Search This Blog

Friday 2 November 2012

WALIDAIN HUSNE SULOOK KE MUSTAHEQ

والدین حُسنِ سلوک کے مستحق


اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے بنی آدم کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔قوتِ گویائی ، فہم وادراک جیسی نعمتیں عطا کرکے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیاہے ۔والدین بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آدمی کے لئے ایک بڑی نعمت اور بہت ہی بڑا احسان ہیں ۔ قرآن پاک میں بھی جگہ جگہ والدین کی شکر گزاری کو اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کے ساتھ ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ ’’اور آپ کے رب نے فیصلہ فرمادیا ہے کہ تم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو‘‘۔(بنی اسرائیل)بچے کے جنم لیتے ہی والدین کی زندگی ہی جیسے بدل جاتی ۔جینے کے ڈھنگ میں اَن گنت تبدیلیاں آتی ہیں ۔باپ جو اب تک صرف اپنے عیش وآرام ، اپنے مستقبل کو سجانے کی کوشش میں رہتا تھا ، اب اپنے بچے کے لئے ،اس کے آرام وآسائش ، اس کے مستقبل کے لئے جی جان سے محنت کرنے لگتاہے ۔ ماں جو اب تک اپنا بیشتر وقت سجنے سنورنے میں لگاتی تھی ، میکے کو یاد کرنا ،مِس کرنا ، سسرال میں خود کو ایڈجسٹ کرنا غرض اپنے ہی کاموں میں محو رہتی تھی بچے کے آتے ہی سجنا سنورنا ،میکے کوکیا مانو کہ خود کو ہی بھول جاتی ہے ۔ہر پل ، ہر لمحہ صرف او رصرف بچے کی فکر میں لگی رہتی ہے ۔بچے کو معمولی درد ہوتو بچے سے زیادہ ماں بیمار دکھائی دیتی ہے ۔ بچے کو سجا سنوار کر خود اس کی خوشی محسوس کرتی ہے ۔ اگر بچہ کبھی بھوکا سوئے تو والدین رات بھر تڑپتے ہیں۔رات کواُٹھ اُٹھ کر بچے کو تکتے رہتے ہیں ۔بچے کی ہنسی سے ماں باپ کے چہرے کھل اٹھتے ہیں ۔بچے کے آنے سے ان کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ پہلے پہل جب بچے سکول جانے لگتے ہیں تو والدین ان کے گھر لوٹنے کا اس طرح انتظار کرتے ہیں جیسے کوئی روزے دار پورے مہینے کے روزوں کے بعد عید کے چاند کامنتظررہتاہے ۔ بچہ بڑا ہوجاتاہے ۔ پرائمری سے ہائر کلاسز میں داخلہ لیتاہے والدین کے راتوں کی نینداُڑ جاتی ہے ایسالگتاہے جیسے بچے کے مستقبل کا نہیں ، ماں باپ کے مستقبل کا سوال ہوتاہے ۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کی دینی واخلاقی تربیت ، ان کی صحیح نشونما کے لئے والدین بے حد فکر مند رہتے ہیں اور ہر کوئی ماں باپ یہی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی اولاد کوبہترین تربیت ملے ،بہترین تعلیم ملے تاکہ وہ آرام وآسائش ، عزت وکامیابی کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکے۔ بچے کے روشن مستقبل کیلئے والدین اپنے تن من دھن کو صرف کردیتے ہیں ۔ ان کی پرورش کے لئے دن کا سکون ،راتوں کا آرام نچھاور کرتے ہیں۔اپناہر لمحہ اپنی اولاد کی زندگی سنوارنے کے لئے نچھاور کرتے ہیں ۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھتے ہیں توسب سے پہلے بچوں کا نام زبان پرآتاہے ۔ خود کو مانو بھول ہی جاتے ہیں ۔اتنی محبت ، اتنی منزلیں طے کرتے کرتے انہیں معلوم ہی نہیں پڑتا کہ کب جوانی چھوڑ کے چلی گئی اور کب پیری نے دستک دی ۔ غرض والدین بچے کی پرورش کرتے کرتے اپنا سب کچھ ، اپنی جوانی قربان کردیتے ہیں ۔انہیں کبھی اپنے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ وہ اپنی اولاد کو ہی اپنا مستقبل سمجھتے ہیں اور اب ان کی ساری اُمیدیںان کی اولاد سے وابستہ ہوتی ہیں۔بڑھاپے میں جب ساری توانائی رخصت ہوجاتی ہے، جسم کے ہر اعضو میں تھکان اور درد محسوس ہوتاہے تو انسان میں چڑچڑاپن آنا ایک فطری عمل ہے ۔ اکثر بڑھاپے میں ایسے حالات ہوجاتے ہیں ۔ یہیں پرایک اولاد کا فرض بنتاہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نرمی سے ،شرافت سے اور محبت سے پیش آئے تاکہ اللہ کی رضاحاصل کرسکے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا عمل خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے ؟‘‘ آپؐ نے فرمایا وہ نماز جو وقت پرپڑھی جائے ‘‘۔ میں نے پوچھا پھر اس کے بعد کون سا عمل خدا کو سب سے زیادہ محبوب ہے ۔آپ صلعم نے فرمایا ’’ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک ‘‘ ۔ میں نے پوچھا اس کے بعد ،جواب ملا ’’خداکی راہ میں جہاد کرنا‘‘۔ سبحان اللہ کتنا اجروثواب ہے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں ۔بے شک وہ لوگ بہت نصیب والے ہیں جووالدین کی خدمت کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں ۔ ان کی حق ادائی کرتے ہیں او راپنی دنیا وآخرت کو سنوارتے ہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’ ’وہ آدمی ذلیل ہو، پھر ذلیل ہو ، پھر ذلیل ہو ‘‘۔ لوگوں نے پوچھا اے خداکے رسولؐ! کون آدمی؟آپؐ نے فرمایا ’’ وہ آدمی جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے کی حالت میں پایا ۔ دونوں کو یا کسی ایک کو اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا‘‘۔
یہ اللہ کا کرم ہے اور ہمارے والدین کے بے شمار احسانات ہیں جن کی پرورش اور نگرانی میں ہم پلے بڑھے ہیں اور جس جذبہ ایثار ، محبت اور شفقت سے انہوں نے ہماری رہنمائی کی۔ اس کا تقاضایہی ہے کہ ہم اپنے والدین کی خدمت کریں۔ ان کے شکرگزار رہیں اور اپنے لئے جنت حاصل کریں ۔ ایک اور حدیث میں آیاہے کہ حضرت ابوامامہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبیؐ سے پوچھا : یا رسول اللہؐ !ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ماں باپ ہی تمہاری جنت ہیں اور ماں باپ ہی دوزخ ‘‘یعنی والدین کے ساتھ نیک سلوک کرکے تم جنت کے مستحق ہوں گے ۔ ان کے حقوق کو پامال کرکے تم جہنم کا ایندھن بنو گے ۔اللہ ہم سبھوں کو جہنم کی آگ سے بچائے ۔(آمین)
بزرگی میں والدین خود کو بچوں کی خاص توجہ کا مستحق سمجھتے ہیں کیونکہ وہ جوانی سے لے کر پیری تک اپنے بچے کو ہی اپنا مستقبل اور اپنی محنت کا حاصل سمجھتاہے ۔ جسمانی کمزوری کی وجہ سے وہ خود اپنے لئے کچھ کرنہیں پاتے ہیں اسی لئے ان کے مزاج میں تلخی پیدا ہوتی ہے اور کبھی کبھی وہ ان حالات میں خلاف توقع مطالبے کرنے لگتے ہیں ۔لیکن اولاد کو پھر بھی یہ حق نہیں بنتا کہ اپنے والدین کے ساتھ تلخی سے پیش آئیں ۔ اولاد کو چاہئے کہ والدین کی خوشنودی حاصل کریں نہ کہ ناراضگی۔
جب کوئی چھوٹا بچہ کسی چیز کو لے کر والدین سے ضد کرتاہے ۔ رو رو کے آسمان سر پر اٹھاتاہے تو والدین اس بچے کو اس کے حال پر نہیں چھوڑتے بلکہ اپنی طاقت کے مطابق یاتو اس کو وہ چیز دے دیتے ہیں یا پھر بڑے پیار سے سمجھا کرچپ کراتے ہیں ۔ چونکہ بچہ بھی تو بے بس اور کمزور ہوتاہے خودکوئی چیز حاصل کرنے کی قوت نہیں رکھتاہے۔اسی لئے والدین کومجبور کرتاہے او راپنا مقصد حاصل کرلیتاہے ۔بالکل ویسے ہی بڑھاپے میں بھی ہوتاہے ۔ خداہمیں والدین کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)والدین ہی ہیں جو ہمیں بچپن میں سہارادیتے ہیں۔ پال پوس کر اچھی تعلیم وتربیت دے کر ہماری سرپرستی فرماتے ہیں اور ماں باپ ہی ہیں جو ہمیں اس قابل بنادیتے ہیں کہ ہم سماج میں عزت اور وقار کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں ۔ خداتعالیٰ ہم سبوں کواس عظیم نعمت یعنی ’’والدین‘ ‘ کی قدر وعزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اللہ کرے ہمارے والدین ہمیشہ خوش رہیں اور ہم سے کبھی خطا نہ ہو۔ جس سے والدین کے دل کوٹھیس پہنچے ۔ یا اللہ ہمیں ایسی صلاحیت عطا فرماکہ ہم والدین کی عزت کریں ، ان کی رضا حاصل کریں تاکہ ہمیں دنیا وآخرت کی سعادت نصیب ہوجائے ۔

No comments:

Post a Comment