Search This Blog

Saturday 27 October 2012

Khaleelullah ka Eisar Zabihullah ka Ikhlas

عیدالاضحی
خلیل اللہ کا ایثارذبیح اللہ کا اخلاص

آج عیدالاضحی کا مقدس دن ہے۔ یہ دن پوری امت اور ملّتِ مرحومہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادیں تازہ کررہا ہے۔ آپؑ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رسالت کے منصب پر فائز کئے گئے تھے۔ یہ کونسا دور تھا، کونسا وقت اور زمانہ تھا اور جس قوم میں آپؑ معبوث فرمائے گئے اُس قوم کی حالت کیا تھی۔ یہ سب کچھ قرآن پاک کی وساطت سے بنی نوع انسان اور خاص طور اُمتِ مسلمہ کے لئے تفصیل اور وضاحت کے ساتھ سامنے رکھا گیا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد آپؑ دوسرے پیغمبر ہیں جن کو عالمگیر حیثیت میں اﷲ کے پیغمبر اور رسول کی حیثیت سے معبوث فرمایا گیا تھا۔ آپؑ کی قوم شرک اور بُت پرستی پر یقین رکھتی تھی۔ آپؑ جس گھر میں پیدا ہوئے وہ گھر بُت تراشی اور بُت پرستی میں نمایاں اور امتیازی مقام رکھتا تھا۔ آذر اُن کے والد کا نام بتایا جاتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے:’’ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جبکہ اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں‘‘(الانعام، ۷۴)
اپنے باپ کے سامنے اُن کی بُت پرستی اور بُت تراشی پرضرب لگانے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم کو مظاہرِ کائینات کا تعارف کرایا۔ آپؑ نے تاروں کو دیکھا اور کہا کہ یہ روشنی دینے والے ہیں، رات کی تاریکی میں چمکتے ہیں، آسمان اور زمین کی تاریکیوں میں روشنی اور درخشندگی پیدا کرتے ہیں۔ پتھروں سے بنے بتوں کے مقابلے میں یہی تارے پوجے جانے والے اور خدا ہونے چاہئیں۔ مگر جب یہ ڈوب گئے اور اِن کی روشنی مدھم پڑگئی اور ان کے مقابلے میں چاند زیادہ تابندگی کے ساتھ طلوع ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تارے ڈوب جانے سے ان کی ناپائیداری اور فنائیت کا ادراک کرکے اعلان کردیا کہ  ’’میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہوں‘‘
ماہتاب کو دیکھ کر آپؑ نے کہا کہ تاروں کے مقابلے میں یہ زیادہ روشن ہے۔ یہی لائق عبادت اور بندگی ہے۔ مگر سورج طلوع ہوتے وقت تاروں اور چاند کی روشنی بھی ماند پڑ گئی۔ آپؑ نے کہا کہ یہی ربّ ہے اور سب سے بڑا کیونکہ تارے اور چاند اس کے مقابلے میں بے نور دکھائی دے رہے ہیں۔ سورج کے غروب ہونے تک آپؑ اس تصور میں رہے مگر جب آفتاب بھی اپنے انجام کو پہنچ کر غروب ہوگیا تو آپؑ نے اعلان کردیا:اے برادران قوم! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔ میں نے تو یکسو ہوکر اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں نہیں ہوں۔(الانعام، ۷۸:۷۹)
اقبال علیہ الرحمہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے غروبِ آفتاب کا منظر دیکھ کر ربّ کائینات کی پہچان اور معرفت کا جو اعلان اور اقرار کیا۔ ایک شعر میں سمو دیا ہے
وہ سکوتِ شام صحرا میں غروبِ آفتاب
جس سے روشنی تر ہوئی چشم جہاں بین خلیلؑ
انسان کے اردگرد کائنات کے مناظر اور خود انسان کا اپنا وجود، آیات اور نشانیاں ہیں۔ جن پر انسان کو تدّبر اور غور وفکر کرکے خالقِ کائنات کا ادراک حاصل کرنے کی جو کوشش اور سعی کرنا چاہئے تھی وہ نہیں کررہا ہے۔ تحقیق اور تدّبر ہورہا ہے۔ بلاشک وشبہ مگر تدّبر اور تفکر آج کے انسان کو اﷲ کی معرفت اور وحدانیت کے بجائے یا تو الحاد کی طرف یا شرک اور مظاہر کائنات کی پرستش کی طرف ہی لے جارہا ہے اس کی بنیادی وجہ تحقیق اور تدّبر کرنے والوں کی فکر اورسوچ کی کمی ہے کہ وہ خالق کائینات کے وجود کی شناخت اور پہچان کیلئے مظاہر کائینات کی کھوج نہیں لگاتے ہیں، بلکہ اُن کے اپنے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ از خود پیدا ہوا ہے۔ اس کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس لئے وہ اصلی صانع تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چاند، تاروں اور آفتاب کو ڈوبتے اور بے نور ہوتے دیکھا تو اﷲ تعالیٰ نے اُس کے قلب وذہن کو اپنی ہدایت سے نوازا۔ اس واقعہ سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سہارے خلاء میں پرندوں کی طرح پرواز کرنا اور سمندروں کے سینوں کو مچھلیوں کی طرح چیرنا، انسان کے لئے ممکن ہوسکتا ہے مگر ہدایت اور خالقِ کائنات کے وجود کی شناخت انسان کے اپنے بس میں نہیں ہے جب تک اﷲ کی طرف سے اُس کو ہدایت نصیب نہ ہو۔
اﷲ کی معرفت حاصل ہوجانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو اﷲ کی بندگی کی طرف دعوت دی۔ وقت کے حکمرانوں، جنہوں نے لوگوں کو اپنی بندگی اور غلامی کے شکنجے میں کسا تھا یہ کہہ کر کہ ہم تمہارے معبودوں کی نسل اور خاندان سے ہیں۔ اس لئے تمہارے مقابلے میں ہمیں برتری اور فوقیت حاصل ہے۔ اس بنیاد پر تم ہمارے احکامات اور ہماری ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرو۔ یہاں یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشرکانہ تہذیب بُت پرستی تک ہی محدود نہیں رہتی ہے، بلکہ وہ اپنی چھاپ ِزندگی کے ہر شعبے پر حاوی کرنے کی پالیسی اختیار کرلیتی ہے۔ اقتدار میں ہوتے ہوئے state کے جتنے ذرائع اور وسائل اُن کے پاس ہوتے ہیں وہ اُن کو اپنی چھاپ مسلط کرنے کیلئے استعمال میں لاتے ہیں۔ اس لئے توحید کے علمبرداروں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر قوتیں اور صلاحتیں معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے استعمال میں لائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوئہ حسنہ سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔ اُنہوں نے وقت کے نمرود کے دربار میں جاکر اﷲ کی بندگی کی دعوت دی۔ اُن کے ساتھ قوی استدلال  کے ساتھ مباحثہ بھی کیا، وہ ناقابلِ تردید دلیل کے مقابلے میں مبہوت ہوکر رہ گیا۔ مگر ہدایت اور اﷲ کی وحدانیت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگیا:
’’تم جسے چاہو اسے ہدایت نہٰں دے سکتے، مگر اﷲ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔‘‘ (القصص، ۵۶)’’مگر اﷲ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا‘‘
ظالم لوگوں کو اﷲ تعالیٰ اس لئے محرومِ ہدایت کردیتا ہے کہ انہوں نے بندگی کی حدود پھاند کر اپنے آپ کو ربّ اور اِلہٰ کے مرتبے تک پہنچایا ہوتا ہے۔ اقتدار اور حکومت وسلطنت پر قابض ہونے کی بنیاد پر وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہمارے پاس قوت، طاقت اور سطوت ہے اس لئے ہم لازماً عام انسانوں سے برتر اور افضل ہیں۔ ہم کو کسی اور کی ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت نہیںہے۔ عام لوگ بھی چونکہ کمزور اعتقاد اور ایمان کے ہوتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کی جاہ وحشمت سے متاثر اور مرعوب ہوکر رہنمائی، اطاعت اور فرماں برداری کے لئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں نمرود نام کے بادشاہ نے لوگوں پر تسلط جمایا تھا۔ چونکہ ملک کے تمام ذرائع اور وسائل پر ان کا کنٹرول تھا وہ لوگوں کو زندگی کی ضروریات اور سہولیات فراہم کرنے کی دسترس رکھتا تھا۔ اس بنیاد پر وہ اُن کا پالنہار بن چکا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے معبوددانِ باطل پر ضرب کاری لگا کر ان کو حیران وششدر بنا دیا۔ جب ان کو بتایا گیا کہ تمہارے معبودوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اگر یہ بولنے اور بات کرنے کی قوت اور طاقت رکھتے ہیں تو ان سے پوچھو کہ ان کے ساتھ یہ سلوک اور رویہ کس نے روا رکھا؟ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو۔ یہ اُن کی سوچ اور فکر پر ایک کاری ضرب تھی کہ تم لوگ ان بے حس اور بے اختیار پتھروں کی پوجا کرتے ہو۔ جو یہ بات تک تم کو بتلا نہیں سکتے کہ ان کی توڑ پھوڑ کس نے کی ہے؟ آخر تم اپنی عقل اور سوچ سے کام کیوں نہیں لیتے؟ مادی طاقت کے نشے میں چُور جب دلیل اور استدلال کے سامنے لاجواب ہوجاتے ہیں تو وہ طاقت کا بے تحاشا استعمال کرکے مخالف آواز کو زیر کرنے کا غیر اخلاقی اور بہیمانہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ یہی طرز عمل نمرود اور اُس کی قوم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف اختیار کیا۔ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کرلیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُس میں ڈال کر بھسم کرنا چاہا۔ ابراہیم علیہ السلام کے سامنے یہ بہت بڑا امتحان تھا کہ وہ اس آگ میں کود پڑیں گے اور اپنی جان کو قربان کریں گے۔ یا اپنی جان بچانے کیلئے نمرود اور اُس کی بُت پرست اور مشرک قوم کے سامنے سرنڈر کریں گے۔ عقل عام تو کہتی ہے کہ جان بچانی چاہئے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مظاہر کائنات کا عینی مشاہدہ کرنے کے بعد جس ذاتِ اقدس، خالق ومالکِ کائنات پر ایمان ویقین کا اعلان کیا تھا یہ شعوری اعلان اور ایمان تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنا سب کچھ اﷲ ربّ کائنات کی مرضی اور منشاء کے مطابق قربان کرنے کا عزم اور عقیدہ تھا۔ یہ رسمی اور غیر شعوری ایمان نہیں تھا۔ یہ شعور کی پوری بیداری کے ساتھ اعلان تھا۔ جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے:ترجمہ: ’’ کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اﷲ ربّ العالمین کیلئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔‘‘(الانعام: ۱۶۲، ۱۶۳)
آگ کا بھڑکتا ہوا الاؤ دیکھ کر، حضرت ابراہیم علیہ السلام میں کوئی خوف تردد، پریشانی اور تذبذب لاحق نہیں ہُوا۔ اُن کو اس بات کا یقین محکم تھا کہ اگر میرے آقا اور مولا کو میرا آگ میں جل جانا ہی قبول ہوگا تو مجھے کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے اور اگر اُس کو میری جان بچانا ہوگی تو آگ کسی حال میں مجھے جلا نہیں سکتی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اﷲ ربّ کائنات کو اپنے بندے کی جان بچانا تھی۔ آگ اُن کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکی۔ آگ میں جلانے کی قوت اور صلاحیت آگ کے خالق اور مالک نے بخشی ہے۔ اگر صلاحیت اور قوت بخشنے والا ہی کسی وقت اس کو سلب کرے تو نہ آگ جلا سکتی ہے اور نہ ہی پانی ڈبو سکتا ہے۔ اﷲ برترو بزرگ نے آگ کو حکم دیا:’’ہم نے کہا، اے آگِ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی والی بن جا ابراہیمؑ پر‘‘(الانبیآئ، ۶۹)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے بچانا اور محفوظ رکھنا، اُن معجزات میں سے ایک معجزہ ہے جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اﷲ تبارک وتعالیٰ نے آگ کو گلزار میں بدل دیا۔ یہ اُس کی قدرت اور طاقت سے کچھ بعید نہیں تھا۔’’اگر کوئی شخص ان معجزات کی اس لئے تاویلیں کرتا ہے کہ اُسکے نزدیک خداکیلئے نظامِ عالم کے معمول (Routine) سے ہٹ کر کوئی غیر معمولی کام کرنا ممکن نہیں ہے، تو آخر وہ خدا کو ماننے ہی کی زحمت کیوں اٹھاتا ہے‘‘
            (تفیم القرآن، جلد ۳، ص ۱۶۹)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اﷲ احکم الحاکمین کی ذاتِ اقدس کے ساتھ محبت اور لگاؤ ہی نہیں، بلکہ عشق کی حد تک تعلق اور وابستگی تھی۔ جہاں کسی ذات اور مقصدِ زندگی کے ساتھ محض ظاہری تعلق ہی نہیں بلکہ قلبی رشتہ اور عشق ہو وہاں اس مقصد کیلئے جان تک قربان کرنا، کوئی دُشوار مرحلہ نہیں ہوتا ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں کودنے کے عمل کو عشق سے ہی تعبیر کیا ہے۔
اﷲ کی مدد، نصرت اور چاہت سے آگ کے الاؤ سے صحیح وسلامت نجات پانے کے بعد آپ نے ہجرت کا اعلان کردیا۔ سورہ الصّٰفٰت میں اس کا تذکرہ آیا ہے:’’ابراہیم نے کہا ’’میں اپنے ربّ کی طرف جاتا ہوں وہی میری رہنمائی کریگا۔ اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جوصالحین میں سے ہو۔‘‘(الصفٰت :۹۹ تا ۱۰۰)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اُن کی قوم بت پرستی اور بُت تراشی سے باز آکر اور تائب ہوکر بندگیٔ ربّ کا راستہ اختیار کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور میری رسالت پر ایمان لاکر میری اطاعت اور پیروی پر راضی نہیں ہورہی ہے بلکہ انہوں نے مجھے جان سے مار دینے کے لئے وحشیانہ اقدام کرکے آگ کے الاؤ میں جلانا چاہا تو انہوں نے اپنے وطن سے ہجرت کی۔ یہ سنت پیغمبری ہے کہ جس وطن میں اﷲ کے معبوث کئے ہوئے مرسلین کے دین اور مشن کے لئے ساز گار ماحول فراہم نہیں ہوتا ہے تو وہ وطن کو ترک کرکے اپنے مشن اور مقصدِ رسالت کو اولین ترجیح دیدیتے ہیں۔ ہم عملاً آخری رسولﷺ کی سیرت پاک میں بھی دیکھتے ہیں۔ اس سے وطن پرستوں کے نظریہء کا بطلان واضح ہوجاتا ہے جو دین، ایمان اور اِلٰہی مشن کے پھیلاؤ، تبلیغ، اشاعت اور غلبہ کے امکانات اپنے زادوبوم میں معدوم پانے کے بعد بھی وطن کو اولین درجہ اور مقام دیتے ہیں۔
وطنیت کے بُت نے امتِ مسلمہ کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ اسلام کے ابدی اور آفاقی پیغام کے مقابلے میں، وطن کا بُت پوجتے ہوئے اُمّتِ مسلمہ خدا پرست بن جانے کے بجائے وطن پرست بن گئی ہے۔ یہاں یہ غلط فہمی پیدا نہ ہوجائے کہ وطن کے ساتھ محبت نہیں رکھنی چاہئے۔ یہ غیر فطری سوچ اور فکر ہے۔ جائے پیدائش اور جس سرزمین میں انسان نے جنم لیا ہو اُس کے ساتھ فطری طور محبت اور لگاؤ ہوتا ہے۔ اس فطری جذبے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس جذبے کو مسترد کیا جاسکتا ہے اور نہ اس فطری جذبے اور رحجان کو وطن پرستی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ وطن پرستی کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جو دین اور ضابطہ حیات شعور کی بیداری کے ساتھ قبول کیا ہے اُس میں اور آپ کے وطن میں جب تصادم اور ٹکراؤ پیدا ہوجائے اور آپ کے لئے دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو، تو اس انتخاب میں اگر آپ نے اپنے دین اور ایمان کے مقابلے میں وطن کو ہی ترجیح دی اور اُسی کو مقدم جان کر دین اور ایمانی تقاضوں کو پسِ پشت ڈال دیا اور ان کو ثانوی حیثیت دیدی تو وہی وطن پرستی ہے اور اسی سے اسلام نے روکا ہے اور اس کو سنت نبویﷺ سے انحراف قرار دیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وطن چھوڑ کر دین اور بندگیٔ ربّ کے نظام کو ترجیح اور فوقیت دیدی۔ آپؑ نے اولادِ صالح کے لئے دُعا مانگی، اﷲ تعالیٰ نے اُن کی دُعا قبول فرمائی اور اُن کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں ایک صالح فطرت فرزند عطا کیا۔ اس اولاد کی پیدائش سے حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک اور آزمائش میں ڈال دئے گئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب اپنے باپ کی پرورش اور نگہبانی میں دوڑ دھوپ کو پہنچ گئے تو اﷲ تعالیٰ نے اُن کو خواب میں دکھایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اس لاڈلے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں۔ پیغمبروں کا خواب وحی کے برابر ہوتا ہے۔ آپؑ نے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے پوچھا کہ میں نے خواب میں آپؑ کو ذبح کرتے دیکھا ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟ صالح اور برگزیدہ بیٹے نے جواب دیا:اُس نے کہا، ’’ابّا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے کرڈالئے، آپ انشاء اﷲ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔‘‘(الصّافات، ۱۰۲)
لختِ جگر کو قربان کرنے کیلئے تیار ہوجانا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے بہت بڑی آزمائش تھی مگر جس طرح آپ آگ کے الاؤ میں کود پڑنے اور وطنِ عزیز کو ترک کرنے کی آزمائش میں پورے اُترے برابر اُسی طرح آپ اس بڑی آزمائش میں بھی معیار مطلوب پر پورے اُترے۔ اﷲ تعالیٰ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا خون بہانا مطلوب نہیں تھا بلکہ اپنے دونوں برگزیدہ بندوں، باپ بیٹے کو پرکھنا تھا کہ وہ میرے حکم کی تکمیل میں کیا کردار ادا کریں گے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منہ کے بل لِٹا کر آپؑ نے اُن کے گلے پر چھری چلانا چاہی۔ اﷲ تعالیٰ نے وحی بھیجی ابراہیم علیہ السلام تم نے اپنا خواب پورا کردیا۔ آپ کے سامنے ایک دُنبہ لایا گیا جسے آپ نے ذبح کردیا اور اس طرح قربانی پوری ہوگئی اور قربانی کی یہ سنت تا صبحِ قیامت ملّت میں جاری وساری رکھی گئی۔ جیسا کہ رسول رحمتﷺ سے پوچھا گیا کہ یہ قربانی ہم کس حیثیت سے دے رہے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:’’یہ تمہارے ابا ابراہیمؑ کی سنت اور عمل ہے‘‘۔عیدالاضحی کو جانوروں کی قربانی دیکر اُمت مسلمہ یہی سنت پوری کررہی ہے۔ اس قربانی کی جو روح ہے وہ آج کے مسلمانوں کے عمل سے چھن گئی ہے اور یہ محض ایک رسم ہوکر رہ گئی ہے۔
جانوروں کی قربانی دینے کا مطلب مقصد اور مدعا یہ تھا کہ اﷲ کی رضامندی، خوشنودی اور اُس کے دین کے غلبہ کے لئے اگر ہم کو اپنی جانوں کی قربانیاں بھی دینا پڑیں گی تو ہم اُس کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں اور کسی تذبذب اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کریں۔ آج ہم جانوروں کی قربانیاں تو دیتے ہیں مگر اﷲ کے دین کی مکمل پیروی سے دور بھاگ رہے ہیں۔ اﷲ کے احکامات اور اُس کی کتاب اور پیغمبرص کی اطاعت اور فرماں برداری کے لئے اپنے جذبات، خواہشات اور رسم ورواج کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہم نے وطنیت اور شخصیت کے بُت تراشے ہیں۔ اُن کی محبت اور اطاعت میں ہم خدا کے پسندیدہ دین کو مکمل طور پس پشت ڈال چکے ہیں۔ ہم نے دین کی کامل پیروی سے راہِ فرار اختیار کرنے کے لئے یہ گمراہ کن فلسفہ اپنا لیا ہے کہ دین اور سیاست الگ الگ ہے۔ دین کو ہم نے محض عبادت تک محدود کررکھا ہے۔ زندگی کے معاملات میں ہم سکیولر ڈیموکریسی، سوشلزم، کمیونزم، سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی، غلط رسم ورواج، مشرکانہ تہذیب کے خدوخال، سود خوری، شراب نوشی، حتیٰ کہ غیرمسلموں کے ساتھ ہمارے رشتے بھی ہورہے ہیں، پھر بھی ہم یہ دعویٰ کرنے سے شرماتے نہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔

courtesy: Kashmir Uzma Srinagar


No comments:

Post a Comment