Search This Blog
Monday, 12 December 2016
سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم
سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم
شاہنواز فاروقی
انبیاء و مرسلین دنیا کے عظیم ترین انسان تھے۔ لیکن بعض انبیاء کو اپنی قوموں اور اپنے اصحاب سے اچھے تجربات میسر نہیں آئے۔ حضرت نوح ؑ ساڑھے نوسو سال تک تبلیغ کرتے رہے مگر ان کی قوم ٹس سے مس نہ ہوئی۔ چنانچہ حضرت نوح ؑ کی پوری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا۔ طوفانِ نوح آیا تو حضرت نوح ؑ کے ساتھ چالیس سے کم افراد تھے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت نوح ؑ کی قوم کے بدقماش لوگ حضرت نوحؑ کو زدوکوب کرتے رہتے تھے، یہاں تک کہ انہیں بوری میں بند کرکے مارتے تھے۔ اس تشدد سے حضرت نوح ؑ اکثر بے ہوش ہوجاتے۔
حضرت موسیٰ ؑ کی قوم بہت سوال کرنے والی تھی۔ اس سلسلے میں قربانی کی گائے کا واقعہ قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کبھی پوچھ رہی تھی کہ گائے بوڑھی ہو یا جوان ہو؟ اورکبھی سوال کررہی تھی کہ اس کا رنگ کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت موسیٰ ؑ پہاڑ پر گئے اور مقررہ دن سے زیادہ پہاڑ پر رک گئے تو ان کی قوم نے بچھڑا ایجاد کرلیا اور اس کو پوجنے لگی۔ حالانکہ حضرت موسیٰ ؑ اپنے چھوٹے بھائی حضرت شعیب ؑ کو اپنی قوم کے پاس چھوڑ کر گئے تھے جو خود بھی پیغمبر تھے۔ ایک موقع پر جنگ کا مرحلہ آیا تو حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کے لوگوں نے حضرت موسیٰ ؑ سے صاف کہہ دیا کہ ہم جنگ میں آپ کا ساتھ نہیں دیں گے، آپ کو لڑنا ہے تو آپ لڑیں اور آپ کا خدا لڑے۔ حضرت عیسیٰ ؑ پانچ اولوالعزم انبیاء میں سے ایک ہیں، لیکن آپ ؑ کے ایک حواری Judas یہودی نے ہی آپؑ کی مخبری کرکے آپؑ کو گرفتار کرایا اور صلیب تک پہنچایا۔ اسلام کی گواہی یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب پر چڑھائے جانے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ حالت میں آسمان پر اٹھا لیا، مگر حضرت عیسیٰ ؑ کے حواری نے انہیں قتل کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
سیرتِ طیبہ کا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ بلاشبہ اہلِ مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں رہنے نہ دیا۔ اہلِِ مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبِ ابی طالب میں طویل عرصے تک محصور رکھا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اصحاب فراہم ہوئے اُن جیسے لوگ نہ چشم فلک نے پہلے دیکھے تھے اور نہ بعد میں دیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپؐ پر فدا تھے۔ آپؐ ان کے سامنے تشریف فرما ہوتے تو وہ اتنے ادب سے گردن جھکا کر بیٹھ جاتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور ذرا سی جنبش سے ان کے اڑ جانے کا اندیشہ ہو۔ آپؐ وضو کرتے تو آپؐ کے اصحاب وضو کا پانی زمین پر نہ گرنے دیتے۔ اسے پی جاتے یا جسم پر مَل لیتے۔ آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مدینہ ہجرت کی تو راستے میں حضرت ابوبکرؓ کبھی آپؐ کے دائیں ہوجاتے، کبھی بائیں۔ کبھی ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلنے لگتے، کبھی پیچھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو پوچھا کہ ابوبکر کیا بات ہے؟ آپؐ کے استفسار پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ مجھے آپؐ پر دائیں جانب سے حملے کا خوف ہوتا ہے تو میں دائیں جانب ہوجاتا ہوں، بائیں جانب سے حملے کا اندیشہ ہوتا ہے تو میں بائیں جانب آجاتا ہوں۔
یہ تو خیر اصحاب کا معاملہ ہے۔ عام مسلمان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ عشق کرتے تھے۔ غزوۂ احد میں کفار اور مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہید ہونے کی افواہ اڑا دی۔ افواہ مدینہ پہنچی تو پورا مدینہ بے تاب ہوگیا۔ ایک خاتون بے تاب ہوکر گھر سے باہر نکل آئیں۔ انہیں میدانِ کارزار سے لوٹنے والے ایک صاحب نے بتایا کہ تمہارا بھائی شہید ہوگیا ہے۔ ان خاتون نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ ایک اور شخص سے ان کو اطلاع ملی کہ ان کا بیٹا بھی جنگ میں کام آگیا ہے، انہوں نے کہا: یہ بتاؤ رسول اللہ کس حال میں ہیں؟ تھوڑی دیر بعد انہیں ایک اور صاحب نے مطلع کیا کہ آپ کے شوہر بھی شہید ہوگئے ہیں تو انہوں نے سوال کیا کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں۔ یہ سن کر ان خاتون نے کہا کہ پھر مجھے کسی بات کا غم نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو شدتِ محبت اور شدتِ غم کے باعث حضرت عمرؓ کہنے لگے کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ رسول اللہ کا انتقال ہوگیا ہے تو میں اپنی تلوار سے اُس کا سر اڑا دوں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر ایک عام عورت کا تبصرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کا مظہر تھا۔ اس عورت نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے اور انہیں بھی ایک دن دنیا سے رخصت ہونا تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہونے سے آسمان اور زمین کے درمیان رابطہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگیا ہے۔ یعنی اب زمین پر کبھی وحی کا نزول نہ ہوگا۔
سیرتِ طیبہؐ کا یہ واقعہ بھی مشہور ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کی جانب دیکھا اور فرمایاکہ میں نے اتنا خوبصورت چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک کہا۔ تھوڑی دیر بعد وہاں سے ابوجہل کا گزر ہوا، اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھا اور منفی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے درست کہا۔ صحابۂ کرام نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دو مختلف باتوں کے جواب میں ایک ہی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں ایک آئینہ ہوں، میرے اندر سب کو اپنا عکس نظر آتا ہے۔ اور یہ بات بالکل درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس انسانوں کی تعریف متعین کرنے والی یا ان کے اصل کو Define کرنے والی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رابطے میں آئے اُن کی پانچ اقسام تھیں۔ پہلی قسم اُن لوگوں کی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح جانتے تھے، جن کو معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ان لوگوں نے کسی سوال یا تردد کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔ ان لوگوں میں حضرت ابوبکرؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت خدیجہؓ شامل تھیں۔ کچھ لوگ ایسے تھے جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست میل ملاقات نہ تھی۔ ان کے لیے قرآن مجید یا اللہ کا کلام تھا۔ چنانچہ انہوں نے جیسے ہی قرآن مجید سنا اُن کے دل کی دنیا بدل گئی۔ اُن کے دل نے گواہی دی کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال عمر فاروقؓ ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلے تھے مگر قرآن کا تھوڑا سا حصہ سن کر ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے ایمان لانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا۔ ان لوگوں کی دو اقسام تھیں۔ ایک وہ جنہوں نے معجزہ طلب کیا، معجزہ دیکھا اور ایمان لے آئے۔ دوسرے وہ جنہوں نے معجزہ دیکھا اور کہا کہ یہ تو جادو ہے، اور وہ ایمان نہیں لائے۔ لیکن کچھ لوگوں نے معجزے کو جادو کیوں کہا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کی روحانی اور نفسیاتی استعداد اتنی ہی تھی، وہ جادو کو پہچان سکتے تھے مگر معجزے کو نہیں پہچان سکتے تھے۔ انسانوں کی پانچویں قسم اُن لوگوں پر مشتمل تھی جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے۔ یہ وہ لوگ تھے جو سیاسی بالادستی یا طاقت کے غلبے کو اہم سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب اسلام کو سیاسی غلبہ یا طاقت حاصل ہوگئی تو ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ اب جزیرہ نمائے عرب میں اسلام ہی کا سکہ چلے گا۔ اس طرح کے لوگوں کی سب سے بڑی مثال ابوسفیان ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انسانوں کی یہ اقسام صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک تک محدود نہ تھیں۔ انسانوں کی یہ اقسام رہتی دنیا تک اسی طرح نمودار ہوتی رہیں گی جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں نمودار ہوئی تھیں۔ فرق یہ ہوگا کہ اب دنیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہیں، چنانچہ اب جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہوں گے وہ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو دیکھیں گے۔ اسی طرح معجزے کا پہلو اب اسلام کی اُن جہات سے متعلق ہوگا جو دنیا میں موجود فکر کے دوسرے دھاروں سے زیادہ متاثر کن ہوں گی۔
غور کیا جائے تو سیرتِ طیبہ کے ساتھ ہمارے تعلق کی تین بنیادی جہتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی درجے کی عقیدت ہو۔ دوسرے یہ کہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو زندہ رکھیں۔ تیسرے یہ کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی درجے کی محبت ہو۔ عصرِ حاضر میں ان جہتوں کا معاملہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی درجے کی عقیدت ہے۔ عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہوتا ہے۔ آپ جس سے عقیدت رکھتے ہیں اس پہ اپنی جان نثار کردیتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے سامنے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی ایک کلمہ بھی کہہ دے تو مسلمان اپنی جان دے بھی سکتا ہے اور ایسا کلمہ کہنے والی کی جان لے بھی سکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کا حال یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں درود و سلام، نعتیہ محفلوں اور میلاد کا سلسلہ عام ہے۔ لیکن اس سلسلے میں مسئلہ یہ ہے کہ اکثر مسلمان ان محفلوں کے انعقاد کو کافی سمجھتے ہیں اور ان کا جذبہ مزید آگے بڑھ کر سیرتِ طیبہؐ کے سانچے میں نہیں ڈھلتا۔ سیرتِ طیبہؐ سے ہمارے تعلق کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ہمیں رسول اللہ سے انتہائی درجے کی محبت ہو۔ محبت کا تقاضا اتباع اور پیروی ہوتی ہے۔ انسان جس شخص سے محبت کرتا ہے اس کے جیسا بن جانا چاہتا ہے۔ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں، مگر ہمارے فکر و عمل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی جھلک کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت کا دعویٰ محض دعویٰ ہی ہے، اور محض دعوے سے نہ انفرادی زندگی میں انقلاب برپا ہوتا ہے نہ اجتماعی زندگی انقلاب سے ہمکنار ہوتی ہے۔ اقبال نے جوابِ شکوہ میں خدا کی زبان سے کہلوایا ہے:
کی محمدؐ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں ’محمدؐ سے وفا‘ کا مفہوم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے سوا کچھ نہیں۔
نبی اکرم ﷺ بحیثیت مدبر اور ماہرسیاست
نبی اکرم ﷺ بحیثیت مدبر اور ماہرسیاست
(سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ )۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لیے جو دین بھیجا، وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے۔ جس طرح وہ عبادت کے طریقے بتاتا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے، اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہے اتنا ہی تعلق اس کا حکومت سے بھی ہے۔
اس دین کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتایا اور سکھایا بھی، اور ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کردیا۔ اس وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جس طرح بحیثیت ایک مزکیِ نفوس اور ایک معلّم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، اسی طرح بحیثیت ایک ماہرِ سیاست اور ایک مدبرِ کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔
آج کی اس صحبت میں، اس کانفرنس کے محترم داعیوں کے ارشاد کی تعمیل میں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اسی پہلو سے متعلق چند باتیں مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
نئی شیرازہ بندی
اس امرِ واقع سے آپ میں سے ہرشخص واقف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مؤرخ علّامہ ابن خلدون نے تو اُن کو اُن کے مزاج کے اعتبار سے بھی ایک بالکل غیرسیاسی قوم قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بعض لوگوں کو اس رائے سے پورا پورا اتفاق نہ ہو، تاہم اس حقیقت سے تو کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اہلِ عرب اسلام سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت اور مرکزیت سے آشنا نہیں ہوئے ہیں، بلکہ ہمیشہ ان پر نراج اور انارکی کا تسلط رہا۔ پوری قوم جنگ جُو اور باہم نبرد آزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی، جس کی ساری قوت و صلاحیت خانہ جنگیوں اور آپس کی لوٹ مار میں برباد ہورہی تھی۔ اتحاد، تنظیم، شعور، قومیت اور حکم و اطاعت وغیرہ جیسی چیزیں، جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں، ان کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ ایک خاص بدویانہ حالت پر صدیوں تک زندگی گزارتے گزارتے ان کا مزاج نراج پسندی کے لیے اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ ان کے اندر وحدت و مرکزیت پیدا کرنا ایک امرِمحال بن چکا تھا۔ خود قرآن نے ان کو قوما لُدا کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، جس کے معنی جھگڑالو قوم کے ہیں اور ان کی وحدت و تنظیم کے بارے میں فرمایا کہ: لَو اَنفَقتَ مَا فِی الاَرضِ جَمِیعًا مَّآ اَلَّفتَ بَینَ قُلُوبِھِم (الانفال 8:62) ’’اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کرڈالتے جب بھی ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ نہیں سکتے تھے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 23برس کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم ایک بنیانِ مرصوص بن گئی۔ یہ صرف متحد اور منظم ہی نہیں ہوگئی بلکہ اس کے اندر سے صدیوں کے پرورش پائے ہوئے اسبابِ نزاع و اختلاف بھی ایک ایک کرکے دور ہوگئے۔ یہ صرف اپنے ظاہر ہی میں متحد و مربوط نہیں ہوگئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی ہم آہنگ اور ہم رنگ ہوگئی۔ یہ صرف خود ہی منظم نہیں ہوگئی بلکہ اس نے پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا اور اس کے اندر حکم اور اطاعت دونوں چیزوں کی ایسی اعلیٰ صلاحیتیں ابھر آئیں کہ صرف استعارے کی زبان میں نہیں بلکہ واقعات کی زبان میں یہ قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلااستثنا دنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا۔
اصلاحِ معاشرہ کی بنیاد
اس تنظیم و تالیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک بالکل اصولی اور انسانی تنظیم تھی۔ اس کے پیدا کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو قومی، نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے کوئی فائدہ اٹھایا، نہ قومی حوصلوں کی انگیخت سے کوئی کام لیا، نہ دُنیوی مفادات کا کوئی لالچ دلایا، نہ کسی دشمن کے ہوّے سے لوگوں کو ڈرایا۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے یا بڑے مدبر اور سیاست دان گزرے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی منصوبوں کی تکمیل میں انھی محرکات سے کام لیا ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے تو یہ بات آپؐ کی قوم کے مزاج کے بالکل مطابق ہوتی، لیکن آپؐ نے نہ صرف یہ کہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ ان میں سے ہرچیز کو ایک فتنہ قرار دیا اور ہر فتنے کی خود اپنے ہاتھوں سے بیخ کنی فرمائی۔
آپؐ نے اپنی قوم کو صرف خدا کی بندگی اور اطاعت، عالم گیر انسانی اخوت، ہمہ گیر عدل و انصاف، اعلائے کلمۃ اللہ اور خوفِ آخرت کے محرکات سے جگایا۔ یہ سارے محرکات نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ تھے۔ اس وجہ سے آپؐ کی مساعی سے دنیا کی قوموں میں صرف ایک قوم کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ ایک بہترین امت ظہور میں آئی جس کی تعریف یہ بیان کی گئی: (ترجمہ) ’’تم دنیا کی بہترین امت ہو، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے اٹھائے گئے ہو‘‘۔(آلِ عمران 3:110)
ہرقیمت پر اصولوں کی پاس داری
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ جن اصولوں کے داعی بن کر اٹھے، اگرچہ وہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا: فرد، معاشرہ اور قوم کی ساری زندگی پر حاوی تھے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہرگوشہ ان کے احاطے میں آتا تھا لیکن آپؐ نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کبھی کوئی لچک قبول نہیں کی، نہ دشمن کے مقابل میں، نہ دوست کے مقابل میں۔ آپؐ کو سخت سے سخت حالات سے سابقہ پیش آیا، ایسے سخت حالات سے کہ لوہا بھی ہوتا تو ان کے مقابل میں نرم پڑجاتا، لیکن آپؐ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپؐ نے کسی سختی سے دب کر کسی اصول کے معاملے میں کوئی سمجھوتا گوارا نہیں فرمایا۔ اسی طرح آپؐ کے سامنے پیش کش بھی کی گئی اور آپؐ کو مختلف قسم کی دینی و دنیوی مصلحتیں بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں بھی آپؐ کے کسی اصول کو بدلوانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ آپؐ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہربات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قائم تھی۔ دنیا کے مدبروں اور سیاست دانوں میں سے کسی ایسے مدبر اور سیاست دان کی نشان دہی آپ نہیں کرسکتے، جو اپنے دوچار اصولوں کو بھی دنیا میں برپا کرنے میں اتنا مضبوط ثابت ہوسکا ہو کہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ اس نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کمزوری نہیں دکھائی یا کوئی ٹھوکر نہیں کھائی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پورا نظامِ زندگی کھڑا کردیا، جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے زمانے کے مذاق اور رجحان سے اتنا بے جوڑ تھا کہ وقت کے مدبرین اور ماہرینِ سیاست اس انوکھے نظام کے پیش کرنے کے سبب سے حضورؐ کو دیوانہ کہتے تھے، لیکن حضورؐ نے اس نظامِ زندگی کو عملاً دنیا میں برپا کرکے ثابت کردیا کہ جو لوگ حضورؐ کو دیوانہ سمجھتے تھے، وہ خود دیوانے تھے۔
صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذاتی مفاد یا مصلحت کی خاطر اپنے کسی اصول میں کوئی ترمیم نہیں فرمائی بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کے لیے بھی اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دی۔ اصولوں کے لیے جانی اور مالی اور دوسری تمام محبوبات کی قربانی دی گئی۔ ہر طرح کے خطرات برداشت کیے گئے اور ہر طرح کے نقصانات گوارا کیے گئے، لیکن اصولوں کی ہر حال میں حفاظت کی گئی۔ اگر کوئی بات صرف کسی خاص مدت تک کے لیے تھی تو اس کا معاملہ اور تھا، اس کی مدت ختم ہوجانے کے بعد وہ ختم ہوگئی یا اس کی جگہ اس سے بہتر کسی دوسری چیز نے لے لی، لیکن باقی رہنے والی چیزیں ہرحال اور ہر قیمت پر باقی رکھی گئیں۔ آپؐ کو اپنی پوری زندگی میں یہ کہنے کی نوبت کبھی نہیں آئی کہ میں نے دعوت تو دی تھی فلاں اصول کی لیکن اب حکمتِ عملی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ پر فلاں بات بالکل اس کے خلاف اختیار کرلی جائے۔
اصولی سیاست
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اس اعتبار سے بھی دنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپؐ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔
آپؐ جانتے ہیں کہ سیاست میں وہ بہت سی چیزیں مباح بلکہ بعض حالات میں مستحسن سمجھی جاتی ہیں جو شخصی زندگی کے کردار میں مکروہ اور حرام قرار دی جاتی ہیں۔ کوئی شخص اگر اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے جھوٹ بولے، چال بازیاں کرے، عہد شکنیاں کرے، لوگوں کو فریب دے یا ان کے حقوق غصب کرے تو اگرچہ اِس زمانے میں اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں، تاہم اخلاق بھی ان چیزوں کو معیوب ٹھیراتا ہے اور قانون بھی ان باتوں کو جرم قرار دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک سیاست دان اور ایک مدبر یہی سارے کام اپنی سیاسی زندگی میں اپنی قوم یا اپنے ملک کے لیے کرے تو یہ سارے کام اُس کے فضائل و کمالات میں شمار ہوتے ہیں۔ اُس کی زندگی میں بھی اُس کے اس طرح کے کارناموں پر اُس کی تعریفیں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی انھی کمالات کی بنا پر وہ اپنی قوم کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کے لیے یہی اوصاف و کمالات عرب جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو لوگ ان باتوں میں شاطر ہوتے تھے وہی اُبھر کر قیادت کے مقام پر آتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیاسی زندگی سے دنیا کو یہ درس دیا کہ ایمان داری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیادی اخلاقیات میں سے ہے، اسی طرح اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لوازم میں سے بھی ہے، بلکہ آپؐ نے ایک عام شخص کے جھوٹ کے مقابل میں ایک صاحبِ اقتدار اور ایک بادشاہ کے جھوٹ کو کہیں زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔ آپؐ کی پوری سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اس سیاسی زندگی میں وہ تمام مراحل آپؐ کو پیش آئے ہیں، جن کے پیش آنے کی ایک سیاسی زندگی میں توقع کی جاسکتی ہے۔
آپؐ نے ایک طویل عرصہ نہایت مظلومیت کی حالت میں گزارا اور پھر کم و بیش اتنا ہی عرصہ آپؐ نے اقتدار اور سلطنت کا گزارا۔ اس دوران میں آپؐ کو حریفوں اور حلیفوں دونوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے کرنے پڑے، دشمنوں سے متعدد جنگیں کرنی پڑیں، عہد شکنی کرنے والوں کے خلاف جوابی اقدامات کرنے پڑے، قبائل کے وفود سے معاملے کرنے پڑے، آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگوئیں کرنی پڑیں اور سیاسی گفتگوؤں کے لیے اپنے وفود ان کے پاس بھیجنے پڑے، بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات کرنے پڑے۔ یہ سارے کام آپؐ نے انجام دیے لیکن دوست اور دشمن ہر شخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ آپؐ نے کبھی کوئی وعدہ جھوٹا نہیں کیا، اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، کوئی بات کہہ چکنے کے بعد اس سے انکار نہیں کیا، کسی معاہدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ حلیفوں کا نازک سے نازک حالات میں بھی ساتھ دیا اور دشمنوں کے ساتھ بدتر سے بدتر حالات میں بھی انصاف کیا۔ اگر آپ دنیا کے مدبرین اور اہلِ سیاست کو اس کسوٹی پر جانچیں تو مَیں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی آپ اس کسوٹی پر کھرا نہ پائیں گے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سیاست میں عبادت کی سی دیانت اور سچائی قائم رکھنے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سیاست میں کبھی کسی ناکامی کا تجربہ نہیں کرنا پڑا۔ اب آپ اس چیز کو چاہے تدبر کہیے یا حکمتِ نبوت۔
خوں ریزی سے پاک انقلاب
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ آپؐ نے عرب جیسے ملک کے ایک ایک گوشے میں امن و عدل کی حکومت قائم کردی۔ کفار و مشرکین کا زور آپؐ نے اس طرح توڑ دیا کہ فتح مکہ کے موقع پر فی الواقع انھوں نے گھٹنے ٹیک دیے، یہود کی سیاسی سازشوں کا بھی آپؐ نے خاتمہ کردیا، رومیوں کی سرکوبی کے لیے بھی آپؐ نے انتظامات فرمائے۔ یہ سارے کام آپؐ نے کرڈالے لیکن پھر بھی انسانی خون بہت کم بہا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے اور آج کے واقعات بھی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا تو کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے جو انقلاب برپا ہوا، اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود شاید اُن نفوس کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہوگی جو اس جدوجہد کے دوران میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے شہید ہوئے یا مخالف گروہ کے آدمیوں میں سے قتل ہوئے۔
پھر یہ بات بھی غایت درجہ اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا کے معمولی معمولی انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں آبروئیں فاتح فوجوں کی ہوس کا شکار ہوجاتی ہیں اور مفتوحہ ملک کی سڑکیں اور گلیاں حرام کی نسلوں سے بھرجاتی ہیں۔ اِس تہذیب و تمدن کے عہد میں بھی اس صورتِ حال پر اربابِ سیاست شرمندگی اور ندامت کے اظہار کے بجائے اس کو ہرانقلاب کا ایک ناگزیر نتیجہ قرار دیتے ہیں، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دنیا میں جو انقلاب رونما ہوا، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا کہ کسی نے کسی کے ناموس پر دست درازی کی ہو۔
دنیوی کرّوفر کے بجائے فقر و درویشی
اہلِ سیاست کے لیے طمطراق بھی سیاست کے لوازم میں سے سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ عوام کو ایک نظام میں پرونے اور ایک نظم قاہر کے تحت منظم کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں وہ بہت سی باتیں اپنوں اور بے گانوں پر اپنی سطوت جمانے اور اپنی ہیبت قائم کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ یہ ساری باتیں ان کی سیاسی زندگی کے لازمی تقاضوں میں سے ہیں۔ اگر وہ یہ باتیں نہ اختیار کریں گے تو سیاست کے جو تقاضے ہیں وہ انہیں پورا کرنے سے قاصر رہ جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے جب وہ نکلتے ہیں تو بہت سے لوگ ان کے جلو میں چلتے ہیں، جہاں وہ بیٹھتے ہیں ان کے نعرے بلند کرائے جاتے ہیں، جہاں وہ اُترتے ہیں ان کے جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں میں ان کے حضور میں ایڈریس پیش کیے جاتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ جب وہ مزید ترقی کرجاتے ہیں تو ان کے لیے قصرو ایوان آراستہ کیے جاتے ہیں، ان کو سلامیاں دی جاتی ہیں، ان کے لیے بَرّی و بحری اور ہوائی خاص سواریوں کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ جب وہ کبھی کسی سڑک پر نکلنے والے ہوتے ہیں تو وہ سڑک دوسروں کے لیے بند کردی جاتی ہے۔
اُس زمانے میں ان چیزوں کے بغیر نہ کسی صاحبِ سیاست کا تصور دوسرے لوگ کرتے اور نہ کوئی صاحبِ سیاست ان لوازم سے الگ خود اپنا کوئی تصور کرتا، لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس اعتبار سے بھی دُنیا کے تمام اہلِ سیاست سے الگ رہے۔ جب آپؐ اپنے صحابہؓ میں چلتے تو کوشش فرماتے کہ سب کے پیچھے چلیں، مجلس میں تشریف رکھتے تو اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے تو دوزانو ہوکر بیٹھتے اور فرماتے کہ میں اپنے رب کا غلام ہوں اور جس طرح ایک غلام کھانا کھاتا ہے، اس طرح مَیں بھی کھانا کھاتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک بدو اپنے اس تصور کی بنا پر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اُس کے ذہن میں رہا ہوگا، سامنے آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کانپ گیا۔ آپؐ نے اُس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو نہیں، میری ماں بھی سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی، یعنی جس طرح تم نے اپنی ماں کو بدویانہ زندگی میں سوکھا گوشت کھاتے دیکھا ہوگا، اس طرح کا سوکھا گوشت کھانے والی ایک ماں کا بیٹا مَیں بھی ہوں۔ نہ آپؐ کے لیے کوئی خاص سواری تھی، نہ کوئی خاص قصر و ایوان تھا، نہ کوئی خاص باڈی گارڈ تھا۔ آپؐ جو لباس دن میں پہنتے، اس میں شب میں استراحت فرماتے اور صبح کو وہی لباس پہنے ہوئے ملکی اور غیرملکی وفود اور سفرا سے مسجد نبویؐ کے فرش پر ملاقاتیں فرماتے اور تمام اہم سیاسی امور کے فیصلے فرماتے۔
یہ خیال نہ فرمایئے کہ اُس زمانے کی بدویانہ زندگی میں سیاست اس طمطراق اور ٹھاٹ باٹ سے آشنا نہیں ہوئی تھی، جس طمطراق اور جس ٹھاٹ باٹ کی وہ اب عادی ہوگئی ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ سیاست اور اہلِ سیاست کی تو آشا ہی ہمیشہ سے یہی رہی ہے۔ فرق اگر ہوا ہے تو محض بعض ظاہری باتوں میں ہوا ہے۔ البتہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئے طرز کی سیاسی زندگی کا نمونہ دنیا کے سامنے رکھا، جس میں دنیوی کرّوفر کے بجائے خلافتِ الٰہی کا جلال اور ظاہری ٹھاٹ باٹ کی جگہ خدمت اور محبت کا جمال تھا، لیکن اس سادگی اور اس فقر و درویشی کے باوجود اس کے دبدبے اور اس کے شکوہ کا یہ عالم تھا کہ روم و شام کے بادشاہوں پر اس کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا تھا۔
اہل اور تربیت یافتہ رفقا کی تیاری
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا ایک اور پہلو بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارک ہی میں ایسے لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت بھی تربیت کرکے تیار کردی جو آپؐ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج کے مطابق آگے بڑھانے، اس کو مستحکم کرنے اور اجتماعی و سیاسی زندگی میں اس کے تمام مقتضیات کو بروئے کار لانے کے لیے پوری طرح اہل تھے۔ چنانچہ اس تاریخی حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر آس پاس کے دوسرے ممالک میں قدم رکھ دیا اور دیکھتے دیکھتے اس کرۂ ارض کے تین براعظموں میں اس نے اپنی جڑیں جمالیں اور اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کے لیے موزوں اشخاص و رجال کی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ میں نے جن تین براعظموں کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کے متعلق یہ حقیقت بھی ہرشخص جانتا ہے کہ ان کے اندر وحشی قبائل آباد نہیں تھے بلکہ وقت کی جبار و قہار سلطنتیں نہایت ترقی یافتہ تھیں، لیکن اسلامی انقلاب کی فوجوں نے جزیرۂ عرب سے اٹھ کر اُن کو اُن کی جڑوں سے اس طرح اکھاڑ پھینکا گویا زمین میں اُن کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی اور اُن کے ظلم و جَور کی جگہ ہرگوشے میں اسلامی تہذیب و تمدن کی برکتیں پھیلا دیں جن سے دنیا صدیوں تک متمتع ہوتی رہی۔
دنیا کے تمام مدبرین اور اہلِ سیاست کی پوری فہرست پر نگاہ ڈال کر غور کیجیے کہ ان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر آتا ہے جس نے اپنے دوچار ساتھی بھی ایسے بنانے میں کامیابی حاصل کی ہو جو اس کے فکر و فلسفہ اور اس کی سیاست کے ان معنوں میں عالم اور عامل رہے ہوں، جن معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے عالم و عامل ہزاروں صحابہؓ تھے۔
نبیِ خاتمؐ اور پیغمبر عالمؐ
آخر میں ایک بات بطور تنبیہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی مرتبہ اور مقام یہ ہے کہ آپؐ نبیِ خاتمؐ اور پیغمبرِعالمؐ ہیں۔ سیاست اور تدبر اس مرتبۂ بلند کا ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔ جس طرح ایک حکمران کی زندگی پر ایک تحصیل دار کی زندگی کے زاویے سے غور کرنا ایک بالکل ناموزوں بات ہے، اس سے زیادہ ناموزوں بات شاید یہ ہے کہ ہم سیّدکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ایک ماہرِ سیاست یا ایک مدبر کی زندگی کی حیثیت سے غور کریں۔
نبوت و رسالت ایک عظیم عطیۂ الٰہی ہے۔ جب یہ عطیہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو بخشتا ہے تو وہ سب کچھ اس کو بخش دیتا ہے، جو اس دنیا میں بخشا جاسکتا ہے۔ پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم تو صرف نبی ہی نہیں تھے بلکہ خاتم الانبیاؐ تھے۔ صرف رسول ہی نہیں تھے بلکہ سیّدالمرسلؐ تھے۔ صرف اہلِ عرب ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالم کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور آپؐ کی تعلیم و ہدایت صرف کسی خاص مدت تک ہی کے لیے نہیں تھی بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والی تھی۔ اور یہ بھی ہرشخص جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی دینِ رہبانیت کے داعی بن کر نہیں آئے، بلکہ ایک ایسے دین کے داعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی اور دنیا و آخرت دونوں کی حسنات کا ضامن تھا، جس میں عبادت کے ساتھ سیاست اور درویشی کے ساتھ حکمرانی کا جوڑ محض اتفاق سے نہیں پیدا ہوگیا تھا بلکہ یہ عین اس کی فطرت کا تقاضا تھا۔ جب صورتِ حال یہ ہے تو ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سیاست دان اور مدبر اور کون ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ چیز آپؐ کا اصلی کمال نہیں بلکہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا آپؐ کے فضائل و کمالات کا محض ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔
اس دین کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتایا اور سکھایا بھی، اور ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کردیا۔ اس وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جس طرح بحیثیت ایک مزکیِ نفوس اور ایک معلّم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، اسی طرح بحیثیت ایک ماہرِ سیاست اور ایک مدبرِ کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔
آج کی اس صحبت میں، اس کانفرنس کے محترم داعیوں کے ارشاد کی تعمیل میں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اسی پہلو سے متعلق چند باتیں مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
نئی شیرازہ بندی
اس امرِ واقع سے آپ میں سے ہرشخص واقف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مؤرخ علّامہ ابن خلدون نے تو اُن کو اُن کے مزاج کے اعتبار سے بھی ایک بالکل غیرسیاسی قوم قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بعض لوگوں کو اس رائے سے پورا پورا اتفاق نہ ہو، تاہم اس حقیقت سے تو کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اہلِ عرب اسلام سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت اور مرکزیت سے آشنا نہیں ہوئے ہیں، بلکہ ہمیشہ ان پر نراج اور انارکی کا تسلط رہا۔ پوری قوم جنگ جُو اور باہم نبرد آزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی، جس کی ساری قوت و صلاحیت خانہ جنگیوں اور آپس کی لوٹ مار میں برباد ہورہی تھی۔ اتحاد، تنظیم، شعور، قومیت اور حکم و اطاعت وغیرہ جیسی چیزیں، جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں، ان کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ ایک خاص بدویانہ حالت پر صدیوں تک زندگی گزارتے گزارتے ان کا مزاج نراج پسندی کے لیے اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ ان کے اندر وحدت و مرکزیت پیدا کرنا ایک امرِمحال بن چکا تھا۔ خود قرآن نے ان کو قوما لُدا کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، جس کے معنی جھگڑالو قوم کے ہیں اور ان کی وحدت و تنظیم کے بارے میں فرمایا کہ: لَو اَنفَقتَ مَا فِی الاَرضِ جَمِیعًا مَّآ اَلَّفتَ بَینَ قُلُوبِھِم (الانفال 8:62) ’’اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کرڈالتے جب بھی ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ نہیں سکتے تھے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 23برس کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم ایک بنیانِ مرصوص بن گئی۔ یہ صرف متحد اور منظم ہی نہیں ہوگئی بلکہ اس کے اندر سے صدیوں کے پرورش پائے ہوئے اسبابِ نزاع و اختلاف بھی ایک ایک کرکے دور ہوگئے۔ یہ صرف اپنے ظاہر ہی میں متحد و مربوط نہیں ہوگئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی ہم آہنگ اور ہم رنگ ہوگئی۔ یہ صرف خود ہی منظم نہیں ہوگئی بلکہ اس نے پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا اور اس کے اندر حکم اور اطاعت دونوں چیزوں کی ایسی اعلیٰ صلاحیتیں ابھر آئیں کہ صرف استعارے کی زبان میں نہیں بلکہ واقعات کی زبان میں یہ قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلااستثنا دنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا۔
اصلاحِ معاشرہ کی بنیاد
اس تنظیم و تالیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک بالکل اصولی اور انسانی تنظیم تھی۔ اس کے پیدا کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو قومی، نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے کوئی فائدہ اٹھایا، نہ قومی حوصلوں کی انگیخت سے کوئی کام لیا، نہ دُنیوی مفادات کا کوئی لالچ دلایا، نہ کسی دشمن کے ہوّے سے لوگوں کو ڈرایا۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے یا بڑے مدبر اور سیاست دان گزرے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی منصوبوں کی تکمیل میں انھی محرکات سے کام لیا ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے تو یہ بات آپؐ کی قوم کے مزاج کے بالکل مطابق ہوتی، لیکن آپؐ نے نہ صرف یہ کہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ ان میں سے ہرچیز کو ایک فتنہ قرار دیا اور ہر فتنے کی خود اپنے ہاتھوں سے بیخ کنی فرمائی۔
آپؐ نے اپنی قوم کو صرف خدا کی بندگی اور اطاعت، عالم گیر انسانی اخوت، ہمہ گیر عدل و انصاف، اعلائے کلمۃ اللہ اور خوفِ آخرت کے محرکات سے جگایا۔ یہ سارے محرکات نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ تھے۔ اس وجہ سے آپؐ کی مساعی سے دنیا کی قوموں میں صرف ایک قوم کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ ایک بہترین امت ظہور میں آئی جس کی تعریف یہ بیان کی گئی: (ترجمہ) ’’تم دنیا کی بہترین امت ہو، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے اٹھائے گئے ہو‘‘۔(آلِ عمران 3:110)
ہرقیمت پر اصولوں کی پاس داری
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ جن اصولوں کے داعی بن کر اٹھے، اگرچہ وہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا: فرد، معاشرہ اور قوم کی ساری زندگی پر حاوی تھے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہرگوشہ ان کے احاطے میں آتا تھا لیکن آپؐ نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کبھی کوئی لچک قبول نہیں کی، نہ دشمن کے مقابل میں، نہ دوست کے مقابل میں۔ آپؐ کو سخت سے سخت حالات سے سابقہ پیش آیا، ایسے سخت حالات سے کہ لوہا بھی ہوتا تو ان کے مقابل میں نرم پڑجاتا، لیکن آپؐ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپؐ نے کسی سختی سے دب کر کسی اصول کے معاملے میں کوئی سمجھوتا گوارا نہیں فرمایا۔ اسی طرح آپؐ کے سامنے پیش کش بھی کی گئی اور آپؐ کو مختلف قسم کی دینی و دنیوی مصلحتیں بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں بھی آپؐ کے کسی اصول کو بدلوانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ آپؐ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہربات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قائم تھی۔ دنیا کے مدبروں اور سیاست دانوں میں سے کسی ایسے مدبر اور سیاست دان کی نشان دہی آپ نہیں کرسکتے، جو اپنے دوچار اصولوں کو بھی دنیا میں برپا کرنے میں اتنا مضبوط ثابت ہوسکا ہو کہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ اس نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کمزوری نہیں دکھائی یا کوئی ٹھوکر نہیں کھائی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پورا نظامِ زندگی کھڑا کردیا، جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے زمانے کے مذاق اور رجحان سے اتنا بے جوڑ تھا کہ وقت کے مدبرین اور ماہرینِ سیاست اس انوکھے نظام کے پیش کرنے کے سبب سے حضورؐ کو دیوانہ کہتے تھے، لیکن حضورؐ نے اس نظامِ زندگی کو عملاً دنیا میں برپا کرکے ثابت کردیا کہ جو لوگ حضورؐ کو دیوانہ سمجھتے تھے، وہ خود دیوانے تھے۔
صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذاتی مفاد یا مصلحت کی خاطر اپنے کسی اصول میں کوئی ترمیم نہیں فرمائی بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کے لیے بھی اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دی۔ اصولوں کے لیے جانی اور مالی اور دوسری تمام محبوبات کی قربانی دی گئی۔ ہر طرح کے خطرات برداشت کیے گئے اور ہر طرح کے نقصانات گوارا کیے گئے، لیکن اصولوں کی ہر حال میں حفاظت کی گئی۔ اگر کوئی بات صرف کسی خاص مدت تک کے لیے تھی تو اس کا معاملہ اور تھا، اس کی مدت ختم ہوجانے کے بعد وہ ختم ہوگئی یا اس کی جگہ اس سے بہتر کسی دوسری چیز نے لے لی، لیکن باقی رہنے والی چیزیں ہرحال اور ہر قیمت پر باقی رکھی گئیں۔ آپؐ کو اپنی پوری زندگی میں یہ کہنے کی نوبت کبھی نہیں آئی کہ میں نے دعوت تو دی تھی فلاں اصول کی لیکن اب حکمتِ عملی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ پر فلاں بات بالکل اس کے خلاف اختیار کرلی جائے۔
اصولی سیاست
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اس اعتبار سے بھی دنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپؐ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔
آپؐ جانتے ہیں کہ سیاست میں وہ بہت سی چیزیں مباح بلکہ بعض حالات میں مستحسن سمجھی جاتی ہیں جو شخصی زندگی کے کردار میں مکروہ اور حرام قرار دی جاتی ہیں۔ کوئی شخص اگر اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے جھوٹ بولے، چال بازیاں کرے، عہد شکنیاں کرے، لوگوں کو فریب دے یا ان کے حقوق غصب کرے تو اگرچہ اِس زمانے میں اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں، تاہم اخلاق بھی ان چیزوں کو معیوب ٹھیراتا ہے اور قانون بھی ان باتوں کو جرم قرار دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک سیاست دان اور ایک مدبر یہی سارے کام اپنی سیاسی زندگی میں اپنی قوم یا اپنے ملک کے لیے کرے تو یہ سارے کام اُس کے فضائل و کمالات میں شمار ہوتے ہیں۔ اُس کی زندگی میں بھی اُس کے اس طرح کے کارناموں پر اُس کی تعریفیں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی انھی کمالات کی بنا پر وہ اپنی قوم کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کے لیے یہی اوصاف و کمالات عرب جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو لوگ ان باتوں میں شاطر ہوتے تھے وہی اُبھر کر قیادت کے مقام پر آتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیاسی زندگی سے دنیا کو یہ درس دیا کہ ایمان داری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیادی اخلاقیات میں سے ہے، اسی طرح اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لوازم میں سے بھی ہے، بلکہ آپؐ نے ایک عام شخص کے جھوٹ کے مقابل میں ایک صاحبِ اقتدار اور ایک بادشاہ کے جھوٹ کو کہیں زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔ آپؐ کی پوری سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اس سیاسی زندگی میں وہ تمام مراحل آپؐ کو پیش آئے ہیں، جن کے پیش آنے کی ایک سیاسی زندگی میں توقع کی جاسکتی ہے۔
آپؐ نے ایک طویل عرصہ نہایت مظلومیت کی حالت میں گزارا اور پھر کم و بیش اتنا ہی عرصہ آپؐ نے اقتدار اور سلطنت کا گزارا۔ اس دوران میں آپؐ کو حریفوں اور حلیفوں دونوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے کرنے پڑے، دشمنوں سے متعدد جنگیں کرنی پڑیں، عہد شکنی کرنے والوں کے خلاف جوابی اقدامات کرنے پڑے، قبائل کے وفود سے معاملے کرنے پڑے، آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگوئیں کرنی پڑیں اور سیاسی گفتگوؤں کے لیے اپنے وفود ان کے پاس بھیجنے پڑے، بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات کرنے پڑے۔ یہ سارے کام آپؐ نے انجام دیے لیکن دوست اور دشمن ہر شخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ آپؐ نے کبھی کوئی وعدہ جھوٹا نہیں کیا، اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، کوئی بات کہہ چکنے کے بعد اس سے انکار نہیں کیا، کسی معاہدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ حلیفوں کا نازک سے نازک حالات میں بھی ساتھ دیا اور دشمنوں کے ساتھ بدتر سے بدتر حالات میں بھی انصاف کیا۔ اگر آپ دنیا کے مدبرین اور اہلِ سیاست کو اس کسوٹی پر جانچیں تو مَیں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی آپ اس کسوٹی پر کھرا نہ پائیں گے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سیاست میں عبادت کی سی دیانت اور سچائی قائم رکھنے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سیاست میں کبھی کسی ناکامی کا تجربہ نہیں کرنا پڑا۔ اب آپ اس چیز کو چاہے تدبر کہیے یا حکمتِ نبوت۔
خوں ریزی سے پاک انقلاب
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ آپؐ نے عرب جیسے ملک کے ایک ایک گوشے میں امن و عدل کی حکومت قائم کردی۔ کفار و مشرکین کا زور آپؐ نے اس طرح توڑ دیا کہ فتح مکہ کے موقع پر فی الواقع انھوں نے گھٹنے ٹیک دیے، یہود کی سیاسی سازشوں کا بھی آپؐ نے خاتمہ کردیا، رومیوں کی سرکوبی کے لیے بھی آپؐ نے انتظامات فرمائے۔ یہ سارے کام آپؐ نے کرڈالے لیکن پھر بھی انسانی خون بہت کم بہا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے اور آج کے واقعات بھی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا تو کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے جو انقلاب برپا ہوا، اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود شاید اُن نفوس کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہوگی جو اس جدوجہد کے دوران میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے شہید ہوئے یا مخالف گروہ کے آدمیوں میں سے قتل ہوئے۔
پھر یہ بات بھی غایت درجہ اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا کے معمولی معمولی انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں آبروئیں فاتح فوجوں کی ہوس کا شکار ہوجاتی ہیں اور مفتوحہ ملک کی سڑکیں اور گلیاں حرام کی نسلوں سے بھرجاتی ہیں۔ اِس تہذیب و تمدن کے عہد میں بھی اس صورتِ حال پر اربابِ سیاست شرمندگی اور ندامت کے اظہار کے بجائے اس کو ہرانقلاب کا ایک ناگزیر نتیجہ قرار دیتے ہیں، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دنیا میں جو انقلاب رونما ہوا، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا کہ کسی نے کسی کے ناموس پر دست درازی کی ہو۔
دنیوی کرّوفر کے بجائے فقر و درویشی
اہلِ سیاست کے لیے طمطراق بھی سیاست کے لوازم میں سے سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ عوام کو ایک نظام میں پرونے اور ایک نظم قاہر کے تحت منظم کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں وہ بہت سی باتیں اپنوں اور بے گانوں پر اپنی سطوت جمانے اور اپنی ہیبت قائم کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ یہ ساری باتیں ان کی سیاسی زندگی کے لازمی تقاضوں میں سے ہیں۔ اگر وہ یہ باتیں نہ اختیار کریں گے تو سیاست کے جو تقاضے ہیں وہ انہیں پورا کرنے سے قاصر رہ جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے جب وہ نکلتے ہیں تو بہت سے لوگ ان کے جلو میں چلتے ہیں، جہاں وہ بیٹھتے ہیں ان کے نعرے بلند کرائے جاتے ہیں، جہاں وہ اُترتے ہیں ان کے جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں میں ان کے حضور میں ایڈریس پیش کیے جاتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ جب وہ مزید ترقی کرجاتے ہیں تو ان کے لیے قصرو ایوان آراستہ کیے جاتے ہیں، ان کو سلامیاں دی جاتی ہیں، ان کے لیے بَرّی و بحری اور ہوائی خاص سواریوں کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ جب وہ کبھی کسی سڑک پر نکلنے والے ہوتے ہیں تو وہ سڑک دوسروں کے لیے بند کردی جاتی ہے۔
اُس زمانے میں ان چیزوں کے بغیر نہ کسی صاحبِ سیاست کا تصور دوسرے لوگ کرتے اور نہ کوئی صاحبِ سیاست ان لوازم سے الگ خود اپنا کوئی تصور کرتا، لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس اعتبار سے بھی دُنیا کے تمام اہلِ سیاست سے الگ رہے۔ جب آپؐ اپنے صحابہؓ میں چلتے تو کوشش فرماتے کہ سب کے پیچھے چلیں، مجلس میں تشریف رکھتے تو اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے تو دوزانو ہوکر بیٹھتے اور فرماتے کہ میں اپنے رب کا غلام ہوں اور جس طرح ایک غلام کھانا کھاتا ہے، اس طرح مَیں بھی کھانا کھاتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک بدو اپنے اس تصور کی بنا پر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اُس کے ذہن میں رہا ہوگا، سامنے آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کانپ گیا۔ آپؐ نے اُس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو نہیں، میری ماں بھی سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی، یعنی جس طرح تم نے اپنی ماں کو بدویانہ زندگی میں سوکھا گوشت کھاتے دیکھا ہوگا، اس طرح کا سوکھا گوشت کھانے والی ایک ماں کا بیٹا مَیں بھی ہوں۔ نہ آپؐ کے لیے کوئی خاص سواری تھی، نہ کوئی خاص قصر و ایوان تھا، نہ کوئی خاص باڈی گارڈ تھا۔ آپؐ جو لباس دن میں پہنتے، اس میں شب میں استراحت فرماتے اور صبح کو وہی لباس پہنے ہوئے ملکی اور غیرملکی وفود اور سفرا سے مسجد نبویؐ کے فرش پر ملاقاتیں فرماتے اور تمام اہم سیاسی امور کے فیصلے فرماتے۔
یہ خیال نہ فرمایئے کہ اُس زمانے کی بدویانہ زندگی میں سیاست اس طمطراق اور ٹھاٹ باٹ سے آشنا نہیں ہوئی تھی، جس طمطراق اور جس ٹھاٹ باٹ کی وہ اب عادی ہوگئی ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ سیاست اور اہلِ سیاست کی تو آشا ہی ہمیشہ سے یہی رہی ہے۔ فرق اگر ہوا ہے تو محض بعض ظاہری باتوں میں ہوا ہے۔ البتہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئے طرز کی سیاسی زندگی کا نمونہ دنیا کے سامنے رکھا، جس میں دنیوی کرّوفر کے بجائے خلافتِ الٰہی کا جلال اور ظاہری ٹھاٹ باٹ کی جگہ خدمت اور محبت کا جمال تھا، لیکن اس سادگی اور اس فقر و درویشی کے باوجود اس کے دبدبے اور اس کے شکوہ کا یہ عالم تھا کہ روم و شام کے بادشاہوں پر اس کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا تھا۔
اہل اور تربیت یافتہ رفقا کی تیاری
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا ایک اور پہلو بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارک ہی میں ایسے لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت بھی تربیت کرکے تیار کردی جو آپؐ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج کے مطابق آگے بڑھانے، اس کو مستحکم کرنے اور اجتماعی و سیاسی زندگی میں اس کے تمام مقتضیات کو بروئے کار لانے کے لیے پوری طرح اہل تھے۔ چنانچہ اس تاریخی حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر آس پاس کے دوسرے ممالک میں قدم رکھ دیا اور دیکھتے دیکھتے اس کرۂ ارض کے تین براعظموں میں اس نے اپنی جڑیں جمالیں اور اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کے لیے موزوں اشخاص و رجال کی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ میں نے جن تین براعظموں کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کے متعلق یہ حقیقت بھی ہرشخص جانتا ہے کہ ان کے اندر وحشی قبائل آباد نہیں تھے بلکہ وقت کی جبار و قہار سلطنتیں نہایت ترقی یافتہ تھیں، لیکن اسلامی انقلاب کی فوجوں نے جزیرۂ عرب سے اٹھ کر اُن کو اُن کی جڑوں سے اس طرح اکھاڑ پھینکا گویا زمین میں اُن کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی اور اُن کے ظلم و جَور کی جگہ ہرگوشے میں اسلامی تہذیب و تمدن کی برکتیں پھیلا دیں جن سے دنیا صدیوں تک متمتع ہوتی رہی۔
دنیا کے تمام مدبرین اور اہلِ سیاست کی پوری فہرست پر نگاہ ڈال کر غور کیجیے کہ ان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر آتا ہے جس نے اپنے دوچار ساتھی بھی ایسے بنانے میں کامیابی حاصل کی ہو جو اس کے فکر و فلسفہ اور اس کی سیاست کے ان معنوں میں عالم اور عامل رہے ہوں، جن معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے عالم و عامل ہزاروں صحابہؓ تھے۔
نبیِ خاتمؐ اور پیغمبر عالمؐ
آخر میں ایک بات بطور تنبیہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی مرتبہ اور مقام یہ ہے کہ آپؐ نبیِ خاتمؐ اور پیغمبرِعالمؐ ہیں۔ سیاست اور تدبر اس مرتبۂ بلند کا ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔ جس طرح ایک حکمران کی زندگی پر ایک تحصیل دار کی زندگی کے زاویے سے غور کرنا ایک بالکل ناموزوں بات ہے، اس سے زیادہ ناموزوں بات شاید یہ ہے کہ ہم سیّدکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ایک ماہرِ سیاست یا ایک مدبر کی زندگی کی حیثیت سے غور کریں۔
نبوت و رسالت ایک عظیم عطیۂ الٰہی ہے۔ جب یہ عطیہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو بخشتا ہے تو وہ سب کچھ اس کو بخش دیتا ہے، جو اس دنیا میں بخشا جاسکتا ہے۔ پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم تو صرف نبی ہی نہیں تھے بلکہ خاتم الانبیاؐ تھے۔ صرف رسول ہی نہیں تھے بلکہ سیّدالمرسلؐ تھے۔ صرف اہلِ عرب ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالم کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور آپؐ کی تعلیم و ہدایت صرف کسی خاص مدت تک ہی کے لیے نہیں تھی بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والی تھی۔ اور یہ بھی ہرشخص جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی دینِ رہبانیت کے داعی بن کر نہیں آئے، بلکہ ایک ایسے دین کے داعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی اور دنیا و آخرت دونوں کی حسنات کا ضامن تھا، جس میں عبادت کے ساتھ سیاست اور درویشی کے ساتھ حکمرانی کا جوڑ محض اتفاق سے نہیں پیدا ہوگیا تھا بلکہ یہ عین اس کی فطرت کا تقاضا تھا۔ جب صورتِ حال یہ ہے تو ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سیاست دان اور مدبر اور کون ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ چیز آپؐ کا اصلی کمال نہیں بلکہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا آپؐ کے فضائل و کمالات کا محض ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔
Friday, 2 December 2016
Subscribe to:
Posts (Atom)