Search This Blog

Sunday, 10 June 2012

نائٹ کلب کا مالک خانۂ کعبہ کا موذن کیسے بنا؟

نائٹ کلب کا مالک خانۂ کعبہ کا موذن کیسے بنا؟


- عبدالستار‘ کشف
میں ایک مشہور گلوکار تھا لیکن پھر جب میں نائٹ کلب کا مالک بن گیا تو وہاں گانے گاتا۔ موغادیشو کے ہوٹل اور نائٹ کلب میری بکنگ کے لیے زیادہ سے زیادہ رقومات پیش کرتے۔ راتوں کو زندہ کرنے کے لیے، لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو مزید مشہور بنانے کے لیے میں نت نئے ناٹک رچاتا۔ عریاں ڈانس، فحش مکالمات اور عشقیہ گیتوں کے ذریعے پیسہ کمانا ہمارا مقصدِ حیات بن چکا تھا۔ جب یہ چیزیں میسر ہوں تو شیطان خوب خوش ہوتا ہے۔ بگڑے ہوئے گھرانے، ان کی امیر لڑکیاں اور لڑکے، شراب، نشہ، ہیروئن سب کچھ میسر تھا۔ رقص گاہیں ہماری وجہ سے آباد تھیں۔ شیطان کے اہداف حاصل کرنے کے لیے ہمارے اردگرد بدکار لوگوں کا ایک بڑا گروہ تھا۔ ہم نے بھی اسلامی اقدار کو ختم کرنے اور شیطانی مجالس کو فروغ دینے میں ساری قوتیں صرف کردیں۔ ہم صرف نام کے مسلمان تھے، اسلامی روح کے بغیر ظاہری حد تک۔ میں نے کتنے ہی یورپی ممالک کا سفر کیا۔ وہاں نائٹ کلبوں میں گاتا رہا، صومالیہ کے آرٹ کو اجاگر کرتا رہا۔ مغرب کو خوش کرنے کے لیے کہ ہم ترقی پسند قوم ہیں، میرے ایمان کا، اسلام کا اور اخلاق کا جنازہ نکلتا گیا… مگر میری جیب بھرتی گئی۔ ’’1983ء میں میرے والد نے اپنے ہی خاندان میں سے ایک لڑکی کا انتخاب کیا۔ خوب ہلاگلا ہوا۔ ٹیلی ویژن، اخبارات، ذرائع ابلاغ کے نمائندے جمع ہوئے۔ یقینا یہ ایک یادگار شادی تھی۔‘‘ شادی کے دوران میں نے یہ محسوس کیا کہ میری بیوی اتنی زیادہ خوش و خرم نہیں ہے جتنا کہ میرے جیسے معروف آدمی سے شادی کے بعد کسی لڑکی کو خوشی اور فخر ہونا چاہیے۔ میں نے اس کو اُس کی فطری حیا پر محمول کیا۔ میں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ جب صبح گھر آتا ہوں تو میری بیوی جاگ رہی ہوتی ہے اور عموماً اس کے ہاتھ میں قرآن پاک ہوتا ہے جسے وہ پڑھ رہی ہوتی ہے۔ میں آکر اسے بڑے جوشیلے انداز میں اس رات کی کارکردگی سناتا، اپنے پرستاروں کی چاہت سے آگاہ کرتا اور بتاتا کہ آج کتنی لڑکیوں اور لڑکوں کے فون آئے جو میرے فن کے شیدائی ہیں۔ میری بیوی ان باتوں کو ناگواری سے سنتی اور میرے لیے ہدایت کی دعا کرتی۔ اس دوران فجر کی اذان ہوجاتی اور وہ مصلے کی طرف بڑھ جاتی، جب کہ میں نماز پڑھے بغیر ہی سوجاتا۔ میں جب بھی اس سے نائٹ کلب کا ذکر کرتا، وہاں کی باتیں سنانا، اپنی کمائی کا ذکر کرتا، بینک بیلنس کا رعب جماتا تو وہ جواباً کہتی: ’’رازق تو صرف اللہ کی ذات ہے‘‘۔ ہماری شادی کو پانچ سال گزر چکے تھے۔ میں مسلسل اپنے فن میں مبتلا اور فسق و فجور میں ڈوبا ہوا نماز اور عبادت کے بغیر زندگی گزارتا رہا… پھر اچانک ہماری زندگی میں ایک ہنگامہ برپا ہوا۔ یہ 1988ء کی بات ہے، میری بیوی نے مجھ سے کہا: ’’میں اس شخص کے ساتھ ہرگز زندگی نہیں گزار سکتی جو اپنے رب کا وفادار نہیں، جو نماز ادا نہیں کرتا، اس کی کمائی حرام ہے جو فجر کے وقت گھر آتا ہے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ میری بیوی میرے لیے ایسا سوچ سکتی ہے۔ بہرحال گھر میں لڑائی شروع ہوگئی۔ میں نے اس کی باتیں سنی ان سنی کردیں۔‘‘ ’’کچھ دن گزرے، ایک دن جب میں گھر میں داخل ہوا تو فجر کی اذان ہورہی تھی۔ شہر کی مساجد میں اذانیں بلند ہورہی تھیں۔ ہر طرف اللّٰہ اکبر… اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ حی علی الصلاۃ کی گونج تھی۔ جب سونے کے لیے اپنے کمرے میں جانے لگا تو میری بیوی نے کہا: ’’آپ مسجد میں نماز کے لیے کیوں نہیں جاتے؟ کیا آپ نے اذان کی آواز نہیں سنی؟‘‘ میری زندگی میں یہ پہلا موقع تھاکہ کسی نے مجھے نماز کے لیے کہا تھا۔ اس لمحے میں نے خود بھی نماز پڑھنے کے بارے میں سوچا۔ میرے جسم میں جھرجھری سی آئی۔ بیوی کی آواز بار بار کانوں میں گونج رہی تھی ’’اس وقت مسلمان مسجد کی طرف جارہے ہیں۔ آپ کیوں مسجد کا رخ نہیں کرتے؟ یہ رحمن کا بلاوا ہے۔ یہ مالک الموت کی طرف سے دعوت ہے۔‘‘ اور پھر میرے ذہن میں خیر اور شر کی کشمکش ہوئی۔ فطرت کی آواز بلند ہوئی: تمہارا نام کتنا خوبصورت ہے… عبداللہ… تم اللہ کے بندے ہو۔ مگر نہیں… تم تو شیطان کے چیلے بنے ہوئے ہو۔ کبھی تم نے اپنے مالک کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ تم کب تک زندہ رہو گے، کب تک زندگی رہے گی، کب تک جوانی رہے گی؟ میرے سامنے ماضی آگیا… ضمیر نے ملامت شروع کی… مگر فوراً کلب کی رعنائیاں، ٹیلی ویژن کی اسکرین، اسٹیج، شہرت، عزت… کیا میں بیوی کی بات مان لوں؟ یہ کام چھوڑ دوں؟ یہ مقام حاصل کرنے کے لیے میں نے بے حد محنت اور جدوجہد کی ہے۔ یہی سوچتے سوچتے میں حسب عادت سوگیا۔ شام کے وقت میں نے کپڑے تبدیل کیے۔ کلب جانے کے لیے تیاری کی… میری بیوی نے میرے کان میں سرگوشی کی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ کہہ رہی تھی: ’’ذرا بیٹھ جائیں… ذرا میری بات تو سنیں… کیا ہمارا رازق اللہ نہیں ہے؟ حلال کا ایک لقمہ حرام کے ہزاروں لقموں سے بہتر ہے۔‘‘ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بیوی کی آواز… اس کی گفتگو… اس کے کلمات… یقینا درست ہیں۔ ان میں صداقت ہے… یہ فطرت کی آواز ہیں… مگر… میرا فن… میری آواز… میری شہرت…؟ میں تیزی سے بھاگا، کہ کہیں بیوی کی بات مان نہ لوں۔‘‘ ’’راستے میں بیوی کے کلمات میرا پیچھا کررہے تھے کہ میں نائٹ کلب کے دروازے پر پہنچا۔ اس دوران عشاء کی نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ میرے کانوں میں مؤذن کی خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی آواز گونجی… حی علی الصلاۃ… حی علی الفلاح… ‘‘ ’’بیوی کی نصیحت یاد آئی… اللہ کی رحمت جوش میں آگئی۔ فسق و فجور اور کفر کے غبار کی تہہ بیٹھنے لگی… ایمان کی حرارت اور اسلام کی قوت زور دکھانے لگی… اور پھر میرا رخ نائٹ کلب سے مسجد کی طرف ہوگیا۔ میں مسجد میں داخل ہوا‘ وضو کیا۔ جماعت ہورہی تھی، میں نے نماز ادا کی۔ بعض نمازیوں نے مجھے پہچان لیا۔ کوئی ہاتھ ملا رہا ہے، کوئی دور سے سلام کررہا ہے۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہے اور میرا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے۔ الحمدللہ میں نے فطرت کو پالیا ہے۔ کسی نے مجھے صحیح بخاری کا نسخہ تحفے میں دیا۔ یہ اب میرے لیے متاع حیات تھی… میں اپنی نئے ماڈل کی قیمتی گاڑی میں سوار ہوا۔ اس کا رخ نائٹ کلب کے بجائے گھر کی طرف دیکھا۔ میری بیوی جو مجھے فجر کے وقت گھر آتے دیکھا کرتی تھی… آج عشاء کے بعد گھر میں دیکھ رہی تھی۔ بیوی کی طرف بڑھا: ’’بیگم… تمہیں مبارک ہو… میں نے آج سے گانوں سے توبہ کرلی ہے۔ میں نے فسق وفجور اور لہو و لعب کی زندگی کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ میں نے سچی توبہ کرلی ہے۔ میں الحمدللہ تائب ہوگیا ہوں۔‘‘ پھر میں نے محسوس کیا گویا میں نے نئی زندگی کا آغاز کیا ہے۔ سب سے پہلے وہ اسٹوڈیو، جس کا میں مالک تھا، جس میں گانے ریکارڈ کراتا تھا، جس میں دنیا بھر کی جدید مشینیں تھیں، جن کو دنیا کے کونے کونے سے جمع کرتا رہا تھا… میں نے اس اسٹوڈیو کو دعوتِ الی اللہ کے لیے وقف کردیا کہ اب یہاں قرآن پاک کی کیسٹیں، علمائے کرام کی تقاریر اور اسلامی ترانے ریکارڈ ہوں گے۔ میں نے قیمتی گاڑی فروخت کردی، خوبصورت محل نما کوٹھی فروخت کردی… میں ایک اوسط درجے کے مکان میں آگیا۔ اب میرا وقت اپنے گھر میں گزرنے لگا۔ میری ایک ہی تمنا تھی… ایک ہی جستجو… میں حلقہ قرآن سے وابستہ ہوگیا… اب مجھے قرآن پاک حفظ کرنے کی خواہش تھی۔ 1990ء میں مَیں نے اپنے وطن کو چھوڑنے کا ارادہ کرلیا اور پھر پہلی مرتبہ اس گھر کی زیارت کے لیے آیا جس کی زیارت اور جس کے گرد چکر لگانے کی تڑپ دنیا کے ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے۔ میں مکہ مکرمہ پہنچ گیا۔ نیک بخت بیوی بھی ہمراہ تھی۔ عمرہ ادا کیا تو ایمان میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مکہ مکرمہ میں بعض اہلِ خیر کو معلوم ہوا، وہ مجھ سے واقف تھے… میری سابقہ زندگی سے… میرے ماضی سے… میری اسلام پر پختگی سے…‘‘ اور پھر انہوں نے عبداللہ کو ہاتھوں ہاتھ لیا، اس کی تکریم کی، اس کی کفالت کی… کچھ ہی عرصہ میں اس نے قرآن کے دس پارے حفظ کرلیے۔ اب وہ ایک مبلغ تھا۔ عقیدے کا، اسلام کا، قرآن کا، حدیث کا۔ پھر وہ اس دوران میں کئی مرتبہ عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ آیا۔ پھر اس کو اس بلد الحرام میں، مکہ مکرمہ میں، اس مبارک اور مقدس شہر کی مقدس مسجد میں بطور موذن موقع مل گیا۔ عبداللہ آج بھی مبلغ ہے، وہ موذن ہے اسلام کی آواز کا… وہ سعودی عرب میں ہو یا صومالیہ میں، ہر جگہ وہ دعوتِ الی اللہ کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے اور نجانے کتنے ہی گنہگاروں اور خطا کاروں نے اس کے ہاتھ پر توبہ کی ہے اور اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق بنالی ہیں تاکہ وہ بھی حقیقی سعادت سے بہرہ ور ہوسکیں بالکل اسی طرح جس طرح عبداللہ سعادت حاصل کرچکا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بالکل حق ہے: ’’دنیا ایک پونجی (فائدہ کی چیز) ہے اور دنیا کی بہترین پونجی نیک بیوی ہے۔‘‘

No comments:

Post a Comment