Search This Blog

Sunday 7 October 2012

LAHMAL HARAM


لحم الحرام

شہزادہ بسمل

قرآن کریم کے سورہ بقرہ آیت نمبر 173اور سورہ مائدہ آیت نمبر3میں رب العالمین کی تنبیہ ہے کہ (لفظی ترجمہ) :ہم نے تمہارے لئے خودمردہ ، خون،سور کا گوشت اور وہ کچھ جو اللہ تعالیٰ کے نام کی بجائے کسی اور نام پر مشہور ہوجائے ہمیشہ کے لئے حرام ٹھہرایاہے…… ۔ ان آیات کے بارے میں مفسرین نے لکھاہے کہ سور کا نہ صرف گوشت بلکہ اُس کی کھال ، کھرا ور بال کے ساتھ ساتھ کوئی بھی چھوٹی بڑی شئے مطلقاً حرام ہے ۔ محققین نے بتایا ہے کہ سور کی کوئی بھی چیز استعمال کرنے سے انسان میں بے شرمی وبے حیائی ، جہالت وگستاخی کے علاوہ آزادانہ جنسی ا ختلاط کارجحان بڑھ جاتاہے اور کسی بھی سوچ وفکر کا سماج ہو، یہ کیفیات اُس کی تباہی وبربادی کا باعث بنتی ہیں ۔ انگریز نے جب ہندوستان پر مکمل طور سے قبضہ جمالیاتو اُس نے دیسی لوگوں کو بھی اپنی فوج میں بھرتی کرلیا ۔ فوج کے استعمال میں بندوق کے کارتوس برطانیہ سے بن کر آتے تھے ۔ چونکہ اُن کو سمندری راستے سے درآمد کیا جاتا تھا اور سفر میں خاصاوقت بھی صرف ہوجاتاتھا اُس وجہ سے سمندر کی نمی کی وجہ سے کارتوسوں کے اندر کابارود متاثر ہوکر کارتوس قابل استعمال نہیں رہتے تھے ۔ اس مسئلے کاسدباب کرنے کے لئے انگریز نے گولیوں پر سور کی چربی کا لیپ چڑھایاجس سے وہ خراب یا ناکارہ ہونے کی بجائے کافی وقت تک قابل استعمال رہتی تھیں کیونکہ سور کی چربی کافی دیر تک تر(Moisturised)  رہتی ہے ۔ کارتوس کو استعمال کرنے سے قبل اُس پر پڑی چربی کی پرت کو دانتوں سے توڑنا پڑتاتھا جوطریقہ فوج کو پہلے ہی سکھایا گیا تھامگر کسی طرح سے اس بات کا انکشاف ہواکہ کارتوسوں پر سور کی چربی چڑھائی جاتی ہے ۔بس پھر کیا تھا، یہ راز افشاء ہوتے ہی سبزی خور ہندوئوں اورمجموعی طور پرمسلمان سپاہ نے اس بات پر احتجاج کیا اور ایسے کارتوس استعمال کرنے اور اُن کے ساتھ میدان میں لڑنے سے صاف انکار کردیا جس کا آخر کار یہ نتیجہ نکلا کہ زور زبردستی کے باعث انگریز کے خلاف ملک گیر پیمانے پر بغاوت ہوئی جوبعدازاں غدر 1857ء یا ہندوستان کی ناکام جنگ آزادی کے نام سے تاریخ کے صفحات پر رقم ہوگئی ،جس میں مجموعی طور پرمسلمان ہی تباہ وبرباد ہوگئے ۔مسلمانوں کا راج تاج بھی گیا، بادشاہ نے بڑی بُری حالت میں دیارِ غیر میں سسک سسک کر دَم توڑ دیا ، شہزادوں کے سرکاٹ کر اور طشتریوں میں سجاکر بادشاہِ بے یارومددگار کوتحفے میں پیش کئے گئے ۔مسلمان مارے کتنے گئے اُن کا کوئی شمار وحساب ہی نہیں ہے ۔خالی ستائس ہزار نفوس کو پھانسی دی گئی اور شام کارئیس صبح کو سڑک پر ننگ دھڑنگ پھرتا دیکھاگیا۔

