Search This Blog

Tuesday, 14 August 2012

ZAYE SHUDA HARARAT SE BIJLI BANANE WALI MACHINE

ضائع شدہ حرارت سے بجلی بنانے والی مشین
courtesy : KashmirUzma Srinagar

آج دنیا میں جتنی توانائی پیدا کی جارہی ہے اس کا 60 فی صد حرارت کی شکل میں ضائع ہوجاتا ہے۔ یہ انکشاف توانائی سے متعلق ایک ادارے گلف کوسٹ گرین انرجی کے سربراہ لوئے سنیری نے۔ وہ امریکی ریاست ٹیکساس اور دوسرے مقامات پر موجود تیل اور گیس کے ہزاروں کنوؤں کی ضائع ہونے والی حرارت  کے کچھ حصے کو استعمال میں لانا چاہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں کوئلے، قدرتی گیس اور جوہری پلانٹس سے جتنی بجلی حاصل کی جاسکتی  ہے، ہم  اس زیادہ بجلی پیدا کرسکتے  ہیں، اور یہ کہ ایسا کیا جانا ممکن ہے۔سنیری وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زمین کے اندر پہلے سے حرارت موجود ہے۔ اگر آپ سخت نوکدار ڈرل مشین سے کسی سخت چٹان یا زمین کی پتھریلی پرت میں سوراخ کریں تو برما زیادہ گرم ہوجائے گا۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں  سے سنیری کی ماحول مشین کا کام شروع ہوتا ہے۔ایک چھوٹی کار سے بھی چھوٹے سائز کے ڈبے میں سمٹ جانے والی یہ مشین  حرارت کو بجلی میں بدلنے کا کام کرتی ہے۔اس مشین کے توسط سے بڑی مقدار میں کنویں کا گرم پانی ایک پائپ کے ذریعے حرارت جذب کرنے والے  مادوں سے گذرتا ہے۔ یہ مخصوص مادے کم درجہ حرارت پر ابلنے لگتے ہیں اور بخارات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس عمل سے بننے والی بھاپ کو بجلی کے ٹربائن چلانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔سنیری کہتے ہیں کہ ہم گرم پانی کے ذرائع سے خارج ہونے والی کم تر سطح کی حرارت کو بجلی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ گرم پانی گذرنے سے حرارت جذب کرنے والے  مادوں کے پھیلاؤ سے دباؤ پیدا ہوتاہے اور یہ عمل بھاپ کے ایک ٹربائن جیسا ہے۔ماحول دوست مشینوں کو صرف تیل اور گیس کے کنوؤں کی ضائع ہونیوالی حرارت کو ہی بجلی میں تبدیل کرنے کے لیے ہی نہیں ، بلکہ حرارت کو دوبارہ قابل استعمال بنانے والی اس ٹیکنالوجی کو شمسی توانائی کے پینلز، کوئلے سے چلنے والے پلانٹس،  اندورنی سلگاؤ کے اصول پر کام کرنے والے انجنوں اور حقیقی دنیا کی ان تمام صنعتوں میں ، جو  حرارت خارج کرتی ہیں،  استعمال کرکے بجلی بنائی جاسکتی ہے۔پچھلے سال سنیری نے اپنی مشین کو  ڈیلس میں واقع  سدرن میتھوڈیسٹ یونیورسٹی  میں بوائلرز سے جوڑ کر پھاپ کی فضا میں تحلیل ہونے والی حرارت کو بجلی میں تبدیل کیا تھا ، جس سے یونیورسٹی کے بجلی کے بل کم کرنے میں مدد ملی تھی۔سنیری کہتے ہیں کہ ان کی گرین انرجی مشین،  کوئلے سے چلنے والے جنریٹر کے مقابلے میں انتہائی معمولی قیمت پر 70 گھروں کی بجلی کی ضروریات پوری کرسکتی ہے۔سدرن میتھوڈیسٹ یونیورسٹی کی جیوتھرمل لیبارٹری کی کوآرڈی نیٹر ماریارچرڈز کہتی ہیں کہ ان کی لیبارٹری کے حرارت پیما نقشوں  سے سنیری کو ان مقامات تک رسائی میں مدد ملی جن کاتعلق تیل کی تلاش کے لیے کھدائی کی کارروائیوں سیتھا، اور وہاں سے حرارت خارج ہوکر فضا میں جذب ہورہی تھی۔ یہ مقامات گرین انرجی مشین کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے لیے انتہائی موزوں تھے۔ یونیورسٹی کا یہ شعبہ اور گلف کوسٹ گرین انرجی کا ادارہ کئی برسوں سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔ رچرڈز کہتی ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ خلیج کے ساحلی علاقوں میں بڑی مقدار میں کم درجے کی ایسی  حرارت موجود ہے، جو استعمال ہونے کی بجائے ضائع ہورہی ہے۔ اس سے  ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہم تیل اور گیس کے کنوؤں پر کام کرکے  ضائع ہونے والے وسائل کو دوبارہ استعمال میں لاسکتے ہیں۔سنیری ٹیکساس میں تیل اور گیس کے کنوؤں کی کھدائی کرنے والوں سے ، جن کے ویسٹ ورجینیا میں بھی پراجیکٹ چل رہے ہیں،بات چیت کررہے ہیں اور اسی سلسلے میں وہ دوسری ریاستوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی کی تیار کردہ  حرارت کو بجلی میں بدلنے کی ٹیکنالوجی مؤثر اور ماحول دوست  ہے کیونکہ وہ فضا میں کچھ بھی خارج نہیں کرتی۔جیسے جیسے سدرن میھتوڈیسٹ یونیورسٹی کے  جیو تھرمل نقشے پر ایک گرم نقطے کے طور تیل اورگیس کے کنوؤں کی تعداد بڑھ رہی ہے، سنیری یہ توقع کررہے ہیں کہ آنے والے برسوں میں ان کی گلف کوسٹ گرین انرجی مشینوں کی مانگ میں  بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوتا جائے گا۔

No comments:

Post a Comment