Search This Blog

Friday, 3 March 2017

جھوٹ سے کیسے بچا جائے

جھوٹ سے کیسے بچا جائے
تنویر اللہ خان

قانون کا خوف اور معاشرتی اقدار کی پابندیاں انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہیں، لیکن معاشرتی اقدار اور قانون ملکوں، شہروں اور فاصلوں کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ ہر انسانی معاشرے میں غلط اور صحیح کے اپنے پیمانے ہوتے ہیں اور اُن کی مختلف درجے کی حساسیت ہوتی ہے۔ مثلاً کسی معاشرے میں خواتین کا، اسکرٹ پہننا عام سی بات ہے اور کسی معاشرے میں عورت کا ناخن تک نظر آنا بہت خاص سمجھا جاتا ہے۔ کسی معاشرے میں عورت پر معاشی ذمہ داری لازمی ہوتی ہے اور اسے اچھا سمجھا جاتا ہے، لیکن کسی معاشرے میں عورت پر معاشی ذمہ داری بالکل نہیں ہوتی، بلکہ عورت کا معاش کمانا بُرا سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے قریبی ممالک میں چین، تھائی لینڈ، فلپائن، سعودی عرب اور کچھ وسط ایشیائی ممالک کا اس معاملے میں تضاد بڑی مثال ہے۔

یہی معاملہ قانون کا ہے، مثلاً امریکا نے اپنی سرزمین پر موجود جیلوں میں بند قیدیوں کو جو قانونی حقوق دئیے ہیں وہ قانونی حقوق کیوبا میں موجود گوانتاناموبے کی جیل میں بند قیدیوں کو حاصل نہیں ہیں، حالانکہ ان دونوں جہگوں کی جیلیں امریکا کی بنائی ہوئی ہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ قانون، رسم ورواج اور قانون پر عملدرآمد ملکوں، قوموں اور فاصلوں اور سرحدوں کی مرہونِ منت ہوتے ہیں۔
بعض اچھائیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو ہر معاشرے میں اچھی سمجھی جاتی ہیں، اسی طرح بعض برائیاں ایسی ہوتی ہیں جو ہر معاشرے میں بُری سمجھی جاتی ہیں۔ ممکن ہے ان پر عمل کی کیفیت مختلف ہو اور ان کے بارے میں حسّاسیت کم یا زیادہ ہو، مثلاً جھوٹ ہر معاشرے میں بُرا سمجھا جاتا ہے اوردیانت داری ہر معاشرے میں پسندیدہ ہے، جب کہ مسلمان معاشرے کے تمام اچھے اعمال دینِ اسلام کا حصہ ہیں۔ لہٰذا سچ بولنا، سچ پر قائم رہنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ سچ پر قائم رہنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو برداشت کرنے پر آخرت میں اچھے صلے کی امید بہت بڑا سہارا ہے۔

آخرت میں جواب دہی کا احساس انسان کو سیدھا رکھنے کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔ آخرت میں حاضری مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ جب کہ دیگر مذاہب میں بھی اس کا تصور پایا جاتا ہے۔ آخرت میں جواب دہی کا خوف ایسا احساس ہے جس کی شدت اور حساسیت پر رسم ورواج، قانون، حالات اور فاصلوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
جسے آخرت میں جواب دینے کا احساس ہوگا اُسے کوئی پولیس والا نہ بھی دیکھ رہا ہو تب بھی وہ غلط کام کرنے سے باز رہے گا۔ آخرت میں جواب دینے سے ڈرنے والا امریکا میں بھی غلط کام سے باز رہے گا اور پاکستان میں بھی غلط کام سے بچے گا۔ وہ دن کی روشنی میں بھی غلط کام نہیں کرے گا اور گھپ اندھیرے میں بھی غلط کام کرنے سے دور رہے گا۔ زمین پر بھی وہ گناہ سے بچے گا اور آسمانوں میں بھی وہ بُرائی سے الگ رہے گا، اور تہہ خانوں میں بھی آخرت کی جواب دہی کا احساس اُسے غلط کاموں سے دور رکھے گا۔

جھوٹ سے بچنے کا بھی سب سے کارگر نسخہ آخرت کی جواب دہی کا احساس ہے۔ سب سے پہلے ہمیں آخرت میں اللہ کے حضور حاضری اور جواب دہی کا احساس اپنے اندر پیدا اور تازہ رکھنا چاہیے۔ یہ احساس جس قدر پختہ ہوگا اور جتنا زیادہ ہمارے دل ودماغ میں بسا رہے گا اُتنا ہی ہم جھوٹ سے بچیں گے۔ جھوٹے پر اللہ نے اپنی لعنت بھیجی ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن میں پیدائشی طور پر ساری خصلتیں ہوسکتی ہیں (خواہ وہ اچھی ہوں یا بُری) البتہ خیانت اور جھوٹ کی عادت نہیں ہوسکتی۔

جھوٹ اور آخرت کی فکر ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا آخرت کو دل میں بسا لیں، جھوٹ خودبخود آپ کے اندر سے نکل جائے گا۔ اس کے ساتھ اگر آپ چاہیں تو چند ایک تدابیر اور بھی کی جاسکتی ہیں۔

سب سے پہلے نظری اعتبار سے جھوٹ کو بُرا سمجھیں۔ آپ کو اپنے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانی ہوگی کہ جھوٹ گناہ ہے، جھوٹ بولنے سے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوتے ہیں اورجھوٹ دُنیاوی زندگی کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

جھوٹ کو چھوڑنے کا ارادہ کریں۔۔۔ جھوٹ ہی پر کیا موقوف، دُنیا کا کوئی بھی کام ارادے کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا جھوٹ چھوڑنے کا ارادہ کریں اور اپنے ارادے پر استقامت سے جم جائیں۔ ارادے پر جم جانا اور مسلسل جدوجہد کرنا ایسا بابرکت کام ہے کہ اس کو کرنے والوں کی مدد کے لیے اللہ آسمان سے ملائکہ کو بھیجتا ہے۔
اپنے ہر دن کا آغاز کرتے ہوئے عزم کریں کہ میں آج جھوٹ نہیں بولوں گا، میں کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اور ’میں آج جھوٹ نہیں بولوں گا‘ میں زیادہ آسان ہدف ’کبھی نہیں‘ کے بجائے ’آج نہیں‘ کا نظر آتا ہے، لہٰذا اپنے لیے چھوٹا ہدف مقرر کریں۔ ایک دن ہدف کا پورا کرلینا اگلے دن کی ہمت بھی دیتا ہے۔ لہٰذا صبح بستر چھوڑنے سے پہلے جھوٹ نہ بولنے کا ہدف مقرر کریں اور رات بستر پر لیٹنے کے بعد اپنے ہدف کے پورا ہونے اور اپنی کوشش کا جائزہ لیں، اپنے بستر کے سامنے لکھ کر لگالیں ’’مومن کا آنے والا پَل گزرے پَل سے بہتر ہونا چاہیے‘‘۔
جینز یعنی ورثے میں ملی عادات کے بعد صحبت انسان پر سب سے زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ مشہور مثالیں ہیں کہ ’’انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے‘‘، ’’انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے‘‘، اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‘‘۔ اس کُلیے کے مطابق اگر آپ دین دار اور سچوں کی صحبت اختیار کریں گے تو آپ میں سچائی پیدا بھی ہوگی اور نشوونما بھی پائے گی۔ صحبت اختیار کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیں، کیوں کہ کسی بھی جانب پہلا قدم اُٹھانا آپ کے اختیار میں ہوتا ہے، اس کے بعد آپ کا ہر اگلا قدم آپ کے اختیار میں کمی کرتا جاتا ہے۔ مثلاً یہ آسان ہے کہ ہم ٹی وی نہ دیکھیں، لیکن یہ ناممکن ہے کہ ہم ٹی وی دیکھیں اور لغویات سے بچے رہیں۔ جو لوگ ٹی وی پر مثبت چیزیں دیکھنا چاہتے ہیں اُن کی نگاہ بھی لمحوں کے لیے ہی سہی، غلط پر پڑجاتی ہے۔ اسی طرح یہ تو ممکن ہے کہ آپ اپنے بچے کو ٹچ موبائل نہ دیں، لیکن یہ ناممکن ہے کہ ٹچ موبائل دے کر اُس کے استعمال کی نگرانی کرسکیں۔ یہ ممکن ہے کہ ہم سگریٹ پینا شروع نہ کریں، لیکن یہ ناممکن ہے کہ ہم ساری زندگی دن میں صرف ایک سگریٹ ہی پیتے رہیں۔ لہٰذا اگر آپ جھوٹ سے بچنا چاہتے ہیں تو جھوٹوں کی صحبت سے بہت دور رہیں جھوٹوں کی صحبت میں بیٹھ کر جھوٹ نہ بولنا ناممکن ہے۔

جھوٹ سے بچنے کے لیے قریبی لوگوں سے مدد لیں۔ آپ کے ماں باپ اور دوست جھوٹ چھڑوانے میں آپ کی بہت مدد کرسکتے ہیں، لہٰذا ان سے ضرور مدد لیں۔
جھوٹ چھوڑنے کے لیے ڈاکٹر، استاد، مربی سے مدد لینا نہایت مؤثر ہوسکتا ہے۔ مغربی دُنیا میں ایسے ماہرین موجود ہیں جو آپ کے اندر اُتر کر آپ کی عادات، احساسات اورجذبات کو بدل سکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اب کچھ ڈاکٹر یہ کام کررہے ہیں۔ اگر آپ کا دل ٹُھکتا ہو تو اس شعبے کے کسی ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں۔ لیکن ڈاکٹر کے پاس جانا پیسے کا خرچ مانگتا ہے، جب کہ الحمدللہ ہمارے معاشرے میں ایسے دین دار لوگ بھی جابہ جا موجود ہیں جو اسپیچ تھراپی یا وعظ و نصحیت سے جھوٹ چھوڑنے میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے رابطہ کرنا اور اس رابطے کو جاری رکھنا جھوٹ چھوڑنے میں آپ کا بہت مددگار ہوسکتا ہے۔

بڑبولوں سے دور رہیں، بڑھکیں مارنے کا شوق جھوٹ اور سچ کی تمیز کو ختم کردیتا ہے۔ لہٰذا بڑی بڑی باتیں کرنے والوں سے، ڈینگیں مارنے والوں سے دور رہیں۔ بڑبولے بلاضرورت بغیر کسی مقصد، بغیر کسی مفاد کے جھوٹ بولتے ہیں۔
کم بات کرنے کی عادت ڈالیں۔ کم بات کرنا ممکن ہے لیکن یہ ناممکن ہے کہ زیادہ بولا جائے اور غلط بولنے سے بچا جاسکے۔ لہٰذا جب بولنا ضروری ہو اُس وقت خاموش نہ رہیں، لیکن جب بولنا ضروری نہ ہو اُس وقت خاموش رہنا بہت اچھا ہے۔ اکثر اوقات کم بولنے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا نقصان زیادہ بولنے سے ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنے والے تقربیاً تمام ہی لوگ زیادہ بولنے کے بھی عادی ہوتے ہیں۔
جھوٹ بولنے کے اسباب سے بچیں۔ مثلاً اگر آپ چھپ کر سگریٹ پیتے ہیں اور کسی بڑے کے پوچھنے پر سگریٹ پینے سے انکار کردیتے ہیں، یا آپ اسکول جانے کے بجائے پارک میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں اور پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ میں بلاناغہ اسکول جاتا ہوں، ایسے کام کرنے سے بچیں جن کی وجہ سے آپ کو جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔

غلطی چھپانے کے لیے بھی جھوٹ بولا جاتا ہے۔ لہٰذا غلطی کا اعتراف کرنا سیکھیں۔ مثل مشہور ہے کہ انسان غلطی کا پُتلا ہے۔ غلطی کرنا اتنا بُرا نہیں جتنا اس کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولنا بُرا ہے۔ پھر ایک غلطی کو چھپانے کے لیے ایک نہیں بہت سارے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں، جب کہ غلطی کا اعتراف کرنے کے لیے صرف ایک سچ ہی کافی ہوتا ہے۔

جھوٹ کے نتیجے میں اپنی زندگی میں ہونے والے نقصانات کا شمار کرتے رہیں، اسی طرح سچ کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا حساب بھی جوڑتے رہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ جھوٹ سے ہونے والے نقصانات کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہے گا۔
اپنے پچھلے جھوٹ پر اللہ سے معافی مانگیں۔ توبہ میں اللہ نے ایک خاص قوت رکھی ہے، جو بندہ اپنے سابقہ گناہوں پر نادم ہوکر اللہ سے معافی کا طلب گار ہوتا ہے، اللہ نہ صرف اپنے اس بندے کے سابقہ گناہ معاف کرتے ہیں ساتھ ہی اُسے اپنی رحمت کی ڈھال بھی عطا فرماتے ہیں جو اُسے آئندہ گناہ سے بچا کر رکھتی ہے۔ لہٰذا اب تک جو جھوٹ بولا جاچکا ہے اُس پر دل سے اللہ سے مغفرت مانگیں۔ وہ ستارالعیوب ہیں، وہ معاف بھی کرتے ہیں اور پردہ بھی ڈالتے ہیں۔

بلاشبہ جو تھوڑا یا بہت خیر ہمارے اندر ہے وہ اللہ ہی کی عطا و توفیق کا نتیجہ ہے۔


انبیاء علیہم السلام کے واقعات سنانے سے قراان کا مقصد

انبیاء علیہم السلام کے واقعات سنانے سے قراان کا مقصد

سید مہر الدین افضل

( ماخوذ اَزحاشیہ نمبر:50)
رکوع 8 آیت نمبر 59 تا 64 ارشاد ہوا:۔ ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔اس نے کہا ’’اَے بَرادرانِ قوم، اَللہ کی بندگی کرو، اس کے سِوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے۔ میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دِن کے عَذاب سے ڈرتا ہوں۔‘‘ اس کی قوم کے سرداروں نے جواب دیا ’’ہم کو تو یہ نظر آتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔‘‘ نوحؑ نے کہا ’’اَے برادرانِ قوم، میں کسی گمراہی میں نہیں پڑا ہوں، بلکہ میں ربّ العالمین کا رَسول ہوں، تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں، تمہارا خیر خواہ ہوں، اَور مجھے اَللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے، جو تمہیں معلوم نہیں ہے۔ کیا تمہیں اِس بات پرتعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعے سے تمہارے ربّ کی یاد دہانی آئی تاکہ تمہیں خبردار کرے اور تم غلط روی سے بچ جاؤ اور تم پر رحم کیا جائے؟‘‘ مگر انہوں نے اس کو جھٹلادیا۔ آخرِکار ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں نجات دی، اور ان لوگوں کو ڈبو دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا، یقیناًوہ اندھے لوگ تھے۔
وہ انبیا جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے:۔

مسند احمدؒ کی روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا آئے، جن میں 315 صاحب کتاب تھے۔ قرآن مجید میں ہمیں حضرت محمدؐ کے علاوہ 25 انبیا کا ذکر ملتا ہے، جِن کے نام ہیں۔۔۔ حضرت آدمؑ ، حضرت نوحؑ ، حضرت ادریسؑ ، حضرت الیسعؑ ، حضرت ہودؑ ، حضرت صالحؑ ، حضرت شعیبؑ ، حضرت اِبراہیمؑ ، حضرت اِسماعیلؑ ، حضرت اِسحاقؑ ، حضرت لوطؑ ، حضرت یعقوبؑ ، حضرت یوسفؑ ، حضرت موسیٰؑ ، حضرت ہارونؑ ، حضرت داودؑ ، حضرت سلیمانؑ ، حضرت عزیرؑ ، حضرت اِلیاسؑ ، حضرت اَیوبؑ ، حضرت ذلکفلؑ ، حضرت یونسؑ ، حضرت ذکریاؑ ، حضرت یحییٰؑ ، حضرت عیسیٰؑ ، ان انبیا کے ذکر کا اہم سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے سب سے پہلے سننے والے عرب، اِن میں سے کافی لوگوں کو اللہ کا پیغمبر مانتے تھے خاص کر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کو وہ اپنا جدَّ اَعلیٰ مانتے تھے اور اِن کے وارث ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور اِسی نسبت سے بیت اللہ کے متولِّی تھے، اور اسے اپنے لیے بڑا اعزاز مانتے تھے، اور اس نسبت کی وجہ سے کچھ امتیازی حقوق بھی رکھتے تھے۔ آج بھی آسمانی مذاہب کے ماننے والے ان لوگوں کو اللہ کا پیغمبر اور برگزیدہ انسان مانتے ہیں، مثلا آج دنیا میں حضرت نوحؑ کی برائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ طوفان نوح کے بعد سے آج تک ہزار ہا برس سے دنیا ان کا ذکر خیر کر رہی ہے۔۔ قرآن مجید میں اِن میں سے بعض کا ذکر تفصیل سے آیا ہے اور بعض کا مختصر، اِن کے ذکر میں انسانوں کی تاریخ کے اہم واقعات بتائے گئے ہیں۔

انبیا کے واقعات سنانے سے قرآن کا مقصد کیا ہے؟
قرآن مجید تاریخی وا قعات کو قصّہ کہانی بنا کر ہماری دلچسپی پیدا کرنے کے لیے بیان نہیں کر تا بلکہ سبق دینے کے لیے کرتا ہے۔ اس لیے ہر جگہ تاریخی واقعات کے بیان میں وہ قصّے کے صرف ان اہم حِصّوں کو پیش کرتا ہے جو اِس کے مقصد سے تعلق رکھتے ہیں، باقی تمام تفصیلات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ قرآن ایک پیغمبر کے قصّے کو کئی سورتوں میں بیان کرتا ہے اور ہر جگہ ایک نیا سبق دینا چاہتا ہے۔۔۔ اس سبق کی مناسبت سے واقعے کی تفصیلات بھی مختلف طور پر پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ الاعراف میں حضرت نوحؑ کے قصے کے بیان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پیغمبر کی دعوت کو جھٹلانے کا کیا انجام ہوتا ہے۔ جب کہ سورہ عنکبوت آیت نمبر 14 میں جہاں یہ قصّہ اس غرض کے لیے بیان ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کی جائے وہاں خاص طور پر دعوتِ نوحؑ کی طویل مدّت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء اپنی چند سال کی تبلیغی کوشش اور محنت کو نتیجہ خیز ہوتے نہ دیکھ کر بددل نہ ہوں اور یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ کہ جو دعوت سیدنا محمدؐ پیش کر رہے ہیں، یہی دعوت سیدنا نوحؑ نے پیش کی تھی، اور تمہارا رد عمل بھی وہی ہے جو قوم نوحؑ کا تھا، اب تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو قوم نوحؑ کا ہوا تھا۔۔۔آج ہمارے لیے یہ پیغام ہے کہ حضرت نوحؑ کے صبر کو دیکھیں جنہوں نے لمبی مدت تک دل توڑ دینے والے حالات میں دعوتِ حق کی خدمت انجام دی اور ذرا ہمت نہ ہاری۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ شروع میں حق کے دشمن چاہے کتنے ہی کامیاب ہوں، مگر آخری کامیابی صرف ان لوگوں کا حصہ ہوتی ہے، جو اللہ سے ڈر کر فکر و عمل کی غلط راہوں سے بچتے ہوئے، مقصدِ حق کے لیے کام کرتے ہیں۔ اور یہ کہ اللہ کے فیصلے میں دیر چاہے کتنی ہی لگے، مگر فیصلہ آخرِ کار ہو کر رہتا ہے، اور وہ لازماً اہل حق کے حق میں اور اہل باطل کے خلاف ہوتا ہے۔

آج عذاب کیوں نہیں آتا؟:۔
اِس موقع پر ایک اور شک بھی دلوں میں کھٹکتا ہے جسے دور کرنا ضروری ہے۔ جب ہم قرآن میں بار بار ایسے واقعات پڑھتے ہیں کہ فلاں قوم نے نبی کو جھٹلایا اور نبی نے اسے عذاب کی خبر دی اور اچانک اس پر عذاب آیا اور قوم تباہ ہوگئی، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قسم کے واقعات اب کیوں نہیں پیش آتے؟ اگر چہ قومیں گرتی بھی ہیں اور ابھر تی بھی ہیں، لیکن اس عروج و زوال کی نوعیت دوسری ہوتی ہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ ایک نوٹس کے بعد زلزلہ یا طوفان یا صاعقہ آئے اور قوم کی قوم کو تباہ کر کے رکھ دے۔ اِس کا جواب یہ ہے کہ حقیقت میں اخلاقی اور قانونی اعتبار سے اس قوم کا معاملہ جو کسی نبی کی براہ راست مخاطب ہو، دوسری تمام قوموں کے معاملے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جس قوم میں نبی پیدا ہوا ہو، اور وہ بلا واسطہ اس کو خود اسی کی زبان میں خدا کا پیغام پہنچائے، اور اپنی شخصیت کے اندر اپنی صداقت کا زندہ نمونہ اس کے سامنے پیش کر دے، اس پر خدا کی حجت پوری ہو جاتی ہے۔۔۔ اس کے لیے معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور خدا کے پیغمبر کو دو بہ دو جھٹلا دینے کے بعد وہ اس کی مستحق ہو جاتی ہے کہ اِس کا فیصلہ اسی وقت چُکا دیا جائے۔ یہ نوعیتِ معاملہ ان قوموں کے معاملے سے بنیادی طور پر مختلف ہے جن کے پاس خدا کا پیغام براہ راست نہ آیا ہو بلکہ مختلف واسطوں سے پہنچاہو۔ پس اگر اب اس طرح کے واقعات پیش نہیں آتے جیسے انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں پیش آئے ہیں تو اِس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، اِس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ مگر اِس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ اب ان قوموں پر عذاب آنے بند ہو گئے ہیں جو خدا سے پھری ہوئی اور فکری و اخلاقی گمراہیوں میں بھٹک رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ایسی تمام قوموں پر عذاب آتے رہتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے تنبیہی عذاب بھی اور بڑے بڑے فیصلہ کن عذاب بھی لیکن کوئی نہیں جو انبیا علیہِم السلام اور کتبِ آسمانی کی طرح، ان عذابوں کے اخلاقی معنی کی طرف انسان کو توجہ دلائے۔ بلکہ آج صرف ظاہر کو دیکھنے والے سائنس دانوں، اور حقیقت سے ناواقف تاریخ دانوں اور فلسفیوں، کا ایک بڑا گروہ انسانوں کے دل و دماغ پر مسلط ہے، جو اس قسم کے تمام واقعات کی وضاحت فزکس کے قوانین یا تاریخی اسباب سے کر کے ان کو بھلا وے میں ڈالتا رہتا ہے، اور انہیں کبھی یہ سمجھنے کا موقع نہیں دیتا کہ۔۔۔ اوپر کوئی خدا بھی موجود ہے، جو غلط کار قوموں کو پہلے مختلف طریقوں سے ان کی غلط کاری پر متنبہ کرتا ہے، اور جب وہ اس کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے آنکھیں بند کر کے، اپنی ٹیڑھی چال پر اصرار کیے چلی جاتی ہیں تو آخر کار انہیں تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی اپنی زمین اور اس کی بے شمار چیزوں پر اقتدار عطا کر کے بس یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ اِس کی آزمائش کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کر رہی ہے۔ قوم نوح کے ساتھ جو کچھ ہوا اِسی قانون کے مطابق ہوا اور دوسری کوئی قوم بھی اللہ کی ایسی چہیتی نہیں ہے کہ وہ بس اسے مزے لوٹنے کے لیے آزاد چھوڑ دے۔ اِس معاملے سے ہر ایک کو لازماً سابقہ پیش آنا ہے۔

اَللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اِس فہم کے مطابق، دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین۔


امانت داری ۔۔۔ ایک بیش بہا صفت


اخلاق نبوی ص کے سنہرے واقعات


امام غزالی ۔ حیات و خدمات


قران کریم رشد و ہدایت اور علم و حکمت کا سرچشمہ