Search This Blog

Monday 1 June 2015

عربی کے مشہور ادیب احمد امین کی خود نوشت سوانح ’حیاتی ‘۔ ایک مطالعہ

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
عربی کے مشہور ادیب احمد امین کی خود نوشت سوانح ’حیاتی ‘۔ ایک مطالعہ
عربی زبان میں خودنوشت سوانح عمریاں بہت سی موجود ہیں۔ عہد جدید میں احمد امین کی ’’حیاتی‘‘ اور طہ حسین کی ’’الایام‘‘ نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے۔ راقم السطور نے دونوں کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے، اور وہ اس نتیجے تک پہنچا کہ صرف گل افشانئ گفتار اور ادب وانشاء کے معیار کو سامنے رکھا جائے تو ’’الایام‘‘ زیادہ وزن دار کتاب ہے۔ اسی لیے اس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، اس کتاب میں طہ حسین کی تحریر بغیر شراب کا نشہ ہے، لیکن کسی کتاب کی افادیت اور اہمیت صرف ادب وانشاء کے معیار کو سامنے رکھ کر نہیں طے کی جاسکتی ہے۔ زندگی کے تجربات اور علمی وفکری خصوصیات اور شخصیت کی تشکیل کے لازمی عناصر اور ان کے فائدے کو معیار بنایا جائے تو’’حیاتی‘‘ کا درجہ ’’الایام‘‘ سے بہتر اور بلندتر ہے۔ طہ حسین کی ’’الایام‘‘ تو وہ کتاب ہے جس کو اگر پوری قوت سے نچوڑا جائے تو شگفتہ بیانی اور لن ترانی کے سوا علم وتحقیق کا کوئی قطرہ اس سے مشکل سے برآمد ہوگا۔ جبکہ ’’حیاتی‘‘ میں قدم قدم پر زندگی کے قیمتی اور انمول تجربات سامنے آئیں گے، جن سے ایک باذوق قاری کا دامن علم وفکر کے بیش بہا موتیوں سے بھر جائے گا۔ خالص ادبی نقطہ نظر سے بھی یہ کتاب ’’الایام‘‘ کے ہم پلہ نہ سہی لیکن بہت وقیع اور خوبصورت ہے، بہت سی جگہوں پر احمد امین نے اپنی شیریں گفتاری کا جادو جگایا ہے، اور یہ اندازہ ہر اس شخص کو ہوگاجس نے عربی زبان میں ’’حیاتی‘‘ کا مطالعہ کیا ہے۔ مجموعی اعتبار سے ’’حیاتی‘‘ میرے نزدیک ’’الایام‘‘ سے زیادہ پسندیدہ اور مفید کتاب ہے۔ اردو خواں حضرات کو بات سمجھانے کے لیے مولانا آزاد کی کتابوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ مولانا آزاد کی ایک کتاب ’غبار خاطر‘ ہے، یہ خالص ادبی کتاب ہے، اور اردو انشاء کے لحاظ سے زرکامل عیار کی حیثیت رکھتی ہے، مولانا آزاد کی کتابوں میں اسی کتاب کے سب سے زیادہ ایڈیشن نکلے ہیں، لیکن علم وآگہی اور فکروتحقیق کے اعتبار سے مولانا آزاد کی دوسری کتابوں جیسے ’تذکرہ‘ یا ’ترجمان القرآن‘ کا پایہ زیادہ بلند ہے، اور اس میں ادب کا جمال بھی موجود ہے، اور ان دونوں کتابوں کی افادیت اور اہمیت ’غبار خاطر‘ سے کہیں زیادہ ہے۔لیکن مقبولیت زیادہ غبار خاطر کو حاصل ہوئی ۔ ’’حیاتی‘‘ میں بھی ادب کا جمال موجود ہے، لیکن جس طرح لیلائے شب کی زلف برہم میں دمکتے ہوئے ستاروں کا حسن دیکھنے کے لیے بینائی کی شرط ہے، اسی طرح عربی زبان کی کسی کتاب کے ادبی حسن سے آشنا ہونے کے لیے عربی زبان کا جاننا بھی ضروری ہے۔ ’’حیاتی‘‘ کی ادبی حیثیت بھی مسلم ہے، کتاب میں جو لطائف اور معانی ہیں اور جو افکارواقدار پیش کئے گئے ہیں وہ مستزاد ہیں ۔
احمد امین عربی کے بہترین نثرنگار، فن کار، سوانح نگار، معلم ومؤرخ، یونیورسٹی کے استاذ اور عربی ادب کے نقاد تھے۔ احمد امین بایں ہمہ قابلیت وعبقریت مجدد اور مصلح نہیں تھے، اور نہ انقلابی شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی مثال اس موسیقی کار کی طرح ہے جو کسی بستی میں آگ لگنے کے باوجود آگ بجھانے کی فکر نہ کرے اور بستی کے نزدیک درخت کے سایے میں بیٹھ کر بانسری بجاتا رہے، ان کے والد نے اسی انداز سے ان کی تربیت کی تھی، ان کے والد درسی کتابوں کی تدریس وتفہیم کے ماہر تھے لیکن اخبارات کے مطالعے سے اور سیاست سے گریزاں رہتے، گردوپیش میں کوئی بیماری پھیل جائے یا سیلاب آجائے یا زلزلہ آجائے وہ ان سب سے بے نیاز مطالعہ میںیا اپنے معمولات میں، یا گھریلو فرائض میں مشغول رہتے۔ احمد امین نے اسلامی تاریخ اور اس کے مدوجزر کا تفصیلی لیکن معروضی مطالعہ کیا تھا، اور ایک نہیں بلکہ متعدد کتابیں اس موضوع پر لکھیں، ان پر یہ مصرعہ صادق آتا ہے ’’داستان فصل گل خوش می سرائد عندلیب‘‘، ان کا مزاج خالص عقلی ، علمی اور فکری تھا۔ وہ سبک ساران ساحل کی طرح دور سے طوفاں کا نظارہ کرتے تھے، وہ جمال الدین افغانی کی طرح انقلاب بردوش شخصیت نہیں رکھتے تھے، اسی لیے مسلمانوں کے زوال اور یورپ کے عروج واقبال سے ان کا دل ویسا بے چین نہیں ہوتا تھا جیسا برصغیر میں علامہ اقبال کا یا مولانا مودودی کا ، یا مولانا ابوالحسن علی ندوی کا، یا مصر میں سید قطب شہید کا دل بے چین اور مضطرب رہتا تھا۔ اقبال کا سارا کلام، مودودی صاحب کی’’ تنقیحات‘‘وغیرہ مختلف تحریریں، اور علی میاں کی کتاب ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر‘‘اور سید قطب کی ’’جاہلیۃ القرن العشرین‘‘ ، یہ کتابیں ان حضرات کے اضطراب کی آئینہ دار ہیں، یہ اضطراب بڑی نعمت اور اللہ تعالی کا انعام ہے، اور ہر شخص کو میسر نہیں ہوتا، اسی لیے اقبال نے شکوہ کیا تھا ؂
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
احمد امین کے کئی اسفار کا اس خودنوشت میں تذکرہ ہے، اس میں ترکی کا سفرنامہ بھی ہے ، مصطفی کمال نے جو ترکی کا حلیہ بگاڑا تھا، اور اس کا قبلہ یوروپ کی طرف کردیا تھا، اس کا بس سرسری تذکرہ ہے، لیکن مصطفی کمال پر جو تاریخ اسلام کے بڑے مفسدین میں شمار کئے جانے کے لائق ہے، کوئی نقد اور کوئی تبصرہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بگاڑ احمد امین کے ٹھنڈے مزاج کو برہم نہیں کرسکا۔ ان کی طبیعت تالاب کے پانی کی ساکن سطح کی طرح ہے کہ جس میں کوئی تموج اور تلاطم نہیں ہے، ان کا مزاج ملی اور اجتماعی معاملات میں ان کے اپنے چوب قلم کی طرح خشک ہے اور یخ بستہ ہے، یہی وجہ ہے کہ احمد امین کی علمی منزلت کی وجہ سے مولانا علی میاں نے اپنی کتاب ’’ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین‘‘ پر مقدمہ کی فرمائش کی تو انہوں نے مقدمہ تو لکھا، لیکن کتاب کی حرارت اور مقدمہ کی برودت کے درمیان تضاد پایا گیا، اور لوگوں نے محسوس کیا کہ اس مقدمہ نے کتاب کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے،ا ور جب سید قطب نے کتاب پر اس کی روح کے مطابق طاقتور مقدمہ لکھا تو اس نقصان کی تلافی ہوئی اور پھر آئندہ ایڈیشن سے احمد امین کے مقدمہ کو ہٹادیا گیا۔ ان سب کے باوجود احمد امین کی علمی وادبی حیثیت مسلم ہے۔ اگرچہ طہ حسین کے حلقوں نے ان کی ادبی حیثیت کا اعتراف نہیں کیا ہے، اور طہ حسین کے شاگرد رشید شوقی ضیف نے مصر کے ادباء پر اپنی کتاب میں ان کا نام ہی غائب کردیا ، یہ حلقہ ان کو مؤرخ اور محقق تو سمجھتا ہے لیکن ادیب نہیں۔ اس حلقے کے لوگ ادب کو شعروافسانہ میں محصور سمجھتے ہیں، طہ حسین کے نزدیک حقیقی ادب بس یہی ہے، اس طرح کے نثری ادب کے لیے انہوں نے ’’الادب الانشائی‘‘کی تعبیر اختیار کی ہے، باقی تاریخ ادب اور نثر کے دیگر اصناف کو انہوں نے ’’الادب الوصفی‘‘ کہہ کرحقیقی ادب کے دائرے سے خارج کردیا ہے۔ اردو داں حلقے کے سمجھنے کے لیے اسے اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ طہ حسین کے نزدیک شبلی کی شاعری کو یا شعرالعجم کو ادب کے دائرے میں رکھا جاسکتا ہے لیکن سیرت النبی، الفاروق، اور سیرۃ النعمان جیسی کتابیں ان کے نزدیک ادب کے دائرے سے باہر ہوں گی۔ 
ضروری نہیں کہ طہ حسین کی بات صحیح مانی جائے لیکن جو بات مسلم ہے اور جس کا اعتراف کیا جانا چاہئے وہ یہ کہ ’الایام‘‘ کی ادبی حیثیت اپنی جگہ پر لیکن احمد امین کی خودنوشت ’’حیاتی‘‘ علمی وفکری اعتبار سے زیادہ معتبر ، مؤقر اور مفیدتر کتاب ہے۔ اس میں ادب کی چاشنی کے ساتھ فکروعقل کی غذا کا بھی پورا سامان ہے۔ اس کتاب کی زبان وبیان کے حسن کا اعتراف عباس محمود العقاد جیسی شخصیت نے کیا ہے۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ احمد امین ادیب سے زیادہ محقق اور مؤرخ تھے۔ ادیب اور شاعر بننے کے لیے جذباتیت ضروری ہے، جس کا تعلق دل سے ہے ، لیکن محقق بننے کے لیے منطقیت اور سرگرم جستجو ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے عقلیت لازمی ہے جو احمد امین کے یہاں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ 
احمد امین وہ سب کچھ بنے جو قدرت نے انہیں بنانا چاہا، انسان کی شخصیت کی تشکیل میں غیبی ہاتھ کام کرتے ہیں، اور انسان کو ادھر لے جایا جاتا ہے جدھر قدرت اسے لے جانا چاہتی ہے، اور قدرت انسان کو کدھر لے جانا چاہتی ہے کوئی بھی انسان چاہے پیغمبر ہی کیوں نہ ہو اس وقت تک نہیں سمجھ سکتا ہے جب تک کہ وہاں پہنچ نہیں جاتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے لیے تقدیر الہی کا فیصلہ تھا کہ مصر کے تاج وتخت کا ان کو وارث بنایا جائے، انہیں کنویں میں اسی لیے ڈالا گیا کہ مصر جانے والے مسافر انہیں کنویں سے نکال کر مصر لے جائیں اور پھر مصر کے بازار میں انہیں غلام بناکر اسی لیے فروخت کیا گیا کہ وہ اس بازار سے عزیز مصر کے گھر پہنچ جائیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے کہ ’’ بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز ۔فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ‘‘۔ شاطر قدرت نے ان کے لیے جو طے کیا تھا وہ ان کو ملا، یہ دنیا عالم اسباب ہے، منزل تک پہنچنے کے لیے انہوں نے طویل سفر کیا، نہ تھکن کا احساس کیا، نہ انہوں نے پاؤں کے چھالے دیکھے، انہیں معلوم تھا کہ زندگی لہو ترنگ ہے جلترنگ نہیں ہے۔ انہوں نے ہمت اور مسلسل عمل سے ساحل مراد تک پہنچنے کی کوشش کی، انہوں نے ریگزار کو چمن اور بنجر زمین کو گل وگلزار بنایا، کتابیں ان کے لیے دن کی رفیق حیات اور رات کی رانیاں تھیں، انہوں نے علمی اور ادبی کاموں میں بے انتہا محنت کی، مسلسل اور بلا انقطاع پڑھنے اور لکھنے کی عادت نے علم ودانش کی دنیا میں ان کی شناخت قائم کردی، صاحبانِ نقد ونظر کی نگاہیں ان پر پڑنے لگیں، پہلے جج بنے، پھر لکچرر بنے اور پھر پروفیسر اور پھر پرنسپل اور پھر شعبہ تصنیف وتالیف کے ڈائرکٹر بنے، اعزازات سے نوازے گئے، دوسرے ملکوں کی علمی کانفرنسوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی، علم وادب کی دنیا میں انہوں نے اپنے مستقبل کو درخشاں بنایا، اور جریدۂ عالم پر انہوں نے نام اور دوام دونوں کو ثبت کردیا۔ عربی زبان وادب اور اسلامیات سے شغف رکھنے والے صرف ’’حیاتی‘‘ کو نہیں بلکہ ’’زعماء الاصلاح‘‘، ’’فجرالاسلام‘‘، ’’ضحی الاسلام‘‘ اور ’’النقد الادبی‘‘ وغیرہ کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے، اور ان کی کتابیں گردش شام وسحر کے درمیان زندہ اور تابندہ رہیں گی۔ 

