Search This Blog

Sunday 7 October 2012

Zikr Allah najaz ka rasta

ذکرِاللہ نجا ت کا سفینہ
ایمان کاگہنہ عملِ صالحہ کا قرینہ

اسلام میں ذکرِ اللہ کر نے ، اللہ کی نعمتوں کا شکر کرنے، اس کی نا زل کردہ آ زما ئشوں پر صبر کر نے کو عبادت کا ہم معنیٰ قرار دیا گیا ہے ۔ اللہ کا فرما ن ہیـ: تم مجھ کو یاد کیا کرو میں تم کو یاد رکھوںگااور میری شکرگزاری کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔(سورہ بقرہ آیت نمبر۱۵۲)قرآن وحدیث میں اللہ کویاد کرنے یا ذکراللہ کی بہت تاکید آئی ہے۔ اس کی بہت زیادہ فضیلت اور ثواب ہے لہٰذا جس قدر ہو سکے اللہ کا ذکر کرنا چاہے۔ جب اللہ کا ذکر کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے تو ایسے آسان اور سہل کام میں سستی اور لاپرواہی کر کے حکم کی خلا ف ورزی کرنا اور اتنا بڑا ثواب کھو کر اپنا نقصان کرنا کیسی بے جا اور برُی بات ہے۔ ربِ کائنات خالق رب السموٰت والارض کا نام لینے میں نہ کسی کے لئے ایمان اور ادب کے بغیرکسی طرح کی کوئی پابندی ہے اور نہ بے جا بند شیںبلکہ ذاکر با للہ کے واسطے شرعی حدود میں ہر طرح کی آزادی اور اختیار ہے۔ تسبیح رکھنے سے ذکراللہ میں مدد ملتی ہے لیکن تسبیح ہاتھ میں رکھنا کوئی دکھلاوا بھی نہیں ہو نا چا ہیے۔ اگر دل میں دکھاوے کی ادنیٰ نیت بھی نہیں تو تسبیح رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، البتہ اس گمان سے کہ تسبیح رکھنے سے ریا کا شائبہ پیداہو رہا ہے تسبیح چھوڑنی چاہے کیونکہ اصل مطلوب اللہ کا ذکر اور دعا و مناجا ت ہے ۔ اس میںاگر شیطان دخل اندازی کر کے کو ئی چال چلے یا دھوکہ دے کہ اس طرح سے ذاکر کوبہکا کر ثواب سے محروم رکھنا چاہے تو اس کا تو ڑ کر نا لازمی ہے۔ ویسے شیطان کبھی انسان کوکبھی دھوکہ دیتا ہے کہ جب دل دنیا کے کاموں میں مشغول ہے تو پھر ذکر کرنے کا کیا فائدہ ؟ یہ بھی غلط انداز فکر ہے ۔ دل سے نیت کر لی تو ذکر کرنے کی، ممکنہ طور اب اگر دل ادھر ادھر بھٹکنے بھی لگے تو ذکر کرنا تب بھی نہیں چھوڑنا چاہے۔ اللہ کا نام لینے پر برابر ثواب ملتا رہے گا ۔ ہا ں پوری کوشش یہ ہو نی چاہے کہ جب ذکر کریں تو دل بھی حاضر وموجودہو اور خشوع وخضو بھی قائم رہے ۔ہم یا درکھیں کہ خالی تسبیح کے دانے ہی نہیں پھیرتے رہنا چاہے کہ نہ دل حاضر ہے اور نہ زبان سے اللہ اللہ کہا جا رہا ہے تو یہ غلط ہے۔ چلتے پھرتے استغفار درود شریف کو کثرت کے ساتھ پڑھتے رہنا چاہے ۔جب گناہ پر ایک مو من کا دل ندامت اور عجز وانکساری کی وجہ سے مغموم اور پریشاںہو تو اسے چا ہیے کہ استغفار کرے اور دل میں بے صبری اور بے قراری سی ہو تو بے شمار درود شریف پڑھنا چاہے ۔ کو شش یہ ہو نی چا ہیے کہ جہاں پر ذکر اللہ کے حلقے ہوں ان سے اپنے کو آ پ کو جڑ نا چاہیے ۔اپنا کوئی رہنمائے تزکیۂ نفس بنا کر شرعی پا بندیو ں کے اندر ذکر بالجہر کی اجازت لے کر یہ کیا جا نا چاہے۔ اس سے دل پر جلدی اثر پڑتا ہے ۔
ذکرکے متعلق اللہ اور اللہ کے رسول صلعم کا ارشاد متعدد جگہ پر آیا ہے۔ سورہ اعراف میں ارشاد ربانی ہے کہ’’اپنے رب کی یاد کیا کر، خواہ اپنے دل میں یعنی آہستہ آواز سے عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ ‘‘ سورہ رعد میں ہے کہ ’’جن لوگوں کو اللہ تعالی اپنی طرف رسائی دیتا ہے، وہ لوگ ہیں جو ایمان لانے اور اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے ۔خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر میں ایسی ہی خاصیت ہے کہ اس سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے‘‘۔ اس طرح سے کہ اس سے حق تعالیٰ میں اور بندہ میں تعلق بڑھ جاتا ہے اور اطمینان کے لئے بنیاد تعلق با للہ پر ہے…’’مسجدوں میں ایسے لوگ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں کہ ان کو نہ کسی چیز کا خریدناغفلت میں ڈالتا ہے اور نہ کسی چیز کا بیچنا اللہ تعالی کی یاد سے اور نمازپڑھنے اور زکوٰۃ دینے سے‘‘ (سورہ نور)اور اللہ تعالیٰ کی یاد بہت بڑی چیز ہے یعنی اس میں بہت بڑی فضیلت ہے (سورہ عنکبوت۔اے ایمان والو! تم اللہ کو بہت کثرت سے یاد کرو(سورہ احزاب)۔اے ایمان والو !تم کو تمہارے مال اور اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دے (سورہ منافقون)۔اور اپنے رب کا نام لیتے رہواور سب سے الگ ہو کر اسی کے ہوجاؤ الگ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی ٰ کا تعلق دوسرے سارے تعلقات پر غالب آجائے (سورہ مزمل)مرادکو پہنچا جو شخص بُرے عقیدوں اور بُرے اخلاق سے پاک ہو گیا اور اپنے رب کانام لیتا رہا اور نماز پڑھتا رہا۔ (سورہ اعلیٰ)
حضرت ابوہریرہؓ اور ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالی کا ذکر کرنے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور ان پر خدا کی رحمت چھا جاتی ہے اور ان پر چین وسکون کی کیفیت اُترتی ہے(مسلم شریف)۔حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایاکہ جو شخص اپنے پروردگار کا ذکر کرتا ہے اور جو شخص ذکر نہ کرتا ہو ان کی حالت مردہ اور زندہ کی سی ہے یعنی پہلا شخص مثل زندہ کے ہے اور دوسرا مثل مردہ کے ،کیونکہ روح کی زندگی بھی اللہ کی یاد ہے ،یہ نہ ہو تو روح مردہ ہے (بخاری ومسلم)۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایاکہ اللہ تعالی فرماتاہے کہ میں اپنے بندہ کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو پھر اگر وہ میرا ذکر اپنے جی میں کرتا ہے تو میں اپنے جی میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور اگر وہ مجمع میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کا ذکر ایسے مجمع میں کرتا ہوں جو اس مجمع سے بہتر ہے یعنی فرشتوں اور پیغمبروںؑ کے مجمع میں ۔(بخاری ومسلم)حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایاکہ جب تم جنت کے باغوں میں گزرا کرو تواس کے میوے منہ چھٹ کھایا کرو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ جنت کے باغ کیا ہیں؟ آپ صلعم نے فرمایا کہ ذکر کے حلقے اور مجمعے(ترمذی)۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایاکہ جو شخص کسی جگہ بیٹھے جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کرے تو اللہ تعالی کی طرف سے اس پر گھاٹا ہو گا اور جو شخص کسی جگہ لیٹے جس میں اللہ کا ذکر نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر گھاٹا ہو گا (ابوداود )۔ عبداللہ بن بسرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایاکہ کہ ایک شخص نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ صلعم اسلام کے شرعی اعمال مجھ پر بہت ہو گئے، مراد یہ کہ نفلی اعمال ہیں کیونکہ تاکیدی اعمال بہت نہیں ہیں مطلب یہ کہ ثواب کے کام اتنے ہیں کہ سب کا یاد رکھنا اور عمل کرنا بہت مشکل ہے ،اس لئے آپ ؐمجھ کو کوئی ایسی چیز بتا دیجئے کہ اس کا پابند ہو جا ؤں اور وہ سب کے بدلے میں کافی ہو جائے ۔آپ صلعم نے فرمایا کہ اس کی پابندی کروکہ تمہاری زبان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں رہے (ترمذی ابن ماجہ )۔حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا سے سوال کیا گیا کہ بندوں میں سب سے افضل اور قیامت کے دن اللہ کے نزدیک اور سب سے برتر کون ہو گا؟آپ صلعم نے فرمایا کہ جو مرد کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے ہیں اور جو عورتیں اسی طرح کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والی ہیں۔ (ترمذی)حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایاکہ ہر شیٔ کی ایک قلعی ہے اور دلوں کی قلعی اللہ کا ذکر ہے۔(بیہقی)حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایاکہ شیطان آدمی کے قلب پر چمٹا رہتا ہے جب وہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ ہٹ جاتا ہے اور جب یاد سے غافل ہو جاتا ہے تو وسوسہ ڈالنے لگتا ہے۔ (بخاری)حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایاکہ اللہ کے سوا بہت کلام مت کیا کرو کیونکہ ذکراللہ کے سوا بہت کلام کرنا قلب میں سختی پیدا کرتا ہے اور سب سے زیادہ اللہ سے دور وہ قلب ہے جس میں سختی ہو۔ (ترمذی)ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اصل صفائی اچھے عملوں سے ہوتی ہے اور اصل سختی برے عملوں سے اور دونوں عملوں کی جڑ قلب کا ارادہ ہے اور ارادہ کی جڑ خیال ،پس جب ذکر میں کمی ہوتی ہے تو شیطان برے برے خیال دل میں پیدا کرتا ہے جس سے بُرے بُرے ارادوں کی نوبت آجاتی ہے اور نیک ارادوں کی ہمت نہیں رہتی ،نیک کام نہیں ہوتے اور برے کام ہونے لگتے ہیں اور جب ذکر کی کثرت ہوتی ہے تو بُرے خیال قلب میں پیدا نہیں ہوتے پس بُرا ارادہ بھی نہیں ہوتا اور گناہ بھی نہیں ہوتے اور نیک کاموں کا ارادہ اور نیک کام ہوتے ہیں ۔اس طرح صفائی اور روشنی قلب میں پیدا ہوتی ہے مگر یہ باتیں خود بخود نہیں ہوتی ہیں۔ اگر کوئی خالی ذکر کرے اور نیک کاموں کے کرنے کا ارادہ اور برے کاموں سے بچنے کا ارادہ اور ہمت نہ کرے تو وہ دھوکہ میں ہے ۔ابوسعیدؓ خدری سے روایت ہے کہ کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایاکہ بہت لوگ دنیا میں نرم نرم بستروں پر اللہ کا ذکر کرتے ہوں گے ،اللہ تعالی ان کو اونچے اونچے درجوں میں داخل کر دے گا ۔انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا اس کثرت سے اللہ کا ذکر کرو کہ لوگ مجنون کہنے لگیں ۔طبرانی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایاکہ اتنا اللہ کا ذکر کرو کہ منافق یعنی بددین لوگ تمہیں ریا کار کہنے لگیں ۔یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ذکر کامطلب صرف اللہ اللہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ قرآن کی تلاوت کرنا یہ بھی ذکر ہے، دینی کتب کا ہدایت طلبی پڑھنا یہ بھی ذکر اللہ ہے ،کسی کو دین کی بات سنانا یا کسی جگہ پر بیٹھ کر دین کی بات سننا یہ بھی ذکر حق ہے ۔اللہ کرے کہ ہم اس کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنے والے بن جائیں کہ مرتے مرتے زبان خود بول پڑے اللہ اللہ۔ یہی ہماری کا میا بی اور سرخروئی کا نسخہ ہے۔
muftia786@gmail.com

No comments:

Post a Comment