Search This Blog

Sunday 7 October 2012

WAHEDATE INSANI KE SCIENCI SHAWAHED

وحدت انسانی کے سائنسی شواہد
یہ دوئی کیوں من وتُو کی ؟

محض صورتیں‘ سیرتیں اورآوازیںہی مختلف ہیں لیکن انسانوں کے مابین قدرمشترک وہی ہے جس کا ذکر یوں فرمایاگیا ہے کہ ’اے لوگو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں نفس ِواحدہ یاایک ہی جان سے پیدا کیاہے تاہم وحدت انسانی کے سلسلہ میں ایک اہم اورنئی تحقیق نے انسانی عقلوں کو ششدر کردیا ہے جس کے تحت پتہ چلا ہے کہ انسانی دماغ حیرت انگیز طور پرنہ صرف یکساں ہوتے ہیں بلکہ ان کا بنیادی سالمیاتی یا مالیکیولرmolecular نقشہ بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ہفتہ 22 ستمبر 2012کو موصولہ رپورٹ میںیہ نقشہ 3 دماغوں کے 9سو حصوں کے جینیاتی تجزیے سے بنایا گیا ہے اور اس میں جینز کے اظہار کی10کروڑ پیمائشیں شامل ہیں۔امریکہ کی سیئیٹل یونیورسٹی American Sentinel Universityکے ایلن انسٹی ٹیوٹ فار برین سائنسزAllen Institute for Brain Science اور اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرا یونیورسٹی Edinburgh Universityکی مشترکہ ٹیم کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ جینیاتی خرابی سے دماغی امراض کیسے پیدا ہوتے ہیں۔یہ تحقیق سائنسی رسالے نیچر میں شائع ہو رہی ہے۔انسانی دماغ دنیا کی پیچیدہ ترین چیز ہے۔ یہ10 کھرب خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسے ابھی تک مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکا۔تحقیق کے مصنفین میں سے ایک محقق ایلن انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ایڈ لین Prof Ed Leinکہتے ہیں کہ اس نقشے سے ’دماغ کی کارکردگی، نشوونما، ارتقاء اور بیماری کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوں گی۔‘تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ ایک انسان کے دماغ کے جین دوسرے انسان کے دماغ کے جینز سے بہت زیادہ ملتے جلتے طریقے سے ظاہر ہوتے ہیں‘ جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کی شخصیات میں فرق کے باوجود دماغوں کی ساخت حیرت انگیز طور پر یکساں ہے۔ایڈنبرا یونیورسٹی کے نیوروسائنس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر سیٹھ گرانٹProf Seth Grantکے مطابق اگرچہ انسانی جینوم کی نقشہ بندی یاسیکونسنگ خاصہ عرصہ پہلے کی جا چکی ہے، ’اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس سے جین کس طرح تشکیل پاتے ہیں اور یہ جین انسانی دماغ میں کس طرح ظاہر ہوتے ہیں۔‘انسانی ذہن پر تحقیق سے قبل سائنس دان چوہے کے دماغ پر کئی برس سے اسی قسم کی تحقیقات کرتے رہے ہیںلیکن چونکہ انسانی دماغ کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے، اس لئے انہیں بہترین نتائج حاصل کرنے کیلئے اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لانا پڑی۔ہر دماغ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹنے کے بعد سائنس دانوں نے ایک کمپیوٹر سافٹ ویئر کی مدد سے ہر ٹکڑے کا مشاہدہ کیا تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ جینز کا دماغ میں اظہار کس طرح ہوتا ہے۔پروفیسر گرانٹ کہتے ہیں ’اس سے پہلے والی تحقیقات میں چوہے کے دماغوں میں انفرادی جینز کا مطالعہ کیا گیا تھا اور ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک کر کے جانچا کیا کہ وہ دماغ میں کہاں ظاہر ہوتے ہیں’لیکن اب ہم نے دماغ کے ٹشو کا ہر چھوٹا ٹکڑا لیا اور تمام جینز کو ایرے ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ساتھ جانچ لیا۔‘پروفیسر گرانٹ نے مزید کہا کہ اس سالمیاتی نقشے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اس کو ایک ایسے فارمیٹ میں تیار کیا جائے جسے وہ سائنس دان بھی استعمال کر سکیں جو بالکل مختلف دماغی معاملات پر کام کر رہے ہیں۔
پوری انسانیت ایک ماں باپ کی اولاد:
واشنگٹن پوسٹ اور لاس اینجلیزٹائم کے حوالے سے سڈنی مارننگ ہیرلڈکے مطابق سائنس دانوں نے 1987میں ایک تحقیق شائع کی تھی جس سے ثابت ہوا تھا کہ دنیا بھر میں جو مختلف رنگ و نسل کے لوگ پھیلے ہوئے ہیں ان میں ایک ایسا جین Gene مشترک ہے جو صرف ماں ہی بچے کو منتقل کر سکتی ہے۔ یعنی Mitochondriaگویا تحقیق سے یہ تصور درست معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسان ایک ہی ماں کی اولاد ہیں۔ سائنس دانوں نے بھی اس ماں کا نام Eve یعنی حوا رکھا ہے۔ اس تحقیق کے8 سال بعد1995میں دنیا کی تین معروف یونیورسٹیوںشکاگو Chicago‘ہاردورڈ Harward اور ییل Yal نے Y-Chromosomeوائی کروموسوم کا تجزیہ کیا جو ان 38 مردوں سے لئے گئے تھے جن کا تعلق مختلف قوموں اور نسلوں سے تھا۔ وائی کروموسوم وہ ہوتے ہیں جو جنینEmbryoکو لڑکا بناتے ہیں۔ تینوں یونیورسٹیوں کی تحقیق نے ثابت کیا کہ اپنی ولدیت میں بھی سب انسان مشترک ہیںلیکن اس بار اس جد امجد کانام انہوں نے آدم نہیں رکھا بلکہ یہ خیال ظاہرکیا کہ دنیا کے سب انسان شاید چند ہزار پر مشتمل ایک گروپ کی شاخیں در شاخیں ہیں جن میں باپ کی طرف سے ایک قدرمشترک تھی۔ پچھلی تحقیق کو موجودہ سے ملا کر اگر دیکھا جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے انسان خواہ وہ کسی ذات پات یاملک وقوم کے ہوں ان میں ماں باپ دونوں کی طرف سے ایک قدر مشترک ضرور موجود ہے۔ چنانچہ اخبار نے اس رپورٹ پر جو عنوان قائم کی وہWe are all related تھا یعنی ہم سب انسان باہم رشتہ دار ہیں جب کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کسی دو انسانوں میں خون کی رشتہ داریاں کتنی قریبی یا کتنی پرانی ہے۔ ایسے بہت سے مطالعوںکے بعد سائنسدانوں نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آج کی دنیا کے گوشہ گوشہ میں آباد تمام انسان کالے، گورے، پیلے یا سانولے، سب کے سب ایک ہی جوڑے کی اولاد ہیں۔ شہر در شہر، گاؤں در گاؤں جاکر اور خون کے نمونے اٹھا کر ڈی این اے ٹیسٹ کئے گئے ہیں۔ ابھی تک ایک بھی شخص ایسانہیں ملا جو دیگرتمام انسانوں کا رشتہ دار نہ ہو، بھلے ہی یہ رشتہ داریاں 5پشت پرانی ہو یاپانچ ہزاربرس۔ سائنسدانوں نے ایک خاتون کا اتہ پتہ بھی ڈھونڈ نکالا ہے جو ہم سب انسانوں کی پڑ پڑ  نانی تھی اور جن کا خون تمام انسانوں کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ آج سے 2 لاکھ سال قبل وہ خاتون مشرقی افریقہ میں رہتی تھیں۔
ڈی این اے ٹیسٹ نے کئے متعدد انکشافات:
کل تک نسل انسانی کی تاریخ کی تفتیش قدیم دستاویزات، عمارتوں، فنی شہ پاروں، اوزاروں، قبروں، ہڈیوں، بولیوں وغیرہ کی مدد سے ہوا کرتی تھی۔ آج ہمیں ایک اور آلہ مل گیا ہے۔ انسان شریانوں میں پائے جانے والے ڈی این اے ٹیسٹ سے نسل انسانی کے ہزاروں لاکھوں سال پرانی تاریخ میں جھانکنا ممکن ہوگیا ہے۔بنی انسان کے جدامجد کہاں رہتے تھے؟ کب اورکیسے وہ وہاں سے نکل کر باقی دنیا میں پھیلے اور بسے ؟یہ دلچسپ کہانی اب تصور کا موضوع نہیں رہی۔ آج سے 160 ہزار سال پہلے انسانی ذات کے ادم آبائو اجداد مشرقی افریقہ میں رہتے تھے۔ وہ دریاؤں اور جھیلوں کے کنارے، جھاڑی دار جنگلوں میں آباد ہوئے تھے۔ سردی، گرمی، بارش، آندھی اور طوفانوں کو وہ  اپنی جانوں پر برداشت کرتے تھے۔ پھل ، چھوٹے موٹے جانوروں اور مچھلیوں کا شکار کر کے پیٹ بھرتے تھے۔ لاٹھی ڈنڈے اور تیز دھار والے نوکیلے پتھر ان کے اوزار تھے۔پرتشدد جانوروںکے سبب زندگی غیر محفوظ تھی۔ خصوصا ننھے بچوں کو بچانا بڑے خطرے کا کام تھا لیکن ان کی معاشرت نے انہیں بہت مجبورکر دیا۔ اندازہ ہے کہ انسانوں کے اولین قافلے کی کل آبادی اس وقت تقریبا ایک لاکھ تھی۔ پھر آبادی میں اضافہ ہوا تو وہ نئی نئی ریاستوں کو تلاش کر کے وہاں بستیاں بسانے لگے۔ باقی ماندہ افراد افریقہ، ایشیا، آسٹریلیا، یوروپ، اور دو امریکی براعظموں کی سرزمین پر بسنے لگے۔ ان کے پھیلاؤ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 160 سے 135 ہزار سال پہلے نسل انسانی میں سے تین اہم شاخیں افریقہ کے جنوب اور مغرب میں پھیل کر بس گئیں۔ ایک کیپ آف گڈ ہوپ تک پہنچ گئی، دوسری جنوبی کانگو تک اور تیسری گھانا اور اور کوسٹ تک۔ 135 سے 115 ہزار سال قبل ان جرأت مندوں کی ایک شاخ دریائے نیل کی چڑھائی چڑھتے ہوئے مصر پہنچ گئی اور وہاں سے بحر احمر کو عبور کرکے ترکی تک جا بسی۔ 115000 سے 90000 سال پہلے گرم ہوائیں چلیں۔ سہارا ریگستان بن گیا اور رہنے بسنے کے قابل نہیں رہا۔ نسل انسانی کی جو شاخ مصر اور ترکی تک بسی تھی، وہ ختم ہو گئی۔ آج اس کا کوئی نام لیوا تک نہیں بچا ہے۔ 90000 سے 85000 سال پہلے کے وقفے میں ایک گروپ نسل انسانی کے بنیادی رہائش گاہ سے شمال کی طرف جاکر ایتھوپیا کو آباد کرتا ہوا یمن تک پہنچ گیا اور وہاں سے سمندر کے کنارے کیساتھ ساتھ جنوبی ایران تک پھیل گیا۔ یہ لوگ گوشت خور تھے جن کی خوراک کا ایک اہم حصہ مچھلی تھی۔ جنوبی ایران سے چل کر وہ صرف دس ہزار سال میں جنوبی سندھ، ممبئی، گوا، کوچین، لنکا، چنئی، کولکتہ، سماترا، جاوا میں بستے بساتے بورنیو تک پھیل گئے۔ یمن سے لے کر شنگھائی تک کئی ہزار میل طویل ساحل سمندر پر جہاں کہیں سندھ کے ڈیلٹا تھے، وہاں نسل انسانی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔
تہذیبوں کے بننے بگڑنے کا عمل:
آج سے 74000 سال پہلے سماترا کے توبا پہاڑ میں ایک شدید دھماکہ ہوا جس سے زمین آسمان میں کھلبلی مچ گئی۔ برصغیر ہند-پاک پر چھ سال تک سورج دکھائی نہیں دیا۔ ایک ہزار سال کڑاکے کی سردی پڑی اور 5 میٹر موٹی راکھ کی تہہ زمین پر بچھ گئی۔ زندگی تباہ ہو گئی۔ تہذیب دو ٹکڑوں میں بٹ کر رہ گئی۔ 75000 سے 65000 سال پہلے کے دور میں ہندوستان کی ساحلی ریاست بتدریج پھر سے آباد ہونے لگی۔ لوگوں کا پہلے کی طرح آنا جانا اور بسنا پھر شروع ہو گیا۔ بورنیو گروپ کی ایک شاخ ملیشیا سے ہوتی ہوئی ہندوستان کے اطراف و جوانب میں بس گئی جبکہ اسی کی دوسری شاخ نے آسٹریلیا کے مشرقی مغربی ساحلوں کو آباد کر دیا۔ 65000 سے 52000 سال پہلے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی آئی۔ گرمی میں اضافہ ہوا۔ برف پگھلی۔ ندیوں اور سمندروں میں طغیانی آئی۔ کئی جزیرے ڈوب گئے۔ آبادی شمال کی طرف سرکنے لگی۔ جنوبی ایران میں آباد لوگوں میں سے کچھ ترکی پہنچے اور وہاں سے انہوں نے یوروپ میں داخلہ حاصل کیا جب کہ اگلے سات ہزار سال میں تقریبا پورے یوروپ میں پھیل گئے۔ادھر یوروپ آباد ہو رہا تھا، ادھر وسطی ایشیا میں انسانی ذات کی تین چار قسموں کا وسیع امتزاج قائم ہورہا تھا۔ ایک شاخ جنوبی ایران سے آ کر یہاں آبادہوئی اور دوسری سندھ دریا کے کنارے کنارے، پنجاب ہوتے ہوئے اور ہمالیہ کوعبورکرکے یہاں آبادہوئی۔ تیسری ویت نام سے چل کر اور تبت ہوتے ہوئے یہاں پہنچی۔ تہذیبوں کے اس استحکام میں انسانوں نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا - ہنر، مہارت، فنون اور زبانیں۔ 40000 سے 25000 سال قبل اس مجمع سے کئی شاخیں نکلیں، جن میں تین اہم رہیں۔ ایک نے شمالی یوروپ کا رخ کیا، دوسری نے اسکیڈی نیویائی ممالک کا۔ تیسری سائبیریا اور الاسکا ہوتے ہوئے شمالی امریکہ براعظم میں داخل ہوکر جنوبی امریکہ میں داخل ہوئی۔ اگلے دس ہزار سال میں اس نے جنوبی امریکہ براعظم کو بھی آباد کر دیا۔ ان لوگوں کو تاریخ دانوں نے غلطی سے انڈین نام دے دیا ہے لیکن یہ ایک وجہ سے صحیح بھی ہے کیونکہ ان کے آباء و اجداد کبھی انڈیا میں بھی ہوا کرتے تھے۔آج سے 10000 سال پہلے پوری دنیا نسل انسانی کے قدموں کے نیچے تھی، لیکن ان کے اوزار بھی نوکیلے پتھر ہی تھے۔ ان کا خوراک اب بھی شکار کے علاوہ  پھلوں تک ہی محدود تھا۔ پہیہ اورتیر کمان کی ایجاد ہونی باقی تھا۔ تانبے، لوہے وغیرہ کی دریافت ابھی نہیں ہوئی تھی۔ غلہ بانی اور زراعتی سائنس تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ گھوڑے کی سواری تک رسائی نہیں ہوئی تھی۔ نسل انسانی ایک انقلابی تہذیب کے دروازے پر کھڑی تھی لیکن اس تہذیب کی ترقی کی کہانی تاریخ کہلاتی ہے۔
جِین کی مدد سے انسانی شکل کا اندازہ:
ایک سائنسی تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے ایسے پانچ جین دریافت کئے ہیں جو عنقریب صرف ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے انسانی چہرے کی پہچان کروانے میں مددگار ثابت ہو سکیں گے۔پیر 17 ستمبر 2012کو شائع تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ یہ جین انسانی چہرے کی بناوٹ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس کی دریافت سے جرائم کا سراغ لگانے والے فورنزک ٹیسٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے میں اہم پیش رفت ہو گی ۔ اس دریافت سے قبل انسانی چہرے کی بناوٹ کے ذمہ دار جین کے بارے میں کوئی معلو مات نہیں تھیں۔جینیاتی مطالعے سے قبل ایم آر آئی تصاویر کی مدد سے لوگوں کے چہروں کے خدوخال کا اندازہ لگایا گیا۔ تقریباً 10ہزار افراد کے نمونوں پر مشتمل یہ تحقیق پلوس جنیٹکس نامی رسالے میں شائع ہوئی ہے۔نیدرلینڈ کیارازمس یونیورسٹی میڈیکل سنٹر سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے سربراہ مینفرڈ کیسر کا کہنا ہے کہ ’یہ دلچسپ قسم کے ابتدائی نتائج ہیں جن سے انسانی چہرے کے بننے کے عمل اور بناوٹ سمجھنے آغاز ہو ا ہے۔‘ان کا مزید کہنا ہے کہ ’شاید کسی وقت یہ ممکن ہو جائے گا کہ اگر کسی انسان کا صرف ڈی این اے مل جائے تو اس سے اس کے چہرے کا خاکہ بنایا جا سکے گا جس کے کئی فوائد ہوں گے مثلاً یہ جرائم کا سراغ لگانے میں بہت کارآمد ثابت ہوگا۔‘محققین نے تمام جینوم کا تفصیلی جائزہ لے کر چھوٹے چھوٹے تغیرات کا مشاہدہ کیا جو ان لوگوں میں زیادہ عام ہوتے ہیں جن کے مخصوص قسم کے خدوخال ہوتے ہیں۔اس کے بعد انھوں نے لوگوں کے سروں کی ایم آر آئی تصویرں، چہروں کی تصویروں اور جین کا مطالعہ کر کے 5 جین دریافت کئے۔اس دریافت کا مطلب ہے کہ ان جین کی مدد سے انسانی شباہت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ 2010کے دوران ایک دیگر تحقیق سامنے آئی تھی جس سے بالوں اور آنکھوں کے رنگ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان دونوں پیش رفتوں کی مدد سے ڈی این اے کی بنیاد پر فورنزک ٹیسٹوں کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کے نئے دروازے کھل گئے ہیں۔

No comments:

Post a Comment