وصی احمد نعمانی
دمچی (Coccyx) سے قیامت کے روز انسان کے دوبارہ پیدا ہونے کی بات جب ذہن میں ڈالی جاتی ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک چھوٹی سی معمولی ہڈی کی نوک سے بھلا پورا انسان کیسے پیدا کردیا جائے گا۔ مگر جس کا ایمان قرآن و حدیث پر مکمل ہے، اسے تو یقین کرنا ہی ہوتا ہے، مگر جب سائنسی اعتبار سے بھی یہ بات ثابت کردی جاتی ہے تو ایمان میں پختگی زیادہ آجاتی ہے۔ سائنس چونکہ سچائی اور حقیقت کی تلاش کا نام ہے اس لیے اس کے ذریعہ سے پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔ سائنس دانوں نے کلونگ کے ذریعہ انسان کا ہم شکل پیدا کرکے قرآن و حدیث کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ یہ کلوننگ تکنیک ہے کیا؟آئیے اس پر غور کرتے ہیں ۔ کلوننگ وہ سائنسی تکنیک ہے جس کے ذریعہ’’ ہم شکل ذی روح‘‘ پیدا کر لیے جاتے ہیں۔ لفظ کلون یونانی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے ٹہنی۔ اس ٹہنی میں والدین کی تمام خوبیاں موجود ہوتی ہیں۔ اسی لیے اس تکنیک کے ذریعہ پیدا ہوئی شکل کو ’’ ہم مادہ یا ہم شکل‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس طریقہ کار سے جو نتیجہ نکلتا ہے اس کو کلون کہتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں کلون کسی ایک خلیہ سے بغیر کسی جنسی حرکات کے پیدا ہونے والی نسل ہوتی ہے۔
اگرچہ عصر جدید میں اس طریقہ کار نے پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا ہے اور یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس طریقہ کار کو اپنا کر کوئی بھی ملک ان گنت اور بے شمار فوجی افراد تیار کرکے پوری دنیا میں حکومت کرنے کا دعویٰ کرسکتا ہے، جبکہ کلوننگ کا یہ طریقہ کوئی نیا نہیں ہے۔ زراعت اور باغبانی میں تو کسانوں نے ابتدائے کاشتکاری سے ہی اس طریقہ کو اپنا کر ایک پودے سے دوسرا پودا، جو پہلے پودے کا ہمزاد و ہم شکل، ہم فطرت ہوتا تھا یا ہوتا ہے، پیدا کرتا رہا ہے اور یہ طریقہ آج بھی جاری ہے۔ سائنس نے اسی طریقہ کو اپنا کر ٹیسٹ ٹیوب بے بی، ہم شکل بندر، مینڈک وغیرہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرکے اس نظریہ ’’دمچی‘‘ کو درست ثابت کرکے یہ اعلان کردیا ہے کہ خدا کا کلام اورحضور کا فرمان تو سائنسی تحقیق سے بھی بہت زیادہ آگے ہے ،سچ ہے اور درست ہے۔ اس لیے اس بات پر ایمان اور پختہ ہوجاتا ہے کہ بروز محشر مردہ زندہ ہوکر اللہ کے حضور حاضر ہوجائے گا، اپنے حساب و کتاب کے لیے۔ اور ہر انسان اپنے اپنے Coccyx یا اپنی دمچی سے پید اہوگا ، کیونکہ اس دمچی میں ماں کی تمام خصوصیات موجود ہوتی ہیں، جس سے اس کا ہمزاد پیدا ہوگا۔ اس کلوننگ طریقہ کار کو اپنا کر 1952 میں رابرٹ برگس اور تھامس کنگ نے کلون بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ان دونوں نے مینڈک کے ابتدائی بچہ(Tadpole) جو ابھی مچھلی کی شکل میں بڑھ رہا ہوتا ہے، اس کے خلیہ سے مکمل مینڈک بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس طرح 1962 میں جان گرڈن نے بھی مینڈکوں کے کلون بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ دسمبر 1996 میں چین میں کلوننگ کے ذریعہ چوہے پیدا کیے گئے۔ امریکی سائنس داں اوریگان اور ڈاکٹر نوالف نے اسی تکنیک کے ذریعہ دو بندروں کو پیدا کیا۔ اور ان کا نام ’نیٹی‘ اور ’ڈٹو‘رکھا ۔ برطانیہ کے ڈاکٹر پیٹرک اسٹیپٹو نے 1978 میں ڈاکٹر آر جی ایڈورڈ کے ساتھ مل کر ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی تخلیق کی۔ 1997 میں ڈاکٹر رچرڈسیڈ نے انسانی کلون تیار کرکے یا انسانی ہم شکل تیار کرکے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ہر سال پانچ سو انسان تیار کرسکتا ہے۔
