Search This Blog

Friday, 17 February 2017

اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔ایمان کی اساس اور بنیاد


فقہ اسلامی کی تدوین اور عصر حاضر میں اس سے راہ نمائی کی ضرورت و اہمیت


دنیا کے خسارے سے بچنے کا قرٓنی نسخہ


وہ شخص ہم میں سے نہیں

وہ شخص ہم میں سے نہیں
جو دنیا کو آخرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہیں دیکھتا
پروفیسر عبدالحمید ڈار

اللہ رب العزت نے انسان کو پیدا کیا، آسمانوں پر ابدی جنت میں رکھا، پھر اپنی حکمتِ بالغہ سے اسے فانی دنیا میں بھیجا، جہاں جنت کی زندگی کے برعکس اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے محنت و مشقت کو اس کے لیے لازم ٹھیرایا۔ اس مقصد کے لیے اسے مطلوبہ ذہنی و جسمانی قویٰ عطا کیے اور زمین کے چپہ چپہ کو وسائلِ رزق سے معمور کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے ان وسائلِ رزق سے استفادہ کرنے کی آزادی اور اختیار بھی دیا تاکہ وہ چاہے تو اپنی آزاد مرضی سے یہ کام اللہ کی رضا کے مطابق انجام دے اور چاہے تو اسے نظرانداز کرکے من مانے طریقے پر چلے۔ مزید برآں اسے بتایا گیا کہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے اور اس کے خاتمے کے بعد ایک دوسرا عالم (عالمِ آخرت) وجود میں آئے گا جو ابدی ہوگا اور جہاں اس کی حیثیت اور مقام کا تعین ان اعمال کی بنا پر ہوگا جو اس نے دنیا کی زندگی میں انجام دیے ہوں گے۔ اگر اس کے نیک اعمال یعنی وہ اعمال جو اس نے اللہ کی رضا کے لیے کیے ہوں گے اس کے بداعمال (جو اس نے اللہ کی رضا کے خلاف من پسند طریقے پر کیے ہوں گے) سے زیادہ ہوئے تو اسے وہاں لازوال نعمتوں سے بھرپور جنت کی قیام گاہ سے نوازا جائے گا، اور اگر اس کے بداعمال کا پلڑا نیک اعمال سے بھاری ہوگا تو اسے جہنم کے عذاب کا مزا چکھنا ہوگا۔

نیک اور بداعمال کون سے ہیں، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق انسان کو آسمانی کتابوں جن میں آخری اور مستند کتاب قرآن پاک ہے، اور انبیاء علیہم السلام جن کے سلسلے کی آخری کڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، کے ذریعے پوری وضاحت کے ساتھ بتا دیا ہے۔ اب دنیا میں زندگی بسر کرنے کا بہترین اور مطلوب طریقہ یہی ہے کہ انسان ہر کام میں اللہ کی رضا کو اپنا مقصود بنائے، اور اللہ کی رضا اس میں ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہر کام آخرت کی کامیابی کو سامنے رکھ کر انجام دیا جائے۔ دنیا کی لذات میں کھو کر اور اس کی دلفریبیوں کا شکار ہوکر بڑی سے بڑی منفعت، دولت اور مال و متاع بھی انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ محض چند روزہ ہے۔ اگر انسان ان ہی عارضی چیزوں کو مقصودِ حیات بنالے اور ان کے جال میں پھنس کر نیک و بد اور حلال و حرام کی تمیز سے بے نیاز اور آخرت میں پیش آنے والے نتائج سے بے فکر ہوجائے تو یہ بات اسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی اور انجامِ کار کے اعتبار سے یہ نفع کا نہیں بہت بڑے گھاٹے کا سودا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد انسان کو دوزخ کے عذاب سے بچانا اور جنت کی نعمتوں سے ہمکنار کرنا ہے۔ اس وجہ سے آپ نے انسان کو ہر وہ چیز بتادی ہے جو جہنم سے بچا کر اسے جنت میں پہنچا سکتی ہے۔ زیرنظر حدیث بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جنت کے طلب گار کی نگاہ ہر وقت اعمال کے اس انجام پر رہنی چاہیے جو عالمِ آخرت میں ظاہر ہونے والا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دنیا کے عاجلہ یعنی جلد حاصل ہوجانے والے فوائد اس کی آنکھوں کو خیرہ کردیں اور اسے ابدی عذاب کے جہنم میں گرا دینے کا باعث بن جائیں۔ یہ حدیثِ پاک تر کِ دنیا کی تعلیم نہیں دیتی، بلکہ وسائلِ حیات کے صحیح طریقِ استعمال کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا ہے، اس لیے یہ دنیا چھوڑنے کے لیے نہیں بلکہ برتنے کے لیے ہے، البتہ اس کا استعمال اللہ کی رضا اور انبیاء علیہم السلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہونا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ بالعموم انسان اس فانی دنیا کی لذتوں اور دلفریبیوں کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے، حالانکہ آخرت اس سے بدرجہا بہتر اور دائمی طور پر باقی رہنے والی ہے۔ (القرآن۔ سورہ الاعلیٰ 17)

اللہ تعالیٰ دنیا پرستی کے اس دور میں فکر و نظر کے فتنوں سے بچا کر فکرِ آخرت کو ہمارے دلوں کی دھڑکن بنا دے۔
(آمین)


متروکاتِ سخن

متروکاتِ سخن

اردو کے کچھ الفاظ ایسے ہیں جو متروک تو نہیں ہوئے لیکن ان کا استعمال محدود ہوگیا ہے۔ کوئی استعمال کر بیٹھے تو مطلب پوچھنا پڑتا ہے۔ حالانکہ یہی الفاظ کبھی عام بول چال میں شامل تھے۔ گزشتہ دنوں بارش رک جانے کے بعد بھی چھجے سے پانی ٹپک رہا تھا تو ہمارے ایک ساتھی نے کہا ’’اولتی‘‘ ٹپک رہی ہے۔ عرصے بعد یہ لفظ سنا تھا، خوشی ہوئی کہ ابھی اس کا استعمال ہے۔ اولتی ہندی سے اردو میں آئی ہے اور مونث ہے۔ مطلب اس کا واضح ہے کہ سائبان یا چھت کا وہ کنارہ جہاں سے بارش کا پانی نیچے گرتا ہے۔ ایک محاورہ ہے ’’اولتی کا پانی یلینڈی نہیں چڑھتا‘‘۔ لیجیے ایک اور مشکل لفظ آگیا۔ یلینڈی جھونپڑی (یا جھوپڑی) کی لکڑی کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ کمینہ شرافت کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔ اسی طرح ایک ناممکن امر کی نسبت کہتے ہیں۔ یہ شعر دیکھیے:
دل کو اس سرو کے یہ اشک کریں کیا پانی
اولتی کا تو یلینڈی نہیں چڑھتا پانی

اسی ضمن میں ایک لفظ ’’اُول‘‘ پر نظر پڑی۔ اس کو تو بالکل ہی متروک جانیے کہ اب پڑھنے، سننے میں نہیں آتا۔ یہ لفظ ہندی میں مونث ہے لیکن امیر مینائی نے امیراللغات میں مذکر لکھا ہے۔ مطلب ہے ضمانت۔ روپیہ ادا نہ ہونے یا کسی وعدے کے ایفا تک اپنے کسی عزیز کو ضمانت کے طور پر کسی کے حوالے کردیتے ہیں، اسی کو اُول کہتے ہیں۔ داغ دہلوی مزے میں آکر کہتے ہیں:
آنے کا وعدہ کرتے ہو کیا اس کا اعتبار
بلوا دو اپنی اُول میں میرے رقیب کو
اُول دینا، رکھنا، لینا کے ساتھ۔ ایک مصرع ہے
جان لینے کے لیے اُول میں دل رکھتے ہیں

اُول کے مطلب سے خواہ واقف نہ ہوں لیکن یہ عمل گاؤں، دیہات میں تو بہت عام ہے۔ کسی کسان یا مزدور پر قرض چڑھ جائے تو زمیندار، وڈیرے یا جاگیردار پورے پورے خاندان کو بطور ضمانت رکھ لیتے ہیں۔ بھٹہ مزدور بھی ضبط کرلیے جاتے ہیں اور پھر کبھی کبھی عدالت اپنا نمائندہ بھیج کر رہائی دلواتی ہے، لیکن جنہوں نے قید میں رکھا تھا، ان کو یہی کارروائی دوہرانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اُول ان معنیٰ میں تو لغت میں رہ گیا لیکن ’’اول جلول‘‘ کا استعمال عام ہے۔ یہ ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کا حلیہ خراب ہو۔

لاہور سے جناب افتخار مجاز نے پوچھا ہے کہ اکثر ’’نظر نواز‘‘ ہوتا ہے ادیبہ، شاعرہ، محققہ، دانشورہ، لکھاریہ، صحافیہ، یا پھر خاتون شاعرہ، خاتون ادیبہ، خاتون دانشورہ وغیرہ۔ درست کیا ہے؟ بھائی مجاز، حقیقت تو یہ ہے کہ سوال مشکل ہے۔ یوں بھی خواتین کے بارے میں ہے۔ ادیبہ، شاعرہ، لکھاریہ، محققہ سے ظاہر ہے کہ یہ کسی خاتون کی صفات ہیں۔ شاعرہ، ادیبہ وغیرہ کے ساتھ خاتون کا سابقہ تو مضحکہ خیز ہے۔ جہاں تک دانشورہ، لکھاریہ، صحافیہ کا تعلق ہے تو یہ نامانوس الفاظ ہیں۔ بہتر ہے کہ ان سے پہلے خاتون لگا دیا جائے۔ اور محققہ تو اتنا ثقیل لفظ ہے کہ خواتین سے ادائیگی بھی مشکل ہوگی۔ بہتر ہے کہ اس میں بھی خاتون کا سابقہ لگا دیا جائے۔ لیکن افتخار مجاز کس کھکھیڑ میں پڑتے ہیں۔

گزشتہ دنوں انجمن ترقی اردو کی جاری کردہ ایک اطلاع نظر نواز ہوئی۔ یہ پریس ریلیز انجمن کے شعبۂ نشرواشاعت نے بغرضِ اشاعت نشر کی تھی۔ خبر کے مطابق ’’اردو زبان کے مایا ناز شاعر‘‘ کے حوالے سے کوئی تقریب ہوئی تھی۔ اب چوں کہ یہ اردو کے ایک ’مایا ناز‘ ادارے کی طرف سے تھی تو ہم شش و پنج میں پڑ گئے کہ یہ ’’مایاناز‘‘ کیا ہوتا ہے۔ غالباً وہ جس پر مایا، ناز کرے۔ مایا تو غالباً ہندی میں روپے، پیسے، دولت وغیرہ کو کہتے ہیں جیسے ایک مثل ہے ’’مایا ری مایا تیرے تین نام۔ پرسو، پرسا، پرس رام‘‘۔ ایک غریب شخص پرس رام کے پاس جب مایا یعنی دولت نہیں تھی تو سب اسے ’’پرسو‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ کچھ پیسہ آگیا تو وہ پرسا صاحب ہوگیا۔ اور جب دولت میں کھیلنے لگا تو احتراماً سب اسے پرس رام کہنے لگے۔ اس پر اُس نے کہا کہ مایا ری مایا تیرے تین نام۔ یہ رواج آج بھی ہے۔ کوئی اللہ دتہ صرف ’دتو‘ کہلاتا ہے، کچھ پیسہ آجائے تو اللہ دتہ، اور جب شہرت و منصب حاصل ہوجائے تو خود ہی والدین کے رکھے ہوئے نام میں تبدیلی کرکے ’’اے ڈی اظہر‘‘ یا اے ڈی خواجہ ہوجاتا ہے۔ لیکن صاحب، کسی شاعر و ادیب کا مایا ناز ہونا سمجھ میں نہیں آیا۔ غالبا یہ ’’مایۂ ناز‘‘ ہوگا۔ شاعروں اور ادیبوں کے پاس صرف یہی ناز رہ جاتا ہے، مایا تو عموماً کترا کر نکل جاتی ہے۔
سنسکرت میں مایا خدا کی قدرت کو بھی کہتے ہیں۔ رحم، دَیا، کرپا کو بھی۔۔۔ اور دھوکا، فریب، دھن دولت کو بھی۔ مایا جال تو اردو میں بھی مستعمل ہے۔ تلسی داس کا یہ مصرع تو سنا ہوگا
مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ
انجمن ترقی اردو کے ذمے داران اپنے ادارے سے جاری ہونے والی پریس ریلیز پر خود بھی ایک نظر ڈال لیا کریں۔ رہی بات ’’مایۂ ناز‘‘ کی، تو اس کا مطلب ہے فخر و ناز کا سبب۔ مصحفی کا شعرہے:
ہوش کا اس کی میں کشتہ ہوں کہ وہ مایۂ ناز
شب رہا گھر مرے اور غیر نے جانا نہ رہا

مایہ کثیر المعنیٰ لفظ ہے اور اس کا مطلب بھی پونجی، مقدار، سرمایہ وغیرہ ہے۔
اپنے صحافی بھائیوں، کمپوزروں اور پروف پڑھنے والوں کی توجہ کے لیے۔ شبہ، تہ، وجیہ وغیرہ میں غیر ضروری طور پر ایک ’ہ‘ بڑھا دی جاتی ہے یعنی شبہہ، تہہ، وجیہہ وغیرہ لکھا جارہا ہے، یہ غلط ہے۔ خاص طور پر اگر وجیہہ لکھا جائے تو یہ وجیہ کی مونث بن جاتی ہے، یعنی وجی ہہ۔ تہ تہے پڑھا جاتا ہے۔
ہم نے اب تک ’’ہڑبونگ‘‘ پڑھا اور بولا۔ اس میں ’ڑ‘ کا استعمال ’’ہڑ‘‘ کا مزہ دیتا ہے لیکن لغت کہتی ہے کہ یہ ’’ہربونگ‘‘ ہے۔ اور ہندی سے اردو میں آیا ہے۔ مطلب ہے اندھیر، بدنظمی، شورش وغیرہ۔ کہیں دھماکا ہوجائے تو ہر طرف ہربونگ مچ جاتا ہے۔ ویسے ہم اس کو مونث ہی سمجھتے رہے۔ واجد علی شاہ اختر کا شعر ہے:
بزم میں سر پہ قیامت کو اٹھا رکھا ہے
یار لوگوں نے تو ہربونگ مچا رکھا ہے
ہربونگ بھیڑ بھاڑ کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ شعر دیکھیے:
جا نہیں سکتی نگاہ شوق تک
اس گلی میں اس قدر ہربونگ ہے
ہم پھر اصرار کریں گے کہ ہر بونگ میں ’ڑ‘ ہی مزا دیتاہے، ورنہ اس کے بغیر ہڑبونگ کا پورا تصور ہی نہیں آتا۔