Search This Blog

Wednesday, 31 October 2012

ILM HAQAIQ AUR AHDAF

علم۔۔۔۔۔حقائق اور اہداف



ایک طالب علم ، ایک استاداور ایک محقق کے لیے علم کی حقیقتوں کا ادراک و احاطہ کرنا ہر دور میں نا ممکن رہا ہے اور آنے والے زمانوں میں بھی اس کی وسعتوں کو فکر کے سانچوں میں ڈھالنا محال ہی ثابت ہو گا۔ انسان کا ذہن انتہائی محدود اور اس کائنات میں مناظر و مظاہر کا علم لا محدودہے۔ زمین و آسمان کی پہنائیوں میںاشیأ کی حقیقت کو سمیٹنا، ان کی ہیئت و صورت پر غور و فکر کرنا، ان کو تجربہ گاہوں میں لے کر تجزیہ و تحلیل کے عمل سے گذارنا، یہ سب کچھ اپنی جگہ درست ، لیکن بالآخر دنیا کا ایک ذہین ترین انسان افلاطون پکار اُٹھا۔ " I know only I know that I know nothing"میں جانتا ہوں ، بس اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں جانتا ہوں ۔ علم کی درجنوں قسمیں ہیں ، لیکن خاص علوم میں دینی اور دنیوی، ظاہری اور باطنی مشرقی اور مغربی مشہور بھی ہیں اور معروف بھی۔ عجیب بات ہے کہ آج تک کسی نے جنوبی اور شمالی علوم کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ کہیں ان کا اتہ پتہ ہے۔ مشرق چونکہ روشنی کے سب سے بڑے مرکز کا مقامِ طلوع اور مغرب اس کا بظاہرِ مقامِ غروب ہے، اسی لیے لوگ مشرقی و مغربی علوم کا ذکر کرتے ہیں ۔ ابن بطوطہؔ نے علم کو دو خانوں میں تقسیم کیا تھا، علم اُلادیان اور علم اُلابدان۔ بہر حال علم جتنے بھی ہیں اور جس موضوع اور جس خطۂ زمین سے بھی تعلق رکھتے ہیں ، اصل میں انسانی وحدت ، بقائے باہمی، اور اس عظیم خالقِ ہستی سے اپنا تعلق جوڑنے اور اپنے آپ کو اس کے قریب تر کرنے کا دوسرا نام ہے۔ علماء کا درجہ نہایت بلند ہے۔ ان کی کوششوں سے ہی دنیا کے کتب خانے آباد ہو گئے، اندھیرے اجالوں میں بدل گئے۔ غور و فکر، محنت و مشقت اور مشکلات برداشت کر کے انہی عالموں ، فاضلوں ، محققوں اور دانشوروں نے علم و حکمت کے چراغ روشن کیے، جن سے آج کا انسان محظوظ ہو رہا ہے۔ عبدالکریم شہر ستانی نے اپنی ایک کتاب ’’مِلل و نَحل‘‘ میں لکھا ہے۔ ’’بو علی سینا کا طریقہ اپنی متانت کے ساتھ دقیق بھی ہے اور اسکی نظر حقیقتِ اشیأ کی معرفت میں زیادہ عمیق بھی۔ تمام حکما و اَطبأ کا پیشوا سمجھا گیا‘‘۔ انکی علمی محنت و مشقت کے بارے میں یہ شعر مشہور ہے    ؎
پنجاہ و دو سال صرف کردم شب و روز
معلومم شدکہ ہیچ معلوم نہ شد
یعنی اپنی زندگی کے باون سال شب و روز اسی علمی کام میں لگا دئیے لیکن پھر بھی یہی معلوم ہوا کہ کچھ نہیں معلوم ہوا۔ تین سو سال تک بو علی سینا کی کتاب’’القانون فی الطب‘‘ یورپ کے میڈیکل کالجوں کے کورس میں انگریزی ترجمے کے ساتھ شاملِ نصاب تھی۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اقبالؒ بوعلی سینا کی علمی کاوشوں کو داد و تحسین دے چکے ہیں لیکن حضرت جلال الدین رومیؒ کے علم و عرفان کو ہی اقبال کامیابی سے ہمکنار تصور کرتے ہیں    ؎
بُو علی اندر غبارِ ناقہ گم
دستِ رومیؔ پردۂ محمل گرفت
بو علی، علم و حکمت کی اونٹنی کی راہ کے گردوغبار میں گم ہے۔ رومی کے ہاتھ نے اونٹنی (سواری) کا پردہ پکڑلیا ہے۔ (یعنی رومیؔ منزل مراد پا گیا)وہ علم جو منزل مراد کی رہنمائی کے بجاے گمراہی کی طرف لے جائے وہ علم نہیں بلکہ عشق و آہ کے سرمایے کے لیے راہزن کا کام کرتا ہے۔ علم اگر بدگوہر  اور کج فطرت بنتا ہے تو اقبال اسے حجابِ اکبر (بہت بڑا پردہ) قراردیتے ہیں ۔ کتنے عالم، فاضل ،دانشور ایسے بھی ہیں جو فقظ نِری دانشوری، ریاکاری، عیاری اور جہاں داری کے لیے اپنے علم کا ستعمال کرتے ہیں اور ایسے بھی عالم و فاضل موجود ہیں جو علم کے نام پر جہل، دجل، دقیانوسیت اور قدامت کے ایسے اسباق پڑھاتے ہیں کہ روشنی کے اس دور میں انکے علم و ہنر پر کفِ افسوس ملنا پڑتا ہے۔ ہمارے گردوپیش میں ہزاروں پروفیسر، ڈاکٹر اور آفیسر موجود ہیں جن کے پاس علم اور تحقیق کی بڑی بڑی ڈگریاں ہیں ۔ وہ اپنی تعلیم اور تحقیق کو باضابطہ سر راہِ بیچ دیتے ہیں ۔ اور ان لوگوں سے بھی یہ سماج محروم نہیں ہے،جو علم کو عام کرنے، تعلیم کے نور کو پھیلانے ، انسان سازی اور مردم دوستی کو بڑھا وا دینے اور صالح قدروں کی آبیاری کرنے میں اپنی طاقت ، توانائی ، صلاحیت اور وقت کو استعمال میں لا کر علم کے حقیقی وارث اور خادم بننے کی سعی و جہد کر رہے ہیں ۔
آج کی دنیا کو ایک بار پھر اسی علم کی روشنی سے منور ہونا ہے، جس علم کی بنیاد خدا کے انتہائی پاکباز، صالح، سچے اور ہر اعتبار سے کامل بندوں نے استوار کی ہے، ورنہ آج کا علم اور تعلیم انسانی شکل میں وحشیوں ، درندوں ، اور مادیت کے پرستاروں ے ہاتھوں میں آچکا ہے    ؎
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم توجدھر چاہے اسے پھیر
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر
اقبال ؒ)
-----------
رابطہ:-اقبال انسٹی ٹیوٹ  یونیورسٹی آف کشمیر 

ISLAH TALAB NIZAM TALEEM

اصلا ح طلب نظامِ تعلیم
ترقی کا ضامن اُجالوں کا حامی


کئی دہائیوں قبل کے تعلیمی نظام اور آج کے ایجو کیشن سسٹم میں ایک بہت بڑ ی خلیج صاف صاف نظر آ تی ہے ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاںہے کہ کتنے بڑ ے اور معروف اسکالر، سائنس داں، جج، وکیل، ڈاکٹر،انجینئر اور دیگر اعلیٰ عہدیدار،لیڈران،شعراء وادباء نے اپنے کیریئر کی تعمیر کے لئے کسی پرائیوٹا سکول یا کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ انہوں نے سرکاری اسکولوں سے تعلیم حاصل کی اور کا رزار حیا ت  کے مختلف شعبوںمیں ممتاز ہو گئے کہ آ ج بھی ان کی صلا حیتوں اور کنٹربیو شن کی مثا لیں فخراً دی جا تی ہیں مگر آج کل ہماری نئی نسل تعلیم اچھے نامی گرامی نجی تعلیمی ادارو ں میں تعلیم وتدریس کا فیضا ن حاصل کر کے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہی چلی جاتی نظر آرہی ہے۔ جہا ں تک سر کا ری تعلی،ی ادارو ںکا تعلق ہے ان کا خدا ہی حا فظ ہے ۔ ان میں کو ئی ڈھنگ کا کا م نہیں ہو تا ۔ حا لا نکہ بجٹ کا ایک وافر حصہ اسی مد پہ خر چ ہو تا ہے اور بڑ ی بڑی تعلیمی اسکیمیں اور پروجکٹ کروڑ و ں رو پے کا صر فہ اٹھا کر طمطرا ق سے شروع کئے جا تے ہیں تا کہ علم و آ گہی کے چراغ ہر سو اجا لا کر یں لیکن یہ سب ہا تھی کے دانت جیسی با تیں ہو تی ہیں ۔ یہ الگ معا ملہ ہے کہ سیا سی ایوانو ں سے لے کر عوامی اجلا سوں میں حکو متی اکا بر ین گلا پھا ڑ پھا ڑ کر شرح کوخو اندگی بڑ ھ جانے کے بلند با نگ چر چے اور اعداد وشمار کے گو رکھ دھندوں سے اپنے ’کا ر ہا ئے نمایا ں‘کا ڈھو نڈرا پیٹ کر اپنی دھا ک بٹھا تے ہیں ۔یہ بات خم ٹھو نک کر کہی جا سکتی ہے کہ سر کا ری اسکو لی نظا م ایک ڈھکو سلہ ہے جو تعلیم کے نا م پر ایک بد نما دھبہ ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اسکولوںاور کالجوں میں تعلیم دینے والے اساتذہ کرام یا نظام سنبھالنے والے حکمران اور افسر شاہی یا پھر پورا سماج؟ اس نکتے پرایک واقعاتی اور مبنی بر صدا قت تجزیہ کیا جا ئے تو معلوم ہوگا کہ اس خرابی میں کو ئی ہی ایک واحد ذمہ ادر نہیں بلکہ یہاں کے عوام ،یہاں کے حکمران ، بیرو کر یسی اور اساتذہ حضرات سب اس میں برابر کے شریک ہیں۔
جہا ںتک عام لوگوں کی ذمہ داری کا سوال ہے، اس سلسلے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے دانستہ یا نا دانستہ غفلت برت رہے ہیں۔شہر ہو یا گائوں،قصبہ ہو یا دیہات، میدانی علاقہ ہو یا پہاڑی علاقہ جہاں بھی سرکاری اسکول قائم ہو،وہاں کے رہنے والے لوگ اپنے بچوں کو اسکولوں میںداخلہ تو دلواتے ہیں مگر اس کے بعد ان پر بچے اور بچی کی ذ ہنی نشونما اور اخلا قی تربیت کے حو الے سے کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں،اس کی طرف زیا دہ تروالدین یا افراد خا نہ تو جہ دیناگوارہ نہیں کرتے۔اپنے بچے اور بچی کی اصلا ح کا رانہ دیکھ ریکھ، اسکول سے ان کے واپس لوٹنے کے بعد ان کی پڑھائی کے متعلق جان کاری حا صل کر نا، پڑھائی لکھا ئی اور دیگر غیر نصا بی سر گرمیو ں میں ان کا حال چال اور سب سے بڑ ھہ کر اساتذہ کی کارکردگی جیسے اہم نکا ت کو در خوراعتناء ہی نہیں سمجھتے نہیں۔ اسکو ل میں بچہ اور بچی کی مشغولیت کیا رہی ، ان کی دلچسپی کن امور میں بڑ ھ رہی ہے اور ان کا اٹھنا بیٹھنا اور میل جول کس طرح کے گھریلو ، سما جی اور ذہنی پس منظر رکھنے والے دوسرے ہم جماعتیوں کے ساتھ بڑ ھ رہا ہے، ان چیزوں کی طر ف متوجہ ہو نا ایسے والدین کا گو یا کو ئی فرض ہی نہیں ہو تا ۔ حتی ٰ کہ یہ لو گ یہ تکلف بھی نہیں کر تے ذرا سادیکھیں کہ آ یاان کے بچے یا بچیاں اسکول جاتے بھی ہیں یا نہیں،وہ اسکول کا ہوم ورک کرتے بھی ہیں یا نہیں۔ان باتو ں کی طرف والدین کی توجہ بھلا کیسے ہو جب کہ اس نا پائیدار دنیا میںجائز و نا جا ئز طریقوں سے دولت کمانے کی فکر سے ہی تقریبا ً سب لوگوں کو فرصت ہی نہیں ملتی۔ حا ل یہ ہو توبھلا وہ اپنے بچوں کی کیوں کر فکر کرسکتے ہیں؟
اگر چہ سبھی لوگ اس لا ٹھی سے ہا نکے نہیں جا سکتے میںشامل نہیں ہیں کیو نکہ محنت، ایمان داری اور مشقت سے چا ر پیسے کمانے والے بھی ہمہ وقت اپنے کام دھندے میں مصروف ہو ے کے با عث اپنے اسکو لی بچوں اور بچیو ں کی جانب پو ری یا جزوی تو جہ بھی نہیں دے پا تے ۔ پا پی پیٹ کے ہا تھو ں مو جو دہ کمر توڑ مہنگا ئی کے زما نے میںمجبو راً ہی سہی یہ بھی ان کی طرف عدم تو جہی کے مر تکب ہو نے کے الزام سے بچ نہیں سکتے ۔  یو ں والدین بھی غیر شعوری عالم میں اپنے لخت ہا ئے جگر کی تباہی کا سامان خود مہیا کرتے ہیںاور بعد میںخودان کاخمیا زہ بھی بھگتے ہیں۔ بچو ں کو حد سے زیا دہ لا ڈ پیا ر دینااور اپنی ما لی استطا عت سے ما وراء بچوں  اور بچیو ں کو بلا ضرورت ان کی ضد یا فر ما ئش پر تمام سہولتیں انہیںمیسر رکھنا بھی بچے کو تعلیم وتر بیت کے نور سے دور لے جا نے بلکہ الٹابگاڑنے کا سبب بننا لازمی ہے۔ آج سے تقریباً تیراہ یا چودہ برس پہلے جب ہم اسکول جاتے تھے تو کبھی کبھی میلوںپیدل چل کر سفر کرنا پڑتا ،جیب خالی ا ورورد ی پھٹی ہوئی،ایک دوسرے کی کتابوںسے پڑھائی کرتے یااُدھار کتابوں سے کام چلاتے تھے۔ یہ کو ئی ڈھکی چھپی با ت نہیں کہ ہما رے یہا ں آج کل جتنے بھی بڑ ی شخصیات مثلا ً معروف ڈا کٹر ، انجینئر، صحا فی ، دانشور ، جج، وکیل، اسکالر، فلاسفر، پروفیسرا وردیگر اعلیٰ آفیسران حضرات زند گی کے مختلف میدانوں میں اونچا مقام رہیںسبھی ان ہی حالات میںتعلیم وتعلم کا نورحاصل کر چکے ہیں۔ البتہ یہ بات نظرانداز نہیں کی جا سکتی ہے کہ خود ان کی محنت ، ذہا نت ، سنجیدگی کے اوصاف پر والدین کی بہتر نگرانی، کا ر آ مد اخلا قی فضا ، مذ ہبی ماحول اور سب سے اول ایک متوازن نظام تعلیم کا ان کی شخصیت بنا نے میں بڑا اہم رول ہے۔ والدین با لخصوص ان پر کڑ ی نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ اکثر ایسے بھی ہیں جو خود فاقہ کشی کرتے تھے مگر بچوں کی تعلیم وتر بیت کے ساتھ کو ئی چھو ٹا سا بھی سمجھو تہ نہ کر تے ۔ یہی ایک تعمیری جذبہ تھا جسے بچہ بھی اپنی رگ رگ اور نس نس میں موجز ن کرتا تھااور بڑے شوق و ذوق سے دل لگا کرکے ساتھ پڑھتا لکھتاتھا۔اپنے والدین کے حالاتِ زندگی خصوصی طور ان کی غریبی اور وآ رزوئیں کبھی اس کی آنکھوںسے اوجھل نہیں ہوتی تھیں۔اس لئے وہ بھی ہمت اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے اپنے ماں باپ کے خون پسینے کی کمائی کا احترام کرتا تھا۔ وہ اپنے بڑوںکے نقش قدم پر چل کر ایمان داری،نیک نیتی، محبت اور خلوص کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوںکو جاری رکھتا تھا اور معاشرے کے لئے فوائد کا ایک بحر بیکراں بن جا تاتھا ۔
 اساتذہ حضرات بھی ان دنوں حلال خوری اور احساس ِ ذمہ داری میں یکتا ئے روز گا ر تھے۔ اپنی تدریسی ذمہ داریاںنہا یت ہی خوش اسلوبی اور نیک نیتی سے نبھانا ان کی فطرت ثا نی تھی ۔وہ اسکول میںزیر تعلیم بچوںکو محض اپنا لا ڈلابچہ سمجھ کر اس کی تعلیم و تربیت میں کو ئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے بلکہ ایسے بھی مسلم و پنڈت ٹیچر گزرے ہیں جو طا لب علموں کو نہا نے دھو نے اوران کی ذا تی ضروریات پو ار کر نے میں اپنے خون پسینہ کی کما ئی کو شوق سے لتا دیتے مگر افسوس آج سب کچھ بدل گیا ہے۔ آج وہ اساتذہ ماضی کے افسانو ں میں زندہ ہو ں تو ہو ں عملا ً ان اک کو ئی وجو د نہیں،۔آ ج کا ٹیچرگزرے ہو ئے زما نے کے اپنے ہم پیشہ کا عشر عشیر تک کا کنٹری بیوشن نہیں کر ات ۔ آ ج ایجو کیشن کمر شیلائز ہو کر محض دوکا نداری اورنفع نقصان کا دھندا بن چکی ہے۔ گزشتہ برسوں سے ایسے دل آ زار واقعات بھی رونما ہو یئے جنہو ں نے اساتذہ کے عزت وقار کو ایک بہت ہی بڑ ا دھچکا دیا ہے ۔ ایسے ٹیچروں میں بے شک ایک ایسی اقلیت ہمیں قانو ن قدرت کے تحت دکھا ئی دے رہی ہے جو اپنے پیشے سے انصاف کر نے میں رشک ملا ئکہ ہیں لیکن ان کی تعداد آ ٹے میں نمک کے برا بر بھی نہیں ۔ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ ایسے  ھا ال ت میں تعلیم کا نظا م،خصوصیت کے ساتھ سرکا ری اسکولوں میں لکھا ئی پڑ ھا ئی کا سسٹم کو زنگ نہ لگے تو اور کیا ہو گا ؟
اساتذہ کرام کا پیشہ ایک عظیم اور مقدس پیشہ تھا اور تاقیام قیا مت رہے گا ۔کون انکار کرسکتا ہے کہ کل تک انسان سے انسان کی پہچان،قرآن وحدیث، مذہب و ملت کا تصور، خدا اور اس کے رسولؐ کی معرفت،صیحح اور غلط کی پہچان ، گناہ اور ثواب کا احساس،بڑوں ا ور بزرگوں کی عزت اور والدین کی خدمت جیسی شخصیت ساز باتیں تو یہی اساتذہ سکھاتے تھے،اور دینی و دنیوی مفید باتوں سے ہمکنار کراتے تھے، مگر افسوس کہ اب یہی اساتذہ اسکو ل میں جا کر کلا س روم کو ایک چٹی سمجھتے ہیں اور اگر وہا ں با دل نخواستہ جا تے بھی ہیں تو فلمو ں اور کر کٹ میچوں اور دوسری گپ شپو ں میں بچو ں اور بچیو ں کا قیمتی وقت ضائع کر نے میں کو ئی مضا ئقہ نہیں سمجھتے ۔ہے۔جس سما ج کا استاد بدل گیا، اس کا دل بدل گیا، اس کا جذبہ بدل گیا، اس سما ج کا زوال شروع ہو اور اس کا ضمیر بر با د ہو ا۔ آج کے اساتذہ حضرات اسکولوں کے بجائے گھروں میں نام نہاد تعلیم  وتدریس کی داکا ن سجا تے ہیںوہ بھی محض تجارت یا لوٹ مچا نے کی بنیاد پر۔ ہفتے میں دو دن سکول آنااور وہ بھی ۱۲بجے سے دو بجے تک،جب کہ پرائیو یٹ کوچنگ سنٹروں میں اپنا وقت بڑے شوق سے گزارتے ہیں۔ کو ئی افسر ان کو  روکتا تو کتا نہیں کیو نکہ یہ پہلے ہی ان کی جیب میں تے ہیں۔ اب ان کو فکر ہو تو کا ہے کی ؟
سرکاری اسکولوںمیں غیر تسلی بخش تعلیمی نظام ہونے کے علاوہ ان میں زیر تعلیم بچوںاور بچیو ں کے لئے اکثر وبیشتر کسی بھی قسم کی سہولت کا انتظام نہیںہوتا۔بچھانے کے لئے فرش کا نہ ہو نا، ٹوٹی پھوٹی عمارتیں ، موسمی حالات سے بچنے کے واسطے دروازوں، کھڑکیوں یا شیشوں فقدان ، کلاس روموں میںبچوں کی تعلیمی ضروریات کی عدم دستیا بی، یہا ں تک کہ پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی اور بیت الخلا کی نا یا بی کا مسئلہ بھی ان اسکولوںکے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے۔پلے گراؤ نڈ کا نہ ہو نا، یا اگر یہ مو جو د ہو تو کھیل کو دکے سامان کامیسر نہ ہونا، سائنس تجربہ گاہ میں ضروری سامان کی عدم مو جو دگی بھی ان اسکولوں سے طلباء وطالبات کو تعلیم یا تو خام رکھ چھو ڑتا ہے یامنہ اس سے موڑنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔ ایسی صورت حال میں سرکاری اسکولوں میںتعلیمی نظام کا روبہ زوال ہونا طے ہے ۔ اس پر طر ہ یہ کہ روزنئے نئے تعلیمی نصاب کا ادلنابدلنا ، اور پھرط یہ نصاب جب اساتذہ کی سمجھ سے باہر ہوتو بھلا طلباء کی کیا درگت ہوگی، وہ بات نے کی ضرورت نہیں۔اسکولوں میںاساتذہ کی تقرری، تبادلے ،نظم و ضبط،وقت کی پابندی کا خیال رکھنا اعلیٰ حکمرانوں کا ہی کام تھامگر جہا ں تک  اعلیٰ تعلیمی حکا م کا تعلق ہے وہ کبھی بھی ان اسکولوں کا رُخ نہیں کرتے ہیں،جس کی وجہ سے سرکاریا سکول محض ایک تماشابنے ہوے ہیں۔ حاصل بحث یہ کہ یہاں کے تعلیمی نظام کو ابتر کرنے اور زوال پذیر کر نے میںتینوںطبقے شامل ہے۔اگر ان تینوں طبقوں میںذرا بھربھی انسانیت، دیانت داری اور جذبۂ تعمیرموجودہو تو اس کو بروئے کارلاکریہ بات کوئی مشکل نہ رہے گی کہ تعلیمی نظام بہتر ہو جائے اور ہمارے عزیز و شفیق تعلیم کے نور سے منور ہو سکیں۔ یہ سب کچھ تبھی حاصل ہو سکے گا جب یہ تینوں طبقے سرکا ری ا سکولوں میں بچوں کے داخلے سے لے کر ان کی مو زوں ذہنی نشو نما کے لئے ایک دوسرے کے ستھ تعاون کر یں۔اساتذہ اپنے پیشے کو مقدس فرض سمجھ کر نبھائیں۔والدین یا یہاں کے عوام اسکولوں میں ہورہے تعلیمی کام کاج میں مداخلت کرنے سے پرہیز نہیں کریںاور حکام اسکولوںمیں ہمہ گیرسدھار لانے کے لئے اپنے تما م افرادی وقت کو استعمال کر یں اور ان کو پر کشش بنانے کی خاطر وہ تمام تر تعلیمی سہولتیں میسر کرنے میںدیر نہیں کرنی چاہیے ۔ سایھ ہی ساتھ ہیڈ آف دی انسٹی ٹیوٹ کو اس سلسلے میںپورے اختیارات دئے جا ئیں تاکہ وہ نچلے سطح پر بھی عوام کی خدمت کر سکے۔ واضح رہے اس تعلیمی نظام کو سدھارنے کی خاطر سماج کے ہر فرد کو اپنی اپنی جگہ کوشش کرنی ہوگی ( بالخصوص نوجوانوںکو )،چاہے وہ کوشش انفرادی سطح پر ہوں یا اجتماعی سطح پرتب جا کر اس نطام کی آ لا یشٔیںاور آ میزیشٔیںقصہ پا رینہ ہو ں گی ۔………………
رابطہ:-گوفہ بل، کنزر ۔ٹنگمرگ، کشمیر
ishfaqparvaz@hotmail.co.uk

Maulana Shoukat Ali

courtesy: UrduTimes Bombay

Tuesday, 30 October 2012

CHAND - HAMARA NAZDEEK TAREEK HAMSAYA

چاند۔۔۔۔۔۔ہمارا نزدیک ترین ہمسایہ


چاند ہماری زمین کااکلوتا سیارہ ہے۔ زمین سے تقریباً دو لاکھ چالیس ہزار میل دورچاند کا قطر 2163 میل ہے۔ چاند کے متعلق ابتدائی تحقیقات گلیلیو نے 1609ء میں کیں۔ اس نے بتایا کہ چاند ہماری زمین کی طرح ایک کرہ ہے۔ اس نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ چاند پر پہاڑ اور آتش فشاں پہاڑوں کے دہانے موجود ہیں۔ اس میں نہ ہوا ہے نہ پانی۔ جن کے نہ ہونے کے باعث چاند پر زندگی کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے۔ یہ بات انسان بردار جہازوں کے ذریعے ثابت ہو چکی ہے۔ دن کے وقت اس میں سخت گرمی ہوتی ہے اور رات سرد ہوتی ہے۔ یہ اختلاف ایک گھنٹے کے اندر واقع ہو جاتا ہے۔چاند کادن ہمارے پندرہ دنوں کے برابر ہوتا ہے۔ یہ زمین کے گرد 29 یا 30 دن میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔ چاند کا مدار زمین کے اردگرد بڑھ رہا ہے یعنی اوسط فاصلہ زمین سے بڑھ رہا ہے۔ قمری اور اسلامی مہینے اسی کے طلوع و غروب سے مرتب ہوتے ہیں۔ چاند ہمیں رات کو صرف تھوڑی روشنی ہی نہیں دیتا بلکہ اس کی کشش سے سمندر میں مدوجرز بھی پیدا ہوتا ہے۔ سائنس دان وہاں سے لائی گئی مٹی سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چاند کی ارضیات زمین کی ارضیات کے مقابلے میں زیادہ سادہ ہے۔ نیز چاند کی پرت تقریباً ایک میل موٹی ہے۔ اور یہ ایک نایاب پتھر اناستھرو سائٹ سے مل کر بنی ہے۔چاند کی ہیت کے متعلق مختلف نظریات ہیں، ایک خیال یہ ہے کہ یہ ایک سیارہ تھا جو چلتے چلتے زمین کے قریب بھٹک آیا، اور زمیں کی کشش ثقل نے اسے اپنے مدار میں ڈال لیا۔ یہ نظریہ خاصہ مقبول رہا ہے، مگر سائنسدانوں نے اعتراض کیا ہے کہ ایسا ممکن ہونے کے لیے چاند کو ایک خاص رفتارسے زمین کے قریب ایک خاص راستے پر آنا ضروری ہو گا،جس کا امکان بہت ہی کم ہے۔موجودہ دور میں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ 4.6 بلین سال پہلے ایک دمدار ستارہ زور دار دھماکے سے زمین سے ٹکرایا، جس سے دمدارستارہ اور زمین کا بہت سا مادہ تبخیر ہو کر زمین سے نکل گیا۔ آہستہ آہستہ یہ مادہ زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے اکٹھا ہو کر چاند بن گیا۔ پانی اور ایسے عناصر جو آسانی سے اُڑ سکتے تھے نکل گئے، اور باقی عنصر چاند کا حصہ بنے۔ اس نظریہ کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ چاند کی کثافت زمین کی اوپر والی مٹی کی پٹیوں کی کثافت کے تقریباً برابر ہے، اور اس میں لوہا کی مقدار بہت کم ہے۔ کیونکہ دمدارستارے کا آہنی حصہ زمین میں دھنس گیا تھا جو زمین کا آہنی گودا بنا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک نئی تھیوری پیش کی ہے جس کے مطابق چاند کبھی زمین کا حصہ تھا جو کسی دوسرے سیارے سے ٹکرانے کے نتیجے میں وجود میں آگیا۔ سارہ سٹوارٹ اور میتجا نے جو نال میگزین میں جاری رپورٹ میں دونوں سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ان کی پیش کردہ نئی تھوری اس بات کی وضاحت کرے گی کہ زمین اور چاند کی مسافت اورکیمسٹری ایک جیسی کیوں ہے۔ نئی تھیوری کے مطابق چاند کے   وجود میں آنے کے وقت زمین آج کی نسبت نہایت تیزی سے گردش کررہی تھی اس وقت دن صرف دو یا تین گھنٹے رہتا تھا۔ اتنی تیزی سے گردش کی وجہ سے کسی دوسر ے فلکی جسم کے ساتھ ٹکر کے نتیجے میں چاند وجود میں آگیا۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بعدازاں زمین سورج کے گرد اپنی مدار اور زمین کے گرد چاند کے مدار کے درمیان کشش ثقال باہمی تعامل کے ذریعے موجود ہ شرح کے گردش پر پہنچ گئی۔
چاند کی تسخیر20 جولائی 1969ء کو نیل آرم سٹرانگ وہ پہلے انسان تھے جس کے قدم چاند پر پڑے۔چاند کی حقیقت سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ عام نظریہ یہ ہے کہ یہ زمین سے جدا ہوا ہے۔ چاند پر ہوا اور پانی نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہاں سبزہ وغیرہ ہے۔ چاند پر سب سے پہلے اپالو 2 اتارا گیا تھا۔ اس کی سر زمین سے جو نمونے اکھٹے کئے گئے ان کے مطالعے سے پتہ چلا ہے کی ان میں کثیر مقدار میں لوہا، ٹیٹانیم، کرومیم اور دوسری بھاری دھاتیں پائی جاتی ہیں۔
چاند پر کالونیامریکا 2020ء تک چاند کے جنوبی قطب پر ایک کالونی کے قیام کا ارادہ رکھتا ہے ناسا کے مطابق اس کا مقصد نظامِ شمسی کے بارے میں دریافتوں کی غرض سے مزید انسان بردار مشن روانہ کرنا ہے۔ 1972ء  کے بعد یہ کسی انسان کو چاند کی سطح پر بھیجنے کا پہلا منصوبہ ہے۔ قومی ہوائی و خلائی انتظامیہ (این اے ایس اے) نے کہا ہے کہ یہ طویل المدتی منصوبہ دنیا کے 14 خلائی اداروں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔ کشش ثقل اس کی کشش ثقل  force gravitational  زمین کی نسبت چھ گنا کم ہے۔ چودہ دنوں میں سورج اس پر چمکتا ہے تو اس کا درجہ حرارت 120 ڈگری فارن ہائیٹ پر جا پہنچتا ہے۔زمین سے ہمیں ہمیشہ چاند کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی محوری گردش اور چاند کے زمین کے اردگرد گردش کا دورانیہ ایک ہی ہے۔ ہمیں زمین سے کسی ایک وقت میں چاند کا تقریباً41 فی صد حصہ نظر آتا ہے اگر چاند پورا ہو۔ مگر یہ حصہ کچھ بدلتا ہے اور ہم مختلف اوقات میں چاند کا نصف سے کچھ زیادہ حصہ ملاحظہ کر سکتے ہیں جو 59 فی صد بنتا ہے مگر ایک وقت میں 41 فی صد سے زیادہ نظر نہیں آ سکتا۔ زمین سے چاند کا اوسط فاصلہ 385000 کلو میٹر ہے جو افزائشِ مدوجزری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اگر زمین چاند اور سورج کے درمیان آ جائے تو جزوی یا مکمل چاند گرہن لگتا ہے۔ اس وقت چاند سیاہ یا سرخی مائل نظر آتا ہے۔ اگر چاند سے زمین کو دیکھا جائے تو زمین ہمیشہ آسمان میں ایک ہی جگہ نظر آتی ہے۔تحقیق کاروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ چاند جیسے مزید سیاروں کا وجود ہو سکتا ہے محققین کا کہنا ہے کہ زمین کے چاند کی مانند نظامِ شمسی سے باہر ستاروں کے گردگردش کرنے والے سیاروں کے بھی اپنے چاند ہو سکتے ہیں۔ان کے مطابق ایسے سیاروں میں سے ہر دس میں سے ایک کا چاند کی طرح کا اپنا سیارہ بھی ہو سکتا ہے۔ہمارا چاند نسبتاً بڑا ہے اور اس کا سائز زمین کے ایک چوتھائی حصے کے برابر ہے۔ اب تک سمجھا جاتا تھا کہ زمین کے گرد چکر لگانے والے چاند کا وجود اپنے آپ میں انوکھی بات ہے۔لیکن لگتا ہے کہ اب ایسا نہیں ہے۔کمپیوٹر کے ذریعے سیاروں کی تخلیق کے عمل کو دہرا کر تحقیق کاروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایسے بڑے دھماکے جس کے نتیجے میں چاند وجود میں آیا تھا عام ہو سکتے ہیں اور چاند جیسے مزید سیاروں کا وجود ہو سکتا ہے۔اس تحقیق سے ایسے دوسرے سیاروں کی نشاندہی کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو شاید زندگی کے لائق ہوں۔گزشتہ برس میونخ یونیورسٹی اور امریکہ کی کولاراڈو یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے بھی کمپیوٹر کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کی کہ سیاروں کی تخلیق کس طرح گیس اور پتھروں سے ہوتی ہے۔خیال ہے کہ چاند کی تخلیق بھی زمین کی تاریخ کے ابتدائی اوائل میں ہوئی تھی جب مریخ کے گرد گھومنے والا ایک سیارہ زمین سے آ ٹکرایا تھا۔ یہ سیارہ زمین کے گرد چکر لگانے لگا جسے بعد میں چاند کہا جانے لگا۔میونخ یونیورسٹی کے پروفیسر سباستین ایلسر کا کہنا ہے کہ چاند کے حجم کے سیاروں کے اندازوں کے بعد نظامِ شمسی سے باہر موجود سیاروں کا پتہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چاند کی موجودگی سے زمین کے ماحولیات پر ایسا اثر پڑا ہے جس میں زندگی کی تخلیق آسانی سے ہو سکے۔
چاند کا مدارچاند زمین کے اردگرد 27.3 دن میں چکر لگاتا ہے۔ اس کے راستے کو چاند کا مدار کہا جاتا ہے۔ چاند زمین کے مرکز سے اوسطاً 385000 کلومیٹر کے فاصلے پر 1.023 کلومیٹر فی سیکنڈ کی اوسط رفتار سے چکر لگاتا ہے۔ عمومی سیارچوں کے برعکس اس کا چکر خطِ استوا کے مستوی کی بجائے اس مستوی کے قریب ہے جس میں زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ چاند کا مدار بڑھ رہا ہے یعنی زمیں سے اوسط فاصلہ زیادہ ہو رہا ہے۔ اسے افزائش مدوجزری کہا جاتا ہے۔ کئی لاکھ سال پہلے چاند کی محوری گردش کا دورانیہ اس کے زمین کے گرد ایک چکر پورا کرنے سے زیادہ تھا مگر زمین کی کشش نے چاند کی محوری گردش کی رفتار کم کر کے اسے اس طرح محدود کر دیا ہے کہ اس کی محوری گردش کا دورانیہ زمین کے گرد مدار میں ایک چکر پورا کرنے کے برابر ہو چکی ہے۔
چاند اور زمینزمین سے ہمیں ہمیشہ چاند کا ایک ہی رخ نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی محوری گردش اور چاند کے زمین کے اردگرد گردش کا دورانیہ ایک ہی ہے۔ ہمیں زمین سے کسی ایک وقت میں چاند کا تقریباً 41 فی صد حصہ نظر آتا ہے اگر چاند پورا ہو۔ مگر یہ حصہ کچھ بدلتا ہے اور ہم مختلف اوقات میں چاند کا نصف سے کچھ زیادہ حصہ ملاحظہ کر سکتے ہیں جو 59 فی صد بنتا ہے مگر ایک وقت میں 41 فی صد سے زیادہ نظر نہیں آ سکتا۔ زمین سے چاند کا اوسط فاصلہ 385000 کلو میٹر ہے جو افزائشِ مدوجزری کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ اگر زمین چاند اور سورج کے درمیان آ جائے تو جزوی یا مکمل چاند گرہن لگتا ہے۔ اس وقت چاند سیاہ یا سرخی مائل نظر آتا ہے۔ اگر چاند سے زمین کو دیکھا جائے تو زمین ہمیشہ آسمان میں ایک ہی جگہ نظر آتی ہے۔ 

EID RUKHSAT HUI MAGAR

عید رُخصت ہو ئی مگر
کہ قربانی خو شی کا دیبا چہ

 آ ج عید الاضحی کا چو تھا دن ہے۔ہر سال کی طرح ہم نے اس عید کے مو قع پر نما ز عید ادا کی ، قربانیا ں پیش کیں ، یار دوستوں ، ہمسایو ں اور رشتہ داروں کے گلے ملے ، عید خریداریا ں کیں ، دینی اور فلا حی ادراوں اور رضا کا ر تنظیموںکو قر با نی کی کھا لیں اور چندے کی صورت میں اپنے اپنے ظرف کے عین مطا بق ما لی امداد کی ، خطیبو ں اور مقررین کی زبا نی فلسفۂ عیدپر خوب تقریریں سنیں ، عید پیغامات کی بھر ما ر دیکھی ، عید اشتہا رات کا پلندہ نظروں سے گزرا اور عید مبا رک دینے والے دوستوں اور متعلقین کے فون کا لز ار ایس ایم ایس بھی ہماری مشغولیا ت کا حصہ بنیں ۔ غرض وہ سارے رسم اور دستور خود بخود اعادے کی پٹری پر روایتی ترتیب سے سفر کرتے رہے جو اس متبرک مو قع پر ہمیشہ سے ہو تا چلا آ یا ہے اور آ گے بھی چلا جا تا رہے گا ۔ البتہ عید الا ضحی کے مسر آگیں لمحات کے پس پردہ کیا راز واسرا اور کیا الو ہی پیغام پو شیدہ ہے، کیا اس طرف ہما ری تو جہ گئی اس با رے میں کو ئی زیا دہ خو ش امیدی نہ ہو نے کے با وجو د اس با ت سے انکا ر کی مجا ل نہیں ہو سکتی کہ بعض خو ش نصیب لو گ ، چا ہے ان کی تعداد کتنی ہی کم کیو ں نہ ہو ، آ ج بھی عیدین کے اصل درس میں زیا دہ منہک رہتے ہیں۔ وہ جا نتے ہیں کہ عید کی خو شیا ں اپنے ساتھ کتنی بھا ری بھر کم ذمہ دا ریو ں کا بو جھ ہما رے کندھے پر ڈال جاتی ہیں ۔ ان ذمہ دارو ں کو ایک ہی لفظ میں ادا کر نا ہو تو یہ لفظ قر با نی کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا ۔ 
قُربانی اعلیٰ ترین انسانی قدر (Human values) ہے۔ اسی کی کوکھ سے تمام روابط ورشتے پھوٹ پڑتے ہیں، پروان چڑھتے ہیں اور زندگی کی کشمکش وگہما گہمی میں رَس گھول دیتے ہیں۔ بندے اوررب کا تعلق، ماں باپ اور اولاد کا رشتہ، زن وشو کی با ہمی رفاقت، رفیق وہمدم کی معیت، اقارب واعزہ کی شرکت، پڑوسی اور پڑ وسی کی محبت … یہ سب میل مو انست کی صورتیںہیں جن کی اساس قربانی اور جذ بۂ ایثارپر ہی اٹھتی ہے۔ عام طور پر ایک انسان قر با نیو ں کی مشقت اس لئے اٹھا تا ہے کیو نکہ ان سے اس کے ذاتی مفادا ت اور دلچسپیوں کا سر شتہ بند ھا ہو تا ہے۔ اس وجہ سے ان کا وہ مز ا کہاںجو خا ص طور اولو العزم انسانو ں کو اس نو ع کی انمول قر با نی سے ملتا ہے جو اپنے چھو ٹے بڑ ے مفاد یا نجی دلچسپی  کے خم خا نہ سجا نے کے لئے بلکہ کسی اور اعلی وارفع مقصد کے ضمن میں دی جا تی ہے ۔ اس حو الے سے تاریخ انسا نیت میں ہمچو قسم کی قر با نیو ں کے ایے ایسے معرکو ںکی مرقع آ را ئیا ں ملتی ہیں جن کو دیکھ کر آج کے اس ما دی دوڑ دھو پ والے اس دور میں کسی بھی با لغ نظر انسان کو روحانی تسکین اور جذ با ت کی تشفی کا سامان مہیا ہو تا ہے ۔ ان تما م اوراقِ پر یشاں کو اگر یک جا ملا کر کتاب کی تربیب دی جا ئے تو اس کا سر نا مہ صرف دو ہی عظیم الشان پیغمبرانہ ہستیوں… خلیل اللہ حضرت ابراہیمؑ  اور آ ں جنا ب کے فرزند ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل ؑ… کے نا م نا می سے ہی تر تیب پا ئے گااور با قی تما م اونچی اونچی ہستیوں کی قر با نیا ں اسی کتا ب ِ ایثار کے اوراق اور حو اشی قرار پا ئیں گی ۔  اللہ تعالیٰ نے بظا ہران دونو ں با پ بیٹوں کو ایک کڑی آزمائش کی بھٹی میں اپنی کا ر گا ہِ مشیت کا اتما م کر نے کے لئے جھونک دیا…لیکن سوال یہ ہے کہ آ خرکیوں؟ علما ئے کرام اس کا سیدھا جو اب یہ دیتے ہیں کہ صرف اور صرف اس واسطے کہ پروردگار عالم اور خالق کائنات آنجنابؑ کا اپنی ذاتِ بابرکت کے تئیں محبت وعقیدت جو مومنانہ زندگی کا شعار اور وطیرہ ہے اور جو ’’قربانی‘‘ ہی کے بطن سے پھوٹ پڑتا ہے کا جائزہ لے سکے اور عالم انسانیت کو قربا نی کے باب میں ایک رول ما ڈ ل عطا کرے… قربانی ہی رزمِ گاہِ حیات کا وہ ناقابل تسخیر اسلحہ ہے جو کٹر سے کٹر دشمن کو زیر کر کے دوستوں اور رفیقوں کے صف میں کھڑا کرتا ہے۔۔۔ قر با نیو ں کی اس مثا لی نقش ِ راہ کو اپنی سیر ت طیبہ ؐ کا اوڑھنا بچھو نا بنا نے والے پیغمبر اسلامؐ کی جلو ت ہا ئے حیا ت کو  دیکھ کر آ دمی ورطہ ٔ حیر ت میں پڑ جا تا ہے کہ اسوۂ حسنہؐ میں کس طر ح میں ابو لا انبیا ء حضرت ابرا ہیم ؑ کی مہک گندھی ہو ئی ہے ۔ یہ آ پ ؐ کے اخلا ص اور ایثا ر کی ہی معجزہ نما ئی ہے کہ کٹر سے کٹر دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تٔیں عقیدت واحترام میں سراپا اطا عت ہو ا، قربانی کا یہی بیش قیمت جذبہ ہی تو تھا جس نے اندھیا روں میں بھی ہر خاص وعام کی زبان سے آپ ؐ کیلئے ’’الامین‘‘’’والصادق‘‘ ہی کے درخشندہ القاب دلو ائے ۔  
یہ آ پؐ کے مجسمہ ٔ ایثار و قر با نی ہو نے کے اخلاقِ حمیدہ اور اوصاف کریمہ کی جلو ہ گر ی ہی تو تھی جس نے لڑاکو اور جا ہلیت پسندقوم کے درندہ صفت انسانی گوشت پوست کے پیکروں کو :میرے صحابیؓ آسمان ِ ہدایت کے تابناک ستارے ہیں… کے مقام علو یت پہ لا کھڑا کیا۔آپؐ کا یہ آبِ حیات ’’قربانی‘‘ ہی کے راستوں سے رواہو  سلا م اس پر کہ جسنے گالیاں سنکر دُعائیں دیں ۔ گالیوں کا جواب دعائوں سے دینا ’’قربانی‘‘ نہیں تو اور کیا…قربانی ہی وہ قالب ہے جس میں ماں کی ’’مامتا‘‘ ڈھل کر اس نورانی پیکر کے پائوں تلے جنت جیسی ابدی آرام گاہ کی حسین وجمیل شکل اختیار کرتی ہے۔ ’’قربانی‘‘ ہی وہ جو ہر عظیم ہے جسکا پیکر بن کراصحاب رسولؐ ’’رضی اللہ عنہم ورضو عنہ‘‘ کے عظیم ترین صف میں کھڑا نظر آتے ہیں… ایک مفکر نے کیا خوب فرمایا ہے کہ قربانی کے ذریعہ تعمیر، یہ قدرت کا ایک عالمگیر قانون ہے۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ قدرت کا یہی اصول مادی دُنیا کیلئے بھی ہے اور یہی اصول انسانی دنیا کیلئے بھی… درخت کیا ہے، ایک بیج کی قربانی۔ ایک بیج جب اپنے کو فنا کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے تو اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ سر سبز وشاداب درخت زمین پر کھڑا ہو۔ اینٹو ں سے اگر آپ پُوچھیں کہ مکان کس طرح بنتا ہے تو وہ زبانِ حال سے یہ کہیں گی کہ کچھ اینٹیں جب اس کے لئے تیار ہوتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کیلئے زمین میں دفن کردیں، اس کے بعد ہی وہ چیز اُبھرتی ہے جس کو مکان کہتے ہیں۔۔۔ عمارت میں ایک گنبد ہوتا ہے اور ایک اس کی بنیاد، گنبد ہر ایک کو دکھائی دیتا ہے مگر بنیاد کسی کو نہیں دکھائی دیتی کیونکہ وہ زمین کے اندر دفن رہتی ہے مگر یہی نہ دکھائی دینے والی بنیاد ہے جس پر پوری عمارت اور اس کا گنبد کھڑا ہے۔۔۔ یہی حال انسانی زندگی کی تعمیر کا ہے۔ انسانیت کے مستقبل کی تعمیراس وقت ممکن ہوتی ہے جبکہ کچھ لوگ اپنے کو بے مستقبل دیکھنے پر راضی ہو جائیں، ملت کی ترقی اس وقت ہوتی ہے جبکہ کچھ لوگ جانتے بُوجھتے اپنے کو بنے ترقی کرلیں۔۔ قربانی یہ ہے کہ آدمی ایک نتیجہ خیز عمل کے غیر مشہور حصہ میں اپنے کو دفن کردے۔ وہ اپنے کام میں اپنی کوشش صرف کرے جس میں دولت یا شہرت کی شکل میں کوئی قیمت ملنے والی نہ ہو، جو مستقبل کیلئے عمل کرے نہ کہ حال کیلئے۔ وہ اپنے کو دفن کرکے قوم کیلئے زندگی کا سامان فراہم کردے، مقصد کی رفعت ہی قربانی کی کمیت ونوعیت کو متعین کردیتی ہے۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام کو عالمی اسلامی تحریک کی سربراہی وپیشوائی کا منصب جلیل جب ہی ملا جب اس مقصد عظیم کی راہ میں آپؑ نے اپنی تمام تر پونجی اور اپنا تمام تر اثاثہ خوشی خوشی لٹا دیا… مقصد کی راہ میں باپ سے، قوم سے، معبودانِ باطل سے، بادشاہ وقت سے، اپنے وطن سے اعلان برأت…اسلامی تاریخ کا عنوان ہی ’’قربانی‘‘ہے
غریب و سادہ ورنگین ہے داستانِ حرم
 نہایت اس کی حسینؓ ابتداء ہے اسماعیلؑ
بوڑھے باپ نے اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیلؑ کے گلے پر چھری رکھ کر جس بے مثال و بے مثیل قربانی کی ابتدأ کی، حضرت حسینؓ نے اسی قربانی کا نتیجہ کر بلا کے ریگزار میں اپنی اور اپنے اہل وعیال کی شہادت کی شکل میں عالمِ انسانیت کے سامنے پیش کیا۔ حضرت حسینؓ کی اس عظیم قربانی کوعلامہ مشرقؔنے یوں اشعار کا جامئہ رنگین پہنا دیا ہے    ؎
بہر حق در خاک و خوں غلطیدہ است
پس نبائے لالٰہ گردیدہ است
سرِ ابراہیمؑ واسماعیل بود
یعنی آں اجمال راتفصیل بود
ابراہیمؑ واسماعیلؑ کی اجمالی قربانی کی تفصیل امام حسینؓ نے ہی کربلا کی تپتی زمین پر پیش کی۔ واضح ہو ا کہ اسلام ’’قربانی‘‘ ہی کا دوسرا نام ہے۔ ایک مفکر یہ کیا خوب فرمایا ہے’’خدا کے نزدیک اس کا سب سے محبوب بندہ وہ ہے جو اپنی تمناوں کو اس کے لئے دفن کردے، جو اپنے آرام کو اس کی خاطر چھوڈدے، جو اپنی مشکلات کو نظر انداز کر کے اُس کی طرف چلا آئے، دنیا میں کسی شخص کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ یہاں کیا کچھ حاصل کر لے بلکہ کامیاب دراصل وہ ہے جو خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ لُٹا دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا ’’ سب سے افضل جہاد کونسا ہے؟آپؐ نے فرمایا ’’ وہ شخص جو اپنی بہترین سواری لے کر نکلا اور میدانِ جنگ میں اس کا گھوڑا مارا گیا اور وہ خود بھی شہید ہوگیا‘‘۔گویا سب سے زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہے جو بالکل لٹا ہوا اپنے رب کے پاس پہنچے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کو اسکے اوپر انڈیل دیگا‘‘ ابراہیمؑ کے رب نے آنجنابؑ سے فرمایا اَسلِم (اسلام لے آ۔ اپنے اپ کو میرے سپرد کردے۔ میرا ہوکررہ) تو جوباًآنجنابؑ نے فرمایا اسلمت لرب لعالمین (میں نے اسلام قبول کیا۔ میں نے اپنے آپ کو اسکے سپرد کردیا۔ میں رب العالمین کا ہو کررہا)…سید مودودیؒ اس قول وقرار کے ضمن میں رقمطراز ہیں’’اس قول وقرار کو اس سچے آدمی نے تمام عمر پوری پابندی کے ساتھ نبا کردیا۔ اسے رب العالمین کے خاطر صدیوں کے آبائی مذہب اور ایسی رسموں اور عقیدوںکو چھوڑا اور دنیا کے سارے فائدوں کو چھوڑا۔ اپنی جان کو آگ کے خطہ میں ڈالا، جلا وطنی کی مصیبتں سہیں، ملک ملک کی خاک چھانی، اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ رب العالمین کی اطاعت اوراس کے دین کی تبلیغ میں صرف کردیا اور بڑھاپے میں جب اولاد نصیب ہوئی تو اس کے لئے بھی یہی دین اور یہی کام پسند کیا‘‘ حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کا خلاصہ اور لُبِ لباب کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے’’امتحان وآزمائش‘‘ جس کے لئے قرانِ حکیم کی جامع اصطلاح ’’ابتلائ‘‘ہے اور جب آزمایا ابراہیمؑ کواس کے رب نے بہت سی باتوں میں تو اُسنے ان سب کو پورا کردیا‘‘(البقرہ:۱۲۴) حیات دنیاوی بھی ربانی ارشاد کے مطابق ابتلاء وآزمائش ہی تو ہے ’’وہ جس نے پیدا کیا قوت اور زندگی کو کہ تمہیں آزمائے کہ کون ہے تم میں سے اچھا عمل کے اعتبار سے‘‘(الملک:۲) ابتلاء وآزمائش کی راہ قربانیوں اور جانثاریوں کی ہی تو راہ ہے اور قربانیوں کی راہ میں آنجنابؑ (جیسا کہ اوپر عرض کیا) ہر مرحلہ اور ہر گام پر سرخرو ہی نکلے۔ ہم جن حالات میں عیدالاضحی گزار رہے ہیں وہ حالات انتاہی گھمبیر، انتہائی بھیانک، انتہائی حوصلہ شکن اور انتہائی روح فرساہیں۔ ہرسو آتش وآہن، قتل وخون، عفت وعصمت کا چاک دامن، کٹی گردنیں، لٹی لٹی عصمتیں، غیر یقینی صبح وشامیں، غیر محفوظ ساعتیں عیدالاضحی ایسے مقدس ترین ملی تہوار کو گھیری ہوئی ہیں۔ جانوروں کی قربانی جو اس روز ہم اللہ کے حضور اُسی کی رضا وخوشنودی کیلے پیش کرتے ہیں وہ سادہ طور قربانی نہیں بلکہ ربانی ارشاد کے مطابق ’’اللہ تک نہیں پہنچتا ان قربانیوں کا گوشت یا خون، ہاں اُس تک رسائی ہے تمہارے تقویٰ کی‘‘(الحج:۳۷)
یہاں تقویٰ کے کے معنی ہیں؟تقویٰ کے معنی کی عملی تفسیر وہی نیت ہے جو ہم جانور کو ذبح کرتے وقت اپنی زبان سے یو ادا کرتے ہیںــ:میری نماز، میری قربانی، میراسم عبودیت، میری زندگی، میری قوت سب اللہ رب العالمین  ہی کے لئے ہے…گویا جانور کی قربانی ایک معنوی حقیقت کی ظاہری علامت ہے۔ اسی شخص کی قربانی حقیقی معنوں میں قربانی ہے جو جانور کو ذبح کرتے ہوئے اپنے وجود، اپنے اثاثہ اور مختصراً اپنی پوری زندگی کو اللہ کی رضا کی راہ میں قربان کرنے کے لئے ہر آن کمر بستہ ہو وگر نہ یہ قربانی زیادہ سے زیادہ ایک رسم ہو سکتی ہے ابراہیمؑ کی سنت نہیں   ؎
نماز و روزہ قربانی وحج
یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے
روحِ قربانی ہمارے عمل ہی سے نہیں وہم وخیال سے بھی کب کی غائب ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ارب ساٹھ کروڑ کی ہماری مسلم آبادی بے عزتی، بے غیرتی اور بے حمیتی کی زندگی گزار رہی ہے۔ ابراہیمیؑ روح ہمارے ہاں پیدا ہو تو گلوبل سطح امت کیلئے جو آتش نمرود وآر آن ٹرر(War on Terorr) کی شکل میں دہکائی گئی ہے وہ سنتِ الٰہی ہی تحت گل وگلزار میں بدل جائے گی۔۔ ضرور بدل جائے گی انشاء اللہ۔ قربانی سے متعلق سید سلمان ندوی کے زریں خیالات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں’’ملت ابراہیمی کی اصل بنیاد قربانی تھی اور یہی قربانی حضرت ابراہیمؑ کی پیغمبرانہ اور روحانی زندگی کی اصلی خصوصیت تھی اور اس امتحان اور آزمائش میں پورا اترنے کے سبب سے وہ اور ان کی اولاد ہر قسم کی نعمتوں اور برکتوں سے مالامال کی گئی لیکن یہ قربانی کیاتھی؟ یہ محض خون اور گوشت کی قربانی نہ تھی۔ یہ ماسِواء اللہ اور غیر کی محبت کی قربانی خدا کی راہ میں تھی۔ یہ اپنی عزیز ترین متاع کو خدا کے سامنے پیش کردینے کی نذر تھی۔ یہ خدا کی اطاعت عبودیت اور کامل بندگی کا بے مثال منظر تھا۔ یہ تسلیم ورضا اور صبر وشکر کا وہ امتحان تھا جس کو پورا کئے بغیر دُنیا کی پیشوائی اور آخرت کی نیکی نہیں مل سکتی۔ یہ باپ کا پنے اکلوتے بیٹے کے خون سے زمین کو رنگین کردینا نہ تھا بلکہ خدا کے سامنے اپنے تمام جذبات خواہشوں، تمنائوں اور آرزووں کی قربانی تھی اور خدا کے حکم سامنے اپنے ہر قسم کے ارادے اور مرضی کو معدوم کردینا تھا اور جانور کی ظاہری قربانی اس اندرنی نقش کا ظاہری عکس اور اس خورشید حقیقت کا ظل مجاز تھا  ؎
اس دور پر آشوب ہیں اے عید نہ آتو
آتی ہے تو اندازِ ابراہیمیؑ سکھاجا


Sunday, 28 October 2012

QURBANI

پروفیسر مولانا محمد یوسف خان
اللہ تعالیٰ قرآن مجید سورة الحج میں ارشاد فرماتے ہیں:۔
”اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیں ، ان جانوروں پر جو ہم نے ان کو عطا کئے ہیں“
    قرآن مجید میں قربانی کیلئے تین لفظ آئے ہیں۔ ایک نسک اور دوسرا نحر تیسرا قربان ۔
نسک: یہ لفظ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے کہیں عبادت، کہیں اطاعت اور کہیں قربانی کے لئے جیسے سورہ حج کی آیت 34 میں فرمایا:۔
”اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کر دی ہے“
    یہاں یہ لفظ جانور کی قربانی کے لئے ہی آ رہا ہے کیونکہ اس کے فوراً بعد من بھیمتہ الانعام کا لفظ ہے یعنی ان چوپایوں پر اللہ کا نام لے کر قربانی کریں جو اللہ نے ان کو عطاءکئے۔ دوسرا لفظ قربانی کے لئے قران مجید میں نحر کا آیا ہے جو سورة الکوثر میں ہے:۔
”یعنی اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں“
    اور قربانی کا لفظ قرآن مجید میں سورہ مائدہ کی 27ویں آیت میں آیا ہے جہاں حضرت آدمؑ کے دونوں بیٹوں ہابیل اور قابیل کے واقعہ کا ذکر ہے۔
”یعنی آپ ان لوگوں کو آدم کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی“
    ہم اردو میں لفظ قربانی ہی عام طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں قربانی کا ایک خاص مفہوم ہے جس کا تذکرہ امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ:۔
”یعنی قربانی ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، چاہے وہ جانور ذبح کرکے ہو یا صدقہ و خیرات کرکے۔ چنانچہ عرف عام میں قربانی کا لفظ جانور کی قربانی کے لئے بولا جاتا ہے۔ قرآن حکیم کے مطابق کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا آدمؑ ہی کے زمانے شروع ہوا۔ قرآن مجید کے مطابق پہلے انبیاءکے دور میں قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی۔ جب رسول اللہ نے مدینہ طیبہ میں مقیم یہودیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی تو سورہ آل عمران کی آیت 183میں بیان فرمایا کہ انہوں نے کہا:۔
”یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا لے“
    حالانکہ یہ یہودکی انتہائی غلط بیانی تھی لیکن امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ قربانی کا گوشت ان کے لئے حلال کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت فرما دی کہ قربانی کا مقصد اور اس کا فلسفہ گوشت کھانا نہیں بلکہ ایک حکم شرعی کی تعمیل اور سنت ابراہیمی ؑ پر عمل کرتے ہوئے ایک جان کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے۔ چنانچہ واضح الفاظ میں فرمایا:۔
”یعنی اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے“
    یعنی قربانی کا گوشت کھانا کوئی مقصد نہیں بلکہ سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے خالص اللہ کے لئے جان قربان کرنا اصل مقصد ہے قرآن حکیم میں ارشاد ہوا:
”یعنی جب ابراہیمؑ کا بیٹا اسماعیل ؑاس قابل ہو گیا کہ باپ کے ساتھ چل کر ان کے کاموں میں مدد گار بن سکے تو حضرت ابراہیمؑ نے کہا: اے میرے پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتاﺅ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ سعادت مند بیٹا بھی تو خلیل اللہ کا بیٹا تھا۔ کہنے لگے: ابا جان آپ وہ کام کر گزریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ آپ انشاءاللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
”جب باپ بیٹا قربانی کے لئے تیار ہو گئے اور باپ نے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے چہرہ کے بل کروٹ پر لٹا دیا“ تو ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
”اے ابراہیم آپ نے خواب کو سچا کر دکھایا، اس کے ساتھ ہی ایک دنبہ حضرت اسماعیلؑ کے بجائے قربانی کے لئے نازل کر دیا“
    اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر ابراہیم خلیل اللہ کے اس عمل کو پسند فرما کر قیامت تک ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے قربانی ہر صاحب استطاعت پر واجب کر دی، ابراہیم خلیل اللہ کے کارناموں میں سے جو چیزیں کسی خاص مقام کے ساتھ مخصوص ہیں وہ صرف ان مقامات پر حاجی حضرات کے لئے خاص کر دی گئیں، جس میں جمرات ( کنکریاں مارنا) اور صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا اور قربانی کرنا تمام امت مسلمہ کے استطاعت رکھنے والے افراد کے لئے واجب فرمایا۔
    چنانچہ خود رسول اکرم اور تمام صحابہؓ اور پوری امت کے مسلمان ہر خطے اور ملک میں اس پر عمل کرتے رہے اور قربانی کو شعائر اسلام میں شمار کیا گیا۔ سورة حج کی آیت 36 میں فرمایا:۔
”یعنی قربانی کے اونٹ اور گائے کو ہم نے شعائر اللہ یعنی اللہ کی عظمت کا نشان بنایا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے“
    اس لئے قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق قربانی کا فلسفہ اور اس کی حقیقت یہ معلوم ہوئی کہ انسان قربانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے لئے جان قربان کرتا ہے، اس میں گوشت کھانا مقصود نہیں اور نہ اس میں ریا کاری دکھاوا آئے اور نہ کوئی اور وسوسہ آنے پائے، یہ خاص اللہ کے لئے جان اور مال کو قربان کرنا ہے۔ اور رسول اللہ کو یہ حکم دیا گیا جو امت کے ایمان کا حصہ ہے کہ:
”آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میرا مرنا اللہ کے لئے ہی ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے“
    اللہ رب العزت ہمیں اس اخلاص اور اس جذبہ سے قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