مندرجہ بالا مثال سے ہم نے کلوننگ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ مزید آسان لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کلوننگ کے لیے استعمال ہونے والی ڈی این اے یعنی کسی بھی خلیہ کا مادہ ہم شکل کلون کسی بھی ذی روح مخلوق کے جسم کے کسی بھی حصہ کے خلیہ سے لیا جاتا ہے، جس میں ہم شکل بنانے کی قدرتی کیفیت ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر ایک بھیڑ کے تھن سے لیے گئے کلون سے ڈالی نام کی بھیڑ پیدا کی گئی تھی، جو اپنی ماں کی بالکل ہم شکل تھی۔ اب تو کلوننگ کا یہ طریقہ اتنا مشہور و معروف ہوچکا ہے کہ دنیا کے لگ بھگ تمام بڑے شہروں میں اس کے مراکز کھولے جا چکے ہیں اور کلوننگ کے اس فن کو پیشہ ورانہ حیثیت مل چکی ہے۔ ان مراکز میں انسان کی موت کے بعد ان کی سڑنے گلنے سے محفوظ اور بچی ہوئی ہڈیوں کے خلیوں میں موجود ڈی این اے کا سائنسی تجزیہ کرکے یہ پتہ لگایا جاتا ہے کہ یہ کس انسان کے جسم کی ہڈی ہے، کیونکہ ڈی این اے کے اندر موجود کرومو سومز سے لیے گئے کلون (مادہ ہم شکل) کا کیمیاوی تجزیہ کرکے اس کی فوٹو کو خوردبین سے دیکھنے پر مرے ہوئے انسان کی شکل و صورت کا پتہ چل جاتا ہے۔ ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں بھی سینٹر فار ڈی این اے فنگر پرنٹس اینڈ ڈائیگنوسٹک ہے ۔اس بین الاقوامی شہرت یافتہ سینٹر نے ہڈیوں کے ایک ڈھانچہ کا بہت اہم تجزیہ کیا ہے۔ وہ یہ تھا کہ نیوزی لینڈ کے مشہور شہر آکلینڈ کی رہنے والی ایک لڑکی، جس کا نام ڈائنا کمرولیٹ تھا، وہ ہندوستان 1997 میں سیرو سیاحت کے لیے آئی اور بنارس کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ اس کے ہندوستانی گائڈ نے اس کی تمام قیمتی اشیاء چھین کر اور اسے قتل کرکے اپنے ہی گھر میں دفن کردیا۔ پولس کی چھان بین کے بعد جب گائڈ کے گھر سے اس کی ہڈی کا ڈھانچہ ملا تو اسے حیدرآباد کے سینٹر فار ڈی این اے فنگر پرنٹس اینڈ ڈائیگنوسٹک کو بھیج کر اس کا کیمیکل تجزیہ کیا گیا تو یہ ثابت ہوا کہ ہڈی کا یہ ڈھانچہ اسی دوشیزہ سیاح کا تھا جو بنارس سیرو سیاحت کے لیے آئی تھی۔ اس کی رپورٹنگ 1998 میں ہوچکی ہے اور یہ بات ایک ثبوت کے طورپر تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ اس طرح کے تجربات لگ بھگ تمام ترقی یافتہ ممالک میں ہورہے ہیں۔ اسی بنیاد پر سائنس دانوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسان کے مرجانے کے بعد بھی اگر اس کے جسم کے کسی بھی حصہ کی بچی ہوئی ہڈی مل جائے تو اس سے اس کا کلون نکال کر اسی کلون سے اس انسان کا ہم شکل پیدا کیا جاسکتاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس انسان کی ہڈی کا کوئی حصہ بچا رہے گا تو اس کے خلیہ بھی محفوظ رہ سکتے ہیں اور وہ محفوظ خلیہ زندہ رہیں گے۔ اسی زندہ خلیہ سے وہ انسان جس کا خلیہ ہے، اس کا ہم شکل اسی کے باقی ماندہ خلیہ سے پیدا کیا جاسکتا ہے، اور ایسا کیا بھی جارہا ہے اور یہ بات بلاکسی تضاد کے ثابت ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے مطابق انسان کو اس کی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے اور تمام انسانوں کو خدا کے سامنے حاضر ہوکر اپنا بہی کھاتہ پیش کرنا ہے۔ ہر انسان اپنی اپنی قبر سے یا وہ جہاں بھی مرا ہے، اس جگہ سے دوبارہ زندہ ہوکر اپنی شکل و صورت میں آئے گا۔ انسان کے جسم کا Primary organise یا دمچی کبھی بھی کسی بھی حالت میں نہ سڑے گی نہ گلے گی نہ جل کر ختم ہوگی۔ اس دمچی میں ماں کی تمام خصوصیات موجود ہوتی ہیں ۔اسی دمچی سے تمام انسان اپنی خصوصیات کے ساتھ زندہ ہوکر ہو بہو روپ میں تھر تھر کانپتا ہوا، گڑ گڑاتا ہوا خدا کے دربار میں اس کی پکار پر موجود ہوگا۔ سائنس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ذی روح کے جسم کے کسی بھی خلیہ یا سیل سے اس ذی روح کی ہم شکل پیدا کی جاسکتی ہے اور سائنس نے پیدا کرکے ثابت کردیا ہے، کیونکہ سائنس نے تمام ہم شکل کو اس کے ڈی این اے سے پیدا کرکے دکھادیا ہے۔ اس میں سائنس کا صرف اتنا کمال ہے کہ اس نے ڈی این اے ترقی کراکر ہم شکل پیدا کردیا ہے۔ ڈی این اے ذی روح کی زندگی کی بنیاد ہے جو اس کی ہڈی یا ہڈی کے سیل میں ہمیشہ موجود اور زندہ جاوید ہوتا ہے۔ اس ڈی این اے کو متحرک ہونے کے لیے اور اپنی شکل اختیار کرکے ہو بہو وجود میں آنے کے لیے صرف موافق پانی کی ضرورت پڑتی ہے یا پانی کی شکل میں کیمیکل کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ڈی این اے جو زندگی کا جوہر ہے ،اسے تو خدا نے ہی پیدا کیا ہے،وہی زندہ رکھتا ہے اور ڈی این کے جو ہر کو محفوظ رکھتا ہے ۔ ماں باپ کی خصوصیت ، نسل اور رنگ کی خصوصیت ، آنکھ، ناک، جسم اور الگ الگ عادات و اطوار سب کچھ اسی ڈی این اے کے ذریعہ بچوں میں یا ہر نئی نسل میں تشکیل پاتے ہیں، یعنی بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ اگر سیل یا خلیہ میں ڈی این اے یا زندگی کا جوہر جسے صرف اور صرف خدا نے بنایا ہے اور محفوظ کررکھا ہے اور وہ باقی ہے تو ہمیشہ ہم شکل کو پیدا کیا جا سکتا ہے، چاہے انسان ہو، جانور ہو یا کوئی بھی ذی روح ہو۔ یہ ساری باتیں صرف اس سچائی کو تسلیم کرتی ہیں کہ دمچی، جو قرآن و حدیث کے مطابق کبھی ختم نہیں ہوتی، اسی سے قیامت کے روز مخصوص بارش ہوتے ہی ہر انسان اپنی اپنی شکل میں زندہ ہوکر، جو جہاں ہے وہیں سے اللہ کی عدالت میں حاضر ہوگا، یعنی مردہ سے زندہ پیدا ہوگا۔ ارشاد فرمایا گیا ’’ تو کہہ اللہ پہلے پیدا کرتاہے (پھر وہی اللہ) اس کو دہرائے گا، سو کہاں سے پلٹے جارہے ہو؟‘‘ (سورۃ یونس)۔ دوسرے مقام پر اللہ نے ارشاد فرمایا ’’ جس طرح ہم نے (اللہ نے) پہلے تخلیق کی ابتدا کی تھی، اسی طرح پھر اس کا اعادہ کریں گے (یعنی پہلے ہی کی طرح دہرائیںگے)۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے اور یہ کام ہمیں بہر حال کرنا ہے‘‘ (سورۃ الانبیائ)۔ اس دمچی کی وجہ سے اپنے تمام لوازمات کے ساتھ اپنے مردہ جسم سے زندہ ہوکر قیامت کے روز تمام انسان ہو بہو شکل میں اپنے تمام اعمال نامہ کے ساتھ خدا کے دربار میں حاضر ہوںگے
بہ شکرءیہ چوتھی دنیا
|
Search This Blog
Friday, 22 June 2012
دمچی، قرآنی فرمان اور سائنسی تحقیقات
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment