Search This Blog

Sunday, 10 June 2012

حضرت سعد الاسود سہمی ؓ

حضرت سعد الاسود سہمی ؓ


- طالب ہاشمی
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن اپنے چند جاں نثاروں کے حلقے میں تشریف فرما تھے کہ نہایت بے ڈول جسم اور بھدے چہرے مہرے کے ایک سیاہ فام شخص ڈرتے جھجھکتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں میں نہایت بدصورت اور سیاہ فام آدمی ہوں۔ لوگ مجھے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ کیا مجھ جیسا کریہہ منظر آدمی بھی جنت میں داخل ہوسکے گا؟‘‘ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لطف و کرم سے بھرپور نظر ڈالی اور فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تمہیں تمہاری بدصورتی اور سیاہ رنگت جنت میں داخل ہونے سے ہرگز نہ روکے گی، لیکن شرط یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو اور میری رسالت پر ایمان لائو۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر ان صاحب کا چہرہ فرطِ مسرت سے چمک اٹھا اور ان کی زبان پر بے اختیار کلمۂ شہادت جاری ہوگیا۔ سعادت اندوزِ اسلام ہونے کے بعد انہوں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حقوق کیا ہیں؟‘‘ فرمایا: ’’تمہارے حقوق وہی ہیں جو دوسرے مسلمانوں کے ہیں، اور تم پر وہی فرائض ہیں جو دوسرے مسلمانوں کے ہیں، اور تم ان کے بھائی ہو۔‘‘ یہ سیاہ فام کم رُو صاحب جن کو اسلام لانے کے صلے میں خود سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی، سیدنا حضرت سعد الاسودؓ تھے۔ ……٭٭٭…… حضرت سعد الاسودؓ کا اصل نام تو سعد تھا لیکن ان کی غیر معمولی سیاہ رنگت کی وجہ سے لوگ ان کو ’’سعدالاسود‘‘ یا ’’اسود‘‘ کہا کرتے تھے (جیسا کہ ہمارے ملک میں سیاہ فام آدمی کو لوگ کالو یا کالا کہہ کر پکارتے ہیں)۔ اربابِ سِیَر نے حضرت سعد الاسودؓ کا سلسلۂ نسب بیان نہیں کیا۔ البتہ یہ بات تواتر کے ساتھ لکھی ہے کہ ان کا تعلق قریش کے قبیلہ بنوسہم سے تھا۔ (مشہور صحابی حضرت عمروؓ بن العاص فاتح مصر بھی اسی قبیلے سے تھے) ان کے قبولِ اسلام کے زمانے کی بھی کسی کتاب میں صراحت نہیں کی گئی، لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُس وقت شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں تشریف فرما تھے اور غزوات و سرایا کا آغاز ہوچکا تھا۔ علامہ ابن اثیرؒ کا بیان ہے کہ قبولِ اسلام کے بعد (اسی مجلس میں یا ایک دوسری روایت کے مطابق چند دن بعد) حضرت سعدالاسودؓ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نکاح کرنا چاہتا ہوں لیکن کوئی شخص میری بدصورتی کے سبب مجھ کو رشتہ دینے پر راضی نہیں ہوتا۔ میں نے بہت سے لوگوں کو پیام دیے لیکن سب نے رد کردیے۔ ان میں سے کچھ یہاں موجود ہیں اور کچھ غیر حاضر ہیں۔‘‘ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ اس سیاہ فام شخص کو اللہ تعالیٰ نے نورانی جبلت عطا کی ہے اور جوشِ ایمان اور اخلاص فی الدین کے اعتبار سے اس کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت تھے، بیکسوں اور حاجت مندوںکے ملجا و ماویٰ تھے۔ اپنے ایک جاں نثار کی بیکسانہ درخواست سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحیمی نے گوارا نہ کیا کہ لوگ اس کو محض اس وجہ سے ٹھکرائیں کہ وہ ظاہری حسن و جمال سے محروم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سعد گھبرائو نہیں، میں خود تمہاری شادی کا بندوبست کرتا ہوں، تم اسی وقت عمروؓ بن وہب ثقفی کے گھر جائو اور سلام کے بعد ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بیٹی کا رشتہ میرے ساتھ کردیا ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت سعد الاسودؓ شاداں و فرحاں حضرت عمروؓ بن وہب کے گھر کی طرف چل دیئے۔ ……٭٭٭…… حضرت عمروؓ بن وہب ثقفی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ابھی ان کے مزاج میں زمانۂ جاہلیت کی درشتی موجود تھی۔ حضرت سعدؓ نے ان کے گھر پہنچ کر انہیں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مطلع کیا تو ان کو بڑی حیرت ہوئی کہ میری ماہ پیکر ذہین وفطین لڑکی کی شادی ایسے کریہہ منظر شخص سے کیسے ہوسکتی ہے! انہوں نے سوچے سمجھے بغیر حضرت سعدؓ کا پیام رد کردیا اور بڑی سختی کے ساتھ انہیں واپس جانے کے لیے کہا۔ سعادت مند لڑکی نے حضرت سعدؓ اور اپنے باپ کی گفتگو سن لی تھی، جونہی حضرت سعدؓ واپس جانے کے لیے مڑے وہ لپک کر دروازے پر آئی اور آواز دی: ’’اللہ کے بندے واپس آئو، اگر واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں بھیجا ہے تو میں بخوشی تمہارے ساتھ شادی کے لیے تیار ہوں، جس بات سے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہیں میں بھی اس پر راضی ہوں۔‘‘ اس اثناء میں حضرت سعدؓ آگے بڑھ چکے تھے، معلوم نہیں انہوں نے لڑکی کی بات سنی یا نہیں، بہرصورت بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر سارا واقعہ عرض کردیا۔ اُدھر ان کے جانے کے بعد نیک بخت لڑکی نے اپنے والد سے کہا: ’’ابا قبل اس کے کہ اللہ آپ کو رسوا کرے آپ اپنی نجات کی کوشش کیجیے۔ آپ نے بڑا غضب کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی پروا نہ کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ کے ساتھ درشت سلوک کیا۔‘‘ عمروؓ بن وہب نے لڑکی کی بات سنی تو اپنے انکار پر سخت پشیمان ہوئے اور ڈرتے ہوئے بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا: ’’تم ہی نے میرے بھیجے ہوئے آدمی کو لوٹایا تھا۔‘‘ عمروؓ بن وہب نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے شک میں نے اس آدمی کو لوٹایا تھا لیکن یہ غلطی لاعلمی میں سرزد ہوئی۔ میں اس شخص سے واقف نہ تھا، اس لیے اس کی بات کا اعتبار نہ کیا اور اس کا پیام نامنظور کردیا، خدا کے لیے مجھے معاف فرما دیجیے۔ مجھے اپنی لڑکی کی شادی اس شخص سے بسرو چشم منظور ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمروؓ بن وہب کا عذر قبول فرمایا اور حضرت سعد الاسودؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’سعد میں نے تمہارا عقد بنت ِ عمرو بن وہب سے کردیا۔ اب تم اپنی بیوی کے پاس جائو۔‘‘ ……٭٭٭…… رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر حضرت سعدؓ کو بے حد مسرت ہوئی، بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اٹھ کر سیدھے بازار گئے اور ارادہ کیا کہ نوبیاہتا بیوی کے لیے کچھ تحائف خریدیں۔ ابھی کوئی چیز نہیں خریدی تھی کہ ان کے کانوں میں ایک منادی کی آواز پڑی جو پکار رہا تھا: ’’اے اللہ کے شہسوارو، جہاد کے لیے سوار ہوجائو اور جنت کی بشارت لو۔‘‘ سعدؓ نوجوان تھے۔ نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ دل میں ہزار امنگیں اور ارمان تھے۔ بارہا مایوس ہونے کے بعد شادی کا مژدہ فردوسِ گوش ہوا تھا، لیکن منادی کی آواز سن کر تمام جذبات پر جوشِ ایمانی غالب آگیا اور نوعروس کے لیے تحائف خریدنے کا خیال دل سے یکسر کافور ہوگیا، جو رقم اس مقصد کے لیے ساتھ لائے تھے، اس سے گھوڑا، تلوار اور نیزہ خریدا اور سر پر عمامہ باندھ کر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں غزوہ پر جانے والے مجاہدین میں جاشامل ہوئے۔ اس سے پہلے نہ ان کے پاس گھوڑا تھا، نہ نیزہ و تلوار، اور نہ انہوں نے کبھی عمامہ اس طرح باندھا تھا، اس لیے کسی کو معلوم نہ ہوا کہ یہ سعدالاسودؓ ہیں۔ میدان جہاد میں پہنچ کر سعدؓ ایسے جوش و شجاعت کے ساتھ لڑے کہ بڑے بڑے بہادروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک موقع پر گھوڑا اَڑ گیا تو اس کی پشت پر سے کود پڑے اور آستینیں چڑھاکر پیادہ پا ہی لڑنا شروع کردیا۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھوں کی سیاہی دیکھ کر شناخت کرلیا اور آواز دی ’’سعد‘‘۔ لیکن سعدؓ اُس وقت دنیا و مافیہا سے بے خبر اس جوش و وارفتگی کے ساتھ لڑرہے تھے کہ اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کی بھی خبر نہ ہوئی۔ اسی طرح دادِ شجاعت دیتے ہوئے جُرعۂ شہادت نوش کیا اور عروسِ نو کے بجائے حورانِ جنت کی آغوش میں پہنچ گئے۔ رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سعدالاسودؓ کی شہادت کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی لاش کے پاس تشریف لائے، ان کا سر اپنی گود میں رکھ کر دعائے مغفرت کی اور پھر فرمایا: ’’میں نے سعدؓ کا عقد عمرو بن وہب کی لڑکی سے کردیا تھا، اس لیے اس کے متروکہ سامان کی مالک وہی لڑکی ہے۔ سعدؓ کے ہتھیار اور گھوڑا اسی کے پاس پہنچادو اور اس کے ماں باپ سے جاکر کہہ دوکہ اب خدا نے تمہاری لڑکی سے بہتر لڑکی سعد کو عطا کردی، اور اس کی شادی جنت میں ہوگئی۔‘‘ قبولِ اسلام کے بعد حضرت سعد الاسودؓ نے اس دنیائے فانی میں بہت کم عرصہ قیام کیا، لیکن اس مختصر مدت میں انہوں نے اپنے جوشِ ایمان اور اخلاصِ عمل کے جو نقوش صفحۂ تاریخ پر ثبت کیے وہ امت ِمسلمہ کے لیے تاابد مشعلِ راہ بنے رہیں گے۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہ

No comments:

Post a Comment