وسعتِ افلاک کے اسرار تاریک مادہ محمد وسیم
تاریک مادہ اب تک کے شواہد کے مطابق کائنات میں موجود وہ مادہ ہے کہ جو نظر نہیں آتا، اور اسکے اسی تاریکی میں چھپے ہونے کے پہلو کی وجہ سے اس کو تاریک مادہ کہا جاتا ہے۔ جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس چیز کی سطح سے منعکس ہوکر (یا اس سے نکل) کر آنے والی روشنی ہماری آنکھ میں داخل ہوتی ہے اور اعصاب میں بصارت کا احساس بیدار کرتی ہے۔ اب اگر کوئی مادے کی قسم ایسی ہے کہ جو نا تو روشنی کو خارج کرتی ہے اور نا ہی اس سے کسی قسم کی روشنی منعکس ہوکر پلٹ سکتی ہے تو پھر ایسے مادے کو نا تو ہماری آنکھ دیکھ سکے کی گی اور نا ہی کوئی اور بصری آلہ براہ راست اس مادے کا مشاہدہ کرسکے گا، یعنی دوسرے الفاظ میں یوں کہ سکتے ہیں کہ وہ مادہ تاریک ہوگا اور ناقابل مشاہدہ۔
اگرچہ ہم تشکیل کائنات کے حوالے سے انسانی علم میں بتدریج ترقی اور ٹھیک ٹھیک تجربات کے نتیجے میں نت نئے آئیڈیاز سامنے آرہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم تاریک دور میں بھی جی رہے ہیں اس لیے کہ اس کائنات کا تقریباً 23 فیصد حصہ تاریک اجسام اور مادوں پر مشتمل ہے جن کے بارے میں ہمیں کچھ بھی علم نہیں اور یہ پراسرار، خفیہ اور مخفی مواد ہی کشش ثقل کی وجہ ہے۔ دراصل ہمیں نظر آنے والے مادے صرف 4 فیصد تک ہوتے ہیں جبکہ 37 فیصد ایسی تاریک قوتیں ہوتی ہے جس نے ہماری کائنات میں نفوذ کر رکھا ہے۔
گزشتہ ادوار میں فزکس میں ان چیزوں کو’’تاریک‘‘ قرار دیا جاتا تھا۔بہت سے لوگ تاریک مادوں کے وجود کو بڑا حیرت انگیز خیال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ خلا میں جو کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہے، اس سے چھ گنا زیادہ مادے وہ ہیں جن کو ہم اپنے روایتی ٹیلی اسکوپس کے ذریعے نہیں دیکھ سکتے ہیں نہ شناخت کر سکتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان تاریک مادوں کی بعض خصوصیات اور اوصاف کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں یہ تاریک، وجود رکھتا ہے اور کائنات میں ان کے کشش ثقل کے اثرات تو سب کے سامنے ہی ہیں۔
ان پر اسرار تاریک وجود کی شہادت ستاروں اور سیاروں کی رفتار سے ملتی ہے جو کہکشاؤں کے بڑے بڑے جھرمٹوں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے علاوہ مزید ٹھوس شواہد ایک ماہر مشاہدات، اجرام فلکی ویرا ربکن فراہم کرتا ہے جس نے 1960ء کے اواخر اور1970ء کے اوائل میں کہکشاؤں میں گردش کرنے والے ستاروں اور سیاروں کی تفصیل، قابل پیمائش مقداروں میں پیش کی ہے۔ مثلاً وہ شرح یا مقدار رفتار جس کے مطابق ستارے اپنے محور پر گردش کرتے ہیں اس کا انحصار اس پر ہے کہ اس ستارے یا سیارے میں یہ تاریک مادہ کتنی مقدار میں ہے صرف دکھائی دینے والے مادے کے حوالے سے ہر ایک کو یہ توقع ہوتی ہے کہ یہ ستارے کہکشاں سے بہت دور ہیں لیکن ایسے لوگوں کے علم میں یہ بات نہیں ہوتی کہ کشش ثقل کی جو قوت انہیں دھکیل رہی ہے وہ غیر مرئی ہے یہی وجہ ہے کہ جو ستارے نظر آنے والے مرکزی مادے سے بہت دور ہوتے ہیں وہ بھی اسی رفتار سے مرکز کہکشاں کے گرد رواں دواں رہتے ہیں، جس طرح قریب کے ستارے اور سیارے گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی جسم میں مادے کی مجموعی مقدار فاصلے کی دوری کی، زوال، انحطاط یا پسپائی کا باعث نہیں بنتی لہٰذا ماہرین اجرام فلکی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کہکشائی سلسلہ ہی بنیادی طور پر پراسرار تاریک وجود پر مشتمل ہے۔ کشش ثقل کے برقیوں میں تبدیلی پیدا کر کے یا ان کا رخ بدل کر جائزوں سے بھی، اس بارے میں ضمنی شواہد فراہم ہو جاتے ہیں۔ یوں اب یہ بات ہمارے علم میں آچکی ہے کہ کائنات کے پراسرار تاریک وجود کی کثافت یا ان کا مجموعی حجم جو سرد ہوتا ہے اور روشنی کی رفتار کی نسبت سے بہت تدریج کے ساتھ حرکت پذیر رہتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ تاریک مادے اور بلیک ہولز میں فرق ہے، تاریک مادہ کسی چھوٹے بلیک ہول میں نہیں ہو سکتا ہے۔
مادہ سے متعلق طبعیات اور کائنات کی تشکیل میں کئی روابط پائے جاتے ہیں ان میں ایک سب سے اہم اور پیچیدہ ربط یہ ہے کہ تاریک مادہ، درحقیقت دنیا کے سب سے طاقتور مادے کو تیزی سے حرکت دیتا ہے۔ یہی تجربہ فرانس اور سوئزر لینڈ کی سرحد پر ایک زیر زمین سرنگ میں کیا گیا تھا۔اب یہ بات طے ہے کہ ماہرین طبیعات صدیوں سے آسمانوں اور زمین میں ہر جگہ ڈارک مادے کی تلاش میں سرگرداں ہیں جبکہ موجود تحقیقات سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ ڈارک مادے کے غیر مرئی ذرات کہکشاؤں میں پائے جاتے ہیں اور اس حوالے سے تحقیق جاری ہے۔
اسی تحقیق کے لئے سرگرم چیف انجینئر لے ان ایونز نے کیلی فورنیا میں جنوری 2010ء میں ہونے والی کانفرنس میں شرکا کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ آپ نظریہ ساز لوگ ڈارک سیکٹر کے اردگرد ہی اسے تلاش کرنے میں سرگرداں رہتے ہو، لیکن اب میں ایل ایچ سی میں گزشتہ 15سال کی تحقیق سے اس کی حقیقت کو سمجھ گیا ہوں، آپ تاریک مادے کو براہ راست دیکھ ہی نہیں سکتے اس لیے کہ ڈارک میٹر روشنی، حرارت یا بخارات خارج نہیں کرتا بلکہ روشنی کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ یہ بیک وقت کئی کئی کہکشاؤں کے جھمگٹوں میں تیرتا رہتا ہے۔ ایک ایسا ہی مخلوط و مرکب امیج گزشتہ موسم گرما میں دیکھا گیا تھا، یہ جھمگٹا روشنی اور ڈارک حصوں پر مشتمل تھا لیکن اس کا60فیصد حصہ غیر مرتکز و منتشر انتہائی گرم گیس (انتہائی سرخ) پر مشتمل تھا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی اس کا مرئی یا دکھائی دینے والا حصہ صرف ۵فیصد تھا جبکہ ۵۷فیصد حصہ تاریک مواد پر مشتمل تھا۔ اس ڈارک مواد کو ناسا کے شاندار ایکسرے لیبارٹری کے ذریعے دیکھا گیا تھا کیونکہ ڈارک مادہ مکمل طور پر غیر مرئی ہے اور اسے کوئی دیکھ ہی نہیں سکتا۔ بس اس کی کشش ثقل ہی اسے متحرک رکھتی ہے۔ عام مادہ الیکٹرو میگنیٹک قوتوں کا ردعمل ظاہر کرتا ہے لیکن اس تاریک مادہ پرالیکٹرو میگنیٹک قوتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
کائنات کے تاریک مادے کی موجودگی کے شواہد حاصل کرنا سائنس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے تاہم ابھی اس میں کافی پیشرفت کی ضرورت ہے۔ آج کل اس پراسرار تاریک مادے کے حوالے سے جو تحقیق وجستجو کے کام جاری ہیں وہ اس کی غیر مرئی حالت کے باوجود اس لیے ہورہے ہیں کہ صرف تاریک مادہ ہی (اس کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں) مادے پر غیر واضح انداز میں اثرانداز ہوتا ہے اور وہی مادے میں سے برقی اشارات یا پیغامات پر دسترس رکھتا ہے اور اسے تبدیل کرتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہماری کائنات میں ہمیں جو چیز بھی نظر آرہی ہے اس پر ایک پراسرار تاریک مادے کا گہرا اثر ہے۔
ڈارک مادے کو شناخت کرنے کا ایک طریقہ بالواسطہ ہے اور یہ آسمان یا زمین میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس تمام پراسیس میں نمیبیا میں واقع ہائی انرجی اسٹریو اسکوپک سسٹم اور ایری زونا میں دہری انرجیٹک ریڈی ایشن امیجنگ ٹیلی اسکوپ آرے سسٹم سے کام لیا جاتا ہے۔ یوں سائنسدان اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ معلوم ہو جائے کہ کائنات میں فی الواقع کیا ہے اور یہ ساری کائنات کس طرح ہم آہنگ ہے کہ اب تک انسان اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ پایا۔
