تکبر
شاہنواز فاروقی
تکبر اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جناب میں تکبر کتنا ناپسندیدہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کلمہ طیبہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے اثبات سے شروع نہیں ہوتابلکہ تمام ممکنہ جھوٹے خدائوں کی نفی سے شروع ہوتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں اللہ ہوں اور میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، بلکہ اس نے فرمایا کہ ’’نہیںہے کوئی الٰہ سوائے اللہ کے‘‘۔ اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’نہیں ہے کوئی الٰہ‘‘ تو یہ پوری کائنات ازل سے ابد تک تمام جھوٹے خدائوں سے پاک ہوجاتی ہے، اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی موجودگی کی گواہی پوری کائنات میں گونج بن کر پھیل جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو تکبراتنا ناپسند کیوں ہے؟
اس سوال کے جواب کی پانچ بنیادیں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ازلی و ابدی ہے۔ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس سوال کے جواب کی دوسری بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے۔ اس سوال کے جواب کی تیسری بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ اس سوال کے جواب کی چوتھی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام مخلوقات کا رازق ہے۔ اس سوال کے جواب کی پانچویں بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا مالک ہے۔ چونکہ ان صفات کو اللہ کے سوا کسی سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا اس لیے صرف اللہ ہی بڑا ہے، اور تکبر کرنا صرف اسی کے لیے روا ہے۔
اس کائنات میں اگر تکبر روا ہوتا تو انبیاء و مرسلین کے لیے ہوتا، اس لیے کہ ان کے پاس ’’کتاب‘‘ تھی۔ ان کے پاس ’’ہدایت‘‘ تھی۔ ان کے پاس ’’معجزہ‘‘ تھا۔ بے شمار انسانوں نے ان کی ’’پیروی‘‘ کی تھی۔ لیکن انبیاء و مرسلین کا معاملہ یہ ہے کہ ان سے زیادہ منکسرالمزاج دنیا میں کوئی اور نہیں ہوا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سردار الانبیاء ہیں مگر انہوں نے فرمایا: کتاب میری نہیں ہے، اللہ کی ہے۔ ہدایت دینے والا بھی وہی ہے، معجزہ بھی اسی کی عطا ہے، پیروی کی بنیاد بھی اسی کی ذات ہے۔ اس سلسلے میں احتیاط کا عالم یہ ہے کہ قرآن کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا ہر لفظ اور اس کا مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ قرآن مجید کے بعد حدیثِ قدسی کا مقام ہے، اور حدیثِ قدسی کے بارے میں کہا گیا کہ اس کی زبان نبی کی ہے مگر مفہوم اللہ تعالیٰ کی جانب سے آیا ہے۔ حدیثِ قدسی کے بعد عام حدیث کا معاملہ ہے، اور اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ یہ نبیؐ کا قول ہے، مگر نبیؐ اپنے نفس کی خواہش سے کچھ نہیں کہتے۔ اس طرح آسمانی علم کی تمام بنیادیں غیر شخصی یا Non Personal ہوگئیں اور علم کی تمام اعلیٰ سطحیں خدا ہی سے منسوب ہوگئیں۔ اس منظرنامے میں اگر سردارالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تکبر کی گنجائش نہیں نکلتی تو دوسرے انبیاء اور عام انسانوں کے لیے کہاں سے نکل سکتی ہے؟ چنانچہ اسی لیے تکبر کو اللہ تعالیٰ کی چادر کہا گیا ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ جو شخص یہ چادر کھینچے گا وہ راندۂ درگاہ ہوگا اور دنیا و آخرت میں ذلت و خواری اس کا مقدر بن کر رہے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تکبر اپنی اصل میں کیا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تکبر اپنی شخصیت کا ایسا انتہائی مبالغہ آمیز تصور ہے جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہوتی۔ اس کائنات میں سب سے پہلا تکبر کرنے والا عزازیل تھا جسے اس کی عبادت و ریاضت نے جن ہونے کے باوجود فرشتوں کا ہمسر بنادیا تھا، لیکن عزازیل نے تکبر کیا اور اس کے تکبر نے اسے کائنات کی سب سے پست مخلوق بنادیا۔ لیکن عزازیل کے تکبر کی بنیاد کیا تھی؟ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ فرشتوں نے سجدہ کیا مگر عزازیل نے سجدے سے انکار کیا۔ اس سے انکار کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا: میں آگ سے بنا ہوں اور آدم کو مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے، اور آگ مٹی سے بہتر ہے۔ غور کیا جائے تو عزازیل نے ایک ایسی بات کہی جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہ تھی، یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے ہی سے یہ نہیں بتا رکھا تھا کہ آگ مٹی سے بہتر ہے۔ چنانچہ ابلیس نے ایک ایسا دعویٰ کیا جس کی کوئی علمی بنیاد نہ تھی۔ مطلب یہ کہ اس نے اپنی شخصیت کا ایک ایسا تصور قائم کیا جس کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ عزازیل یہ بات بھی بھول گیا کہ اصل چیز مٹی یا آگ نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے۔ عزازیل اللہ کے حکم کے سامنے اپنی حقیر ’’رائے‘‘ لے کر کھڑا ہوگیا۔ یہ بھی ہولناک حد تک مبالغہ آمیز بات تھی۔ بھلا کہاں خدا کا حکم اور کہاں عزازیل کی ’’رائے‘‘! دنیا میں انسانوں کے تکبر کی تاریخ کو دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے ہر متکبر نے عزازیل کے طرزفکر اور طرزعمل کی پیروی کی۔
اس کی ایک مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہودی ہیں۔ یہودیوں کو اپنی کتاب کے علم کی بنیاد پر یقینی طور پر معلوم ہوگیا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں، مگر وہ اس کے باوجود آپؐ پر ایمان نہ لائے۔ یہودیوں کی اصل تکلیف یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں سے کیوں ہیں، بنی اسرائیل میں سے کیوں نہیں ہیں۔ تو کیا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ محمدؐ کو بنی اسرائیل میں پیدا کرے گا؟ کیا خدا رسول اکرمؐ کو بنی اسرائیل میں پیدا کرنے کا پابند تھا؟ اگر نہیں تو بنی اسرائیل نے رسول اکرمؐ کے سلسلے میں جو طرزعمل اختیار کیا وہ بے بنیاد اور مبالغے کی ایک انتہائی صورت تھی۔
اس وقت برہمن ازم دنیا میں اجتماعی تکبر کی بدترین صورت ہے اور اس میں بھی مبالغے کی ایک ایسی صورت موجود ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ مہا بھارت میں صاف لکھا ہے کہ ایک برہمن کے گھر میں شودر پیدا ہوسکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ برہمن اور شودر انسانوں کی روحانی یا نفسیاتی قسم ہیں، کوئی نسلی حقیقت نہیں۔ لیکن برہمنوں نے برہمنوں اور شودروں کو ایک نسلی حقیقت بناکر رکھ دیا ہے۔ ہٹلر نے جرمنی میں جرمن نسل پرستی کو فروغ دیا تو اس نے پہلے جرمنوں کے برتر نسل ہونے کا تصور پیش کیا، اور پھر اس تصور کو درست ثابت کرنے کے لیے سائنس تک کو Fiction بنا ڈالا۔ کہا گیا کہ جرمن نسل کے لوگوں کا دماغ بڑا ہوتا ہے اس لیے وہ تمام انسانوں سے برتر ہیں۔ ان کا خون ملاوٹ سے پاک ہے اس لیے وہ تمام انسانوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں تکبر کی ایک اور بدترین صورت طاقت اور دولت کی بنیاد پر بروئے کار آئی ہے۔ نمرود نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ کہا کہ مجھ میں اور تمہارے خدا میں فرق ہی کیا ہے، وہ بھی انسانوں کو مارتا اور بچاتا ہے اور یہ کام میں بھی کرتا ہوں، تو اُس وقت اس کے پاس طاقت اور دولت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا… اور اگر کوئی شخص دنیا کی ساری طاقت اور ساری دولت پر قابض ہوجائے تو بھی وہ خدائی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کے دعوے میں موجود مبالغے کا شعور تھا چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر نمرود کے مبالغے کے غبارے سے ہوا نکال دی کہ میرا خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تُو اگر اپنے دعوے میں سچا ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا۔ لیکن طاقت اور دولت میں ایسی کیا بات ہے کہ وہ انسان کو متکبر بناتی ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ طاقت اور دولت انسان کے ’’محدود اختیار‘‘ میں ’’مطلق اختیار‘‘ کا رنگ پیدا کردیتی ہیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ طاقت اور دولت ہر خوبی کا قائم مقام بن جاتی ہیں۔ یعنی طاقت ور اور دولت مند کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ صرف طاقتور اور دولت مند نہیں ہے بلکہ وہ نجیب بھی ہے، شریف بھی، صاحبِ علم بھی ہے اور ذہین بھی۔ ایسا نہ ہوتا تو اس کے پاس طاقت اور دولت کیوں ہوتی؟ مطلب یہ کہ طاقت اور دولت کے نشے میں شرافت‘ نجابت‘ علم اور ذہانت کا نشہ بھی شامل ہوجاتا ہے، حالانکہ اس کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ طاقت اور دولت کا شرافت‘ نجابت اور علم سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن تکبر صرف طاقت اور دولت سے متعلق نہیں۔ طاقت اور دولت کا تکبر تو ظاہر ہوجاتا ہے مگر تقوے کا تکبر تو معلوم بھی نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جو شخص اپنے نیک ہونے کے گمان میں مبتلا ہوجائے اُس کو خیال بھی نہیں آتا کہ وہ خود کو اچھا اور دوسروں کو برا سمجھتا ہے، اور دوسروں کو برا سمجھنے کا تعلق اس کے خود کو اچھا سمجھنے سے ہے۔ شیخ سعدیؒ کا واقعہ مشہور ہے۔ وہ ایک رات تہجد کے لیے اٹھے تو ان کا بیٹا بھی تہجد کے لیے اٹھ گیا۔ شیخ سعدیؒ کے بیٹے نے دیکھا کہ وہ اور شیخ سعدی ؒ نمازکے لیے اٹھے ہوئے ہیں اور باقی سب لوگ سو رہے ہیں۔ اس نے یہ دیکھا تو باپ سے کہا: یہ لوگ پڑے سورہے ہیں اور ہم نماز کے لیے اٹھے ہوئے ہیں۔ شیخ سعدیؒ نے یہ سنا تو کہا: اگر تجھے یہی دیکھنا اور کہنا تھا تو اس سے اچھا تھا کہ تُو تہجد کے لیے اٹھا ہی نہ ہوتا۔ بہت سے لوگ اپنی نظر میں ’’متقی‘‘ ہوجاتے ہیں تو انہیں لاکھوں کروڑوں انسان ’’گناہ گار‘‘ نظر آنے لگتے ہیں اور وہ ان سے گناہ گاروں کی طرح ہی معاملات کرنے لگتے ہیں۔ یہی تکبر ہے۔ علم کا تکبر بھی کم ہولناک نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اکثر علم والوں کو ’’جاہل‘‘ لوگوں کے خلاف اپنا ردعمل فطری اور شعور پر مبنی نظر آرہا ہوتا ہے۔ اسلام تقویٰ اور علم کو فضیلت کہتا ہے اور وہ پورے معاشرے کی تعمیر ان دو فضیلتوں پر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن فضیلتوں کا حامل ہونے اور متکبر ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
شاہنواز فاروقی
تکبر اللہ تعالیٰ کی ایسی صفت ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جناب میں تکبر کتنا ناپسندیدہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ کلمہ طیبہ اللہ تعالیٰ کے وجود کے اثبات سے شروع نہیں ہوتابلکہ تمام ممکنہ جھوٹے خدائوں کی نفی سے شروع ہوتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں اللہ ہوں اور میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، بلکہ اس نے فرمایا کہ ’’نہیںہے کوئی الٰہ سوائے اللہ کے‘‘۔ اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’نہیں ہے کوئی الٰہ‘‘ تو یہ پوری کائنات ازل سے ابد تک تمام جھوٹے خدائوں سے پاک ہوجاتی ہے، اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی موجودگی کی گواہی پوری کائنات میں گونج بن کر پھیل جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو تکبراتنا ناپسند کیوں ہے؟
اس سوال کے جواب کی پانچ بنیادیں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ازلی و ابدی ہے۔ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس سوال کے جواب کی دوسری بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے۔ اس سوال کے جواب کی تیسری بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ اس سوال کے جواب کی چوتھی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام مخلوقات کا رازق ہے۔ اس سوال کے جواب کی پانچویں بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا مالک ہے۔ چونکہ ان صفات کو اللہ کے سوا کسی سے وابستہ نہیں کیا جاسکتا اس لیے صرف اللہ ہی بڑا ہے، اور تکبر کرنا صرف اسی کے لیے روا ہے۔
اس کائنات میں اگر تکبر روا ہوتا تو انبیاء و مرسلین کے لیے ہوتا، اس لیے کہ ان کے پاس ’’کتاب‘‘ تھی۔ ان کے پاس ’’ہدایت‘‘ تھی۔ ان کے پاس ’’معجزہ‘‘ تھا۔ بے شمار انسانوں نے ان کی ’’پیروی‘‘ کی تھی۔ لیکن انبیاء و مرسلین کا معاملہ یہ ہے کہ ان سے زیادہ منکسرالمزاج دنیا میں کوئی اور نہیں ہوا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سردار الانبیاء ہیں مگر انہوں نے فرمایا: کتاب میری نہیں ہے، اللہ کی ہے۔ ہدایت دینے والا بھی وہی ہے، معجزہ بھی اسی کی عطا ہے، پیروی کی بنیاد بھی اسی کی ذات ہے۔ اس سلسلے میں احتیاط کا عالم یہ ہے کہ قرآن کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا ہر لفظ اور اس کا مفہوم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ قرآن مجید کے بعد حدیثِ قدسی کا مقام ہے، اور حدیثِ قدسی کے بارے میں کہا گیا کہ اس کی زبان نبی کی ہے مگر مفہوم اللہ تعالیٰ کی جانب سے آیا ہے۔ حدیثِ قدسی کے بعد عام حدیث کا معاملہ ہے، اور اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ یہ نبیؐ کا قول ہے، مگر نبیؐ اپنے نفس کی خواہش سے کچھ نہیں کہتے۔ اس طرح آسمانی علم کی تمام بنیادیں غیر شخصی یا Non Personal ہوگئیں اور علم کی تمام اعلیٰ سطحیں خدا ہی سے منسوب ہوگئیں۔ اس منظرنامے میں اگر سردارالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تکبر کی گنجائش نہیں نکلتی تو دوسرے انبیاء اور عام انسانوں کے لیے کہاں سے نکل سکتی ہے؟ چنانچہ اسی لیے تکبر کو اللہ تعالیٰ کی چادر کہا گیا ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ جو شخص یہ چادر کھینچے گا وہ راندۂ درگاہ ہوگا اور دنیا و آخرت میں ذلت و خواری اس کا مقدر بن کر رہے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تکبر اپنی اصل میں کیا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تکبر اپنی شخصیت کا ایسا انتہائی مبالغہ آمیز تصور ہے جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں ہوتی۔ اس کائنات میں سب سے پہلا تکبر کرنے والا عزازیل تھا جسے اس کی عبادت و ریاضت نے جن ہونے کے باوجود فرشتوں کا ہمسر بنادیا تھا، لیکن عزازیل نے تکبر کیا اور اس کے تکبر نے اسے کائنات کی سب سے پست مخلوق بنادیا۔ لیکن عزازیل کے تکبر کی بنیاد کیا تھی؟ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ فرشتوں نے سجدہ کیا مگر عزازیل نے سجدے سے انکار کیا۔ اس سے انکار کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا: میں آگ سے بنا ہوں اور آدم کو مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے، اور آگ مٹی سے بہتر ہے۔ غور کیا جائے تو عزازیل نے ایک ایسی بات کہی جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہ تھی، یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے ہی سے یہ نہیں بتا رکھا تھا کہ آگ مٹی سے بہتر ہے۔ چنانچہ ابلیس نے ایک ایسا دعویٰ کیا جس کی کوئی علمی بنیاد نہ تھی۔ مطلب یہ کہ اس نے اپنی شخصیت کا ایک ایسا تصور قائم کیا جس کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ عزازیل یہ بات بھی بھول گیا کہ اصل چیز مٹی یا آگ نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے۔ عزازیل اللہ کے حکم کے سامنے اپنی حقیر ’’رائے‘‘ لے کر کھڑا ہوگیا۔ یہ بھی ہولناک حد تک مبالغہ آمیز بات تھی۔ بھلا کہاں خدا کا حکم اور کہاں عزازیل کی ’’رائے‘‘! دنیا میں انسانوں کے تکبر کی تاریخ کو دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے ہر متکبر نے عزازیل کے طرزفکر اور طرزعمل کی پیروی کی۔
اس کی ایک مثال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے یہودی ہیں۔ یہودیوں کو اپنی کتاب کے علم کی بنیاد پر یقینی طور پر معلوم ہوگیا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں، مگر وہ اس کے باوجود آپؐ پر ایمان نہ لائے۔ یہودیوں کی اصل تکلیف یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسماعیل میں سے کیوں ہیں، بنی اسرائیل میں سے کیوں نہیں ہیں۔ تو کیا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ محمدؐ کو بنی اسرائیل میں پیدا کرے گا؟ کیا خدا رسول اکرمؐ کو بنی اسرائیل میں پیدا کرنے کا پابند تھا؟ اگر نہیں تو بنی اسرائیل نے رسول اکرمؐ کے سلسلے میں جو طرزعمل اختیار کیا وہ بے بنیاد اور مبالغے کی ایک انتہائی صورت تھی۔
اس وقت برہمن ازم دنیا میں اجتماعی تکبر کی بدترین صورت ہے اور اس میں بھی مبالغے کی ایک ایسی صورت موجود ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ مہا بھارت میں صاف لکھا ہے کہ ایک برہمن کے گھر میں شودر پیدا ہوسکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ برہمن اور شودر انسانوں کی روحانی یا نفسیاتی قسم ہیں، کوئی نسلی حقیقت نہیں۔ لیکن برہمنوں نے برہمنوں اور شودروں کو ایک نسلی حقیقت بناکر رکھ دیا ہے۔ ہٹلر نے جرمنی میں جرمن نسل پرستی کو فروغ دیا تو اس نے پہلے جرمنوں کے برتر نسل ہونے کا تصور پیش کیا، اور پھر اس تصور کو درست ثابت کرنے کے لیے سائنس تک کو Fiction بنا ڈالا۔ کہا گیا کہ جرمن نسل کے لوگوں کا دماغ بڑا ہوتا ہے اس لیے وہ تمام انسانوں سے برتر ہیں۔ ان کا خون ملاوٹ سے پاک ہے اس لیے وہ تمام انسانوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں تکبر کی ایک اور بدترین صورت طاقت اور دولت کی بنیاد پر بروئے کار آئی ہے۔ نمرود نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ کہا کہ مجھ میں اور تمہارے خدا میں فرق ہی کیا ہے، وہ بھی انسانوں کو مارتا اور بچاتا ہے اور یہ کام میں بھی کرتا ہوں، تو اُس وقت اس کے پاس طاقت اور دولت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا… اور اگر کوئی شخص دنیا کی ساری طاقت اور ساری دولت پر قابض ہوجائے تو بھی وہ خدائی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود کے دعوے میں موجود مبالغے کا شعور تھا چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر نمرود کے مبالغے کے غبارے سے ہوا نکال دی کہ میرا خدا تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تُو اگر اپنے دعوے میں سچا ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا۔ لیکن طاقت اور دولت میں ایسی کیا بات ہے کہ وہ انسان کو متکبر بناتی ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ طاقت اور دولت انسان کے ’’محدود اختیار‘‘ میں ’’مطلق اختیار‘‘ کا رنگ پیدا کردیتی ہیں۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ طاقت اور دولت ہر خوبی کا قائم مقام بن جاتی ہیں۔ یعنی طاقت ور اور دولت مند کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ صرف طاقتور اور دولت مند نہیں ہے بلکہ وہ نجیب بھی ہے، شریف بھی، صاحبِ علم بھی ہے اور ذہین بھی۔ ایسا نہ ہوتا تو اس کے پاس طاقت اور دولت کیوں ہوتی؟ مطلب یہ کہ طاقت اور دولت کے نشے میں شرافت‘ نجابت‘ علم اور ذہانت کا نشہ بھی شامل ہوجاتا ہے، حالانکہ اس کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ طاقت اور دولت کا شرافت‘ نجابت اور علم سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن تکبر صرف طاقت اور دولت سے متعلق نہیں۔ طاقت اور دولت کا تکبر تو ظاہر ہوجاتا ہے مگر تقوے کا تکبر تو معلوم بھی نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جو شخص اپنے نیک ہونے کے گمان میں مبتلا ہوجائے اُس کو خیال بھی نہیں آتا کہ وہ خود کو اچھا اور دوسروں کو برا سمجھتا ہے، اور دوسروں کو برا سمجھنے کا تعلق اس کے خود کو اچھا سمجھنے سے ہے۔ شیخ سعدیؒ کا واقعہ مشہور ہے۔ وہ ایک رات تہجد کے لیے اٹھے تو ان کا بیٹا بھی تہجد کے لیے اٹھ گیا۔ شیخ سعدیؒ کے بیٹے نے دیکھا کہ وہ اور شیخ سعدی ؒ نمازکے لیے اٹھے ہوئے ہیں اور باقی سب لوگ سو رہے ہیں۔ اس نے یہ دیکھا تو باپ سے کہا: یہ لوگ پڑے سورہے ہیں اور ہم نماز کے لیے اٹھے ہوئے ہیں۔ شیخ سعدیؒ نے یہ سنا تو کہا: اگر تجھے یہی دیکھنا اور کہنا تھا تو اس سے اچھا تھا کہ تُو تہجد کے لیے اٹھا ہی نہ ہوتا۔ بہت سے لوگ اپنی نظر میں ’’متقی‘‘ ہوجاتے ہیں تو انہیں لاکھوں کروڑوں انسان ’’گناہ گار‘‘ نظر آنے لگتے ہیں اور وہ ان سے گناہ گاروں کی طرح ہی معاملات کرنے لگتے ہیں۔ یہی تکبر ہے۔ علم کا تکبر بھی کم ہولناک نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اکثر علم والوں کو ’’جاہل‘‘ لوگوں کے خلاف اپنا ردعمل فطری اور شعور پر مبنی نظر آرہا ہوتا ہے۔ اسلام تقویٰ اور علم کو فضیلت کہتا ہے اور وہ پورے معاشرے کی تعمیر ان دو فضیلتوں پر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن فضیلتوں کا حامل ہونے اور متکبر ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