سو رکی چربی کے استعمال کا سلسلہ اُس کے بعد بھی برابر جاری رہا ۔ چونکہ یہودؔ مسلمان کا ایک ازلی اور بدترین دشمن ہے ،اس لئے اُس نے مسلمانوں میں ایمانی خلل ڈال کر بے شرمی وبے حیائی جہالت وگستاخی کے ساتھ ساتھ آزادانہ جنسی اختلاط و بے راہ روی پیدا کرنے کے لئے تمام یورپی کمپنیوں جن میں مختلف قسم کی اشیاء تیار ہوتی ہیں اور جن کے مالک خود یہود ہیں ، میں حیوانی چربی کااستعمال جاری رکھا۔ چونکہ ان کمپنیو ں کا بنایا ہوا مال بشمول کاسمیٹکس ، کریم ، پاوڈر ،صابن ، توٹھ پیسٹ، بسکٹ ،چاکلیٹ، مشروبات ،جوس ، کارن فلکس ، ڈبہ بند جام ، پنیر وغیرہ وغیرہ تقریباً نو ے فیصد مسلم ممالک میں جاتا تھا اور وہ بھی لاعلمی میں ہرایک چیز بڑی رغبت سے استعمال کرتے تھے۔ حتیٰ کہ اس بات کو محسوس کیا گیا (دراصل اللہ رب العزت ہی کرم پر آیا ، وہ اصل میں اپنے نام لیوا بندوںکوناپاک کھلانا نہیں چاہتا تھا)کہ اُن صنعت کاروں سے پوچھا جائے کہ وہ کس جانور کی چربی مذکورہ اشیاء میں استعمال کرتے ہیں ۔جواباً انہوں نے گائے اور بھیڑبکری کی چربی استعمال کرنے کی بابت بتایامگر سنجیدہ لوگ اس تذبذب میں پڑ گئے کہ اگرجواب دُرست بھی مان لیا جائے تب بھی وہ جانور اسلامی طریقے سے ذبح نہیں ہوتے ہوں گے ۔ اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ چربی مسلمان ممالک سے درآمد کی جاتی ہوگی ۔ نتیجہ یہ ہواکہ ایسے تمام مال کو حرام جان کراس کی درآمد روک دی گئی ۔ مال بنانے والی کمپنیوں کے خریدار تو خاص طور پر مسلمان ممالک ہی تھے اوریہ مال مسلمانوں کی ہی ملوث کرنے کے لئے تیار کیا جاتاتھا۔ اس لئے ایسی تمام کمپنیوں کو لگ بھگ اسّی فیصدسالانہ خسارے سے دوچار ہوناپڑا۔

خسارہ سے محفوظ رہنے ، اپنے مال کی سپلائی دوبارہ بحال کرنے اور مسلم سماج کو متواتر حرام کے گڈھوں کی طرف دھکیلنے کے لئے انہوں نے نیا پینترا بدلا ۔سور کی چربی کا استعمال مختلف اشیاء میں بدستور برقرار رکھا مگر ڈبے یا ریپر پر حیوانی چربی (Animal Fat) لکھنے کی بجائے انہوں نے خفیہ الفاظ یا خفیہ زبان (Codal Language) کا استعمال کرنا شروع کیا جو اُن کمپنیوں کے خاص کارکنوں کے سوا کسی اور کو معلوم نہیں تھاکہ مجوزہ یا استعمال شدہ نمبرات کا کیا مطلب ہے۔مثال کے طور پر ہم کسی چیز کے ڈبے یا ریپر پر E-503لکھا ہوا دیکھتے ہیں ۔ بنانے والے لوگوں کومعلوم ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے جب کہ صارف اس کوڈ ورڈ کا کوئی خاص اثر نہیں لیتاہے کیونکہ اُس کے لئے یہ چیز ایک بے معنی بات ہے ۔ اُس کے وہم وگمان میں بھی یہ نہیں ہوتاکہ ڈبے پر دیا ہوا نمبر محض ایک فریب ہے ۔

بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ۔ اللہ رب العزت کو دراصل اپنے مومن بندوں کو اس ناپاک سامگری سے دور رکھ کر ناپاکی اور گندگی سے بچانا تھا، اس لئے بیروت کے ایک پروفیسر امجد صغر نے مکمل تحقیق کرکے دنیائے اسلام کے سامنے اپنی رپورٹ رکھی ۔ یہ رپورٹ حکومت متحدہ عرب امارات نے کچھ عرصہ ہوا شائع کی تھی ۔ پاکستان سائنس فائونڈیشن کے محقق ڈاکٹرمحسن رضا صاحب نے اُس رپورٹ کو لاہور سے شائع ہونے والے رسالے ’’الحق‘‘ میں اگست 1992ء میں شائع کیا ۔ پروفیسر کے کہنے کے مطابق پگ (Pig)، ہاگ(Hog)، سوائن(Swine)خنزیر کو ہی کہتے ہیں ۔پورک (Pork)، ہیم(Ham)، بیکن (Bacon)سور کے گوشت کو کہتے ہیں ۔سپورکل اور نمکین پورکر بھی خنزیر کے گوشت کے نام ہیں ۔لارڈ (Lard)سور کی چربی کو کہتے ہیں ۔ جلاٹین ، جلوٹین یا جیٹو ایک سیال مادہ ہے جس میں سور کی کھال ، کھر اور ہڈیوںکو شامل کیا جاتاہے ۔ اس لئے جن چیزوں کی ترکیب میں یا جن چیزوں کے اجزائ(Ingrediants)ایسے ہوں یا جن اشیاء کے بنانے میں ایسے الفاظ شامل ہوں ، مان لینا چاہئے کہ اُن میں سور کا گوشت ، سور کی چربی یا سور کے جسم کا کوئی اور جُز شامل ہے ۔

پیپسین (pepsin)ایک دواہے جس میں سور کا خون شامل ہوتاہے ۔ ایل شارٹنگ یا انیمل شارٹنگ ایک تیل ہے جس میں عام طور پر کھانا پکایا جاتاہے ،اس تیل میں زیادہ تر سور کی چربی شامل ہوتی ہے ۔اشیائے خوردنی میں مندرجہ ذیل کوخریدتے وقت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان میں عام طور سے سور کے جسم کے مختلف اجزاء شامل ہوتے ہیں۔ پرنس چاکلیٹ، کریفٹ چیز ، رے مارک چیز وغیرہ عام طور پر یہ چیزیں بنانے والی کمپنیاں ایسے پنیر سور کے دودھ پیتے بچے کے معدے سے بناتے ہیں ۔یا بہ الفاظ دیگر ایسے پنیروں میں وہ شامل ہوتاہے ۔ یورپ اور امریکہ میں بنے ہوئے زیادہ تر بسکٹ ، پیسٹریاں ، کیک اور روٹیاں (loag)سور کی چربی سے تیار کی جاتی ہیں ۔پیپسی (Pepsi)کولا مشروب میں پیپسین ملائی جاتی ہے جس میں سورکاخون شامل ہوتاہے ۔

پروفیسر صاحب کا مزید فرماناہے کہ مندر جہ ذیل اشیاء یارڈ یعنی سور کی چربی سے تیار کی جاتی ہیں ۔

لکس سوپ (Lux Soap)،کیپری سوپ (Capri Soap)،برل کریم (Bryl Cream) ، ایوری سوپ (Avery Soap)،کرافٹ چیز (Craft Cheese)، رے مارک چیز (Raymark Cheese)،پرنس چاکلیٹ (Prince Chocolate)مزید برآں بالوں کے کریم ، کولگیٹ ٹوتھ پیسٹ ، پامولیو ٹوتھ پیسٹ میں بھی سور کی چربی شامل ہوتی ہے ۔ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسانی جسم پر سوائے سور کی چربی کے ہر طرح کی اور ہر جانور کی چربی پگھل جاتی ہے ،بہہ جاتی ہے یا خشک ہوجاتی ہے مگر صرف ایک سور کی چربی ہے جو انسانی جسم پر نہ پگھل جاتی ہے اور نہ خشک ہوجاتی ہے ۔ اسی وجہ سے عورتوں کے لپ اسٹک میں سور کی چربی ملائی جاتی ہے تاکہ ہونٹوں کارنگ دیر تک نم اور تازہ رہے ۔

کاسمیٹکس (Cosmetics)کا سامان بنانے میں سور کی چربی کے علاوہ اسقاطِ حمل (Abortion) کے ذریعے ضائع کئے جانے والے بچوں کی ہڈیوں سے حاصل شدہ کیمیائی مرکب استعمال کیا جاتاہے جس کا انکشاف فرانس کی ایک مشہور کمپنی ’’کاسمیٹکس‘‘ کی گاڑی کے تلاشی کے دورا ن ہوا۔ گاڑی میں کئی مردہ بچوں کے اجسام پائے گئے اور بعد میں کمپنی کے اربابِ اختیار سے تحقیق وتفتیش کرنے کے بعد اس رازسے پردہ اٹھاکہ ان اجسام کو مختلف قسم کی چہرے پر لگانے والی کریموں (Face Creams) میں استعمال کیاجاتاہے۔

