Search This Blog

Friday, 10 August 2012

AWARA CHANDEY KA DHANDA

آوارہ چندے کا دھندا
فلاحی کام کا اعانت کار بننا بھی عبادت

ایک صاف ستھرے، صالح اور مطہر معاشرے کی تعمیر میں مساجد اور دینی مدارس کی وہی اہمیت ہے جو ایک انسانی جسم میں روح کی ہے۔ مساجد کا مقصد تاسیس ان کی اہمیت و افضلیت یہاں تک کہ ان کے متولیوںوخدمت گاروں کے اوصاف اور درجات تک کو قرآن وسنت نے الم نشرح کرکے رکھ دیا ہے۔ اس روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے یہاں خانۂ خداسے مقدس اور مطہر جگہ کوئی اور نہیں۔ یہ مساجد اصل میں مراکز رشد و ہدایت ہیں اور یہاں سے نور کی وہ کرنیں پھوٹتی ہیں جن سے تاریک دلوں میں حق کی قندیلیں روشن ہوا کرتی ہیں۔روزِاوّل ہی سے ملت اسلامیہ کی علمی ، قومی اور روحانی ترقی میں ان مراکز کا نمایاں کردار رہا ہے۔ خانہ کعبہ کو وداع کہنے کے بعد مدینہ طیبہ میں اپنے مقدس قدم رکھنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا کام ایک مسجد کی تعمیر ہی تھا۔ یہی مرکز عبادت بھی تھا اور یہاں ہی ملکی، قومی اور بین قومی مسائل کا تجزیہ بھی ہوا کرتا تھا، مسلم معاشرے کوپیش آمدہ مشکلات اور ان کے حل پر بھی یہاں ہی غور ہوا کرتا تھا، یہی روزمرہ زندگی کے وہ امور انجام پا تے تھے جن کو امت کو وقتاً فوقتاً سامنا رہتا تھا۔ غرض انسانی نفوس کی تطہیر و تزکیہ سے لے کر مسلم معا شرے کے جملہ مسائل اور معاملا ت میں مسجدوں کا رول ناقابل فراموش رہا ہے۔بالکل اسی طرح دینی مدارس ومکا تب کے کردا ر کو ہر زمین وزمن میں امت مسلمہ کی علمی تشنگی دور کرنے، فہم دین کا اُجالا پھیلا نے، فقہی مسائل میں رہنمائی کر نے کے بین بین یہ ادارے انسانی ارواح کے ارتقاء اور اخلاق کو سنبھالنے ، سنوارنے اور علم ومعرفت کے نور کی برساتیں برسانے میں ہمیشہ ملت کے لئے لازم وملزوم رہے ہیں۔ ان کی تاریخ بھی کچھ کم درخشندہ نہیں۔ دارارقم اور صفہ سے چلی یہ سنہری تاریخ برابر آ ج تک اپنا سلسلہ دراز تر کرتی چلی آرہی ہے اور تا قیام قیامت جا ری رہے گا۔ صدیوںپر پھیلی یہ تاریخ برابر اپنا سلسلہ وسیع سے وسیع ترہوتی چلی آرہی ہے۔ڈیڑھ ہزار سے زائد برس پرمحیط اس تاریخ کاہر باب درخشان و تاباں نظر آرہا ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کا فرمان ہے کہ علم کی ضرورت اکل و شرب سے بھی زیادہ ہے، یہ ہر سانس پر اپنی ضرورت کا احساس دلاکے ہی رہتا ہے ۔ چنا نچہ جگہ جگہ قرآن و سنت نے اس لازوال دولت کے حصول پر زور دیا ہے۔مشہور سیرت نگار سید سلیمان منصورپوریؒ کے بقول’’حال ایک منہ زور گھوڑا ہے، اگر اس کے منہ میں علم کی لگا م نہیں تو وہ اپنے سوار اور پھر اپنی ہلاکت کا موجبب بنتا ہے‘‘ ۔ماضیٔ بعید میں کٹیوں اور گھاس پھوس کی جھونپڑیوں میں فرش خاک پر بیٹھ کر آسمان علم پر آفتاب و ماہتاب کی طرف فروزاں عقبری شخصیات نے طالبان علوم نبوتؐ کی ایسی تربیت کی کہ رہتی دنیا تک ان نیک نام تشنگان علم کی عظمتوں کا ڈنکا بجتا رہے گا۔ فاقہ مست، خرقہ پوش اور خشک نان جویں پر گزارہ کرنے والے ان سعید رو حو ں نے دنیا میں اتنی بڑی علمی، اخلاقی اور اصلاحی تحریکیں چلائیں کہ اب تک ان کے عزم و ہمت تفقہ فی الدین اور زہد و تقویٰ کے محیرالعقول واقعات ایمان میں تازگی اور روح میں حلاوت پیدا کردیتے ہیں۔ سیم وزر سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا، بس زندہ رہنے کی حد تک روکھی سوکھی کھالی اور اپنے کام سے کام رکھا۔بادشاہوں کے درباروں میں ان کی حاضری تو دور کی بات خود بادشاہوں کی اپنے یہاں آمد بھی انہیں مغموم بناتی تھی ۔ہمارے انہی علمائے ربانین اور طالبان علوم نبوت صلعم کو دیکھ کر علامہ اقبالؒ نے کہا تھا ’’ ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو ان ہی مکتبوں میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا وہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کے آچکا ہوں، اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوں سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ میں 800 برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈروں اور الحمراء کے سوا اسلامی تہذیب کے آثار کے سوا کوئی نقش نہیں ملتا ، یہاں بھی تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘۔غرض کسی بھی زمانے میں دینی علوم سے منسوب ان اداروں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، نظر انداز کیا گیا تو یہ اپنی شناخت پر ضرب کاری ہوگی۔ علوم اسلا می کے مراکز کایہ سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔
 شکر ہے کہ ہمارے یہا ں بھی ان مدارس کا فیض اور اجا لا پھیل رہا ہے۔ ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ بھی ہو رہا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو تا کہ کوئی مربوط نظام اس حوالہ سے تر تیب دیا جا تا جس سے ان کے تمام وسائل مجتمع ہو تے تاکہ ان کا زیادہ بہتر استعمال ہو تا جس کے صلے میںعلوم نبوی ؐ کے ان درباروں کا فیضان دوچند ہو جاتا۔ یہ بات کہنے میں چندا ں مضائقہ نہیں کہ ان اداروں سے وابستہ ملت کے ددر مند اور مخلص و بہی خواہ سربراہان کو آ ج نہیںتو کل سرجوڑ کر اس سلگتے مسئلہ کی گہرائی میں جاکر اس کے مستقل حل پر سنجیدہ غور فکر کر نا ہو گا اور جدید انتظا میا ت کی ا یسی موثرتدابیر اختیار کرنا ہوں گی کہ اس کے نتیجے میںجہا ں ان اداروں میں زیر تعلیم طلباء کی اخلاقی ودینی اور بدنی نشود نما کے لئے بھی نورانی کاوشیں ہو رہی ہوں وہ بارآ ور ثابت ہوں،وہا ں ادارے سے فراغت حا صل کر نے کے بعد انہیں اس کار گہۂ حیات میں معاش کمانے میں کسی گمبھیر مسئلے کا سامنا ہو، یہ آ زاداور با اعتما د ہوکر اپنا روزگار عزت ِ نفس کے ساتھ کما سکیں، نہ یہ کہ انہیں بحا لت مجبوری یہ ضرورت پیش آئے کہ غیر ضروری طور ایک اور مدرسے کی تا سیس کر کے اپنا آ زوقہ کما ئیں اور بد لے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ما لی اور انسانی وسائل کی تقسیم کا مو جب بنیں ۔ اس کے لئے میری ناقص رائے میں ضروری ہے کہ ان شاندار دینی اداروں کے سسٹم میں اس حد تک جدید کاری کی جا ئے کہ ان کا تشخص بھی صحیح سالم رہے اور ان میں زیر تعلیم بچے علم دین کے حصول کے ساتھ ساتھ حتی المقدور مفید مطلب کسب و ہنر سے بھی لیس ہو ں تا کہ معاشرے میں ان کے اصل مقام ومرتبہ میں بال برابر بھی تخفیف نہ ہو ، ان کی عزتِ نفس پا ما ل نہ ہو اور وہ سر اٹھا کر خودداری سے جینے کے ہروصف سے ما لا مال ہوں۔ اس حوالے سے میر ی دانست میں طلبا ئے دین کو جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہو نے کے تما م گُرسکھا ئے جا نے چاہیے اور انہیں جملہ منافع بخش پروفیشنز کی تربیت دینا لا محالہ ہے ۔ اس سے مو جودہ فتنہ ساما ں دور میںان میں یہ احساس تقویت پا جائے گا کہ اوّل وہ کسی سے کم نہیں ، دوئم دنیا کے طالب سونے کو چھوڑ کر مٹی کا سودائے خام کرتے ہیں جب کہ وہ دینی علوم کے شناور بن کر دین اور دنیا دونو ں حیثیتو ں میں رول ماڈل ہو نے کا اعزاز رکھتے ہیں۔یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ یہ عزیز طلباء مدارس سے فارغ ہوکر چا ر ونا چار سیدھے مساجد کا رخ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر مسجد کا متولی، مہتمم اور مقتدی عالم دین، انسانی نفسیا ت کا ماہر، علوم فقہ سے بہرور نہیں ہو تا ، اس لئے ان سے کچھ بھی متوقع ہے ۔اس تکلیف دہ صورتحال کے دباؤ میں بالفرض ا گرکسی فارغ شدہ طا لب علم کو خلوصِ نیت سے یہ سوجھے کہ ایک اور مدرسہ کا قیام عمل میںلا کر ہی وہ اپنا حلال روزی کما سکتا ہے تو وہ ادارہ قائم کر کے اپنی حلا ل روزی روٹی کما نے کی پو زیشن میں آ تا ہے مگربا رہا اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اوّل مخیر حضرات پر مزید مالی بو جھ بڑھتا ہی بڑ ھتاہے ، دوم نت نئے مسائل بھی پیدا ہو جا تے ہیں۔ حق بات یہ ہے کہ مدارس کے مالی وسائل کا سارا انحصار چندے پر ہی ہو تا ہے البتہ اس بات کا نا جایز فایدہ اٹھاکر بعض ٹھگ اور ننگ ملت افراد بھی فرضی مدرسوں کے نام پر شد ومد سے چندہ جمع کر کے اسے بلا لومت لائم ہضم کر جاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ جو مالی امدا د کے حقیقی طور مستحق ہو تے ہیں ان کے مسلمہ حق پر ڈاکہ زنی ہو تی ہے۔ اس بد ترین مسئلے کا حل ڈھونڈتے ہو ئے سرکردہ مدارس کے سر براہو ں نے رابطہ مدارس کا انتظام کیا تھا لیکن عوام پھر بھی فرضی مدارس کے رسید بک لے کر بستی بستی نگر نگر پھر نے والو ں کے چنگل میں آ رہے ہیں ۔
ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک آتے ہی چوک چوراہوں ، گاڑیوں بسوں میں یہ جو ہم نئی نسل کو یتیم خانو ں کے رسید بک ہاتھوں میں لئے پھرے دیکھ لیتے ہیں ، بلکہ کہیں کہیں آٹورکھشوں اور سومو گا ڑیو ں پر لاوؤ اسپیکر فٹ کر کے اونچی آواز میں گانے بجا کر آ وارہ چندہ مہم میں جان ڈالی جا تی ہے۔یہ سب کچھ ہمارے ملی ّوجود پر ایک رکیک حملہ ہی نہیں بلکہ اس تما شے کو دیکھ کر غیر مسلوں کو شایدیہ تا ثر جاتا ہو گا کہ رمضان خاکم بدہن مسلما نو ں کو گداگری سکھاتا ہے۔ ریاستی حکو مت اگر واقعی اب اس ضمن میں اپنی ذمہ داریو ں کو محسوس کر تے ہو ئے غیر مستند یتیم خانو ں کے بارے میں اقدام کر نے پرسنجیدہ سوچ بچار کر رہی ہے تو اس کی سراہنا کی جا نی چا ہیے۔ بہرکیف حساس ذہن علمائے کرام کے ساتھ ساتھ سنجیدہ ذہن سما جی اصلا ح کا روں کے لئے یہ ساری سچویشن ایک اہم لمحۂ فکریہ ہے ۔ میر ی تجو یزیہ ہے کہ اس سیلاب کو مؤثر طورروکنے کے لئے متعلقہ دینی وفلا حی رہنما ؤ ں کو چاہیے کہ وہ تمام معتبر اداروں کی ایک فہرست مرتب کر یں اور ایک سسٹم کے تحت انہیں چلانے اور مالی استحکام کے لئے منصوبے ترتیب دیں، اورعوام النا س سے چندہ جمع کرنے کے بارے میں ایک قابل عمل ضا بطۂ اخلاق وضع کریں ، با لخصوص رواں چندہ مہم کی رسواکن رمضانی یلغار کو ہمیشہ ہمیش کے لئے ختم کرنے کے اقدامات کا ایک لا ئحہ عمل ترتیب دیں۔
 آ خر پریہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہماری مساجد ، مدارس اور یتیم خا نو ں کی تعمیر اور انتظام وانصرام و غیرہ کے حوالے سے یہ بھی یہ کچھ کم ستم شعاری اور بے حسی نہیں کہ ہم اپنے مکانوں اور بنگلوں پر لاکھوں کروڑوں خرچہ برداشت کرلیتے ہیں لیکن تعمیر مسجد ہو یا مستند مدرسے یا کسی فلا حی رضا کا ر ادارے کے مصارف اورما لی ضروریات ہو ں تو ہم کنگا ل اور مفلوک الحال بنے پھر تے ہیں۔ ظاہر ہے اس ذمہ داری کے بارے میں جب ہم تجاہل عافانہ سے کام لیں تو مدرسے ،ادارے اور مسجد والو ں کی چوک چوراہے پرآ کر چندہ جمع کر نے کی نو بت آ ہی جا تی ہے ،جو بذات خود بہت ہی معیوب بات ہے ۔ میرے خیال میںکسی محلہ میں اگر تیس چالیس گھر ہیں ،کیا ضرورت ہے کہ مسجد ایک ساتھ تین منزلہ بنے ؟ رفتہ رفتہ مرحلہ وار بھی اس کی تعمیر ہو اور اہالیان علاقہ ایثار اور انفاق فی سبیل اللہ کے جذ بے سے معمور ہو کر اس کے لئے منصوبے ترتیب دیں تو مسجد کی تعمیر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔ اپنی بستی اور کا لونی سے دور رسید بک لے کر مسجد کی تعمیرکے لئے ’ امداد کرو امداد کرو‘ کی رٹ لگانا میر ے نا قص خیال میں مسلمان معاشرے کے شایا نِ شان نہیں۔ ہماری خودی اور عزت نفس کو کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بھی ملّی کام آن پڑے تو ایک دم کشکول ہاتھ میں لئے ہم سڑکوںاور چوکوں ، چوراہوں میں آجاتے ہیں؟ آخر ہم میں کب ڈسپلن ، نظم اور منصوبہ سازی کی صلاحیت کب پیدا ہوگی ؟
 ہاں! اپنے سماج میں یتیموں ، بیواؤں اور مفلسوں کی بڑھتی تعداد دیکھ کر برسوں قبل ایک مرد خود آگاہ جناب عبدالخالق ٹاک زینہ گیر ی مرحوم نے ایک یتیم ٹرسٹ کی بنیاد ڈالی، کام خلوص کی بنیاد پر کیاگیا تھا، ملت کا صاحبِ ثروت طبقہ ہی نہیں بلکہ دانشور و علما ء اوردیگر حضرات نے بھی نے آگے آکر انہیںہر طرح کا تعاون دیا۔ مشکلات کے پہاڑ عبور کرتے ہوئے اس فقیرانہ زندگی بسر کرنے والے نباضِ وقت نے اپنے فلا حی کام کے خاکوں میں رنگ بھرنے کا عمل جاری رکھا اور آج بہت سارے یتامی ٰاور بے آسرا لوگ اس ٹرسٹ کے توسط سے سکون کا سانس لے رہے ہیں ۔ نا مساعد حالات کے سبب کام چونکہ مزید بڑھ گیا، اس سماجی کام کے میدان میںکچھ اور ایثار پیشہ معتبر نام سامنے آئے ہیںاور چراغ سے چراغ جلتا ہی جا رہا ہے ۔ حق یہ ہے کہ آ ج بعض یتیم خا نے ایسا شاندارکر دا رادا کر رہے ہیں کہ ان کے لئے فرداًفرداً یہ ضرور تو شۂ آ خرت بنے گا لیکن کیا کیجئے اپنے یہاں کے ان استحصالی عناصر اور چور اچکو ں کا جو ہرخیرکے کام میں ٹانگ اڑاکر نیک جذ بات کا استحصال کر تے ہیں اور اپنے پیٹو ں میں آگ کے گولے بھر تے پھرتے ہیں۔ ایسا کر نے سے وہ نہ صرف اپنی عاقبت خراب کر ہے ہیں بلکہ جو نیک نیتی سے انسانیت کا چراغ روشن کر نے کی بے لو ث آ رزو رکھتے ہیں عوام کی نگاہ میں وہ تک بھی شک کے دائرے میں آ جا تے ہیں ۔ ایک اور زاویۂ نگاہ سے ہمارا معاملہ کچھ الٹا ہے ۔ مثلاً سال کے گیارہ ماہ میں نہ سہی رمضان میں حقیقی اداروں کے ساتھ ساتھ بالضرور فرضی اور جعلی فلا حی ادارے بھی شہر و دیہات میں جگہ جگہ آٹو رکھشاؤں اور چھوٹی گاڑیوں میں لاؤڈ اسپیکر نصب کرکے نہ جانے کن فرضی یتیموں اور بیواؤں مسکینو ں کے غم میں یہ ڈاکو گھلنے کی ناٹک بازی کرتے ہیں؟ اپنے کام دھندے کو ہمدری کاتڑ کہ لگا نے کے لئے یہ دلسوزنغمے سنا سناکر سادہ لوح عوام کو دام فریب میں لاتے ہیںاور رٹی رٹائی فرضی داستانیں سناتے ہیں کہ پہاڑوں کاسینہ بھی شق ہوجائے۔ یہ عمل پہلے ہی مشکوک تھا اور آ ج بھی کوئی عقل کا کچا ہی ان پر اعتماد کر سکتا ہے ۔
یہ حالت زارہے اور یہ ہے ہمار اانفرادی و اجتما عی کردار۔ عام لوگ تو ’ خدا وندایہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں ‘کے مصداق محو ِفکر ہیں کہ آ خر اس ساری رام کہانی کا کیا کیا جائے؟ ٹھگو ں سے رمضان کے مہینہ میں بھی دھوکہ دہی ، جعلسازی او ر فریب کاری کی عادت نہیں جاتی، آخر کب ان میں جفاکشی، غیرت، محنت کرنے کا جذ بہ اور مسلما نا نہ عزم وارادہ کی صفات پیدا ہوں!!!بہر حال یہاں ملت سے وابستہ ہر ذی ہو ش فرد اس بارے میںآگاہ رہے کہ دینی تعلیما ت کی روشنی میں جو مدات اللہ کی راہ میں خرچ کر نے کے مدات خود اللہ نے قرآ ن میںمقرر کئے ہیں، ان پر ہر حال میں اسی ترتیب کے ساتھ سال بھر دل کھول کر خرچ کیا جا ئے جو دین ہمیں بتا تا ہے ۔ ہمیں چا ہیے کہ ان مدات کے مستحقین کو ہمارے دروازوں پر دستک دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آ ئے بلکہ ہم خود ان کے پاس اسلا م کے سکھلائے طریق کار کے مطابق ان کی مالی کفا لت کر نے میں اپنی خیرات و صدقات وقف رکھیںاور ان کی ہمچو قسم کی امدادی کامو ں اور سرگرمیو ں میں ہا تھ بٹاکر خدمت خلق اللہ میں اسلامی شان کے ساتھ عمل پیرا ہو ں۔ ساتھ ہی ہمیں بیک بینی ودو گوش غلظ کار و استحصا لی عنا صر اور پیشہ ور بھکاریوںکے حوالے ایک دمڑ ی بھی خر چ نہ کر نی چا ہیے۔ اسی میں ہماری دنیوی اور اخروی بھلا ئی کا سامان مخفی ہے۔نیز اسی طرزعمل سے آ وار چندے کا دھندا چلا نے والو ن کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔
courtesy Kashmir Uzma Srinagar

No comments:

Post a Comment