LABBAIK UMMATE WAHIDA KI PUKAR

لبیک اُمتِ واحدہ کی پکار
امامِ برحق تلاش کر کے سلامتی کی نما ز پڑ ھ لیں

حج اسلام کا بنیادی رکن ہو نے کی حیثیت سے جو اخلاقی ، روحا نی، معاشرتی ، اقتصادی ، سیاسی ، قومی و ملی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے ۔خدا وند کریم کے واضح حکم پرعلمبرداران توحیدگوشہ ہائے ارض سے جوق در جوق بری ،بحری اور فضائی راستوں سے سفر کرتے ہوئے خدا کے مقرر کر دہ اس سالانہ عالمگیراجتماعِ امت میںشریک  لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے پوری دنیا پر واضح کرتے ہیں کہ حج کایہ اجتماع مسلمانوں کی بین الاقوامی حیثیت کا عکاس ، اور ان کا امتِ واحد ہ ہو نے سب سے بلند معیار ہے۔ یہ مہتمم بالشان سالانہ اجتماع مرکز اسلام مکہ المکرمہ کے میدان عرفات میں منعقد ہوتا ہے کہ جہاں سے حق و سچائی کا چشمہ اُبلا اور اس نے دنیا کو سیراب کیا ۔بلد الامین روحانی علم و معرفت کا وہ مطلع صافی ہے جس کی کرنوں نے روئے زمین کے ذرے ذرے کو درخشاں کیااور تاقیام قیامت کر تا رہے گا ۔یہ وہ روح پرور شیرازہ ہے جس میں ملت کے وہ تمام نفوس بندھے ہوئے ہیں جو مختلف لباس پہنتے ،  مختلف تمدنوں میں زندگی بسر کرتے ہیں اور جو مختلف ملکوں اور اقلیموں میں بستے ہیں لیکن وہ سب کے سب باوجود ان فطری اختلافات اور طبعی امتیازات کے ایک ہی قبلے کو اپنا مرکز سمجھتے ہیں۔ بیت اللہ ہی وحدت کا وہ رنگ ہے جو ان تمام امتیازات کو مٹا دیتا ہے۔
حج بیت اللہ کے سامنے’’  لبیک اللہم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لاشریک لک ‘‘حاضرہوں اے میرے پروردگار !حاضر ہوں کے اعلان اور نعرے سے شروع ہوتا ہے ،فرزندان توحید لبیک کہتے ہوئے اورتوحید خالص کا اقرار کرتے ہوئے اپنی عبدیت کا صاف طور پر اظہار کررہے ہوتے ہیں۔حج کے اجتماع میں شریک وہ قولاً وفعلاً گو یااس امر کا اعتراف کررہے ہوتے ہیںکہ اے ہما رے اللہ عزوجل !تیری ذات کے سوا کسی کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان رہنااور خوشنودی حاصل کرنا ہر گز ہما را شیوہ نہیں اور ساتھ ساتھ وہ اس امر کے بھی معترف ہوتے ہیں کہ جوبھی نعمت مسلمان کو حاصل ہے وہ بس تیری ہی دی ہوئی ہے۔ یہ فرزندان توحید خدا کی اصل اور حقیقی حاکمیت کااقرار کرتے ہوئے یہ اقرار با لسان اور تصدیق با لقلب کررہے ہوتے ہیں کہ انہیں اس اصل حکمرانی کے سوا انہیںکرۂ ارض پر کسی کی حکمرانی قبول نہیں اور دنیا میںجہاں بھی تیرے دئے ہوئے نظام کیلئے تگ ودو جاری ہے وہ اس تگ ودو میں برابر کے شریک ہیں۔تلبیہ کہتے ہوئے وہ بزبانِ حال وقال یہ عہد دہرا رہے ہوتے ہیں کہ خداکے قانون کے بغیر وہ کسی بھی قانون کو ہرگز تسلیم نہیں کرتے اور نہ مانتے ہیں۔تیرے دیئے ہوئے نظام کے پابند ہیں اور اسی کے نفاذ کیلئے وہ اپنا دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ سر کا ری اعداد وشمار کے مطا بق 30لاکھ سے زائد فرزندان توحید حج کے اس اجتماع میں شریک ہوتے ہیں۔ ایک ہی وردی میں ملبوس، بن سلے دوچادروںجسے احرام کہتے ہیں اور بیک آواز اللہ کی کبریائی کے فلک شگاف نعرے بلند کرتے ہوئے ہر طرح کی اورتمام تراونچ نیچ، تفرقے، فرقہ بندی،علاقائی اور لسانی تعصبات کوعملاً حرام قرار دیتے ہوئے کندھے سے کندھا ملا کر میدان عرفات کی طرف دوڑتے ہوئے یہ حجاج بنیان مرصوص کا عملی اظہار کررہے ہوتے ہیں اور سفید لباس میں ملبوس یہ فرزندان توحید ایک اور نیک ہونے کا خدا کے سامنے عملی مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں۔ ایام حج کے دوران دور سے نظر آرہے خیموں کے اس شہر میں رہنے والوں کے درمیان کوئی تفریق نظر نہیں آتی۔
 ہم آہنگی ، یگانگت ، اتحاد اور یکجہتی کا یہ فقید المثال مظاہرہ رسمی عبادت گزاری نہیں بلکہ سماجی زندگی کا وہ سلیقہ اور شعار ہے جسے اختیار کر کے اسلام کے پیروکار ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکتے ہیں ،جس میں کوئی ظالم اور سفاک قوت شگاف نہیں ڈال سکتی لیکن کیا وجہ ہے کہ اس ساری یکسانیت، یک رنگی اور یکجہتی کے باوجود ملت واحدہ عملا ًپارہ پارہ ہے؟ حج کے اجتماع کے ذریعے مسلمانان عالم کو ایک دوسرے کے حالات جاننے ،ضرورتوں میں مدد دینے ،باہمی معلومات اور علوم و فنون سے استفادے کی صورت نکالنے، مسائل حل کرنے کے لئے اخلاص کے ساتھ سوچ بچار کرنے کی صورت پیدا کی گئی لیکن افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کو حج کے اصل مقاصد سے جان بوجھ کر بے خبر رکھا جا رہا ہے۔مسلمان حج کے اجتماع میں شریک تو ہوتے ہیں لیکن اکثر لوگ اس اجتماع کے اصل روح سے بے خبرہیں حتیٰ کہ دنیا میں جاری اسلامی تحریکوں اور ان تحریکوں سے وابستہ جانثاروں،جانبازوںاور مظلومین کے حق میںحج کے دوران جمعہ کے خطبوں اورمیدان عرفات کے اہم خطبے میں ہمدردی کاایک لفظ تک نہیں کہا جاتا،ساتھ نبھانے کی بات دور کی ہے۔ دنیا بھر میںمسلمانوں کی ایک جماعت کو مخصوص امریکہ کی وضع کردہ اصطلاح کے تحت ’’دہشت گرد‘‘کا نام دے کر قتل کیا جارہا ہے۔ انہیںمختلف بہا نو ں سے تنگ طلب کیا جا رہا ہے اورتمام مسلمان قاتل کے خوف اور ڈر سے لرزاں وترساں سہمے بیٹھے ہیں ، ستم با لا ئے ستم یہ کہ حج کے اس عظیم الشان اور سب سے بڑے عالمی اجتماع میں اس طرف مطلقاً کوئی التفات نہیں ہو رہا ہے۔حتیٰ کہ جوقبلہ اول مدت سے یہود کے قبضے میں ہے حج کا یہ مہتم بالشان اجتماع قبلہ اول کو آج تک واپس نہ سکاکیو نکہ حج کے اس عظیم اجتماع سے ملت کا ضمیر جاگ نہیں اٹھتا یا اُسے جا گنے نہیں دیا جا تا۔
 اس وقت امت مسلمہ کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔بالا دست اور طاغوتی قوتوں نے پوری ملت اسلامیہ کے مالی وسائل پر مختلف حیلوں سے قبضہ کرنے اور مسلمانوں کا مال شیر مادر سمجھ کر ہضم کرنے کو شعار بنا رکھا ہے۔دشمنان ِاسلام اپنے خوفناک اسلحہ و گولہ بارود کا نشانہ مسلم سر زمین کو بنا رہے ہیں اور خون مسلم کی ارزانی کے نت نئے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں دہشت گردی کا مضحکہ خیز الزام عائد کرنے کے بعد وہ ہمارے خلاف خبث ِباطن کے اظہار اور مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے شب و روز مصروف عمل ہیں جبکہ امت مسلمہ کے عوام و خواص دونوں ہی یہود ونصاریٰ اور دیگر ستم گران ِ زمین کے بڑھتے ہوئے مکر و فریب ، چیرہ دستیوں ، ریشہ دانیوں اور کہنہ مکرنیوں کے سد باب کی کسی عملی کوشش کی فکر سے تہی دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ بات بلاخوف و تردید کہی جا سکتی ہے کہ مسلم ممالک کے ارباب بست و کشاد کوحالات کی سنگینی کا احساس ہے نہ ہی معصوم بچوں ، خواتین اور بزرگوں سمیت امت مسلمہ کا بہتا ہوا لہو فرزندان توحید کی کسمپرسی ، لاچارگی اور بے بسی کی قابل رحم تصویر انہیں نظر آ رہی ہے۔ حج کے عالمگیر اجتما ع کے مو قع پر بھی اس حوالے سے زبا نو ں پر تا لے پڑ تے ہیں ۔ ایسا کیو ں ہو رہا ہے وہ سب پر عیاں ہے۔
ہماری اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو گی کہ آج مسلمانوں کی سر زمین مسلمانوں کے خون سے رنگین ہو رہی ہے اورمسلمان وحشیانہ مظالم کا شکار ہیں۔ ہمارے دشمن پوری دنیائے اسلام پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش منصوبہ بندی کر چکے ہیں لیکن دنیائے اسلام کی ان مسائل و معاملات پر حج کے عالمگیر میں اس پر فکری و نظریاتی ہم آہنگی کہیں نظر نہیں آتی اور ہمارے مشترکہ دشمن کے عزائم کو دن بدن تقویت مل رہی ہے۔ صلیبی علم بردار، زنا ری ظالم اور سامراجی عزائم رکھنے والے دیگر دشمنان ِدین دنیا میں ہونے والے ہر طرح کے تشدد کے پیچھے مسلمانوں کے ہاتھ کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے کر ان کے خلاف عالمی سطح پر نفرت و حقارت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔اگر پوری امت مسلمہ اپنے سیاسی طا قت،اقتصادی وسائل اور افرادی قوت کو امتِ واحدہ ہونے کی بنیاد پر یکجا کرلے تو نہ صرف اہل اسلام کا ایک نیا دور عروج وعظمت شروع ہو سکتا ہے بلکہ مسلمانوں کی محرومیوں اور مایوسیوں کا خاتمہ بھی ایک حقیقت بن کر ابھر سکتا ہے ، جس سے اسلامی تعلیمات کی برتری کا تصور تقویت پکڑے گا اور اسلام کے حلقہ اثر کو بھی فروغ حال ہو گا۔
یہ وقت ہے کہ امت مسلمہ کے صاحبانِ بصیرت بااثرشخصیات کوایام میںحج آگے آکر اپنااثرورسوخ استعمال کر کے اپنے ممالک کے حکمران طبقے کواس بات پر آمادہ کرادیناچاہیے تھاکہ وہ او آئی سی کی تطہیرکراکے اسے ملت کے مجمو عی مفاد میں زیا دہ متحرک کر یں ،اس کے کپکپاتے گھٹنوں کو تقویت بخش دوا فراہم کر کے انہیں مضبوط بنانے کے لئے اقدامات کریں،اس ملی پلیٹ فارم کی مکمل اوورہالنگ کرکے اسے تقویٰ اورپاکیزگی کے سانچوں میں ڈال کر ایک مجلس شوریٰ کی حیثیت دے دیں اور اس مجلس شوریٰ میں امت کے چنیدہ ،جیدحریت فکر کے علمبردار دانشوروں کو شامل کریںجو ملت اسلامیہ کو اپنی عظمت رفتہ یاد دلادیں، خواب غفلت سے بیدار کریںاورانہیں اغیار کی ذہنی وجسما نی غلامی سے نجات دلانے کی سطر عنوان پڑھا دیں۔ قسم باللہ امت میں ایسی بااثر شخصیات کی کوئی کمی نہیں جویہ کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں   ع  لیکن اے بساآرزو کہ خاک ۔
اس میں کوئی شبہ و ابہام نہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر امت پر مسلط حکمرانوں کے ذاتی مفادات اور امریکہ اور یورپ کی ناراضگی کے خدشات کی وجہ سے وہ خودمسلمان ممالک کے ایک متحد و منظم کمیونٹی کی صورت میں فعال ہونے کی راہ میں حائل ہیں ۔ جب تک یہ حکمران اپنی منفی فکر چھوڑ نہیں دیتے اور انہیںملت اسلامیہ کی فکر انہیں دامن گیر نہیں ہو جاتی اور اس کے بعد جب تک وہ پورے عزم بالجزم کے ساتھ امت کو متحد و منظم کرنے پر کمر بستہ نہیں ہوں گے اور دنیائے اسلام کے پاکیزہ اذہان کے حامل اہل دانش اپنی صلاحیتیں اتحاد بین المسلمین کے لئے وقف نہیں کریں گے تب تلک کبھی نتیجہ خیز اور موثر نتائج بر آمد نہیں ہوں گے۔اے کاش اوآئی سی کی مکمل اوورہالنگ کرنے کے بعداس پلیٹ فارم کو ایک مشترکہ پارلیمنٹ بناکر امت مسلمہ کو در پیش سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا حل سوچاجاتااور سلامتی سے متعلق امور پر لائحہ عمل مرتب کیاجاتااورپھراسی پلیٹ فارم کے ذریعے سے مسلمان ممالک کی مشترکہ منڈی، مشترکہ میڈیا پالیسی، مشترکہ کرنسی اور دوسرے اقدامات کے ذریعے امت مسلمہ کی فلاح وبہبود پر توجہ دی جاتی، کسی کوامت مسلمہ کے مفاد کے لئے کچھ کرنے کا سلیقہ ہوتاتوبلاشبہ ان مقاصدکے حصول کے لئے ایک باضابطہ سیکرٹریٹ قائم کرکے مسلم ممالک میں رابطے کا ایک نیٹ ورک مضبوط نظام بنایا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ اس عظیم اور بڑے کام کا آغاز مرکز اسلام مکہ مکرمہ سے حج کے عالمگیر اور عظیم اجتماع سے ہی کیا جا سکتا ہے لیکن اسلام دشمنوں کی معاشی اورسیاسی پالیسیوں نے امت پر مسلط حکمران ٹولے کی امت کی فلاح کے لئے سوچنے کی صلاحیت چھین رکھی ہے اوروہ عالمی طاغوت کے ہمہ تن ہمہ گوش نوکربن بیٹھے ہیں۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ حالات میں امت مسلمہ کی شیرازہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ مسلمان دنیا بھر کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں۔ یہ افرادی طاقت خود بھی ایک انمول دولت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں جنہیں موثر طور پر بروئے کار لانے اور درست طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے مگر مسلم ممالک میں اجتماعیت کے جذبے کے فقدان کے باعث امت مسلمہ کے وسائل بھی مسلمانوں کے کام آنے کی بجائے یہود و نصاریٰ اورہنودکے تصرف میں آرہے ہیں ۔ ہائے یہ عربستان کی دولت تیل کویہودونصاریٰ اورہنودکے حوالے کرنے کے ضمن میں عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل جیسی علاقائی سطح پر اشتراک کی انجمنیںبنیںجنہوں نے فرسودہ عرب قومیت کا نعرہ دیکرامت مسلمہ کوفائدہ دینے کے بجائے عربستان کی اس دولت کو دشمنان اسلام کے قدموں پرنچھاور کردی ۔
کاش حج کے اس عالمگیر اجتماع میں57مسلمان ممالک کے صدوریا وزرائے جو بھی ہوں بالخصوص عربستان کے حکمرانوںکوبلاکرکان پکڑ واکربٹھایاجاتا اورکعبہ کے درپران سے ناک رگڑواکرغیراللہ کی غلامی سے توبہ کروائی جاتی اور ان سے اس امر کاعہد لیا جاتا کہ آج کے بعدتمہیں اپنے اپنے مما لک میںاسلام کے دئے ہوئے عادلانہ نظام کونافذکر کے امت مسلمہ کی عظمت رفتہ بحال کرنا ہے جونہیں کرے گا اس کے ساتھ تمام قسم اورہرنوعیت کے تعلقات منقطع رہیں گے ۔اس سلسلے میںاگرچہ ٹھنڈی ہوا کاایک جھونکابہار عرب کے نام سے کئی عرب ممالک سے چل پڑا،تاہم ہماری اس آرزوکی تکمیل کے لئے ابھی تک عملی طورپر دور دورتک جلدازجلد کوئی ایسی راہ سمجھائی نہیں دیتی الایہ کہ جب خدا اس امت پر کوئی مہربانی فرمائے۔  
  دنیا بھر کے57 کے لگ بھگ آزاد خود مختار مسلمان ممالک اور ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی ان مسلمان ممالک کی افرادی قوت، قدرتی وسائل ، ان کی جغرافیائی اہمیت، دین کی بنیاد پران کے مابین فطری، نظریاتی و فکری ہم آہنگی کوزیر استعمال لانے اور فروغ دینے کے لئے مدت طویل سے اس امر کا شدت سے احساس ابھرتا ہے کہ عالم اسلام کا ایک ایساامام برحق و سربراہ حاضر و موجود ہو جو اُمت مسلمہ کو بیدار کر سکے اور اسے زوال و انحطاط سے نجات دلا سکے ۔آج جب ہم امت مسلمہ کی محرومیوں، مایوسیوں، مسائل و مشکلات کا تجزیہ کرتے ہیں تو بلا شبہ اس کے اسباب و علل میں اخوت اسلامی کے فقدان اور آپس کی ظلم و نا انصافی کے ساتھ ساتھ حج کے عظیم اجتماع کوبروئے کارنہ لانے اورآخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاحجۃ الوداع کے موقع پر فراہم کردہ چارٹرپرعملدرآمد نہ کرنا سرفہرست دکھائی دیتا ہے۔ امت مسلمہ کاخانوں میں تقسیم ہونایہی امت کے زوال اور پستی کی بنیادی وجہ ہے ۔
courtesy: Kashmir Uzma Srinagar

Saturday, 27 October 2012

Khaleelullah ka Eisar Zabihullah ka Ikhlas

عیدالاضحی
خلیل اللہ کا ایثارذبیح اللہ کا اخلاص

آج عیدالاضحی کا مقدس دن ہے۔ یہ دن پوری امت اور ملّتِ مرحومہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادیں تازہ کررہا ہے۔ آپؑ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے رسالت کے منصب پر فائز کئے گئے تھے۔ یہ کونسا دور تھا، کونسا وقت اور زمانہ تھا اور جس قوم میں آپؑ معبوث فرمائے گئے اُس قوم کی حالت کیا تھی۔ یہ سب کچھ قرآن پاک کی وساطت سے بنی نوع انسان اور خاص طور اُمتِ مسلمہ کے لئے تفصیل اور وضاحت کے ساتھ سامنے رکھا گیا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد آپؑ دوسرے پیغمبر ہیں جن کو عالمگیر حیثیت میں اﷲ کے پیغمبر اور رسول کی حیثیت سے معبوث فرمایا گیا تھا۔ آپؑ کی قوم شرک اور بُت پرستی پر یقین رکھتی تھی۔ آپؑ جس گھر میں پیدا ہوئے وہ گھر بُت تراشی اور بُت پرستی میں نمایاں اور امتیازی مقام رکھتا تھا۔ آذر اُن کے والد کا نام بتایا جاتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے:’’ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جبکہ اُس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں‘‘(الانعام، ۷۴)
اپنے باپ کے سامنے اُن کی بُت پرستی اور بُت تراشی پرضرب لگانے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم کو مظاہرِ کائینات کا تعارف کرایا۔ آپؑ نے تاروں کو دیکھا اور کہا کہ یہ روشنی دینے والے ہیں، رات کی تاریکی میں چمکتے ہیں، آسمان اور زمین کی تاریکیوں میں روشنی اور درخشندگی پیدا کرتے ہیں۔ پتھروں سے بنے بتوں کے مقابلے میں یہی تارے پوجے جانے والے اور خدا ہونے چاہئیں۔ مگر جب یہ ڈوب گئے اور اِن کی روشنی مدھم پڑگئی اور ان کے مقابلے میں چاند زیادہ تابندگی کے ساتھ طلوع ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تارے ڈوب جانے سے ان کی ناپائیداری اور فنائیت کا ادراک کرکے اعلان کردیا کہ  ’’میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہوں‘‘
ماہتاب کو دیکھ کر آپؑ نے کہا کہ تاروں کے مقابلے میں یہ زیادہ روشن ہے۔ یہی لائق عبادت اور بندگی ہے۔ مگر سورج طلوع ہوتے وقت تاروں اور چاند کی روشنی بھی ماند پڑ گئی۔ آپؑ نے کہا کہ یہی ربّ ہے اور سب سے بڑا کیونکہ تارے اور چاند اس کے مقابلے میں بے نور دکھائی دے رہے ہیں۔ سورج کے غروب ہونے تک آپؑ اس تصور میں رہے مگر جب آفتاب بھی اپنے انجام کو پہنچ کر غروب ہوگیا تو آپؑ نے اعلان کردیا:اے برادران قوم! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔ میں نے تو یکسو ہوکر اپنا رُخ اُس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں نہیں ہوں۔(الانعام، ۷۸:۷۹)
اقبال علیہ الرحمہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے غروبِ آفتاب کا منظر دیکھ کر ربّ کائینات کی پہچان اور معرفت کا جو اعلان اور اقرار کیا۔ ایک شعر میں سمو دیا ہے
وہ سکوتِ شام صحرا میں غروبِ آفتاب
جس سے روشنی تر ہوئی چشم جہاں بین خلیلؑ
انسان کے اردگرد کائنات کے مناظر اور خود انسان کا اپنا وجود، آیات اور نشانیاں ہیں۔ جن پر انسان کو تدّبر اور غور وفکر کرکے خالقِ کائنات کا ادراک حاصل کرنے کی جو کوشش اور سعی کرنا چاہئے تھی وہ نہیں کررہا ہے۔ تحقیق اور تدّبر ہورہا ہے۔ بلاشک وشبہ مگر تدّبر اور تفکر آج کے انسان کو اﷲ کی معرفت اور وحدانیت کے بجائے یا تو الحاد کی طرف یا شرک اور مظاہر کائنات کی پرستش کی طرف ہی لے جارہا ہے اس کی بنیادی وجہ تحقیق اور تدّبر کرنے والوں کی فکر اورسوچ کی کمی ہے کہ وہ خالق کائینات کے وجود کی شناخت اور پہچان کیلئے مظاہر کائینات کی کھوج نہیں لگاتے ہیں، بلکہ اُن کے اپنے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ از خود پیدا ہوا ہے۔ اس کا پیدا کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس لئے وہ اصلی صانع تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چاند، تاروں اور آفتاب کو ڈوبتے اور بے نور ہوتے دیکھا تو اﷲ تعالیٰ نے اُس کے قلب وذہن کو اپنی ہدایت سے نوازا۔ اس واقعہ سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سہارے خلاء میں پرندوں کی طرح پرواز کرنا اور سمندروں کے سینوں کو مچھلیوں کی طرح چیرنا، انسان کے لئے ممکن ہوسکتا ہے مگر ہدایت اور خالقِ کائنات کے وجود کی شناخت انسان کے اپنے بس میں نہیں ہے جب تک اﷲ کی طرف سے اُس کو ہدایت نصیب نہ ہو۔
اﷲ کی معرفت حاصل ہوجانے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو اﷲ کی بندگی کی طرف دعوت دی۔ وقت کے حکمرانوں، جنہوں نے لوگوں کو اپنی بندگی اور غلامی کے شکنجے میں کسا تھا یہ کہہ کر کہ ہم تمہارے معبودوں کی نسل اور خاندان سے ہیں۔ اس لئے تمہارے مقابلے میں ہمیں برتری اور فوقیت حاصل ہے۔ اس بنیاد پر تم ہمارے احکامات اور ہماری ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرو۔ یہاں یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مشرکانہ تہذیب بُت پرستی تک ہی محدود نہیں رہتی ہے، بلکہ وہ اپنی چھاپ ِزندگی کے ہر شعبے پر حاوی کرنے کی پالیسی اختیار کرلیتی ہے۔ اقتدار میں ہوتے ہوئے state کے جتنے ذرائع اور وسائل اُن کے پاس ہوتے ہیں وہ اُن کو اپنی چھاپ مسلط کرنے کیلئے استعمال میں لاتے ہیں۔ اس لئے توحید کے علمبرداروں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام تر قوتیں اور صلاحتیں معاشرے میں تبدیلی لانے کے لئے استعمال میں لائیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوئہ حسنہ سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔ اُنہوں نے وقت کے نمرود کے دربار میں جاکر اﷲ کی بندگی کی دعوت دی۔ اُن کے ساتھ قوی استدلال  کے ساتھ مباحثہ بھی کیا، وہ ناقابلِ تردید دلیل کے مقابلے میں مبہوت ہوکر رہ گیا۔ مگر ہدایت اور اﷲ کی وحدانیت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگیا:
’’تم جسے چاہو اسے ہدایت نہٰں دے سکتے، مگر اﷲ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔‘‘ (القصص، ۵۶)’’مگر اﷲ ظالموں کو راہِ راست نہیں دکھایا کرتا‘‘
ظالم لوگوں کو اﷲ تعالیٰ اس لئے محرومِ ہدایت کردیتا ہے کہ انہوں نے بندگی کی حدود پھاند کر اپنے آپ کو ربّ اور اِلہٰ کے مرتبے تک پہنچایا ہوتا ہے۔ اقتدار اور حکومت وسلطنت پر قابض ہونے کی بنیاد پر وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہمارے پاس قوت، طاقت اور سطوت ہے اس لئے ہم لازماً عام انسانوں سے برتر اور افضل ہیں۔ ہم کو کسی اور کی ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت نہیںہے۔ عام لوگ بھی چونکہ کمزور اعتقاد اور ایمان کے ہوتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کی جاہ وحشمت سے متاثر اور مرعوب ہوکر رہنمائی، اطاعت اور فرماں برداری کے لئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں نمرود نام کے بادشاہ نے لوگوں پر تسلط جمایا تھا۔ چونکہ ملک کے تمام ذرائع اور وسائل پر ان کا کنٹرول تھا وہ لوگوں کو زندگی کی ضروریات اور سہولیات فراہم کرنے کی دسترس رکھتا تھا۔ اس بنیاد پر وہ اُن کا پالنہار بن چکا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے معبوددانِ باطل پر ضرب کاری لگا کر ان کو حیران وششدر بنا دیا۔ جب ان کو بتایا گیا کہ تمہارے معبودوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اگر یہ بولنے اور بات کرنے کی قوت اور طاقت رکھتے ہیں تو ان سے پوچھو کہ ان کے ساتھ یہ سلوک اور رویہ کس نے روا رکھا؟ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو۔ یہ اُن کی سوچ اور فکر پر ایک کاری ضرب تھی کہ تم لوگ ان بے حس اور بے اختیار پتھروں کی پوجا کرتے ہو۔ جو یہ بات تک تم کو بتلا نہیں سکتے کہ ان کی توڑ پھوڑ کس نے کی ہے؟ آخر تم اپنی عقل اور سوچ سے کام کیوں نہیں لیتے؟ مادی طاقت کے نشے میں چُور جب دلیل اور استدلال کے سامنے لاجواب ہوجاتے ہیں تو وہ طاقت کا بے تحاشا استعمال کرکے مخالف آواز کو زیر کرنے کا غیر اخلاقی اور بہیمانہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ یہی طرز عمل نمرود اور اُس کی قوم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف اختیار کیا۔ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کرلیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُس میں ڈال کر بھسم کرنا چاہا۔ ابراہیم علیہ السلام کے سامنے یہ بہت بڑا امتحان تھا کہ وہ اس آگ میں کود پڑیں گے اور اپنی جان کو قربان کریں گے۔ یا اپنی جان بچانے کیلئے نمرود اور اُس کی بُت پرست اور مشرک قوم کے سامنے سرنڈر کریں گے۔ عقل عام تو کہتی ہے کہ جان بچانی چاہئے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مظاہر کائنات کا عینی مشاہدہ کرنے کے بعد جس ذاتِ اقدس، خالق ومالکِ کائنات پر ایمان ویقین کا اعلان کیا تھا یہ شعوری اعلان اور ایمان تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنا سب کچھ اﷲ ربّ کائنات کی مرضی اور منشاء کے مطابق قربان کرنے کا عزم اور عقیدہ تھا۔ یہ رسمی اور غیر شعوری ایمان نہیں تھا۔ یہ شعور کی پوری بیداری کے ساتھ اعلان تھا۔ جیسا کہ ارشاد ربّانی ہے:ترجمہ: ’’ کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اﷲ ربّ العالمین کیلئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔‘‘(الانعام: ۱۶۲، ۱۶۳)
آگ کا بھڑکتا ہوا الاؤ دیکھ کر، حضرت ابراہیم علیہ السلام میں کوئی خوف تردد، پریشانی اور تذبذب لاحق نہیں ہُوا۔ اُن کو اس بات کا یقین محکم تھا کہ اگر میرے آقا اور مولا کو میرا آگ میں جل جانا ہی قبول ہوگا تو مجھے کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے اور اگر اُس کو میری جان بچانا ہوگی تو آگ کسی حال میں مجھے جلا نہیں سکتی ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اﷲ ربّ کائنات کو اپنے بندے کی جان بچانا تھی۔ آگ اُن کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکی۔ آگ میں جلانے کی قوت اور صلاحیت آگ کے خالق اور مالک نے بخشی ہے۔ اگر صلاحیت اور قوت بخشنے والا ہی کسی وقت اس کو سلب کرے تو نہ آگ جلا سکتی ہے اور نہ ہی پانی ڈبو سکتا ہے۔ اﷲ برترو بزرگ نے آگ کو حکم دیا:’’ہم نے کہا، اے آگِ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی والی بن جا ابراہیمؑ پر‘‘(الانبیآئ، ۶۹)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے بچانا اور محفوظ رکھنا، اُن معجزات میں سے ایک معجزہ ہے جو قرآن کریم میں بیان کئے گئے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اﷲ تبارک وتعالیٰ نے آگ کو گلزار میں بدل دیا۔ یہ اُس کی قدرت اور طاقت سے کچھ بعید نہیں تھا۔’’اگر کوئی شخص ان معجزات کی اس لئے تاویلیں کرتا ہے کہ اُسکے نزدیک خداکیلئے نظامِ عالم کے معمول (Routine) سے ہٹ کر کوئی غیر معمولی کام کرنا ممکن نہیں ہے، تو آخر وہ خدا کو ماننے ہی کی زحمت کیوں اٹھاتا ہے‘‘
            (تفیم القرآن، جلد ۳، ص ۱۶۹)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اﷲ احکم الحاکمین کی ذاتِ اقدس کے ساتھ محبت اور لگاؤ ہی نہیں، بلکہ عشق کی حد تک تعلق اور وابستگی تھی۔ جہاں کسی ذات اور مقصدِ زندگی کے ساتھ محض ظاہری تعلق ہی نہیں بلکہ قلبی رشتہ اور عشق ہو وہاں اس مقصد کیلئے جان تک قربان کرنا، کوئی دُشوار مرحلہ نہیں ہوتا ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے آگ میں کودنے کے عمل کو عشق سے ہی تعبیر کیا ہے۔
اﷲ کی مدد، نصرت اور چاہت سے آگ کے الاؤ سے صحیح وسلامت نجات پانے کے بعد آپ نے ہجرت کا اعلان کردیا۔ سورہ الصّٰفٰت میں اس کا تذکرہ آیا ہے:’’ابراہیم نے کہا ’’میں اپنے ربّ کی طرف جاتا ہوں وہی میری رہنمائی کریگا۔ اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جوصالحین میں سے ہو۔‘‘(الصفٰت :۹۹ تا ۱۰۰)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ اُن کی قوم بت پرستی اور بُت تراشی سے باز آکر اور تائب ہوکر بندگیٔ ربّ کا راستہ اختیار کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور میری رسالت پر ایمان لاکر میری اطاعت اور پیروی پر راضی نہیں ہورہی ہے بلکہ انہوں نے مجھے جان سے مار دینے کے لئے وحشیانہ اقدام کرکے آگ کے الاؤ میں جلانا چاہا تو انہوں نے اپنے وطن سے ہجرت کی۔ یہ سنت پیغمبری ہے کہ جس وطن میں اﷲ کے معبوث کئے ہوئے مرسلین کے دین اور مشن کے لئے ساز گار ماحول فراہم نہیں ہوتا ہے تو وہ وطن کو ترک کرکے اپنے مشن اور مقصدِ رسالت کو اولین ترجیح دیدیتے ہیں۔ ہم عملاً آخری رسولﷺ کی سیرت پاک میں بھی دیکھتے ہیں۔ اس سے وطن پرستوں کے نظریہء کا بطلان واضح ہوجاتا ہے جو دین، ایمان اور اِلٰہی مشن کے پھیلاؤ، تبلیغ، اشاعت اور غلبہ کے امکانات اپنے زادوبوم میں معدوم پانے کے بعد بھی وطن کو اولین درجہ اور مقام دیتے ہیں۔
وطنیت کے بُت نے امتِ مسلمہ کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ اسلام کے ابدی اور آفاقی پیغام کے مقابلے میں، وطن کا بُت پوجتے ہوئے اُمّتِ مسلمہ خدا پرست بن جانے کے بجائے وطن پرست بن گئی ہے۔ یہاں یہ غلط فہمی پیدا نہ ہوجائے کہ وطن کے ساتھ محبت نہیں رکھنی چاہئے۔ یہ غیر فطری سوچ اور فکر ہے۔ جائے پیدائش اور جس سرزمین میں انسان نے جنم لیا ہو اُس کے ساتھ فطری طور محبت اور لگاؤ ہوتا ہے۔ اس فطری جذبے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس جذبے کو مسترد کیا جاسکتا ہے اور نہ اس فطری جذبے اور رحجان کو وطن پرستی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ وطن پرستی کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جو دین اور ضابطہ حیات شعور کی بیداری کے ساتھ قبول کیا ہے اُس میں اور آپ کے وطن میں جب تصادم اور ٹکراؤ پیدا ہوجائے اور آپ کے لئے دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو، تو اس انتخاب میں اگر آپ نے اپنے دین اور ایمان کے مقابلے میں وطن کو ہی ترجیح دی اور اُسی کو مقدم جان کر دین اور ایمانی تقاضوں کو پسِ پشت ڈال دیا اور ان کو ثانوی حیثیت دیدی تو وہی وطن پرستی ہے اور اسی سے اسلام نے روکا ہے اور اس کو سنت نبویﷺ سے انحراف قرار دیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وطن چھوڑ کر دین اور بندگیٔ ربّ کے نظام کو ترجیح اور فوقیت دیدی۔ آپؑ نے اولادِ صالح کے لئے دُعا مانگی، اﷲ تعالیٰ نے اُن کی دُعا قبول فرمائی اور اُن کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں ایک صالح فطرت فرزند عطا کیا۔ اس اولاد کی پیدائش سے حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک اور آزمائش میں ڈال دئے گئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب اپنے باپ کی پرورش اور نگہبانی میں دوڑ دھوپ کو پہنچ گئے تو اﷲ تعالیٰ نے اُن کو خواب میں دکھایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اس لاڈلے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں۔ پیغمبروں کا خواب وحی کے برابر ہوتا ہے۔ آپؑ نے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے پوچھا کہ میں نے خواب میں آپؑ کو ذبح کرتے دیکھا ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟ صالح اور برگزیدہ بیٹے نے جواب دیا:اُس نے کہا، ’’ابّا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے کرڈالئے، آپ انشاء اﷲ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔‘‘(الصّافات، ۱۰۲)
لختِ جگر کو قربان کرنے کیلئے تیار ہوجانا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے بہت بڑی آزمائش تھی مگر جس طرح آپ آگ کے الاؤ میں کود پڑنے اور وطنِ عزیز کو ترک کرنے کی آزمائش میں پورے اُترے برابر اُسی طرح آپ اس بڑی آزمائش میں بھی معیار مطلوب پر پورے اُترے۔ اﷲ تعالیٰ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا خون بہانا مطلوب نہیں تھا بلکہ اپنے دونوں برگزیدہ بندوں، باپ بیٹے کو پرکھنا تھا کہ وہ میرے حکم کی تکمیل میں کیا کردار ادا کریں گے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو منہ کے بل لِٹا کر آپؑ نے اُن کے گلے پر چھری چلانا چاہی۔ اﷲ تعالیٰ نے وحی بھیجی ابراہیم علیہ السلام تم نے اپنا خواب پورا کردیا۔ آپ کے سامنے ایک دُنبہ لایا گیا جسے آپ نے ذبح کردیا اور اس طرح قربانی پوری ہوگئی اور قربانی کی یہ سنت تا صبحِ قیامت ملّت میں جاری وساری رکھی گئی۔ جیسا کہ رسول رحمتﷺ سے پوچھا گیا کہ یہ قربانی ہم کس حیثیت سے دے رہے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:’’یہ تمہارے ابا ابراہیمؑ کی سنت اور عمل ہے‘‘۔عیدالاضحی کو جانوروں کی قربانی دیکر اُمت مسلمہ یہی سنت پوری کررہی ہے۔ اس قربانی کی جو روح ہے وہ آج کے مسلمانوں کے عمل سے چھن گئی ہے اور یہ محض ایک رسم ہوکر رہ گئی ہے۔
جانوروں کی قربانی دینے کا مطلب مقصد اور مدعا یہ تھا کہ اﷲ کی رضامندی، خوشنودی اور اُس کے دین کے غلبہ کے لئے اگر ہم کو اپنی جانوں کی قربانیاں بھی دینا پڑیں گی تو ہم اُس کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں اور کسی تذبذب اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کریں۔ آج ہم جانوروں کی قربانیاں تو دیتے ہیں مگر اﷲ کے دین کی مکمل پیروی سے دور بھاگ رہے ہیں۔ اﷲ کے احکامات اور اُس کی کتاب اور پیغمبرص کی اطاعت اور فرماں برداری کے لئے اپنے جذبات، خواہشات اور رسم ورواج کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہم نے وطنیت اور شخصیت کے بُت تراشے ہیں۔ اُن کی محبت اور اطاعت میں ہم خدا کے پسندیدہ دین کو مکمل طور پس پشت ڈال چکے ہیں۔ ہم نے دین کی کامل پیروی سے راہِ فرار اختیار کرنے کے لئے یہ گمراہ کن فلسفہ اپنا لیا ہے کہ دین اور سیاست الگ الگ ہے۔ دین کو ہم نے محض عبادت تک محدود کررکھا ہے۔ زندگی کے معاملات میں ہم سکیولر ڈیموکریسی، سوشلزم، کمیونزم، سرمایہ دارانہ نظامِ زندگی، غلط رسم ورواج، مشرکانہ تہذیب کے خدوخال، سود خوری، شراب نوشی، حتیٰ کہ غیرمسلموں کے ساتھ ہمارے رشتے بھی ہورہے ہیں، پھر بھی ہم یہ دعویٰ کرنے سے شرماتے نہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔

courtesy: Kashmir Uzma Srinagar