پروفیسر صاحب کا کہناہے کہ ریسرچ کے دوران یہ بھی پتہ چلا کہ مغربی معاشرہ میں لوگ سینکڑوں بیماریوں کے شکار فقط خنزیر سے متعلق مختلف اشیاء کے استعمال سے ہوئے یا ہوتے ہیں جن میں جلد کی بیماریاں، الرجی ، سوزش ، جلد کا وقت سے پہلے لٹک جانا وغیرہ خاص طور پر شامل ہیں اور جنسی حیوانگی سو الگ۔ یہ یا اس طرح کی اور اس کے علاوہ مزید خطرناک بیماریاں اُن کاسمیٹکس سے لگ جاتی ہیں جن میں سور کی چربی وغیرہ شامل ہوتی ہے ۔ سور سے متعلق اشیاء کے استعمال والی چیزیں جیساکہ آگے ہی بتایا گیا ہے ، زیادہ تر وہ کمپنیاں بناتی ہیںجن کے مالکان یہودیؔ ہیں ۔یہ یہودی نہ صرف جان بوجھ کر دنیائے اسلام میں ایسی چیزیں پھیلاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی کردار کشی ہوجائے بلکہ وہ اس طرح سے اسرائیل کی بھی کھلم کھلا مدد کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ اسرائیل کے لئے الگ سے نکال کررکھتے ہیں ۔
ابھی حال ہی کی ایک رپورٹ جو مسلمانانِ عالم کی آنکھوں پر پڑا غفلت کا پردہ ہٹانے کے لئے شاید کارآمد ثابت ہوسکتی ہے ، میں اس بات کا انکشاف ہواہے کہ مسلمان روزانہ اسرائیل کو چھپانوے لاکھ ڈالر یعنی باون کروڑ اسّی لاکھ روپے کی مدد کررہے ہیں اور اس طرح سے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے قتلِ ناحق میں ملوث ہورہے ہیں ۔بات دراصل یہ ہے کہ چالیس کروڑ مسلمان یہودی کمپنیوں کی بنائی ہوئی چیزیں خاص طور پر سگریٹ ، کوکا کولا اور مختلف فوڈ آئٹمز روزانہ استعمال کرکے اسرائیل کی مدد اس طرح سے کررہے ہیں کہ یہ کمپنیاں اپنے منافع کا دس فیصد حصہ اسرائیل کی تخریب کارتیاریوں کے لئے دے دیتی ہیں ۔اس طرح سے مسلمانوں سے ہی دوسرے مسلمانوں کا خاص طور سے عرب ورلڈ میں قتل عام ہورہاہے ۔ امریکی سی آئی اے کے انکشاف کے مطابق فلپس مورس اور کوکا کولا دوکمپنیاں سگریٹ اور مشروبات بناتی ہیں جو مسلمان ممالک کے لگ بھگ چالیس کروڑ مسلمان استعمال کرتے ہیں ۔اس طرح سے روزانہ آٹھ سو ملین ڈالر یعنی چوالیس ارب روپیہ فلپس مورس کمپنی کو جاتے ہیں جس میں کمپنی کو اوسطاً دس فیصد منافع ہوتاہے اور اس میں سے یعنی کل منافع کے بارہ فیصد کے حساب سے 9.6ملین ڈالریعنی باون کروڑ اسّی لاکھ روپیہ روزانہ مسلمان سگریٹ نوشی کرکے اسرائیل کو اداکررہے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق کولڈ ڈرنک تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی کو کاکولا سن 1996ء سے اسرائیل کی ایک بہت بڑی معاون کمپنی ہے اور اسرائیل کو مدد پہنچارہی ہے ۔ دنیا کی دوسری بڑی ملٹی نیشنل کمپنی ’’میک ڈونالڈ‘‘ ہے جس کے دنیا میں ایک سو بیس سے زائد ملکوں میں لگ بھگ 30ہزار ریسٹورنٹ قائم ہیں ۔یہ کمپنی اسرائیل کو مالی معاون کرنے والا تیسرا بڑا ہاتھ ہے اور انہی کمپنیوں کی تیار کردہ اشیاء استعمال کرکے دانستہ یا غیر دانستہ طور معصوم فلسطینوں کے قتل عام میں دُنیا بھر کے کروڑوں مسلمان شامل ہوجاتے ہیں ۔ سارے ہندوستان میں میکڈونالڈ کے برگرہرروز کتنے مسلمان نوشِ جاں کرتے ہیں ، اس بارے میں کبھی آپ نے غور کیا ہے ؟

گزشتہ سطور کے ساتھ سلسلہ جوڑتے ہوئے پھر پروفیسر صاحب کی رپورٹ کی طرف آتے ہیں ۔ان کا مزید فرماناہے کہ مندرجہ ذیل اشیاء بھی یہودی ہی بناتے ہیں اس لئے لازماً ان اشیاء میں بھی سور کے جسم سے متعلق مختلف چیزیں شامل ہوسکتی ہیں :

کوکاکولا،فنٹا،مِرنڈا،سپرِنٹ، سیون اَپ، ببل اَپ، ٹیم(Team)،لائف بوائے سوپ، ڈالڈا گھی ،کلوز اَپ ٹوتھ پیسٹ ، باٹا سوزکاسمیٹکس کی کمپنی نیویا(Nivia)کے تیار کردہ کریم جیسے میڈورا، سوئس مِس، میکس فیکٹر، ایولان ، ایڈمرل، نیویا وغیرہ ۔ ادویات تیارکرنے والی کمپنیاں مثلاً پارک ڈیوس (Parke Davis) ،جی جی (Geigy)،سیبا (Ciba)،روش (Roche)اور رینگلر للی (Wrangler lily)بھی کچھ ادویات میں ان چیزوں کا استعمال کرتی ہیں ۔کپڑے بنانے والی کمپنی ری میک (Remec)کی مصنوعات جیسے جرمن فوڈس ، فوڈ سٹفس (Food Stuffs)،برگرس (Burgers)،گاننس بر(Ganens Burr) میکڈونالڈ (Mc-Donnells)وغیرہ وغیرہ خاصے مشہورہیں ۔اس لئے مندرجہ بالا نامی کمپنیوں کی چیزیں یا مذکورہ اشیاء خریدنا بذات خود اُس ملک کی مدد کرنے کے مترادف ہے جس کا نصب العین ہی اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرناہے ۔

لپ اسٹک کے بارے میں مکرّر اس بات کی یاد دہانی کرتے چلیں کہ لپ اسٹک یورپ کے کسی ملک میں ، ایشیاء کے کسی شہرمیں یا کسی قصبے کی کسی گمنام گلی میں بنے اُس میں سور کی چربی ہونا لازمی ہے ۔یہ پہلے ہی بتایا جاچکاہے کہ سور کی چربی انسانی جسم پر جلدی نہیں پگھلتی جب کہ اس کی نمی (Moisture)دیر تک ہونٹوں پر رہتی ہے ۔باقی تمام قسم کی چربی جسم پر جلدی پگھل جاتی ہے یا سوکھ جاتی ہے ۔

کچھ عرصہ قبل لکھنؤ کی ماحولیاتی تحقیقاتی لیبارٹری سے وابستہ سائنس دان ڈاکٹر مکیشؔ چند سکسینہ کے مطابق ہندوستان میں چاکلیٹ بنانے والی کمپنیاں چاکلیٹ میں میکلے (Mckle)،جوایک مضر صحت پدارتھ ہے ، کی اتنی مقدار استعمال کرتی ہیں کہ اُن کے کھانے سے بچوں کی صحت متاثر ہوجاتی ہے ۔ اُس سے اُن کی نشوونما رُک جاتی ہے اور ان کی قوتِ مدافعت بھی بگڑ جاتی ہے ۔اس طرح سے اُن میں اور بیماریوں کاخطرہ تو رہتاہی رہتاہے مگر کینسر کا خطرہ زیادہ رہتاہے ۔ انڈین کنفکشنری مینوفیکچرس ایسوسی ایشن جیسی چاکلیٹ بنانے والی کمپنیوں کے تمام قسم کے چاکلیٹ بچوں کے لئے بے حد مضر قرار دیئے گئے ہیں مگر پھر بھی ہم یہ زہر اپنے بچوں کو اپنی نیک کمائی سے خرید کر کھلاتے رہتے ہیں او رجب ہماری مائیں بہنیں ، بیویاں ،بہوئیں اوربیٹیاں ، اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے یا پڑھانے جاتی ہیں ، دفتروں میں کام پر جاتی ہیں یا فیلڈ میں ، اسپتالوں میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے جاتی ہیں تو اُن میں سے بیشتر کے ہونٹوں پر لپ اسٹک کا ایک لیپ چڑھا ہوا ہوتاہے ۔اسے ہم بھی دیکھتے ہیں بلکہ اکثر حالات میں ایسا ہماری نظروں کے سامنے ہی ہوتاہے مگر ہم ماشاء اللہ مومنین ہیں ۔ہمارے دین میں ، ایمان میں اس سے کوئی خلل نہیں پڑتاہے ۔پڑے گا بھی کیسے ہم پر خرمستی کرنے کے لئے بڑی کشادہ راہیں ہیں ۔ بقول مولانا حالی   ؎

مگر مومنوں پر کشادہ  ہیں راہیں

پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں

ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں

وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلمان

اپنے شاندار ماضی اور اپنی رنگین روایات کو چھوڑ کر ، اصل کو چھوڑ کر اور نقل کو گلے لگاکر ، مادی ترقی کے سراب میں ہم نے امپورٹیڈ کلچر کو گلے لگاکر سب کچھ گنوا دیا ہے ۔

آخر ہم ان کوڈنمبرات کی فہرست دے دیتے ہیں جن کو روز مرہ کی مختلف اشیاء استعمال کرنے سے قبل جانچنا ضروری ہے ۔گرچہ اس کی کم ہی اُمید ہے کہ اب یہ کوڈ نمبر دیئے جاتے ہوں گے یا نہیں تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہودؔ نے کوئی دوسرا پینترا ضرور بدلا ہوگا۔

E-100,E-110,E-120, E-140, E-141,E-153, E-210, -213, E-214, E-216 , E-234, E-252, E-270, E-280,

E-322, E-325, E-326,E-327, E-334, E-335, E-336, E-337,

E-422, E-430, E-431, E-432,E-433, E-434, E-435,E-436, E-440, E-470, E-471, E-472, E-473, E-474, E-475,E-476, E-477, E-478, E-481, E-482, E-483, E-491, E-492, E-493, E-494,E-495,

E-503, E-542, E-570, E-572, E-631, E-635, AND E-904

چلتے چلتے اس بات کو بھی گوش گذار کرتاچلوں کہ یہ ای کوڈ نمبرات صرف ٹوتھ پیسٹ ، شیونگ کریم ، چیونگم ، چاکلیٹ،مٹھائیاں ، بسکٹ ، کارن فلیکس،ڈبہ بند غذائی میٹریل اور جیم وغیرہ تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ متعدد بین الاقوامی کمپنیاں خاص طور پر وہ جن کے چلانے والے یہودہیں مذکورہ ناپاک چیزیں اور بھی اپنی بیشتر مصنوعات میں استعمال کرتی ہیں اور عوام الناس ہمیشہ لاعلم ہی رہتے ہیں ۔ہم ٹوسٹ پر جیم لگارہے ہیںیا ایک چاکلیٹ کاپیس چبا رہے ہوتے ہیں، اب یہ کیسے تصور میں آئے گا کہ اس میں سور کی چربی ملی ہوئی ہے ؟ عموماً لوگ لاعلمی میں بہت کچھ ڈکار جاتے ہیں۔یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر ایسی کیا مجبوری ہے جو قوم یہود عالم انسانیت کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑی ہے ۔ اس کے دوجواب ہیں ۔ اوّل یہ کہ یہود مسلمانوں کے ساتھ بے انتہا نفرت اور دشمنی رکھتے ہیں اور اُن کو ہرطریقے سے بدنام کرتے ہیں ،بے عزت کرتے ہیں ،اُن کے عزتِ نفس کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور اُن کی نسل کشی کے سامان کرتے ہیں اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہود دُنیا میں صرف یہود کا دوست ہے ۔ باقی دنیا کو مٹتے دیکھ کر وہ خوش ہوتاہے۔ اُسے بہتا ہوا خون دیکھنے پر بے حد خوشی ملتی ہے ۔ جنگ عظیم اوّل ودوم میں کون سے مسلمان آگے نبردآزما تھے ، مورچہ سنبھالتے تھے پھر بھی اُس نے دونوں عظیم تباہیوں کی بنیاد ڈالی ، وہ ہی جنگوں کے باعث بنے ۔ جرمنی کون سا مسلمان ملک تھا مگر وہاں بھی اس نے ہٹلر کے ساتھ چھل کیا ۔یہود ؔ ہمیشہ آبادی کے تخفیف کے راستے سوچتاہے ۔ اسی لئے مختلف تنظیمیں دنیا میں وجود میں آتی ہیں جو اپنی پوشیدہ سازشوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر قوموں کی بھی نسل کشی کی سامان کرتی رہتی ہیں۔فلسطین ؔکے مسلمانوںکی نسل کشی ، مصرمیں سابقہ ایام میں اخوان کا قتل عام ، دو عالمگیر جنگوں کی بنیاد ، مختلف ممالک افغانستان ، بغداد ، کردستان، تیونس ،لیبیا ، مصر ، شام ، یمن ، کمبوڈیا ، فلپائن ، سری لنکا ، برما ، کشمیر وغیرہ میں ہوئے یا ہورہے جنگ وفسادات میں مسلمانوں کا بے دریغ جانی ومالی نقصان کے پیچھے صرف اور صرف یہود کا ہاتھ ہوتاہے۔قرآن شریف کو نئے سرے سے صرف آٹھ پاروں میں لکھنے کی سازش کس نے کی یا کس نے اسے شائع کرکے بازار میں لایا ۔ چار ہزار سے زائد اسلام مخالف کتابیں کس نے لکھیں ۔یہوددنیا کی وہ ذلیل ترین اور دھتکاری ہوئی قوم ہے جنہوں نے اللہ کے نبیوں علیہم السلام کو قتل ، جلائے وطن اور بدنامی تو معمولی بات ہے حضرت لوط علیہ السلا م پر غلط کا ری(العیاذ باللہ)تک کے بھی الزام عائد کئے ۔ میری بات کا اعتبار نہ آئے تو براہ کرم توراے …پیدائش…باب 19آیات 29تا 38دیکھئے ۔

پال فنڈلے کی کتاب The dare to speak out کے ناشر نے کتاب کے شروع میں اپنے اشاعتی نوٹ میں لکھاہے :

’’اس کتاب کا مصنف پال فنڈلے امریکی سیاسی حلقے میں ایک معروف نام ہے ۔فنڈلے امریکی سیاست کا رازدا ن رہاہے۔اس نے بہت قریب سے امریکہ کے ذریعے موجودہ عالمی نظام پر یہودی تسلط کا مطالعہ کیا ہے ۔ کتاب شائع توضرور ہوئی لیکن بہت کم لوگوں تک پہنچ سکی ۔

خفیہ یہودی تنظیموں نے راتوں رات اسے بازار سے غائب کردیا ۔ شاید ہی کسی قابل ذکر لائبریری میں اس کا نسخہ موجود ہو۔گو کہ اس کتاب میں صرف امریکہ میں یہودی لابی کی سرگرمیوں کا تذکرہ ہے البتہ یورپ کے دوسرے ممالک میں یہودی سرگرمیوں کا اندازہ بھی اس کتاب کی روشنی میں کسی قدر لگایا جاسکتاہے ۔ صہیونیت کی سرگرمیوں پر (اُردو تو کیا)انگریزی زبان میں بھی بہت زیادہ نہیں لکھا گیا ہے ۔بات یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ کہ جو شخص بھی بیباکی کا مظاہرہ کرتاہے ،یہودیوں کی خفیہ تنظیمیں اُسے بڑی خاموشی اور حکمت کے ساتھ راستے سے ہٹا دیتی ہیں ‘‘۔

نوٹ:-مضمون میں مذکوراشیاء میں سے اب کافی ساری چیزیں جیسے ٹوتھ پیسٹ ،صابن ،شیمپووغیرہ انہی رجسٹرڈ ناموں کے ساتھ اربین گلف اوربھارت میں بھی بنتی ہیں۔یہاں (عرب میں تو سوال ہی نہیں)یقین ہے اُن چیزوں میں حدث کی ملاوٹ نہیں ہوتی ہوگی تاہم احتیاط لازمی ہے ۔

……ختم شد………

رابطہ :-پوسٹ باکس نمبر :691،جی پی او سرینگر - 190001، کشمیر؛   موبائل نمبر:-  9419475995

No comments:

Post a Comment