سوانحی ادب کا مطالعہ دوسروں کے قیمتی تجربات سے مفت فائدہ اٹھانے کے مرادف ہے، اگر مطالعہ کی عادت ہو تو انسان مشاہدے سے زیادہ مطالعے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، انسانی زندگی پر ایک طرف قانون وراثت اپنا کام کرتا ہے، دوسری طرف حالات زندگی کا اس پر عکس پڑتا ہے۔ جب ایک انسان عظیم شخصیتوں کے تجربات اور تاریخ ساز، بلند قامت انسانوں کے حالات پڑھتا ہے تو یہ مطالعہ گزرگاہ حیات میں اس کے لیے قندیل کا کام کرتا ہے، اور وہ ان سے اکتساب نور کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کتاب کے مطالعے سے ایک قاری کو یہ سبق ملے گا کہ بچوں کی تربیت کس درجہ اہتمام کے ساتھ کرنا چاہئے اور ان کے اندر علم وادب کی تخم ریزی کس طرح کرنی چاہئے، اور خود اپنی زندگی کو اولاد کے لیے کس طرح نمونہ بنانا چاہئے، حیا اور سنجیدگی اور غم کی زیریں لہر شخصیت کی تشکیل میں کس قدر مفید ہوتی ہے، دینی ماحول اور قرآن کی تلاوت سے گھر کا ماحول کس قدر نورانی بنتا ہے۔ کتاب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معیار زندگی کے ریس وہ لوگ کرتے ہیں جو ناہنجار اور ساقط الاعتبار ہوتے ہیں، مسابقت کا جذبہ معیار زندگی کے لیے نہیں معیار بندگی کے لیے ہونا چاہئے، تعلیم وتدریس کو ایک بوجھ بنانے کے بجائے طلبہ کے لیے مرغوب شربت کا گلاس بناکر پیش کرنا چاہئے، گندگی اور غلاظت گھر کے اندر ہو یا باہر ہواس سے وہ ذوق جمال مردہ ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی نعمت ہے اور اس نعمت کی حفاظت ضروری ہے، ورنہ مزاج میں بدسلیقگی پیدا ہوجاتی ہے، ذوق جمال کی تربیت کے لیے پھولوں کے حسن اور مناظر قدرت سے رغبت پیدا کی جانی چاہئے، صالح انسان کی صحبت انسان کو صالح بناتی ہے، زندگی اور زبان دونوں میں شگفتگی لانے کے لیے ادبی وشعری ذوق ضروری ہے، کسی بھی کام میں محنت، صبر اور تحمل کامیابی کا زینہ ہے۔ اس طرح کے بے شمار لعل وگہر اور حکمت کے موتی ورق ورق پر چمکتے نظر آئیں گے۔ مصنف نے یہ کتاب کیا لکھی ہے گویا موتی رولنے اور آب حیات گھولنے کا کام کیا ہے۔ ان کی کتاب اس خوبصورت قبا کے مانند ہے جس پر گل بوٹے سجائے گئے ہوں۔

