Search This Blog

Tuesday, 26 June 2012

محمود غزنوی ایک علم پرور سلطان

محمود غزنوی
ایک علم پرور سلطان


تاریخ کا فیصلہ اٹل ہے کہ اگر مورخ تاریخ لکھتے وقت غیر جانبداری سے کام نہ لے یا متعصبانہ روش سے احتراز نہ کرے ، یا ایمانداری اور دیانتداری سے واقعات کی عکاسی نہ کرے تو اسکی تاریخ نہ صرف مشکوک اور بے وقعت ہوتی ہے بلکہ اسکی موت کے بعد اسی کے ساتھ دفن ہوتی ہے ۔ اسے المیہ کے سوا اور کیا کہئے کہ تعصب کی بنا پر تاریخ کی مقتدر ہستیوں کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ان ہی ہستیوں میں ایک ہستی سلطان محمود غزنوی کی ہے ۔ جہاں محمود کی زندگی کا سیاسی پہلو ہدف ملامت بنایا گیا وہیں اسکی علمی خدمات کی طرف نہ صرف لاپرواہی برتی گئی بلکہ انہیں نظر انداز بھی کیا گیا ۔ نتیجے کے طور پر وہ مختلف قسم کے تعصبات کا شکار ہوا ۔ عام خیال کے مطابق اسکے حملے ثروت پسندانہ اور جنگجویانہ طبیعت کے غماز تھے اور یہ محمود پر سب سے بڑا ظلم ہے ۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ محمود کا غزنی علم وفن کا ایک اہم مرکز تھا ۔یہ خیال انتہائی لغو ہے کہ اس نے دل بہلانے کی خاطر عالموں ، شاعروں یافاضلوں کی قدر کی یا انہیں شہرت کی بھینٹ چڑھایا۔ برائونؔ جیسا سنجیدہ مزاج رکھنے والا مورخ بھی اس اعتراض پر اتفاق کرتاہے کہ محمود غزنی بڑا بخیل تھا۔
 
واقعہ یہ ہے کہ محمود غزنوی ایک بہترین سپہ سالار اور سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیب اور شائستگی کے زیور سے بھی آراستہ تھا ۔ وہ خود بھی ایک بلند پایہ شاعر تھا ۔ فارسی اور عربی ، دونوںزبانوں میں شعر کہتا تھا ۔ اس نے باقاعدہ ہم عصر علماء سے شرعی علوم سیکھے تھے ۔ مستند کتابوں میں اسے فقیہہ ماناگیاہے ۔ فقہ میں اسکی ایک کتاب موسوم بہ ’’تفرید الفروع‘‘ ہے ۔ فارسی تذکروں اور تاریخوں میں اسکی طبع زاد شاعری بھی منقول ہے ۔
محمود کی علم دوستی کا غالباً سب سے نمایاں ثبوت وہ عالی شان مدرسہ اور کتب خانہ ہے ‘ جو اس نے غزتی میں تعمیر کرایا تھا ۔ کتب خانے میں متعدد نوادارت موجود تھے ۔ اس مدرسہ کے اخراجات کے لئے محمود نے کئی دیہات اور جاگیر یں وقف کی تھیں۔ اسکی تکمیل کے لئے محمود نے جس قدر روپیہ صرف کیا وہ اُس مستقل امداد سے علیحدہ تھا جو دیہات اور جاگیر کی صورت میں مدرسہ کے مصارف اور مدرسین کے وظائف اور مشاہرہ کے لئے وقف کردیئے گئے تھے ۔ اس دارالعلوم کے قیام سے یہ اثر ہوا کہ شعراء اور فضلاء چہارطرف سے غزنی آنے لگے ۔ غزنی ، جو اپنے خوبصورت نظاروں کی وجہ سے عروس البلاد تو تھا ہی ، اب علم وحکمت کا مخزن بھی بنا ۔
نپولین کی ممتاز ترین صفات میں یہ صفت سرفہرست ہے کہ وہ مغلوب ممالک سے بہترین صناع کو پیرس لاتا اور پیرس کو عروس جنت بنادیتا ۔ لیکن محمود نے اپنے پایۂ تخت غزنی کی ترقی میں اس سے زیادہ کام کیا ۔ وہ مفتوحہ ممالک کے صناع کے ساتھ ساتھ وہاں کے شعراء ، حکماء اور فضلاء کو بھی لے آیا اور اس طرح اپنے دربار کو ان تابندہ جواہرات سے جگمگایا ۔
محمود کی تخت نشینی کے وقت فارسی علم وادب کا سرمایہ نفی کے برابر تھا۔نظم میں زیادہ تر قطعات اور رباعیات کا رواج تھا ۔ قصیدہ اور غزل ابھی ابتدائی حالت میں تھے ۔ محمود کی قدر دانیوں نے نہ صرف تاریخ اور اخلاق کے فنون کو ترقی دی بلکہ اس کے دربار ی شعراء نے شاعری کے اصل فن کو زمین سے آسمان پر پہنچادیا ۔ نثر میں بھی سرمایہ قلیل تھا لیکن محمود کے زمانے میں نثر کو بھی غیر معمولی فروغ ملا ۔اس گراں قدر اضافے کی بناء پر ادبیات ایران ہمیشہ محمود کی مرہونِ منت رہے گی ۔ البیرونی نے سنسکرت زبان سیکھ کر اس کی بیس سے زیادہ معروف کتابوں کا ترجمہ کرڈالا ۔ ’’کتاب الہند‘‘جیسی معروف کتاب البیرونی کی تصنیف ہے ۔ امام ثعلبی دربار محمود کا ایک فاضل تھا ، جس نے اہم موضوعات پر کتابیں لکھیں ۔ تاریخ یمینی محمود کے دربار کے ایک عالم عقبی نے لکھی ۔ شعر وادب کے معر کے اطمینان ، خوشحالی اور آسودگی کے آئینہ دار ہوتے ہیں ، تعجب اس بات پر ہے کہ اس سیماب صفت کوفرصت کے لمحات کب نصیب ہوتے تھے ۔سپہ گری اور جہاں کشائی کے جذبے کے باوجود ، علم وفنون کی ترقی محمود غزنوی کا ایک مشن تھا ۔ بادی النظر میں وہ انتہائی کفایت شعار تھا مگر فضل وہنر کی ترویج میں جس دریا دلی سے اس نے دولت صرف کی ہے ‘ اسکی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ علماء کے ساتھ وہ نہایت ہی احترام کے ساتھ پیش آتا تھا ۔ انکے لئے محمود نے وظائف مقرر کئے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا دربار مشاہیر علوم وفنون کا مرکز تھا ۔ مشہور مورخ فرشتہ کے مطابق چار سو شعراء سلطان محمود کے دربار سے وابستہ تھے ‘ جن پر وہ سالانہ چار لاکھ دینار خرچ کرتا تھا ۔ یہ واقعہ ہے کہ برگزیدہ شعراء کا جو اجتماع محمود کے دربار میں تھا‘ وہ ایران ،توران کے کسی دوسرے فرماں روا کو نصیب نہیں ہوا ۔ جن شعراء نے دربار محمود میں غیرمعمولی شہرت پائی ، وہ آسمانِ سخن پہ سات ستارے تھے ۔ عنصری، فردوسی ، اسدی ، عسجدی ، غضائری، عرفی اور منوچہری…فرودسیؔ کے سوا تمام شعراء نے قصیدے لکھے ہیں ۔جن میں سلطان محمود کی ہندوستانی فتوحات کی طرف اشارے ملتے ہیں ۔ محمود نے شاعری کی طرف جس شاہانہ حوصلہ سے توجہ کی ، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک موقع پر جب شہزادہ مسعودؔ خراساں سے غزنی آیا اورشعراء نے قصائد پیش کئے تو ہر ایک شاعر کو بیس بیس ہزار درہم عطا کئے اور ملک الشعراء عنصری کو ایک برجستہ قطعہ کہنے پر تین بار موتیوں سے اس کا منھ بھرا گیا۔ سلطان کی فیاضی کے طفیل چار سو زرّیں کمر بستہ غلام اُس کے جلو میں چلتے تھے ۔ اس کا اسباب چار سو اونٹوں پر بار کیا جاتا تھا ۔ غضائری محمود کے دربار میں خاصی شہرت کا مالک تھا ۔ اسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ محمود کے دربار میں قصیدہ روانہ کرتا تھا ‘ جس کے عوض اسے ایک ہزار دینار ملتے تھے ۔ غضائری کی ایک غزل محمود کو اتنی پسند آئی کہ اس نے صلہ دوگنا کردیا ۔ اس عنایت کے شکریئے میں غضائری نے ایک طویل قصیدہ لکھا جس کے صلہ میں …فرشتہ کے کہنے کے مطابق …سلطان نے اسے چودہ ہزار درہم عطا کئے ۔
محمود کی علم پروری اور ذوق ادب کے ثبوت میں ’’طبقات اکبری‘‘ کا مصنف لکھتاہے کہ۱۰۲۱ء میں جب محمود گوالیار کا محاصرہ کرکے کالنجر کی طرف بڑھا، جو اس وقت مضبوطی کے لحاظ سے ناقابل تسخیر قلعہ تسلیم کیا گیا جاتا تھا ،تو وہاں کے راجہ نندا نے محاصرہ کی تاب نہ لاکر سلطان کی خدمت میں چار سو سے زائد ہاتھی پیش کرتے ہوئے صلح کی درخواست کی چونکہ ان ہاتھیوں پر کوئی مہاوت نہیںتھا‘ اسلئے محمود نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ انہیں پکڑ کر ان پر سوار ہو جائیں ۔ چنانچہ حکم کی تعمیل کی گئی ۔ نندا یہ دیکھ کر بہت متعجب ہوا۔ اس نے محمود کی تعریف میں چند اشعار ہندی زبان میں لکھ کرپیش کئے ، محمود نے انہیں پڑھوا کر سنا ۔ اشعار معانی کے لحاظ سے بے مثل تھے ‘ وہ اصل مقصد کو بھول گیا اور بے اختیار ہوکر نندا کوپندرہ قلعوں کی حکومت بخش دی ۔
لے دے کر ایک فرودسیؔ کی مثال رہ جاتی ہے ۔ اسے فرودسی کی بدقسمتی کے سوا اور کیا کہئے ۔ حق تو یہ ہے کہ فردوسی کے سلسلے محمودؔ کے بخیل ہونے کا جومقصدمروجؔ ہے وہ حقیقت سے دُور اور بے بنیاد ہے ۔ وہ شخص جو چار لاکھ اشرفی مستقلاً علماء اورشعراء پر صَرف کرے ، جو دارالعلوم اور اس کے مصارف کیلئے ایک زبردست جائیداد وقف کرے ، جو علماء اور شائقین علم کی ہمت افزائی میںہمیشہ اپنے خزانے کا منہ کھلا رکھے ، جو ایک ایک شعر پر تین تین بار شاعر کا منھ جواہرات سے بھردے اور جو ایک معمولی اور وہ بھی غیر زبان نظم پر اپنی فتوحات کو نظر انداز کرکے ایک مفتوح راجہ کوپندرہ قلعے تفویض کرے ، کیا اس کی نسبت کوئی معقول شخص کہہ سکتاہے کہ محمود غزنوی طامع اور بخیل تھا؟٭٭

No comments:

Post a Comment