کائنات کے اسرار۔۔۔۔۔بلیک ہول جاوید احمد ملک
سائنسدان ابھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ بلیک ہول کیسے وجود میں آتے ہیں لیکن عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ مردہ ستاروں کا ٹھنڈا مواد ہے۔ یہ اتنا کثیف ہے کہ روشنی تک ان کی کشش ثقل سے بچ نہیں سکتی۔ کوئی جسم اگر بلیک ہول کی نزدیک سے گزرے گا تو بلیک ہول اسے اپنی طرف کھینچ لے گا بشرطیکہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ نہ ہو۔ 32 ملین نوری سال کی دوری پر ایک درمیانے سائز کا بلیک ہول چندرا ایکسرے مشاہداتی مشین کے ذریعہ دیکھا گیا ہے۔ عموماً ستارے سفید چھوٹے یا نیوٹرون ستارو کی شکل میں اختتام پذیر ہوتے ہیں لیکن بڑے ستارے جو تقریباً ہمارے سورج سے 10 یا 15 گنا بڑے ہوتے ہیں وہ بلیک ہول میں تبدیل ہوتے ہیں۔ چونکہ بلیک ہول ایک طرح سے ستارے کی لاش ہے یہ بہت عرصے تک قائم رہ سکتی ہے زمین یا کسی اور سیارے کو بلیک ہول سے خطرہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ اس نہایت قریب سے گزرے اور اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے کم ہو۔ عموماً کہکشاؤں کے درمیان میں بہت بڑی جسامت کے بلیک ہولز ہوتے ہیں۔
ثقبِ اسود کا لفظ دو الفاظ کا مرکب ہے ثقب ، جسکے معنی چھید یا سوراخ کے ہیں اور اسود ، جسکا مطلب ہے سیاہ یا کالا۔ گویا عام الفاظ میں ثقب اسود کو، سیاہ سوراخ کہا جاسکتا ہے۔ ثقب اسود کو انگریزی میں بلیک ہول کہتے ہیں۔ثقبِ اسود میں موجود مادے کا دائرہ ثقل اس قدر طاقتور ہوجاتا ہے کہ اس دائرے سے نکلنے کے لئے جو رفتار اور ویلوسٹی درکار ہوتی ہے وہ روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے اور چونکہ روشنی کی رفتار سے تیز کوئی شے نہیں لہٰذا اسکا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی شے، ثقب اسود سے نکل نہیں سکتی فرار حاصل نہیں کرسکتی، یہاں تک کے روشنی بھی اسکے دائرہ اثر سے فرار حاصل نہیں کرسکتی۔
ثقب اسود کی موجودگی کی شہادت مختلف ہیئتی (ایسٹرونومیکل) مشاہدات سے ملتی ہے۔ ایک ایسے جسم کا تصور کہ جس کی کشش سے روشنی سمیت کائنات کی کوئی شے فرار نہ ملے، جغرافیہ دان جوہن مچل کے مطابق یہ وہ زمانہ تھا جب ثقل کا نیوٹنی نظریہ اور سرعت فرار (ویلوسٹی اسکیپ) تخیلات اپنی جگہ بناچکے تھے۔ مائکل نے حساب کتاب کے گھوڑے دوڑائے کہ اگر سورج سے پانچ سو گنا بڑی جسامت کا کوئی ایسا کائناتی جسم جسکی کثافت بھی اتنی ہی ہو جتنی کے سورج کی اور اسکی سطح پر سرعت فرار، روشنی کی رفتار کے برابر ہو جائے تو وہ غیر مرئی یعنی موجود ہوتے ہوئے بھی غائب ہوجائے گا۔
اس نے کائنات میں ایسے کسی جسم کی موجودگی کے امکان کو کہ جس کو دیکھا نا جاسکے یکسر مسترد بھی نہیں کیا جاتا ۔زیادہ تر سیارے اور اجرام فلکی پائدار اور مستحکم حالت میں ہوتے ہیں کیونکہ برقات کے درمیان پائی جانے والی پالی قوت کی وجہ سے جوہر منہدم ہونے سے محفوظ رہتے ہیں جبکہ ثقل، برقناطیسیت اور قوی تفاعل کی قوتیں انہیں باندھ کر رکھتی ہیں اور ان تمام قوتوں کے توازن کی وجہ سے ہی تمام مادے اپنی ساخت کو قائم اور مستقل رکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انتہائی حالات پیدا ہوجائیں، جیسے کہ کثیر المقدار مادہ کسی قلیل جگہ میں سمو دیا جائے تو پھر ثقل (گریوٹی) دوسری تمام قوتوں سے حد سے زیادہ بڑھ کر جیت جاتی ہے اور ایسی صورت میں اوپر بیان کردہ قوتوں کا توازن ختم ہوجاتا ہے۔
اور اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ برقات اور جوہروں کے مرکزوں کے درمیان مقررہ فاصلہ باقی نہیں رہتا اور ایک طرح سے وہ جیسے مرکزوں کی جانب منہدم ہوجاتے ہیں یا سادہ سے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ گویا جوہر پچک گئے ہوں اور نتیجتاً ظاہر ہے کہ وہ مادہ بھی پچک جاتا ہے اور بے انتہا کثیف ہو جاتا ہے (اس قسم کے مادے کے لئے نیو ٹرونیئم نامی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے)
رواں سال جون میں امریکی خلائی ادارے کی جانب سے نو اسٹار نامی دوربین، جسے بلیک ہول ہنٹر بھی کہا جاتا ہے، خلاء میں بھیجی گئی ہے، جو بالخصوص بلیک ہولز کو تلاش کرے گی اور ان کا بغور مطالعہ کریگی۔سائنسدانوں کیلئے بلیک ہولز آج بھی بھیدوں بھرے آسمانی عناصر ہیں جن کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ وہ ہر بڑی کہکشاں کے قلب میں واقع ہیں اور انہی میں ایک کہکشاں ہماری بھی ہے۔کچھ دہائیاں پہلے کا ذکر ہے جب سائنسدانوں نے سوچا کہ بلیک ہول ایک نادر چیز ہیں، لیکن گزشتہ0 2 سال کے دوران اس سوچ میں نمایاں تبدیلی آئی ہے اور اب امریکی خلائی ادارہ ناسا کائنات میں بلیک ہولز کی تعداد کا پتہ چلانے کی کوششوں میں مصروف ہوچکا ہے۔
ناسا کے ایسٹرو فزکس شعبے کے ڈائریکٹر پال ہرٹز کہتے ہیں کہ ستارے، نیبولائے اور بلیک ہولز ایک خاص طرح کی شعائیں خارج کرتے ہیں جو میڈیکل ایکسرے میں استعمال ہونے والی شعاؤں کے مماثل ہیں ، لیکن زمین کی سطح سے ان شعاعوں کا پتہ نہیں چلایا جا سکتا۔ اسی غرض سے نو اسٹار نامی دوربین ان ایکسریز پر تحقیق کرے گی اور سائنسی تجزئیے کیلئے ان کی تصاویر کو زمین پر بھیجے گی۔
خلاء میں موجود دوربینوں نے اب تک ایسی تصاویر فراہم کی ہیں جن میں سینکڑوں عظیم الجثہ بلیک ہولز سے نکلنے والی عمومی شعاعوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ناسا کو توقع ہے کہ نو اسٹار دوربین نہ صرف بلیک ہولز کی بہتر تصاویر فراہم کریگی بلکہ آسمان کا جائزہ لیتے ہوئے اہم انرجی ایونٹس کا پتہ بھی لگا سکے گی۔
دنیا بھر میں لوگ ان تصویروں کا مطالعہ کریں گے جن میں نو اسٹار کی کلیدی محقق ہیریسن فیؤنا بھی شامل ہونگی۔ فیؤنا کا کہنا ہے کہ نو اسٹار کائنات کیلئے ایک نئی کھڑکی کھول دیگی۔ دراصل یہ پہلی خلائی دوربین ہے جو بھرپور توانائی والی ایکس ریز پر توجہ مرکوز کریگی۔ اس طرح باقی خلائی دور بینوں کے مقابلے میں نو اسٹار سے بنائی جانے والی تصویریں 10گنا زیادہ واضح اور100 گنا زیادہ حساس ہوںگی۔
ہیریسن فیؤنا کے مطابق نو اسٹار دوربین کا سائز عام ریفریجرٹر جتنا ہے لیکن اس میں جدید سائنسی آلات نصب کئے گئے ہیں۔ نو اسٹار کو خلاء میں بھیجنے کے تقریبا ایک ہفتہ بعد اس دوربین نے10 میٹر لمبا ماسٹ نصب کیا، جو اس کے آئینوں کو اس کے ڈی ٹیکٹرز سے جدا کریگا۔ یہ ماسٹ دراصل نواسٹار کو وہ فاصلہ فراہم کرتا ہے جو ایکسرے لائٹ کو واضح شکل دے گا۔
ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ہر تین میں سے دو بلیک ہولز گردوغبار اور گیس کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں اور یہ نئی دوربین ان پوشیدہ بلیک ہولز کا بھی پتہ چلا سکے گی۔ اس کے علاوہ نو اسٹار یہ بھی بتا سکے گی کہ کوئی بلیک ہول کتنی تیزی سے گھوم رہا ہے، جس سے سائنسدانوں کو باآسانی یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ بلیک ہول بنتے کیسے ہیں۔
ناسا کے پال ہرٹز بتاتے ہیں کے مطابق امریکی خلائی تحقیقی ادارے کے باقی مشنز کی طرح اس بار بھی توقع کی جارہی ہے کہ نو اسٹار کے ذریعے ایسے غیر متوقع عناصر کا پتہ چلایا جاسکے گا جو کائنات کی وسعتوں میں موجود ہیں اور ان سے ہمارے بہت سے سوالوں کا جواب مل سکے گا۔
بلیک ہولز کے بارے میں پیش کردہ حالیہ جدید ترین نظریے کے مطابق کائنات میں پائے جانے والے بلیک ہولز دراصل کسی دوسری کائنات تک پہنچنے کیلئے راستے یا دروازے کا کام کرتے ہیں۔ یہ نظریہ بلیک ہولز کے بارے میں پیش کردہ ابتدائی نظریے، ایسا جسم جو لامحدود کشش کا حامل ہو اور اپنے اردگرد کی تمام چیزوں کو اپنے اندر ضم کر رہا ہو، کے برعکس ہے۔
اس نظریے کے مطابق بلیک ہولز کی حیثیت کسی تاریک غار کی بجائے دو کائناتوں کے درمیان ایک سرنگ کی سی ہے۔ ان کی بے انتہا کشش کی وجہ سے جو مادہ ان میں جا گرتا ہے وہ تمام مادہ بلیک ہول کے اندر جمع ہونے کی بجائے دوسری طرف سے باہر نکل جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر ایک بلیک ہول میں جمع ہونے والی کہکشائیں، ستارے، سیارے دوسری طرف ایک دوسری کائنات کی تشکیل میں استعمال ہو جاتے ہیں۔ یعنی بلیک ہولز، اصل میں بلیک ہولز نہیں بلکہ وورم ہولز ہیں۔
لیکن تاحال یہ صرف ایک نظریہ ہے درست یا غلط کی بحث جاری ہے۔ تاہم یہ نظریہ درست ثابت ہوتا ہے یا اس کی جگہ لینے کے لئے کوئی اور نیا نظریہ سامنے آتا ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت اور اس موضوع پر ہونے والی تحقیق ہی کرے گی۔ لیکن یہ بات اس وقت تک مسلم ہے کہ بلیک ہولز کائنات کے سب سے پر اسرار اجسام ہیں جنکا کھوج لگانے میں سائنس کو بے حد دشواریاں ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں دو ایسے بلیک ہول کی موجودگی کے اب تک کے بہترین شواہد مل چکے ہیں، جو دونوں ایک ہی کہکشاں میں ایک دوسرے کے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ ایسے جڑواں نظاموں کے بارے میں ہمیشہ سے باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن کسی کو کبھی دیکھا نہیں گیا تھا۔نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والا مضمون کہکشاؤں کے پھیلاؤ کے نظریے کی تائید کرتا ہے جس میں ہر کہکشاں کے مرکز میں ایک بلیک ہول ہے۔ اس نظریے کے مطابق دو کہکشائیں جب ایک دوسرے کے قریب آتی ہیں تو ان کے بلیک ہول ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہیں جب تک وہ ایک نہ ہو جائیں۔تاہم اب تک بلیک ہول کے ایک دوسرے کے قریب آنے اور پھر گردش کرنے کے صرف سرسری شواہد موجود تھے۔بلیک ہول میں داخل ہونے والا مواد ایک مخصوص روشنی پیدا کرتا ہے جس بلیک ہول کی سمت کے بارے میں معلوم کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ساتھ گھومتے جڑواں بلیک ہول کی صورت میں روشنی کی دو شعائیں جاری ہونی چاہیں جن کی رنگت مختلف ہو۔ ماہرین نے بلیک ہول کا اب ایک ایسا ہی جوڑا دریافت کر لیا ہے۔ماہرین کا اندازہ ہے کے انہوں نے روشنی کی جوشعائیں دیکھی ہیں وہ ایسے بلیک ہول سے ہیں سورج سے دوکروڑ سے لے کر ایک ارب گنا زیادہ بڑے ہیں۔ یہ دونوں بلیک ہول ایک دوسرے سے ایک تہائی نوری سال کے فاصلے پر ہیں۔ بلیک ہول کے معیار پر دیکھا جائے تو یہ ایسا ہی جیسے دونوں گال جوڑ کر گھوم رہے ہیں۔
|
Search This Blog
Tuesday, 14 August 2012
BLACK HOLE
Labels:
SCIENCE
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment