ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے امتِ واحدہ کے فکری رہنما سیّد ماجدحسین رضوی
علامہ اقبالؒ کی شخصیت بیسویں صدی کی ایک ایسی عبقری اور کثیرالجہات شخصیت واقع ہوئی ہے جس کے اپنے امتیازات کی بناء پر انہیں شاعر مشرق تسلیم کر لیا گیا ہے،جس نے جانگسل تعقل اور جانگراز فکر اور نظریاتی کشمکش کے اس عہد میں نہ صرف ایک حیات بخش اور فکر انگیز فضا میں سانس لینے کے لئے حالات پیدا کئے اور کہنہ اذکار رفتہ اور لغو مضامین و موضوعات کے گردگردش کرنے سے اسے نجات دلائی بلکہ پورے مشرق میں خودی وخود اعتمادی عزت نفس جہاں بینی اور جہاں بانی کاولولہ پیدا کیا ۔اقبالؒ نے نہ صرف مشرق کو اپنا کھویا ہوا وقار اور لٹی ہوئی آبرو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جھنجھوڑا بلکہ مغرب کے گمراہ کن تعقل اور فتنہ جو تجربہ و مشاہدہ کے سائنٹفک منہاج کو وحی الٰہی اور پیغمبرانہ اسوہ سے مستنیر کرکے انسانیت کیلئے فیض بخش اور حقیقی ارتقاء کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔ اقبالؒ نے نہ صرف شاعری کی دنیا میں ایک جدید شعور کا اظہار کیا بلکہ ایک ایسا شعور جو مغربی تہذیب اور صنعتی تمدن کی بنیادی خامیوں سے باخبر تھا بلکہ ایک ایسے ادراک سے روشناش کرایا جو ماضی ، حال اور مستقبل تینوں پر محیط تھا۔اقبالؒماضی کی تابناک شعاعوں سے حال کی تاریکیوں کو دور کرنا چاہتے تھے اور ایک ایسے طلوع ہونے والے آفتاب کی بشارت دے رہے تھے جو ایک نئی روحانی و اخلاقی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہوگا۔ اقبالؒ کے سینے میں جو اضطراب و تپش جو بے قراری اور آرِزو مندی تھی اس نے نہ صرف ان کو بیسویں صدی کے فکرو تعقل کے آشوب وابتلا سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت عطا کی بلکہ انہوں نے پوری نسل کو مغرب کے مادی و ذہنی غلامی سے نجات حاصل کرنے پر کمر بستہ بنا کر کھڑا کر دیا اور ایک ایسا ولولہ عطا کیا جو بر صغیر ہی نہیں ایشیاء کے مختلف حصوں میں اسلامی نشاۃثانیہ یا نژاد نو کے ایک تابناک دور کا نقطہ آغاز بنا۔ اقبالؒ کی شخصیت کوفطرت نے اس نشاۃ نو کیلئے اور اس عہد کے سوئے ہوئے انسانوں کو جگانے کیلئے دل ودماغ کی بہترین صلاحیتوں سے مزین کیا تھا اور ان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ قدیم وجدید دونوں کا وہ سنگم تھے اورمشرق و مغرب دونوں کے علمی و فکری سر چشموںسے پوری طرح سیراب ہوئے تھے۔خوش قسمتی سے ابتدا ء ہی میں انہیں مشرقی علوم اور اخلاقیات کے ماہرین کا قرب حاصل ہوا اور ایک ایسا خونوادہ ملا جس میں روح کو جسم پر اور اخلاق کو مادی اسباب پر فوقیت دی جاتی تھی ۔
علامہ اقبالؒ نے مغرب کے ایک ایک قاہرانہ نظریہ اور جلال فلسفہ کی دھجیاں بکھردیں اور جس طرح کل کے سورج کے ہونے پر انہیں یقین تھا اسی طرح انہیں یقین تھا کہ مغرب اپنے بچھائے ہوئے دام تزویر میں خود الجھ جائے گا اور جس تمدن کو اس نے ترقی اور روشن خیالی کی علامت بنا کر ساری دنیا پر مسلط کیا ہے وہ فنا کے گھاٹ اتر جائے گا ؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنائے گا ناپائیدار ہوگا
علامہ اقبالؒ نے یہ بتایا تھا کہ الٰہی انقلاب کی کامیابی کیلئے اُمت اسلامیہ کے درمیان وحدت و اتحاد کا عملی وجود لازمی ہے آپ تاکید کرتے تھے کہ اسلام ہی مسلمانوںکی تنہا پناہ گاہ ہے اور اُس کے پُرافتخار پرچم کے سایہ میں ہر گروہ کے لوگوں کو ان کا جائز حق حاصل ہوجاتا ہے ۔ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر اُمت و احدہ کا تذکرہ کیا ہے اور اس موضوع پر خاصا زور دیا ہے کہ ایک نیک اور پسندیدہ معاشرہ کی حقیقی ترقی میں اُمت واحدہ کا بنیادی کردار ہوا کرتا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ لفظ اُمت کا اطلاق اس گروہ یاجماعت پر ہوتا ہے جو احکام خداوندی کے آگے سر تسلیم واطاعت خم کئے ہوئے ایک مقصد اور واحد ارمان کی طرف گامزن ہو ۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ ایک محور کے ارد گرد جمع ہونے والی اُمت واحدہ ہوگی متفرقہ نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبران خداؑ اور رسولانِــــ الٰہیؑ نے ہمیشہ ایسے ہی معاشرہ کی تشکیل کی کوشش کی ہے اور ایک اُمت واحدہ کی ایجاد میںاپنے الٰہی ارمانات کی جستجو کرتے رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی وجود کی گہرائیوں میں اس مقصد عظیم کی جڑیں ہیں اور آفرینش کا نظام وحدت و یگانگت پہ مبنی ہے ؎
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اﷲ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان ایک
علامہ اقبالؒ نے اپنی قوم کا یہی درد تشخیص کیا تھا ، اُمت مسلمہ کا دینی تشخیص نہیں ہے اقبال ؒ کی خودی خانقاہی نہیں ہے خودی اقبال یعنی اُمت کا اسلامی تشخیص یہ اقبالؒ کی آرزو تھی یہ اقبالؒ کادرد تھا اقبالؒ کے اندر یہ احساس فقط بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ پوری اُمت کے لئے موجود تھا اقبالؒ اور امام خمینی رحمتہ اﷲعلیہ درس سے نہیں بنے بلکہ درد سے بنے ہیں۔ دونوں کے اندر دردتھا اور وہ درد جو انہیں آرام کرنے نہیں دیتا تھا جس دردنے یہ سارے نالے اقبالؒ سے اگلوائے جس درد نے خمینی ؒ سے یہ فریاد یں اگلوائیں یہ درد دونوں کا مشترکہ درد تھا، دونوں کی یہ آرزو تھی کہ اُمت کو دوبارہ کھویا ہوا دینی تشخیص مل جائے۔علامہ اقبالؒنے وحدت اُمت پر زور دیا ہے ان کے اشعار میں جو وحدت کی خوشبو آتی ہے شاید وہ کسی اور کے اشعار میں نہیں ملتی ؎
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
وحدت کی حفاظت نہیںبے قوت بازو
آتی نہیں کچھ کام یہاںعقل خداداد
علامہ اقبال ؒ نے اسلامی معاشرہ میں وحدت پہ کافی زور دیا ہے کیونکہ جب تک کوئی قوم یا ملت متحد ہوکر رہتی ہے تب تک وہ عزت مند ، جرأت مند ، محفوظ اور مستحکم ہے ؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
یہی وہ اتحادہے جو مسلمانوں کو حقیقی حیات دے کے نیستی کے ظلمت کدوں سے نور اور روشنی کی رہنمائی کرتا ہے قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی اتحاد جیسے وسیع تاریخی ، اجتمائی اور سیاسی موضوع پہ قلم فرسائی کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔علامہ اقبالؒنے اپنی انداز فکر سے قوم و ملت کو بیدار کیا اور اپنی شاعری میں وحدت و اتحاد کا درس دیا ۔ اسلامی اتحاد کی ضرورت اسلئے ہے کہ اتحاد خدا کی ایسی مضبوط رسی ہے جس سے گمراہی اور تفرقہ کی ذلت سے نجات ملتی ہے۔اسلامی اتحاد کی ضرورت اس لئے ہے کہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کی شان و شوکت اور کامیابی کا راز پوشیدہ ہے تفرقہ انکی عظمت اور ابوہیت کو ختم کر دیتا ہے ۔اسلامی اتحاد کی ضرورت اسلئے ہے کہ تفرقہ ڈالنے والوں اور اُمت مسلمہ کو ٹولیوں سے بانٹنے والوں سے پیغمبر اسلام ؐ اور اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ وحدت اُمت کی ضرورت اسلئے ہے کہ قرآن کی نظر میں اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا مشرکوں اور غیر مسلمانوں کا منصوبہ ہے وحدتِ اُمت کی ضرورت اس لئے ہے کیونکہ تفرقہ و اختلاف خدا کے عذاب کا سبب بنتا ہے وحدت اُمت کی ضرورت ہے کیونکہ اختلافات سے باطل اوراستعماری طاقتیں مسلمانوں کی تقدیر اور سرنوشت پر حاکم ہو چکی ہیں اور ان کے چنگل سے رہائی اور نجات کا راستہ صرف اسلامی اتحاد میں ہی میسر ہیں وحدت اُمّت کی ضرورت ہے کیونکہ اختلافات کے سبب کتنی قومیں برباد ہوگئیںاور آج بھی بہت سے اسلامی ممالک اور ملت اسلامیہ کے ہزاروں افراد استعماری اور استکباری طاقتو ں کے ہاتھوں مظلوم اور بے قصور ہلاک ہورہے ہیں۔ وحدت اُمت کی ضرورت ہے کیونکہ مسلمانوں کی عزت ،سربلندی، حاکمیت، کرامت، صرف کلمۂ اتحادمیں ہی پوشیدہ ہے ؎
ایک ہوجائیں تو بن سکتے خورشید مبین
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا فائدہ
دنیا کی حقیقت وحدت و وحدانیت کی ترجمان ہے اور دنیا کے ذرہ ذرہ سے یہ آواز اُبھر رہی ہے کہ میں اس سے اور اسی طرف پلٹ کر جانے والا ہوں اور دنیا کے یہ رازو نیاز کسی عقلمند آدمی سے قطعی پوشیدہ نہیں رہ سکتے۔وہ انسان نادان ہے جو مقصد زندگی کی حقیقت سے نا واقف ہو ،جس نے زندگی کی حقیقتوں اور مقاصد کو نہیں پہچانا وہ حق اور باطل کے درمیان قطعی تمیز نہیں کر سکتا اور ایسے ہی لوگوں کو سامراجی اور طاغوتی طاقتیں تفرقہ و اختلاف کا شکار بنا لیا کرتی ہیں ،وہ اس انحراف کا شکار ہو کر باطل کی طرف پیش قدم ہوجایا کرتا ہے۔ پس اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ دنیاوی نظام کی اصل اور حقیقی بنیاد وحدت و اتحاد ہے اور تفرقہ و اختلافات ایک غیر حقیقی اور عارضی امر ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے درمیان موجود وحدت و اتحاد نے مشرق و مغرب کے مفاد پرست اور سامراجی پیکر پر ہمیشہ گہری چوٹ لگائی ہے ۔اسلام دشمن سامراجی طاقتیں ہمیشہ مسلمانوں میں تفرقہ و ا ختلاف پیدا کرنے کیلئے کوشاں رہا کرتے ہیں تاکہ یہ اُمتِ واحدہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ کر کمزور اور مغلوب الحال ہوجائے ۔ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی مظلومی ہی تو ہے کہ آج بین الاقوامی سامراج نے امریکہ کی قیادت کے سایہ میں ہمیں خوفناک مظالم کا نشانہ بنا رکھا ہے اور امریکہ کے پٹھو اسرائیل نے مسلمانون پر کئے جانے والے مظالم کی انتہا کر دی ۔ بیت المقدس قبلہ اول کی حالت دیکھیں ۔ فلسطین میںنہتے ہوئے مظلوم مسلمانوں کی حالت دیکھیں، پاکستان کی خستہ حالی اور افغانستان کی نیلامی دیکھیں ۔ عراق کی ویرانی اور غزہ کی بربادی دیکھیں ۔کشمیر عزیز کی پژمردگی دیکھیں۔ مسلمانو! بیدار ہوجائو ۔ بین الاقوامی سامراج نے یہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ اسلامی تحریکوں کو پوری طرح تباہ و برباد کرنے کا بہترین راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں تفرقہ و پھوٹ پیدا کر دی جائے تاکہ اُمت اسلامیہ عالم خوفناک تباہی کا شکار ہوکر رہ جائے ؎
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے غار
علامہ اقبالؒاسلامی معاشرہ میں وحدت و اتحاد کے قائل تھے جو مستحکم اور مقدس بنیادوں پر قائم ہو ۔ امام خمینی ؒ فرماتے ہیں قرآن مجید کی تعلیمات پر مبنی اسلامی وحدت کے سایہ میں ہم لوگوں کو متحد رہنا چاہئے ۔ یہ کوئی اہم بات نہیں ہے کہ آپ لوگ کسی ایک مسلہ و معاملہ میں متحد رہے اور تفرقہ واختلافات پیدا نہ کیجئے بلکہ حکم خداوندی یہ ہے کہ سب لوگ ـعتصام بحبل اﷲ‘‘کی پیروی کریں۔ انبیاء ؑ کی بعثت کا مقصد یہ نہیں رہا کہ وہ لوگوں کو کسی ایک کام کیلئے متحد کر دیں بلکہ ان کی آمد کا مقصد تمام لوگاں کو راہ حق میں جمع کرنا ثابت قدم بنایا ہے ؎
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
------------------------
رابطہ:- متعلّم دانش گاہِ کشمیر ، شعبہ فارسی ؛موبائل نمبر:-
|
Search This Blog
Friday, 8 June 2012
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
Labels:
IQBALIYAT
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment