Search This Blog

Monday, 11 June 2012



جنسی تعلیم اسلامی اقدار کے تناظر میں

ڈاکٹر انیس احمد


دنیا کی تمام معلوم تہذیبوں میں کسی نہ کسی شکل میں مذہب اور جنس کا تصور پایا جاتا ہے۔ مغربی مذہبی مفکرین عموماً اس بات کا تذکرہ کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ مذاہب سے صدیوں قبل بھی انسان کسی نہ کسی ماورا ہستی کی طرف اپنے تحفظ اور اپنی ضرریات کے حصو ل کے لیے متوجہ ہوتا تھا۔ ان تمام تہذیبوں اور مذاہب نے جنس کے بارے میں عموماً دو طرزِ فکر اختیار کیے۔ بعض تہذیبوں نے جنس کو نظرانداز کرنے کو روحانیت سے تعبیر کیا، اور بعض نے جنس کو قابلِ پرستش خیال کیا۔ کلاسیکل ہندوازم میں جنس پرستی مذہب کا ایک جزولاینفک رہی۔ دوسری جانب اسی شدومد کے ساتھ ہندوازم میں ایسے واضح رجحانات بھی موجود رہے ہیں جن میں جنس کو دبا کر اور بالخصوص عائلی زندگی کو ترک کرکے جنگل، بیابان یا صحرا اور پہاڑوں میں جاکر تجرد اختیار کرنے کو روحانیت کی معراج قرار دیا گیا ہے۔
یہ افراط و تفریط اور جنس کے بارے میں دو انتہائیں دیگر مذاہب میں ہی نہیں، مسلم معاشرے میں بھی نظرآتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنس کے موضوع پر بات کرنا، اور وہ بھی کھلی محفل میں، مہذب معاشروں میں عموماً معیوب اور غیراخلاقی تصور کیا جاتا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنس کو مکمل طور پر نظرانداز کرکے کسی بھی انسانی معاشرے کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔ پھر انسان کیا کرے؟ اسلام افراط و تفریط کی جگہ توازن و اعتدال کی راہ کو انسانیت کا منشور قرار دیتا ہے، اور اُمت مسلمہ کو ’اُمت وسط‘ کہنے کے ساتھ ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں عدل کو اختیار کرے۔ اسی بنا پر اسلام کا تصورِ جنس مشرق و مغرب کے مروجہ تصورات سے بنیادی طور پر مختلف ہونے کے سبب ایک الگ تشخص کا حامل ہے۔
جدید دنیا یا دورِ جدید سے عموماً وہ دور مراد لیا جاتا ہے جو یورپ میں نشاتِ ثانیہ کے بعد مادہ پرستی ( Materialism)، افادہ پرستی (Utilitarianism)، انفرادیت پسندی (Individualism) اور لادینیت (Secularism) کی چار بنیادوں پر تعمیر ہوا۔ جدیدیت کے اس روایتی طرزِفکر نے اس تصور کی فلسفیانہ بنیادوں کو معرضِ بحث میں لاتے ہوئے ایک جدید تثلیث کو جنم دیا۔ یہ تثلیث اُس روایتی تصور سے بالکل مختلف تھی جس نے قرونِ وسطیٰ میں کلیسائی چرچ کو عروج دیا اور جس کی بنیاد عیسائی عقیدہ تھا۔ اس قدیم روایتی تثلیث میں خدا، روح القدس اور حضرت عیسٰی ؑ تین بنیادی عناصر تھے۔ نوجدیدیت نے جس تثلیث پر اپنی بنیاد رکھی اس میں اثباتیت (Positvism)، ارتقائیت (Evolutionism) اور جنسیت بنیادی ارکان قرار پائے۔ چنانچہ آگسٹ کومٹے August Comte(۱۷۹۸ء۔۱۸۵۷ء) کی فکر نے مادے کی صداقت اور حسّی تجربے کی قطعیت کا پرچار کیا جس کی کوکھ سے کارل مارکس (۱۸۱۸ء۔۱۸۸۷ء) کی فکر نکلی۔ ایسے ہی چارلس ڈارون (۱۸۰۹ء۔۱۸۸۲ء) نے حیاتیاتی ارتقا (BiologicalEvolution) کو بنیاد بناتے ہوئے نہ صرف حیوانات و نباتات، بلکہ علومِ عمرانی میں بھی ارتقائی فکر کے متعارف ہونے کی راہ ہموار کردی۔ اسی دوران سگمنڈ فرائڈ (۱۸۵۶ء۔۱۹۴۰ء) نے جنس، لاشعور اور تحت الشعور کی بنیاد پر انسانی رویوں اور طرزِعمل کی تعبیر کا تصور پیش کیا۔ نتیجتاً اس کی فکر میں شعوری عمل کی اہمیت کو کم اور تحت الشعور اور لاشعور کو زیادہ بنیادی مقام حاصل ہوگیا۔
جدیدیت (Modernity)، نوجدیدیت (Post Modernity) اور ماوراے نوجدیدیت (Beyond Post Modernism) کی تحریکات پر نظر ڈالی جائے تو ان میں بعض اجزا مشترک نظر آتے ہیں۔ ان اجزا میں اوّلین مقام مادیت اور حسّی تجربے کی بنیاد پر حاصل ہونے والے علم کو حاصل ہے۔ اس بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یورپی فکر کے ان تینوں ارتقائی اَدوار کی بنیاد محدود اور قابلِ یقین تصورِ علم (epistimology)پر ہے جو حسّی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا اہم عنصر انفرادیت پسندی، اور اس سے ملحقہ تیسرا عنصر اخلاقی اضافیت (ethicalrelativism)ہے۔
یورپ میں جنس کے حوالے سے بیداری، آزادی اور انحراف کی فکری بنیاد حسّی تصورِ علم ہی ہے۔ اس بنا پر یورپ میں انسانی معاشرتی علوم کی بنیاد بعض ایسے مشاہدات پر رکھی گئی ہے جو بنیادی طور پر حیوانی مشاہدات کہے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ روایتی نفسیات کی بنیاد چوہوں کا بھول بھلیوں کے پیچ دار راستوں سے گزر کر پنیر کے ٹکڑے تک پہنچنا، انسانی نفسیات کے بہت سے مفروضوں کی بنیاد بنا۔ اس کے نتیجے میں انسان کا مخالف جنس کی طرف جبلّی طور پر ملتفت ہونا، یا انسان کا معاشی حیوان ہونا، یا انسان کا معاشرتی حیوان ہونا وہ اصطلاحات ہیں جو پتا دیتی ہیں کہ مغرب میں علوم عمرانی انسان کو بنیادی طور پر حیوان تصور کرتے ہوئے اس کے رجحانات، ترجیحات، ضروریات، حاجات اور تحینات کا اندازہ قائم کرتے ہیں۔
دورِ جدید کی اس تثلیث میں انسانی تہذیب کو جن تین بنیادی ستونوں پر تعمیر کیا گیا ہے، ان میں سے ایک کا تعلق انسان کے وجود کے ساتھ ہے۔ چنانچہ اسے بتایا گیا کہ انسان ایک ارتقا یافتہ حیوان ہے۔ اس لحاظ سے اس میں بے انتہا حیوانیت پائی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانی اعمال بھی کرسکتا ہے۔ دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ وہ ایک معاشی حیوان ہے اور اس کی تمام سرگرمیوں کا محور معاشی فلاح ہونی چاہیے۔ تیسری بات یہ سمجھائی گئی کہ وہ ایک جبلی انسان ہے۔ اس کے اندر بعض instincts(فطری جبلتیں) اور drives(کچھ کرنے کا جذبہ) پائی جاتی ہیں۔ اس لیے وہ جو کام بھی کرتا ہے ان کی وجہ سے کرتا ہے۔
انسان فطری طور پر اقتدار اور قوت اپنی جبلی قوت کی بنا پر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ جرمنی کے بعض مشہور مفکرین نے جہاں اسے اپنی فکر کی بنیاد بنایا، وہاں فرائڈ نے یہ تصور پیش کیا کہ انسانی اعمال کے پسِ پشت ایک ایسی قوت پائی جاتی ہے جس کا اصل مقصد اور اصل محور ایک ناقابلِ تعبیر (ineffable) چھپی ہوئی طاقت ہے جس کو آپ الفاظ سے واضح نہیں کرسکتے۔ فرائڈ اس کو Libido(مخفی قوت) کا نام دیتا ہے، اس کے مطابق یہ انسان کے ان تمام افعال کے پسِ پشت قوتِ محرکہ ہے جو وہ معاشرے میں کرتا ہے۔
ان تین بنیادی تصورات نے مغرب کی لادینی تہذیب کو اس کا تشخص دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام تصورات جو قدیم کہلاتے تھے، جن میں خاندان کی اقدار کا احترام تھا، معیشت کے حوالے سے یہ احساس تھا کہ وہ محض منفعت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ اور مقاصد بھی ہونے چاہییں، ان تمام چیزوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایک ایسی تہذیب وجود میں آئی جس نے انسان کی حیوانیت کو، خواہ وہ انسان کی ساخت کی بنیاد پر ہو ، یا معاشی بنیاد پر، یا جنس کی بنیاد پر، انسان کی اصل پہچان قرار دیا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کا اصل کارنامہ اس کا وہ تصورِ علم نظر آتا ہے جس نے روایت پرست انسان کو الہامی علم کے ذریعے توہمات سے نکال کر، حیوانیت کی سطح سے بلند کر کے اشرف المخلوقات قرار دیا، اور جنس کے موضوع کو بجاے ایک جبلت کے، یا ایک instinctive driveکے، ایک شعوری اور اخلاقی عمل قرار دیا۔ اس غرض کے لیے نہ صرف اخلاقیات کا ایک ضابطہ فراہم کیا گیا، بلکہ اس کے لیے اجر اور ثواب کو بھی متعین کردیا گیا، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس لحاظ سے یہ انقلابی فکر تھی جو اسلام نے پیش کی ، لیکن اس سارے کام کو کرتے ہوئے جو دائرہ کار مقرر کیا گیا وہ جنس کو آزاد کر کے اور اسے انسانی دائرے سے نکال کر نہیں، بلکہ جنس کو خاندان کے اخلاقی دائرے میں رکھتے ہوئے زیربحث لاتا ہے۔
آج جب جنسیت، sexulaity ، libidoکی بات ہوتی ہے تو ہم اکثر مغربی فکر کے ارتقائی مراحل اور فکری پس منظر کو نظرانداز کرجاتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ جنس ایک مستقل موضوع ہے جو خاندان سے الگ ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ وہ جنس پر اخلاقی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے بات کرے اور خاندان کے تناظر میں جنس کو زیربحث لائے۔ وہ اسے اللہ تعالیٰ کے ایک انعام کے طور پر، ایک امانت کے طور پر اور ایک احسان کے طور پر بیان کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا: ’’اور اللہ ہی نے تمھارے گھروں کو تمھارے لیے سکون کی جگہ بنایا‘‘ (النحل ۱۶: ۸۰)۔ ایسے ہی فرمایا گیا: ’’اور اسی کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے (ایک یہ بھی) ہے کہ اس نے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت و ہمدردی پیدا کردی۔ بلاشبہہ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں‘‘ (الروم ۳۰:۲۱)۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقدِنکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا۔
اسلام یہ چاہتا ہے کہ وہ رشتہ جو جنس کے ذریعے قائم ہونے جا رہا ہے، اس رشتے سے قبل ایک اخلاقی تعلق پیدا کیا جائے جو سکون، رحمت اور مؤدت کا ہو ، جس کے نتیجے میں انسانیت کو بھلائی مل سکے۔ یہ وہ فریم ورک ہے جو اسلام نے فراہم کیا ہے۔ اس فریم ورک میں رہتے ہوئے اس نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر حلال و حرام کے دائرے کو سمجھتے ہوئے لذت کا حصول ہو، تو وہ ایک بُری چیز نہیں ہے، بلکہ ایک اچھی اور مطلوب چیز ہے جو آنکھوں کو ٹھنڈک فراہم کرتی ہے، لیکن اس لذت کے حصول میں بھی اصل مقصد سامنے رہنا چاہیے۔
ہمارے ہاں یہ سوال بار بار اُٹھایا جاتا ہے کہ اگر دورِ جدید میں ہمیں جنسی بے راہ روی کو روکنا ہے تو اس کے لیے جنسی تعلیم لازمی کردینی چاہیے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک منفی فکر کی علامت ہے۔ تعلیمی نصاب میں الگ سے جنسی تعلیم فراہم کرنا اور ’محفوظ طریقوں‘ سے اپنی خواہش پوری کرنا سکھانا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ خود مسئلہ ہے۔ مسئلے کا اصل حل تعلیمی حکمت عملی ہے۔ جب تک ہم اپنے نصاب کے اندر خاندان کی اہمیت، خاندان کے حقوق اور فرائض کو شامل نہیں کریں گے، اس وقت تک یہ سمجھنا کہ اگر بچوں کو یہ بات سمجھا دی جائے کہ خاندانی منصوبہ بندی کیا ہوتی ہے، جنسی امراض کیا ہوتے ہیں اور ان سے کس طرح سے بچا جائے، اس سے ایک باعفت اور باعصمت معاشرہ وجود میں آجائے گا تو یہ سراسر ایک واہمہ ہے۔ یہ صداقت سے خالی مفروضہ ہے! اس لیے ہمیں اپنے فکری زاویے کو تبدیل کرنا ہوگا اور بجاے اس بات کو دہرانے کے جو مغرب بار بار کہہ رہا ہے، یعنی اگر ایڈز کے مہلک اور جان لیوا مرض کو روکنا ہے تو جنسی آگاہی ( sexual awareness) پیدا کی جائے، کنڈوم کلچر کو عام کیا جائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ کس طرح سے محفوظ جنسی بے راہ روی اختیار کرسکتے ہیں(گویا ناجائز جنسی تعلق بجاے خود کوئی بُری بات نہیں ہے)۔ اس نوعیت کے تمام نعرے اسلامی تصورِحیات کے منافی ہیں۔ جس چیز کو اسلام نے حرام قرار دے دیا ہو آخر اس کو ’محفوظ سیکس‘ کہہ کر کیسے جائز قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہ اختیار فرد یا معاشرے یا ریاست کو کس نے دیا ہے؟ گویا جو بات مغرب کہہ رہا ہے ہم اسے کسی بھی انداز میں کہیں، وہ نقصان ، خرابی اور تباہی کی طرف ہی لے کر جائے گی۔
مسئلے کو اصولی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے ہمیں خاندان کی اہمیت کو اپنے نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔ قرآن و حدیث میں جہاں کہیں بھی جنس سے متعلق بات کی گئی ہے اس کا انداز تعلیمی اور اسلوب اخلاقی ہے۔ اسلامی فقہ طہارت، بلوغ اور اس سے وابستہ مسائل کا ذکر کرتا ہے اور ہر موقع پر حلال اور اخلاقی طریقوں پر زور دیتا ہے اور لذت کے حرام طریقوں کو فحش سے تعبیر کرتا ہے۔ شوہر اور بیوی کا تعلق ہو یا ایک نوجوان کا شادی سے قبل صالحیت کے ساتھ زندگی گزارنا، اسلام زندگی کے ہر دور میں اخلاقی ضابطے کے ذریعے اس کی خواہشات کو تعمیری انداز میں ترقی کے موقع فراہم کرتا ہے۔
احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے ان میں سے ایک کا تعلق جوانی گزارنے سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے،ا س سے قبل نہیں۔حدیث یہ بھی تعلیم دیتی ہے کہ جب بچہ عمر کے اس مرحلے میں داخل ہو رہا ہو جب جنسی لذت کا احساس جنسِ مخالف کے جسم سے مَس کرکے ہوسکتا ہے تو بچوں کے بستر الگ کردیے جائیں۔یہ ایک مہذب طریقہ ہے جس سے بچے کو یہ احساس ہوگا کہ وہ اب بلوغ کے قریب پہنچ رہا ہے۔ فقہی کتب کے ذریعے احتلام اور ماہواری کی تعلیم دینی فرائض میں سے ہے۔ ایسے ہی جسم سے فاضل بالوں کے صاف کرنے کا تعلق نہ صرف طہارت سے بلکہ اعضا کی صحت سے ہے۔ یہ سب اُمور تعلیمی حکمت عملی کے ذریعے فقہ کے حوالے سے بغیر جنسی تعلق پیدا کرنے کی خواہش بیدار کیے سمجھائے جاسکتے ہیں۔ ان کے لیے پوشیدہ اعضا کی تصویرکشی کی نہ ضرورت ہے اور نہ حکمت۔
جنس کے حوالے سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی جنس کی بات کرتے ہیں تو اسے ہم عام طور پر خواتین سے وابستہ کردیتے ہیں لیکن انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جنسی تعلق ان دو اکائیوں کے بغیر ہو نہیں سکتا۔ جن میں سے ایک اکائی ایسی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہرلحاظ سے پُرکشش بنایا ہے۔ اس بنا پر ہمارا ادب ہو یا زمینی حقائق، وہ اس کا انکار نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس بنا پر صنفِ نازک کو کمرشلائز کردینا، اس کو ایک objectبنا دینا، یہ لازمی طور پر ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ اس سے لازماً بچنا چاہیے۔ اسی طرح مرد کو بھی حُسن دیا گیا ہے۔ اس میں بھی کشش پائی جاتی ہے لیکن اگر مقابلتاً دیکھا جائے تو ہمارے ادب اور شعر کا مرکز اگر کوئی رہا ہے تو وہ خاتون ہی رہی ہے اور اس میں دونوں پہلو شامل رہے ہیں ، جمال کے بھی اور جنس کے بھی۔
اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلامی تصورِ حیات کی روشنی میں مرد اور عورت دونوں کے بارے میں بجاے جنسِ محض ہونے کے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی مخلوق کی حیثیت سے جسے اخلاقی وظیفے سے آراستہ کیا گیا ہے، غور کیا جائے۔ گویا برتری اور فضیلت کی بنیاد نہ محض جنسی کشش ہو، نہ کسی کا مونث یا مذکر ہونا بلکہ اخلاقی تفضیل۔ یہی وہ فضیلت و برتری ہے جسے قرآن کریم نے مختلف مقامات پر وضاحت سے بیان کیا ہے۔ خصوصاً سورۂ احزاب میں (۳۳:۳۵) جہاں یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اخلاقی طرزِعمل کی بنیاد پر اجر و انعام کا وعدہ فرمایا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔
بچوں میں جنس کے بارے میں فطری طور پر تجسس ہوتا ہے جسے نہ دبانے کی ضرورت ہے نہ اُبھارنے کی، بلکہ تعلیمی نفسیات کی روشنی میں عمر کے مرحلے کے لحاظ سے تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ وہ کسی دوسرے کے اعضا کی طرف اس لیے نہیں دیکھیں کہ یہ گناہ ہے، اپنے اعضا کسی کو دکھائیں نہیں کہ یہ بھی اللہ کو پسند نہیں ہے۔ انھیں جس جنس میں پیدا کیا ہے اس پر اللہ کا شکر کریں اور بلوغ کے قریب، جب جنسی اعضا کا زیادہ احساس ہوتا ہے، ذمہ داری اور ضبطِ نفس کے ساتھ پیش آئیں۔ عصمت و عفت کی تعلیم اور شرم و حیا کا تصور دراصل جنسی تعلیم ہی کے اجزا ہیں۔ اس کے برخلاف جنسی اعضا کی تصاویر بنا کر پانچویں اور چھٹی جماعت کے بچوں کو تولیدی عمل سے آگاہ کرنا انھیں پریشان خیالی اور بے راہ روی کی طرف لے جانے کا ایک بہت ’کامیاب‘ طریقہ ہے جس سے لازمی طور پر بچنا ہوگا۔ ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کو مل کر ان مسائل پر مناسب لوازمہ تیار کرنا ہوگا۔

No comments:

Post a Comment