Tuesday 17 March 2015

Naee Naslon ke Zehnon mein Gardish karte Hassas Sawalat


یہ خیرخواہی نہیں، قتل ہے

یہ خیرخواہی نہیں، قتل ہے


از: مفتی محمد فیاض قاسمی

رہوا،رامپور،وارث نگر،سمستی پور


ڈاکٹروں کی تحقیق اور علمی حلقوں میں یہ بات زیر بحث چلتی چلی آرہی ہے کہ اگر کوئی شخص پیدائشی طور پر لاعلاج بیماری میں مبتلاہے یا عمر کے کسی بھی اسٹیج پر وہ مہلک مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کی حالت ایک زندہ نعش کی ہوجاتی ہے کہ وہ خود سے اپنی کوئی بھی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ سارا کام اس کے قریبی رشتہ داروں کی مدد سے انجام پاتا ہے۔ تکلیف بھی اتنی شدید کہ مریض ہروقت آہ وبکا کرتا رہتا ہے۔ اسے موت آتی ہے اور نہ ہی شفا نصیب ہوتی ہے۔ اس کی تکلیف اس کے رشتہ داروں سے دیکھی نہیں جاتی اور اس کی وجہ سے اس کے احباب ہر وقت پریشان رہتے ہیں۔ بعض مریضوں کو تو مرض کی شدت کم کرنے کے لیے دواوٴں اور دیگر جدید مشینوں کی مدد سے مستقل طور پر بے ہوشی میں رکھا جاتا ہے؛ تاکہ اس کی تکلیف میں مزید اضافہ نہ ہو۔ اس طرح کی صورت حال میں مریض یا اس کے رشتہ دار یہ چاہتے ہیں کہ ایسے میں مریض کا زندہ رہنا نہ رہنے کے برابر ہے، تو پھر کیوں نہ اسے مناسب تدابیر کے ذریعہ موت کے آغوش میں پہنچا دیا جائے؛ تاکہ جہاں مریض کو ناقابلِ برداشت تکالیف سے نجات مل جائے گی وہیں، اس کے رشتہ داروں کوبھی پریشانیوں سے چھٹکارا مل جائے گا، جو مریض کی دیکھ بھال اور اس کی خدمت کی وجہ سے ہوا کرتی ہے۔ اسی عمل کو موت بجذبہٴ شفقت یعنی یوتھینزیا (Euthanasia) کہا جاتا ہے، تھوڑی سی تمہید وتعارف کے بعد اس کی شرعی حیثیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
اللہ پاک نے اپنی تمام تر مخلوقات میں سب سے افضل انسان کو بنایا اور اسے اکرام سے بھی نوازا،”وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنیِ اٰدَمَ“۔ انسان کی خلقت اور تکریم کے ساتھ ساتھ اللہ نے مقصد کی تعیین بھی کردی کہ انسان اور جنات کی تخلیق ہم نے اپنی عبادت کے لیے کی ہے، فرمایا ”وَمَاخَلَقْتُ الجِنَّ والاِنسَ اِلاّلِیَعْبدُونِ“۔
تحسین خلقت، تعیین مقصد اور تکریم اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان کا پاس ولحاظ ہمہ وقت رکھا جائے، تبھی بندگی بندگی کہلائے گی۔ اگر اس کے خلاف کوئی ایسی راہ اختیار کی جائے جس میں مذکورہ امور کی پامالی ہو، تو پھر گویا خالق کی خلقت میں تصرف کرنا ہے، جوکہ سراسر ظلم ہے۔
یوتھینزیا یعنی مہلک اور تکلیف دہ مرض کو جھیل رہے مریض پر رحم کرتے ہوئے اسے مصیبت سے نجات دلانے کے لیے موت کی نیند سُلادینا دونوعیت کا ہوسکتا ہے: عملی اور غیر عملی۔
(۱) پہلی صورت عملی: جس میں مریض کو کسی دوا وغیرہ کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دینا ہے۔ اس کی حیثیت اسلا م میں قتل کی ہے اور شریعت مطہرہ اس کی اجات نہیں دیتی۔ اللہ پاک نے فرمایا: ”لا تَقْتُلُوْ ا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ“ (سورہ انعام آیت ۱۵۱) یعنی کسی بھی جان کو ناحق قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ حدیث پاک میں وضاحت ہے کہ قتل کا جواز صرف تین وجوہ سے ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ قتل کرنا حرام ہے۔ ”لایَحِلُّ دَمُ اِمرِیٴٍ مسلمٍ اِلّا بِاِحْدَیٰ ثَلاثٍ، کُفْرٌ بَعدَ الایمانِ، وَزِناً بعدَ اْلاحصانِ، قتلُ نفسٍ بغیرِ حقٍ“ (تفسیرکبیر ج۱۳، ۱۴/ ص۲۳۳) یعنی کسی کا خون حلال ہے صرف اس وجہ سے کہ وہ اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا ہو؛شادی شدہ تھا پھر زنا کیا ہو؛ یا کسی نے ناحق کسی کو قتل کردیا ہو۔ صرف ان ہی تینوں صورتوں میں اس طرح کے مجرم کو قتل کرنا جائز ہے۔ ان کے علاوہ کسی کی جان لینے کے جو بھی حربے اختیار کیے جائیں، وہ ناحق اور ناجائز ہوں گے۔
نیز انسان کو اللہ پاک نے پید اکیا ہے؛ لہٰذا انسان اللہ کے ہاتھ کی تعمیر شدہ عمارت ہے اور اللہ کی عمارت گرانے اور ڈھانے والا ملعون ہے۔”اَلاٰدمِیُ بُنیانُ الرَّبِ مَلعونٌ مَن ھَدَمَ بنیانَ الربِ“ الحدیث (تفسیرکبیر ج۱۹،۲۰ ص۲۰۰)۔ یعنی خالق کی خلقت میں تصرف کرنا لعنت کا باعث ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ اسی طرح بندہ پر اللہ کا حق ہے اور وہ حق یہ ہے کہ بندہ اس کی عبادت کرے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ ”قال علیہ السلام: حَقُّ اللّٰہِ عَلیَ العِبادِ اَنْ یَعْبُدُوْہُ وَلا یُشرِکُوْا بِہ شَیئًا“ (تفسیرکبیرج۱۹،۲۰ ص۲۰۰) اب اگر کسی کو ناحق موت تک پہنچا دیا جائے تو گویا اس نے اللہ کا حق جو اس بندے پر تھا، اس کو چھین لیا اور اس کی عبادت سے اسے محروم رکھا۔ مریض اگرچہ حالت مرض میں ہے تب بھی وہ اللہ کے حق (عبادت) کو کسی نہ کسی حیثیت سے پورا کررہا ہے؛ لہٰذا اس کو موت آنے سے پہلے عملی طور پر موت کی نیند سلا دینا اللہ کے حق کی حق تلفی ہوگی۔
فتاوی شرعیہ میں ایک سوال ہے: ”کیا ایسا مریض جو اپنی زندگی سے مایوس ہوگیا ہو تو اس کو عملی طریقہ سے موت تک پہنچانا جائز ہے“؟ اس کے جواب میں لکھا ہے کہ کسی بھی ذریعہ سے مریض کو قتل کرنا حرام قطعی ہے اور ایسا کرنے والا قاتل اور جو شخص ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے یا اس پر آمادہ کرتاہے وہ بھی اس گنا ہ عظیم میں شریک ہوگا۔ (الفتاوی الشرعیہ، ج۴ص ۴۵۱ باب التداوی)
مریض گرچہ طویل عرصہ سے مرض کو جھیل رہا ہے جو اس کے لیے سخت تکلیف کا باعث ہے؛ لیکن ایسی حالت میں زندہ رہنا بھی اس کے لیے فائدہ سے خالی نہیں ہے؛ کیوں کہ مسلمان کو جب بھی کوئی تکلیف، غم، مصیبت اور اذیت پہنچتی ہے حتی کہ اگر اسے کانٹا بھی چبھ جاتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ پاک اس کے گناہوں کو معاف کردیتے ہیں۔ گویا بیماری میں مبتلا ہونا بھی مغفرت الہی کا ذریعہ ہے، لہٰذا مریض کی مغفرت کی راہ مسدود نہ کی جائے۔ ”عَن اَبِی سَعِیدٍ عَنِ النبیِ صلی اللّٰہِ علیہ وسلم قال مَا یُصِیبُ المسلمَ مِن نَصبٍ ولا وَصَبٍ وَلاَھَمٍّ ولا حُزْنٍ ولا اَذیً وَلا غَمٍّ حَتٰی الشَوکَةَ یُشاکُھا اِلّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِھا مِنْ خَطَایَاہُ“ متفق علیہ (مشکوةج۱، ص۱۳۴) ایک دوسری روایت میں ہے”مامِن مُسلمٍ یُصِیْبُہ اَذی مِنْ مَرضٍ فَما سِواہُ اِلّا حَطَّ اللّٰہُ بِہ سَیِّئاتِہ کَما تُحُطُ الشَجرةُ وَرَقَھا (مشکوة۱۳۴)
نیز فقہاء کے اصول سے بھی ایسے عمل کی اجازت نہیں ملتی ہے۔ ”اِذا تَعارضَ دلیلُ تَحریمِ القَتلِ ودلیلُ اِباحَتِہ فَقَدْ اَجمَعُوا علٰی اَنّ جانِبَ الحُرمةِ راجحٌ“ یعنی جب کسی کے قتل کے حرام اور حلال ہونے کی دلیل متعارض ہوجائے تو ایسی صورت میں جانبِ حرمت کو ترجیح ہوگی۔ یہ ٹھیک ہے کہ یوتھینزیا کے مریض کو اس کی گرانبار زندگی سے اور اس کے اعزا واقربا کو اس کی طویل پریشانیوں سے نجات دلانے کے لیے ایسے مریض کو موت تک پہنچادینا مناسب اور مباح معلوم ہوتا ہے؛ لیکن اسبابِ قتل میں سے کسی سبب کے نہ پائے جانے کی وجہ سے قتل کی حرمت بھی معلوم ہوتی ہے، لہٰذا ایسے تعارض کے وقت حرمت کی دلیل کو راجح قرار دے کر حرمت کا حکم لگایا جائے گااور اسے موت تک پہنچادینے والے اسباب کے اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
(۲) دوسری صورت (غیرعملی): جس میں مریض کو موت تک پہنچانے کے لیے اس کے مرض کے علاج کو ترک کردیا جائے؛ تاکہ وہ خود ہی مرجائے؛ یہ حربہ بھی جائز نہیں۔ اللہ پاک نے جب بیماری پیدا کی ہے تو اس کے علاج کی صورتیں بھی پیدا فرمائی ہیں۔ ہر مرض کا علاج موجود ہے۔ ضرورت ہے تلاش اور صحیح تشخیص کی۔”عَن اَبِی الدَّرْداءِ قال، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اِنَّ اللّٰہ اَنزلَ الدَاءَ والدَواءَ، جَعلَ لِکُلِ داءٍ دواءً فَتَدَاوَوْا، ولاتَدَاوَوْا بِحرامٍ“ (رواہ ابوداوٴد، شرح الطیبی ج۹/ص ۲۹۶۳)
یعنی یہ گمان رکھنا کہ فلاں بیماری جو مریض کو لاحق ہے، اس کا علاج ممکن نہیں اور اس کے لیے کوئی دوا یا شفاکی چیز تیار نہیں کی گئی، یہ خیال فاسد ہے اور حدیث کے خلاف ہے۔ شریعت مطہرہ اس کے پیش نظر علاج کرانے کی ترغیب دیتی ہے۔ فقہا ومحدثین نے علاج کرانے کو مستحب قرار دیا ہے؛ کیوں کہ خود آپ … نے علاج کرایا ہے۔ ایک مرتبہ آپ … سے لوگوں نے دریافت کیا:یا رسولَ اللہ! کیا ہم علاج نہ کرائیں؟ تو آپ … نے فرمایا؛ کیوں نہیں، اللہ کے بندو! علاج کراوٴ؛ کیوں کہ اللہ پاک نے کوئی بیماری ایسی نہیں پیدا کی جس کے لیے شفانہ ہو۔ یعنی ہر مرض کی دوا موجود ہے۔ ”عن اُسامةَ بنِ شریکٍ قال، قالوا: یا رسول اللّٰہ، اَفَنَتَدَاوٰی؟ قال نَعَمْ، یاعَبدَاللّٰہِ تَداوَوا، فاِن اللّٰہ لَمْ یَضعْ داءً اِلاّ وَضعَ لہ شِفاءً، غَیرَ داءٍ واحدٍ، اَلھَرمِ۔ رواہ احمد والترمذی وابودواوٴد (شرح الطیبی ج۹/۲۹۶۲)
یہ حقیقت ہے کہ دوا فی نفسہ شافی نہیں؛ بلکہ شفا دینے والا خالق حقیقی اللہ ہے؛ لیکن دنیا دارالاسباب ہے؛ اس لیے اسباب اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی توکل کے پیش نظر علاج کرانا ترک کردیتا ہے تویہ بھی جاننا چاہیے کہ توکل کے کئی درجات ہیں، ان میں کون سا توکل معتبر ہوگا۔ لہٰذا اگر کوئی توکل کرکے زہر پی لے یا پہاڑ سے کودجائے یا ٹرین کے نیچے آجائے تو ایسا توکل نص قطعی کے خلاف ہوگا۔ اللہ نے فرمایا: لاتُلقُوا بِاَیْدِیکم اِلی التَھْلُکَةِ۔
نیز ضررکو زائل کرنے والے اسباب کی تین قسمیں ہیں: یقینی، ظنی، وہمی۔ کوئی مرض ایسا لاحق ہوجائے کہ ترک علاج کی وجہ سے اس مریض کا ہلاک ہونا یقینی ہو، تو ایسی صورت میں توکل کی وجہ سے یا روپے پیسے خرچ ہونے کے خوف سے یا اقربا کی پریشانی کے باعث مریض کے علاج کو چھوڑ دینا جو موت تک پہنچانے والا ہو، جائز نہیں۔ ”اِن الاَسْبابَ المُزِیلةَ لِلضَررِ تَنقَسمُ الی مقطوعٍ بِہ کالماءِ المُزیلِ لِضَررِالعطشِ والخُبزِ المزیلِ لضرر الجُوعِ ․․․․الخ اَما المَقطوعُ بِہ فَلَیسَ تَرْکُہ مِنَ التَوَکُّلِ بَلْ تَرکُہ حَرامٌ عِندَ خَوفِ المَوتِ (اوجزالمسالک ج۶/ص ۳۱۱)
گو علاج کرانا واجب نہیں؛ لیکن مریض کو یوں ہی بلا علاج کے یا علاج موقوف کرکے چھوڑ دینا کہ وہ موت کے منہ میں چلا جائے، یہ بھی تو انسانی حمیت اور تکریم کے خلاف ہے۔ ایسی صورت میں انسان ایک بے قیمت سامان کی مانند ہوجائے گا اور اس کی کوئی اہمیت، کوئی مقام اور قدر باقی نہیں رہے گا، جوکہ اللہ کی مشیت اور تخلیق کے منافی ہے۔ ہرکسی کی جان سستی ہوجائے گی۔ وہ سمجھے گا کہ اسے مرنا ہی ہے اور مرنے دیا جائے؛ غرض ایسا عمل رسول اللہ … کی تعلیم (عیادت) اور اسلام کی روح مسخ کرنے کے مترادف ہوگا؛ کیوں کہ اسلا م نے ہمیں ہمدردی، غمگساری، اخوت ومحبت اور ”مَنْ کَانَ فِی حَاجةِ اَخِیہِ کان اللّٰہُ فی حاجتِہ وَمَن فَرجَ عَن مسلمٍ کُربةً فرج اللّٰہ عنہ کربةً مِن کُرَبٍ یَومَ القِیامةِ“ کا درس دیاہے۔ لہٰذا ایسے خلاف شرع مقاصد کے لیے ترک معالجہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت تاجر

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت تاجر


از: مفتی محمد راشد ڈسکوی

 رفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف واستاذ جامعہ فاروقیہ کراچی


کائنات میں بسنے والے ہر ہر فرد کی کامل رہبری کے لیے اللہ رب العزت کی طرف سے رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا، سب سے آخر میں بھیج کر، قیامت تک کے لیے آنجناب کے سر پر تمام جہانوں کی سرداری ونبوت کا تاج رکھ کر اعلان کر دیا گیاکہ اے دنیا بھر میں بسنے والے انسانو! اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر اور پُرسکون بنانا چاہتے ہو تو تمہارے لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلمکی مبارک ہستی میں بہترین نمونہ موجود ہے(الاحزاب:۲۱) ان سے رہنمائی حاصل کرو اور دنیا وآخرت کی ابدی خوشیوں اور نعمتوں کو اپنا مقدر بناوٴ، گویا کہ اس اعلان میں دنیا میں بسنے والے ہر ہر انسان کو دعوت ِعام دی گئی ہے کہ جہاں ہو، جس شعبے میں ہو، جس قسم کی رہنمائی چاہتے ہو، جس وقت چاہتے ہو، تمہیں مایوسی نہ ہو گی، تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز سے متعلق مکمل رہنمائی ملے گی، شرط یہ ہے کہ تم میں طلبِ صادق ہو، چنانچہ! تاجر ہو یا کاشتکار،شریک ہو یا مضارب، مزدور ہو یا کوئی بھی محنت کَش، ماں ہو یا باپ، بیٹا ہو یا بیٹی، میاں ہو یا بیوی، مسافر ہو یا مقیم، صحت مند ہو یا مریض، شہری ہو یا دیہاتی، پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ؛ اگر وہ چاہے کہ میرے لیے میرے شعبے میں رہنمائی ملے، تو اس کے لیے جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ہستی میں نمونہ موجود ہے، مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے سامنے جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کھڑا کیا ہے کہ میرے اس محبوب کو دیکھو، تمہیں ہر چیز ملے گی، اپنے سے متعلق روشنی حاصل کرو اور اس پر عمل پیرا ہو کر اللہ کے محبوب بن جاوٴ، تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تشریح میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”ھٰذہ الآیة الکریمة أصلٌ کبیرٌ في التأسّي برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في أقوالہ، وأفعالہ، وأحوالہ“ (تفسیر ابن کثیر، سورة الأحزاب:۳۱، ۶/۳۹۱)
کہ یہ آیت کریمہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کی اتباع کرنے میں بہت بڑی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
      یہی وجہ ہے کہ علماء امت نے امتِ محمدیہ کی آسانی اور سہولت کی خاطر جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے ہر ہر پہلو کو پوری طرح واضح کرنے کے لیے خوب سے خوب محنت کی، بے شمار کتب تصنیف کیں؛ تا کہ کوئی بھی شخص اپنے شعبے سے متعلق جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کو دیکھنا چاہے تو اسے بغیر دقّت کے آپ علیہ الصلاة والسلام کی تعلیمات معلوم ہو سکیں، جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر حق بھی ہے، اور محبت کا تقاضا بھی، اور یہ بات بھی پوری طرح واضح رہنی چاہیے کہ یہ حق اور تقاضا صرف ماہِ ربیع الاول کے پہلے بارہ دن یاپورے مہینے کے لیے ہی نہیں؛ بلکہ پوری زندگی اور زندگی کے ہر ہر لمحے کے لیے ہے۔
      ان سطور سے مقصود نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ طیبہ کو سمیٹنا نہیں ہے؛ بلکہ صرف آپ علیہ الصلاة والسلام کی سیرتِ طیبہ سے تجارت کے پہلو کو واضح کرنا مقصود ہے،آپ علیہ الصلاة والسلام نے تجارت کا پیشہ اپنایا اور رزقِ حلال سے اپنی زندگی کا رشتہ اُستوار رکھا، نبوت کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ کے دو حصے ہیں، ایک: نبوت ملنے سے قبل کا اوردوسرا: نبوت ملنے کے بعد کا، اول الذکر کا دورانیہ چالیس سال ہے اور ثانی الذکر کادورانیہ تیئس سال، اس دوسرے حصے کے پھر دو حصے ہیں، ایک: مکی دور اور دوسرا: مدنی دور۔
نبوت سے قبل کی معاشی کیفیت
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوت سے پہلے والا دور مالی اور معاشی اعتبار سے کوئی خوش الحال دور نہیں تھا؛ لیکن اس کے برعکس یہ کہنا بھی درست نہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی زیادہ مفلوک الحال زندگی بسرکر رہے تھے؛ البتہ یہ ضرور تھا کہ آنجناب بچپن سے ہی محنت ومشقت کر کے اپنی مدد آپ ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔
والد کی طرف سے ملنے والی میراث
 جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تو آپ کے سرسے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، ان کی طرف سے بطورِ میراث بھی کوئی جائیداد آپ کی طرف منتقل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ کتب ِ سیرت میں اس کی تفصیل میں صرف یہ منقول ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو میراث میں صرف پانچ اونٹ، چند بکریاں اور ایک باندی ملی، جس کا نام ”ام ایمن“ تھا، (اس باندی کو بھی جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت یعنی: پچیس سال کی عمر میں آزاد کر دیا تھا) اس کے علاوہ مزید کوئی چیز میراث میں نہ ملی تھی، ملاحظہ ہو:
”ترک عبدُ اللّٰہ بنُ عبدِ المطلب أمَ أیمنَ وخمسةَ أحمالِ أوارکَ، یعني: تأکل الأراک، وقطعة غنم، فورث ذٰلک رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم “ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ذکر وفات عبد اللہ بن عبد المطلب: ۱/۸۰)
      میراث میں ملنے والی اشیاء اس قابل نہ تھیں کہ آپ کی کفالت کے لیے کافی ہو جاتی، یہی وجہ تھی کہ دیہاتی علاقوں سے آکر جو عورتیں بچوں کو پرورش اور تربیت کے لیے لے جایا کرتی تھیں، آپ علیہ الصلاة والسلام کی طرف ان میں سے کسی کا بھی رجحان آپ کی طرف نہیں ہوا کہ یہ تو یتیم اور غریب بچہ ہے،اس کی پرورش کرنے پر ہمیں اس کی والدہ کی طرف سے کچھ خاص معاوضہ نہ مل سکے گا، اور حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے جو آپ علیہ الصلاة والسلام کا انتخاب کیا تھا، وہ بھی ابتداء نہیں کیا تھا؛ بلکہ جب ان کے لیے کوئی اور بچہ نہ بچا ، تو پھر ان کو خیال آیا چلو خالی ہاتھ واپس جانے کے بجائے اس یتیم بچے کو ہی لے جانا چاہیے۔
دادا اور چچا کی کفالت میں
      ان ابتدائی دو سالوں میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ کے دادا عبد المطلب کرتے رہے، دو سال کے بعد آپ کے دادا بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے، دادا کے انتقال کے بعد آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمہ لے لی، ابو طالب آپ کے حقیقی چچا تھے، جو بہت ہی ذوق وشوق اور محبت سے آپ کی پرورش کرتے رہے اور آپ کی ضروریات پوری کرنے کی اپنی مقدور بھر سعی کرتے رہے؛ چنانچہ ! آپ کے چچا جب تجارت کی غرض سے دوسرے شہروں میں جاتے تو اپنے بھتیجے کو بھی ہمراہ لے جاتے۔
بکریاں چرانا
مکہ مکرمہ میں حصولِ معاش کے لیے عام طور پر گلہ بانی اور تجارت عام تھی؛ چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ کی ابتداء میں ہی اپنے معاش کے بارے میں از خود فکر کی، ابتداء ً اہلِ مکہ کی بکریاں اجرت پر چراتے تھے، بعد میں تجارت کا پیشہ بھی اختیار کیا، اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں تھی؛ بلکہ یہ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور تواضع کی کھلی دلیل ہے؛ اس لیے کہ بکریاں چرانے والے شخص میں جفاکشی، تحمل وبردباری اور نرم دلی پیدا ہو جاتی ہے؛ اس لیے کہ بکریاں چرانا معمولی کام نہیں ہے؛ بلکہ بہت ہی زیادہ ہوشیاری اور بیدار مغزی والا کام ہے؛ اس لیے کہ بکریاں بہت کمزور مخلوق ہوتی ہیں، تیز اور پھرتیلی ہوتی ہیں، انھیں قابو میں رکھنے کے لیے بھی خوب پھرتی کی ضرورت ہوتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس جانور کے قابو سے باہر ہونے کی صورت میں ان پر غصہ اتارنا بھی ممکن نہیں، یعنی: غصہ کی وجہ سے مار بھی نہیں سکتے؛ کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں، اس بنا پر بکریاں چرانے والوں میں کافی تحمل پیدا ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے بکریاں چرائی ہیں، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ما بعث اللہ نبیاً إلّا رعیٰ الغنمَ، فقال أصحابُہ: وأنتَ؟ فقال: نعم! کنتُ أرعاھا علیٰ قَراریط لأھلِ مکةَ (صحیح البخاري، کتاب الإجارات، باب رعی الغنم علی قراریط، رقم الحدیث: ۲۲۶۲)
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے جو بھی نبی بھیجا، اس نے بکریاں ضرور چرائیں، صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ نے بھی ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ہاں! میں بھی مکہ والوں کی بکریاں قراریط پر چراتا تھا۔
”قراریط“ سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے ، بعض کا قول یہ ہے کہ یہ درہم یا دینار کے ایک ٹکڑے کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ بنے گا کہ کچھ قراریط کے عوض بکریاں چرائیں، اور بعض کا قول ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کے ایک محلہ ”جیاد“کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ مقام قراریط میں بکریاں چرائیں، علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ یہ ایک جگہ کا نام ہے۔(التوضیح لشرح الجامع الصحیح ، کتاب الإجارات، باب رعی الغنم، رقم الحدیث: ۲۲۶۲، ۱۵/ ۳۵، ۳۶)
اسی طرح ایک بار نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ جنگل تشریف لے گئے، صحابہ بیریاں توڑ توڑ کر کھانے لگے، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو خوب سیاہ ہوں وہ کھاوٴ، وہ زیادہ مزے کی ہوتی ہیں، یہ میرا اس زمانے کاتجربہ ہے، جب میں بچپن میں یہاں بکریاں چرایا کرتا تھا۔ (صحیح ابن حبان، کتاب الإجارة، ذکر العلة التي من أجلھا قال صلی اللہ علیہ وسلم للکباث الأسود: إنہ أطیب من غیرہ، رقم الحدیث: ۵۱۴۴، ۱۱/۵۴۴)
ملک ِ شام کی طرف پہلا سفر  
      نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی طرف دو سفر کیے، پہلا: اپنے چچا کے ہمراہ؛ لیکن اس سفر میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بطورِ تاجر شریک نہ تھے؛بلکہ محض تجارتی تجربات حاصل کرنے کے لیے آپ کے چچا نے آپ کو ساتھ لیا تھا، اسی سفر میں بحیرا راہب والا مشہور قصہ پیش آیا، جس کے کہنے پر آپ کے چچا نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو حفاظت کی خاطر مکہ واپس بھیج دیا۔ (الطبقات الکبریٰ، ذکر أبي طالب وضمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلیہ، وخروجہ معہ إلی الشام في المرة الأولی: ۱/۹۹)
ملکِ شام کی طرف دوسرا سفر
اور دوسرا سفر: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تاجر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامان لے کر اجرت پر کیا۔قصہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پچیس برس کے ہوگئے تو آپ کے چچا ابو طالب نے کہا کہ اے بھتیجے! میں ایسا شخص ہوں کہ میرے پاس مال نہیں ہے، زمانہ کی سختیاں ہم پر بڑھتی جا رہی ہیں، تمہاری قوم کا شام کی طرف سفر کرنے کا وقت قریب ہے، خدیجہ بنت خویلد اپنا تجارتی سامان دوسروں کو دے کر بھیجا کرتی ہے، تم بھی اجرت پر اس کا سامان لے جاوٴ، اس سے تمہیں معقول معاوضہ مل جائے گا، یہ گفتگو حضرت خدیجہ کو معلوم ہوئی تو اس نے خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیج کر بلوایا کہ جتنا معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں، آپ کو اس سے دوگنا دوں گی، اس پر ابو طالب نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے تمہاری جانب کھینچ کر بھیجا ہے، اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، آپ کے ہمراہ حضرت خدیجہ کا غلام ”میسرہ “بھی تھا، جب قافلہ شام کے شہر بصریٰ میں پہنچا تو وہاں نسطورا راہب نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم میں نبوت کی علامات پہچان کر آپ کے نبی آخر الزمان ہونے کی پیشین گوئی کی۔
دوسرا اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی سامان فروخت کر لیا تو ایک شخص سے کچھ بات چیت بڑھ گئی، اس نے کہا کہ لات وعزیٰ کی قسم اٹھاوٴ، تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مَا حَلَفْتُ بِھِمَا قَطُّ، وَإنّي لَأَمُرُّ فَأَعْرِضُ عَنْھُمَا“․میں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی، میں تو ان کے پاس سے گذرتے ہوئے ان سے منہ موڑلیتا ہوں۔اس شخص نے یہ بات سن کر کہا، حق بات تو وہی ہے، جو تم نے کہی، پھر اس شخص نے میسرہ سے مخاطب ہو کر کہا: ”ھٰذا وَاللّٰہِ نَبِيٌ، تَجِدُہ أَحْبَارُنَا مَنْعُوْتاً فِيْ کُتُبِھِمْ“۔خدا کی قسم یہ تو وہی نبی ہے، جس کی صفات ہمارے علماء کتابوں میں لکھی ہوئی پاتے ہیں۔
تیسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ میسرہ نے دیکھا کہ جب تیز گرمی ہوتی تودو فرشتے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کر رہے ہوتے تھے، یہ سب کچھ دیکھ کر میسرہ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی زیادہ متاثر تھا، واپسی میں ظہر کے وقت جب واپس پہنچے تو حضرت خدیجہ نے اپنے بالاخانے میں بیٹھے بیٹھے دیکھا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر بیٹھے اس طرح تشریف لا رہے تھے کہ دو فرشتوں نے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا، حضرت خدیجہ اور ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی عورتوں نے یہ منظر دیکھ کر بہت تعجب کیا، اور پھر جب میسرہ کی زبانی سفر کے عجائب، نفعِ کثیر اور نسطورا راہب اور اس جھگڑا کرنے والے شخص کی باتیں سنیں تو بہت زیادہ متاثر ہوئیں، حضرت خدیجہ بہت زیادہ دور اندیش، مستقل مزاج، شریف، با عزت اور بہت مال دار عورت تھیں، انھوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام بھیج کر نکاح کر لیا، اس وقت نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔ (ملخّص من الطبقات الکبریٰ، ذکر خروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی الشام في المرة الثانیة، ذکر تزویج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجة بنت خویلد: ۱/۱۰۷-۱۰۹)
یمن کی طرف دو سفر
جو تجارتی اسفار نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی وجہ سے کیے، ان میں دو سفر یمن کی طرف بھی تھے، امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں نقل کیا ہے:
”استأجرتْ خدیجةُ رضوانُ اللّٰہ علیھا رسولَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم سفرتین إلیٰ جُرَشَ، کل سفرةٍ بقَلوصٍ“ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابة، ومنھم خدیجة بنت خویلد، رقم الحدیث: ۴۸۳۴، ۳/۲۰۰)
کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو جرش (یمن کے ایک مقام)کی طرف دو بار تجارت کے لیے اونٹنیوں کے عوض بھیجا۔
بحرین کی طرف سفر
نبوت سے قبل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بحرین کی طرف سفر کرنے کا بھی اشارہ ملتا ہے، وہ اس طرح کہ جس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرب کے تمام دور دراز مقامات سے وفود حاضر خدمت ہوتے رہے، انھیں وفود میں بحرین سے وفدِ عبد القیس بھی آیا، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ وفد سے بحرین کے ایک ایک مقام کا نام لے کر وہاں کے احوال دریافت فرمائے، تو لوگوں نے تعجب سے پوچھا، کہ اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم! آپ تو ہمارے ملک کے احوال ہم سے بھی زیادہ جانتے ہیں، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: کہ ہاں میں تمہارے ملک میں خوب گھوما ہوں۔(ملاحظہ فرمائیں: مسند أحمد بن حنبل، بقیة حدیث وفد عبد القیس، رقم الحدیث: ۱۵۵۵۹، ۲۴/۳۲۷)
تجارتی اسفار میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائلِ حمیدہ
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر مبارک کے پچیسویں سال تک تجارتی اسفار میں اپنے اخلاقِ کریمانہ، حسنِ معاملہ، راست بازی، صدق ودیانت کی وجہ سے اتنے زیادہ مشہور ہو چکے تھے کہ خلقِ خدا میں آپ ”صادق وامین “کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے، لوگ کُھلے اعتماد کے ساتھ آپ کے پاس بے دھڑک اپنی امانتیں رکھواتے تھے، انھیں خصائل کی بنا پر حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ عنہا کی رغبت نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوئی تھی اور پیغام ِ نکاح بھیج دیا تھا۔
لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرنا
تجارتی معاملات کی کامیابی کے لیے معاملات کی صفائی اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز اہم ترین کردار ادا کرتا ہے اور یہ صفات نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجہٴ اتم موجود تھیں؛ چنانچہ حضرت قیس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم زمانہٴ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم شرکاء میں سے بہترین شریک تھے، نہ لڑائی کرتے تھے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے۔ (الإصابة في تمییز الصحابة، القاف بعدھا الیاء، ۵/۴۷۱)
بحث وتکرار سے اجتناب
مسلمان تاجر کی صفات میں سے ایک صفت معاملات کے وقت شور شرابا اور آپس کی بے جا بحث وتکرار سے بچنا بھی ہے، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وصف عظیم کی گواہی زمانہٴ نبوت سے پہلے بھی دی جاتی تھی؛ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میری تعریف اور میرا تذکرہ کرنے لگے، تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہاری نسبت ان سے زائد واقف ہوں، میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ سچ فرماتے ہیں، آپ زمانہٴ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے، اور آپ کتنے بہترین شریک ہوتے تھے کہ نہ شور شرابا (بحث وتکرار) کرتے تھے اور نہ جھگڑا کرتے تھے۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الأدب، باب في کراھیة المراء، رقم الحدیث: ۴۸۳۸)
ایفائے وعدہ
وعدوں کی پاسداری تجّار کی بہت بڑی خوبی شمار ہوتی ہے، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر یہ وصف کیسا تھا؟ اس بارے میں ”حضرت عبد اللہ بن ابی حمسآء رجی اللہ عنہ “ سے روایت ہے کہ میں نے نبوت ملنے سے قبل آپ سے خرید وفروخت کا ایک معاملہ کیا، خریدی گئی شئے کی قیمت میں سے کچھ رقم میرے ذمہ باقی رہ گئی، تو میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا کہ میں کل اسی جگہ آ کر آپ کو بقیہ رقم ادا کر دوں گا، پھر میں بھول گیا، اور مجھے تین روز بعد یاد آیا، میں اس جگہ گیا، تو دیکھا کہ جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ تشریف فرما ہیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے نوجوان! تم نے مجھے اذیت پہنچائی، میں تین دن سے اسی جگہ پر تمہارا منتظر ہوں۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الأدب، باب في العدة، رقم الحدیث: ۴۹۹۸)
نبوت کے بعد معاشی صورتِ حال
جناب ِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت مل جانے کے بعد حصول معاش کے لیے کچھ کیا یا نہیں؟ اس بارے میں بالاتفاق قولِ فیصل یہ ہے کہ بعثت کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محنت اور توجہ صرف اور صرف احیائے دینِ متین کی طرف مبذول کر دی تھی، بعثت کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی قسم کی معاشی مشغولیت کا ثبوت نہیں ملتاہے؛ البتہ ! دین کے دیگر شعبوں کی طرف راہنمائی کی طرح اس شعبے کی بھی بہت واضح اور تفصیلی انداز میں راہنمائی کی، اس میدان سے کامیابی کے ساتھ گذرجانے والوں کو جہاں بہت بڑی بڑی بشارتیں سنائیں تو وہاں اس میدان کے چور، ڈاکووٴں اور خائنوں کو وعیدیں سنا سنا کر انھیں لوٹ آنے کی طرف بھی متوجہ کیا، نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کا جائزہ لیا جائے تو عبادت کے احکام اور معاملات کے احکام میں ایک اور تین کی نسبت نظر آئے گی، یعنی : عبادات سے متعلق احکام ایک ربع اور معاملات سے متعلق احکام تین ربع ملیں گے؛ چنانچہ کتبِ فقہ میں اہم ترین کتاب” ہدایہ “کو دیکھ لیا جائے کہ اس کی چار ضخیم جلدوں میں سے صرف ایک جلد عبادات کے بارے میں ہے اور تین جلدیں معاملات کے بارے میں ہیں، اسی سے شعبہٴ معاملات کی اہمیت کا اندازہ کر لیا جائے۔
ایک غلط ذہن کی اصلاح
موجودہ دور میں ایک طبقہ کم عقلی اور کم علمی کی وجہ سے یہ ذہن رکھتاہے کہ محنت کرنے اور کمانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ تو رزق دینے میں ہماری محنت کے محتاج نہیں ہیں، وہ ایسے بھی دینے پر قادر ہیں، لہٰذا ہمیں کچھ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہم تو اعمال کے ذریعے اللہ سے لیں گے، اسباب کے ذریعے نہیں۔
تو اس بارے میں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ایک ہے اسباب کا اختیار کرنا اور انھیں استعمال کرنا، اور ایک ہے ان اسباب کو دل میں اتارنا، اور ان پر یقین رکھنا؛ پہلی چیز کو اپنانا محمود اور مطلوب ہے اور دوسری چیز کو اپنانا مذموم ہے، ہماری محنت کا رُخ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان اسباب کی محبت اور یقین دل سے نکالیں اور اس کے برعکس یقین اللہ تعالیٰ پر رکھیں کہ ہماری ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے والی ذات؛ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، وہ چاہے تو اسباب کے ذریعے ہماری حاجات وضروریات پوری کر دے اور چاہے تو ان اسباب کے بغیر محض اپنی قدرت سے ہماری ضروریات وحاجات پوری کر دے، وہ اس پر پوری طرح قادر اور خود مختار ہے؛ البتہ ہم دنیا میں اسباب اختیار کرنے کے پابند ہیں؛ تاکہ بوقتِ حاجت وضرورت ہماری نگاہ وتوجہ غیر اللہ کی طرف نہ اٹھ جائے۔
اس بات میں تو کوئی شک وشبہ ہے ہی نہیں کہ اللہ رب العزت ہماری محنتوں کے محتاج نہیں ہیں؛ لیکن کیا شریعت کا مزاج اور منشا بھی یہی ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں، بالخصوص جب اس ترکِ اسباب کا نتیجہ یہ نکلتا ہو کہ بیوی، بچوں اور والدین کے حقوق تلف ہوتے ہیں اور یہ غیروں کے اموال کی طرف حرص وہوس کے ساتھ دیکھتا رہتا ہے، تو یاد رکھیں کہ اس طرح کے لوگوں کو شریعت اس طرزِ عمل کی تعلیم نہیں دیتی؛ بلکہ سیرتِ نبوی اور سیرتِ صحابہ تو حلال طریقے سے کسب ِ معاش کی تعلیم دیتی ہے، ایسے بے شمار واقعات ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے کہ کماکر کھاوٴ، دوسرے کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاوٴ، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تونگری کی وجہ سے آج کے دور میں ہمارا دین وایمان محفوظ رہے گا، ورنہ اندیشہ ہے کہ اختیاری فقر وفاقہ کہیں کفر وشرک کے قریب ہی نہ لے جائے۔ہاں! اولیاء اللہ اور یقین و توکل کے اعلیٰ درجہ پر فائض لوگوں کا معاملہ اور ہے۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ذریں نصائح
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گذشتہ زمانہ میں مال کو بُراسمجھا جاتا تھا؛ لیکن جہاں تک آج کے زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال ودولت مسلمانوں کی ڈھال ہے، حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایاکہ اگر یہ درہم ودینار اور روپیہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ سلاطین وامراء ہمیں رومال بناکر ذلیل وپامال کر ڈالتے، نیز! انہوں نے فرمایا: کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کی اصلاح کرے؛ کیوں کہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی محتاج ومفلس ہو گا تو اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے گنوانے والا سب سے پہلا شخص وہی ہو گا۔ (حلیة الأولیاء طبقات الأصفیاء، سفیان الثوري، ۶/ ۳۸۱)
توضیحات شرح مشکاة میں لکھا ہے: پچھلے زمانہ میں مال ودولت کو ناپسند کیا جاتا تھا، موٴمن اورمتقی حضرات مال کو مکروہ سمجھتے تھے؛ کیوں کہ عام ماحول زہد وتقویٰ کا تھا، لوگ غریب و فقیر کو ذلیل وفقیر نہیں سمجھتے تھے، مالی کمزوری کی وجہ سے اس کے ایمان کو تباہ نہیں کرتے تھے، نیز بادشاہ اور حکمران بھی اچھے ہوتے تھے، جو غریب کو سنبھالا دیتے تھے؛ اس لیے لوگ مال ودولت اکٹھا نہیں کرتے تھے اور اکٹھا کرنے کو معیوب سمجھتے تھے؛ مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے کہ غریب وفقیر آدمی کو معاشرہ میں ذلیل وحقیر سمجھتے ہیں، اور پیسے کی بنیاد پر اس کے ایمان کو خریدا جاتا ہے، نیز حکمران بھی خیر خواہ نہیں رہے، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ غریب آدمی مالداروں اور حکمرانوں کا دستِ نگر اور دست وپاہ بن جائے گا، اور ان کے ہاتھ صاف کرنے اور میل کچیل صاف کرنے کے لیے تولیہ اور رومال بن جائے گا۔
پھر مزید لکھا ہے: جس شخص کے پاس اس مال میں سے کچھ بھی ہو وہ اس کی اصلاح کرے، مطلب یہ کہ تھوڑا پیسہ بھی ہو تو اس کو کسی کاروبار میں لگا دے، یہ اس کی ترقی وبڑھوتری ہے، یا پھر اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ اس کو قناعت کے ساتھ خرچ کرے ، اسراف نہ کرے۔ (۷/۳۷۵، مکتبہ عصریہ، کراچی)
کمائی کے ذرائع
کسبِ معاش کے بہت سے ذرائع ہیں، ان میں سے کون سا افضل ہے ؟! اس کی تعیین میں سلفِ صالحین کا اختلاف ہے، اس بارے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندہلوی رحمہ اللہ کی ایک بہترین کتاب ”فضائل ِ تجارت“ سے خلاصةً کچھ بحث ذیل میں نقل کی جاتی ہے۔
حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”میرے نزدیک کمائی کے ذرائع تین ہیں: تجارت، زراعت اور اجارہ۔ اورہر ایک کے فضائل میں بہت کثرت سے احادیث ہیں، بعض حضرات نے صنعت و حرفت کو بھی اس میں شامل کیا ہے، جیسا کہ اوپر گذرا۔ میرے نزدیک وہ ذرائع آمدنی میں نہیں، اسبابِ آمدنی میں ہے اور آمدنی کے اسباب بہت سے ہیں: ہبہ ہے، میراث ہے، صدقہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جنہوں نے اس کو کمائی کے اسباب میں شمار کیا ، میرے نزدیک صحیح نہیں؛ اس لیے کہ نرا صنعت وحرفت کمائی نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر ایک شخص کو جوتے بنانے آتے ہیں یا جوتے بنانے کا پیشہ کرتا ہے، وہ جوتے بنا بنا کر کوٹھی بھر لے ، اس سے کیا آمدنی ہو گی؟ یا تو اس کو بیچے گا یا (پھر یہ جوتے) کسی کا نوکر ہو کر اس کا (مال)بنائے۔یہ دونوں طریقے تجارت یا اجارہ میں آ گئے، اور اس سے بھی زیادہ قبیح ”جہاد“ کو کمائی کے اسباب میں شمار کرنا ہے؛ اس لیے کہ جہاد میں اگر کمائی کی نیت ہو گئی تو جہاد ہی باطل ہے․․․․․․․․․ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ میرے نزدیک تجارت افضل ہے، وہ بحیثیت پیشہ کے ہے؛ اس لیے کہ تجارت میں آدمی اپنے اوقات کا مالک ہوتا ہے، تعلیم وتعلم، تبلیغ، افتاء وغیرہ کی خدمت بھی کر سکتا ہے، لہٰذا اگر اجارہ دینی کاموں کے لیے ہوتو وہ تجارت سے بھی افضل ہے؛ اس لیے کہ وہ واقعی دین کا کام ہے؛ مگر شرط یہ ہے کہ وہی دین کا کام مقصود ہو اور تنخواہ بدرجہٴ مجبوری ہے۔ میرے اکابرِ دیوبند کا زیادہ معاملہ اسی کا رہا، اور اس کا مدار اِس پر ہے کہ کام کو اصل سمجھے اور تنخواہ کو اللہ کا عطیّہ؛اس لیے اگر کسی جگہ پر کوئی دینی کام کر رہا ہو، تدریس، افتاء وغیرہ اور اس سے زیادہ کسی دوسرے مدرسہ میں تنخواہ ملے، تو پہلی جگہ کو محض کثرتِ تنخواہ کی وجہ سے نہ چھوڑے۔میں نے جملہ اکابر کا یہ معمول بہت اہتمام سے ہمیشہ دیکھا، جس کو آپ بیتی نمبر۶، صفحہ ۱۵۵ میں لکھوا چکا ہوں کہ انہوں نے اپنی تنخواہوں کو ہمیشہ اپنی حیثیت سے زیادہ سمجھا ․․․․․․․․․․․․․․ درحقیقت میرے اکابر کے بہت سے واقعات اس کی تائید میں ہیں کہ تنخواہ اصل یا معتد بہ چیز نہیں سمجھتے تھے۔ جیسا میں نے اوپر لکھا اور تنخواہ محض عطیہٴ الٰہی سمجھتے تھے، جو ہم لوگوں میں بالکل مفقود ہے، یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر میں اجارہٴ تعلیم کو سب انواع سے افضل لکھا ہے۔ ․․․․․․․․․․․․․․․اس ملازمت کے بعد تجارت افضل ہے؛ اس لیے کہ تاجر اپنے اوقات کا حاکم ہوتا ہے، وہ تجارت کے ساتھ دوسرے دینی کام تعلیم، تدریس، تبلیغ وغیرہ بھی کر سکتا ہے، اس کے علاوہ تجارت کی فضیلت میں مختلف آیات واحادیث ہیں؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿إن اللّٰہ اشتریٰ من الموٴمنین أنفسھم وأموالھم بأن لھم الجنة﴾(التوبة: ۱۱۱)
خدا نے موٴمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں، (اور اس کے)عوض میں اُن کے لیے بہشت (تیار) کی ہے۔
اور بھی بہت سی آیات تجارت کی فضیلت میں ہیں، ان کے علاوہ احادیث میں ہے:
”التاجرُ الصدوقُ الأمینُ مع النبیینَ والصدیقینَ والشھدآء“(سنن الترمذي، کتاب البیوع، التجار وتسمیة النبي صلی اللہ علیہ وسلم إیاھم، رقم الحدیث:۱۲۰۹)
سچا، امانت دار تاجر(قیامت میں) انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔
”إنّ أَطْیَبَ الْکَسْبِ کَسْبُ التُّجَّارِ الَّذِیْنَ إذَا حَدّثُوْا لَمْ یَکْذِبوا، وَإذَا ائْتُمِنُوْا لَمْ یَخُوْنُوْا، وإذَا وَعَدُوا لَمْ یُخْلِفوا، وإذَا اشْتَرَوْا لَمْ یَذُمُّوْا، وَإذَا بَاعُوا لَمْ یَمْدَحُوْا، وَإذَا کَانَ عَلَیْہِمْ لَمْ یَمْطُلُوا، وَإذَا کَانَ لَھُمْ لَمْ یُعَسِروا“(شعب الإیمان للبیھقي، الرابع والثلاثون من شعب الإیمان وھو باب في حفظ اللسان، رقم الحدیث: ۴۸۵۴)
بہترین کمائی اُن تاجروں کی ہے، جو جھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے اور خریدتے وقت چیز کی مذمت نہیں کرتے (تا کہ بیچنے والا قیمت کم کر کے دے دے) اور جب (خود) بیچتے ہیں، تو (بہت زیادہ) تعریف نہیں کرتے (تا کہ زیادہ ملے) اور اگر ان کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے اور اگر خود ان کا کسی کے ذمہ نکلتا ہوتو وصول کرنے میں تنگ نہیں کرتے۔
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”التاجِرُ الصَّدُوْقُ تَحْتَ ظِلِّ الْعَرْشِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ“(اتحاف الخیرة المھرة بزوائد المسانید العشرة، کتاب الفتن، باب في التلاعن وتحریم دم المسلم، رقم الحدیث:۷۷۵۲)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچ بولنے والا تاجر قیامت میں عرش کے سایہ میں ہو گا۔
عن أبي أمامة رضي اللہ عنہ أنَّ رسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”إن التاجِرَ إذَا کَانَ فیہ أربعُ خِصَالٍ طَابَ کَسْبُہ، إذا اشْتَریٰ لَمْ یذُمَّ، وَإذَا بَاعَ لَمْ یَمْدَحْ، وَلَمْ یَدْلُسْ فِي الْبَیْعِ، وَلَمْ یَحلِفْ فِیْمَا بَیْنَ ذٰلک“(الترغیب والترھیب، کتاب البیوع، باب فضل التاجر الأمین والترغیب في الصدق في المعاملة، رقم الحدیث: ۷۹۷)
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ جب تاجر میں چار باتیں آ جائیں تو اس کی کمائی پاک ہو جاتی ہے، جب خریدے تو اس چیز کی مذمت نہ کرے اور بیچے تو (اپنی چیز کی بہت زیادہ) تعریف نہ کرے۔ اور بیچنے میں گڑ بڑ نہ کرے اور خرید و فروخت میں قسم نہ کھائے۔
وعن حکیم بن حزامٍ رضي اللہ عنہ أن رسولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا، فإنْ صَدَقَا وَبَیَّنا بُورِکَ لَھُمَا فِيْ بَیْعِھِمَا، وإنْ کَتَمَا وَکذَبا، فعسیٰ أن یربَحا رِبحاً، ویَمْحَقَا برَکةَ بَیْعِھِمَا“ (صحیح البخاري، کتاب البیوع، باب کان البائع بالخیار ھل یجوز البیع، رقم الحدیث: ۲۱۱۴)
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ خرید وفروخت کرنے والے کو (بیع توڑنے کا) حق ہے، جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔ اگر بائع ومشتری سچ بولیں اور مال اور قیمت کے عیب اور کھرے کھوٹے ہونے کوبیان کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ہوتی ہے اور اگر عیب کو چھپا لیں اور جھوٹے اوصاف بتائیں تو شاید کچھ نفع تو کما لیں (لیکن) بیع کی برکت ختم کر دہتے ہیں۔
قال المناوي: رجالہ ثقات، ”تِسْعَةُ أَعْشَارِ الرِّزْقِ في التِّجَارَةِ، وَالْعُشْرُ في المَوَاشِيْ، یعنی: النَّتَاج“ (نظام الحکومة النبویة المسمیٰ التراتیب الإداریة، المقدمة الخامسة: باب ما ذکر في الأسواق، ۲/۱۲)
مناوی فرماتے ہیں: رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ جانوروں کی پرورش میں ہے۔
أخرج الدیلمي عن ابن عباس رضي اللہ عنہما: ”أَوْصِیْکُمْ بِالتُّجَارِ خَیْرًا، فإنَّھُمْ بُردُ الآفاق وأُمَنَاءُ اللّٰہِ في الأرض“(نظام الحکومة النبویة المسمیٰ التراتیب الإداریة، المقدمة الخامسة: باب ما ذکر في الأسواق، ۲/۱۲)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں تمہیں تاجروں کے ساتھ خیر کے برتاوٴ کی وصیت کرتا ہوں؛ کیوں کہ یہ لوگ ڈاکیے اور زمین میں اللہ کے امین ہیں۔
تجارت کے بعد میرے نزدیک زراعت افضل ہے، زراعت کے متعلق حدیث میں آیا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا کہ : ”کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی جانور کھا لے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔اور مسلم کی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اس میں سے کچھ چوری ہو جائے تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ شمار ہوتا ہے۔
اور ضرورت کے اعتبار سے بھی زراعت اہم ہے؛ کیوں کہ اگر زراعت نہ کی جائے تو کھائیں گے کہاں سے؟ !․․․․․․․․․ باقی اپنی زمین دوسرے کو دینا، مزارعت کہلاتا ہے، زراعت اور چیز ہے اور مزارعت اور چیز ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قواعدِ شرعیہ کی رعایت ہر چیز میں ضروری ہے، جیسا کہ اس بارے میں أوجز المسالک:۵/ ۲۲۰، باب کراء الأرض میں بہت لمبی بحث کی گئی ہے۔ اور شرعی حدود کی رعایت ان ہی تینوں میں نہیں؛ بلکہ دین کے ہر معاملہ میں ضروری ہے۔․․․․․․․․․․ ان سب کے بعد نہایت ضروری اور اہم امر یہ ہے کہ کسب کے؛ بلکہ ہر عمل میں شریعتِ مطہرہ کی رعایت ضروری ہے، جس کو احیاء العلوم: ۲/۶۴ میں مستقل باب کے تحت بیان کیا ہے؛ چنانچہ امام غزالی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
”بیع اور شراء کے ذریعہ مال حاصل کرنے کے مسائل سیکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے، جو اس مشغلہ میں لگا ہوا ہو؛ کیوں کہ طلبِ علم کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس سے ان تمام مشاغل کا علم طلب کرنا مراد ہو گا، مشغلہ رکھنے والوں کو جن مسائل کی حاجت ہو۔ اور کسب کرنے والاکسب کے مسائل جاننے کا محتاج ہے اور جب اس سلسلہ کے احکام جان لے تو معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں سے واقف ہو جائے گا، لہٰذا ان سے بچے گا، اور ایسے شاذ ونادر مسائل جو باعث اشکال ہوں،ان کے ہوتے ہوئے معاملہ کرنے میں سوال کر کے علم حاصل کرنے تک توقف کرے گا؛ کیوں کہ جب کوئی شخص معاملات کو فاسد کرنے والے امور کو اجمالی طور پر نہ جانے تو اسے یہ معلوم نہیں ہو سکتاکہ میں کس کے بارے میں توقف کروں اور سوال کر کے اس کو جانوں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں پیشگی علم حاصل نہیں کرتا، اس وقت تک کام کرتا رہوں گا؛ جب تک کوئی واقعہ پیش نہ آجائے، جب کوئی واقعہ پیش آئے گا تو معلوم کر لوں گا، تو اس شخص کو جواب دیا جائے گا کہ جب تک تو اِجمالی طور پر معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں کو نہ جانے گا تجھے کیسے پتہ چلے گاکہ مجھے فلاں موقع پر معلوم کرنا چاہیے۔ جسے اجمالی علم بھی نہ ہو وہ برابر تصرفات کرتارہے گا اور ان کو صحیح سمجھتا رہے گا۔ لہٰذا علم تجارت سے اوّلا اس قدر جاننا ضروری ہے کہ جس سے جائز وناجائز میں تمیز ہو اور یہ پتہ چل سکے کہ کون سا معاملہ وضاحت کے ساتھ جائز ہے اور صحیح ہے، اور کس میں اشکال ہے۔“(ملخص من فضائل تجارت، ص: ۴۸-۷۲، مکتبة البشریٰ)
اِن تفصیلات کے بعد ہم سب کے لیے از حد ضروری ہے کہ ہم حدودِ شرعیہ کے اندر رہتے ہوئے کسبِ معاش کریں، اور حصول معاش سے قبل اس کا علم شرعی ضرور بالضرور حاصل کر لیں، مبادا یہ کہ یہ کمائی کل بروزِ قیامت ہمارے لیے وبال بن جائے اور ہماری آخرت برباد ہو جائے۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بازار میں وہی شخص خرید وفروخت کیا کرے، جس نے اپنے اس کاروبار سے متعلق علم حاصل کر لیا ہو۔
”لَا یَبِیْعُ فِيْ سُوْقِنَا إلّا مَنْ قَدْ تَفَقَّہَ فِي الدِّیْنِ“ (سنن الترمذي، کتاب الصلاة، أبواب الوتر، فضل الصلاة علی النبي، رقم الحدیث: ۴۸۷)
اللہ رب العزت زندگی کے ہر ہر شعبے میں احکامات معلوم کر کے ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے،آمین
”اللھم انفَعْنا بما علّمْتَنا وعلِّمْنا ما یَنفَعُنا وارزُقْنا علماً تنفَعُنا بہ“