اقبال کی اقبال مندی تو حید کے قا لب میں خودی کی پرچھائی عمران بن رشید
خودی کا سر نہاں لا ا لہٰ الا اللہ
خودی ہے تیغِ فساں لا الہ ٰ الااللہ
توحید کی حقیقت جس دِل میںبھی پیوستہ ہو گئی وہ دِل کبھی بھی ویران نہیں ہوتا ، وہ ہمیشہ آباد وشاداب رہتا ہے اور اُس دل می کبھی غیراللہ کا گزر بسر نہیں ہو سکتا ۔ دنیا کی تاریخ لاکھوں ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب مسلمانوں نے توحید کی اما نت کو چراغ راہ بن کر وہ منزلیں طے کیں اور ایسے سنہرے کارنامے انجام دئے ہیں کہ دنیا دھنگ رہ گئی ، مثلاََ کسی نے سمندر کے پانیوں پر گھوڑے دوڑائے ، موسیٰؑ نے دریائے نیل کا پانی با ذن اللہ دو حصوں میں تقسیم کیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں کی سیر کی اور کا رخا نۂ کا ئینا ت کا وہ مشاہد کیا کہ کسی اور پیغمر کو یہ رتبۂ عالی نہ ملا ۔ مسلما نو ں نے اسی تو حید کے بل بو تے پر تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔انہو ں نے اس عقیدۂ عشق ومستی سے سرشار ہو کر دنیا کی کا یا پلٹ دی ۔
اقبالؒ کی پوری شاعری کا بنیادی محور توحید کی تفہم وتشریح ہی ہے ۔اِسی لئے اردو اورفارسی کلام میں توحید کے جابجا نظر آتے ہیں اور اس کی ضو فشاینا ں چھلک رہی ہیں۔ انہوں نے شاعری کو محض حظہِ نفس کا ذریعہ نہ بنا یا بلکہ ان کی ہر تخلیق اور ہر شعری تجربے کا ما حصل ہی یہ ہے کہ ایک نئی ہیت اور معنویت کے ساتھ خدا کی وحدانیت اور انسان کی خو دی کا پیغام حق دنیا کوسنائیں ۔ وہ اس حقیقت کو بخو بی سمجھتے ہیں کہ قومو ں کے عروج وزوال میںان دونو ں تصورات کا کتنا عمل دخل ہے۔ لہٰذا اقبا ل نے ہمیشہ ملتِ اسلامیہ کو بیدار رکھنے ور اسے اپنی عظمت رفتہ حا صل کر نے کے ضمن میں ان تصورات کو پو رے آ ب وتا ب سے اپنا نے کی طرف بلا یا۔ اسی لئے اقبالؒ حکیم الا مت اور شاعر اسلام قرا ر پا ئے ۔افسوس تو یہ ہے کہ آج ملت اسلامیہ توحید کے حقیقی تصور سے ناآشنا ہے،آج مسلمان کا دلِ مضطرب اور موحدانہ شو ق ولو لہ اور راسخ یقین سے خالی ہو چکا ہے جس کی بدولت کبھی وہ سمندر کے پانیوں پر بے پرواہ ہو کر چلاکرتا تھا، دہکتی آگ سے زندہ بچ نکلتا اور با د ِ مخالف کے تھپیڑوں میں بھی عزم واستقامت کا کو ہ گراں بن کر دنیا پر چھا جا تا۔ وہ تو حید کی ایک ہی پکا ر وقت کے لا ت ومنا ت کو سر نگو ں کر تا ، خطروں سے کھیل کر ہر مشقت طلب مشن میں کا میا ب اور صحیح سلامت نکل آتا تھا اور اپنی ایک ہی آواز سے پوری دنیا کو للکاتا تھا۔اگرچہ آج ہر طر ف زبا نی کلا می توحید کا پر چم لہرا یا جا رہا ہے لیکن نہ وحدانیتِ الہٰ کے تصور سے مسلما ن کا کردا ر جگمگاتا ہے ، نہ اس میں خودی کی وہ چا شنی اور مٹھا س نظر آ تی ہے ۔ اس زما نے میں لا الہٰ کے نعر ے بلند ہو رہے ہیں مگر یہ صرف رسمی طور کیا جارہا ہے۔ ہمارے دل توحید اور خو دی کی خوبصورت اور بیش قیمت نعمت سے خالی ہیں ۔ ہمارے دلوں میں وحدت امت کی جگہ حسد ، بغض اور نفرت ، مسلکی تنازعات اور مشرب کی تقسیم کا لا وا کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے ، اس لئے ہمارے وجود سے شرک کا اندھ کا ر دور ہو سکتا ہے نہ غلط رسوم وراج کا خا تمہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہم تذ لیل وتضحیک اور خو ں خرا بے کی بھینٹ چڑھنے سے بچ سکتے ہیں ۔ اگر ہم دل سے یہ چا ہتے ہیں کہ دنیا میں ہم ای ذی عزت اور با وقار انسان بن کے زندگی جیئے تو اس کے سوا چا رہ نہیں کہ اقبال نے قرآ ن وسیرت سے کشیدہ تصور توحید کو ما ننا بھی ہو گا اور پھر عملا نا بھی ہو گا ۔ ایسا نہیں چل سکتا کہ دل و جا ن دنیا پر فریفتہ ہو اور زبان سے’ صرف خدا صرف مو لا ‘کا جھو ٹا دعویٰ ہو۔ توحید کی بدولت انسان زماں و مکاں کے حقائق سے آشنا ہو جاتا ہے ، توحید کی حقیقت کو پہچان کر انسان پر وہ اسرار واضح ہو جاتے ہیں جوسب کیلئے غیب ہو ں ، کیونکہ توحید کے زریعے انسان کو ایک ایسی نظر میسر آتی ہے جو ہر شیٔ پوشیدہ حقیقت کو فاش کر دیتی ہے ، ایک ایسی نظر جو سمندر سے گہری اور آسمان کی بلندی کی حامل ہو ۔ ظاہر اً ہرانسان کے پاس نظر ہوتی ہے لیکن بقول اقبال ؒ ؎
اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شئے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
اقبال کے کلام کا جب بھی مطالعہ کیا جاتا ہے تو تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات اور توحید کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ بہت ساری عظیم شخصیتوں کی زندگی پر کلامِ اقبال کا گہرا اثر پڑا ہے جیسے مو لا نا مو دودیؒ، سید ابو الحسن علی ندویؒ ، مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ وغیرہم ۔ امتِ مسلمہ آج جس بربادی اور انحطاط سے دوچار ہے ، مسلمان غلامی کے جس دلدل میں پھنس چکے ہیں وہ صرف اور صرف دین سے دوری اختیار کرنے اور توحید کی پہچان نہ ہو نے کی وجہ سے ہے۔ آ ج کم وبیش تما م مسلمان اپنے مقام و مرتبہ سے نا آشنا ہو چکے ہیں اور ان کی حالت اُس شیر کے مانند ہو چکی ہے جو بھیڑوں کی صحبت میں رہ کر اپنے مقصد وجود اور اپنی طاقت سے بے خبر ہو۔ مسلمانوں کی یہ حالت ِزار دیکھ کر جب علامہ مرحومؒ کا دل تڑپ اُٹھا تو اُن کی زباں سے بے ساختہ نکل پڑا ؎
یا رَبّ دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گر ما دے ، جو روح کو تڑپادے
توحید کی بدولت انسان کوایک الگ پہچان ملتی ہے ، اُس کے دل و دماغ سے دنیا کی ہوس کا مادہ نکل جاتا ہے اور اُس کے دل میں عظمت ِرب کا ایسا یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ پھر وہ کسی بھی طوفان سے ٹکرا سکتاہے ۔آخر پر یہی کہنا چاہوں گا کہ اگرچہ اقبالؒ ؑ عصرِ حاضر کے مسلمانوں کی حالت ِ زار کو دیکھ کر پریشاں خاطر تھے لیکن پھر بھی ایک ٹھوس اُمید کے ساتھ انہوں نے ملتِ اسلامیہ کے ہر فرد سے نا صحا نہ تاکید کی ؎
یقین پیدا کر نا داں ! یقین سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
……………
رابطہ:-سیر جاگیر سوپور ( کشمیر )؛موبائل نمبر:- 9858464730
|
Search This Blog
Tuesday, 14 August 2012
IQBAL KI IQBAL MANDI
Labels:
IQBALIYAT
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
As salam alaikum
ReplyDeleteThanks to publish my articles. ... want to contact you. ... please call me on 9858464730
Imran Bin Rasheed