سماجی تفریق وتقسیم تکریمِ انسانی کا ہے منشور ہی کچھ اور محمد آصف اقبال
ڈاکٹرامبیڈکرکا انقلابی فلسفہ انصاف،آزادی، برابری اور اخوت یعنی بھائی چارے سے روشناس کراتاہے جو انہوں نے اسلامی تعلیمات کی تعلیمات سے اخذ کی ہیں۔ ہندوستان میں ذات پات کے نظام اور اس کے تکلیف دہ انجام سے متاثر ہوکر امبیڈکر نے محسوس کیا کہ ذات پات کی اونچ نیچ اور ناہمواری انسانی جمہوری اصولوں کے منافی ہے۔ امبیڈکر کے مطابق ذات پات کا نظام حقیقت میں سماجی ناہمواری، ناانصافی اور نفرت کو بڑھاوا دینے کی زندہ مثال ہے۔ جیسے جیسے ہندوستان میں ذات پات اور جمہوری اصولوں کے مابین تضاد بڑھتا جارہا ہے ویسے ویسے ہندوسماج میں امبیڈکر کے افکار کی اہمیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر جنہیں اپنی زندگی میں اونچی ذات والوں کے ہاتھوں بدترین ذلتوں اور بے عزتی کا مسلسل سامنا رہا ۔نتیجتاً انہوں نے ہندوستان میں برابری پر مبنی سماج کوقائم کرنے کی اَنتھک جدوجہد کی۔ وہ ہمیشہ جمہوری انقلاب پرایمان رکھتے تھے اور سماج کے کمزور،بے سہارا،اور مظلوم فرقہ کی آزادی کے لئے سرگرم تھے ۔انہوں نے جو طریقۂ کار متعین کیا وہ تین نکاتی تھا ۔(i) -تعلیم ؛( ii)-احتجاج اور(iii ) تنظیم ۔ہندوستان میں اونچی ذات والے ہندو اچھوت پن کو مذہبی فریضے کے طور پر لیتے ہیں اور اس پر عمل نہ کرنے کو پاپ خیال کرتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر ذات اور اچھوت پن ایک ہی طریقے اور اصول پر قائم ہیں۔ اگر ذات کی بنیاد پر ہندو اچھوت پر عمل کرتے ہیں تو اس لئے کہ وہ ذات پات میں یقین رکھتے ہیں۔ اس نقطے کے پیش نظر اچھوت ہونے کی لعنت سے اْس وقت تک چھٹکارہ پانا ممکن نہیں جب تک کہ ذات پات کے نظام کوختم کرکے اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں ہوجاتا۔ یہ سمجھنا کہ ذات اور اچھوت پن دو علیحدہ چیزیں ہیں ،صحیح نہیں ہے۔ دونوں نہ صرف ایک ہیں بلکہ انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ اچھوت پن محض ذات پات کے طریقہ کارکا حصہ ہے۔ ان دونوں کو علیحدنہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت دونوں ایک دوسرے کے سہارے کھڑے ہیں اور ایک ساتھ ہی گرائے جاسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوسستان میںہندو احیا پسند تحریکیں اس ذات پات کے سسٹم کو برقرار رکھنے کا ذریعہ رہی ہیں۔یہ ذات پر مبنی سماج یا اچھوت پن ایک منفرد اور بے مثل طریقہ کار ہے کہ یہ دنیا کے کسی اور کونے کے انسانوں میں نہیں ملتا۔ نیز دنیا کی قدیم، قبل از تاریخ یا جدید سوسائٹی میںبھی اس کا وجود نہیں ملتا۔ اگر انتھراپولوجی (علم بشریات) وہ سائنس تسلیم کی جائے جس پر لوگوں کی نسل معلوم کرنے پر انحصار کیا جاسکے تو انتھراپولوجی کے نتائج اخذ کرتے ہوئے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اچھوت ہندو سوسائٹی سے ہٹ کر آریاؤں اور دراوڑوں سے مختلف کسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس پیمانے پر برہمن اور اچھوت ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہٰذا اچھوتوں کی بنیاد میں نسلی نظریے کو یکسر خارج کردینے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی اس حقیت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ حقیر و غلیظ پیشے کی بنیاد پر بھی اچھوت پن کا قیام عمل میں نہیں آیا۔ عمومی طور پریہ برہمنوںکی بودھ لوگوں کے خلاف پھیلائی ہوئی نفرت و حقارت کی فضا تھی۔ دوسری جانب یہ ان منتشر افراد کے خلاف نفرت و حقارت کا اظہار تھا جوباوجود گوشت خوری کی عادت جاری رکھے ہوئے تھے۔لہٰذا اِن افرادکا بڑے پیمانہ پرمعاشرتی بائیکاٹ کیا گیااور وہ سماج سے باہر اچھوت قرار پائے۔
یہ حقیقت اب بحث طلب نہیں رہی کہ ’’ ذات اور اچھوت پن‘‘ کوئی بے ضرر عقائد نہیں ہیں جن کا موازنہ موت کے بعد کی روح کے حربے سے کیا جائے۔ یہ اونچی ذات والوں کا ایسا ضابطہ حیات ہے جس میں ہر ایسے شخص کوزمین پر اپنی زندگی میں پابند رہنا ضروری ہے۔ ’’ذات پات اور اچھوت پن‘‘ محض عقیدہ ہی نہیں بلکہ برہمنیت کے اولین فرائض میں شامل ہے۔ ایک ہندو کے لئے ’’ذات اور اچھوت پن‘‘ کے عقیدے پر محض یقین رکھنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کو اپنی روزمرہ زندگی میں اس پر عمل پیرا رہنا ضروری ہے۔ بیشتر یہ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اچھوت پن ایک دھارمک فریضہ ہے لیکن حقیقت میں یہ محض مذہبی فریضہ ہی نہیں، اچھوت پن مذہب سے بھی آگے کی چیز ہے۔ یہ ایک معاشی و اقتصادی سسٹم ہے جو غلامی کی حالت سے بھی بدتر ہے۔ غلامی کے دور میں کم از کم غلاموں کو کھانا، کپڑا اور سر چھپانے کی جگہ دینا آقا کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی مگر اچھوت پن کی صورت میں اچھوت غلام کو زندہ و سلامت رکھنے کی کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔آج بھی آزاد ہندوستان کی یہ تلخ حقیقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ مندروں میں اچھوتوں کے داخلے پر پابندی لگائی جاتی ہے۔
