Search This Blog

Sunday 7 October 2012

TEREY ZAMEER PE JAB TAK NA HO NUZULE KITAB

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول ِ کتاب


غارِ حرا میں برپا ہونے والے اُس منظر کا تقریباًہر ایک اسلامی   مورخ نے ذکر کیا ہے کہ جب جبریل ؑ خدا کی طرف سے اُس معتبر اور عظیم الشان خدائی کتاب یعنی قران مجید کی پہلی آ یات کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں حاضر ہوئے ۔ یہ کسی عام کتاب کے نہیں بلکہ کتاب اللہ کے الفاظ تھے کہ جن کے سنتے ہی حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنا خوف طاری ہوگیا کہ اُنہیں  اپنی جانِ مبارک کا خطرہ لا حق ہونے لگا۔ پھر رفتہ رفتہ پورے 23  برس بذریعہ جبریل ؑ قرآن ِ مجید کی آیات نازل ہوتی رہیں۔ اسلا می تاریخ کی جب ورق گردانی کی جاتی ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے ساتھ ساتھ د نیا کی بہت ساری شخصیتوں کی زندگیوں کو ایک نیا رُخ دینے میں قرآنِ مجید نے ــ چراغ راہ کا کام دیا ۔متا خرین میںقرآ ن کریم کی خو شہ چین ایسی ہی ایک عالی مرتبت شخصیت مرحوم علامہ اقبال ؒ کی تھی کہ جن زندگی پر قرآن ِمجید کا اتنا گہرااثر تھا کہ مرحوم جب بھی قرآن کی تلاوت کرتے تو اُن کی ا ٓنکھوں سے بے شمار آنسو نکل پڑتے ،یہاں تک کہ کئی دفعہ اُن کے آنسووئں سے قرآنِ مجیدکے ا وارق اتنے تر ہو جاتے کہ اُن کا خادم علی بخشؔ پھر قرآن کو دھوپ میں سوکھنے کے لئے رکھتا تھا ۔ کچھ ایسی ہی حالت ہو جاتی ہے جب اس خو ش نصیب انسان کی جو قرآن کی گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے اور اُس کی آ یا ت ومعانی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے    ؎
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کُشا ہے نہ رازی ؔ نہ صاحبِ کشَاف
قرآن کے ایک ایک لفظ میں بنی نوع انسان کیلئے ہدایت پوشیدہ ہے جو کہ اس کتاب کی عظمت کا عمدہ ثبوت ہے اور جب بھی کوئی اِن الفاط کی گہرائیوں میں جانے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کا سامنا ایک ایسی حقیقت سے ہو جاتا ہے جو دنیا کے محدود دائرے میں ر ہ کراُس پر منکشف نہیں ہو سکتی ۔ اُسے اپنے وجود کے ساتھ ساتھ زماں و مکاں کی خبر ملتی ہے ، وہ دنیا کے اس محدود دائرے سے بالا تر ہو کر اُس حقیقت سے آشنا ہو جاتا ہے جو اُس کے لئے اپنے رَب تک پہنچنے کا زریعہ بنتی ہے اور پھر اُس کی نظر میں اِس فانی دنیا کی کوئی وقعت نہیں رہتی کیونکہ     ؎
زماں وہم مکانش اعتباری است
زمیں و آسمانش اعتباری است 
اقبال کہ زندگی پر قرآن کا کتناگہرا اثر تھا یہ اُن کی شاعری سے خوب واضح ہو جاتا ہے اور اُن کے پورے کلام میں قرآن کا رنگ  و آہنگ نمایا ںطور پایا جاتا ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ ملتِ اسلامیہ کو اِس عظیم کتاب کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے مگر افسوس اور واویلا کہ مسلمانوں نے اِس عظیم اور معتبر کتاب کو پس پشت ڈال کر اپنے اوپر زوال مسلط کر دیا ہے جب کہ یہ کتاب مسلمانوں  کے ہاں ایک ایسا سرمایا تھا جس سے رہنمائی حاصل کر کے وہ پوری دنیا کو فتح کر سکتے تھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ جس کتاب اللہ تعالیٰ نے ’’مضبوط رسی ‘‘ قرار دیا تھا اس کو ہم جیسے بے عمل مسلما نو ں نے اس کو چھوڑا اور پھر وقت کے طوفان نے نہ جانے ہمیں کہاں اور کس عالم میں پہنچا دیا کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ اپنے اسلاف کی دی ہوئی قربانیاں اور ان کی راہ ِ ہدایت میں فدا کا ریا ں تک بھول گئے جو کہ ہماری بربادی اور زوال کی بنیادی وجہ ہے۔ آج مسلمانوں میں نہ وہ جذ بہ ٔ عمل وعشق موجود ہے ، نہ قرآن کی عظمت کا وہ یقین جو اِن کی کامیابی کی ضمانت تھا ۔ قرآن کو صرف رسو م و رواج تک محدود رکھا گیا ۔ اِس کی حقیقت سے مسلمان کوسوں دور ہیں اور پوری کائنات کے ساتھ ساتھ زمین و آسمان بھی مسلمانوں کی اِس خستہ حال کو دیکھ کر نوحہ خواں ہیں   ؎
زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے
غضب ہے سطرِ قرآن کو چلیپا کر دیا تو نے 
ارمغانِ حجاز کی ابتدا میں’’ــــــــــ ــ ابلیس کی مجلس شویٰ ــ ـــــــــــــــــــــ ــ ‘‘کے عنوان سے اقبالؒ کی ایک مشہور و معروف نظم ہے جس میں ابلیسؔ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر ایک جگہ کہتا ہے   ع
جانتا  ہوں میں یہ امت حاملِ قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دین یہ بہت ہی بلیغ شعر ہے جس میں علامہ مرحومؒ نے عصر حاضر کے مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت کی صحیح عکاسی کی ہے۔آج جس مسلمان کو دیکھو اُس پر دنیا پرستی کا جنون سوار ہے ،وہ دنیا کے عیش وآرام پر فریفتہ ہے ۔ قرآنی تعلیمات سے کنارا کشی اختیار کر کے ہر ایک’ـ’ ـــــــــــشتر بے مہارــ‘‘ کی طرح اپنی دنیا میں مست و مگن ہے ۔اسی بر ی حا لت کو دیکھ کر غیروں اور دین بیزار طا قتوں کو یہ حو صلہ ملا ہے کہ وہ اسلام کی بنیا دیں ڈھا کر کبھی گندے نا ول لکھیں اور کبھی دل اورجان کو مردہ بنا نے والی بے حیا فلمیں بنا کر مسلما نو ں کو قرآ ن سے بیگا نگی کا مذاق اڑائیں۔ مسلمان جتنا قرآن ِ مجید سے کنارہ کشی اختیار کر یں گے، اُن پر اتنا اضطراب ، بے قراری ، بے چینی اور خوف طاری ہوگااوراسی منا سبت سے مسلما نوں کے شعائر کی توہین ہو رہی ہے۔ کاش ہم اسلام کے پیغام اور مشن کو سمجھ پاتے ، کاش ہم قرآ ن کے کلام سے مستفید ہونے کی کوشش کرتے ۔ قرآنِ مجیدکے تئیں جو عقیدت اور محبت مو منو ں میں ہو تی تھی کاش ہم بھی اُس کا دل وجو ن سے قائل ہو کراس پر عامل ہوجاتے اور جب تک مسلمانوں میں یہ انقلاب رونما نہ ہو تب تک ہمیںدنیا وی مشکلا ت اور تباہیو ں وبر با دیوں کی چکی ّ میں پستے رہنا ہے ۔ اب تو اقبالؒ کے بقول ایک ہی راستہ ہے    ؎ 
خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
نہیں ممکن امیری جز فقیری مانگ
………
رابطہ:-سیر جاگیر سوپور ( کشمیر)
موبائل نمبر:-9858464730 

No comments:

Post a Comment