Search This Blog

Monday, 25 June 2012

مردانِ نکوکارکی ہم کوتلاش ہے

مردانِ نکوکارکی ہم کوتلاش ہے

تاریخ کے اوراق ذرا کھنگال تو لیجئے ایک سبق آموز واقعہ نظر نواز ہوگا۔ واقعہ ماضی قریب کے مغلیہ دور سے متعلق ہے ۔اورنگ زیب عالمگیر  جیسی اولوالعزم شخصیت (1618-1707) جیسی آج کی تحریف شدہ تاریخ ایک متعصب ، تنگ نظر ،ہندوکش ، کٹرپنتھی ، قدامت پسند ایسے القاب سے پکارتی ہے ۔ یہ القابات واقعتاً سفید جھوٹ کے عین مترادف ہیں ۔ آپؒ انتہائی پاکباز ، پاک عمل ،پاک بیان ،پاک تاجدار تھے ،اس حد تک کہ سرکاری خزانہ(بیت المال) سے مشاہرہ لینے کے بجائے قرآن پاک کی خوش نویسی اورٹوپیاںسی  آپؒ کی کفالت کے اہم ترین ذرائع آمدن  تھے ۔ آپ ؒ  کے آخر عمر کا واقعہ ہے ۔ ایک بارانہوں نے نمازا پڑھی ۔نماز کے بعد انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے ۔ وہ ہاتھ اٹھائے خاموش دعا کرتے رہے ۔اس وقت اورنگ زیب کے پاس ان کے وزیر سعد اللہ خان کھڑے تھے ۔ اورنگ زیب جب دعا سے فارغ ہوئے تو سعد اللہ خان نے کہا : عالی جاہ!آپ کی سلطنت کا پرچم کشمیر سے لے کر دکن تک لہرارہاہے ۔ کیا اس کے بعد بھی کوئی ارمان آپ کے دل میں باقی ہے جس کے لئے آپ رورہے ہیں ۔ اورنگ زیب یہ سوال سن کر کچھ دیر چپ رہے ۔ اس کے بعد کہا ’’سعد اللہ مردے خواہم‘‘ سعد اللہ میں ایک مرد چاہتاہوں ۔ … اورنگ زیب کو کیوں اور کس لئے ایک ’’مرد‘‘ کی تلاش تھی حالانکہ آپ کے اردگرد تو ہر وقت مصاحبوں ، درباریوں ، امراء ، نوکروں وغیرہ کا ایک جم غفیر ہرآن موجود رہتاتھا…مگر وائے! اورنگ زیب بخوبی جانتے تھے کہ ان کے بعد جولوگ عظیم مغل سلطنت کے وارث بننے والے ہیں وہ سب خودغرض لوگ ہیں…ان کے پاس ذاتی مفاد کے سوا اور کوئی مطلب یا مراد  نہیں ، نتیجہ یہ ہوگاکہ یہ  اورنگ زیب کے بعد ذاتی اقتدار کے لئے آپس میں لڑیں گے اور عظیم مغل سلطنت کو تباہ کرکے رکھ دیں گے ۔ تاریخ نے آپ کے اس اندیشہ کو ایک تلخ ترین حقیقت کے روپ میں اپنے سینے میں محفوظ کرکے رکھ دیا ہے ۔
آج کی بگڑی اور لٹی پٹی انسانی دنیا کو بھی ایک ’’مرد‘‘ کی اشد ضرورت ہے … ایک ایسے ’’مرد‘‘ کی جو نفسیات کی سطح سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی سطح پر سوچے ، جوذاتی مفادات کواجتماعی مفادات کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھائے ، جو گرنے والوں کو تھامے،جو بے سہاروں اور حالات کے مارے لٹے پٹے انسانوں کے درد کا درماں بنے ، جو خود تو روئے لیکن رونے والوں کومسرت وشادمانی کے بھرے ہوئے جام نوش کرائے ، جو دوسروں کے دُکھوں کا سہیم وشریک بن کر ان کے سینوں کا بھاری بھرکم بوجھ ہلکاکرکے جو ’’اپنی چھوٹی موٹی دُنیا ‘‘ کو اُجاڑ کر دوسروں کے اُجڑے ہوئے دنیا کو آباد کرے ، جو اپنی بے عزتی کی قیمت پر دوسروں کو عزت واحترام اور فضیلت وتکریم کی دستار باندھے ،جو اپنے سینے کو قبرستان بنائے او رآپس میں اپنی ہی نوع کے دوسرے افراد کے قصوروں اور لغزشوں کو دفنا کے رکھ دے ، جو حیاتِ مستعار کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بہ رضا ورغبت بیٹھ کر اس گاڑی کی اگلی سیٹیں دوسروں کے لئے خالی چھوڑ دے ، جو یتیموں ، بیوائوں ،مسکینوں ،محتاجوں ، بے نوائوں کا غمخوار بن کر ان کے چہروں کی یاس ونااُمیدی کو آس اور امید کے دلنواز پھولوں سے سجا کے رکھے ، جو زندہ رہے تو دوسروں کے لئے اور مرے بھی تو دوسروں ہی کے لئے …کہاں ہے ایسا مرد ؟
تاریخ کے دفینے میں تو ہمیں زیادہ تر اسکند روچنگیز ہی ملتے ہیں جنہوں نے صد بار قبائے انسانیت کو تار تار کرکے رکھ دیا…کیا یہ انسان ہی نہ تھے جنہوںنے ہیروشیما اور ناگا ساکی پر آتشیں اور زہریلے بم پھینک کر آباد وشاداب انسانی دنیا کو آناً فاناً اُجاڑ کر اس کو عظیم ترین قبرستان میں تبدیل کرکے نہ رکھ دیا…دُور جانے کی ضرورت کیا ، انکل سام نے مسلم دنیا…جوہنستی بستی دنیا … کو معصوم انسانوں جن میں بچے بوڑھے ، مائیں ، بہنیں اور کمسن بچیاں شامل ہیں ، کے معصوم وبے گناہ خون سے لالہ زار بنا کے رکھ نہ دیا…انکل سام کی بات ہی کیا سامراجی اور استعماری قوتیں اس حسین وجمیل کائنات کو شروفساد سے بھر دینے پر تلی ہیں اور ’’بر اور بحرمیں فساد برپا ہوگااوریہ سب انسان کا کیا کرایا ہوگا ‘‘ جیسے ربانی ارشاد کی عملی تفسیر پیش کررہی ہیں۔اورنگ زیب کے ’’مرد‘‘ کی ضرورت آج کہاں نہیں ؟ گھر ہویا سماج، قومیںہوں یا ملتیں،حتیٰ کہ بنی نوع انسانی کو ایسے ہی ’’مرد ‘‘ کی ضرورت ہے۔ یہ ’’مرد‘‘ تو نزولِ آسمانی کی شکل میں ظہور پذیر ہوگا اور نہ ہی پاتال کی گہرائیوں سے اُبھرے گا بلکہ انسانی دنیا ہی میں نظر آئے گا لیکن بقول اقبال ؒ  ع ’’ڈھونڈ اب ان کو چراغِ رُخ زیبا لے کر‘‘…ایسا ’’مرد‘‘نایاب نہیں تو کمیاب ضرورہے لیکن انسانی سماج میںفطرت کی پکار کی حیثیت میں موجود ہے ، کائنات کا وجود ایسے ہی ’’مردوں‘‘ کی موجودگی کا رہین منت ہی تو ہے ۔ ایسا ’’مرد‘‘ کن اوصاف کا حامل ہو ، درج ذیل تاریخی واقعہ ایسے ’’مرد‘‘ کی بھرپو رعکاسی کرتاہے ’’ ایک انگریزی تعلیم یافتہ شخص ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے پریشان تھا ۔ کیا سوجھی کہ ایک بڑے انگریز افسر کے پاس پہنچا اور کہاکہ میں سرسیّدکا داماد ہوں ، مجھ کو ملازمت کی ضرورت ہے ۔ وہ انگریز بہت ہی خاطرمدارت سے پیش آیا اور کہا کہ آپ ٹھہریں ۔اس شخص کوٹھہراکراس کی لاعلمی میں ایک تارسرسیّدکو دیا کہ فلاں شخص اس نام کا ہمارے پاس ملازمت کے تقاضے سے آیا ہے اور اپنے آپ کو آپ کا داماد کہتاہے ۔کیا یہ صحیح ہے ؟ جواب میں سرسیّد نے اس انگریز کولکھا بالکل صحیح ہے ۔ضرور آپ ملازمت کے لئے کوشش فرمادیں ،میںآپ کاممنون رہوں گا ۔ اس شخص کو ملازمت مل گئی ۔ ایک روز اتفاقاً انگریز نے اس شخص سے یہ واقعہ (سرسید سے تحقیق حال کا ) بیان کردیا ۔وہ بہت ہی شرمندہ ہوا اور کچھ عرصہ کے بعد یہ شخص علی گڑھ آیا اور سرسید سے مل کر معافی کی درخواست کی اور کہاکہ میں وہی ہوں جس نے اپنے آپ کو آپ کا دامادبتا کر ملازمت کی ہے ۔ یہ گستاخی بہ ضرورت تھی ۔ سرسیّدنے جواب میں کہاکہ گویہ بات اس وقت غلط تھی مگر اب صحیح ہوجائے گی ۔داماد کہتے ہیں بیٹی کے شوہر کو۔اس کی ایک صورت تو یہ تھی کہ میری بیٹی آپ کی بیوی ہوتی ،سو یہ تو نہیں ہوسکتا،مگر دوسری صورت ممکن ہے وہ یہ کہ آپ کی بیوی کو میں اپنی بیٹی بنالوں ، سو میں آپ کی بیوی کو اپنی بیٹی بناتاہوں اور وہ میری بیٹی اور میں اس کا باپ۔ یہ توجیہہ وقتی ہی نہ تھی بلکہ تازندگی باپ بیٹی اور داماد کا سربرتائو رکھا۔بلانا،لینا دینا سب اسی طرح رکھا ۔ (تہذیب الاخلاف علی گڑھ) ۔جس دانشور نے یہ واقعہ نقل کیاہے اس نے اس تاریخی واقعہ سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ساری دنیا کاہمدرد بننا بہت آسان ہے مگر ایک مصیبت زدہ فرد کے معاملہ کواپنا معاملہ بنانا واقعی بڑے دل والے ’’مردوں‘‘ ہی کا کام ہوسکتاہے ۔اس واقعہ کی روشنی میں ہم اپنے گھر یا سماج میں رہتے ہوئے اپنے لئے ایک ’’مخصوص‘‘ روّیہ کاتعین کرسکتے ہیں ۔نیکی اور خیر کے کاموں میں ہم ہر آن اور ہرلمحہ تعاون کریں او رشراور بدی کے کاموں سے کلی طو ر اجتناب کریں …سر سید والی عالی ظرفی اپنا شعاربنالیں گے ، اپنی نوع کے دوسرے افراد سے جڑنے میں ہم کلی طور یک طرفہ کارروائی کا انتخاب کریں   اور  ع  سلام آپؐ پر جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں ۔ایسے سنت نبویؐ کی عملی تفسیر بن جائیں گے ۔ ربانی ارشاد بھی کیا خوب ہے کہ ’’بدی کو نیکی سے دفع کیجئے پھر آپ دیکھیں گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی وہ ایسا ہوگیا جیسے وئی دوست قرابت والا ‘‘۔(حم السجدہ : ۳۴) ہم ایسا رویہ رومزرہ حالات میں غیر شعوری طور ہی سہی روا تو رکھتے ہی ہیں لیکن انتہائی  محدود اور صرف ذاتی سطح تک ہی ۔ہماری بگڑی بنانے کے لئے ہمیں ’’مردانِ کار‘‘کی اشد ضرورت ہے جو اس لٹے پٹے انبوہ انسانی کی ہمدردی ، مودت اور غیرت وحمیت کی روشنیوں سے مالامال کردے۔

No comments:

Post a Comment