Search This Blog

Tuesday, 14 August 2012

تصویریں بولتی ہیں Tasveerein bolti hain

تصویریں بولتی ہیں

















جانے میرے ساتھ ہی ایسا ہوا یا ہر شخص کو ان تصویروں کے دکھ نے ڈس لیا ہے کاٹ اتنی گہری ہے کہ آنسو تو نہیں آرہے لیکن آنکھیں جل رہی ہیں اور سارے لفظ اندر ہی ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو گئے ہیں۔ کہنے کو یہ چند سادہ سےکاغذ کے ٹکڑے ہیں لیکن سوچنے سمجھنے کے لیے ان میں اتنا کچھ ہے کہ میں اندازہ نہیں لگا پا رہا کہ ان تصویروں میں دکھ زیادہ ہے یا دنیا کے لیے پیغام ، سوچا جاۓ تو دکھ بھی تو ایک پیغام ہی ہے لیکن یہ سب کے لیے نہیں ہے کیوں کہ یہاں کچھ لوگوں کے انٹینے صرف انہی تصویروں کو کیچ کر پاتے ہیں جو نام نہاد القاعدہ یا کسی شدت پسند رویے کی عکاس ہوں ایسے لوگ انسانی خون کی بھی ریٹنگ کرنے سے نہیں کتراتے ان کی نظر میں فلسطین ، افغانستان اور عراق میں بہنے والا انسانی خون چند ٹکوں کا بھی نہیں ہے لیکن یورپ کاایک خون اتنی قدر و قیمت رکھتا ہے کہ اس کے لیےبیسیوں افغانی خونوں کا چڑھاوا بھی کم ہے ان کےنقطۂ نظر میں ان تصاویر کا بھرا دکھ بھلا راجیش کھنہ کی موت کے الم سے کیسے بڑھ سکتا ہے – یہ لوگ ساری زندگی اپنے گھر میں لگی آگ کو سینکتے رہتے ہیں لیکن جب عالم اسلام کے کسی گوشے میں ایسی تصاویر ابھرتی ہیں تو انہیں اپنے زخموں پر خارش ہونے لگتی ہے ایسے لوگوں کی یہاں کمی نہیں چند ٹی وی چینلز پر بڑی بڑی بحثیں سلجھانے میں ماہر ہیں کچھ کو دنیا کالم نگار اور اینکر پرسن کا نام دیتی ہے اور بے شمار خود کو دانشور سمجھتے ہیں لیکن یہ سب ایک ہی چشمہ فکر سے سیراب ہوتے ہیں۔

ان “خدواندان عقل و فکر” نے اپنے مسائل اور دکھوں کو بھڑکا کر ، “سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ” کا تمسخر اڑا کر اور چند فیک تصاویر کا سہارا لے کر ان اصلی پرنٹس کو دھندلا دینا چاہا لیکن یہ تصاویر خود چیخ چیخ کے بتا رہی ہیں کہ برما کے مظلوم روہنگیا مسلمان کس قیامت صغریٰ سے گزر رہے ہیں – تم لاکھ دھول پھینکو یہ تصویریں بولتی ہیں کہ انکی نظروں کے سامنے خون کی ندیاں بہی ہیں ، آنسوؤں سے لدے چہرے بول رہے ہیں کہ کتنے لاشے اور جوان تڑپتے دیکھے ہیں دکھ سے اٹے جوان بتاتے ہیں کہ انکی آنکھوں کے سامنے نام نہاد “امن بردار ” بھکشوں نے ان کی ماؤں اور بہنوں کا خون کیا ہے ، ان بہنوں کے دکھ سے بھرے جسم بتاتے ہیں کہ کیسے ان کے سروں سے تاج اتار لیے گئے ، معصوم بچوں کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ کیسے انکے ماں باپ کو چیر پھاڑ دیا گیا ان تصویروں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے برما آج کا        بنا ہے ، وہی بوسینا ، وہی      و فلسطین ، وہی افغانستان اور پاکستان ٹھہرا ہے جہاں تہذیب یافتہ اور امن پسند انسان ، انسان کا شکار اس لیے شروع کر دیتے ہیں کہ انکی رگوں میں مسلم خون دوڑتا ہے۔

بلا شک آج برمی مسلمانوں کے دن دکھ سے بھرے اور راتیں زہر سے بھری ہیں ہر سانس خوف اوربھوک کا شکار ہے ایسے میں ترکی کے اسلام پسندوں نےمذکورہ دانش وری کے چہرےپر چپت رسید کرتے ہوۓ برما کا رخ کیا ہے ترکش وفد کو برمی مسلمانوں نے روہنگیا زبان میں اپنا قصہ درد و الم سنایا اور سلام ان اسلام پسندوں پر کہ جنہوں نے دل سے سنا اور مظلوم بھائیوں کے درد کو محسوس کر کے دنیا کو بتا دیا کہ یہ امت جسد واحد ہے کل یہ طعنہ دینے والے کہ ترکی پر بر سر اقتدار اسلام پسندوں کے بزرگ کبھی قاضی حسین احمد کے مہمان تھے وہ کیوں اس دکھ میں گھلےنہیں جا رہے آج اس مسیحائی کو بھی دیکھ لیں آج ایمن اردگان اور احمد داود اوغلو انگوری پھولوں کی بیل بن کر برما پہنچے ہیں اور مظلوم مسلمانوں نے اپنے دکھ اس میں چھپا لینا چاہے ہیں لیکن ان بھائیوں کے دکھ کے جنگل کو کاٹنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

مسلم دنیا کے حکمران ابھی اس سوچ کی گرفت میں ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے ٹھیکیداری نہیں لے لی کہ اپنے گھر سے اٹھ کر دوسروں کے گھروں میں تاکنا شروع کر دیں معلوم نہیں گلوبل ولیج کا نعرہ لگا کر نسل انسانی کو ایک اکائی کہنے والوں کی یہ سوچ، دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والی ظلم و بر بریت پر کیوں سکڑنے لگتی ہے۔ ترکی کےاسلام پسندوں نے ان بودی سوچوں کو پیغام دیا ہے کہ اپنی تنگ بلوں سے دستبردار ہو جائو کیوں کہ دنیا بدل رہی ہے ترکی، مصر، تیونس، لیبیا اور مراکش میں اسلام پسندوں کی فتوحات سے جسد واحد کا تصور دوبارہ سر اٹھا رہا ہے  اسلام کی نشات ثانیہ کا پھر آغاز ہوگا انشاء اللہ۔

No comments:

Post a Comment