفعِ کثیر اور نسطورا راہب
اور اس جھگڑا کرنے والے شخص کی باتیں سنیں تو بہت زیادہ
متاثر ہوئیں، حضرت خدیجہ بہت زیادہ دور اندیش، مستقل
مزاج، شریف، با عزت اور بہت مال دار عورت تھیں، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام
بھیج کر نکاح کر لیا، اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر
مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس
سال تھی۔ (ملخّص من الطبقات الکبریٰ،
ذکر خروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی الشام في المرة
الثانیة، ذکر تزویج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجة
بنت خویلد: ۱/۱۰۷-۱۰۹)
یمن کی طرف دو سفر
جو تجارتی اسفار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ
رضی اللہ عنہاکی وجہ سے کیے، ان میں دو سفر یمن کی
طرف بھی تھے، امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں نقل کیا ہے:
”استأجرتْ
خدیجةُ رضوانُ اللّٰہ علیھا رسولَ اللّٰہ صلی اللہ
علیہ وسلم سفرتین إلیٰ جُرَشَ، کل سفرةٍ بقَلوصٍ“․
(المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابة، ومنھم خدیجة
بنت خویلد، رقم الحدیث: ۴۸۳۴، ۳/۲۰۰)
کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کو جرش (یمن کے ایک مقام)کی طرف دو بار تجارت
کے لیے اونٹنیوں کے عوض بھیجا۔
بحرین کی طرف سفر
نبوت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بحرین
کی طرف سفر کرنے کا بھی اشارہ ملتا ہے، وہ اس طرح کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
عرب کے تمام دور دراز مقامات سے وفود حاضر خدمت ہوتے رہے، انھیں وفود میں
بحرین سے وفدِ عبد القیس بھی آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ وفد سے
بحرین کے ایک ایک مقام کا نام لے کر وہاں کے احوال دریافت
فرمائے، تو لوگوں نے تعجب سے پوچھا، کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ تو ہمارے
ملک کے احوال ہم سے بھی زیادہ جانتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں
ارشاد فرمایا: کہ ہاں میں تمہارے ملک میں خوب گھوما
ہوں۔(ملاحظہ فرمائیں: مسند أحمد بن حنبل، بقیة حدیث وفد
عبد القیس، رقم الحدیث: ۱۵۵۵۹، ۲۴/۳۲۷)
تجارتی اسفار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائلِ حمیدہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر
مبارک کے پچیسویں سال تک تجارتی اسفار میں اپنے اخلاقِ کریمانہ،
حسنِ معاملہ، راست بازی، صدق ودیانت کی وجہ سے اتنے زیادہ
مشہور ہو چکے تھے کہ خلقِ خدا میں آپ ”صادق وامین “کے لقب سے مشہور ہو
گئے تھے، لوگ کُھلے اعتماد کے ساتھ آپ کے پاس بے دھڑک اپنی امانتیں رکھواتے
تھے، انھیں خصائل کی بنا پر حضرت خدیجہ بن خویلد رضی
اللہ عنہا کی رغبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف
ہوئی تھی اور پیغام ِ نکاح بھیج دیا تھا۔
لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرنا
تجارتی معاملات کی کامیابی
کے لیے معاملات کی صفائی اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز
اہم ترین کردار ادا کرتا ہے اور یہ صفات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجہٴ
اتم موجود تھیں؛ چنانچہ حضرت قیس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زمانہٴ
جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم شرکاء میں
سے بہترین شریک تھے، نہ لڑائی کرتے تھے اور نہ ہی جھگڑا
کرتے تھے۔ (الإصابة في تمییز الصحابة، القاف بعدھا الیاء،
۵/۴۷۱)
بحث وتکرار سے اجتناب
مسلمان تاجر کی صفات میں
سے ایک صفت معاملات کے وقت شور شرابا اور آپس کی بے جا بحث وتکرار سے
بچنا بھی ہے، اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے اس وصف عظیم کی گواہی زمانہٴ نبوت سے
پہلے بھی دی جاتی تھی؛ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سائب رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ
اقدس میں حاضر ہوا تو آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میری
تعریف اور میرا تذکرہ کرنے لگے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میں تمہاری نسبت ان سے زائد واقف ہوں، میں نے کہا : میرے
ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ
سچ فرماتے ہیں، آپ زمانہٴ جاہلیت میں میرے شریک
ہوتے تھے، اور آپ کتنے بہترین شریک ہوتے تھے کہ نہ شور شرابا (بحث
وتکرار) کرتے تھے اور نہ جھگڑا کرتے تھے۔ (سنن
أبي داوٴد، کتاب الأدب، باب في کراھیة المراء، رقم الحدیث: ۴۸۳۸)
ایفائے وعدہ
وعدوں کی پاسداری تجّار کی
بہت بڑی خوبی شمار ہوتی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر یہ
وصف کیسا تھا؟ اس بارے میں ”حضرت عبد اللہ بن ابی حمسآء رجی
اللہ عنہ “ سے روایت ہے کہ میں نے نبوت ملنے سے قبل آپ سے خرید
وفروخت کا ایک معاملہ کیا، خریدی گئی شئے کی
قیمت میں سے کچھ رقم میرے ذمہ باقی رہ گئی، تو میں
نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
وعدہ کیا کہ میں کل اسی جگہ آ کر آپ کو بقیہ رقم ادا کر
دوں گا، پھر میں بھول گیا، اور مجھے تین روز بعد یاد آیا،
میں اس جگہ گیا، تو دیکھا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ
تشریف فرما ہیں، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے نوجوان! تم نے مجھے اذیت پہنچائی،
میں تین دن سے اسی جگہ پر تمہارا منتظر ہوں۔ (سنن أبي داوٴد،
کتاب الأدب، باب في العدة، رقم الحدیث: ۴۹۹۸)
نبوت کے بعد معاشی صورتِ حال
جناب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت مل جانے
کے بعد حصول معاش کے لیے کچھ کیا یا نہیں؟ اس بارے میں
بالاتفاق قولِ فیصل یہ ہے کہ بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی
محنت اور توجہ صرف اور صرف احیائے دینِ متین کی طرف مبذول
کر دی تھی، بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی
قسم کی معاشی مشغولیت کا ثبوت نہیں ملتاہے؛ البتہ ! دین
کے دیگر شعبوں کی طرف راہنمائی کی طرح اس شعبے کی
بھی بہت واضح اور تفصیلی انداز میں راہنمائی کی،
اس میدان سے کامیابی کے ساتھ گذرجانے والوں کو جہاں بہت بڑی
بڑی بشارتیں سنائیں تو وہاں اس میدان کے چور، ڈاکووٴں
اور خائنوں کو وعیدیں سنا سنا کر انھیں لوٹ آنے کی طرف بھی
متوجہ کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کا
جائزہ لیا جائے تو عبادت کے احکام اور معاملات کے احکام میں ایک
اور تین کی نسبت نظر آئے گی، یعنی : عبادات سے
متعلق احکام ایک ربع اور معاملات سے متعلق احکام تین ربع ملیں
گے؛ چنانچہ کتبِ فقہ میں اہم ترین کتاب” ہدایہ “کو دیکھ لیا
جائے کہ اس کی چار ضخیم جلدوں میں سے صرف ایک جلد عبادات
کے بارے میں ہے اور تین جلدیں معاملات کے بارے میں ہیں،
اسی سے شعبہٴ معاملات کی اہمیت کا اندازہ کر لیا
جائے۔
ایک غلط ذہن کی اصلاح
موجودہ دور میں ایک طبقہ
کم عقلی اور کم علمی کی وجہ سے یہ ذہن رکھتاہے کہ محنت
کرنے اور کمانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ
تو رزق دینے میں ہماری محنت کے محتاج نہیں ہیں، وہ
ایسے بھی دینے پر قادر ہیں، لہٰذا ہمیں کچھ
کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہم تو اعمال کے ذریعے اللہ سے لیں
گے، اسباب کے ذریعے نہیں۔
تو اس بارے میں اچھی طرح
جان لینا چاہیے کہ ایک ہے اسباب کا اختیار کرنا اور انھیں
استعمال کرنا، اور ایک ہے ان اسباب کو دل میں اتارنا، اور ان پر یقین
رکھنا؛ پہلی چیز کو اپنانا محمود اور مطلوب ہے اور دوسری چیز
کو اپنانا مذموم ہے، ہماری محنت کا رُخ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان
اسباب کی محبت اور یقین دل سے نکالیں اور اس کے برعکس یقین
اللہ تعالیٰ پر رکھیں کہ ہماری ہر طرح کی ضروریات
پوری کرنے والی ذات؛ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، وہ
چاہے تو اسباب کے ذریعے ہماری حاجات وضروریات پوری کر دے
اور چاہے تو ان اسباب کے بغیر محض اپنی قدرت سے ہماری ضروریات
وحاجات پوری کر دے، وہ اس پر پوری طرح قادر اور خود مختار ہے؛ البتہ ہم
دنیا میں اسباب اختیار کرنے کے پابند ہیں؛ تاکہ بوقتِ
حاجت وضرورت ہماری نگاہ وتوجہ غیر اللہ کی طرف نہ اٹھ
جائے۔
اس بات میں تو کوئی شک
وشبہ ہے ہی نہیں کہ اللہ رب العزت ہماری محنتوں کے محتاج نہیں
ہیں؛ لیکن کیا شریعت کا مزاج اور منشا بھی یہی
ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں، بالخصوص جب اس ترکِ اسباب کا
نتیجہ یہ نکلتا ہو کہ بیوی، بچوں اور والدین کے
حقوق تلف ہوتے ہیں اور یہ غیروں کے اموال کی طرف حرص وہوس
کے ساتھ دیکھتا رہتا ہے، تو یاد رکھیں کہ اس طرح کے لوگوں کو شریعت
اس طرزِ عمل کی تعلیم نہیں دیتی؛ بلکہ سیرتِ
نبوی اور سیرتِ صحابہ تو حلال طریقے سے کسب ِ معاش کی تعلیم
دیتی ہے، ایسے بے شمار واقعات ہیں جن سے یہ سبق ملتا
ہے کہ کماکر کھاوٴ، دوسرے کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاوٴ، یہ
بات یاد رکھنے کی ہے کہ تونگری کی وجہ سے آج کے دور میں
ہمارا دین وایمان محفوظ رہے گا، ورنہ اندیشہ ہے کہ اختیاری
فقر وفاقہ کہیں کفر وشرک کے قریب ہی نہ لے جائے۔ہاں! اولیاء
اللہ اور یقین و توکل کے اعلیٰ درجہ پر فائض لوگوں کا
معاملہ اور ہے۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ذریں
نصائح
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ
فرماتے ہیں کہ گذشتہ زمانہ میں مال کو بُراسمجھا جاتا تھا؛ لیکن
جہاں تک آج کے زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال ودولت مسلمانوں کی ڈھال ہے، حضرت
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایاکہ اگر یہ
درہم ودینار اور روپیہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ سلاطین
وامراء ہمیں رومال بناکر ذلیل وپامال کر ڈالتے، نیز! انہوں نے
فرمایا: کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہو تو اس کو چاہیے
کہ وہ اس کی اصلاح کرے؛ کیوں کہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے
کہ اس میں اگر کوئی محتاج ومفلس ہو گا تو اپنے دین کو اپنے ہاتھ
سے گنوانے والا سب سے پہلا شخص وہی ہو گا۔ (حلیة
الأولیاء طبقات الأصفیاء، سفیان الثوري، ۶/
۳۸۱)
توضیحات شرح مشکاة میں
لکھا ہے: پچھلے زمانہ میں مال ودولت کو ناپسند کیا جاتا تھا، موٴمن
اورمتقی حضرات مال کو مکروہ سمجھتے تھے؛ کیوں کہ عام ماحول زہد وتقویٰ
کا تھا، لوگ غریب و فقیر کو ذلیل وفقیر نہیں سمجھتے
تھے، مالی کمزوری کی وجہ سے اس کے ایمان کو تباہ نہیں
کرتے تھے، نیز بادشاہ اور حکمران بھی اچھے ہوتے تھے، جو غریب کو
سنبھالا دیتے تھے؛ اس لیے لوگ مال ودولت اکٹھا نہیں کرتے تھے
اور اکٹھا کرنے کو معیوب سمجھتے تھے؛ مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے کہ غریب
وفقیر آدمی کو معاشرہ میں ذلیل وحقیر سمجھتے ہیں،
اور پیسے کی بنیاد پر اس کے ایمان کو خریدا جاتا
ہے، نیز حکمران بھی خیر خواہ نہیں رہے، تو نتیجہ یہ
نکلے گا کہ غریب آدمی مالداروں اور حکمرانوں کا دستِ نگر اور دست وپاہ
بن جائے گا، اور ان کے ہاتھ صاف کرنے اور میل کچیل صاف کرنے کے لیے
تولیہ اور رومال بن جائے گا۔
پھر مزید لکھا ہے: جس شخص کے پاس
اس مال میں سے کچھ بھی ہو وہ اس کی اصلاح کرے، مطلب یہ کہ
تھوڑا پیسہ بھی ہو تو اس کو کسی کاروبار میں لگا دے، یہ
اس کی ترقی وبڑھوتری ہے، یا پھر اصلاح کا مطلب یہ
ہے کہ اس کو قناعت کے ساتھ خرچ کرے ، اسراف نہ کرے۔ (۷/۳۷۵، مکتبہ عصریہ، کراچی)
کمائی کے ذرائع
کسبِ معاش کے بہت سے ذرائع ہیں،
ان میں سے کون سا افضل ہے ؟! اس کی تعیین میں سلفِ
صالحین کا اختلاف ہے، اس بارے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا
محمد زکریا صاحب کاندہلوی رحمہ اللہ کی ایک بہترین
کتاب ”فضائل ِ تجارت“ سے خلاصةً کچھ بحث ذیل میں نقل کی جاتی
ہے۔
حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”میرے نزدیک کمائی
کے ذرائع تین ہیں: تجارت، زراعت اور اجارہ۔ اورہر ایک کے
فضائل میں بہت کثرت سے احادیث ہیں، بعض حضرات نے صنعت و حرفت کو
بھی اس میں شامل کیا ہے، جیسا کہ اوپر گذرا۔ میرے
نزدیک وہ ذرائع آمدنی میں نہیں، اسبابِ آمدنی میں
ہے اور آمدنی کے اسباب بہت سے ہیں: ہبہ ہے، میراث ہے، صدقہ ہے،
وغیرہ وغیرہ۔ جنہوں نے اس کو کمائی کے اسباب میں
شمار کیا ، میرے نزدیک صحیح نہیں؛ اس لیے کہ
نرا صنعت وحرفت کمائی نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر ایک شخص کو
جوتے بنانے آتے ہیں یا جوتے بنانے کا پیشہ کرتا ہے، وہ جوتے بنا
بنا کر کوٹھی بھر لے ، اس سے کیا آمدنی ہو گی؟ یا
تو اس کو بیچے گا یا (پھر یہ جوتے) کسی کا نوکر ہو کر اس
کا (مال)بنائے۔یہ دونوں طریقے تجارت یا اجارہ میں آ
گئے، اور اس سے بھی زیادہ قبیح ”جہاد“ کو کمائی کے اسباب
میں شمار کرنا ہے؛ اس لیے کہ جہاد میں اگر کمائی کی
نیت ہو گئی تو جہاد ہی باطل
ہے․․․․․․․․․ میں
پہلے لکھ چکا ہوں کہ میرے نزدیک تجارت افضل ہے، وہ بحیثیت
پیشہ کے ہے؛ اس لیے کہ تجارت میں آدمی اپنے اوقات کا مالک
ہوتا ہے، تعلیم وتعلم، تبلیغ، افتاء وغیرہ کی خدمت بھی
کر سکتا ہے، لہٰذا اگر اجارہ دینی کاموں کے لیے ہوتو وہ
تجارت سے بھی افضل ہے؛ اس لیے کہ وہ واقعی دین کا کام ہے؛
مگر شرط یہ ہے کہ وہی دین کا کام مقصود ہو اور تنخواہ بدرجہٴ
مجبوری ہے۔ میرے اکابرِ دیوبند کا زیادہ معاملہ اسی
کا رہا، اور اس کا مدار اِس پر ہے کہ کام کو اصل سمجھے اور تنخواہ کو اللہ کا عطیّہ؛اس
لیے اگر کسی جگہ پر کوئی دینی کام کر رہا ہو، تدریس،
افتاء وغیرہ اور اس سے زیادہ کسی دوسرے مدرسہ میں تنخواہ
ملے، تو پہلی جگہ کو محض کثرتِ تنخواہ کی وجہ سے نہ چھوڑے۔میں
نے جملہ اکابر کا یہ معمول بہت اہتمام سے ہمیشہ دیکھا، جس کو آپ
بیتی نمبر۶، صفحہ ۱۵۵ میں لکھوا چکا ہوں کہ انہوں نے
اپنی تنخواہوں کو ہمیشہ اپنی حیثیت سے زیادہ
سمجھا
․․․․․․․․․․․․․․
درحقیقت میرے اکابر کے بہت سے واقعات اس کی تائید میں
ہیں کہ تنخواہ اصل یا معتد بہ چیز نہیں سمجھتے تھے۔
جیسا میں نے اوپر لکھا اور تنخواہ محض عطیہٴ الٰہی
سمجھتے تھے، جو ہم لوگوں میں بالکل مفقود ہے، یہی وہ چیز
ہے جس کی بنا پر میں اجارہٴ تعلیم کو سب انواع سے افضل
لکھا ہے۔
․․․․․․․․․․․․․․․اس
ملازمت کے بعد تجارت افضل ہے؛ اس لیے کہ تاجر اپنے اوقات کا حاکم ہوتا ہے،
وہ تجارت کے ساتھ دوسرے دینی کام تعلیم، تدریس، تبلیغ
وغیرہ بھی کر سکتا ہے، اس کے علاوہ تجارت کی فضیلت میں
مختلف آیات واحادیث ہیں؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ
ہے:
﴿إن
اللّٰہ اشتریٰ من الموٴمنین أنفسھم وأموالھم بأن
لھم الجنة﴾(التوبة: ۱۱۱)
خدا نے موٴمنوں سے ان کی
جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں، (اور اس کے)عوض میں
اُن کے لیے بہشت (تیار) کی ہے۔
اور بھی بہت سی آیات
تجارت کی فضیلت میں ہیں، ان کے علاوہ احادیث میں
ہے:
”التاجرُ
الصدوقُ الأمینُ مع النبیینَ والصدیقینَ والشھدآء“․(سنن
الترمذي، کتاب البیوع، التجار وتسمیة النبي صلی اللہ علیہ
وسلم إیاھم، رقم الحدیث:۱۲۰۹)
سچا، امانت دار تاجر(قیامت میں)
انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔
”إنّ
أَطْیَبَ الْکَسْبِ کَسْبُ التُّجَّارِ الَّذِیْنَ إذَا حَدّثُوْا
لَمْ یَکْذِبوا، وَإذَا ائْتُمِنُوْا لَمْ یَخُوْنُوْا، وإذَا
وَعَدُوا لَمْ یُخْلِفوا، وإذَا اشْتَرَوْا لَمْ یَذُمُّوْا، وَإذَا
بَاعُوا لَمْ یَمْدَحُوْا، وَإذَا کَانَ عَلَیْہِمْ لَمْ یَمْطُلُوا،
وَإذَا کَانَ لَھُمْ لَمْ یُعَسِروا“․(شعب
الإیمان للبیھقي، الرابع والثلاثون من شعب الإیمان وھو باب في
حفظ اللسان، رقم الحدیث: ۴۸۵۴)
بہترین کمائی اُن تاجروں کی
ہے، جو جھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے، وعدہ
خلافی نہیں کرتے اور خریدتے وقت چیز کی مذمت نہیں
کرتے (تا کہ بیچنے والا قیمت کم کر کے دے دے) اور جب (خود) بیچتے
ہیں، تو (بہت زیادہ) تعریف نہیں کرتے (تا کہ زیادہ
ملے) اور اگر ان کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے
اور اگر خود ان کا کسی کے ذمہ نکلتا ہوتو وصول کرنے میں تنگ نہیں
کرتے۔
عن أنس
رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
”التاجِرُ الصَّدُوْقُ تَحْتَ ظِلِّ الْعَرْشِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ“․(اتحاف
الخیرة المھرة بزوائد المسانید العشرة، کتاب الفتن، باب في التلاعن
وتحریم دم المسلم، رقم الحدیث:۷۷۵۲)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچ بولنے والا تاجر قیامت میں
عرش کے سایہ میں ہو گا۔
عن أبي
أمامة رضي اللہ عنہ أنَّ رسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قال:
”إن التاجِرَ إذَا کَانَ فیہ أربعُ خِصَالٍ طَابَ کَسْبُہ، إذا اشْتَریٰ
لَمْ یذُمَّ، وَإذَا بَاعَ لَمْ یَمْدَحْ، وَلَمْ یَدْلُسْ فِي
الْبَیْعِ، وَلَمْ یَحلِفْ فِیْمَا بَیْنَ ذٰلک“․(الترغیب
والترھیب، کتاب البیوع، باب فضل التاجر الأمین والترغیب
في الصدق في المعاملة، رقم الحدیث: ۷۹۷)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا
کہ جب تاجر میں چار باتیں آ جائیں تو اس کی کمائی
پاک ہو جاتی ہے، جب خریدے تو اس چیز کی مذمت نہ کرے اور بیچے
تو (اپنی چیز کی بہت زیادہ) تعریف نہ کرے۔
اور بیچنے میں گڑ بڑ نہ کرے اور خرید و فروخت میں قسم نہ
کھائے۔
وعن حکیم
بن حزامٍ رضي اللہ عنہ أن رسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم
قال: ”اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا، فإنْ
صَدَقَا وَبَیَّنا بُورِکَ لَھُمَا فِيْ بَیْعِھِمَا، وإنْ کَتَمَا
وَکذَبا، فعسیٰ أن یربَحا رِبحاً، ویَمْحَقَا برَکةَ بَیْعِھِمَا“․ (صحیح
البخاري، کتاب البیوع، باب کان البائع بالخیار ھل یجوز البیع، رقم الحدیث: ۲۱۱۴)
حضرت حکیم بن حزام رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ خرید وفروخت کرنے والے کو (بیع توڑنے کا) حق ہے، جب تک وہ اپنی
جگہ سے نہ ہٹیں۔ اگر بائع ومشتری سچ بولیں اور مال اور قیمت
کے عیب اور کھرے کھوٹے ہونے کوبیان کر دیں تو ان کی بیع
میں برکت ہوتی ہے اور اگر عیب کو چھپا لیں اور جھوٹے
اوصاف بتائیں تو شاید کچھ نفع تو کما لیں (لیکن) بیع
کی برکت ختم کر دہتے ہیں۔
قال
المناوي: رجالہ ثقات، ”تِسْعَةُ أَعْشَارِ الرِّزْقِ في التِّجَارَةِ، وَالْعُشْرُ
في المَوَاشِيْ، یعنی: النَّتَاج“․ (نظام
الحکومة النبویة المسمیٰ التراتیب الإداریة،
المقدمة الخامسة: باب ما ذکر في الأسواق، ۲/۱۲)
مناوی فرماتے ہیں: رزق کے
نو حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ جانوروں کی پرورش میں
ہے۔
أخرج
الدیلمي عن ابن عباس رضي اللہ عنہما: ”أَوْصِیْکُمْ بِالتُّجَارِ خَیْرًا،
فإنَّھُمْ بُردُ الآفاق وأُمَنَاءُ اللّٰہِ في الأرض“․(نظام
الحکومة النبویة المسمیٰ التراتیب الإداریة،
المقدمة الخامسة: باب ما ذکر في الأسواق، ۲/۱۲)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے
فرمایا کہ میں تمہیں تاجروں کے ساتھ خیر کے برتاوٴ
کی وصیت کرتا ہوں؛ کیوں کہ یہ لوگ ڈاکیے اور زمین
میں اللہ کے امین ہیں۔
تجارت کے بعد میرے نزدیک
زراعت افضل ہے، زراعت کے متعلق حدیث میں آیا ہے، حضرت انس رضی
اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا کہ : ”کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا
زراعت کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی
جانور کھا لے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔اور مسلم کی
روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اس میں
سے کچھ چوری ہو جائے تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ شمار ہوتا
ہے۔
اور ضرورت کے اعتبار سے بھی
زراعت اہم ہے؛ کیوں کہ اگر زراعت نہ کی جائے تو کھائیں گے کہاں
سے؟ !․․․․․․․․․ باقی
اپنی زمین دوسرے کو دینا، مزارعت کہلاتا ہے، زراعت اور چیز
ہے اور مزارعت اور چیز ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قواعدِ شرعیہ کی
رعایت ہر چیز میں ضروری ہے، جیسا کہ اس بارے میں
أوجز المسالک:۵/ ۲۲۰، باب کراء الأرض میں بہت لمبی
بحث کی گئی ہے۔ اور شرعی حدود کی رعایت ان ہی
تینوں میں نہیں؛ بلکہ دین کے ہر معاملہ میں ضروری
ہے۔․․․․․․․․․․
ان سب کے بعد نہایت ضروری اور اہم امر یہ ہے کہ کسب کے؛ بلکہ ہر
عمل میں شریعتِ مطہرہ کی رعایت ضروری ہے، جس کو احیاء
العلوم: ۲/۶۴ میں مستقل باب کے تحت بیان
کیا ہے؛ چنانچہ امام غزالی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
”بیع اور شراء کے ذریعہ
مال حاصل کرنے کے مسائل سیکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے، جو اس مشغلہ میں
لگا ہوا ہو؛ کیوں کہ طلبِ علم کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس سے ان تمام
مشاغل کا علم طلب کرنا مراد ہو گا، مشغلہ رکھنے والوں کو جن مسائل کی حاجت
ہو۔ اور کسب کرنے والاکسب کے مسائل جاننے کا محتاج ہے اور جب اس سلسلہ کے
احکام جان لے تو معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں سے واقف ہو جائے گا،
لہٰذا ان سے بچے گا، اور ایسے شاذ ونادر مسائل جو باعث اشکال ہوں،ان
کے ہوتے ہوئے معاملہ کرنے میں سوال کر کے علم حاصل کرنے تک توقف کرے گا؛ کیوں
کہ جب کوئی شخص معاملات کو فاسد کرنے والے امور کو اجمالی طور پر نہ
جانے تو اسے یہ معلوم نہیں ہو سکتاکہ میں کس کے بارے میں
توقف کروں اور سوال کر کے اس کو جانوں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ
میں پیشگی علم حاصل نہیں کرتا، اس وقت تک کام کرتا رہوں
گا؛ جب تک کوئی واقعہ پیش نہ آجائے، جب کوئی واقعہ پیش
آئے گا تو معلوم کر لوں گا، تو اس شخص کو جواب دیا جائے گا کہ جب تک تو
اِجمالی طور پر معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں کو نہ جانے گا
تجھے کیسے پتہ چلے گاکہ مجھے فلاں موقع پر معلوم کرنا چاہیے۔
جسے اجمالی علم بھی نہ ہو وہ برابر تصرفات کرتارہے گا اور ان کو صحیح
سمجھتا رہے گا۔ لہٰذا علم تجارت سے اوّلا اس قدر جاننا ضروری ہے
کہ جس سے جائز وناجائز میں تمیز ہو اور یہ پتہ چل سکے کہ کون سا
معاملہ وضاحت کے ساتھ جائز ہے اور صحیح ہے، اور کس میں اشکال
ہے۔“(ملخص من فضائل تجارت، ص: ۴۸-۷۲، مکتبة البشریٰ)
اِن تفصیلات کے بعد ہم سب کے لیے
از حد ضروری ہے کہ ہم حدودِ شرعیہ کے اندر رہتے ہوئے کسبِ معاش کریں،
اور حصول معاش سے قبل اس کا علم شرعی ضرور بالضرور حاصل کر لیں، مبادا
یہ کہ یہ کمائی کل بروزِ قیامت ہمارے لیے وبال بن
جائے اور ہماری آخرت برباد ہو جائے۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت
عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بازار میں وہی
شخص خرید وفروخت کیا کرے، جس نے اپنے اس کاروبار سے متعلق علم حاصل کر
لیا ہو۔
”لَا یَبِیْعُ
فِيْ سُوْقِنَا إلّا مَنْ قَدْ تَفَقَّہَ فِي الدِّیْنِ“․ (سنن الترمذي، کتاب الصلاة، أبواب الوتر،
فضل الصلاة علی النبي، رقم الحدیث: ۴۸۷)
اللہ رب العزت زندگی کے ہر ہر
شعبے میں احکامات معلوم کر کے ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق
عطا فرمائے،آمین
”اللھم انفَعْنا بما علّمْتَنا
وعلِّمْنا ما یَنفَعُنا وارزُقْنا علماً تنفَعُنا بہ“․
اسلامی معاشی ماڈل کے خدوخال
اسلامی معاشی ماڈل کے خدوخال
پروفیسر خورشیداحمد/ ترجمہ: میاں محمد اکرم
اس وقت دنیا میں ہر پانچواں انسان مسلمان ہے۔ آج دنیا میں ایک ارب ۳۰کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں۔ ان میں سے۹۰کروڑ مسلمان ۵۷مسلم مملکتوں اور۴۰کروڑ باقی دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک میں رہتے ہیں۔ وسط ایشیا سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک اور براعظم افریقہ کے بڑے حصے پر مسلم آبادیوں کا ارتکاز ہے، تاہم مسلمان دنیا کے ہرحصے میں موجود ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں کی تعداد ۳کروڑ سے زائد اور شمالی امریکا میں ۷۰لاکھ ہے۔ یورپ اور امریکا میں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔۵۷مسلم ممالک دنیا کے ۲۳فی صد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا کے اہم ترین بری، بحری اور فضائی راستے مسلم دنیا ہی سے گزرتے ہیں۔ مسلم دنیا اور باقی دنیا کا ایک دوسرے پر کافی انحصار ہے۔ مسلم ممالک میں وسائل کی فراوانی ہے لیکن وہ معاشی، اور صنعتی ترقی میں پس ماندہ ہیں۔ ان کے پاس بہت زیادہ مالیاتی وسائل ہیں لیکن ٹکنالوجی، انتظامیات اور پیداوار و ترقی کے جدید طریقوں کے استعمال میں وہ پیچھے ہیں۔ مسلم ممالک کی باہمی تجارت ۱۳فی صد ہے ، جب کہ ۸۷فی صد تجارت بقیہ دنیا کے ساتھ ہوتی ہے۔ زیادہ تر مسلم ممالک ترقی پذیر دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترقیاتی حوالے سے ۵کا تعلق اعلیٰ ۲۵کا تعلق وسط سے ہے ، جب کہ بقیہ ممالک کا تعلق نچلے گروہ سے ہے۔۱
مسلم دنیا کئی صدیوں تک تسلیم شدہ عالم گیر معاشی قوت کی حیثیت سے غالب رہی۔ معاشرتی برتری اور ٹکنالوجی میں ترقی صدیوں تک مسلم ممالک کا امتیازی نشان رہا ہے۔۲ البتہ گذشتہ ۳۰۰برسوں میں معاشی زوال ہوا ہے اور ان کی معاشی طاقت میں کمی و اقع ہوئی ہے۔ مسلم دنیا کے لیے سیاسی اور معاشی طور پر دوبارہ سنبھلنے کا تصور موجودہ دور میں برسرِکار ہوا ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کے لیے بہت سا تنقیدی و فکری کام ہوا ہے کہ کیا خرابی پیدا ہوئی؟ اور مسلم دنیا کیسے دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی حیثیت حاصل کرسکتی ہے؟ اس مناسبت سے اپنی اخلاقی اور نظریاتی ساکھ اور بنیاد کی تلاش اس جدوجہد کاایک حصہ ہے۔۳
اسلام ایک آفاقی دین ہے اور امت مسلمہ ایک عالم گیربرادری ہے۔ ایمان اس کی بنیاد ہے، اور یہی ایمان مسلم امہ کی عالم گیر حیثیت کا تعین کرتا ہے۔ یہی توحید کائنات کی، انسانیت کی اور زندگی کی وحدت (Unity) اور قانون کے آفاقی ہونے پر دلیل ہے۔ اسلام کسی خاص قوم ، لسانی یا علاقائی نسلی گروہ یا کسی خاص سماجی و معاشی طبقے کا دین نہیں ہے۔ اسی طرح اسلام ایک نیا دین پیش کرنے کا دعوے دار نہیں ہے، بلکہ اس کے مطابق یہ رہنمائی ہے جو خالق نے اپنے انبیا علیہم السلام کے ذریعے تخلیق انسان کے اول روز سے بہم پہنچائی ہے۔ تمام انبیا علیہم السلام اور ان کے ماننے والوں کا مذہب (دین) اسلام ہی تھا۔
مسلمان حضرت آدمؑ سے لے کرحضرت نوحؑ ، حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت موسٰی ؑ ، حضرت عیسٰی ؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسلام کے لغوی معنی ’امن‘اور ’سلامتی‘ کے ہیں۔ یہ اللہ کے واحد معبود ہونے او راس کی بندگی کرنے اور اس کے انبیا ؑ پر ایمان لانے کا داعی ہے، جن کی زندگی اعلیٰ ترین نمونہ اور ہدایت کا سرچشمہ ہے، اور اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایت کے مطابق انسان کی مکمل سپردگی اور پیروی کا نام ہے۔ اسی طرح شریعت کچھ اقدار، اخلاقیات اور قوانین کے مجموعے کا نام ہے جو اسلامی طرزِ زندگی کی تشکیل کرتی ہے۔
اسلام، ہر فرد کے اختیار کی آزادی پر یقین رکھتا ہے۔ عقیدہ و مذہب کے معاملے میں کسی زورزبردستی کی اجازت نہیں دیتا۔۴ یہ انسانیت کے لیے ثقافتی لحاظ سے اورحقیقی طور پر تکثیریت کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اختلاف راے کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنااسلام کابنیادی اصول ہے۔ اسلام، انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں: ایمان، عبادت، شخصیت اور کردار ،فرد اور معاشرہ، معیشت اور معاشرت، قومی اور بین الاقوامی معاملات سے متعلق ہے۔ پھر اسلام غیرمذہبی معاملات کو بھی روحانیت کی مقدس چھتری کے تلے جمع کرتا ہے۔ یہ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں لادینی اور دنیاوی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرتابلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں کواخلاقی و روحانی طور پر باہم مربوط کرتا ہے۔ اسلام بنیادی طور پر اخلاقی اور نظریاتی فکر ہے، جو عقیدے، رنگ، نسل، زبان اور علاقے سے بالاتر ہوکر انسان کو مخاطب کرتی ہے۔ یہ تکثیریت کو حقیقی اور قابل تکریم سمجھتا ہے۔ امت مسلمہ کے اندر بھی تنوع موجود ہے۔ اسلام کسی مصنوعی اتحاد اور زبردستی کی ہم آہنگی کا قائل نہیں ہے۔ یہ بقاے باہمی اور تعاون کے لیے ٹھوس بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اسلامی طرزِ زندگی اور تمدن کا ایک اور پہلو، اس کا: مطلق ، کائناتی اور عالم گیر اقدار پر زور دینا ہے۔ یہ کچھ ایسے اداروں کا تعین کرتا ہے، جو اسلام کے مستقل ستون کی حیثیت سے کام کرتے ہیں،اور بدلے ہوئے حالات کی ضرورتوں کے مطابق لچک کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اقدار کا تانا بانا انسانی فطرت اور کائنات کے حقائق کے مطابق بنتا ہے اور انسان کو وہ مواقع فراہم کرتا ہے کہ انسان بدلتے حالات کے تناظر میں اپنی اقدار اور اصولوں کا اطلاق کرے۔ اس کے لیے اسلام ایک خودکار نظامِ عمل فراہم کرتا ہے، تاہم انسانی حالات کی جزئی تفصیلات کے ضمن میں جامد قواعد و ضوابط سے احتراز کرتا ہے۔ یہ فرد کو معاشرے کی بنیادی اکائی تصور کرتا ہے جو تمام مخلوقات میں اعلیٰ ترین مقام رکھتا ہے۔ ہرفرد اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ انسان صرف سماجی مشین کا اہم پُرزہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے نزدیک معاشرہ ، ریاست، قوم اور انسانیت تمام ہی اہم ہیں اور ہرایک اپنا خصوصی کردار ادا کرتا ہے۔ تاہم، آخرت میں ہر فرد کی جواب دہی انفرادی سطح پر ہی ہوگی۔ اس سے اسلامی نظام کے اندر فرد کی مرکزیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہر فرد کو معاشرے اور اس کے اداروں سے وابستہ کرتا ہے اور ان کے درمیان ایک متوازن تعلق قائم کرتا ہے۔
اسلامی اخلاقیات زندگی سے فرار کا راستہ نہیں دکھاتیں بلکہ بھرپور زندگی گزارنے کے نظریے پر قائم ہیں۔ انسانی زندگی کے تمام پہلو اور سرگرمیاں اخلاقی نظم و ضبط کے ذریعے پاکیزہ زندگی گزارنے کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔ انفرادی تقویٰ اور اجتماعی اخلاقیات مل کر بھرپور زندگی کو فروغ دیتی ہیں، انفرادی اور معاشرتی بہبود میں اضافہ کرتی ہیں اور تمام لوگوں کے لیے فلاح کا باعث بنتی ہیں۔ اسلام میں ’دولت‘ ایک گالی نہیں۔ اگر اخلاقی اقدار اور امکانات کو پیش نظر رکھا جائے تو پیدایش دولت دراصل ایک پسندیدہ قدر ہے۔ ایک اچھی زندگی انسانی جستجو کابڑا ہدف ہے، فلاحِ دنیا اور فلاحِ آخرت کا ایک دوسرے پر انحصار ہے، اور یہ ایک ہی مسئلے کے دو رخ ہیں۔ یہی وہ روحانیت ہے جو دنیاوی زندگی کے تمام پہلوؤں اور سرگرمیوں کو اخلاقی دائرہ کار میں لاکر اس طرح چھا جاتی ہے، کہ وہ انسان کو بیک وقت نہ صرف اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے قابل بنادیتی ہے،بلکہ ایک ایسامعاشرہ تشکیل دیتی ہے جس میں تمام لوگوں کی خواہشات عادلانہ طریقے پر پوری ہوتی ہیں۔
شخصی آزادی، حقوقِ ملکیت، کاروبار، منڈی کی میکانیت اور دولت کی منصفانہ تقسیم، اسلامی معاشی نظام کے اہم حصے ہیں، تاہم مختلف سطحوں پر بہت سی اخلاقی بندشیں ہیں، مثلاً: انفرادی تحرک، ذاتی رجحان، سماجی طور طریقے، آجر اور اجیر کے رویے اور فرد اور ریاست کے باہمی تعلقات۔ اس نظام میں خاص طورپر نگرانی، رہنمائی اور ضروری قانون سازی کے دائرے میں ریاست اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ آزادی،معاشی مواقع کی فراہمی اور ملکیت کے حقوق کو یقینی بنانا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے۔
اسلام ضروریات کی فراہمی کو اہمیت دیتا ہے اور ایسا معاشرہ تشکیل دیناچاہتا ہے، جس میں معاشرے کے ہر فرد کے لیے ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی ہو۔ اوّلین طور پر ذاتی جدوجہد کے ذریعے اور محنت کا پھل ملنے کے رجحان کی بنیاد پر۔ لیکن ایک ایسے دوستانہ ماحول میں کہ جو لوگ پیچھے رہ جائیں یا ان کا تعلق محروم طبقات سے ہو، ان کی اس طرح سے مدد کی جائے کہ وہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں اور معاشرے کے فعال شریک بن جائیں۔ اسلام پیدایش دولت کی ایسی سرگرمیوں پر زور دیتا ہے۔ اس کا ہدف ایسا عادلانہ اور مساویانہ معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں ہر فرد کو مساوی مواقع حاصل ہوں۔ اسی صورت میں ایسا کیا جانا ممکن ہے کہ جب معاشرہ ایسا طریق کار وضع کرے کہ معاشرے کے محروم طبقات کو مؤثر مدد حاصل ہوسکے۔ یہ خاندان کے ادارے، معاشرے کے دوسرے اداروں اور ریاست کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اسلام معاشی طرز عمل میں آزادی کوذمہ داری کے ساتھ اور استعداد کار کو عدل کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ ’عدل‘ بنیادی اسلامی اقدار میں سے ایک سب سے اہم قدر ہے اور انبیاعلیہم السلام کی بعثت کے مقاصد میں بھی ایک مقصد عدل کا قیام ہے (الحدید ۵۷:۲۵)۔ ہدایت کا تعلق صرف انسان کے اللہ کے ساتھ تعلق تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے انسانوں او رکائنات کے ساتھ عدل پر مبنی تعلق تک وسیع ہے۔
اسلام کا معاشی نظریہ
۞بنیادی خصوصیات: اسلام کے معاشی نظریے کی بنیادی خصوصیات کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
۱۔ زندگی ایک مربوط اکائی ہے۔ انسان کی شخصیت کی طرح، عوامی ثقافت بھی ناقابل تقسیم ہے۔ پورا سماجی عمل ایک نامیاتی اکائی (organic unity)ہے۔ معاشی زندگی اور نظام کو ہم علیحدہ علیحدہ طور پر نہیں دیکھ سکتے۔ تخصیص کار اور تقسیم کار بہت اہم سہی، لیکن تمام چیزوں کو آپس میں مربوط ہونا چاہیے، تاکہ ایک صحت مند معاشرہ وسیع تر اکائی بن سکے۔ معاشی نظریے کی بنیاد: ایمان، زندگی کے بارے میں نظریے اور عوام کے اخلاقی اور سماجی ڈھانچے پر ہے کہ ایک باہم مربوط فکر کے ذریعے ہی انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو صحیح رخ دیا جاسکتا ہے۔
۱۔ زندگی ایک مربوط اکائی ہے۔ انسان کی شخصیت کی طرح، عوامی ثقافت بھی ناقابل تقسیم ہے۔ پورا سماجی عمل ایک نامیاتی اکائی (organic unity)ہے۔ معاشی زندگی اور نظام کو ہم علیحدہ علیحدہ طور پر نہیں دیکھ سکتے۔ تخصیص کار اور تقسیم کار بہت اہم سہی، لیکن تمام چیزوں کو آپس میں مربوط ہونا چاہیے، تاکہ ایک صحت مند معاشرہ وسیع تر اکائی بن سکے۔ معاشی نظریے کی بنیاد: ایمان، زندگی کے بارے میں نظریے اور عوام کے اخلاقی اور سماجی ڈھانچے پر ہے کہ ایک باہم مربوط فکر کے ذریعے ہی انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو صحیح رخ دیا جاسکتا ہے۔
۲۔ اسلام کا تصورِ جہاں (World View) توحید، رسالت اور آخرت پر مبنی ہے۔ مرد اور عورت دونوں کی دنیا میں حیثیت اللہ کے خلیفہ (vicegerent) کی ہے۔ اسے اختیار کی آزادی، خواہش، علم اور محدود حد تک حاکمیت عطا کی گئی ہے۔ اس کے کردار، مقام اور فرضِ منصبی کو استخلاف کہا گیا ہے، یعنی زمین پر اللہ کی مرضی کو پورا کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا،عدل قائم کرنا، احسان کو فروغ دینا اور اس کے ذریعے حیات طیبہ کا انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے بلند معیار قائم کرنا۔
امام غزالی علیہ الرحمہ مقاصد شریعت کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’شریعت کا مقصد تمام انسانوں کی بھلائی ہے، جو انسان کے ایمان،اس کے نفس، اس کی عقل، اس کی نسل اور اس کے مال کے تحفظ سے وابستہ ہے‘‘۔۵
۳۔ ’تقویٰ‘ کے بعد اسلامی نظام کی اہم ترین قدر ’عدل‘ اور اس کے ساتھ ’احسان‘ ہے۔ اسلامی اصطلاح میں ’عدل‘ سے مراد ہر فرد کو اس کا حق بہم پہنچانا ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں فقہا اور مفکرین ’عدل‘ کو اسلامی زندگی، معاشرے کی خاص صفت اور قانونی و سماجی اور معاشی عمل کا ایک ناگزیر حصہ قرار دیتے ہیں۔
امام ابو یوسفؒ (م:۷۹۸ء) نے خلیفہ ہارون الرشید (م:۸۰۹ء)کو معیشت کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’مجرموں کے ساتھ انصاف کرنے اور نا انصافی کے خاتمے کے نتیجے میں ترقی کی رفتار تیز تر ہوگی‘‘۔ امام ابوالحسن علی الماوردیؒ (م: ۱۰۵۸ء) نے فرمایا کہ: ’’جامع اور مختلف پہلوؤں سے انصاف کے نتیجے میں یک جہتی کو فروغ حاصل ہوتا ہے، قانون کی عمل داری ہوتی ہے،ملک ترقی کرتا ہے، دولت بڑھتی ہے، آبادی میں افزایش ہوتی ہے، ملک کی سلامتی مضبوط ہوتی ہے، اور نا انصافی سے بڑھ کر کوئی چیزنہیں جو دنیا کے لوگوں کے ضمیر اور شعور کو تباہ کرتی ہو‘‘۔ امام ابن تیمیہؒ (م: ۱۳۲۸ء) عدل کو توحید کا لازمی نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’ہر چیز میں انصاف، اور ہر ایک کے لیے انصاف ہر ایک کاحق ہے،اور نا انصافی کسی چیز میں کسی بھی فرد کے لیے کسی طور پر جائز نہیں ہے ،چاہے کوئی مسلمان ہو یا غیر مسلم، حتیٰ کہ ایک ظالم شخص کے معاملے میں بھی نہیں‘‘۔ علامہ عبدالرحمن ابن خلدونؒ (م: ۱۴۰۶ء) علی الاعلان کہتے ہیں کہ: ’’عدل کے بغیر ترقی جائزنہیں ہے اور ظلم ترقی کا خاتمہ کرتا ہے،اور جایداد میں کمی ناانصافی اور ظلم کا لازمی نتیجہ ہے‘‘۔۶ پس، عدل اسلامی نظام کی روح اور سانس کادرجہ رکھتا ہے۔
۴۔ سماجی تبدیلی اور انسانی معاشرے کی تشکیل نو کے لیے اسلامی منصوبہ منفرد ہے۔ یہ منصوبہ ایسے طریق کار پر مبنی ہے جو اٹھارھویں صدی کے بعد یورپ اور امریکا میں ابھرنے والے معاشی و سیاسی نظریات سے بالکل مختلف ہے۔
موجودہ مغرب میں اس کے لیے جو طریق کار، اور حکمت عملی سامنے آئی ہے وہ اس تصور پر مبنی ہے کہ انسانوں میں انقلابی تبدیلی لانے کے لیے سماجی اداروں اور ماحول کو تبدیل کیا جائے۔ اسی لیے ان کے ہاں تمام زور بیرونی ڈھانچے کی تشکیل نو پر ہے۔ اس نظام کی ناکامی کی وجہ انسان کو، مرد ہو یا عورت، ان کے عقائد، محرکات، اقدار اور ذمہ داریوں کو ہدف بنانے کو نظرانداز کرنا ہے۔ یہ تمام انسانوں کے اندر تبدیلی لانے کے عمل کو نظر انداز کرتا ہے اور بیرونی عناصر میں تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے، تاہم جس چیز کی ضرورت ہے وہ مکمل تبدیلی اور انقلاب ہے۔ یہ تبدیلی لوگوں کے اندر بھی ہو اور ان کے سماجی و معاشی ماحول میں بھی۔ مسئلہ صرف ڈھانچا جاتی تبدیلی کا نہیں ہے، تاہم ڈھانچا جاتی تبدیلی بھی اپنی جگہ ضروری ہے۔ نقطۂ آغاز انسانوں کے دل و روح، ان کا حقیقت کا ادراک اور زندگی میں خود ان کا مقصد اور مقام ہونا چاہیے۔
۞سماجی تبدیلی کی بنیادیں: سماجی تبدیلی کے لیے اسلامی نقطۂ نظر کے حوالے سے کلیدی نکات حسب ذیل ہیں:
(الف) سماجی تبدیلی مکمل طور پر پہلے سے طے شدہ تاریخی قوتوں کے عمل کا نتیجہ نہیں ہوتی، اگرچہ زندگی میں بہت سی رکاوٹوں اور بندشوں کی موجودگی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ تبدیلی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کے ذریعے تحریک حاصل کرتی ہے۔ اس کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور اسے حاصل کیا جاتا ہے۔ تبدیلی با مقصد ہونی چاہیے، یعنی آئیڈیل کی طرف پیش قدمی۔
(ب) عوام ہی انقلاب کا فعال کردار ہیں۔ دنیا کی تمام دوسری قوتیں اللہ کے نائب اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان کی تابع فرمان ہیں۔ اللہ تعالی کی طرف سے کائنات کے لیے جو انتظامات کیے گئے ہیں اور جو قوانین بنائے گئے ہیں، ان کے مطابق یہ انسان ہی ہے جو خود اپنی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا ذمہ دار ہے۔
(ج) تبدیلی کی ضرورت صرف ماحول ہی میں نہیں ہے بلکہ مردوں اور عورتوں کے دل و روح کے اندر ، ان کے رویوں اور محرکات میں، اور جو کچھ ان کے اندر اور ان کے خارج کی دنیا میں ہے، اس کو مقاصد کی تکمیل کے لیے مجتمع کرنے کے عزم میں موجود ہے۔
(د) زندگی بہت سے باہمی رشتوں کا تانا بانا ہے۔ انقلاب کا مطلب ان رشتوں میں کئی جگہ ٹوٹ پھوٹ ہے۔ اس لیے یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ انقلاب کے نتیجے میں معاشرے میں عدم توازن پیدا ہو۔ تاہم، اسلامی سماجی تبدیلی کے نتیجے میں اس طرح کا ٹکراؤ اور عدم توازن اپنی کم از کم سطح پر ہوگا، اور منصوبہ بندی کے ساتھ اور باہم مربوط انداز میں چلائی گئی مہم کے نتیجے میں، توازن کے ایک مقام سے دوسرے اونچے مقام کا حصول اور عدم توازن سے توازن کا حصول ممکن ہوسکے گا۔ اس لیے تبدیلی کو متوازن، بتدریج اور ارتقائی ہونا چاہیے، نیزجدت اور اختراع کے ساتھ مربوط بھی ہونا چاہیے۔ یہ منفرد اسلامی طریقہ ارتقائی راستے سے انقلابی تبدیلیوں کی طرف لے جائے گا۔
۵۔ انسانی زندگی میں ذاتی مفاد کا حصول ایک فطری قوتِ محرکہ ہے۔ لیکن ذاتی مفاد کو نیکی اور عدل کے وسیع تر تصور کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ محنت کا صلہ اور کوشش میں ناکامی پر نقصان، انسانی معاشرے اور معیشت کے لیے بہترین فریم ورک فراہم کرتا ہے۔۷ اسلام اس کی اہمیت اور اسے معاشی و سماجی کوششوں کا اولین اصول تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اسلام نے جدوجہد کے لیے ایک اخلاقی دائرہ کار بھی تشکیل دیا ہے، جو کچھ اقدار کے اپنانے اور کچھ اقدار سے پرہیز پر مبنی ہے، اور بتاتا ہے کہ کیا چیز درست اور جائز ہے اور کیا چیز اخلاقی، روحانی ، سماجی حوالے سے قابل اعتراض ہے۔ حلال و حرام کا تصور انسان کی تمام جدوجہد کے لیے اخلاقی میزان کا کام کرتا ہے۔ اعتدال اور اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ضروریات کو پیش نظر رکھنا اس اسکیم کا لازمی جزو ہے۔
صلہ (انعام) کے تصور کو دنیاوی صلے کے ساتھ ساتھ اُخروی صلے کے ساتھ مربوط کرکے اسے وسعت دی گئی ہے۔ ذاتی فائدے کے فطری تصور کو رد کیے بغیر یہ اچھے اور عادلانہ رویے کے لیے ایک مضبوط قوتِ محرکہ ہے۔ ذاتی ملکیت اور ذاتی کاروبار کو ناقابل تنسیخ حقوق اور معاشی سرگرمی کے فطری طریقے کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اخلاقی اور قانونی ضابطوں کے ذریعے اور لوگوں کے دلوں میں یہ بات پختہ کرکے، کہ مال و جایداد اپنی ہر شکل میں مادی، انسانی، مشینی قوت اور دماغی قوت کی صورت میں، انسان کے پاس ایک امانت ہے، مال و جایداد کے تصور کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اور یہ ذہن نشین کرا دیا ہے کہ امانت ہونے کی وجہ سے ملکیت کے حقوق اخلاقی حدود کے ساتھ مشروط ہیں اور ان کو مقاصد شریعت کی تکمیل سے مربوط کرتے ہیں۔
۶۔ معاشی سرگرمی، تعاون اور مقابلے کے عمل کے ذریعے فروغ پاتی ہے۔ منڈی کی سرگرمی، نجی ملکیت، کاروبار کی آزادی، منافع اور صلہ، قوتِ محرکہ کا لازمی نتیجہ ہیں۔ الہامی ہدایت اور تاریخ کی گواہی اس بات پر شاہد ہے کہ تجارت، اشیا کی پیدایش میں اضافہ، اشیا و خدمات کا لین دین، مناسب منافع کا حصول، طلب و رسد کی قوتوں کے ذریعے قیمتوں کا تعین، منڈی میں لین دین کاتحفظ اور معاہدوں کی تکمیل کے لیے قانونی ضوابط کی تشکیل، اسلامی معاشی نظام کے ستون ہیں۔ جدوجہد، اختراع و تخلیق، تقسیم کار، ٹکنالوجی اور مہارتوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ تعاون، ہمدردی، عدل، انفاق اور یک جہتی پر تمام بڑے مسلم مفکرین نے زور دیا ہے۔
ایڈم سمتھ (م: ۱۷۹۰ء) سے سات صدیاں قبل علامہ شمس الدین سرخسیؒ (م: ۱۰۹۰ء) لکھتے ہیں: ’’کسان کو اپنے لباس کے لیے جولاہے کے کام کی ضرورت ہے اورجولاہے کو اپنی خوراک اور کپڑوں کے لیے کسان کے کام کی ضرورت ہے۔۔۔ ان میں سے ہر ایک اپنے کام کے ذریعے دوسرے کی مدد کرتا ہے‘‘۔ علامہ سرخسیؒ سے ایک صدی بعد دوسرے عالم جعفردمشقیؒ (م:۱۱۷۵ء) اس نظریے کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مدت عمر قلیل ہونے کی وجہ سے کوئی فرد بھی تمام صنعتوں میں اپنے آپ کو نہیں کھپا سکتا۔ اگر وہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا، تو وہ کسی بھی صنعت میں اپنے آپ کو ماہر نہیں بناسکے گا۔ تمام صنعتیں ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔ تعمیر کے لیے بڑھئی کی ضرورت ہے اور بڑھئی کو لوہار کی ضرورت ہے، لوہار کو کان کن کی ضرورت ہے اور تمام صنعتوں کے لیے جگہ اور عمارت کی ضرورت ہے۔ اسی لیے لوگوں کو مجبوراً اپنی ضرورت کے لیے شہروں میں یک جا ہونا پڑتا ہے تاکہ ایک دوسرے کی ضروریات کی تکمیل کرسکیں‘‘۔
علامہ ابن خلدونؒ (م: ۱۴۰۶ء) نے ایڈم سمتھ سے تین صدیاں قبل تقسیمِ کار، معاشی ترقی میں تخصص اور انسانی ترقی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے لکھا تھا: ’’یہ بات سب جانتے ہیں اور یہ بہت واضح ہے کہ انسان انفرادی طور پر اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ اپنی تمام ضروریات پوری کرسکیں۔ انھیں اس مقصد کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا پڑتا ہے۔ ایسی ضروریات جو کہ افراد کا ایک گروہ مل کر باہمی تعاون سے پوراکرسکتا ہے، ان ضروریات سے کئی گنا زیادہ ہیں جو وہ انفرادی طور پر پورا کرسکنے کے قابل ہیں‘‘۔ وہ اس بات کی سائنسی وجوہ بیان کرتے ہیں کہ تجارت کے نتیجے میں ترقی کو کیسے فروغ حاصل ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’ترقی کاانحصار ستاروں یا سونے چاندی کی کانوں پر نہیں ہوتا بلکہ اس کا انحصار معاشی سرگرمی اور تقسیم کار کے اصول پر ہوتا ہے جو بذات خود منڈی کی وسعت اور اوزاروں (مشینوں) پر منحصر ہے ، جب کہ اوزاروں (مشینوں) کے لیے بچتوں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ بچت کی تعریف کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے بعد جو کچھ بچ جائے وہ بچت ہے‘‘۔ منڈی کی وسعت میں اضافے کے نتیجے میں اشیا و خدمات کی طلب تیزی سے بڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں صنعتوں میں پھیلاؤ آتا ہے، آمدنیاں بڑھتی ہیں، سائنس اور ٹکنالوجی میں اضافہ ہوتاہے اور ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے‘‘۔۸
۞منڈی کی میکانیت: اسلامی نقطۂ نظر
۷۔ منڈی کی میکا نیت اسلامی معاشی نظریے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اس ضمن میں اسلام نے چند بنیادی اقدامات تجویز کیے ہیں، جن کا مقصد اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ منڈیاں، ذاتی مفاد اور نفع اندوزی کی خواہش جیسی صورت حال کو جنم نہ دے دیں، جو سماجی لحاظ سے نقصان دہ ہو اور عدل اور راست بازی (fair play) کے تقاضوں کے خلاف ہو۔ اس مقصد کے لیے درج ذیل اقدامات کیے گئے ہیں:
* ذاتی تحرک کی سطح پر اخلاقی ضوابط، حلال و حرام کی قیود،’ حسبہ‘ کے ادارے کا قیام، سماجی دباؤ اور خصوصی قانونی ضابطوں کی تشکیل۔
* سماجی و معاشی اکائی کے طور پر ’خاندان‘ کا ادارہ جو سماجی تحفظ اور یک جہتی کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔
* معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے اخلاقی، سماجی اور قانونی اقدامات آمدنی کی عادلانہ پالیسی کے لیے رہنما خطوط کا تعین۔
* سماجی تحفظ کاایک پھیلا ہوا انتظام: نجی دائرے میں صدقات و خیرات کی صورت میں اور ریاست کی سطح پر ضرورت مند لوگوں کے لیے زکوٰۃ سے سرکاری امداد کا نظام۔
* ’وقف‘ کے ادارے کے قیام کے لیے رضاکارانہ تنظیموں کے جال، مارکیٹ کے ذریعے ضروریات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ غیر تجارتی بنیادوں پر اشیا کی فراہمی، اسلامی معاشی اسکیم کا ایک لازمی جزو ہے۔
* پیداکار کے طور پر نہیں بلکہ ضروریات زندگی کی رسد میں منڈی کی ناکامی کی صورت میں جائزہ کاری، ضابطوں کا نفاذ اور عوام کی امداد کے پروگرامات، تاکہ معاشرے کا ہر فرد مذہبی، لسانی، صنفی ، قومیت یا عمر کے امتیازات سے بالاتر ہوکر معاشی زندگی میں متحرک طور پر حصہ لے۔
* اسلام وسائل کے ضیاع، ختم ہوتے قدرتی وسائل کے بے جا نقصان اور معاشی سرگرمی کے ماحولیاتی پہلو کے بارے میں بہت زیادہ فکرمند ہے۔ اس کا اچھی زندگی کانظریہ اعتدال،توازن اور بندگی پر مبنی ہے اور ہر انسان کی معاشی زندگی کے دنیاوی اور ذاتی پہلوؤں کو مساوی طور پر اہمیت دیتا ہے ۔ اسلام کامعاشی نظام جزوی نہیں بلکہ ہمہ جہت ہے۔ ایک طرف تو یہ انسان کے لیے، انفرادی آزادی، انتخاب کی آزادی، نجی ملکیت اور کاروبار،منافع کے محرک اور لامحدود جدوجہد اور اس کے صلے کو یقینی بناتا ہے، اور دوسری طرف زندگی کی مختلف سطحوں پر مؤثر اخلاقی ضابطوں کا نظام فراہم کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ دائرے کے علاوہ سرکاری انتظامی ٹیم کے ذریعے ایسے ادارے قائم کرتا ہے، جن کے ذریعے معاشرے میں معاشی ترقی اور سماجی انصاف قائم ہوسکے۔ حتیٰ کہ خیرات کے تصور کو اس نے انقلابی طور پر قانونی ذمہ داری کا حصہ بنا دیا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں : وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ oلِّلسَّآءِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o(المعارج ۷۰:۲۴۔۲۵) ’’جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے‘‘۔ اسلام نے دوسرے نظاموں کی طرح تقسیم دولت میں عدل اور سماجی تحفظ کو رضاکارانہ ضمیمے کی حیثیت نہیں دی بلکہ اس کو نظام کا تشکیلی جزو بنادیا ہے۔
۞غربت و استحصال سے تحفظ: اسلام میں سرمایے کے رضاکارانہ اور لازمی انتقال کے ذریعے غربت اور استحصال سے تحفظ کا نظام موجود ہے۔۹
* آمدنی کے کچھ ذرائع کی ممانعت اسلامی معاشی نظام کا ایک اور اہم جزو ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم حرمت سود (الربا) ہے۔ اس کے علاوہ جوا، سٹہ بازی، دھوکا دہی، استحصال اور دولت کا زبردستی حاصل کرناشامل ہے۔ کاروباری اخلاق کا ایک جامع ضابطہ تشکیل دیاگیا ہے تاکہ دیانت داری اور معاملات کے شفاف ہونے کے ساتھ ساتھ تجارتی اور مالیاتی معاملات میں ذمہ داری کو یقینی بنایاجاسکے۔
حرمت سود کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام سرمایے کے استعمال پر کسی قسم کے صلے کاقائل نہیں۔ اسلام سرمایے کی پیداواریت کو تسلیم کرتا ہے اوراس کی حقیقی پیداواریت کے تناسب سے اس کے صلے کا قائل ہے۔ البتہ جس منصوبے میں سرمایہ لگایا گیا ہے اس کے اصل منافع کے علی الرغم ایک یقینی، مقررہ اور پہلے سے طے شدہ منافع کامخالف ہے۔ سرمایہ کاری کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اصل منافع میں سرمایہ دار اورآجر دونوں حصہ لینے کاحق رکھتے ہیں۔ وہ مقررہ منافع کے بجاے اصل ہونے والے منافع میں سے منافع لیں گے۔ اس کامطلب ہے کہ اسلام قرض کی بنیاد پر معیشت کے قیام کے بجاے شراکت کی بنیادپر، خطرے میں حصے داری اور ذمے داری میں شرکت کی بنیاد پر معیشت کے قیام کاخواہاں ہے۔ اس کے معیشت کے منتظمین اور معاشی و مالیاتی تنظیموں پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ اسلامی اصولوں پر قائم معیشت کارخ زری منافعوں کے بجاے حقیقی طور پر اثاثوں کی تخلیق کی طرف ہوگا۔ بلاشبہہ ایسی معیشت زیادہ مستحکم و زیادہ مادی ترقی کی طرف مائل، زیادہ مبنی بر مساوات اور اپنی نوعیت کے لحاظ سے شراکتی ہوگی۔
* اسلام کا عالم گیریت کے ساتھ کوئی تصادم نہیں ہے، تاہم اس کا عالم گیریت کا تصور کسی قوم کی اجارہ داری کے بجاے ’توحید‘ سے منسوب ہے۔ توحید میں انسانیت کی وحدت مضمر ہے۔ امت مسلمہ فکری اور تاریخی لحاظ سے ایک عالم گیر برادری ہے۔ انسانی تاریخ میں عالم گیریت کا آغاز حضرت نوح علیہ السلام کے دور سے ہوا۔ پوری دنیا کو ایک عالم گیر بستی میں تبدیل کرنے کی حالیہ تبدیلیاں ایسے شان دار مواقع پیش کرتی ہیں، بشرطیکہ یہ عمل صحیح اور عادلانہ ہو۔ اسلام کا واسطہ عالم گیریت کے طور طریقوں کی نوعیت، سمت، سماجی و اخلاقی نتائج سے ہے۔ آج کی عالم گیریت بذاتِ خود کوئی پریشانی کامعاملہ نہیں ہے۔حقیقتاً یہ انسانیت کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوسکتی ہے۔ لیکن اس چیز کو یقینی بنایا جائے کہ یہ عمل منصفانہ ہو اور اس کے پردے کے پیچھے طاقت ور قومیں، کمزوروں کااستحصال کرتے ہوئے ان پر اپنی بالادستی قائم نہ کریں۔
میں یہاں پر علامہ ابن خلدونؒ کے تجویز کردہ سماجی و معاشی تنظیم کے بین الاداراتی متحرک ماڈل کاخلاصہ پیش کروں گا، جو انھوں نے اپنے وقت کے حکمران کو پیش کیا تھا۔ آج کے زمانے میں بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔وہ کہتے ہیں:
* خلیفہ (الملک) کے بغیر شریعت کانفاذ نہیں ہوسکتا۔ * خلیفہ، عوام (الرجال) کے بغیر قوت حاصل نہیں کرسکتا ۔ * دولت (المال) کے بغیر عوام زندہ نہیں رہ سکتے ۔ * ترقی (العمارۃ) کے بغیر دولت حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ * عدل (العدل) کے بغیر ترقی حاصل نہیں ہوسکتی ۔ * عدل وہ میزان(المیزان) ہے، جس پر اللہ تعالیٰ انسانوں کا حساب لے گا۔ * اور خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ عدل کو قائم کرے۔۱۰
۞عالمی معیشت و معاشرت کے لیے عادلانہ ماڈل:یورپی و امریکی سرمایہ داری کی بین الاقوامی پہنچ ، اور عالم گیر نظام سرمایہ داری ایک حقیقت ہے۔ قضیہ یہ نہیں ہے کہ ان مختلف ممالک اور علاقوں کے درمیان کوئی سنجیدہ اختلافات ہیں جو سرمایہ داری کے راستے پر گامزن خیال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ خیال کرنا بھی غیرحقیقی اور دورازکارہے کہ دنیا کے تمام ممالک اس چھتری کے نیچے آنے کے خواہش مند ہیں۔ بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی تناظر میں بہت سے یورپی ممالک اور فکری و سیاسی قوتیں غیر مشروط اور مکمل طور پر نظام سرمایہ داری کے تحت آنے پر ناخوش ہوں گی۔ جاپان اس کی ایک مثال ہے۔ مغرب ان کو اپنے کیمپ میں شمار کرتا ہے، جب کہ جاپانی گذشتہ دو عشروں سے اس پر غور و فکر کر رہے ہیں کہ وہ مغربی اثر سے باہر رہیں۔
۞سرمایہ داری کا مستقبل:۱۹۸۰ء کے عشرے میں شروع ہونے والے معاشی جمود سے دوسری جنگ عظیم کے بعد ہونے والے تجربے کے بارے میں شکوک و شبہات اور غیر یقینی صورت حال کے سایے بڑھتے جارہے ہیں۔ اشتراکیت کے خاتمے کے بعد روس پورے جوش و خروش سے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف بڑھا۔ لیکن اس باب میں بھی وہ اپنے آپ کو ناکام پاتا ہے۔ چین نے ایک ملک میں دونظام اپنانے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ مشرقی ایشیاکی معیشتیں۹۸۔۱۹۹۷ء کے بحران کے بعد سے سکڑچکی ہیں اور ان کے خیالات بدل چکے ہیں۔ ترقی پذیر دنیا کے ممالک کے اپنے تحفظات ہیں۔ مجموعی تصویر دھندلی اور شکوک پیدا کرنے والی ہے۔
میرے خیال میں عالم گیر معیشت اور معاشرت اتنے شکستہ اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں کہ معیشت کا کوئی ایک ماڈل ان کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا۔ حقائق کے ساتھ ساتھ اخلاقی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے غیرمغربی دنیا کے لوگوں کی سوچ اس بات کو لازم کرتی ہے کہ ہم کوشش کریں کہ ایک سے زائد نظاموں (کثرتی نظاموں) پر مشتمل دنیا کا ایسامنظر پیش کیا جاسکے کہ جس کے نتیجے میں ایسا کھلا معاشرہ وجود میں آئے، جہاں خیالات، ٹکنالوجی، اشیا و خدمات، مالیات اور انسانوں کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر یہ عمل کامیاب بنانا مقصود ہو تو اسے بالکل شفاف اور باہمی برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ اس کی بنیاد اصلاً مفادات طاقت وری اور بالاتری پر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ معاملات کو عدل اور راست بازی کی بنیاد پر چلایا جانا چاہیے۔ بالاتری پر مبنی نظام تب تک ہی چل سکتا ہے جب تک طاقت کا توازن خراب نہیں ہوتا اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ طاقت کے توازن تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔۱۱ حقیقتاً تاریخ درجنوں سوپر پاورز کا قبرستان ہے۔ ہم نے اپنی زندگی ہی میں اس طرح کی کئی تبدیلیاں دیکھی ہیں۔ پس، سبق یہی ہے متعلقہ مفکرین اس بات پر غور کریں کہ ایک بالاتر نظام کے بجاے یہ دنیا ایسی حقیقی کثرتی دنیا ہو، جس میں اندرونی تبدیلیوں کے باوجود ، تعاون اور مقابلے کی قوتیں کام کر رہی ہوں۔
میری یہ سوچی سمجھی راے ہے کہ مسلم دنیا کبھی خوشی کے ساتھ عالم گیر نظام سرمایہ داری کی بالادستی کو قبول نہیں کرے گی۔ بلاشبہہ ہم مفید تعاون کے لیے خیالات و تجربات کے تعامل کے لیے آمادہ ہیں۔ سرمایہ داری میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو عالم گیر ہیں اور وہ دوسرے نظاموں کے اندر بھی موجود ہیں۔ لیکن اس میں بہت کچھ وہ ہے جو خصوصی طور پر اس کے تاریخی اور ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے۔ ماضی کی استعماری قوتوں کے ساتھ اس کا تعلق اور موجودہ دور میں صرف واحد سوپرپاور کے ساتھ اس کا تعلق ہونا، غیر مغربی دنیا میں اس کے داخلے کو مشکوک اور غیر متوازن بنادیتا ہے۔ مفادات ، تمناؤں اور اقدار کا فرق، اس کے عالم گیر نظام بننے کی راہ میں نہ صرف سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، بلکہ اس نظام کے پسندیدگی کے حوالے سے بہت سے سوالات پیدا کرنے کا سبب ہیں۔
نظام سرمایہ داری دنیا کے مختلف ممالک کے لیے کبھی بھی فائدہ مند نہیں رہا۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے تجربات تو بہت تلخ ہیں۔ یورپ اور امریکا میں نظام سرمایہ داری کی کارکردگی قابلِ رشک نہیں اور دنیا کی آدھی آبادی غربت کا شکار ہے۔ معروف سرمایہ دارانہ ممالک میں بے روزگاری کا دور دورہ ہے۔ قرضوں کا پہاڑ نہ صرف ترقی پذیر دنیا کے لوگوں کی کمرتوڑ رہا ہے بلکہ پوری دنیا کے لوگ اس سے پریشان ہیں۔ مالیاتی عدم استحکام کا جن بوتل میں بند نہیں کیا جاسکا۔ بڑھتی ہوئی معاشی اور سماجی ناہمواریاں انسانیت کے جسم کا رستا ہوا ناسور ہیں۔ سرمایہ داری کو ابھی اپنا گھر درست کرنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، قبل اس کے کہ یہ بقیہ انسانیت کی توجہ کا مرکز بن سکے۔
اسی لیے اس تحریر کا مقصد موجودہ یا کلاسیکی سرمایہ داری کے مقدمے پر بحث کرنا نہیں ہے بلکہ ایک ذمہ دار عالم گیر نظام کا وژن پیش کرنا ہے۔ نظام سرمایہ داری کو ابھی یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ہر مفہوم کے لحاظ سے ذمہ دار ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں جو اخلاقی پہلو معدوم ہیں ان کے ساتھ سرمایہ داری کے مستقبل کے بہتر بننے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ اس لیے ہمیں ایک ایسے ذمہ دار عالمی نظام کے وژن کی ضرورت ہے، جہاں مختلف اعتقادات اور ثقافتوں پر مبنی دوسرے معاشی متبادلات کے لیے بھی یکساں مواقع موجود ہوں۔
جہاں تک امت مسلمہ کا تعلق ہے، اسے مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان باہمی انحصار کی اہمیت کا ادراک ہے۔ مکالمہ، مشترکہ معاشی کاروبار، بڑھتی ہوئی تجارت، نظریات، اشیا اور انسانوں کا تبادلہ مستقبل کے تعاون کے لیے بنیاد فراہم کرسکتے ہیں۔ یہ امرواقعہ ہے کہ عدل کے تقاضے پورے کیے بغیر اور ایسا سیاسی اور انتظامی ڈھانچا تشکیل دیے بغیر دنیا کی ریاستوں، معیشتوں اور لوگوں کے درمیان حقیقی عدل قائم کرنے کی خواہش اور پُرامن، خوش حال اور عالمی انسانی معاشرے کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔
ہم نے اسلامی تناظر میں، عالم گیر سرمایہ داری کے چیلنج کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کی ہیں اور کچھ ایسے پہلوؤں کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو سرمایہ داری کو بطور چیلنج درپیش ہوں گے۔ اگر سرمایہ داری واقعی ایک ’ذمہ دار نظام‘ (Responsible System) بن جاتا ہے تو بہت سے سماجی و معاشی نظاموں کے باہمی طور پر مل جل کر رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ امتحان اس بات میں پوشیدہ ہے کہ نظام سرمایہ داری کس حد تک صرف ایک نظام نہیں بلکہ ایک ذمہ دار عالم گیر نظام بننے کے لیے تیار ہے؟ بصورت دیگر نظام سرمایہ داری یورپ و امریکا کی بالادستی کے لیے ایک وسیلہ بنا رہے گا اور دوسری دنیا کے لوگوں کے دلوں کو نہیں جیت سکے گا۔ مزید برآں اس کے نتیجے میں مغربی دنیا کے اندر سے بھی پھوٹ اور چیلنجوں کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
۞مستقبل کا معاشی نظام: مسلم دنیا سیاسی و معاشی طور پر کمزور ہوسکتی ہے، لیکن مسلم مفکرین اور عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ اسلامی معاشی نظام اقدار پر مبنی ہے او راس کے اپنے بنیادی اصول اور ادارے ہیں۔ یہ اپنے نظام کے اندر فطری معیشت کے ایسے اہم عناصر رکھتا ہے، جو اپنی مثال آپ ہیں، مثلاً انفرادی آزادی،حقوق ملکیت، منڈی کی میکانیت، منافع کا محرک اور دولت پیدا کرنے اور وسائل تقسیم اور فرد اور اجتماع کی بہبود کے لیے قانونی اور اداراتی انتظامات۔
اسلامی نظامِ معیشت منفرد تو ہے مگر خود مختار نہیں۔ یہ اسلامی نظام حیات اور اسلامی تہذیب کاایک جزو ہے اور مسلم علاقوں میں ایک ایسے عالم گیر اور کھلے معاشرے کاخواہش مند ہے، جس کا یہ خود بھی ایک حصہ ہو۔ اس سے ایک ایسا عالمی معاشرہ تشکیل پائے گا، جہاں مختلف ثقافتیں اور نظام بقاے باہمی کے اصول پر موجود ہوں۔ اگر سرمایہ داری کی کچھ اہم اقدار اور اسلامی نظام میں کچھ یکسانیت موجود ہے تو دوسری جانب اسلامی عقائد اور ثقافت کے منفرد اصولوں کی بنا پر بہت سے نمایاں اختلافات بھی ہیں۔ اسلامی معاشی نظام اپنی ثقافت اور تہذیب کے تناظر میں روبہ عمل آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ماہرینِ معیشت، نظام سرمایہ داری کی کسی قسم کو اپنی دنیا میں برتر قوت نہیں دیکھنا چاہتے۔ سطحی رعایتیں یا مذہب و ثقافت پر مبنی اقدامات بنیادی حقائق کو تبدیل نہیں کرسکتے۔
عالم گیر میدان کش مکش میں مقابلہ کرنے والوں کے درمیان تعاون کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ تمام مذاہب اور تہذیبوں میں کچھ اقدار یکساں نوعیت کی ہیں، جو باہمی تعلق، تعاون اور میل ملاپ کے لیے بنیاد فراہم کرسکتی ہیں۔ دنیا پر حاوی ہونے کا ایک ہی نظامِ سرمایہ داری کا نظریہ، تکثیریت (Pluralism) پر مبنی ایک ایسی دنیا کی نفی ہے، جو کسی کی بھی بالاتری اور برسرپیکار تہذیبوں کے درمیان ٹکراؤ سے آزاد ہو۔ میرے جیسے لوگوں کو جو بات اچھی لگتی ہے اور حوصلہ دیتی ہے، وہ ایک ایسی دنیا کاتصو رہے جس میں تمام شرکا کو یہ اعتماد حاصل ہوکہ وہ اپنی اقدار کے تحت زندگی بسر کرتے ہوئے ایک عالم گیر نظام کے باہم شراکت کار ہیں۔ موجود عالم گیر سرمایہ داری کاالمیہ یہ ہے کہ یہ دنیا میں رہنے والے لوگوں کااعتماد حاصل کیے بغیر: باہمی اقدار اور رضامندی اور غیر رضامندی کی حدود کے بغیر،ایسی راہوں کو اختیار کیے بغیر جو معاشی ناہمواری کو کم کرسکیں، مفادات اور معاملات میں مطابقت پیدا کرسکیں، اور ایسا بین الاقوامی نظام قائم کیے بغیر جس کے اپنے ادارے تمام لوگوں کے لیے آزادی، شراکت اور بہبود کو یقینی بناسکیں،بالادستی چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ عالم گیر سرمایہ داری کا بڑا علَم بردار، جارج سوروس اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ انسان کی فلاح و بہبود اور پرامن،خوش حال اور عادلانہ عالم گیر معاشرے کے قیام کے لیے منڈی کی میکانیت،انفرادی آزادی او رجمہوری اقدار ناگزیر ہیں اور مارکیٹ فنڈامنٹلزم (Market Fundamentalism) معاشی ترقی، مالیاتی وسائل، تکنیکی مہارتوں اور سیاسی قوت میں تفاوت صحت مند عالم گیریت کی راہ میں معاون نہیں بلکہ رکاوٹیں ہیں۔۱۲
آزادانہ تجارت بہت اچھی بات ہے، لیکن اسے استحصال کے بجاے شائستہ اور مناسب تجارت بننا چاہیے۔ ترقی ایک بہت پسندیدہ ہدف ہے، لیکن یہ ترقی سب کے لیے ہو۔ دولت خوش حالی کا ذریعہ ضرور ہے، لیکن یہ خوش حالی تمام لوگوں اور علاقوں کے لیے ہو۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے اگر اخلاقی پہلوؤں کی برتری قائم ہو اور استعداد کار کے ساتھ ساتھ عدل کو عالم گیر نظام کابنیادی پتھر بنایا جائے۔
* خلاصہ بحث: سرمایہ داری کلی طور پر ذاتی مفاد کے محرک پر مبنی ہے، جس کا اظہار زیادہ سے زیادہ افادہ ، زیادہ سے زیادہ منافع اور زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی صورت میں ہوتا ہے۔ منڈی ہی پوری معیشت کی راہیں متعین کرتی ہے۔ اشتراکیت نے ساری توجہ پیداوار کے طریقوں اوران کو کنٹرول کرنے پر مرکوز کردی تھی۔ اس طرح منڈی پر حاکمانہ معیشت کو برتری حاصل ہوگئی تھی۔ دونوں نظام چند حقیقی عناصر رکھنے کے باوجود یک طرفہ ہونے کی وجہ سے غلط راہ پر چلے اور بعض اوقات بہت روشن ہونے کے باوجود ناکام ہوئے۔
اسلام انسان اور طریق پیداوار دونوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے اور ان کو متوازن اور ہم آہنگ بناتا ہے۔ اصل مرکزِ توجہ انسان کو بناتا ہے اور ان کی خوش حالی اس کا اصل مقصد ہے۔ ذاتی مفاد، نجی ملکیت اور کاروبار اور محرک منافع کا پوری طرح تحفظ کرتا ہے۔ معاشی فیصلہ سازی میں منڈی کی میکانیت کو سب سے بڑا کردار حاصل ہے۔ اسلام منڈی سے بلند ہوکر تمام سطحوں پر اخلاقی اصولوں،اقدار اور احکام پر توجہ کرتا ہے جو کہ انسانی محرک ،اداروں اور عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ فرد اور اجتماع کی بھلائی میں اشیا (Public Goods) میں مطابقت پیدا کرنے کے لیے ذاتی مفاد کو اعتدال پر لانے کی بھی اسے فکر ہے۔
اعلیٰ انسانی مقاصد کی تکمیل کے لیے اسلام ایسے سماجی و معاشی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے افراد اور معاشرے کی اخلاقی تربیت و تشکیل اور قانونی اداروں کا قیام عمل میں لاتا ہے۔ انفرادی آزادی، انسانی حقوق اور معاشی عمل کے لیے لامحدود مواقع کی فراہمی، اخلاقی اقدار، اخلاقی قوانین اور عدالتی و قانونی دائرۂ کار کے ذریعے عمل میں آتے ہیں۔ ریاست جابرانہ یا آمرانہ انداز اختیار کیے بغیر اپنا مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ تمام معاشی سرگرمیاں زندگی کے مقصدِ اعلیٰ کے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی ثقافت اور معاشرے کے تناظر میں عمل میں لائی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے پروفیسر ڈننگ جان کی تین Cکے ساتھ۱۳ مزید چار Cکا اضافہ کرتے ہوئے اور ان کی معنویت کو وسیع تناظر میں پیش کیا جارہا ہے(یعنی حسب ذیل نکات کا پہلا حرف ’C‘ ہے)۔اسلامی نظام کی محرک قوتیں درج ذیل ہیں:
۱۔ ذمہ داری، لگن (Commitment): ایمان کی بنیاد پر قائم احساس ذمہ داری اور توحید (اللہ کی وحدانیت) پر مبنی تصورِ دنیا (World view) ، انسانیت کی وحدت اور مساوات، اس احساس ذمہ داری میں شرکت، کمیونٹی اور معاشرے کو مضبوط بنانے والی قوت ہے۔
۲۔ کردار (Character): تمام مردوں اور عورتوں میں جو معاشرے کی تعمیر کے لیے بنیادی اکائیاں ہیں، ایک متوازن شخصیت کا ارتقا اسلام کے تصورِ تقویٰ، یعنی اخلاقی نظم و ضبط، اللہ اور عوام کے سامنے احتساب کے مضبوط احساس کی بنیاد پر۔
۳۔ تخلیق (Creativity): علم، ذاتی فائدے، تکنیکی جدت اور انتظامی صلاحیت کے ساتھ نہ صرف اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت بلکہ دوسرے انسانوں کی خدمت، نیز اچھے کاموں میں شرکت اور زندگی میں اعلیٰ مقاصد کے حصول کا جذبہ۔
۴۔مقابلہ، مسابقت (Competetion): آزادی، مواقع، جدوجہد اور مسلسل کوشش کے ذریعے ان مادی اور انسانی وسائل کو بروے کار لاکر ذاتی، معاشرتی، دنیاوی او راخلاقی مقاصد کے لیے مقابلہ مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن (البقرہ ۲:۱۴۸) خیر اورنیکی کے کاموں میں صحت مندانہ مسابقت کے اصول پر زور دیتا ہے۔
۵۔ تعاون (Cooperation): مقابلے کی قوتوں کی تقویت اور ایک دوسرے کو ہلاک کرنے، نقصان پہنچانے والا بننے سے روکنے کے لیے تعاون۔ مقابلہ اور تعاون دونوں مل جل کر اتفاق باہمی، معاشرے اور انسانیت کے لیے اتفاق و اتحاد کا باعث بنتے اور جدت و ترقی کے لامحدود مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مقابلے و تعاون کے لیے جو ادارہ سب سے بنیادی اہمیت اور انفرادیت کا حامل ہے، وہ خاندان ہے۔ مزید برآں معاشرہ مقامی، قومی، علاقائی اور عالم گیر سطح کے اداروں کے ایک جال کے ذریعے ہر انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ بین الانسانی رشتوں، اعلیٰ ترین معاشی و سماجی شراکت کاایک ماڈل پیش کریں۔ رسول کریمؐ نے پوری انسانیت کو عیال اللّٰہ (اللہ کا کنبہ) فرمایا۔
۶۔ شفقت، ہمدردی (Compassion):اسلامی تناظر میں شفقت و ہمدردی اور عدل و احسان کا حسین امتزاج ہے۔ عدل کا مطلب تمام معاملات میں انصاف ہے اور اس سے مراد ہر ایک کو اس کا حق دینا ہے اور ایک دوسرے کے حقوق کااحترام اور ان حقوق کو پورا کرنا ہے۔ ’احسان‘ کا درجہ ’عدل‘ سے بھی اوپر ہے۔ اس سے مراد فیاضی، فضیلت، بہت اچھے طریقے سے کسی کام کو سرانجام دینا، رحم، محبت اور قربانی کے جذبے اور عمل میں ترقی ہے۔ یہاں تک حکم ہے کہ جو انسان اپنے لیے پسند کرتا ہے اس سے بڑھ کر دوسروں کے لیے پسند کرے۔ یہ برابری کی وہ سطح ہے کہ جس پر باہم معاملات کرنے (reciprocity) سے بھی بڑھ جانا، یعنی دوسروں سے ہم وہ توقع کریں جو وہ ہم سے توقع کرتے ہیں۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہرشخص دوسرے کی بہتری کے لیے اپنے حقوق کی قربانی دے دے۔ اطالوی ماہرمعاشیات ولفریڈو پاریٹو (م: ۱۹۲۳ء)کا نظریہ انسانی چناؤ (choice) کے اونچے درجے کے حصول کی راہ ہموار کرتا ہے۔ یوں ’عدل‘ کے ساتھ ’احسان‘ مل کر اسلام کے حقیقی شفقت کے نظریے کی عکاسی کرتے ہیں۔
۷۔ بقاے باہمی (Coexistence): اس کا مطلب ہے آزادی، برداشت، باہمی احترام اور مل جل کر رہنے کا عہد۔ یہ صحیح تکثیریت (plurality) ہے جہاں اپنی پسندیدگی کی قربانی دیے بغیر اور صحیح بات کے ساتھ اپنی وابستگی کو قائم رکھتے ہوئے اختلاف (diversty) کو قبول کیا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے ’تکثیریت‘ دیانت داری کے ساتھ ہو اور اس سے ایسا باہمی میل جول وجود میں آتا ہے جو بغیر کسی کو نیچا دکھائے، برتری جتلائے یا آمرانہ طور پر اپنی بات منوائے۔ یہ نمونہ افراد، گروہوں، قوموں، ریاستوں، علاقوں، آبادیوں، اور مذاہب اور نظریات سب کے لیے قابل قبول ہو۔ اس کا فطری نتیجہ مکالمہ ہے نہ کہ زبردستی یا بے جا مداخلت۔ صحیح اختلافات اور تنوع اس فریم ورک کا مقصد ہیں۔ جس میں بہت سی لچک ہوسکتی ہے اور باہمی طور پر اپنے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر کچھ لو اور دو (Give and Take) ہوسکتا ہے۔ بقاے باہمی کا یہ بھی تصور ہے کہ معاشرے میں ایسے مؤثر طریقے ہوں جو آپس میں مل جل کر رہنے اور اختلافات اور جھگڑوں کو حل کرنے کے قابل ہوں اور تمام اختلافات کے باوجود باہم مل کر رہنے کا عہد ہو۔ یہی عدل اور آزادی کے ساتھ امن کا ایک ماڈل ہوسکتا ہے۔
یہ تمام حکمت عملیاں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہیں۔ اسلامی تناظر میں دونوں پالیسیاں بیک وقت اختیار کی جاسکتی ہیں۔ ایک کو دوسرے کا حصہ بناکر اخلاقی اقدار، زری و مالی ترغیب، مادی انعام اور سزا، ایثار، قربانی،ہمدردی، روایت و رسم ، عوامی آرا، معاشرتی ادارے، قانون اور ریاست تمام اپنا لازمی لیکن محدود کردار ادا کرتے ہیں۔ حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین اپنی ذات کے اندر سے نافذ کرنے والے عمل مسلم معاشرے کے بنیادی ستون ہیں۔ صرف جامع اور باہم، زیادہ مربوط طریقے سے ہی ایک عادلانہ و باہم مربوط اور ایک دوسرے کو تقویت دینے والا معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
آزاد نظریے کے مغربی نمونے میں مرکزی ہدف آزادی ہے اور اس معاشرت کی ہر شے اسی کے گرد گردش کرتی اور اس سے نکلتی ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)