Search This Blog

Monday, 6 August 2012

JADEED DAUR KA SHIRK AUR MUSALMAN

جدید دور کا شرک اور مسلمان

-عفت عالم
شرک کا مادہ ’’ش ر ک‘‘ ہے۔ اسی سے شریک اور شرکا ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی بھی انداز سے اپنے معاملاتِ زندگی میں دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرے، ’’شریک‘‘ ہے۔ اسلامی شرعی اصطلاح میں اس سے مراد اللہ رب العالمین کی الوہیت میں ذات، صفات یا اختیارات کے لحاظ سے کسی کو ادنیٰ ترین درجے میں بھی ساتھی یا مددگار تسلیم کرنا، سمجھنا یا ماننا ہے۔ اس شرک کی بدترین شکل ’’طغیٰ‘‘ ہے جس میں اختیارات کو کوئی شخص یا ادارہ اپنے قبضے میں کرکے اپنے قوانین اور احکامات نافذ کرنا چاہے۔ شرک ہر لحاظ سے اللہ کی الوہیت کی نفی ہے، لہٰذا اس رب ذوالجلال کے جلال کو بھڑکانے والی کوئی چیز اس کے مقابل نہیں۔ پس فرما دیا گیا: ’’اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کرسکتے ہیں لیکن شرک کی معافی نہیں‘‘۔ شرک کیوں قابلِ معافی نہیں؟ شرک کی بنیاد کسی کا ہم سر، ہم پلہ، ذات و صفات میں مشابہہ ہونا، اختیارات کی ملکیت میں ساتھی ہونا، نفع و نقصان میں برابر کا ذمہ دار ہونا، دینے لینے میں ساتھی ہونا ہے۔ گویا کم تری کا ادنیٰ سا احساس یا نقص بھی شرکت کا سبب بن سکتا ہے۔ جبکہ اللہ (ال۔ الٰہ) ایسی ہر کمی، نقص یا خرابی سے پاک ہے۔ سبحان اللہ۔ قرآن کریم میں اس سے متعلق بہت سی آیات ہیں۔ تسبیح سے شروع ہونے والی تمام سورتوں کا بنیادی مضمون الوہیت کا تصور، توحید کا تصور اور اس کی وضاحت ہے۔ اس شرک سے بڑھ کر جب کوئی دوسرے کو کم تر، حقیر یا کمزور سمجھے اور آگے بڑھ کر ان اختیارات کو قابو کرنا چاہے جو دوسرے کو حاصل ہونے چاہئیں، گویا حقوق کو دبانا اور پھر ان کو غصب کرنا دراصل فرض سے غفلت اور بے نیازی ہے، اور یہی چیز بڑھتے بڑھتے کبر، تکبر اور آخرکار ’’طغیٰ‘‘ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، اور پھر ظلم کا وہ دروازہ کھلتا ہے جس میں پوری انسانیت اور پوری کائنات مجبور اور بے بس ہوجاتی ہے محض چند ظالم ترین افراد کے ہاتھوں۔ یہی افراد اگر جمع ہوجائیں تو ادارے تشکیل دیتے ہیں اور جو کام فرد سے ممکن نہیں ہوتا وہ یہ ادارے بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں۔ آج شرک کا جیسا دور دورہ ہے، اس کی غبار آلود فضا میں پوری انسانیت جس طرح جکڑ دی گئی ہے، اور جس طرح حق توحید کی شمع کو دھندلا دیا گیا ہے اس کو سمجھنے سے اعلیٰ ترین دماغ بھی قاصر ہوئے جارہے ہیں، اور وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم اپنے آپ کو اللہ کے قریب کررہے ہیں، اپنی صلاحیتیں، وسائل، قابلیتیں اسی سمت لگا رہے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے بہت برخلاف ہے۔ موجودہ دور سے قبل شرک کا یہی تصور عام تھا کہ دیوی دیوتائوں کی پوجا، پرستش، ان سے مانگنا، ان کو معبود سمجھنا، ان سے دعائیں کرنا… ذرا آگے بڑھے تو قبروں پر عرس اور ان کے آگے ہاتھ پھیلانے والوں کو اس شرک میں ان کا ساتھی سمجھ لیا گیا۔ آگے بڑھے تو ایسے عقائد کو شرک سمجھا گیا جس اللہ کے ساتھ بیٹے (یا بیٹیوں) کی شرکت تھی (عیسائی یا نصاریٰ اور مشرکین مکہ)۔ لیکن اب کیا ہے؟ اب تو ہر سمت شرک ہے، اور اس کی نجاست سے ہر خاندان، ہر گھر آلودہ ہوتا جارہا ہے، اِلاّ یہ کہ جس کو اللہ نے حفاظت دے دی۔ آج کے دور میں شرک کی جتنی قسمیں سامنے آچکی ہیں ان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں، ان میں شراکت داری، اعلانیہ کافر قوموں کے رسوم و رواج میں شرکت، بظاہر اہلِ کتاب لیکن درحقیقت منافق قوموں کے تعلیمی، سیاسی، معاشرتی، معاشی نظام اور ان کا حصہ بننے میں فخر… ان قوموں کا ترقی کے نام پر، نیز صحت کے نام پر مہلک ترین جراثیم کا جسموں میں داخل کرنا، ان کے ذریعے انسانیت کو اپنا مطیع رکھنا، ذہنی پس ماندگی کو اس سطح پر پہنچا دینا جس میں ان قوموں کے دیے ہوئے طرز زندگی کے سوا کوئی طرز زندگی کامیاب نہ دکھائی دے۔ ویکسین کا استعمال، نئی نئی ایجادات کے ذریعے نئی نئی بیماریوں کا بظاہر علاج مگر درحقیقت ہمیشہ کے لیے یا کم از کم طویل عرصے کے لیے اپنا باج گزار بنانا (اسپتالوں میں جاکر ہر مہینے، دو مہینے، تین مہینے پر لگنے والے ویکسین کے انجکشن، دوائوں کی فراہمی اور ان کے ریکارڈ کی درستی کے بغیر اسکولوں اور اداروں میں داخلے پر پابندی) اسی زمرے میں ہے۔ ان سے آگے نکل کر انسانی رویوں میں خرابیوں کے نتیجے میں اچانک سامنے آنے والی بیماریوں کے علاج کے لیے دہشت زدگی کی فضا کا پیدا کردینا (پچھلے دنوں وائرل کی کئی اقسام کے نتیجے میں چند اموات ہوئیں تو گویا پوری انسانیت کی مصیبت آگئی، اور ہر چھوٹے اور بڑے کو ماسک اور ویکسین کے ڈراپس کا دیا جانا خصوصاً ایئر پورٹس اور ریلوے اسٹیشنوں پر ان کو لیے بغیر افراد ملکوں میں داخل نہیں ہوسکتے تھے اور یہ زیادہ دور کی بات نہیں)۔ اور اِس وقت تو سب سے بڑی دہشت کی فضا ’’انتہا پسند اسلام‘‘ کے نام پر پیدا کردی گئی ہے۔ اللہ کی وحدانیت کے پیغام سے انسانیت کو متنفر کردینا، بھلا اس سے بڑھ کر ’’طواغیت‘‘ کا تصور کیا جاسکتا ہے؟ لیکن حقیقت میں ایک طواغیت اس سے بھی بڑھ کر ہے، اور وہ ہے اس پورے عمل کو بآسانی قبول کرنا۔ معمولی احتجاج کے ساتھ اپنے لیے اس فضا میں رہنے کے لیے بہتر طریقے اختیار کرنا، گویا وباء زدہ ہوائوں میں بستے بستے ان کا عادی ہوجانا، زہریلی ہوائوں اور مسموم فضائوں کو اور اسی شرکیہ ماحول کو نہ صرف گوارا کرنا بلکہ رفتہ رفتہ اس چنگل میں پھنستے جانا جس میں آخرکار اسی ماحول کی حمایت کا عَلم اٹھانا ہوگا۔ آج شرک کی یہی بدترین قسم ہمارے چہار طرف پھیلائی جارہی ہے، اور اب اس کا نشانہ پوری انسانیت کی موجودہ ننھی نسلیں بھی ہیں، اور آنے والی نسلوں کو بھی اسی کے ماتحت کرکے گویا پوری انسانیت پر اللہ وحدہٗ لاشریک کی حاکمیت کے پیغام کی برتری کے بجائے اس طواغیت کو نافذ کرنا ہے۔ اس کا ایک مظہر وہ نعرہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’کفر کی حکومت کے تحت مسلمان زندگی بسر کرسکتا ہے‘‘۔ نعوذ باللہ من ذٰلک۔ کیا ایک مسلمان پھر بھی مسلمان رہے گا اگر وہ دل سے اس بات کو قبول کرلے؟ لیکن آج یہی ہوچکا ہے۔ آج امریکا میں کتنی ہی قوموں، نظریوں اور عقیدوں کے مابین رہتے رہتے مسلمان اپنی شناخت کو صرف اپنی ’’کمیونٹی‘‘ کی حد تک بچانے پر مجبور ہیں، انہیں اپنی تنظیمیں، اپنے ادارے، اپنی مساجد بنانے کا تو اختیار دیا گیا ہے، اس سے بڑھ کر حکومت میں ’’شریک‘‘ بھی کیا جارہا ہے اور انہیں رغبت دلائی جارہی ہے کہ وہ اس حکومت کی حمایت میں اور اسے آگے بڑھانے میں مددگار ہوں اور اپنا حصہ ڈالیں۔ کسی ’’اسلامی تنظیم‘‘ کا کوئی بڑا پروگرام ایسا نہیں ہوتا جس میں حکومت کا کوئی فرد شامل نہ کیا جائے۔ خصوصاً وہ ادارے جنہوں نے ’’مساجد‘‘ کے انتظام کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے، اور ایسا اس لیے کیا جاتا ہے کہ بقول ان کی گورننگ باڈی کے، بغیر اس کے ہم اپنا دعوتی کام آگے نہیں بڑھا سکتے، نیز اس کے ذریعے مسلمانوں کی جمعیت کی مضبوطی بھی سامنے آتی ہے اور مسلم کمیونٹی کے لیے بہتر سہولیات کا حصول آسان ہوتا ہے۔ افطار پارٹیوں میں میئر کا بلایا جانا (خواہ وہ ہم جنس پرست ہی کیوں نہ ہو) اسی کا حصہ ہے۔ نعوذ باللہ من ذٰلک۔ اور اب اس کا تازہ ترین شاہکار مسجدوں کو کمیونٹی سینٹرز کی طرز پر آگے چلانا ہے۔ اس طرز میں مساجد صرف عبادت کی جگہ نہیں بلکہ سوشل گیدرنگز، نکاح کی تقریبات، نئی جوان نسلوں کے لیے تفریح اور فیملی سمیت تقریبات اور لیکچرز کی جگہ بھی ہوں گی۔ بظاہر اس میں کوئی قباحت نہیں، کیوں کہ کہا یہ جارہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی مساجد صرف عبادت کے لیے مخصوص نہ تھیں بلکہ عدلیہ بھی تھی اور معاشرتی رسومات کے لیے بھی۔ لیکن آج ان مساجد میں اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے ایسا اُس دورِ مبارک میں ہرگز نہ تھا۔ آج نماز کے بعد لیکچر کو سننے کے لیے خواتین کو پارٹیشن سے آگے بلالیا جاتا ہے، مرکزی ہال جو نماز کے لیے ہوتا ہے اس میں مردوں کو ایک طرف اور خواتین کو دوسری طرف برابر برابر بٹھادیا جاتا ہے۔ نکاح کی تقریب کے وقت دلہن کو سجا بناکر سب کے بیچ بٹھادیا جاتا ہے۔ البتہ نماز کے وقت مرد آگے اور خواتین پیچھے۔ یہ صورت حال ابھی ہے۔ اگر ان مساجد کو کمیونٹی سینٹرز کے طریقے پر آگے بڑھایا گیا جس کے لیے مشہور اسکالرز کے ذریعے خطبہ جمعہ میں لوگوں کو آمادہ کرنے کی مہم بھی زور و شور سے جاری ہے، اس وقت عام مسلمان کا ایمان کس لیول پر ہوگا اس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ ساری سرگرمیاں حقیقی اسلام کی نمائندگی کررہی ہیں؟ اس وقت ایک اہم ادارے کے سروے کے مطابق مسلمانوں کی بڑی تعداد یہاں امریکا میں سیٹل ہونے کے لحاظ سے بقیہ دوسرے گروہوں کے مقابلے میں زیادہ مثبت رویہ رکھتی ہے۔ اسلامی تنظیموں کی اکثریت انہیں یہاں کا پُرامن شہری رکھنے اور ان کے ’’حقوق‘‘ کا قانونی تحفظ کرنا چاہتی ہے۔ عام شہری (مسلمان) کو تو چھوڑیں، بڑے بڑے علماء جن کے علم پر دنیا کے مشہور تدریسی اداروں اور درسگاہوں کی مہریں ثبت ہیں، اس کام میں مددگار ہیں اور مشرک حکومت کی طرف سے سہولیات کی فراہمی کو مسلمانوں کے حق میں ’’خیر‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہ حال صرف امریکا کا نہیں، یورپ کے دیگر ممالک میں بھی حالات اسی طرح کے ہیں، البتہ امریکا میں مذہبی آزادی کا تصور ابھی زیادہ وسعت کا حامل ہے، جبکہ یورپ کے ممالک میں بہت سی پابندیاں آئے دن عائد ہوتی رہتی ہیں (البتہ امریکا کی صورت حال اس لحاظ سے بڑھ کر ہے کہ یہاں نچلی سطح سے لے کر اوپر کی سطح تک ہر جگہ مسلمانوں کو کنٹرول کرنے کے انتظامات ہیں، اور اب یہاں رہنے والے مسلمان خود کو امریکی مسلمان کہلانے میں کوئی عار نہیں سمجھتے) اس صورت حال میں اس وقت جو کیفیت ہے اس کا اظہار اس حدیثِ مبارکہ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کو کالی سیاہ رات میں کالے سیاہ پتھر پر کالی سیاہ چیونٹی کی مانند قرار دیا ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھنے والوں کو بخوبی نظر آرہا ہے کہ اب حق اور باطل کا محاذ بالکل جدا ہوچکا ہے۔ اب حق صرف وہاں ہے جہاں اسلام کو واضح برتری ہے۔ وہ چند جانیں جو پوری انسانیت پر گواہی قائم کررہی ہیں، جو حق کے عَلم کو ہرگز نیچا نہیں ہونے دیں گی خواہ ان پر کتنے ہی حملے کردیے جائیں، یہی لوگ مومن ہیں۔ اور باطل، وہ بھی واضح ہے۔ اب اس باطل کی پشت پناہی کرنے والی قوتیں بھی اپنا انجام سوچ لیں۔ آج یورپ، امریکا اور دیگر ممالک میں جہاں جہاں باطل کو قوت حاصل ہے وہ ان کی پشت پناہی کرنے والوں کی بنیاد پر ہے۔ یہ دوسری قوتوں کے لیے تو عبرت کا مقام ہوگا ہی، لیکن وہ تمام ’’اسلامی قوتیں‘‘ یا اسلام کے نام پر کام کرنے والی تحریکیں ضرور بالضرور… پھر کہوں گی کہ… ضرور بالضرور اپنے ایجنڈوں کا جائزہ لیں کہ وہ کس حد تک کس کس طرح ان باطل قوتوں کی ’’حق‘‘ کے مقابلے میں پشت پناہی کررہی ہیں۔ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے قرآن کی کسوٹی کو ضرور سامنے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ’’اسلام‘‘ کو قومیت سے، نسل سے، علاقائیت سے بڑھ کر قرار دیا ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کا مقصد ہی صرف اللہ کا کلمہ بلند ہونا یعنی اللہ کی سرزمین کا ایک رنگ میں رنگا جانا ہے۔ لیکن آج تو ہر طرف برٹش مسلم، امریکن مسلم کی اصطلاح ہے۔ وقت آچکا ہے کہ یہ کہنے والے اپنا جائزہ لیں کہ ’’دجال‘‘ ان کے گرد کس طرح گھیرا تنگ کررہا ہے۔ دجل تو نمایاں ہوچکا ہے۔ ہم تو مصنوعی فضا میں مصنوعی سانسیں لے رہے ہیں۔ کون ہے جو ہمیں حقیقی سانسیں لوٹائے گا۔ اس کے لیے خود کوشش کرنا ہے۔ جو کوشش کرے گا، اللہ اس کی کوششوں کو ضرور پورا کریں گے۔ بات صرف یقین اور پورے عزم سے کام کرنے کی ہے۔ مہلتِ عمل بہت کم ہے۔


No comments:

Post a Comment