IMAM GHAZALI RESEARCH FOUNDATION
Search This Blog
Sunday, 20 July 2014
زکوۃ اور ٹیکس . Zakat aur Tax
زکوۃ اور ٹیکس
علامہ یوسف القرضاوی
ماہرین اقتصادیات کی تعریف کے مطابق ٹیکس ایک لازمی فریضہ ہے جس کا حکومت کو اداکرنا اس شخص پر واجب ہے جس پر وہ عائد کیا جائے۔ یہ ٹیکس اس شخص کی قدرتِ ادایگی کے پیش
نظر عائد کیا جاتا ہے، خواہ اس کو ان خدمات کے فوائد سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے یا نہیں جو حکومتی ادارے فراہم کرتے ہیں۔ ان ٹیکسوں سے ہونے والی مجموعی آمدنی کو جہاں حکومت کے عام اخراجات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہیں ان کے ذریعے بعض ان اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی اہداف و اغراض کو حاصل کیا جاتا ہے جو حکومت کے پیش نظر ہوتے ہیں۔۱
زکوٰۃ جیساکہ اس کی تعریف علماے شریعت نے کی ہے، ایک ایسا فریضہ ہے جس کو اللہ نے مسلمانوں کے مال و دولت میں ان کے لیے واجب قرار دیا ہے جن کو اللہ کی کتاب میں فقرا، مساکین اور دیگر مستحقین زکوٰۃ کے نام سے یاد کیا گیا ہے تاکہ اس کی نعمت کا شکر ادا کیا جاسکے، اللہ سے تقرب حاصل ہو اور مال اور نفس کا تزکیہ ہوسکے۔
زکٰوۃ اور ٹیکس میں ہم آہنگی کا پہلو
اُوپر بیان کردہ دونوں تعریفوں سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ زکوٰۃ اور ٹیکس میں جہاں اختلاف کے بعض پہلو ہیں، وہیں ان دونوں میں اتفاق اور ہم آہنگی کے بھی بعض پہلو پائے جاتے ہیں۔ ان پہلوؤں کا تذکرہ حسب ذیل ہے:
ا۔ جبر اور لزوم کا وہ پہلو جس کے بغیر ٹیکس وصول نہیں کیا جاسکتا ہے ، زکوٰۃ میں بھی پایا جاتا ہے اگر ایک مسلمان اپنے مسلمان ہونے کے دعوے کے باوجود اس کو ادا نہ کرے۔یہ جبر اور لزوم اس وقت اور بھی زیادہ ہوسکتا ہے جب اس کو ہتھیار کی قوت کے ساتھ اس شخص سے وصول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو اس کی ادایگی سے انکار کرتا ہے اور اس کے خلاف تلوار کو میان سے نکال لیتا ہے، نیز جو اس کے واجب ہونے سے انکار کرے اور صاحبِ قوت بھی ہو۔[یہ اشارہ ہے سیدنا ابوبکرؓ کا مانعینِ زکوٰۃسے جنگ کرنے اور ان سے تلوار کی نوک پر زکوٰۃ وصول کرنے کی طرف۔مترجم]
ب۔ علاوہ ازیں ٹیکس کسی عام ادارے کو ادا کیا جاتا ہے جیساکہ مرکزی حکومت یا مقامی حکومت۔۲ یہی کچھ حال زکوٰۃ کا بھی ہے جو حکومت کو اس ادارے کے ذریعے ادا کی جاتی ہے جس کو قرآن نے الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا (اس کے لیے کام کرنے والے) کا نام دیا ہے۔
ج۔ ٹیکس کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ اس میں خواص___ یعنی خاص خاص افراد___ کی رعایت نہیں کی جاتی۔ ٹیکس ادا کرنے والا ایک خاص معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے ٹیکس ادا کرتا ہے اور اس کی مختلف سرگرمیوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان اپنی زکوٰۃ کسی خاص شخصی فائدے کے لیے ادا نہیں کرتا بلکہ وہ صرف اس وجہ سے ادا کرتا ہے کہ وہ اس مسلمان معاشرے کا ایک فرد ہے جس کی حمایت، کفالت اور اخوت سے وہ بہرہ ور ہوتا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اس معاشرے کے دیگر افراد کی مدد کرے اور ان کو فقر اور عجز کی حالت میں اور زندگی کی مصیبتوں کے مقابلے میں امن و امان مہیا کرے۔ مزید یہ کہ وہ ایسے عام نفع کے منصوبوں میں اپنا حصہ ادا کرے جس کے ذریعے اُمت مسلمہ کا کلمہ اُونچا ہوتا ہے اور دعوتِ حق کا دائرہ وسیع تر ہوتا ہے، اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ اس کو ادایگی زکوٰۃ سے کوئی شخصی نفع پہنچتا ہے یا نہیں ۔
د۔ اگرچہ ٹیکس کے جدید رجحان کے اعتبار سے ٹیکس کے مالی فوائد کے علاوہ کچھ اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی ہدف بھی ہیں لیکن زکوٰۃ کے بھی بعض ایسے پہلو ہیں جو اپنے دائرے میں اس سے زیادہ وسیع ہیں اور ان کا اُفق (horison) زیادہ وسیع اور اس کی جڑیں زیادہ گہری ہیں۔ ان مذکورہ پہلوؤں اور ان کے علاوہ دیگر پہلوؤں میں فرد اور معاشرے پر ان کے دُوررس اثرات نمودار ہوتے ہیں۔[تفصیلات کے لیے دیکھیے اس کتاب کا باب: ’زکوٰۃ کے اہداف‘ ۔مترجم]
زکوٰۃ اور ٹیکس میں اختلاف کا پہلو
زکوٰۃ اور ٹیکس میں اختلاف کے پہلو تو بہت زیادہ ہیں جن میں سے اہم اُمور کا ذکر ہم مندرجہ ذیل سطور میں کرتے ہیں:
*اسم اور عنوان میں فرق: پہلے ہی مرحلے میں زکوٰۃ اور ٹیکس کا فرق ان کے عنوان، ان کی دلالت اور اس کے اثرات سے ظاہر ہوجاتا ہے۔ لفظ ’زکوٰۃ‘ اپنے لغوی معنوں میں طہارت، نشوونما اور برکت پر دلالت کرتا ہے۔
شریعتِ اسلامی کا اس لفظ کو اس حصے کی تعبیر کے لیے اختیار کرنا جو اس کے مال و دولت میں فرض کیا ہے اور جو فقرا اور دیگر مستحقین کے لیے خاص کیا گیا ہے، اس لفظ کے اثرات نفسِ انسانی پر بڑے اچھے پڑتے ہیں برعکس ان اثرات کے جو لفظ ’ٹیکس‘ سے پڑتے ہیں۔
ٹیکس کا لفظ بنا ہے جرمانہ لگانے سے یا پیداوار میں سے ایک حصہ وصول کرنے سے۔ عربی زبان میں ’ضُرِبَ علیہ‘ سے ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ (البقرہ۲:۶۱) (ان پر، یعنی یہود پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی گئی)۔ کہتے ہیں: ضرب علیہم ضریبۃ البیع (اس پر سیلز ٹیکس عائدکیا)۔اس زاویۂ نگاہ سے لوگ ضریبہ(ٹیکس) کو ایک جرمانہ اور ایک بڑا بوجھ تصور کرتے ہیں۔ رہا لفظ ’زکوٰۃ‘ تو وہ اپنے پہلو میں پاکیزگی، نشوونمااور برکت کے معنوں کو سموئے ہوئے ہونے کی وجہ سے، یہ اثر چھوڑتا ہے کہ جو مال و دولت وہ سمیٹ سمیٹ کر جمع کر رہا ہے یا اس سے لطف اندوز ہورہا ہے اور اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کر رہا ہے جس کو اللہ نے فرض کیا ہے، تو وہ مال و دولت اس وقت تک خبیث اور ناپاک رہیں گے جب تک ان کو زکوٰۃ کے ذریعے پاک و صاف نہیں کیا جائے گا۔
یہ لفظ یہ اثر بھی چھوڑتا ہے کہ جو مال زکوٰۃ نکالنے سے بظاہر کم ہوجاتا ہے اگر اس کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ حقیقت میں پاک ہوکر بڑھتا اور نشوونما پاتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرہ ۲:۲۶۷) ’’اللہ سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو پروان چڑھاتا ہے‘‘۔۳ اور وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ (سبا ۳۴:۳۹)، تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو وہ، یعنی اللہ اس کی جگہ نیا رزق دیتا ہے۔۴
یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پاکیزگی، نشوونما اور برکت صرف مال میں نہیں ہوتی بلکہ وہ انسان کے اندر اپنے اثرات پیدا کرتے ہیں۔ زکوٰۃ لینے والے میں بھی اور زکوٰۃ دینے والے میں بھی۔ زکوٰۃ وصول کرنے والے کا نفس، معاشی بھلائی کی وجہ سے حسد اور بُغض سے پاک ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے اس کے اور اس کے خاندان کے لیے مالی آسودگی فراہم ہوجاتی ہے۔ جہاں تک زکوٰۃ دینے والے کا تعلق ہے تو اس کا نفس بخل اور کنجوسی سے پاکیزگی حاصل کرتا ہے اور اس میں، اس کے اہل و عیال میں اور مال میں برکت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبہ ۹:۱۰۳) ’’تم ان کے مال و دولت میں سے زکوٰۃ وصول کرو جس کے ذریعے تم ان کو پاک کرتے ہو اور ان کے نفس کا تزکیہ کرتے ہو‘‘۔
* کیفیت اور رُخ میں فرق: زکوٰۃ ایک ایسی عبادت ہے جو مسلمانوں پر فرض کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لایا جاسکے اور اس ہستی مبارک سے قرب حاصل ہو۔ رہا ٹیکس تو وہ ایک خالص تمدنی پابندی ہے جو عبادت اور قربت کے سارے معنوں سے یکسر خالی ہے۔ اسی لیے زکوٰۃ میں ادایگی کے لیے ’نیت‘ شرط ہے تاکہ وہ اللہ کے ہاں قبول ہوسکے، کیونکہ کوئی بھی عبادت نیت کے بغیر ادا نہیں ہوتی ہے۔ انما الاعمال بالنیات ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینہ ۹۸:۵) ’’اور انھیں حکم نہیں دیا گیا الا یہ کہ وہ اللہ کی عبادت کریں (اپنی نیتوں) کو اس کی اطاعت کے لیے خالص کرکے‘‘۔
اسی وجہ سے زکوٰۃ کا ذکر فقہ کی کتابوں میں عبادات کے ضمن میں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ کتاب و سنت میں ان دونوں کو، یعنی نماز اور زکوٰۃ کو ایک دوسرے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن نے ۲۰سے زائد جگہوں پر مکّی اور مدنی سورتوں میں ان کا ذکر کیا ہے۔ رہی سنت تو اس میں ان مقامات کی گنتی نہیں کی جاسکتی ہے۔ مثلاً حدیث جبریل ؑ اور حدیث: بنی الاسلام علی خمس ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے‘‘۔ ان کے علاوہ دیگر بہت سی احادیث ہیں جن میں زکوٰۃ کا ذکر موجود ہے۔ یہ اسلام کی چار عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے۔ اور اس وجہ سے کہ زکوٰۃ ایک عبادت ہے، شعائر اسلام میں سے ایک شعار ہے اور ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے، اس سبب سے یہ صرف مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔ وسعتِ داماں کی حامل شریعت نے اس بات کو گوارا نہیں کیا کہ ایک مالی عبادت کو غیرمسلموں پر فرض کرے جو شعائر اسلام میں سے ہے۔ یہ ٹیکس کے برعکس ہے جو مسلم اور غیرمسلم دونوں پر فرض کیا جاتا ہے اگر ان میں اُسے ادا کرنے کی طاقت اور قدرت ہو۔
* نصاب اور مقدار کے تعین میں فرق: زکوٰۃ ایک ایسا حق و حصہ ہے جس کو شارع نے بذاتِ خود مقرر کیا ہے۔ اسی نے ہرقسم کے مال کا نصاب مقرر کیا ہے۔ اسی نے ان مقداروں کا تعین کیا ہے جو ۵فی صد سے لے کر ۱۰فی صد تک اور ڈھائی فی صد واجب الادا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان میں تبدیلی یا کمی بیشی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو خطاکار قرار دیا ہے جو عصرِحاضر کی اجتماعی اور اقتصادی تبدیلیوں کی بنا پر ان میں زیادتی کرنا چاہتے ہیں (دیکھیے فقہ الزکوٰۃ، ص ۲۴۴۔۲۴۶)۔ اس کے برخلاف ٹیکس اپنے نصاب، مقدار، شرح اور دیگر اُمور میں حکومت کی صواب دید پر منحصرہوتا ہے، اور ان کے تعین کا فیصلہ صاحبِ اقتدار حضرات کرتے ہیں بلکہ ان کا نفاذ یا خاتمہ حکومت کے فیصلے پر منحصر ہوتا ہے اگر وہ اس کی حاجت محسوس کرے۔
* باقی اور دائم رہنے کے لحاظ سے فرق:اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زکوٰۃ ایک باقی رہنے والا اور دائمی فریضہ ہے، جب تک کہ زمین پر اسلام اور مسلمان باقی ہیں۔ اس کو نہ تو ظالم کا ظلم باطل قرار دے سکتا ہے اور نہ عادل کا عدل۔ اس کا حال نماز جیسا ہے جو اسلام کا ستون ہے، جب کہ یہ اسلام کا خزانہ ہے۔ رہا ٹیکس تو نہ اس کی کیفیت کو دوام حاصل ہے نہ مقدار ہی اس کی دائمی ہے اور نہ اس کے وجوب کی کم از کم حد کو بقا حاصل ہے۔ ہرحکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کی شرح میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی لاسکے یا اس کو اہلِ حل و عقد (یعنی قانون ساز اداروں) کی پشت پناہی حاصل ہو، بلکہ ٹیکس کا باقی رہنا بجاے خود ایک بڑا سوال ہے۔ کیونکہ یہ حاجت کے تابع ہے اور حاجت کے خاتمے سے اس کا خاتمہ بھی واجب ہوجاتا ہے۔
* خرچ کی مدات میں فرق: زکوٰۃ کے استعمال کی وہ خاص مدات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں مقرر کردیا ہے اور ان کی وضاحت رسولؐ اللہ نے اپنے قول اور فعل سے کی ہے۔ خرچ کی یہ مدات اتنی واضح ہیں کہ ایک مسلمان بذاتِ خود انھیں جان سکتا ہے اور اپنی زکوٰۃ ان میں صرف (خرچ) کرسکتا ہے اگر اُسے ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑے۔ یہ مداتِ خرچ انسانی اور اسلامی نوعیت کی حامل ہیں۔ جہاں تک ٹیکسوں کا تعلق ہے تو ان کو عام حکومتی اخراجات پر خرچ کیا جاتا ہے اور ان کا تعین حکومت کے مقتدر ادارے کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا موازنہ حکومت کے عام موازنے سے ایک الگ اور مستقل بالذات چیز ہے جس کے صرف کرنے کے راستے نسبتاً محدود اور متعین ہیں، اور جن کو قرآن کریم نے خرچ کرنے کے لیے متعین کرکے کہا: فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ (التوبہ ۹:۶۰) ’’اللہ کی طرف سے فرض کیے ہوئے‘‘۔
* حکومت سے تعلق میں فرق:یہیں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ٹیکس کی ادایگی کا معاملہ ٹیکس ادا کرنے والے اور حکومت کے درمیان ہوتا ہے۔ حکومت ہی اس کو مقرر کرتی ہے، وہی اس کا مطالبہ کرتی ہے اور وہی اس کی واجب الادا شرح کا تعین کرتی ہے۔ اُسی کے ہاتھ میں اس کو کم کرنا ہوتا ہے اور وہی اس کے کسی جز سے خاص حالات میں دست بردار ہوسکتی ہے۔ کسی خاص سبب کی وجہ سے یا ہمیشہ کے لیے بلکہ اُسی کے ہاتھ میں اس کو منسوخ قرار دینا ہوتا ہے اور اگر وہ چاہے تو سارے ہی ٹیکسوں کو منسوخ کرسکتی ہے۔ اگر ٹیکس کا شعبہ مطالبے میں لاپروائی سے کام لے یا تاخیر کرے تو ٹیکس ادا کرنے والے کو موردِ الزام نہیں قرار دیا جاتا ہے اور اس سے کسی چیز، یعنی جرمانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس زکوٰۃ کا معاملہ مختلف ہے۔ سب سے پہلے یہ زکوٰۃ ادا کرنے والے اور اس کے رب کے درمیان معاملہ ہے۔ اس کے رب نے اُسے مال عطا کیا ہے اور اس نے اُسے زکوٰۃ ادا کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھیرایا ہے تاکہ وہ اس کے حکم کی پیروی کرسکے اور اس کی خوش نودی حاصل کرسکے۔ اُسی نے اس کی مقدار کا تعین کیا اور اُس نے اس کے خرچ کی مدات کا تعین بھی کیا ہے۔ اگر کوئی ایسی حکومت، یعنی اسلامی حکومت پائی نہ جاتی ہو جو زکوٰۃ جمع کر کے اُسے مستحقین میں تقسیم کرسکتی ہو، تو ایک مسلمان کا دین اس پر یہ امر فرض کرتا ہے کہ وہ اس کو اس کے مستحقین پر تقسیم کرے، کیونکہ زکوٰۃ کسی حال میں اس پر سے ساقط نہیں ہوتی ہے۔ وہ اس معاملے میں نماز کی طرح ہے۔ اگر ایک مسلمان ایسی جگہ پر ہو جہاں نہ تو مسجد ہی پائی جاتی اور نہ امامت کرنے کے لیے کوئی امام ہی موجود ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ نماز جہاں بھی ہوسکے پڑھے، اپنے گھر میں یا کسی اور مقام پر۔ کیونکہ زمین ایک مسلمان کے لیے مسجد کا حکم رکھتی ہے (جہاں چاہے نماز ادا کرے) اور کسی حال میں بھی نماز نہ چھوڑے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ زکوٰۃ نماز کی طرح ہی ہے۔ اس وجہ سے ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرے ، یہ اُمید کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کی جانب سے قبول فرمائے گا اور اس کو واپس نہیں لوٹائے گا۔ یہ امر مستحب ہے کہ وہ اپنے رب سے قبولِ زکوٰۃ کے لیے اس قسم کی دعا کرے: اللھم اجعلھا اجراً ولا تجعلھا مغرماً (اے اللہ! اُسے باعثِ ثواب و اجر بنا اور باعثِ عذاب نہ بنا)۔
یہی سبب ہے جس کی بنا پر ایک مسلمان زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اس کی ادایگی سے بھاگتا نہیں ہے جیساکہ عموماً دیکھا گیا کہ لوگ ٹیکس ادا کرنے سے بھاگتے اور جی چراتے ہیں۔ اگر وہ بھاگتے نہیں ہیں تو اُسے جبر کی وجہ سے یا پھر کراہیت کے ساتھ ادا کرتے ہیں، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ایسے مسلمان بھی ہیں جو اپنے مال میں سے زکوٰۃ سے بھی زیادہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اس رغبت کے سبب جو اللہ کے ہاں پائی جاتی ہے اور تاکہ اس کا ثواب اور اللہ کی خوشنودی انھیں حاصل ہو جیساکہ عہدنبویؐ میں اور آپؐ کے بعد کے اَدوار میں ہوتا رہا ہے۔
* اہداف اور مقاصد میں فرق:زکوٰۃ کے اعلیٰ روحانی اور اخلاقی مقاصد اُفق پر چمکتے نظر آتے ہیں۔ ٹیکس اتنی بلندیوں تک پہنچنے سے قاصر اور عاجز ہے۔ اس کے اہداف کے بارے میں ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کا وہ قول کافی ہے جو اس کی کتاب میں وارد ہوا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (التوبہ ۹:۱۰۳) ’’تم ان کے اموال میں سے وہ زکوٰۃ لو جو ان کو پاک کرتی اور ان کے (نفوس کا) تزکیہ کرتی ہے اور ان کے لیے دعا کرو، بے شک تمھاری دعا (ان کے لیے) باعثِ تسکین ہوتی ہے‘‘۔ نبیؐ زکوٰۃ ادا کرنے والے کے حق میں اس کی ذات اور اس کے مال میں برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے، اور یہ وہ بات ہے جو ہر زکوٰۃ وصول کرنے والے کو کہنی چاہیے۔ رسولؐ اللہ کے اسوۂ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے بلکہ بعض فقہا نے اسے واجب قرار دیا ہے کیونکہ آیت نے اس کا حکم دیا ہے اور بظاہر ایسا ہی صحیح دکھائی دیتا ہے۔
رہا ٹیکس، تو وہ ان اُونچے اہداف کی طرف دیکھنے کی زحمت ہی نہیں اُٹھاتا ہے بلکہ کئی صدیوں تک مالیات کے ماہرین اس بات سے انکار ہی کرتے رہے کہ ٹیکس کا مقصد حکومت کے خزانے بھرنے کے علاوہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔ اسی موقف کو ’غیر جانب دار تصور‘ کا نام دیا گیا مگر جب افکار میں تبدیلی آئی اور اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی حالات میں تغیر پیدا ہوا تو ’غیرجانب دار‘ نظریے کے حامیوں کو شکست ہوئی اور وہ لوگ نمودار ہوئے جو اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ ٹیکسوں کو متعین اقتصادی اور اجتماعی اہداف کو حاصل کرنے کا وسیلہ بنانا چاہیے، جیساکہ خرچ کی ہمت افزائی یا بچت کی ہمت افزائی یا تعیشاتی اشیا پر خرچ کرنے میں کمی اور (طبقات کے درمیان) پائے جانے والے فرق کا ازالہ وغیرہ۔ یہ سب اس کے اصلی ہدف کے پہلو بہ پہلو ہیں جو ایک مالی ہدف ہے۔ اس کے علی الرغم ٹیکسوں کو عائد کرنے والے اور عوامی مالیات کے ماہرین اور ان کے مفکرین ٹیکسوں کو ان کے مادی دائرے سے باہر نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے جو اس کے دائرے سے زیادہ وسیع و عریض ہوتا۔ وہ دائرہ روحانی اور اخلاقی اہداف کا دائرہ ہے جس پر زکوٰۃ نے توجہ مرکوز کی ہے۔
* فرض کیے جانے کا نظری فرق:سب سے نمایاں فرق جو زکوٰۃ اور ٹیکس میں پایا جاتا ہے وہ اس بنیاد میں ہے جس پر زکوٰۃ اور ٹیکس کی عمارتیں کھڑی کی گئی ہیں۔ جہاں تک قانونی یا نظری بنیاد کا تعلق ہے ٹیکس کے فرض کیے جانے میں، ان نظریات میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ رہی زکوٰۃ تو اس کی بنیاد واضح ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کی گئی ہے۔ ہم ان کی وضاحت ان چار نظریات کی روشنی میں کریں گے جن کے درمیان کوئی تعارض نہیں پایا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو قوت پہنچاتے ہیں۔ [ان نظریات پر بحث الشیخ القرضاوی نے دوسری فصل: ’زکوٰۃ اور ٹیکس فرض کیے جانے کی نظریاتی بنیادیں‘ میں کی ہے۔ مترجم]
lزکٰوۃ عبادت بہی ، ٹیکس بہی:یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ زکوٰۃ بیک وقت عبادت بھی ہے اور ٹیکس بھی۔ ٹیکس اس وجہ سے کہ وہ ایک معلوم مالی حق ہے جس کی نگرانی حکومت کرتی ہے۔ اگر اس کو خوش دلی اور اطاعت کے ساتھ ادا نہ کیا جائے تو حکومت اس کو بالجبر وصول کرتی ہے، اس سے حاصل شدہ رقم کو ان اہداف کے حصول میں خرچ کرتی ہے جو معاشرے کی خیر و فلاح کا باعث ہوتے ہیں۔
زکوٰۃ سب سے پہلے عبادت ہے اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اس کے ادا کرنے سے ایک مسلمان اللہ سے تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے اور جب وہ اُسے ادا کرتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اس نے اسلام کے ایک رکن کو ادا کیا اور ایمان کے بہت سے شعبوں میں سے ایک شعبے کوپورا کیا۔ اس کے ذریعے وہ اس شخص کی مدد کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا چاہتا ہے۔ یہیں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ادا کرنا اطاعت اور صلاح کے کاموں میں سے ہے اور اس کو ادا نہ کرنا صریح فسق (نافرمانی) اور کھلی ناشکری ہے۔ وہ ایک ایسا فریضہ ہے جو وصول کرنے والے کے نہ آنے یا تاخیر سے آنے سے ساقط نہیں ہوتا ہے اور نہ وہ حاکم کی لاپروائی سے یا کئی برس گزرنے سے ہی ساقط ہوتا ہے۔ وہ ٹیکس کی طرح نہیں ہے کہ وہ حکومت کے کہنے سے فرض ہوجائے اور حکومت کے طلب نہ کرنے سے ساقط ہوجائے۔
یہاں ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے علما اس حقیقت کو پاچکے تھے اوراس کی طرف انھوں نے توجہ بھی دلائی تھی کہ زکوٰۃ ان دونوں معنوں کو محیط ہے، یعنی ٹیکس کے معنی اور زکوٰۃ کے مفہوم کو اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے۔ اگرچہ انھوں نے لفظ ٹیکس کے ذریعے اس کی تعبیر نہیں کی ہے کیونکہ لفظ ٹیکس ایک جدید اصطلاح ہے۔ وہ اس کے مفہوم کو لفظ ’حق‘ سے تعبیر کرتے تھے جو مال داروں کے اموال میں فقرا اور مساکین کے لیے واجب الادا ہوتا ہے(دیکھیے بدایۃ المجتہد لابن رشد،ج۱، ص ۲۳۷، مطبعۃ الاستقامۃ)۔ یا وہ اس کو صلۃ الرحم، یعنی انسان ہونے کے ناتے یا مسلمان ہونے کی وجہ سے (اس کو فرض قرار دیتے ہیں) اس میں عبادت کے پہلو کے ساتھ۔
اس سلسلے میں واضح ترین معنیٰ الروض النضیر کے مصنف نے بعض علما کے حوالے سے زکوٰۃ کی حقیقت اور اس کی حکمت کے بارے میں بیان کیے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’’مال داروں کے مال و دولت کی تاکید اس کے وجوب کے ساتھ کی جاسکے۔ اللہ نے معاونت اور اتحاد و تعاون کا جو حکم دیا ہے اس میں مال داروں کے نفوس کا ابتلا اور امتحان ہے جو انسانی نفوس پر شاق گزرتے ہیں جیساکہ عبادات کو فرض کر کے ان کے جسموں کو ابتلا اور امتحان میں مبتلا کیا۔ یوں یہ صلۃ الرحم کا ذریعہ بنی اور اس میں عبادت کا پہلو بھی آگیا ہے۔ عبادت کے پہلو کی وجہ سے اس میں نیت کی شرط لگائی گئی ہے۔ اس میں نافرمانی اور معصیت جیسی دیگر چیزوں کو شریک کرنا ناجائز ہے۔ اس میں صلۃ الرحم کے پائے جانے کی بنا پر اس میں کسی کو نائب یا وکیل بنانا جائز ہے اور اس میں جبر کا استعمال جائز ہے۔ جب امام کسی سے بالجبر اُسے وصول کرے تو وہ ادا کرنے والے کی طرف سے نیابت اور وکالت کی نیت کے تحت ہوتا ہے۔ اس کو میت کے مال میں سے وصول کرلیا جاتا ہے۔ خواہ میت نے اس کی وصیت نہ کی ہو۔ چونکہ اس میں صلۃ الرحم کا عنصر غالب ہے، اس لیے اس میں فقرا کے لیے زیادہ منفعت کی رعایت کرنے کا حکم ہے اور یہی وجہ ہے کہ نابالغ یا اس جیسے لوگوں کے اموال میں بھی واجب ہوتی ہے۔ چونکہ اس کا اصل مقصد مواساۃ ہے، اس لیے اُسے صرف بڑی مقدار کے مال میں واجب کیا گیا ہے جس کو نصاب کہتے ہیں۔ اُسے صرف قابلِ نمو (growthable) اموال میں فرض کیا گیا ہے۔ یہ اموال عین (یعنی سونا چاندی) نقد [چونکہ سونا چاندی کے اس وقت سکّے ہوا کرتے تھے۔ مترجم] اموالِ تجارت، مویشی، زرعی پیداوار ہیں۔ شرع نے ان اموال میں وہ نصاب مقرر کیا ہے، جس کا ان میں سے ہرقسم یا مواساۃ کا متحمل ہوسکتا ہے۔ ان میں واجب ہونے کی مقدار کو محنت اور زرعی ضروریات کے لحاظ سے مقرر کیا۔ اس لیے بارش یا اس جیسی چیز سے سیراب ہونے والی فصلوں پر ۱۰فی صد فرض کیا اور جن فصلوں کو جانوروں یا ٹیوب ویلوں کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے اس کا نصف، یعنی ۵فی صد (دیکھیے: الروض النضیر، ج۲، ص۳۸۹، مطبعۃ السعادۃ۔ یہ دراصل امام زید بن علی زین العابدین بن حسین بن علی کی کتاب المجموع الفقہ الکبیر کی چار جلدوں میں شرح ہے)۔
Newer Posts
Older Posts
Home
Subscribe to:
Posts (Atom)