Search This Blog

Sunday, 10 June 2012

کامیابی . شاہ نواز فاروقی

کامیابی

شاہ نواز فاروقی
-انسان کامیابی کی طرف اس طرح دیکھتا ہے جیسے وہ اس کی محبوبہ ہو اور وہ کامیابی کا عاشق۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کامیابی کے بغیر اپنی زندگی کا تصور نہیں کرسکتا۔ کامیابی کی ضد ناکامی ہے اور انسان ناکامی سے خوف کھاتا ہے، اسے ناپسند کرتا ہے اور اس سے دور بھاگتا ہے۔ کامیابی اور ناکامی کے ساتھ انسان کے اس تعلق کا سبب ہے۔ کامیابی انسان کو اپنی ذات کی قبولیت محسوس ہوتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ کامیابی نے دنیا میں اس کی بامعنی موجودگی پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ اس کے برعکس ناکامی اسے اپنی ذات کی تکذیب اور تردید محسوس ہوتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ناکامی اس سے کہہ رہی ہے کہ تم روئے زمین پر ایک حرف ِغلط کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ انسان ناکامی سے دامن بچاتا ہے اورکامیابی کی محبت دل میں لیے زندگی بسرکرتا ہے۔ لیکن یہ کامیابی کی واحد اہمیت نہیں ہے۔ تاریخ کے سفر میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ کامیابی بجائے خود صداقت بن جاتی ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال سرسید ہیں۔ سرسید انگریزوں سے مرعوب اور ان کی فتوحات کے قتیل تھے۔ انہیں محسوس ہوتا تھا کہ اس زمانے میں انگریز ہی حق پر ہیں، کیونکہ اگر وہ حق پر نہ ہوتے تو کامیاب کیوں ہوتے! یعنی انہوں نے انگریزوں کی کامیابی کو حق بنالیا تھا اور وہ بھول گئے تھے کہ تاریخ میں اکثر جابر، قاہر اور ظالم لوگ بھی ’’کامیاب‘‘ ہوتے رہے ہیں۔ لیکن یہ سرسید کا ذاتی مسئلہ نہیں تھا۔ سرسید ایک ذہنیت کا نام ہے، اور یہ ذہنیت تاریخ کے ہر دور میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔ سوشلزم ایک باطل نظریہ تھا اور تاریخ میں اس کا کوئی سلسلۂ نسب موجود نہ تھا، لیکن روس اورچین کے انقلابات نے اس کی کامیابی کو ایک علامت بنادیا۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے آدھی سے زیادہ دنیا سوشلسٹ بن کرکھڑی ہوگئی۔ کامیابی کی اہمیت یہ ہے کہ دنیا کامیاب بغاوت کو ’’انقلاب‘‘ کہتی ہے اور ناکام انقلاب ’’بغاوت‘‘ کہلاتا ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف سوشلسٹ انقلاب تک محدود نہیں۔ ایک صدی پہلے تک مغرب کا سیکولرازم صرف مغرب تک محدود تھا، لیکن چونکہ سیکولر معاشرے مادی اعتبار سے ’’کامیاب معاشرے‘‘ بن کر ابھرے، اس لیے دنیا کے اربوں انسانوں نے یہ سمجھا کہ ان معاشروں کی کامیابی کا راز سیکولرازم ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی طویل تاریخی اور شاندار تہذیب کو ایک طرف رکھا اور سیکولرازم کو گلے سے لگالیا۔ یہودیوں سے زیادہ خود پسند قوم دنیا میں موجود نہیں۔ اس قوم کی نسل پرستی بھی ہولناک ہے۔ اس کی بنیاد پر اس نے اسرائیل قائم کیا۔ لیکن اسرائیل آئینی اعتبار سے ایک سیکولر ریاست ہے اور اس کے ریاستی معاملات توریت کی تعلیمات کے مطابق نہیں بلکہ سیکولر نظریات کے مطابق چلائے جاتے ہیں۔ ہندوئوں کو اپنی تاریخ کی قدامت پر فخر رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہماری تاریخ ایک لاکھ سال پرانی ہے، کوئی کہتا ہے ہم 6 ہزار سال سے تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں۔ لیکن بھارت بھی آئینی طور پر ایک سیکولر ریاست ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ سیکولرازم کی کامیابی پوری دنیا میں صداقت کی ہم معنی بن گئی ہے، اور ساری دنیا اس صداقت پرگویا ایمان لے آئی ہے! کامیابی کے ’’جادو‘‘ کا ایک پہلو اس بات سے متعلق ہے کہ کامیابی ہمیشہ حال سے متعلق ہوتی ہے۔ یعنی کامیابی ہمیشہ ’’نقد‘‘ ہوتی ہے۔ انسانوں کی عظیم اکثریت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حال میں زندہ رہتے ہیں، بلکہ حال کی اسیری ان کا تعیش ہوتی ہے، چنانچہ وہ کامیابی کو سر پر سوار کرلیتے ہیں، یہاں تک کہ کامیابی کے عصر سے متعلق ہونے کی وجہ سے اس کو پوجنے لگتے ہیں۔ کامیابی اگرچہ حال سے متعلق ہوتی ہے لیکن وہ انسان کے ماضی اور مستقبل کی تعریف بھی بدل ڈالتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک کامیاب انسان کا ماضی کامیاب نہ ہو، لیکن جب آدمی کامیاب ہوجاتا ہے تو دنیا کو اس کے ماضی میں بھی معنی نظر آنے لگتے ہیں، اور اسے لگتا ہے کہ اس شخص کا مستقبل بھی شاندار ہوگا۔ اسلام صرف دنیا کی کامیابی پر توجہ مرکوز نہیں کرتا، بلکہ وہ دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کو انسان کا ہدف بناتا ہے، اور اعلان کرتا ہے کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے۔ آخرت کا تصور یہودیت‘ عیسائیت اور ہندوازم میں بھی موجود ہے، مگر ان مذاہب نے آخرت کو صرف تقریر کے لیے وقف کردیا ہے اور دنیا ان کے عمل کی مستحق بن گئی ہے۔ یہ صورت حال آخرت کو ماننے کے باوجود اسے عملاً مسترد کرنے کے برابر ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو دنیا پر آخرت کی فوقیت کا نہ صرف یہ کہ نظری طور پر قائل ہے بلکہ وہ مسلمانوں کو اسی کے مطابق عمل کی بھی ہدایت کرتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلام کا کامیابی کا تصور ہمہ گیر‘ ہمہ جہت اور جامع ہے۔ اس تصور میں نہ دنیا کا انکار ہے، نہ آخرت پر دنیا کی فوقیت کی غیر حقیقت پسندانہ روش ہے۔ اس تصورکی ایک اہمیت یہ ہے کہ اسلام میںکامیابی کا تصور معروضی یا Objective ہے۔ یعنی اسلام میں کامیابی کا تصور کسی فرد نے نہیں خود خدا نے دیا ہے۔ اور جب کامیابی کا تصور موضوعی یا Subjective نہ ہو بلکہ معروضی یا Objective ہو تو پھر کامیابی انسان کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو پھر کیا ہوتا ہے؟ چیزوں کے ساتھ انسان کے تعلق کی دو ہی صورتیں ہوتی ہیں: ایک یہ کہ انسان چیزوں سے بڑا ہوتا ہے، اور دوسرے یہ کہ چیزیں انسان سے بڑی بن جاتی ہیں۔ مثلاً دولت انسان پیدا کرتا ہے، چنانچہ انسان اور دولت کے درمیان خالق اور مخلوق کا رشتہ ہے، لیکن اگر انسان کو مذہب کی رہنمائی فراہم نہ ہو تو اکثر مخلوق خالق سے بڑی ہوجاتی ہے اور اس پر حکم چلاتی ہے۔ کامیابی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ کامیابی انسان پیدا کرتا ہے لیکن اگر کامیابی کے ساتھ انسان کا تعلق معروضی نہ ہو، موضوعی یا Subjective ہو تو پھرکامیابی انسان کے اعصاب پر سوار ہوجاتی ہے اور اس کے باطنی ارتقاء کا راستہ بند کردیتی ہے۔ مثال کے طور پر بعض شاعروں کی کچھ بحریں‘ کچھ موضوعات اور مخصوص الفاظ کسی بھی سبب سے پسند کیے جانے لگتے ہیں تو شاعر حضرات انہی بحروں یا موضوعات اور الفاظ کو اپنی شاعری میں دوہرانے لگتے ہیں، اور اس طرح ان کی شاعری کنویں کا مینڈک بن کر رہ جاتی ہے۔ مثلاً جوشؔ ملیح آبادی کی شہرت شاعرِ شباب اور شاعرِ انقلاب کے طور پر ہوگئی، اور جوشؔ نے اس شہرت کو اوڑھ لیا۔ چنانچہ وہ ساری زندگی اس شہرت کے اثر سے نہ نکل سکے۔ فیضؔ کی غنائیت جوشؔ کی غنائیت سے زیادہ دل آویز ہے، مگر اس غنائیت کی شہرت فیضؔ کو بھی لے ڈوبی۔ اقبال کو بھی جوش اور فیض کی طرح مخصوص موضوعات اور مخصوص الفاظ کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی، مگر اقبال کی شخصیت ہمیشہ اپنی شہرت سے بڑی رہی، چنانچہ اقبال کی شہرت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی ۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری میں اگر مومن کے لفظ یا تصورکو دو سو مقامات پر استعمال کیا ہے تو ہر بار اس سے ایک نیا مفہوم پیدا کرکے دکھایا ہے۔ اسی طرح بعض مقررین اپنے موضوعات اور لہجے کے اسیر ہوجاتے ہیں اور ان کی کامیابی ان کے موضوعات اور اسلوبِ گفتگو میں کبھی تنوع پیدا نہیں ہونے دیتی۔ کامیابی انسان کو اس بات کا یقین دلادیتی ہے کہ وہ تنقید سے بالاتر ہوچکا ہے۔ یا کامیابی اتنی بڑی ہوتی ہے کہ وہ کسی پر تنقید کو ناممکن بنادیتی ہے۔ مثال کے طور پر لینن نے روس میں انقلاب برپا کیا، لیکن ٹرائے ٹسکی کمیونسٹ پارٹی میں لینن ہی کی سطح کا رہنما تھا اور اس کا خیال تھا کہ لینن مارکسزم کی غلط تعبیر کررہا ہے۔ اس نے لینن کو اس جانب تواتر کے ساتھ متوجہ بھی کیا، مگر اس کی بات نہیں سنی گئی بلکہ الٹا اسے انقلاب دشمن سمجھا جانے لگا، یہاں تک کہ ٹرائے ٹسکی کو بالآخر روس چھوڑنا پڑا۔ اسی طرح بھارت میں گاندھی کی شخصیت بہت بڑی تھی مگر کانگریس کے بعض رہنمائوں مثلاً نہرو کو گاندھی کے بعض خیالات رومانوی محسوس ہوتے تھے، لیکن وہ گاندھی کی زندگی میں کبھی اُن سے سنجیدہ اختلاف کی جرأت نہ کرسکے۔

No comments:

Post a Comment