کچھ سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ کہکشاؤں کے کناروں کے قریب (یعنی مرکز سے دور) ستارے بھی اس رفتار سے تیز گھوم رہے ہیں کہ جس رفتار سے انہیں گھومنا چاہیے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ جتنی کشش ثقل کہکشاں میں موجود نظر آنے والے مادے سے پیدا ہورہی ہوتی ہے ، ستارے اس کی نسبت تیز رفتار ہیں اور اسطرح ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ اپنے گھومنے کی رفتار (مرکزگریزقوت) کی وجہ سے کشش ثقل کو توڑ کر اپنے دائرے سے نکل جائیں ، مگر ایسا نہیں ہوتا لہٰذا سائنسدانوں نے اندازہ لگایا اور ثابت کیا کہ یقینی طور پر کہیں ایسا مادہ موجود ہے جو کہ نظر نہیں آرہا مگر کشش ثقل پیدا کررہا ہے تا کہ ستاروں کو اپنے مدار سے نکلنے نہ دے اور کائنات کا نظام درہم برہم نہ ہونے پائے۔ مگر چونکہ یہ مادہ نظر نہیں آتا اس لئے اسکو تاریک مادے کا نام دے دیا گیا۔
علم الکائنات میں، تاریک مادہ ایک قیاسی و گمانی مادہ ہے جسکی ساخت و ہیئت نامعلوم ہے۔ یہ مادہ اتنی برقناطیسی شعاعیں خارج نہیں کرتا کہ اسکو تلاش کیا جاسکے یا اسکے وجود کی شناخت کی جاسکے ، مگر اسکی موجودگی کا احساس اس کشش ثقلی قوت سے کیا جاسکتا ہے جو یہ دوسرے قابل مشاہدہ مادی اجسام ، مثلا کہکشانوں اور ستاروں پر لگاتا ہے۔ تاریک مادہ ، ہیت کے متعدد شذوذی (anomalous) یا خلاف قاعدہ مشاہدات کے سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے مثال کے طور پر کہکشانوں کی گردشی رفتار کے شذوذات (شذوذات جمع ہے شذوذ کی جسکے معنی غیرمعمولی یا خلاف قاعدہ کے ہیں، اسکے طب اور علم الہٰیت میں ذرا مختلف استعمال کیلئے شذوذ (ضد ابہام) صفحہ مخصوص ہے)۔ کہکشانوں میں موجود مادے کی مقدار کے بارے میں کشش ثقل مدد سے لگائے گئے تخمینے اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ کائنات میں اس سے کہیں زیادہ مقدار میں مادہ موجود ہے کہ جتنا نظر آتا ہے۔ تاریک مادے کے ذریعے نظریہ انفجار عظیم میں محسوس و مشاہدہ کی جانے والی کئی نااستواریوں یا ناہم آہنگیوں کو سمجھنے میں بھی معاونت ملتی ہے، اسکے علاوہ یہ کہ تاریک مادہ، تشکیل ساخت کیلئے بھی ضروری ہے۔
ہے، کہ نہیں ؟
ایک ایسے مادے کا وجود کے جو تمام کائنات میں موجود ہے پر نظر نہیں آتا اور اسکو دیکھنے کی تمام کوششیں بھی اب تک بے سود رہی ہوں ، اگر اکثر سائنسدانوں کیلئے تحقیق کے نئے دروازے کھولتا ہے تو وہیں کچھ کیلئے اسے ہضم کرنا تو دور کی بات کھانا اور تصور کرنا بھی ممکن نہیں کہ انکے لئے یہ پلیٹ میں سجایا گیا ایک ایسا حلوہ ہے کہ جس میں بادام اور کشمش تو معلق ہوں مگر سوجی غائب ۔ موجودہ تحقیقات کی رو سے کائنات میں صرف چارفیصد جوہر یعنی اصل قابل مشاہدہ مادہ ہے جبکہ باقی 23 فیصد تاریک مادہ جو نظر نہیں آتا اور 73 فیصد تاریک توانائی ہے۔ یہ تاریک مادہ کس طرح کی ساخت رکھتا ہے؟ کا معاملہ ابھی بحث طلب ہی ہے گو کہ اس کے تصور اور اس سے ماخوذ ریاضی کی مساواتوں نے خاصے مسائل کے سلجھانے میں مدد کی ہے جن سے اس کے وجود اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اسکے بارے میں اب تک کی معلومات اشارہ کرتی ہیں کہ یہ ایک ایسا کائناتی انبوہ بناتا ہے کہ جو کہکشاؤں کے لئے ثقلی لنگر مہیا کرتا ہے اور گمان غالب ہے کہ یہ ایسے بنیادی ذرات پر مشتمل ہوسکتا ہے جن کو ابھی تک دریافت تو نہیں کیا جاسکا مگر انکی تلاش جدید ذراتی طبیعیات کے اہم مسائل میں شامل ہے۔
courtesy: Kasmir Uzma Srinagar |
Search This Blog
Tuesday, 28 August 2012
وسعتِ افلاک کے اسرار تاریک مادہ
Labels:
SCIENCE
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment