Search This Blog

Saturday 26 January 2013

مدینہ منورہ ،ایک چنیدہ ریاست

مدینہ منورہ ،ایک چنیدہ ریاست

حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کے سامنے جب اپنی دعوت ،معجزات اور مقصد بعثت بیان کیا تو اس پر جو فوری ردعمل سامنے آیا اس کے بارے میں قرآن کہتاہے ’’قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمOٌیُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ فَمَا ذَا تَاْمُرُوْنOَ(سورہ اعراف،آیات109,110)،ترجمہ:اس پر فرعون کی قوٍم کے سرداروں نے آپس مٍیں کہا یقیناًیہ شخص بڑا ماہر جادوگر ہے ،تمہیں تمہاری زمین سے بے دخل کرنا چاہتاہے۔۔‘‘۔مصر کے ذہین سردارفوراً یہ بات سمجھ گئے کہ اس شخص کے مقاصد میں زمین پر قبضہ کرنا بھی شامل ہے اور بلآخریہ ہمیں ریاست سے بے دخل کر کے اقتدارحاصل کرنا چاہتاہے۔پس انبیاء علیھم السلام جس پروگرام کے تحت اس زمین پر مبعوث کیے گئے اور جس ایجنڈے کے تحت انہوں نے اپنی جدوجہد کو جاری و ساری رکھااس میں نظام سیاست کی تبدیلی بذریعہ حصول اقتدار شامل تھی۔خود ختمی مرتبت ﷺ کی یہ دعا قرآن مجید نے نقل کی ہے کہ’’ وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًاO ترجمہ:اوردعاکرو کہ پروردگارمجھ کو جہاں بھی لے جاتو سچائی کے ساتھ لے جااور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘(سورہ بنی اسرائیل،آیت80)۔پس اسی مطلوب قتدار کے لیے مدینہ طیبہ کی ایک ریاست محسن انسانیت ﷺ کے لیے تیارکی گئی۔
مدینہ منورہ کی ریاست انسانی تاریخ کی پہلی ریاست ہے جو کسی تحریری دستور کی بنیاد پر وجود میں آئی۔اس سے پہلے بھی قبیلہ بنی نوع انسان میں کتنی ہی ریاستیں وجود میں آتی رہیں اور مٹتی رہیں بڑی سے بڑی بھی اور چھوٹی چھوٹی بے شمار ریاستیں اس کرہ ارض کے صفحہ قرطاس پر اپنا وجود منواتی رہیں اور پھر تاریخ انسانی کے صحیفوں میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکیں لیکن مدینہ منورہ عالم انسانیت کی وہ پہلی ریاست بنی جس کی بنیاد ایک تحریری دستاویز’’میثاق مدینہ‘‘پراستوارکی گئی،اور اسی میثاق کی بنیاد پر محسن انسانیتﷺاس ریاست کے حکمران مقرر ہوئے۔میثاق مدینہ کی آخری شق یہی تھی کہ کسی بھی اختلاف کا آخری فیصلہ محسن انسانیت ﷺ کریں گے۔یہ تحریری دستورمحض دکھاوے کاورق نہ تھا بلکہ اس کے مطابق ریاست مدینہ کا نظم و نسق چلایاگیااور بے شمار مواقع پر اس دستور کے مطابق فیصلے کیے گئے اور جن جن فریقوں نے اس دستور کی خلاف ورزی کی ان کے خلاف تادیبی کاروائی بھی کی گئی جیسے غزوہ احزاب کے موقع پر بنی قریظہ کے یہودیوں نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی تو غزوہ کے فوراً بعد ان کا قلع قمع کر دیا گیا۔
ریاست مدینہ تاریخ انسانی کی پہلی ریاست تھی جو کثرت مذاہب،کثرت قوام اور کثرت لسان پر مشتمل ایک کثیرالمذہبی،کثیرالقومی اور کثیرالسانی معاشرے پر مشتمل تھی۔اس ریاست میں خود مسلمان اگرچہ اکثریت میں تھے لیکن اس کے باوجود گروہی شناخت ان کے دامن گیر رہی،انصارومہاجرین ے دوبڑے بڑے گروہ مسلمانوں کے تھے پھر مہاجرین میں سے قریش اور غیر قریش لوگ بھی موجود تھے جیسے حضرت بلال ،حضرت سلمان فارسی وغیرہ غیرقریشی مہاجرین تھے ۔انصاری مسلمان اوس اور خزرج میں تقسیم تھے ،اس پر مستزادخود مسلمانوں کا گروہ کثیر منافقین و مومنین کے درمیان بٹا ہواتھاجس پر قرآن مجید نے بڑے سنگین قسم کے تبصرے کیے ہیں۔غیر مسلموں میں سب سے بڑی اقلیت یہود تھے جو اقلیت میں ہونے کے باوجوداپنے مال و اسباب اور اثرورسوخ میں اکثریت سے کسی طور کم نہیں تھے،اور اپنی اس حیثیت کو مسلمانوں کے برخلاف استعمال کرنے میں کبھی نہیں چوکتے تھے۔اتنے بڑے انسانی تنوع کے ساتھ اس آسمان نے پہلی بار اس زمین کے سینے پرکوئی ریاست بنی ہوئی دیکھی اور کامیابی سے چلتی
ہوئی بھی دیکھی۔آج کی دنیاؤں میں قائم اس طرح کے معاشرے تعصب اور فرقہ ورانہ اور نسلی فسادات سے بھرے پڑے ہیں،دنیاکے مہذب ترین سیکولریورپی معاشرے اپنے ہی ہم فکرسیکولرایشیائیوں کو برداشت نہیں کرتے اور وقتاً فوقتاًان پر چڑھ دوڑتے ہیںلیکن مدینہ منورہ کی اس کثیرالقومی وکثیرالمذہبی ریاست میںاس نوع کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیااورمواخات کے درخشاں باب نے تو جیسے اس معاشرے کے افراد کو تسبیح کی طرح ایک دھاگے میں پرو سا دیا تھا۔
ریاست مدینہ دنیاکی اولین ریاست تھی جس قانون سب کے لیے تھااور سب انسان قانون کی نظر میں برابر تھے۔ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعوی بھی نہیں کیاتھااس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملاًکہیں بھی موجود نہیں ہے۔عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں،گوروں کے لیے مالیاتی و سفارتی قوانین الگ ہیں جبکہ کالوں کے لیے اور سانولوں کے لیے مطلقاًجداجداہیں جبہ ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں مسلمان قاضی ریاست کا فیصلہ یہودی کے لیے برات کا تھااورمسلمان کے لیے گردن زدنی کا تھا۔جب محسن انسانیت ﷺ سے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایامیری بیٹی بھی ایساجرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔بذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان براجمان ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔قانون کی نظر میں سب کی مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی کی منزل سے روشناس کرایا۔
ریاست مدینہ دنیا کی وہ اولین ریاست تھی جودیگرریاستوں سے مزاکرات پر یقین رکھتی تھی،میثاق مدینہ کا ذکر ہو چکاجومزاکرات کا ہی نتیجہ تھا۔غزوہ خیبر میںفتح مند ہونے کے بعد اس وقت تک کے رواج کے مطابق مفتوح قوم کی قتل و غارت گری ہونی تھی،بچ جانے والوں کو لونڈی غلام بنایاجاناتھااور اس قوم کی املاک و جائدادسب فاتحین کا حق تھا لیکن آسمان انگشت بدنداں تھا کہ فاتح نے مزاکرات کی بساط بچھائی اور مفتوح کو اپنے سامنے برابر ی کی بنیاد پر بٹھاکر ان سے مزاکرات کیے ،مفتوحین کا سب کچھ انہیں لوٹاکر نصف پیداوارپر معاہدہ طے پاگیا۔فصل تیارہونے پرمسلمانوں کانمائندہ پہنچااورپیداوارنصف کی اور مفتوحین سے کہا کہ جوحصہ چاہو لے لواور جو چھوڑ دو گے وہ ہم لے جائیں گے۔گویا ریاست مدینہ کے مزاکرات مفتوح و مجبوراقوام پر احسان مندی کا ذریعہ تھے نہ کہ آج کی نام نہاد انسانی حقوق کی علمبردارسیکولرازم کی پروردہ ریاستوں کی مانندجن کے مزاکرات سوائے ڈھونگ کے کچھ نہیں اور جن کے مقاصدظالم کو مہلت مزید دے کر مجبورو مظلوم سے حق زندگی تک کا چھین لینا ہے۔ریاست مدینہ نے بیعت رضوان کے باوجود جنگ کو روک کر دشمن تک سے مزاکرات کیے اورتحریری صلح نامہ پردستخط کرنے سے پہلے بھی ثابت کیاکہ مزاکرات میں قول و قرارہو چکنے کے بعد پھر کسی رو رعایت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
ریاست مدینہ کی ایک اور شانداربنیاد’’مشاورت‘‘تھی،آج صدیوں کے بعد جمہوریت کے نام پر اکثریت کی بات کو تسلیم کرنے کا رواج پیداہوا جبکہ ریاست مدینہ کا حکمران محسن انسانیت ﷺنے تاریخ انسانی میں سب سے پہلے اپنی رائے کی قربانی دے کر اور اکثریت کی رائے پر فیصلہ کر کے ثابت کیاکہ جمہورکا فیصلہ قابل اقتداہواکرتاہے جبکہ یہ وہ دور تھا جب دنیائے انسانیت میں سرداری و بادشاہی نظام نے پنجے گاڑھ رکھے تھے اور حکمران سے اختلاف تو بڑی دور کی بات تھی اس کے سامنے بولنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔گویا اس وقت کے بادشاہوں کی تلوارآج کے سیکولرممالک کی خفیہ ایجنسیوں کی مانند تھی کہ جس نے اختلاف کیااس کا وجود ہی دنیا سے عنقا کردواور اوپر سے جمہوریت اورآزادی رائے اوربے باک صحافت کاراگ الاپ کر دنیاکو خوب بے وقوف بناتے رہولیکن ریاست مدینہ کا وجود صحیح آزادی رائے کا مجسم نمونہ تھاجس میں معاشرے کے ہر طبقے خواہ وہ غلام ہوں ،خواتین ہوں یابدیسی شہری ہوں سب کو اپنے مافی الضمیرکے اظہارکے مکمل مواقع میسرتھے اور ان پر کوئی قدغن نہیں تھی۔فجرکی نماز کے بعد محسن انسانیت مسلمانوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ جاتے اور مردوخواتین میں سے جو بھی جو کہناپوچھناچاہتااسے ادب و احترام کی حدود کے اندر مکمل آزادی تھی۔
ریاست مدینہ منورہ کی مدح و ستائش میں دفترلکھے گئے،لکھے جا رہے ہیں اور تاقیامت لکھے جاتے رہیں گے۔فتح مکہ ،ریاست مدینہ کا فیصلہ کن وتاریخ ساز اقدام تھاجس کے بعد انسانیت نے شرک کے اندھیروں سے نرتوحید کی طرف اپنے سفر کی تاسیس نو کی۔ف

Friday 25 January 2013

اسوہ نبی صلہ اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں پرامن بقائے باہمی کا تصور

اسوہ نبی صلہ اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں پرامن بقائے باہمی کا تصور

سیرت النبی ﷺکادرس اولین ہی دراصل پرامن بقائے باہمی ہے،محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مکی زندگی کے تیرہ سال اس انتہائی کوشش میں صرف کر دیے کہ پرامن انقلاب کا راستہ ہموار ہو سکے اور کشت و خون کی نوبت نہ آئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثاروں نے بارہا تقاضا کیا کہ مکی زندگی کی صعوبتوں سے نبردآاماہونے کے لیے انہیں مقابلے کی اجازت دی جائے لیکن محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی پرامن طبیعت اس پر آمادہ نہ ہوتی تھی اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکی زندگی میں کشمکش کی اجازت مرحمت نہ ہوسکی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک مکہ میں قیام پزیر رہے کہ جب تک مکہ مکرمہ کی سرزمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تنگ نہ کر دی گئی اور اس کے باسیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کر دیا۔بادی النظر میں دیکھنے سے واضع طور پر محسوس کیاجاسکتاہے کہ یہ پرامن طبیعت نبوی کا شاہکار تھا کہ قتل کی آخری کوشش تک مکہ میں قیام رہا اور اہل مکہ کے گماشتے اس طرح محاصرہ کر کے گھرکے باہر صف آراہوگئے کہ موقع پاتے ہی نعوذباﷲ من ذالک زندگی کا چراغ گل کر دیاجائے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے رخت سفر باندھا۔
مدنی زندگی کی شروعات ہی میثاق مدینہ سے ہوتی ہیں جو پرامن بقائے باہمی اور تہذیبوں کے درمیان مفاہمت کی آج دن تک ایک شاندار مایہ ناز اورتاریخ ساز دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔اس میثاق کے بعد دنیاکے نقشے پر اور اس آسمان کی چھتری تلے پہلی دفعہ ایک کثیرالمذہبی معاشرے نے جنم لیا۔ایک نبی علیہ السلام کی سربراہی میں قائم ہونے والے اس کثیرالمذہبی پرامن معاشرے میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو انکی مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی تھی اورجملہ اختلافی امور باہمی گفتگوسے طے کرنا منظور پائے تھے اور کسی بھی تنازع کا حتمی فیصلہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے ہوناضبط تحریرمیں لایاگیاتھا۔اس زمین کے سینے پریہ پہلاتحریری دستورتھاجو ایک ریاست کی بنیادبناحالانکہ اس سے پہلے کتنی ہی پڑھی لکھی ریاستیں اور حکومتیں وجود میں آ چکی تھیںلیکن،مقتدرطبقہ کی خواہش اقتداراور حوس ملک گیری کے سامنے کوئی تحریر اپنادم خم نہ دکھاسکی اورانسانی کھوپڑیوں کے میناراور مخالف تہذیب و مذہب کی عصبیت نے ہمیشہ اخلاقیات کے دروس کا مذاق ہی اڑایااور انسانیت کے سارے اسباق منہ دیکھتے ہی رہ گئے۔اس کے برعکس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ریاست کی تاسیسی بنیادیں ہی میثاقیات کی پختہ اینٹوں پر استوار کیں۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی تاریخ میں پہلی بار جنگی قیدیوں کی آزادی کا تصور دیاغزوہ بدر سے پہلے اس بات کا تصور ہی نہ تھا کہ جنگی قیدی کو آزاد بھی کیاجاسکتاجاہے؟؟،اس وقت تک کی بڑی بڑی تہذیبیں جن کی گونج آج کے ایوانوں میں بھی سنائی دیتی ہے ان کے کارپرداران بھی جنگی قیدی کو حق زندگی دینے پر تیار نہ تھے لیکن یہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار دشمن کے قیدیوں کو زندہ رہنے اور آزادی سے زندہ رہنے کاانسانی حق عطاکیااور پرامن بقائے باہمی کی عظیم اور شاندار عمارت کی تعمیر کرتے ہوئے اس کی بنیادوں میں اپنے دست مبارک سے ان مقدس روایات کی مضبوط سلیں رکھیں۔اس سے بڑھ کریہ کہ پوری تاریخ انسانی میں ایساکبھی نہ ہواتھاکہ فاتح قوم اپنی مفتوح قوم کو برابری کی بنیادپر بٹھاکر تو اس سے مزاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرے۔روایت تو یہ تھی مفتوح اقوام کے مردوں اور عورتوں کو لونڈی غلام بنالیاجاتاتھا،انکی املاک کو لوٹ لیاجاتاتھا،ان کی فصلیں نذرآتش کردی جاتی تھیں اور انکے جانوروں اور جائدادوں کو فاتحین آپس میں بانٹ لیتے تھے۔لیکن یہاں تاریخ کاطالب علم عجیب ہی نقشہ دیکھ رہا ہے اور انگشت بدنداں ہے کہ خیبرکافاتح پرامن بقائے باہمی اور تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی تاریخ کا ایک نیاباب رقم کرنے چلاہے۔یہاں فاتح اور مفتوح آمنے سامنے بیٹھ کر مزاکرات کر رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ کتنی عجیب بات ہے فاتح بھی نصف پر اکتفاکررہاہے،حالانکہ وہ تلوار کے زور پر کل پر بھی تصرف حاصل کرناچاہے تو کوئی امر مانع نہیں ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسوۃ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پرامن بقائے باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے سامنے صرف قدیم ہی نہیں دورحاضر کی یورپی سیکولر تہذیب بھی ننگ شرمسار ہے۔انسانیت کے نام پر انسانوں کا قتل اور آج مشرق سے مغرب تک دریاؤں میں بہتاہواخون اس یورپی سیکولر تہذیب کے منہ پر زوردارتمانچہ ہے۔محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دشموں کو بھی معاف کر کے پرامن بقائے بامی کی ایک تاریخ ساز روایت قائم کی تھی جبکہ اس سیکولر تہذیب نے تواپنوں کو بھی معاف نہیں کیا ایک وقت میں دوست بناکر قرطاس طہارت کی مانندخوب خوب استعمال کر کے تو اگلے وقت میں موت کی نیند سلادینے کی ان گنت مثالیں اس سیکولرتہذیب کے سیاہ چہرے پر مکروہ داغ کی طرح واضع ہیں۔محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک زبردست قسم کی دینی و مذہبی ریاست میں غیر مذہب والوں کے حقوق کا بے پناہ تحفظ کر کے انہیں اپنے دامن رحمت میں سایہ عاطفت عطا کیا جب کہ اس سیکولرتہذیب نے تو لادین ریاستوں کے اندر مذہبی منافرت کی وہ داستانیں رقم کی ہیں ہولوکاسٹ سے نائن الیون کی بعد کی تاریخ تک سیکولرازم کا ورق ورق انسانی خون سے رنگین،جنسیت سے شرمساراوروحشت و بربریت کی داستانوں سے اپنے آغاز سے اختتام بھرادھراہے۔
قرآن مجید نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر62میں ارشادفرمایا کہ’’یقین جانو کہ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہوں یایہودی،مسیحی ہوں یا صابی،جو بھی اﷲ تعالی اورروزآخرپرایمان لائے گااور نیک عمل کرے گااس کااجر اس کے رب کے پاس ہے اوراس کے لیے کسی خوف اوررنج کاموقع نہیں‘‘۔بعینہ یہی مضمون سورہ المائدہ کی آیت نمبر69میں بھی اﷲ تعالی نے دہرایاہے۔پس محسن انسانیتﷺ کی تعلیمات میں ہرمذہب کے ماننے والوں کے لیے دروازے کھلے ہیں۔قرآن مجید کی انہیں تعلیمات کے نتیجے میں اولین مفسرقرآن صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کثیرالمذہبی اور کثیرالقومی معاشرہ تشکیل دیاجس میں سب مذاہب باہمی اشتراک حیات کی بنیادپر یقین رکھتے تھے۔اس دنیاپر مسلمانوں نے کم و بیش ایک ہزارسالوں تک حکمرانی کی اور مشرق سے مغرب تک مسلمانوں کی افواج اور اسلام کے پرچم لہراتے تھے اور ان ایک ہزارسالوں میں کہیں مذہبی فسادات رونمانہیں ہوئے،اپنے دوراقتدارمیں مسلمان اکثریت میں بھی رہے اور اسپین سمیت متعدد علاقوں میں اقلیت میں ہونے کے باوجود مسلمان حکومت کرتے رہے لیکن ان ہر دوصورتوں میںکہ غیرمسلم اکثریت تھی یا غیرمسلم اقلیت ،بحیثیت مجموعی غیرمسلموں نے مسلمانوں کے اس کل دور اقتدارمیں مکمل امن و آشتی کے ساتھ اپنی مدت حیات پوری کی۔خاص طورپریہودیوں نے اپنی ہزاروں سالہ تاتریخ میں سب سے پرامن وپرمسرت وقت مسلمانوں کے دوراقتدارمیں گزارا،ان ایک ہزارسالوں میں کوئی ہولوکاسٹ نہیں ہوااور نہ ہی یہودیوں سمیت کسی مذہب کے ماننے والوں کی اجتماعی ہجرت کے جاں گسل واقعات رونماہوئے اور نہ ہی ہتھیاروں کی دوڑ اور عالمی جنگیں وقوع پزیرہوئیں۔یہ امت مسلمہ کا مجموعی کردارمفاہمت تھااور آج بھی کل دنیامیں جہاں مسلمان آبادیاںسیکولرافواج کے ہاتھوں گاجرمولی کی طرح کٹ رہی ہیں کسی مسلمان معاشرے میں غیرمسلم غیرمحفوظ نہیں ہیں۔
انسانی تجربے سے اب یہ بات خوب تر آشکارہوچکی ہے کہ کوئی جنواایکارڈ اور کوئی اقوام متحدہ اور کسی طرح کے انسانیت کے دعوے دار پرامن بقائے باہمی اورتہذیبوں کے درمیان مفاہمت کے فروغ کاباعث نہیں بن سکتے ۔اسلام کے سوا ہر مذہب اور ہر تہذیب نے دوسروں کا استحصال کیاہے اور کررہے ہیںاور آئندہ بھی کرتے رہیں گے،صرف انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات ہی پرامن بقائے باہمی اور اقوام و ملل کے درمیان مفاہمت کے فروغ کاباعث بن سکتی ہیں،اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ تعلیمات نقلی طور پر بھی صرف مسلمانوں کے پاس محفوظ و مامون ہیں اور عملی طور پر بھی مسلمانوں کااقتدارہی ان کاضامن ہو سکتاہے۔انسانیت صرف ایک درس کی پیاسی ہے اور وہی درس خطبہ حجۃ الوداع ہی انسانوں کے درمیان انسانیت کے فروغ کاباعث بن سکتاہے ۔فی زمانہ سود کے نام پر معاشی استحصال ،جمہوریت کے نام پر اقوام کی گردنوں میں طوق غلامی،آزادی نسواں کے نام پر اس بازارمیں بنت حواکی ارزانی ،عالمی امن کے نام پر توسیع پسندی اور فوجوں کی ماردھاڑاور یلغاراور تعلیم ،صحت اور ابلاغ کے نام پر کمرشل ازم کے بدبودار،مکروہ،مکروفریب سے بھرے اور کذب و نفاق سے آلودہ تجربات سے سسکتی انسانیت اب تھک چکی ہے ۔اہل نظر اب مشرق سے ابھرتے ہوئے اس سورج کو بنظرغائر دیکھ رہے ہیں جس کی کرنیں اقراکے نور سے منور ہوں گی اور وہ دن دور نہیں جب سیرۃﷺ کے چشمہ فیض سے انسانیت کو آسودگی میسر آنے والی ہے۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

معمولات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ رات گئے بیدارہوتے تھے،وضو فرماتے اور پھر تہجد کی نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی نماز بہت طویل ہوا کرتی تھی۔قیام کی حالت میں بہت لمبی تلاوت فرماتے تھے اور رکوع و سجود بھی بہت طویل ہواکرتے تھے۔کچھ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہجد کی نماز میں شریک ہونے کی کوشش کی لیکن ان کے لیے ممکن نہ رہا۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا طویل قیام فرماتے تھے کہ پاؤں مبارک سوج جاتے اور پنڈلیوں میں ورم آجاتا۔جب سجدہ کرنا مقصود ہوتا تو حجرہ مبارک میں اتنی جگہ نہ ہوتی کہ سجدہ کر سکتے۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ سجدہ کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری ٹانگوں پر اپنا ہاتھ مارتے میں اپنے پاؤں اکٹھے کرتی تو اس جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ فرماتے تھے۔اس بات سے حجرہ مبارک کی لمبائی چوڑائی کااندازہ کیا جاسکتا ہے جبکہ اونچائی اتنی تھی کہ لمبے قد کاآدمی کھڑاہوجائے تو کھجورکے پتوں سے لیپی ہوئی چھت سے اسکاسرٹکراجائے۔تہجد کی نمازمکمل ہونے پر حضرت بلالؓ کی آذان بلند ہوجاتی،تب آپ ﷺ فجر کی دورکعتیں اداکرتے جنہیں امت فجر کی سنتوں کے نام سے جانتی ہے،پہلی رکعت میں سورۃ کافرون اور دوسری میں سورۃ اخلاص تلاوت فرماتے،یہ مختصررکعتیں ہوتی تھیں۔اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلمتہجد کی تھکاوٹ کے باعث سستانے کے لیے لیٹ جاتے اور مسلمان بھی اتنی دیر میں مسجد میں جمع ہوچکتے۔تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف لے جاتے اور فجر کی طویل قرات والے دو فرائض پڑھاتے اور پھر مسلمانوں کی طرف چہرہ انور کر کے بیٹھ جاتے ۔کوئی خواب دیکھاہوتا تومسلمانوں کو سناتے اور اگر مسلمانوں میں سے کسی نے خواب دیکھاہوتا تو سن کر اسکی تعبیر دیتے۔بعض اوقات فجر کے بعد دیگر امور پر بھی گفتگو فرماتے اورانہیں جملہ ہدایات دیتے اس بہانے مسلمانوں کی تعلیم کاانتظام بھی ہوجاتاجبکہ خواتین بھی موجود ہوتی تھیں۔
فجر کے بعد سوناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد ناپسند تھا۔یہ بہت برکت والاوقت ہوتا ہے جسے ذکروفکرمیں گزارناچاہیے۔قرآن مجید نے بھی فجرکے وقت تلاوت کی ترغیب دی ہے۔عشراق اور چاشت کے نوافل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کاحصہ تھے لیکن یہ نوافل بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کے نوافل لمبے لمبے اداکرتے اور دن کے نوافل کو بہت مختصر کر کے تو ختم کردیتے۔فجرسے ظہر تک کاوقت زیادہ تر مسجد کے باہر گزارتے تھے جبکہ آپ ﷺکے صحابہ کرام نے اپنی تعداد کے دو حصے کیے ہوتے تھے،ایک حصہ فجر سے ظہر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتا اور دوسرا حصہ کاروبار دنیا میں مشغول ہوتاجبکہ ظہر بعد پہلا حصہ دنیامیںمشغول ہوجاتااور دوسرے حصے کے اصحاب صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یاب ہوتے تھے۔اس دوران بعض اوقات بازارتشریف لے جاتے اور معاملات کی نگرانی کرتے۔ایک بار ایک دکان کے باہر غلے کے ڈھیر میں آپ نے ہاتھ ڈالا تو وہ باہر سے خشک اور اندر سے گیلا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکاندار سے پوچھایہ کیاہے؟؟اس نے جواب دیا رات کو بارش کی پھنوارکے باعث گندم گیلی ہوگئی۔آپﷺ نے اسکو سخت ناپسندفرمایاکہ اوپراوراندر میں فرق ہے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔بازرارمیں ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پرانا شناسا دکھائی دیا،آپ نے فرط محبت میں پیچھے سے اسکی آنکھوں پر ہاتھ دیے،یہ اشارہ تھا کہ مجھے پہچانو!،ابتداًتو اسے اندازہ نہ ہوا لیکن جب پتہ چل گیا تو اس نے اپنی کمر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے سے خوب خوب مس کی کیونکہ نبی کے جسم سے جو چیزمس ہوجائے اس پر آگ اثر نہیں کرتی۔بعض اوقات خاص طورپر خواتین سے ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے جبکہ مرد حضرا ت اپنے اپنے کاموںپرگئے ہوتے تھے،ایک بار آپ ایک بندمحلے میں تشریف لے گئے اورزورسے فرمایا کہ ’’السلام علیکم ‘‘کوئی جواب نہ آیا،پھرفرمایاتو بھی جواب نہ آیا،تیسری دفعہ سلام کیاتو بھی کوئی جواب نہ آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مڑنے لگے تو ہر گھرسے خواتین کی آوازبلندہوئی کہ ’’وعلیکم السلام یا ایھاالنبی‘‘،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا پہلے کیوں جواب نہ دیاتو عرب کی ذہین عورتوں نے جواب دیا کہ ہم چاہتی تھیں کہ لسان نبویصلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ زیادہ سلامتیاں ہم تک پہنچیں،کیونکہ پہلی دفعہ جواب دے دیاجاتا توباقی دونوں دفعہ کے دعایہ سلام سے محروم رہ جاتیں۔سوموارکادن عورتوں کے لیے مخصوص تھاجبکہ عمرعزیزکے آخری ایام میں ہفتہ بھرمیں دو دن خواتین کے لیے مخصوص کر لیے گئے تھے۔
بعض اوقات اچھاکھانا کھائے بہت دن گزرجاتے تو آپ ﷺ کسی امیر مسلمان کے تشریف لے جاتے۔اسی طرح ایک دن آپ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے اور اس سے بے تکلفی سے فرمایا کہ ہمیں کھانا کھلاؤ،اس کے دروازے پر تو گویا دنیاوآخرت کی خوش بختیاں پہنچ گئی تھیں۔اس نے فوراً ہی کھجور کے کچے پکے پھلوں کی ایک ڈالی بطور سلاد کے خدمت اقدس ﷺمیں پیش کی اور گھروالوں کو روٹیاں پکانے کا کہ کر خود ایک بکری ذبح کرنے میں مشغول ہو گیااور تھوڑی دیر بعدایک تھال میں بھنا ہواگوشت اور ایک رومال میں پکی ہوئی روٹیاں دسترخوان پر چن دی گئیں۔آپﷺ نے کھانا تناول کرنے سے پہلے چار روٹیوں میں کچھ سالن کی بوٹیاں رکھ کر حضرت ابوہریرہ ؓکو دیں کہ جاؤفاطمہؓکو دے آؤ اس نے اتنے دنوں سے کھانا نہیں کھایا۔بعض اوقات آپﷺ دوستوں کے ساتھ شہر سے باہر تشریف لے جاتے اور انکے ساتھ اچھاوقت گزارتے۔ایک بار آپﷺقریب کی جھیل میں گئے اور دودوکی جوڑیاں بناکر تیراکی کی مشق کی اور مقابلے کیے۔آپ ﷺ کے ساتھ جوڑے میں حضرت ابوبکرصدیق ؓشامل تھے۔بعض اوقات جنات کو ملنے کے لیے بھی پہاڑوں پر تشریف لے جاتے تھے اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر صحابہ کرام کو آگے آنے سے روک دیتے اور خود آگے بڑھ کر جنات کے قبائل میں تبلیغ فرماتے۔جب سفردرپیش ہوتاتوگھرسے دو نفل پڑھ کر سفر شروع کرتے اورواپسی پرپہلے مسجد میں دو نفل اداکرتے تب گھرمیں وارد ہوتے۔
آپ بہت کم بولتے تھے اور مجلس میں کافی کافی دیر تک خاموشی رہتی۔سوال کرنا سخت ناپسند تھا،ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’حج فرض ہے‘‘،ایک مسلمان نے سوال داغ دیا کہ کیا ہرسال؟؟اس پر آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیااور آپ خاموش ہوگئے۔غصہ تحلیل ہونے پر فرمایا مجھ سے سوال کیوں کرتے ہو؟؟اگر میں ہاں کہ دیتاتو پھر۔قرآن مجید نے بھی مسلمانوں کو منع کیا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسی علیہ السلام سے سوال کیے تھے تم اپنے نبی سے اس طرح سوال نہ کرو۔تاہم کسی اہم سوال کا جواب دیابھی کرتے تھے مثلاً محفل میںخوشبو پھیل جانے پر مسلمانوں کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ جبریل آ گئے ہیں ،ایک بار مسلمانوں نے پوچھا کہ جبریل ہمیشہ اس طرف والی گلی سے کیوںآتے ہیں؟؟تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لیے کہ اس گلی میں حضرت حسان بن ثابت ؓکا گھر ہے جو نعت گو شاعر رسولﷺ تھے۔نعت شوق سے سنتے تھے اور نعت گو شاعر کے لیے دعابھی فرماتے تھے۔جب کسی سے خوش ہوتے تھے تو اس کے سامنے محبت کااظہارکرتے تھے اور جب کسی سے ناراض ہوتے تو خاموشی اختیارکرلیتے تھے اور بہت زیادہ ناراضگی ہوتی تو چہرہ انور اس سے پھیر لیتے تھے،ایک صحابی کی داڑھی میں ایک ہی بال تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھتے تھے اور مسکراتے تھے اس صحابی ایک بارنے وضوکے دوران وہ بال توڑ دیا،آپ ﷺ نے دیکھا تو ناراضگی سے چہرہ انور پھیرلیا،اس صحابی نے عرض کی یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی تو بال تھاتو سرزنش فرماتے ہوئے جواب دیا کہ خواہ ایک بال تھا تب بھی میری سنت تو تھی،تم نے اسے بھی توڑ دیا؟؟؟
ظہر سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ مبارک میں تشریف لے آتے اور تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ فرماتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادمبارک ہے کہ رات کو اٹھنے (تہجدپڑھنے)کے لیے دوپہر کے سونے سے مدد لو۔اس دوران کوئی ملنے گھر پر آجاتا تو طبیعت اقدس پر سخت ناگوار گزرتاتھا،لیکن آپ کااخلاق اتنا بلند تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایاتھا،اس پر اﷲ تبارک وتعالی نے سورۃ حجرات میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر میں استراحت فرمارہے ہوں توانکو آوازیں نہ دیاکرو بلکہ مسجد میں بیٹھ کر انکا انتظار کیاکرو۔قیلولہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے لیے نکلتے اور مسلمانوں کو ظہر کی نماز پڑھاتے تھے،اگرکوئی منتظر ہوتاتو نماز مختصر کر لیتے اورکسی بچے کی رونے کی آواز آجاتی تو بہت جلد نماز ختم کردیاکرتے تھے۔ظہرکے بعد کا وقت زیادہ تر مسجد میں گزارتے تھے ،شایداس کی وجہ نمازوں کے مسلسل اوقات تھے۔اس دوران باہر سے آنے والے مہمانوں سے بھی ملاقات کرتے تھے،بعض اوقات مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے اورتحفے و ہدیے بھی قبول فرماتے تھے۔ایک بار ایک مسلمان روزے کی حالت میں بیوی ے پاس جانے کی شکایت لے کرآگیا،فرمایا ساٹھ روے رکھو،عرض کی ایک روزے کاحال سن لیا ساٹھ کیسے رکھ پاؤں گا؟؟؟فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلاؤ،عرض کی استطاعت نہیں ہے۔وہ مسلمان مجلس میں بیٹھ گیاکہ اسی اثنامیں ایک شخص کھجوروں کاٹوکرالایااورخدمت اقدس میں پیش کردیا،فرمایاوہ مسلمان کہاں ہے جس کاروزہ ٹوٹ گیاتھا؟؟؟جی میں ہوں ،فرمایایہ کھجوریں غریبوں میں تقسیم کردو تمہاراکفارہ اداہوجائے گا۔اس نے عرض کی اے ﷲکے رسول اس شہر مدینہ کے دو پتھروں کے درمیان مجھ سے زیادہ غریب اور کوئی نہیں،اس بے ساختہ جواب پرچہرہ انورخوشی سے اس حد تک کھل اٹھاکہ اصحاب خوش بخت نے دندان مبارکہ کی زیارت بھی کر لی تب فرمایا جاؤخود کھاؤ اپنے گھروالوں کو کھلاؤیہی تمہارے روزے کاکفارہ ہے۔
کھانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کدوشریف پسند تھا،بکری کی اگلی ٹانگ،دستی،شوق سے تناول فرماتے تھے،سفید لباس خوش ہو کر پہنتے تھے،زندگی بھر میں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ دھاری دار کپڑے بھی زیب تن کیے تھے۔ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم یمنی چادر اوڑھ کر بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے درمیان بیٹھے ایسے لگ رہے تھے جیسے ستاروں میں چاند جگمگارہاہو،سب مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شوق سے دیکھ رہے تھے کہ ایک نے وہ چادرآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگ لی،عادت مبارکہ تھی کہ مانگنے والے کو انکار نہیں کیاکرتے تھے،اس کو چادردے دی تو سب مسلمان اس آدمی سے ناراض ہوگئے اس پر اس آدمی نے کہا کہ میں اس سے اپنا کفن بناؤں گا اور دوزخ کی آگ سے محفوظ و مامون ہوجاؤں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو بہت پسند تھی،خوشبو کا تحفہ لیاکرتے تھے اور دیا بھی کرتے تھے۔جانوروں میں بلی سے بہت پیارتھاکبھی غصہ آتا تو کپاس کا گولہ بلی کو دے مارتے تھے۔بچے بہت اچھے لگتے تھے خاص طور پر یتیم بچوں کو اپنی اولاد پر بھی فوقیت دیتے تھے ایک بار بی بی پاک فاطمہ الزہرانے خدمت گار کا تقاضاکیاتو فرمایا کہ ابھی بدر کے یتیم باقی ہیں۔کپڑے ،جوتے ،جرابیں پہنتے ہوئے پہلے دائیں عضومیں چڑھاتے تھے اور اتارتے ہوئے پہلے بائیں عضوسے اتارتے تھے،بیت الخلامیں پہلے بایاں قدم مبارک دھرتے تھے اور نکلتے ہوئے پہلے دایاں قدم مبارک باہر نکالتے تھے،جبکہ مسجد میں اس کا الٹ۔جب بھوک ہوتی تو کھاناتناول فرماتے اور تھوڑی بھوک باقی ہوتی تو ہاتھ کھینچ لیتے تھے،کھانا خلاف مزاج ہوتا تو نقص نہ نکالتے تھے بلکہ دسترخوان سے اٹھ جاتے تھے۔مسلمانوں کو نمازکی بہت تاکیدکرتے تھے اورجب بھی کوئی مشکل وقت ہوتا توخود بھی نماز میں کھڑے ہوجاتے۔دعائیں اور مناجات بہت کثرت سے کرتے تھے اور مسلمانوں کو بھی اسکی تلقین کرتے تھے۔
’’گوہ ‘‘ایک حلال جانور ہے جوخرگوش سے چھوٹااور چوہے سے بڑاہوتاہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے میں پسند نہ تھا،پیاز بھی طبع نبوی پر گراں تھا،بدبو سے بہت نفرت تھی اسی لیے کثرت سے مسواک کرتے تھے سوکر اٹھنے پر مسواک کرتے ،وضومیں مسواک کرتے اور اگلی نماز میں گزشتہ وضو برقرارہوتاتب بھی نماز شروع کرنے سے قبل مسواک دانتوں پر پھیراکرتے تھے اورکافی دیرگزرجاتی تو بھی مسواک کرلیتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جب اپنی بیویوں کے پاس جاؤ تو دانت صاف کرکے جاؤیعنی اس دوران منہ سے بو نہیں آنی چاہیے۔بکھرے بال اور میلے کچیلے کپڑے سخت ناپسند تھے ،کوئی اس حالت میں پیش ہوتا تو براہ راست تنقید کی بجائے دوسروں کی طرف رخ انور کرکے تنبیہ فرماتے تھے،جب کبھی گیسوئے مبارکہ دراز ہوجاتے تو جیب میں ایک کنگھی رکھاکرتے تھے،ایک زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہاتھی دانت کی بنی کنگھی بھی رہی۔فجر کے بعد سونااور عشاء کے بعد محفلیں جمانا بہت ناپسند تھا،راستوں میں بیٹھنے سے بھی آ ُپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ایک صحابی پرندوں کے بچے اٹھالایا تو آپ نے سخت ناپسند فرمایا اور اسے حکم دیا واپس چھوڑ آو۔سادگی ،فقراور درویشی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی عبارت تھی،ایک بارحضرت عمر بن خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کھجور کی بنی فرشی چٹائی پر سونے کے باعث کمراقدس پر چٹائی کے نشان کنداں ہیں اور کمرے میں کل تین مٹی کے برتن رکھے ہیں،حضرت عمر آبدیدہ ہو گئے عرض کی روم و ایران کے بادشاہوں کے لیے ریشم اورمخمل کے بچھونے ہوں اور سرکاردوجہاں کے لیے کھجورکی یہ چٹائی؟؟؟فرمایاعمرکیاتم نہیں چاہتے کہ ان کے لیے صرف دنیاکی نعمتیں ہوں اور ہمارے لیے آخرت کی،لیکن اس حالت میں بھی کمرے کی دیوار سے نو (9)تلواریںلٹکی تھیں۔سخاوت کی عادت مزاج مبارک کا لازمی حصہ تھا،باغات کی آمدن سے مسجد نبوی کا صحن بھرجاتاتھا اور کل مال تقسیم فرمادیتے اور گھرجاکر پوچھتے کچھ کھانے کو ہے؟؟ توجواب میں انکاارملتاتھااور بھوکے پیٹ سو جاتے تھے۔ مردوں کے لیے سونا،ریشم اورمخمل سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔رات عشاء کے بعد جلد سوجانے کے عادی تھے اور سونے سے پہلے قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت کر کے سوتے تھے جن میں چاروں قل اور آیت الکرسی کی روایات بہت ملتی ہیں۔اﷲ تعالی ہمیں بھی معمولات نبوی عطا فرمائے ،آمین۔

سراجاً منیرا

سراجاً منیرا

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

اﷲ تعالی نے اپنی کتاب عظیم میں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے ناموں سے پکاراہے۔ان میں ایک نام ’’سراجاً منیرا‘‘ بھی ہے۔اس نام کا لفظی مطلب ’’چمکتاہواسورج‘‘ہے اور اس سے مراد ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔سورج جب چمکتاہے تو اسکی ہر چیز ظاہرہوتی ہے اور وہ اتنی بلندی پر ہوتا ہے کہ ہر کس و ناکس اسے دیکھ سکتا ہے اور اسکی روشنی سے فائدہ حاصل کرسکتاہے۔سورج کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جہاں کہیں اسکی کرنیں براہ راست نہ بھی پہنچ سکیں تو بھی اسکی روشنی وہاں ضرور پہنچ پاتی ہے،سورج کی آمد سے قبل ہی اجالے اسکی آمد کا پتہ دیتے ہیں اور اسکے چلے جانے کے بعد بھی تادیر اسکی روشنی افق پر باقی رہتی ہے اوراگلے دن کی آمد تک سورج کے اثرات بہت حد تک ابھی باقی ہوتے ہیں۔چمکتے ہوئے سورج کی اوراہم خاصیت یہ بھی ہے کہ زمین کے جس حصے پرسورج طلوع نہیں ہوتا یا بہت کم طلوع ہوتا ہے وہاں انسانی زندگی تقریباً ناممکن ہے یا پھر بہت مشکل اورانسانی فطرت سے بہت دور ہے۔
قرآن مجید نے نبی آخرالزماں کو ’’چمکتاہواسورج ‘‘قرار دے کر پوری انسانیت کو گویا انکی کرنوں سے روشنی کا طلبگاربنادیاہے۔اب یہ ایک مذہبی یا دینی نہیں بلکہ بہت بڑی تاریخی حقیقت بن گئی ہے کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک پل آسمانی ہدایت کی چمکتی ہوئی کرنیں ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کاایک ایک لمحہ انسانیت کے لیے حصول آسودگی کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک ایک ثانیہ عالم انسانیت کے اوپرآسمان رحمت بن کر سایہ فگن ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’سراجاًمنیرا‘‘کہنے کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ زندگی مبارک کی ایک ایک ساعت آج تک محفوظ و مامون ہے ،چمکتے ہوئے سورج کی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی سب کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے ،جو چاہے پڑھے ،جہاں سے چاہے پڑھے اور جس جس کو روشنی و راہنمائی چاہیے وہ اس سورج کی کرنوں سے فیض یاب ہو۔
تاریخ میں جس احتیاط اور جس تفصیل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی کو قلمبندکرکے تو محفوظ کردیاگیاہے اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔آج صدیاں گزرجانے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نشست و برخواست،خوراک و لباس،طعام و قیام ،پسندوناپسند،صلح و جنگ اور بودوباش سمیت آپ ﷺ کی نجی زندگی تک کی ایک ایک تفصیل اپنی جزیات سمیت مکمل طور موجود ہے۔حتی کہ آپ کے جانوروں کے بارے میں بھی ساری معلومات موجود ہیں ،صدیاں گزرجانے کے باوجودآج بھی بتایاجاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی’’قصوی‘‘کے کتنے بہن بھائی تھے،اسکے کتنے بیٹے بیٹیاں تھے،اسکے نواسے نواسیاںاور پوتے پوتےٓن کتنے کتنے تھے،کس کس قبیلے کے کس کس فرد کے پاس کب کب تک رہے،کس کس جنگ میں استعمال ہوئے اور کہاں کہاں ذبح ہوئے۔
’’سراجاًمنیرا‘‘کہ کر قرآن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے سارے پہلوؤں کو روشن کردیاہے۔آج اس دور میں جب کہ ایک ایک چیز کومحفوظ رکھنے کے بیسیوں طریقے ہیں تب بھی کسی راہنما کے بارے اس حد تک معلومات میسر نہیں ہیں جتنی کہ صدیاں پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلومات جمع کر لی گئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جد پشت کے تمام انساب آج تک معلوم ومحفوظ ہیں ،شاید کسی اور کے بارے میں اس حد تک قطعاً بھی معلوم نہ ہوں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اتنی سی بات بھی معلوم ہے کھانا کھا چکنے کے بعد اپنے دندان مبارک میں سے کھانے کا جو ذرہ زبان سے نکالتے تھے اسے نگل لیتے تھے لیکن جو ذرہ ہاتھوں سے نکالتے تھے اسے نکال کر پھینک دیتے تھے۔آپ کی زوجات محترمات جو کل امت کی مائیں ہیں آپ نے انہیں حکم دیا کہ میرے اور اپنے تعلقات امت تک پہنچاؤ،چنانچہ ایک انسان کی انتہائی نجی زندگی جو وہ کبھی نہیں چاہتا کہ کسی کو پتہ چلے حتی کہ اسکی اولاد کو بھی،لیکن ’’سراجاً منیرا‘‘ﷺکی اس زندگی کے بارے میں بھی تمام تفصیلات کتب سیرت میں تحریر ہیں ۔ایک طالب حق کس طرح وظیفہ زوجیت پوراکرے،ہادی بر حق یہاں بھی اسکے لیے چمکتاہوا سورج ہیں۔
آپ ﷺ پوری زندگی میں چار دفعہ اتنا ہنسے کہ پورے دندان مبارک دیکھے گئے،لیکن اس دوران بھی ہنستے ہوئے دہن مبارک سے آواز نہیں نکلی،آپ کے پاس ایک زمانے میں ہاتھی دانت کی کنگھی بھی ہوا کرتی تھی،آپ کے حجرہ مبارک میں تین مٹی کے پیالے تھے،ایک میں پانی،ایک میں جو اور ایک میں غالباً کھجوریا کوئی دیگر جنس پڑی رہتی تھی۔آپ کے گدے میں کھجور کے پتے بھرے رہتے تھے،بڑھاپے میں آرام دہ ہونے کی غرض سے ایک بار حضرت عائشہ ؓنے اسے دہرا کر دیا ،اگلے دن آپ نے حکم دیا کہ اسے اسی طرح کردوکیونکہ گزشتہ شب اٹھنے میں تاخیر ہوگئی۔ایک بار حضرت عمرؓآپ کے حجرہ مبارک میں تشریف لائے،آپﷺ اپنی چٹائی سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور کمر مبارک پر چٹائی کے نشانات چھپ سے گئے تھے،حضرت عمر ؓیہ کیفیت دیکھ کر روہانسے ہو گئے اور عرض کی روم و ایران کے بادشاہوں کے لیے تو ریشم اور مخمل کے بستر ہوں اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ چٹائی؟؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعمر!کیا تم نہیں چاہتے کہ ان کے لیے دنیاکی نعمتیں ہوں اور ہمارے لیے آخرت کی۔
آپ ﷺ کی گفتگوانتہائی مختصرہوتی تھی لیکن اتنی جامع کہ دریا کیا گویا سمندرکو کوزے میں بند کردیاگیاہوآواز بہت بلند بھی نہ تھی اور بہت پست بھی نہ ہوتی تھی،آپ جب گفتگو فرماتے تو محفل میں موجود ہر شخص آپ کو بخوبی سن پاتاتھا۔زندگی بھر میں ایک شعر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے جب ایک جنگ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’انا النبی لا کذبٍ انا ابن عبدالمطلب‘‘ممکن ہے یہ اتفاقیہ الفاظ ہوں جو اپنے وزن میں شعر کاروپ دھار گئے تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشعار کا سننا بہت پسند تھا،اچھی خطابت کی بھی تعریف فرمایا کرتے تھے،حضرت حسان بن ثابت سے اپنے نعتیہ اشعار سنا کرتے تھے اور انہیں دعادیاکرتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات بھی بہت طویل نہ ہوتے تھے ،سب سے طویل ترین خطبہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ خطبہ حجۃ الوداع ہے ،جس کوپڑھنے میں آدھ گھنٹے سے بھی کم وقت لگتا ہے اور ظاہر اس خطبے کے ارشاد میں اس سے بھی کم وقت لگاہوگا۔
آپ ﷺ کا لبا س بہت سادہ ہوتاتھا،عموماًسبزعمامہ پہنتے تھے اورکوئی خاص موقع ہوتاتوسیاہ عمامہ سر پر اوڑھ لیتے۔بہت زیادہ تکلفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے خارج تھے اورسادگی سے ساری زندگی عبارت تھی،مدنی زندگی کے آغاز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے درمیان ہی بیٹھاکرتے تھے جس سے نئے آنے والوں کوپہچاننے میں دقت ہوتی تھی تب صحابہ کے بے حد اصرارپر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک نسبتاً بلندجگہ بنادی گئی لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محفل کے امتیازات قطعاً پسند نہ تھے اور مساوات،برابری اور اعتدال ہی آپ ﷺ کی عادات مبارکہ کا خاصہ رہا۔آپﷺ کا اخلاق اتنا بلند تھا کہ حسب موقع خاموشی کوہی انکار یا رضاسمجھاجاتاتھا،جب محفل میں تشریف فرماہوتے تو ایسے لگتا کہ ستاروں کے جھرمٹ میں چاند جلوہ گر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک بہت میانہ تھا لیکن یہ معجزہ مبارک تھاکہ لمبے سے لمبے قد والا آدمی بھی دیکھنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پستہ لگتاتھا۔
آپ ﷺجب بیت الخلا میں تشریف لے جاتے تو پہلے بایاقدم اند جماتے اور نکلتے ہوئے پہلے دایاں قدم نکالتے،کپڑے جوتے،موزے چڑھاتے ہوئے پہلے دائیں عضوپر اور اتارتے ہوئے پہلے بائیں عضوسے اتارتے تھے۔مسجد میں پہلے دایاں قدم رکھتے اور نکلتے ہوئے پہلے بایاں قدم باہر نکالتے۔کوئی ہاتھ بڑھاتا تو مصافحہ کرتے بازو پھیلاتا تو معانقہ کرتے اور اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک کہ آنے والا خود نہ چھوڑ دیتا،ہر کسی کو مسکرا کر ملتے تھے۔سب سے بہترین سلوک اہل خانہ کے ساتھ تھا،ان کے ساتھ کم و بیش ہر کام میں ہاتھ بٹاتے تھے،ایک بار حبشیوں نے کوئی تماشاکیا،ام المومنین حضرت عائشہؓ جو عمر میں ابھی کم سن تھیں عرض کیا کہ مجھے بھی تماشا دیکھنا ہے،پرے حکم چونکہ نازل ہو چکاتھا اس لیے وہ سب سے بڑے انسان صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چھوٹی سی بیوی کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے چوکھٹ میں کھڑے ہوگئے اور پشت سے حضرت عائشہؓ تماشا دیکھنے لگیں۔کافی دیر بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا عائشہ تماشادیکھ لیا؟؟عرض کیا کہ نہیں ابھی اور بھی دیکھنا ہے ۔جب تک بیوی کادل نہ بھر گیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں کھڑے ہوئے اسے تماشا دکھاتے رہے۔
’’سراجاًمنیرا صلی اللہ علیہ وسلم‘‘اس خالق کائنات کا چمکایاہوا سورج ہے،جو تاقیامت اور اسکے بعد بھی ہمیشہ روشن و تابندہ رہے گا،حقیقت یہ ہے اس نظام شمسی کے سورج سمیت کل کائنات کی روشنیاں اسی ’’سراجامنیراﷺ‘‘کی روشنی کے خراج سے مستعارہیں،اگر آپ ﷺ کو غصہ آجائے تو یہ دہکتاہوااور آگ برساتاہواسورج بھی کسی سائے میں پناہ ڈھونڈتا پھرے ،اوراگر چاند کوآداب محبت اور برودت سیکھنے ہوں توچشم بینا رکھنے والے اسے یثرب کی گلیوں میں لوٹ پوٹ ہوتاہوا دیکھنے لگیں۔دنیا کی آسودگیاں اور آخرت کی راحتیں سب کچھ اسی ایک ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی سے پھوٹنی والی کرنوں سے ہی ممکن ہے جس کے روضہ مبار ک پر صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے دور پڑھتے ہیں اور شام سے صبح تک اگلے ستر ہزار فرشتے اسی مقصد کے لیے آ جاتے ہیں اور جو فرشتہ ایک بار آگیا ہے پھر تاقیامت اسکی باری نہیں آئے گی۔


محبت رسول صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ھم


محبت رسول صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ھم ۔ از؛ سیدہ رافعیہ گیلانی ۔راجن پور
ر
قران کریم کی رو سے اور متعدد احادیث کی روشنی میں رسول اللہ حضرت محمد  عربی کی محبت اور حکم کی بجا آوری ھمارے ایمان کا جذ ھے لیکن یہ ھمیں سوچنا ھے کہ ھم کتنا اس حکم کو مان رھے ھیں کیوں کے بظاہر تو ھمارے قول فعل سے دکھائی نھیں دیتا ھے ھم مسلمان ھونے کی حیثیت سے یا حضور سرور کائینات کے امتی ھونے کی وجہ سے یا  ان سے محبت کی وجہ سے اپنا کتنا فرض نبھارھے ھیں وہ نبی صلے اللہ علیہ وسلم جنھوں نے جانور سے بھی محبت کرنے کا درس دیا ان  کے بھی حقوق بتائے اور ایک انسان کی زندگی بچانے والے کو پوری انسانیت کا بچانے والا کہا ایک انسان کی جان لینے والے کو پوری انسانیت کا قاتل کہا ھے ۔

آیئے  ان آیات کا مطالعہ کریں جس میں اتبآ رسول اللہ  کا حکم سختی سے دیا گیا اور تنبیہ کی گئی کہ خبر دار رسول اللہ کے کسی فرمان کی حکم عدولی نا کرو ،سورۃ توبہ آیت نمبر 12 ترجمہ ،اور اگر عہد کر کے اپنی قسمیں توڑیں  اور تمھارے دین پرلعن  طعن کریں تو  کفر کے سرغنوں کو قتل کرو بے شک ان کی قسمیں کچھ نھیں اس امید پر کہ شاید باز آئیں -سورت نور آیت نمبر 63، ترجمہ  رسول اللہ کو ایسے نا پکارو جیسے  آپس میں ایسا تم ایک دوسرے کو پکارتے ھو بے شک  اللہ جانتا ھے تم میں چپکے نکل  جاتے ھیں کسی چیز کی  آڑ  لے کر ڈریں وہ جو رسول اللہ کے حکم کے خلاف کرتے ھیں کہ انھیں کوئی فتنہ پہنچے  یا ان پر درد ناک عزاب پڑے  ، یعنی اس کا مطلب ھے کہ رسول اللہ سے اس لہجہ میں بھی بات کرنے کی ممانعت ھے جس طرح کوئی دو انسان  ایک دسرے سے کرتے ھیں ، آیت نبمر 8 سورت نسا  ترجمہ تمھارے رب کی قسم وہ مسلمان ھی نہیں ھوں گے ب تک کہ اپنے آپس میں  جھگڑیں میں تمھیں حاکم نہ بنا لیں پھر جو کچھ تم فرما دو اپنے دلوں میں اس کوئی حرج محسوس نا کریں ۔

 اس آیت کا خلاصہ یہ ھے کی اللہ اپنی قسم دے کر مسمانانوں کو خبردار کر رہا ھے کہ خبردار تم خود کو مسلمان کہلانے کے حقدار ھی نھیں ھو اگر تم رسول اللہ  کا حکم نھیں مانتے یا اس کے بر خلاف چلتے ھو ،سورت احزاب آیت نمبر  ترجمہ بے شک جو ایزا دیتے ھیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ھے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لئے درد ناک عزاب تیار کر رکھا ھے اسطرح جن مزید سورتوں میں عزاب کی طرف اشارہ کر کے کہا گیا ھے کہ رسول اللہ اور اللہ کے حکم پر  عزاب مسلط ھو گا وہ یہ ھیں سورۃ بقرہ آیت نمبر 90 ، سورۃ نسا آیت نمبر ،151،102،37 14 سورۃ آل عمران آیت نمبر 178، سورۃ حج آیت نمبر 57 سورٰۃ جاثیہ آیت نمبر 9، سورۃ مجادلہ آیت نمبر 16،5 سورۃ احزاب آیت نمبر 17،  اسی طرح بے شمار حدیث میں بھی خود رسول خدا نے فرمایا کہ تم میں سے کسی شخص کا دین مکمل نھیں  ھوتا جب تک کہ میں اس کو اس کے اہل عیال سے زیادہ پیارا نا ھو  جاؤں اس طرح اور بھی کافی احادیث ھیں  جن حضور صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے احکام کا پابند رھنے  کا حکم دیا  اب  ا یک جائزہ لیتے  رسول خدا کی زات اقدس کا کے  آپ صلے اللہ وآلہ وسلم کس طرح سے دشمن پر بھی رحم کیا کرتے تھے تا کہ امت کو عملی نمونہ دکھا سکیں کہ ایک مسلمان کس طرح اعلی اخلاق و کردار کا نمونہ ھوتا ھے ، آنحضرت صلے اللہ وسلم جب بھی کسی سے گفتگو فرماتے تو سامنے والے کی بات انتہائی غور اور توجہ سے سنتے اگر سمجھانا ھوتا تو عزت احترام پیار بردباری کے ساتھ بات کو سمجھاتے تاکہ سامنے والے کی توھین بھی نا ھو اور وہ سمجھ بھی جائے اور خفا بھی نا ھو اور بار ہا اپنے ھر امتی کو بھی اسی طرح  عمل کرنے کا حکم دیتے تھے ، دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک ، جنگ کی صورت میں سپاھیوں کو روانہ کرتے تو باقائدہ درس دے کر بھیجتے تھے ، جو جنگ کے دستہ سے ارشاد فرماتے اس کے الفاظ کچھ یوں ھیں بقول امام جعفر صادق علیہ اسلام ۔ خدا کا نام لیکر روانہ ھو  اور اللہ کی راہ میں ثابت قدم رھو ۔

اے لوگو امت رسول خدا کے ساتھ مکر نا کرنا ، مال غنیمت میں چوری نا کرنا ، کفار کو مثلہ نا کرنا  ان کو قتل کرنے کے بعد  ان کے کان ناک اور دوسرے اعضا نا کاٹنا  بوڑھوں بچوں اور خواتین کو قتل نا کرنا  جو راہب  اپنے عبادت گاہوں میں ھوں ان کو قتل نا کرنا  درختوں کو جڑ سے نا اکھاڑنا  مگر مجبوری کی حالت میں ایسا کر سکتے ھو ،نخلستانوں کو آگ نا لگانا  انھیں پانی میں غرق نا کرنا  میوہ اور پھل دار درخت کو نا کاٹنا  کھیتوں کو نا جلانا حلال جانوروں کو نست و نابود نا کرنا  مگر  اگر تم غذا کے طور سے زبح کرنا چاھو تو کر سکتے ھو  ھرگز ھرگز ان کے استعمال کے پانی کو خراب نا کرنا ، حیلہ اور خیانت سے کام نا لینا دشمن پر شب خون نا مارنا ،مسلمانوں میں اگر کوئی کسی مشرک کو پناہ دینا چاھے تو وہ دے سکتا ھے -اور پھر ان کو اسلام کی دعوت دو اگر وہ اسلام قبول کر لے تو وہ تمہارا بھائی ھے اس کو نقصان نا پھنچانا - ھمیں سوچنا ھے  کہ رسول اللہ صلے اللہ نے تو دشمن کے بارے میں یہ ھدایات دی ھیں کیا ھم آپس میں بھائی بھائی کھلانے والے اییسی باتوں پر عمل کر رھے ھیں ۔

آج ھم مسللمان بلکہ خود کو جنتی تصور کرتے ھیں جب کسی مسللمان کلمہ گو کو کافر کہہ لیتے ھیں یا کسی اور طرح سے اس کو نقصان  دے سکتے ھیں ،بعض دفعہ تو ایک مسلمان دوسرے کی جان لینے سے بھی گریز نھیں کرتے ۔ جیسے معمولی مسلہ کو لے کر اختلاف رائے ھو گیا اور بس جان ھی لینے کے در پہ ھو گئے  ،اس مسلہ کو ھی بنیاد جانا باقی اسلام کی تمام خوبی بھول گئے ،رسول اللہ احکام کو فراموش کر دیا ،ملک  عزیز پاکستان اس وقت انتہائے کرب اور تکلیف دہ  حالات سے دو چار ھے ،خود کو نبی محترم رسول اللہ کے حب دار کہنے والے ان کی پیروی کرنے والے مسلمان دوسر ے کا گھر اجاڑنے میں لمحہ برابر بھی نھیں سوچتے کہ کس طرح کسی ایک فرد کے جانے سے پورا کنبہ تباہ ھو جاتا ھے ،ایک فرد کسی  کا بیٹا کسی کا شوہر کسی کا بھائی ھوتا ھےیوں کتنے دل روتے ھیں کسی ایک کے جانے سے ۔

پھر اس پر یہ ظلم بھی ھم اپنی جانوں پر کرتے ھیں کہ خود کو مسلمان کھتے ھیں اور مسلمان  ملک کے رھائشی کہلاتے ھیں ،۔ اور اپنے نبی کے امتی ھونے کے ساتھ ساتھ  نبی محترم کے ساتھ محبت کے دعویدار  بھی ھیں -رسول اللہ کی حدیث ھے تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ھیں جس طرح اگر جسم کا ایک عضا درد کرے تو تمام جسم درد محسوس کرتا ھے مسلمان  کو بھی ایس طرح دوسرے مسلمان سے  انس اور رغبت ھو کہ ایک کو درد ھے تو دوسرا مسلمان بھی اس درد کو محسوس کرے ، پھر اور حدیث پاک میں ارشاد پاک ھے کہ تم میں سے اس وقت تک کوئی صیح مسلمان مکمل ایمان والا نھیں ھو سکتا جب  تک کے اس کے ھاتھ سے زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نا ھوں  بھی ھیں اللہ ھمھیں سچے دعویدار بننے کی توقیق دے ار عمل کی بھی تاکہ ھم اپنے دین کی خوبی کو دنیا میں ایک مثال بنا کر عام کر سکیں ۔
 امین ثم آمین


MAHE RABIUL AWAL AUR SEERATE TAYYABA KE CHAND QABILE TAWAJJO PAHELU


courtesy: Inquilab Bombay

INSANIAT KE MOHSINE AZAM



SEERAT KE PAIGHAM KO BHI AAM KAREIN

courtesy: Inquilab Bombay

INSANIAT KE MOHSINE AZAM

Courtesy: Roznama Sahara Bangalore

SUNNATE RASOOL S.A.W PAR AMAL PAIRA HONEY KI ZAROORAT

Courtesy: Roznama Sahara Bangalore

Balancing between "Tawakkul in Allah" and Human efforts


Balancing between "Tawakkul in Allah" and Human efforts


As Muslims, we are to completely trust Allah (have “Tawakkul”) for all our affairs. We also believe that Allah’s Will can supersede our plans. However, this does not mean that we should not plan and work based on what Allah has blessed us in knowledge, intelligence, and free will. Common sense, as well as Islamic teachings, tells us that we are to fully employ those God-granted faculties thanking Allah of what he has provided us, without feeling proud and arrogant about those abilities. We see an example of this from the Quran
where it tells us that when Prophet Yaqub (a.s.) sent his sons to Egypt, he advised them as a precautionary measure to enter from different gates of the city lest they be mistaken as a clan or a group raising suspicions amongst the inhabitants of the city. So, we see that even as a prophet, Prophet Yaqub (a.s.) took all the precautionary measures that he could to prevent his sons from getting into any trouble. However, later we also learn from Surah Yousuf in the Quran that his precautionary measures were overtaken by the divine decree.
Sheikh Modudi in his tafsir describes the matter of balancing one’s free will and judgment with Allah’s trust as follows:
“Most people do not understand how Prophet Jacob (Yaqub (a.s.)) was able to hold the balance between “trust in Allah” and the adoption of precautionary measures. This was because Allah had favored him with the real knowledge. That was why he took all those measures which were dictated by common sense, deep thinking and experience. He admonished his sons for their ill treatment of their brother (Prophet) Yousuf (a.s.) so that they should not dare repeat it in the case of Benjamin. He took a solemn pledge from them in the name of AIlah that they would take good care of the safety of their step-brother. Then he advised them to be on their guard against the dangerous political situation and to enter the capital by different gates so as not to give cause for alarm and suspicion. In short, as far as it was humanly possible, he took all the precautionary measures to avoid every possible risk. On the other hand, he always kept this thing in view (and expressed it) that no human precautionary measure could avert the enforcement of Allah’s will, and that the real protection was Allah’s protection, and that one should rely not on the precautionary measures but on the favor of AIlah. Obviously only that person who has the real knowledge can keep such a balance in his words and deeds, who knows what kind of efforts are demanded of his human faculties bestowed by Allah for the solution of worldly problems, and who also realizes that it is Allah alone who has the power to make them a success or a failure.
This is what most people do not understand. Some of them rely merely on their efforts and measures and discard trust in Allah while there are others who rely merely on ‘trust in AIlah’ and do not adopt any practical measure to solve their problems.”
The lesson that we learn from the above is that we, as Muslims, should have complete faith in Allah to help us in our endeavors because without His will and help no results can come to fruition. When we completely put our trust in Allah believing that all success can come only when He intends it to be so, we can earn Allah’s pleasure. Allah tells us in the Quran:
islam on Balancing between “Tawakkul” in Allah and human efforts
“…Certainly, Allah loves those who put their trust (in Him).”
[Quran (Surah Aal-e-Imran, Verse 159)]
In parallel, we should also use all our God-granted faculties in every endeavor that we choose to pursue. As we know from the popular hadith that one day Prophet Muhammad (Sallellahu Alaihi Wa Sallam) noticed a Bedouin leaving his camel without tying it and he asked the Bedouin, “Why don’t you tie down your camel?” The Bedouin answered, “I put my trust in Allah.” The Prophet then said, “Tie your camel first, then put your trust in Allah” [At-Tirmidhi].
Finally, does the above guarantee that we will get our intended result? As Muslims, we should believe that Allah as the Lord of the worlds has far more knowledge than His creation, and out of His wisdom He may decide to supersede all our plans for reasons that only He knows. We should remind ourselves that believing in al-Qadr (Allah’s divine will and decree) is one of the pillars of Islamic faith.
Allah says in the Quran,
islam on Balancing between “Tawakkul” in Allah and human efforts
“No calamity befalls on the earth or in your selves but it is inscribed in the Book of Decrees (Al-Lawh Al-Mahfooz) before We bring it into existence. Verily, that is easy for Allah.”
(Quran, Surah Al-Hadeed, Verse 22.)
So, before embarking on an effort, remind yourselves of the following:
* Put your trust in Allah
* Use your God-granted faculties to put in your best efforts
* Believe in the divine decree (Qada wal-qadr)

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور بچے

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اور بچے

مبصرالرحمن قاسمی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ کامیاب معاملات کی حقیقت سے بخوبی آشنا تھے،آپ کا اسلوب تربیت‘ علم، تجربہ،کشادہ دلی، صبر اور برداشت پر مشتمل تھا، بچپن کے مرحلے کی اہمیت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے ساتھ ایسا تربیتی اور تعلیمی اسلوب اختیار کیا، جس کے نتیجے میں کامیاب شخصیات، بے نظیر قائدین، اور نابغۂ روزگار افراد پیدا ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں کے ساتھ برتاؤ کیسا تھا؟ اس موضوع پرذیل کے سطورمیں روشنی ڈالی جا رہی ہے:بچوں سے لطف ومحبت بچے ہر وقت اس شخص سے محبت کرتے ہیں ، جو ان کے ساتھ محبت و سادگی سے پیش آئے، اور ان کے ساتھ اس طرح رہے گویا کہ وہ خود بھی بچہ ہی ہے۔بچے ایسے شخص سے نفرت کرتے ہیں جو غصہ والا،ترش رو اور بے صبرا ہو۔ بچے محترم اورسنجیدہ انسان کو پسند کرتے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچے کی طبیعت سے بخوبی واقف تھے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرماتے تھے جیسی ان کی پسند ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکے ساتھ اپنی سادگی،ان سے مذاق، دل لگی اور ان کی شفقت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق اوران کی شخصیت سنوارنے اورانہیں کامیاب انسان بنانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں: ’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عشائ￿ کی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے سجدہ فرمایا تو حسن? اور حسین? آپ کے پیٹ مبارک پر چڑھ گئے، جب آپ نے اپنے سر کو اٹھایا توان دونوں کو آہستہ سے پیچھے سے پکڑا اور محبت سے اتار دیا، جب آپ نے نماز ختم فرمائی تو ان دونوں کو اپنی گود میں لے لیا ‘‘۔
(حسنہ الالبانی فی السلسلۃ الصحیحۃ3325 )
بچہ، واجبات، حقوق، اصول ومبادی اور اخلاق ومعانی کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، یہ باتیں اسے اس کی زندگی کے کئی سالوں میں قدم قدم پر حاصل ہوتی ہیں، وہ شخص غلطی پر ہے جو بچوں کے ساتھ بڑوں جیسا سلوک کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ بچہ اصول وضوابط کو جانے، لیکن بہت سے لوگوں کو بچوں کے ساتھ اسی طرح کا براسلوک کرتے ہوئے دیکھا گیا، ایسے لوگوں کا بچوں سے مطالبہ ہے کہ وہ پرسکون، وقار وچین کے ساتھ اور خاموش رہیں، حالانکہ ان باتوں پر بچے عمل نہیں کرسکتے۔
ام خالد جو خالد بن سعید کی بیٹی تھیں‘ وہ کہتی تھیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے باپ کے ساتھ آئی، میں ایک زرد قمیض پہنی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دیکھ کر فر مایا: واہ واہ کیا کہنا ’’سنہ سنہ’’ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے ام خالد کہتی ہیں: (میں کم سن بچی تو تھی ہی )میں جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر مہر نبوّت سے کھیلنے لگی میرے باپ نے مجھ کو جھڑکایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اس کو کھیلنے دے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو یوں دعا دی:’ یہ کپڑ ا پرا نا کر پھاڑ، پرانا کر پھاڑ‘ تین بار یہی فر مایا۔ عبد اللہ کہتے ہیں وہ کرتہ تبرک کے طور پر رکھارہا یہاں تک کہ کالا پڑگیا۔( رواہ البخاری 3071).
یہ ایک عبرت آموز واقعہ ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتا ہے، جسے یہ بھی پتہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت محبت فرماتے اور آپ بچوں سے ملنے میں اکتاتے نہیں ہیں بلکہ خوشی محسوس کرتے ہیں، اور باپ کے سامنے بچی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جرأت کرتی ہے اور آپ کے پشت مبارک سے لٹکتی اور کھیلتی ہے اور آپ ہنستے ہیں اور اسے اپنے ساتھ کھیلنے کے لیے بلاتے ہیں۔
کبھی ایسا بھی ہوا کہ چھوٹے بچے کو آپ نے گود میں لیا، اور اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا، تو آپ نے پانی منگوایا اور اپنے کپڑوں پر چھڑک دیا، دھویا نہیں، آپ کی بچوں کے ساتھ کثرت محبت اور انہیں لینے کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں اور آپ کے حجروں میں چھوٹے بچوں کے پیشاب کرنے کے کثرت سے واقعات ہوئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف لڑکوں کو ہی اپنی گود میں نہیں اٹھایا بلکہ لڑکیوں کو بھی آپ پیار سے گودمیں لیتے تھے۔
حضرت ابوموسی اشعری ص فرماتے ہیں: ’’مجھے بیٹا ہوا، میں اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا، پھر کھجورچباکراسے چٹایا اور اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی‘‘۔(متفق علیہ )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ راستے میں بھی کھیلا کرتے تھے:
یعلی بن مرہ? کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے پر نکلا، تو حسین بن علی? راستے میں کھیل رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان سے جلدی آگے بڑھے، پھر اپنے ہاتھوں کو بڑھایا، تاکہ حسین? کو لیں، لیکن حسین? ادھر ادھر بھاگنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا پیچھا کرتے اور انہیں ہنساتے، آپ نے اسامہ بن زید? اور حسن بن علی? کو لیا اور اپنی گود میں دونوں کو بٹھایا، پھر ان کو گلے سے لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں ان پر شفقت کرتا ہوں‘‘۔(بخاری ۶۰۰۳)
اور ایک حدیث میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور آپ کے کاندھوں پر امامہ بنت ابوالعاص تھیں، پھر آپ نے نماز پڑھی، جب رکوع کیا تو امامہ? کو نیچے اتاردیا، پھر جب رکوع سے اٹھے تو امامہ کو اٹھالیا۔(بخاری ومسلم)
محمود بن ربیع کہتے ہیں: ’’مجھے ابھی تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کْلی یاد ہے جو آپ ا نے ایک ڈول سے لے کر میرے منہ پر کی تھی اس وقت میں پانچ سال کا تھا۔‘‘
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اپنی نماز کو ہلکی کردیتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ’’میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز کو طویل کروں، (لیکن جب) بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کردیتا ہوں، اس کراہت سے کہ بچے کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں۔‘‘ (بخاری )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے اور ان کے خصوصی معاملات کے سلسلے میں ان سے گفتگو فرمایا کرتے تھے، گوکہ بچوں کے معاملات معمولی ہوتے ، حضرت انس ?بیان کرتے ہیں :’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھے، میرا ایک بھائی تھا، جسے ابوعمیر کہا جاتا تھا، (راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے اس کا دودھ چھٹ چکا تھا ) جب وہ آتا تو آپ فرماتے تھے: اے ابوعمیر تمہاری نغیر تو بخیر ہے۔(نغیرایک چڑیا تھی جس سے ابوعمیر کھیلا کرتے تھے)۔(بخاری ومسلم)
بچوں کا احترام اور ان کی قدر کرنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ لطیفانہ معاملات میں ان کے درمیان اپنے احترام کو باقی رکھتے ہوئے انہیں آسان اور ٹھوس وسائل کے ذریعے افضل ترین مفاہیم کو سمجھادیا کرتے تھے، آپ بچوں کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آتے تھے، نبوی دور کا ایک بچہ عبداللہ بن عامر نبی کریم ا کے اس موقف کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: میری والدہ نے مجھے ایک دن بلایا،اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے، وہ کہنے لگی: آو￿ میں تمہیں کچھ دیتی ہوں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ سے کہا: تم انہیں کیا دو گی؟ فرمانے لگی: میں انہیں کھجور دینا چاہتی ہوں، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم انہیں کوئی چیز نہ دیتی تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔ ( رواہ ابو داود (4991) وحسنہ الالبانی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ واقعہ میں جھوٹ بول کر بچوں کے احساسات سے کھیلنے سے خبردار فرمایا۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو دیکھتے تو ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور ڈانٹ دپٹ نہیں فرماتھے۔ عمر بن ابو سلمہ? کہتے ہیں: ’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں ایک بچہ تھا، اور میرے ہاتھ برتن میں بے جگہ پڑتے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: اے بچے: اللہ کا نام لو اور اپنے سیدھے ہاتھ سے کھاو￿ اور اپنے سامنے سے کھاو￿ó‘‘ (متفق علیہ )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق کریمانہ اور پاکیزہ تعلیمات کے ذریعہ بچوں کے اندر بچپن ہی سے رجولت اوربہادری کے مفاہیم پیداکرنے کی کوشش کی ،آپ ا مختلف اسلوب میںبچوں کو اعلی معانی ومفاہیم کے تدریجی گھونٹ پلاتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی بعض بچوں کو جیسے عبداللہ بن عباس? اور عبداللہ بن عمر? کو اپنی مجلس میں اپنے صحابہ کے ساتھ بٹھاتے تھے تاکہ وہ سیکھیں اور ان میں پختگی آئے۔
عبداللہ بن عمر? بیان کرتے ہیں:
’’ایک مرتبہ کا ذکرہے ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کجھور کا ایک گچھا لایا گیا، (جسے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کی مثال مسلمان کی سی ہے، بتاؤ! وہ کون سا درخت ہے؟ میرے دل میں آیا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے لیکن کم سنی کی وجہ سے شرما گیا اور خاموش رہا، آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کجھور کا درخت ہے۔‘‘(متفق علیہ )
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس? جوکم سن تھے، وہ آپ کے ساتھ سواری پر آپ کے پیچھے سوار ہوئے، تو آپ نے انہیں سادہ مفہوم پر مشتمل لیکن پراثر چند کلمات کی تعلیم دی، آپ نے فرمایا:’’اے بچے: میں تمہیں چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں: اللہ کو یاد رکھو، وہ تمہاری حفاظت کرے گا….‘‘(رواہ التّرمذی 2516 وصححہ الالبانی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے احترام اور ان کی قدر کے سلسلے میں اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ کبھی بڑوں کی مجلس میں بچے شامل ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑوں کے مقابلے بچوں کو ترجیح دیتے: حضرت سہل بن سعد الساعدی? کہتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنے طرف ایک لڑکا تھا (ابن عباسص) اور بائیں طرف سن رسیدہ لوگ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے سے پوچھا: میاں ! تم اس کی اجازت دیتے ہو کہ پہلے میں یہ پیالہ بوڑھوں کو دوں؟ اس نے کہا: وَاللّٰہِ یَا رَسْوْلَ اللّٰہِ ! لاَ أْوْثِرْ بِنَصِیْبِیْ مِنْکَ أَحَدًا اللہ کی قسم یارسول اللہ! میںآپ کی طرف سے ملے ہوئے اپنے حصے پر کسی اور کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ آخرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ اسی کے ہاتھ میں دے دیا۔‘‘(متفق علیہ )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتھ دو امر کا خیال رکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے حق کاخیال رکھا اور اس سے اجازت طلب کی، نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑوں کے حق کا بھی خیال رکھا اور بچے سے مطالبہ فرمایا کہ وہ بڑوں کے لیے اپنے حق سے بری ہوجائے، جب بچہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو نہ ڈانٹا اور نہ اس کے ساتھ سختی فرمائی بلکہ اسے اس کا حق دے دیا۔
بچوں کے خاندانی اور اجتماعی حقوق کی حفاظت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نومولود کے نسب،اور زواج صحیح سے اس کی پیدائش، نیز شرعی تعلقات کے بغیر بچوں کی عدم پیدائش جیسے حقوق کی حفاظت کا اہتمام فرمایا، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے مستقبل کی حفاظت فرمائی نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کی پاکیزگی کو رذائل، فساد اور اختلاط انساب سے محفوظ فرمادیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے حقوق کے سلسلے میں ہدایت دی کہ بچہ کا باپ بچے کے لیے اخلاق حمیدہ کی حامل ماں کا انتخاب کرے، اسی طرح باپ اس کا ایسا اچھا نام رکھے جس میں کسی قسم کا نقص نہ ہو،اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی فطری رضاعت اور بہترین ایمانی ماحول میں اسکی تربیت کا حکم دیا نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے حقوق کے سلسلے میں یہ بتایا کہ والدین انہیں جنسی بے راہ روی اور بے دینی کے ماحول سے محفوظ رکھیں۔
اسی طرح نبی کریم کے پیغام کے مطابق بچہ میراث اور وصیت کا حقدارہے،نیز شریعت محمدی نے یتیم بچے کی کفالت اور اس کی مکمل تربیت کی خوب تاکید کی ہے،اور یتیم بچے کے مال کی حفاظت پر زور دیا ہے نیز یتیم بچوں کی مدد کی ترغیب دی گئی ہے۔

حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اہمیت اور تقاضے

حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اہمیت اور تقاضے

مولانا محمد مجیب الدین قاسمی

ایک مسلمان اور مومن کے لیے اپنی ذات کی معرفت و محبت اتنی ضروری نہیں جتنی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے محبت ومعرفت ضروری ہے، کیونکہ آنحضرتؐ سے محبت جزوایمان ہے اور حب نبوی کے بغیر دعوئی ایمان بھی معتبر نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالر سالت کو تکمیل ایمان کی شرط کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور (قرآن) پر جو ہم نے نازل کیا‘‘ (التغابن:۸) دوسری آیت میں ارشاد ہے: ’’(اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے لائو اور اس (کے دین) کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو۔‘‘ (الفتح:۹) ان آیات سے جہاں ایمان بالرسول کی اہمیت واضح ہوتی ہے وہیں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ آپؐ سے تعلق ومحبت کے بغیر دولت ایمان کا حصول بے بنیاد ہے، اس لیے ایمان بالرسالت کا تقاضا ہے کہ محب اپنے محبوب کے ہر حکم کے آگے اپنی جبین عقیدت کو اس طرح خم کردے کہ عقل وخرد اور فکر وفلسفہ کا اس میں کوئی عمل دخل نہ ہو۔ حب نبوی ایمان کی بنیاد بھی ہے اور اس کی معراج کمال بھی، اس لیے اللہ تعالیٰ پر صحیح ایمان کا معیار یہی ہے کہ سرور دو عالمؐ کے ہر قول وعمل کو بلاچون وچرا اسی طرح مان لیا جائے جس طرح آپ نے فرمایا یا عملی نمونہ پیش فرمایا، نیز آپ سے ایسی محبت کی جائے جو طبعاً، شرعاً اور عقلاً مطلوب وپسندیدہ ہو۔
محبت کی حقیقت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے معنی اور اس کی حقیقت کے سلسلے میں اہل علم حضرات نے مختلف باتیں ارشاد فرمائی ہیں، جن کی حقیقت تقریباً ایک ہی ہے۔
(۱) حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ اتباعِ رسول کا نام محبت ہے۔ (۲) بعض نے کہا کہ جب نبوی امتی کے اس اعتقاد کو کہتے ہیں جس کے تحت وہ اجرائے سنت کا عادی ہو جائے، ہر شعبۂ زندگی میں سنت کی پیروی کرنے لگے اور مخالفتِ سنت سے خوف زدہ رہے۔ (۳) کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ ذکر محبوب کے دوام کا نام محبت ہے، یعنی ہر دم آپ کی سنت پر عمل پیرا رہے اور بکثرت آپ پر درودِ شریف بھیجتا رہے (۴) بعض کا ماننا ہے کہ محبوب پر جاں نثاری محبت کا دوسرا نام ہے۔ (۵) بعض حضرات کا خیال ہے کہ محبت محبوب کے شوق کو کہتے ہیں، یعنی جس محبت کے ذریعے محبوب کا قرب اور وصال نصیب ہو وہ حقیقی محبت ہے۔ (۶) چند اہل محبت نے فرمایا کہ دل کو رب کی مرضی پر چھوڑ دینا یعنی جو بات محبوب کو ناپسند ہو وہ بھی اس کو ناپسند سمجھے (۷) بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ موافقت کی جہت پر دل کے میلان کا نام محبت ہے۔
(بحوالہ عشق رسولؐ :۶۳)
مذکورہ بالا معانئی محبت میں جو بات قدرے مشترک ہے وہ یہ کہ دل اس طرف مائل ہو جو فطرت انسانی کے مطابق ہو اور قلب کو اس کے ادراک سے لذت حاصل ہو۔
اسباب محبت
عموماً محبت کی بنیاد چار چیزیں ہوا کرتی ہیں (۱) جمال (۲) کمال (۳) نوال (احسان) (۴) قرابت، کبھی کسی کے جمال جہاں آراء حسنِ اور خوبصورتی کی بناء پر اس سے محبت ہوجاتی ہے جیسا کہ حسن یوسف پر زلیخا اور مصر کی عورتیں عاشق ہوگئی تھیں اور انسان تو انسان بعض حیوان بھی جمال پر عاشق ہوجاتے ہیں، اور پروانے شمع کی روشنی پر عاشق ہیں، حتیٰ کہ جان دے دیتے ہیں، مگر اف تک نہیں کرتے۔
کبھی کسی میں کمال وقابلیت ہو تو اس سے محبت ہوجاتی ہے۔ کبھی کسی کے احسان کرنے کی وجہ سے اس سے محبت ہوجاتی ہے، احسان ایک ایسی چیز ہے جس کی بناء پر انسان ہی نہیں بلکہ موذی جانور بھی اپنے محسن کے تابع ہو جایا کرتے ہیں، ان کے علاوہ قرابت ورشتہ داری کی وجہ سے محبت ہونا ایک بدیہی بات ہے۔ الحاصل ان چاروں اسباب میں سے کوئی ایک سبب بھی موجود ہو تو محبت کے لیے کافی ہے۔ مذکورہ بالا اسباب وعلل کی روشنی میں ذاتِ نبویؐ کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ آپؐ کی ذات گرامی ان تمام صفات وکیفیات کی جامع ہے، کیونکہ آپ میں یہ چیزیں علی وجہ الاتم والا کمل موجود تھیں جو مو جب محبت ہیں۔ خالق کائنات نے آپ کو اجمل الخلائق پیدا کیا، ہر قسم کے مکارم سے مزین کیا، ظاہری حسن وجمال اور حسن اخلاقی کے علاوہ باطنی خصوصیات وکمالات کا سرچشمہ بنایا، چنانچہ شمائل کی کتابوں میں آپ کے حسن وجمال کے متعلق بیشمار احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری کائنات میں آپ کو جو حسن وجمال اور ملاحت عطا کی گئی وہ کسی اور کو حاصل نہ ہوئی۔
محسن انسانیتؐ کے احسانات امتِ مسلمہ پر اس قدر ہیں کہ ان کو کسی عدد محصور میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا، انسانیت کی ہدایت ورہنمائی کے لیے آپ نے کیا کچھ نہیں فرمایا، آپ مومنین کے حق میں رئوف ورحیم بلکہ رحمتہ للعالمین ہیں بشیر اور نذیر ہیں، آپ ہی کی وجہ سے یہ امت خیرامت کہلائی، آپ ہی کے ذریعے سے کتاب وحکمت کی تعلیم چار دانگ عالم میں عام ہوئی، امت کے افراد کا تزکیہ ہوا، جوامت اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم کے کنارے پہنچ چکی تھی فلاح وکامرانی کی شاہراہ پر گامزن ہوئی، اس امت پر یہ تمام انعامات صرف آپ ہی کے احسانات کے بدلے مقدر ہوئے۔ آپؐ کی قرابت ہر مسلمان سے ہے بلکہ آپ کی قرابت دوسروں کی قرابت سے اقویٰ ہے، کیونکہ دنیوی قرابتیں جسمانی اور فانی ہوا کرتی ہیں اور آپ کی قرابت روحانی اور باقی ہے، آپ نے فرمایا کہ کوئی مومن ایسا نہیں جس کے لیے میں دنیا وآخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولیٰ اور اقرب نہ ہوں۔ (بخاری ۲/۷۰۵) اسی مضمون کو قرآن پاک کی یہ آیات بھی واضح کرتی ہے: ’’مومنوں کے لیے نبی ان کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۶) ایک حدیث میں ہے کہ آپ امت کے حق میں بمنزلۂ شفیق مہربان باپ کے ہیں، جب آپ کی ذات میں تمام خصائل جمیلہ وجمیع اسباب محبت موجود ہیں تو آپ کی ذات کیونکر محبت کے لائق نہ ہوگی۔
محبت کی اہمیت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ تکمیل ایمان اس پر موقوف ہے کہ آپ کی محبت سب محبتوں پر غالب ہو یعنی تمام دنیوی تعلقات پر اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو مقدم رکھا جائے، کیونکہ ایک مومن کے لیے یہی سب سے بڑا سرمایۂ افتخار ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے: اگر تمہارے باپ تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیبیاں اور تمہارا کنبہ اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں نکاسی نہ ہونے کا تم کو اندیشہ ہو اور وہ گھر جن کو تم پسند کرتے ہو تم کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہوں تو تم منتظر رہو، یہاں تک تم پر اللہ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب) بھیج دیں۔ (التوبہ: ۲۴) اس آیت میں گرچہ ترک ہجرت پر وعیدبیان کرنا مقصود ہے، مگر آیت کے عموم سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ سچا ایمان اسی وقت نصیب ہوسکتا ہے جبکہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت ساری دنیا بلکہ خود اپنی جان سے بھی زیادہ ہو اور آپ کی محبت اس درجہ ہو کہ دوسری کوئی محبت اس پر غالب نہ آسکے۔ احادیث مبارکہ سے بھی حب بنوی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب تک کوئی آپ سے دنیا ومافیہا کی ہر محبوب چیز کی محبت سے زیادہ محبت نہ کرے اور دوسروں کی محبتوں پر آپؐ کی محبت کو فوقیت نہ دے تو اعمال صالحہ کا بڑا سے بڑا ذخیرہ بھی اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیونکہ ایمان کی بنیاد اور اصل ہی آپ کی محبت ہے، گرچہ باقی ارکان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اولاد اور دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں۔ (بخاری ۱/۷) حضرت انسؓ ہی سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے تین باتوں کو ایمانی حلاوت کے حصول کی علامت قرار دیا ہے۔ (۱) انسان کی نظر میں اللہ اور اس کے رسول کی ذات کائنات کی ہر چیز سے زیادہ محبوب وپسندیدہ ہوجائے۔ (۲) وہ اپنے مسلمان بھائیوں سے خدا کے لیے تعلق رکھے (نہ کہ کسی دنیوی غرص وذاتی منفعت کے لیے) (۳) وہ اپنے لیے کفر کو اسی طرح ناپسند کرے جیسے آگ میں جلنے کو ناپسند سمجھتا ہے۔ (بخاری ۱/۸)
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے عزیز ہیں، یہ سن کر آپؐ نے فرمایا تم میں کوئی شخص اُس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے لیے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔ حضرت عمرؓ نے تھوڑے توقف کے بعد عرض کیا بخدا یا رسول اللہ! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا اے عمر! اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔ (فتح الباری ۱/۸۱) اب ہر شخص خود اپنا محاسبہ کرلے کہ وہ ان علامات محبت پر کہاں تک پورا اترتا ہے اور کہاں تک کوتاہی کرتا ہے! جس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنے صادق ومصدوق نبی مکرم سے کس درجہ عقیدت ومحبت رکھتا ہے اور اس کے نزدیک آپ کی محبت کی کس قدر اہمیت ہے۔
محبت کے تقاضے
جن باتوں کو نبی کریمؐ نے اپنی سچی محبت کی علامت قرار دیا ہے اور جو واقعی معیار محبت ہیں، اگر وہ ہماری زندگیوں میں کامل طریقے پر موجود ہیں تو ہم اپنے دعویٰ محبت میں سچے ہیں اور اگر اس میں کچھ کمی ہے تو دعویٰ بلادلیل ہوگا، چنانچہ آپ سے محبت کا اوّلین تقاضہ یہ ہے کہ ہم شریعت کے احکام اور محبوب ایز دیؐ کی تمام سنتوں اور ہدایتوں کا خیال رکھیں اور ان کو اپنا مقصد حیات بنائیں، ہماری صورت وسیرت، ہمارے اخلاق وکردار، ہمارے طور طریقے، رہن سہن، معاشرت ومعاملات سب محبوب کی سنتوں میں رنگ جائیں، آج یہ طے کرلیں کہ محبوب کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نماز کو کبھی نہ چھوڑیں گے، داڑھی کی سنت کو مٹا کر محبوب خداوندی کو ناراض نہ کریں گے، کسی کی حق تلفی کے ذریعے اپنی دنیا وآخرت برباد نہ کریں گے، سود و رشوت لے کر اللہ اور اس کے رسول کی لعنت کے مستحق نہ بنیں گے، شادی بیاہ کے بے جار سوم کو جڑپیڑ سے ختم کرکے نکاح کو آسان سے آسان تر بنادیں گے، بے پردگی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ صالح معاشرہ وجود میں لائیں گے، نئی نسل کی دینی تربیت کرکے ان کی بے راہ روی پر روک لگائیں گے، معاشرے کو تمام برائیوں اور خلاف سنت کاموں سے پاک صاف کرکے محبوب رب العالمین کی شفاعت کے حقدار بنیں گے اور ان کے دست اقدس سے جام کوثر سے سیراب ہوں گے، کیونکہ محبوب سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ آپؐ کے مشن کی تکمیل کی جائے، آپ کی تعلیمات کو عام کیا جائے، آپ کے اخلاق و اوصاف کو اختیار کیا جائے، آپ کی سنتوں کا احیاء کیا جائے، بدعات وخرافات سے اجتناب کیا جائے بالخصوص ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی جائے، یہی سچی محبت ہے اور یہی اظہار محبت کا طریقہ ہے۔

حضورنبی کریم ؐبحیثیت ِداعی ٔاعظم

حضورنبی کریم ؐبحیثیت ِداعی ٔاعظم

چوہدری محمد اسلم سلیمی ایڈووکیٹ

حضور ﷺختمی مرتبت نے اہل ایمان کو اللہ کے جس فضل کبیر کی بشارت دی ، وہ ایک ایسے نظام زندگی کی صورت میں برپا کرکے دکھا دیا ، جس نے ہر طاقتور کو کمزور کرکے رکھ دیا جب تک اس سے کسی کا غصب شدہ حق واپس نہ لے لیا اور ہر کمزور کو طاقتور بنادیا جب تک اسے اس کا حق نہ دلا دیا۔ حکومت و اقتدار ،ذریعہ عیش و عشرت کی بجائے کانٹوں کی سیج بن کر رہ گئے ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ایک بے آسرا و بے سہارا ضعیفہ بھی امیرالمومنین کا گریبان پکڑ کر اپنا حق وصول کرلیتی تھی ۔
حضورؐنبی کریم کا مشن ہمہ گیر ، ہم پہلو اور کثیر الجہت (multi-dimensional)تھا۔ ان کے اس مقدس مشن کا احاطہ کرنا نہایت مشکل کام ہے ۔ میں اس مضمون میں آنحضورؐکے مشن کے چند پہلو پیش کرنا چاہتاہوں ۔
1۔مدینہ میں ایک مثالی حکومت کا قیام :
ہجرت کے بعد مدینہ میں ان حالات کا نقشہ بالکل بدل گیاتھاجو حضور نبی کریمؐ اور ان کے جان نثار ساتھیوں کو مکہ معظمہ میں پیش آئے تھے۔ حضورنبی پاک ؐ کی قیادت میں امت مسلمہ ایک باقاعدہ شہری ریاست کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ مدینہ پہنچنے کے بعدعرب کی پرانی جاہلیت کے علمبرداروں سے مسلمانوں کامسلح مقابلہ شروع ہوا ۔ پچھلے انبیاء علیہم السلام کی امتوں (یہود و نصاریٰ)سے بھی سابقہ پیش آیا ۔ خود امت مسلمہ کے اندرونی نظام میں مختلف قسم کے منافق بھی گھس آئے تھے اور ان سے بھی نمٹنا پڑا اور دس سال کی شدید کشمکش سے گزر کر آخر کار وہ تحریک کامیابی کی اس منزل پر پہنچی کہ عرب کا بڑا حصہ اس کے زیر نگین ہوگیا اور عالمگیر دعوت واصلاح کے دروازے اس کے سامنے کھل گئے ۔ ساتویں سن ہجری کے آغاز میں حضورنبی مہربان ؐنے چھ ممالک کے بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط لکھے تھے۔ خود حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تیس لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر اسلامی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ یہ حکومت عدل وانصاف کی علمبردار تھی اور اپنے دور کی ایک مثالی حکومت تھی۔اس میں حدود اللہ پوری طرح نافذ تھیں ۔ جرائم کا خاتمہ ہوگیاتھا ،معیشت کے دائرے میں سود کو یکسر ختم کردیاگیاتھا اور حضورؐنے سب سے پہلے اپنے چچا حضرت عباسؓکے دیے ہوئے قرض پر سود معاف کردینے کا اعلان کردیاتھا ۔ اس مرحلے میں حضورﷺکی دعوت کاانداز کبھی آتشین خطابت کا ، کبھی شاہانہ فرامین و احکام کا ، کبھی معلمانہ درس و تعلیم کا اور کبھی مصلحانہ افہام و تفہیم کا ہوتاتھا ۔ ان خطابات میں بتایا گیاتھا کہ جماعت ، ریاست اور مدنیت صالحہ کی تعمیر کس طرح کی جائے ، زندگی کے مختلف شعبوں کو کن اصول و ضوابط پر قائم کیا جائے ، برسرجنگ دشمنوں اور معاہد قوموں کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کیا جائے اور منظم اہل ایمان کا یہ گروہ دنیا میں خدا وند عالم کی خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے اپنے آپ کو کس طرح تیار کرے ۔ اس مرحلے میں ایک طرف مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کی جاتی تھی ۔ ان کی کمزوریوں کی اصلاح کی جاتی تھی ۔ ان کو راہ خدا میں جان و مال سے جہاد کرنے پر ابھارا جاتاتھا،ان کو شکست اور فتح ، مصیبت اور راحت ، بد حالی اور خوشحالی ،امن اور خوف ،غرض ہر حال میں اس کے مناسب اخلاقیات کا درس دیا جاتاتھا اور انہیں اس طرح تیار کیا جاتاتھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐکے جانشین بن کر اس دعوت و اصلاح کے کام کو دنیا بھر میں انجام دے سکیں ۔ دوسری طرف ا ن لوگوں کو جودائرہ ایمان سے باہر تھے ،یعنی اہل کتاب ، منافقین ، کفار ومشرکین ، سب کو ان کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے سمجھانے ، نرمی سے دعوت دینے اور بعض اوقات سختی سے ملامت اور نصیحت کرنے ، خدا کے عذاب سے ڈرانے اور سبق آموز و اقعات واحوال سے عبرت دلانے کی کوشش کی جاتی تھی ، تاکہ ان پر حجت تمام کردی جائے ۔
2۔دعوت کے کام میں مخاطب کی نفسیات کوملحوظ رکھنے کی ہدایت :
داعی اعظم حضورنبی کریم ؐاس اعتبار سے منفرد حیثیت کے حامل ہیں کہ آپؐنے دعوت و تبلیغ کے عملی مراحل کابہترین نمونہ پیش فرمایا ، آپؐنے ’’اپنے صحابہ کرامؓ  کو دعوت اور تبلیغ کے کام کے لیے بہترین اصول سمجھائے اور اس سلسلے میں انہیں ضروری ہدایات بھی دیں ۔ان ہدایات میں یہ بھی شامل ہے کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دو‘‘۔ حضورنبی پاکؐ کی تعلیمات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ موقع و محل کے لحاظ سے جو اہم بات حکمت تبلیغ کے سلسلے میں ہر داعی کو ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے ، وہ یہ ہے کہ اپنے مخاطب کی استعداد اور اس کی نفسیاتی کیفیات کیا ہیں ۔ پھر اس استعداد کو ملحوظ رکھ کراسے دعوت دی جائے ۔ مثلاً کسی عام مخاطب کی ذہنی استعداد کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے علمانہ مشکل اور دقیق منطقی استدلال اور فلسفیانہ بحثیں شروع کردی جائیں یا کسی دانشور سے گفتگو کرتے ہوئے بالکل عامیانہ بے رنگ اور بے ڈھب انداز گفتگو اختیار کیا جائے تو مفید نہ ہوگا ۔ بلکہ اس کے برعکس لوگوں سے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق عمدہ نصیحت کے انداز میں بات کی جائے ۔
آنحضورؐنے ارشاد فرمایا ’’دین کو آسان کرکے پیش کرو ، سخت بنا کر نہیں ، لوگوں کو خوشخبری سنائو ، نفرت نہ دلائو۔ حضورؐنے یہ بھی فرمایا
ترجمہ: ’’تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو ، دشواری پیدا کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ‘‘۔(بخاری شریف)
قرآن کریم میں فرمایا گیا:۔
ترجمہ :’’اور ( اے ایمان والو)یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں ان کو گالیاں نہ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں‘‘ ۔  (الانعام۔۱۰۸)
ایک داعی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خواہ مخواہ کی نفرتیں لیے پھرے ۔ اس کے دل میں سب لوگوں کے لیے ہمدردی اور خیرخواہی ہوتی ہے ۔ وہ دردمندی اور دلسوزی سے اپنی بات کرتاہے ۔ وہ بے سبب درپئے آزار نہیں ہوتا اور مخاطب کے پسندیدہ عقائد و اشخاص پر بے تکی تنقید نہیں کرتا۔
داعی اپنی دعوت کے کام میں اپنی جان گھلا دے :
نبی پاک ؐنے اپنی دعوت کے کام میں اس طرح جان گھلائی کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر قرآن کریم میں آپ کی اس حالت کا ذکر فرمایا اور تسلی دی ۔ مثلاً سورہ کہف میں فرمایا :۔ترجمہ: ’’ تو اے محمدؐشاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھودینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے ۔
اس بیان سے صاف معلوم ہوتاہے کہ آپؐ  کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپؐ  کو اور آپؐکے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں بلکہ جو چیز آپؐ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالناچاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی۔ آپؐ  کو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الٰہی ہے۔ آپؐان کو اس سے بچانے کے لیے اپنے دن اورراتیں ایک کیے دے رہے تھے ۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کررہیں گے ۔ اپنی اس کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ :۔
’’میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے ، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے ، وہ کوشش کرتاہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں ، مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر کھینچ رہاہوں اور تم ہوکہ آگ میں گرے پڑتے ہو۔‘‘(بخاری و مسلم )
اُوپر دی گئی سورہ کہف کی آیت میں ایک لطیف انداز میں آپؐکو تسلی بھی دے دی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ اس لیے تم کیوں اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دیتے ہو ؟تمہارا کام صرف بشارت اور انذار ہے ،لوگوں کو مومن بنادینا تمہارا کام نہیں ہے ۔ لہذا تم بس اپنا فریضہ تبلیغ ادا کیے جائو جو مان لے اسے بشارت دے دو جو نہ مانے اسے برے انجام سے متنبہ کردو ۔
اسی طرح سورہ الشعرامیں ارشاد ربانی ہے ۔ترجمہ :’’اے محمدؐ،شاید تم اس غم میں اپنی جان کھودو گے یہ لوگ ایمان نہیں لاتے ۔‘‘
اور سورہ فاطر میں ارشاد ہوا ۔ ترجمہ:’’ان لوگوں کی حالت پر رنج و افسوس میں تمہاری جان نہ گھلے ۔‘‘ (آیت نمبر۸)اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس دور میں اپنی قوم کی گمراہی و ضلالت ، اس کی اخلاقی پستی ، اس کی ہٹ دھرمی اور اصلاح کی ہر کوشش کے مقابلے میں اس کی مزاحمت کا رنگ دیکھ دیکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم برسوں اپنے شب و روز کس دل گداز و جان گسل کیفیت میں گزارتے رہے تھے۔