Search This Blog

Friday 2 November 2012

PHOONKON SE YE CHARAGH

پھو نکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جا ئے گا



عالمی سطح پر مسلما نو ں کے خلا ف مشکیں کسنے اور ان کو طرح طرح سے ستا نے کا سلسلہ برابر جا ری ہے اور یہ تا قیام قیا مت جا ری رہے گا کیو نکہ یہ حق اور نا حق ، سچ اور جھو ٹ ، اندھیرے اور اجا لے کے درمیا ن ایک نہ مٹنے والی چپقلش اور نہ ختم ہو نے والا محا ربہ ہے جس کا ہمیشہ ہمیش جا ری رہنا قانون قدرت کے عین مطا بق ہے ۔ اس محا ربے نے افغا نستان اورعراق و بر ماسے لے کر گجرات ، آ سام ، زانسکار اور کشتواڑ تک کیا کیا گل کھلا ئے وہ روز روشن کی طرح عیا ں ہیں۔ حق بینی سے حا لا ت کا تجزیہ کیا جا ئے تو پتہ چلتا ہے کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ مغرب اپنے شاخ نازک کو اسلام کی خنک وخوشگوار ہو اؤں میں ڈولتا دیکھ کر حواس با ختہ ہو چکا ہے ۔وہ اپنے پیروں تلے کھسک رہی زمین کو دیکھ کر یہ بات سمجھ چکا ہے کہ جد ید ذہن کو سراسر اپیل کر نے والے دین اسلام کی وہ کتنی ہی غلط سلط شبیہ دنیا کے سامنے پیش کر ے ، وہ اس دین محبت ومودت پرکتنا ہی چلا ّ چلا ّ کر اسے دہشت گردی ، رجعت پسندی اور جنو نی فلسفہ کا نا م دے ،اسلام بہر حا ل اپنی حقانیت کے بل پر دیر سویر دنیا کو مفتوح کر کے چھو ڑے گا کیو نکہ یہ ما رکس ، لینن اور ما ؤزے تنگ یاچنگیزخانو ں اور ہٹلروں کی طر ح نعوذ با للہ بے انصافی اور انسان دشمنی کا روادار ہے نہ یہ رنگ ، نسل، زبا ن ، جغرافیہ ، ذات پا ت اور انسان کے تراشیدہ دوسری دیو اروں کے اندر مقید ہے۔ چنا نچہ اس کاایما نی ، اصلا حی ا ور انقلا بی پرتو جو نہی مغرب ومشرق تک پڑ ے گا تو ان کی ملحد تہذیبیں اور بے تکے فلسفے اپنی مو ت آ پ مر یں گے اور باوجوداپنے محیرا لعقول سائنسی کا ر نا موں اور مسلما نو ں کے ہمہ گیر اخلا قی اور علمی زوال کے ا نہیں دنیا کی اما مت سے ہا تھ دھونا ہو گااور خود ساختہ خدائیت کے مقام سے لڑ ھک کر گر نا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ہمہ تن کو شاں ہیں کہ اسلا م اور پیغمبر اسلام ؐ  کی شانِ اقدس میں گستاخیاں کر یں ۔     
اسی سلسلے کی ایک کڑی اسلام مخا لف حا لیہ انگریزی فلم ہے جو امریکہ میں صیہو نیت اور صلیبیت کے پرستا روں نے مل کر بنا ئی ۔  یو ںہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اہل کتا ب کے مغضوب وگمراہ لو گو ں نے فخرِ آدمیتؐ ، مُحسنِ انسانیت ؐ ، محمد رسول اللہ ؐ کے تئیں اپنے دُشمنانہ رویہ کو واضح کردیا۔ یہودیوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر آج دنیا  کے اندھیا ورں میں کہیں انصاف، ہمدردی ، محبت اور انسانیت کا وجو د اور اجا لا ہے تو یہ صرف اور صرف اِسی محمد رسول اللہ ؐ کی مُقدس تعلیمات اور آ پ ؐ کی سیرت کا پرتو ہے ۔ اس سلسلے میں ’دی ہینڈر‘ نا می وہ کتا ب چشم کشا ہے جو ایک عیسا ئی کی تصنیف ہے لیکن اسے بھی چا ر ونا چار تسلیم کر نا پڑا کہ دنیا کی تہذیبی گہما گہمی ، علمی تفوق اور بقائے با ہم کی تاریخ میں اگر کسی نے سب سے آگے تن تنہا ہراول دست کا کام کیا تو پیغمبرآ خر الزما ں ؐ ہیں اور آ پ ؐ ہر معا ملے میں ہر عظیم شخصیت پر سبقت لے کرسر فہر ست ہیں ۔ حتیٰ کہ محمد عربی ؐ کی سکھا ئی ہو ئی تعلیما ت ، بتا ئے ہو ئے انعامات اور دکھا ئی ہو ئی راہ کی وجہ سے مسلمانوں نے اِن یہودیوں کو تب پناہ دی جب وہ ساری دُنیا میں تتر بتر تھے ، جب ساری دنیا میں یہودیوں کو ذلیل و خوار کیا جا رہا تھا اور جب ان پر دو آنسو بھی کو ئی بہا نے والا نہ تھا ۔اس تا ریخی حقیقت کا برملااظہار اسرائیل کے سابقہ وزیر اعظم بن گوریون نے یوں کیا۔
"Muslim Spain ia the golden era of our diaspora"                                
یعنی مسلم اسپین یہودیوں کے دورِ انتشار کا سنہری دور ہے جہاں مسلمانوں کے وسیع القلبی و فراخ دلی کی وجہ سے اُن کو عزت ملی اور حقِ حیا ت ملا۔ دوسری طرف عیسائیوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چا ہئے کہ جس سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے وہ آج ساری دُنیا کے حکمران بنے ہوئے ہیں، یہ دنیو ی نعمت بھی اس دُنیا کوصرف اور صرف رسولِ رحمت ؐ کی ہی وجہ سے ملی جنہوں نے علم کی اہمیت کوواضح کرتے ہوئے فرمایاعلم میرا ہتھیار ہے۔
پھر یہ حضورؐ کے ہی غلاموں کی محنت کا ثمرہ ہے جنہو ں نے زما نہ ٔ وسطیٰ میں مختلف علوم کے دریا بہادئے۔ پھر بعد میں غلاامان ِ محمدؐ کے ہی علمی خزانے کو عیسائیوں نے بنیادبنا کر موجودہ سائنسی دور کا آغاز کردیا۔ یہ بات ہم کسی وہم یا عقیدت میں رو میں نہیں کہہ رہے بلکہ تاریخ کے اوراق میں یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں ہے اور اِس بات کا اظہار اسلام بیزار مستشرق پی کے ہٹی اپنی کتاب "History of Arabs"میں یوں کرتا ہے۔
"Muslim Spain wrote one of the Brightest chapters in the intellectual history of Europe. Between the middle of the eighth and the beginning of the thirteenth centuries, the Arabic speaking people where the main bearers of the torch of culture and civilization throughout the world. They were the medium through which ancient science and philosophy were recovered , supplemented, and transmitted in such a way, as to make possible the renaissance of western Europe."
 با لفا ظ دیگر اقوامِ عالم کی حالیہ ترقیاں آپ ؐ کے عظیم ترین علمی وفکری محنتوں کا ہی نتیجہ ہیں۔اِسی طرح کا اعترافِ حقیقت ایک اور غیر مسلم مفکر   John Willam Draper اپنی کتاب"Intellectual Development of  Europe"میں یوں کرتا ہے۔ 
"I have to deplore the systematic manner in which the literature of Europe has continued to put out of sight our obligations to the Mohammedans (Muslims) Surely they can not be much longer hidden. Injustice based  on religion rancour  and national conceit can not be perpetuated forever. The Arab has left his  intellectual impress on Europe. He has indelibly written it on the heavens as any one my see who reads the names of the stars on common celestial globe."      
اسی کو کہتے ہے کہ حقیقی عظمت وہی ہے جس کا اعتراف دشمن بھی کرے مگراہل کتاب کی کتنی فتنہ پرور ذہنیت ہے کہ جس محمد رسول اللہؐ کے طفیل ان پر امت مسلمہ کے یہ احسانا ت ہیں ، آ ج یہ اسی کے خلا ف ہر محا ذپر کمربستہ ہو جائیں۔اِن یہودیوں اور عیسائیوں کو توـتھامس کارلائل کی طرف دیکھنا چاہے جو خوداِنہی میں سے تھا۔ جب اُس نے’’ ہیروز ازم‘‘ نام سے کتاب لکھناشروع کی تو سارے انبیاء علیہ السّلام میں صرف محمد رسول اللہ ؐ کو اپنا ہیرو مانا۔ کیا کو ئی عقل کا اندھا یہ ما نے گا کہ کارلائل کو حضرت موسیٰ  ؑ کے کارنامے یاد نہ تھے ‘ کیا اُسے داوودؑ کے کارنامے معلوم نہ تھے؟ کیا اُسے سلیمانؑ کے معجزات پر نظر نہ تھی؟ کیا اُسے یوسف ؑ اور یحییٰ  ؑ وغیرہ کے معجزات اور کنٹربیو شن  پتہ نہ تھے؟کارلائل جیسے عظیم دماغ کو یہ سب کچھ معلوم تھا اور خود عیٰسیؑ کا نام لیوا بھی تھا مگر پھر بھی صرف اور صرف حضور ؐکو ہی اپنا رہبر اور ہیرو کیوں تسلیم کیا؟ اِس کا جواب یوں ہے کہ ’’ جب کارلائل نے اپنی مئور خانہ تحقیقات کی نِگاہ سے آفتابِ نبوت محمد رسولؐ کو دیکھا تب اُسے ہزراوں سال کے عہدوسیع کے آسمان پر اور کوئی کوکبِ نبوت نظر نہ آیا‘ جیسے اِس آفتاب ؐکے دوش بدوش وہ اپنے اوراق پر جلوہ گر کرسکتا۔ــ‘‘ ( ماخوز از رحمتً للعالمینؐ ۔ مصنف فاضی سلیمان منصور یوریؒ  ۔)
اسلام دشمن عنا صر کو کیا ہوا کہ آسمان پر نمودار ہُوئے سورج کا تو اقرار کرتے ہیںمگرجس محمد رسول اللہ ؐکی سیرت مبار کہ اِس سورج سے اربوں کھربوں گنا روشن ہے اُنؐ  کو غلط ، قابل اعتراض اور شرا نگیز طر یقے پہ فلمو ں اور کا رٹونو ں کے ذریعے پیش کر کے تا ریخ اور صداقت کو جھٹلا نے کا واہیات کا م کرتے ہیں۔ جب سے ان عیسائیوںاوردرپردہ طور یہودیوں کے ہاتھوں میں دُنیا کی چند روزہ قیادت آئی تب سے عالمِ انسانیت نے تبا ہی ہی تباہی دیکھی ہے ۔ چاہے وہ دو عظیم جنگیں ہوں‘ چاہے وہ شیطانی سودی نظام ہو‘ چاہے وہ مسلمان ممالک کی موجودہ تباہی ہو ‘ چاہے وہ موجودہ دُنیا کا اخلاقی بُحران ہو ‘ چاہے وہ صنفِ نازک کی چادرِ عزت کی نیلامی ہو،۔
تاریخ شاہد عادل ہے کہ محمد رسول اللہ صلعم نے (جن ؐ کی یہودی اورعیسائی خدا واسطے دشمن بنے پھر رہے ہیں ) ان سارے مکہّ والوں کو بیک جنبش قلم معاف کردیا جنہو ں نے آ پ ؐ کو اذیتیں دینے میں کو ئی کسر با قی نہ رکھی تھی ‘جنگِ حُنین کے مو قعہ پر چھے ہزار جنگی قیدیوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا کہ انصاف و عدل کے دامن پر کو ئی ادنیٰ آنچ نہ آئی ۔ ساری حیات مبارکہ صلعم انسانیت کی بقا کے لئے صَرف کر دی۔ یہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ ؐ کی ہی ذات با بر کت ہے کہ آپ ؐکے جانی دشمن بھی آپ ؐ کو امین‘ صادق جیسے معزز القاب سے پکارتے تھے۔ دُنیا ئے انسانیت نے یہ نظارہ پہلی بار آپ ؐ کے ہی ذریعہ سے ہی دیکھا کہ آپ ؐ کے جانی دشمن بھی اپنی امانیتں آپ ؐ کے حوالے کرتے تھے کیونکہ اُن کو معلوم تھا کہ کچھ بھی کیوں نہ ہو جائے آپؐ  نعوذ با للہ حیا نت کرنے والے ہیں ہی نہیں۔ یہ صرف اور صرف حضور ؐ کی ہی ذات والا شان ہے جسؐ نے لوگوں تک اپنی اپنی امانتیں پہنچانے کا اُس وقت بھی انتظام کرلیا جب ہجرت کی رات میں اہلِ مکہ آپ  ؐ کو شہید کرنا چاہتے تھے۔ اِن یہودیوں اور عیسایئوں کے نزدیک  انسانی آزادی ‘ اخوت ‘ اور انصاف کوئی معنی ہی نہیں رکھتے ہیں کیونکہ جس فکر وفلسفہ کے نما ئندے ہیں ‘وہ تو صرف اور صرف نسل پرستا نہ اور قومی تفا خر جیسی لا یعنی چیزوں پر انحصار رکھتی ہے‘ دوسرے اقوام کے کئے وہاں انصاف ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے جس کاجیتا جاگتا ثبوت U.N.O ہے جو کہ اِن ہی یہودیوں اور عیسایئوںکے زیر قیادت ہے۔ اِس کے برعکس جن محمد رسول اللہؐ کے خلاف یہ لوگ ہمیشہ زہر اگلتے رہتے ہیں، انہوں ؐ نے عدل و انصاف، بھائی چارے ‘  انسان دوستی کی ایسی زندگی بخش فضا سرزمین عرب میں قائم کر کے رکھد دی جس کی تعریف میں ایچ جی ویلز بے ساختہ بُول اُٹھے:
"Although the sermons of human freedom, fraternity and equality where said before also. We find a lot in the sermons of Jesus of Nazareth, but, it must be admitted that, it was only Mohammad (SAW) , who for the first time in the history of mankind established society based on these principles."                   
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود وایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اِن دشمنانِ حق کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرنی چاہیے کہ یہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ ؐ  ہی ہے جو آبروئے انسانیت ہیں‘ جنؐ کی ہستی کے بغیر انسانیت  اور عدل گستری کا تصّور نا ممکن ہے کیونکہ یہ محمد رسول اللہ ؐ  ہی ہیںجو ایک انسان کو اُس کی زندگی کے ہر ایک میدان میں رہنمائی کرتے ہیں ‘ چاہے وہ سیاسی میدان ہو‘ چاہے وہ اقتصادی میدان ہو‘ وہ جنگ کا میدان ہو‘ چاہے وہ امن وصلح کی میز ہو‘ چاہے وہ ملک کے حکمرانی کا منصب ہو‘چاہے وہ ایک لیڈر ی کا مسئلہ ہو، چاہے وہ ایک باپ کے حقوق اور فرائض ہوں، چاہے وہ ایک بیٹے کی اطاعت شعاری کا نکتہ ہو، چاہے وہ ایک اُستاد اور شاگرد کا رشتہ ہو وغیرہ۔ الغرض ہر جگہ صرف اور صرف اِنسان کا مِلؐ  محمد رسول اللہ ؐ ہی رہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اِس حقیقت کا اِظہار  غیر مسلم مفکر ـسر جیت سنگھ لانبہ یوں کرتا ہے:  ’’ انسان اپنے رہنمائے کامل کی جستجومیں جس طرف بھی نگاہ ڈالے آپ ؐ ہی آپ ؐدکھاتے دیتے ہیں‘‘۔
یہ اسلام دشمن عنا صر کی کیسی نادانی ہے کہ ایڈیسن کے تو اس لئے مشکور ہیں کہ اُس نے بجلی کا بلب ایجاد کر دیا ، جس سے اُن کے گھر روشن ہو گئے مگر جس محمد ؐ کے ہونے سے ساری انسانیت ہدایت کے نور سے منور ہو گئی، اُن ؐ کے مشکور اور ثنا ء خواں ہو نا تو دور کی بات آ پ ؐ  سیرت طیبہ پر نا قابل معافی گستا خیا ں کرتے ہیں لیکن کیا پھو نکو ں سے یہ چراغ بجھا یا جا سکتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ 
courtesy: Kashmir Uzma Srinagar

No comments:

Post a Comment