اسلام نے انسانی اخوت ومساوات کو قائم کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ ونسل، قومیت ووطنیت، اور اونچ نیچ کے سارے امتیازات کا یکسر خاتمہ کرکے ایک عالمگیر مساوات کا آفاقی تصور پیش کیا، اور اعلان کیا کہ سب انسان آدم کی اولاد ہیں، لہٰذا سب کا درجہ مساوی ہے، حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے اپنے تاریخی خطبہ میں جن بنیادی انسانی حقوق سے وصیت وہدایت فرمائی ان میں انسانی وحدت ومساوات کا مسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں:اے لوگو! یقینا تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارے باپ بھی ایک ہیں، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، یقینا تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اورپاک باز ہو، کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں مگر تقویٰ کی بنا پر۔قرآن حکیم میں اللہ تعالی فرماتا ہے:’’لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اْسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دْنیا میں پھیلا دئے۔‘‘(النسائ:۱)۔مزید فرمایا:’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (الحجرات:۱۳) ۔ ان دونوں ہی آیات میں نہ صرف مسلمانوںکو بلکہ تمام ہی انسانوںکو مخاطب کرتے ہوئے ربِ اعلیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو دنیا کا نظام ہے یعنی یہ قومیں اور برادریاں ، ان کا مقصد ہے کہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔ ورنہ درحقیقت ربِ اعلیٰ کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں۔اور اللہ اور انسانوں میں زیادہ عزت والا وہ ہوگا جو زیادہ متقتی اور پرہیزگارہے۔
ہندوستان جہاں غربت و افلاس اپنے عروج پر ہے،صحت عامہ، تعلیم، روزگار اور ان جیسے انسانی مسائل سے وہ دو چار ہے،ملک کی سا لمیت کا خطرہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔کرپشن کی جڑیں جہاں خوب مستحکم ہو چکی ہیں،نکسلی زور جہاں ایک اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے،ملک کی معیشت اور روپے کی قیمت جہاں اپنے کم تر درجہ پر پہنچ چکی ہے،جمہوریت کی جڑیں جہاں کھوکھلی ہو رہی ہیں،غنڈہ گردی اور جرائم کا گراف جہاں ہر صبح اوپر ہی اٹھتا ہے،ذہنی تنائو اور نفسیاتی مسائل میں مبتلا اشخاص بڑھتے ہی جا رہے ہیں،معاشرہ پر عریانیت ، فحاشی اور اخلاقی زوال کے بادل مزید سیاہ ہورہے ہیں۔یہ اور ان جیسے بے شمار مسائل جس ملک میں موجود ہوں وہاں کے سیاست دان یہ دیکھنے کی بجائے کہ برائی کیا ہے؟ اس کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟سدھار کے وہ کون سے ذرائع اختیار کئے جائیں جن سے ملک اور معاشرہ میں انسانی رواداری ، اخوت، ہمدردی، بھائی چارہ اور محبت و الفت کی فضاء قائم ہو۔اس جانب توجہ ، غور وفکر اور تبادلہ خیال کی بجائے اُن امور پر زیر بحث ہیں جن کے تذکرے سے معاشرے میں مزید دوریاں پیدا ہوںگی۔یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ذات پرستی اور ذات پات پر مبنی سماج نہ کل ملک کے لئے سود مند ثابت ہو ا تھا اور نہ آئندہ ہی ہوگا۔لہٰذا اسلامی تعلیمات جو درحقیقت صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے مفاد میں ہیں۔اِن تعلیمات پر ٹھنڈے دل سے اور متعصب ذہنیت سے پاک ہوکر غور و فکر کرنا چاہیے۔اگر ان تعلیمات میں ملک اور معاشرے کے لئے واضح ہدایات و راہنمائی موجود ہوں تو سب سے پہلے انسانوں سے محبت کے نتیجہ میں اور بعد میں معاشرے میں سدھار اور ملک میں سالمیت اور یکجہتی کی بنیادوں پر قبول کیا جانا چاہیے۔اس سا لمیت ، یکجہتی اور انسانوں سے محبت نیز ملک اور معاشرے کی فلاح و بہود کی خاطرپہلے اُن لوگوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے جو ان تعلیمات سے واقف ہیں۔ایسے افراد کو چاہیے کہ وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کو نہ صرف مسلمانوں کی فلاح و کامرانی تک محدود رکھیںبلکہ ان تمام افراد تک پہنچانے کی سعی و جہد کریں جن کے درمیان وہ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ساتھ ہی ان تمام فورمس میں اِن امور کو زیر بحث لائیں جہاں انسانیت اور انسانوں سے محبت کے جذبات پروان چڑھائے جاتے ہیں۔توقع ہے اس طرح ملک کے کھوکھلے پن اور سماجی بنیادوں پر دوریوں کو کسی حد تک کم کیا جا سکے گا!
|
Search This Blog
Wednesday, 27 June 2012
سماجی تفریق وتقسیم
Labels:
SOCIOLOGY
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment