Search This Blog

Sunday 27 November 2016

افتخار اسلام

افتخار اسلام

رضا الدین صدیقی


حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے زمانہ جاہلیت ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت تھی ۔میں نے اگرچہ ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن آپ سے دلی محبت رکھتا تھا۔ آپ ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے مجھے اس دوران میں یمن جانے کاموقع ملا۔ وہاں بازار میں حمیر کے امیر ذی یزن کا جوڑا پچاس درھم میں بک رہا تھا۔اس نے اسے اس نیت سے خرید لیا کہ میں اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ میں وہ جوڑا لے کرمدینہ طیبہ حاضر ہوا اوراسے آپ کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا لیکن آپ نے اسے قبول نہیں فرمایا،میںنے بہت کوشش کی لیکن آپ رضامند نہ ہوئے اورارشادفرمایا :ہم مشرکوں سے کچھ نہیں لیتے ۔البتہ آپ نے فرمایا :ہاں اگر تم اس کی قیمت وصول کرلو تو ہم اسے خرید لیتے ہیں چنانچہ میںنے قیمت لے کر وہ جوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودے دیا۔ پھر میں نے ایک دن دیکھا کہ آپ نے وہ جوڑا زیب تن فرمالیا ہے۔اورمنبر پر فروکش ہیں۔آپ اس جوڑے میں اس قدر حسین نظر آرہے تھے کہ میں نے کبھی کوئی شخص اتنا حسین نہیں دیکھا ۔آپ یوں لگ رہے تھے جیسے چودھویں کا چاند۔آپ کودیکھتے ہی بے ساختہ یہ اشعار میری زباں پر جاری ہوگئے۔”جب ایک روشن اورچمک دارایسی منور ہستی ظاہر ہوگئی ہے۔جس کا چہرہ،ہاتھ ،پاﺅںسبھی درخشاں ہیں تواب اس کے بعد حکام،حکم دیتے ہوئے سوچیں گے۔
(یعنی اب آپ کا سکہ چلے گا نہ کہ دوسرے حاکموں اورسرداروں کا)“”جب یہ حکام بزرگی اورشرافت میں ان کا مقابلہ کریں گے تو یہ اُن سے بڑھ جائیں گے۔کیونکہ ان پر یہ مجدوشرافت اس کثرت سے بہائی گئی ہے ۔جیسے کسی پر پانی سے بھرے ہوئے بڑے بڑے ڈول ڈالے گئے ہوں۔ “حضور علیہ الصلوٰة والتسلیم یہ اشعار سن کرمسکرانے لگے۔ پھر آپ نے وہ جوڑا (آزاد کردہ غلام کے بیٹے) اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو عطاءفرمادیا۔جب میںنے اسامہ کو وہ لباس پہنے ہوئے دیکھا توانھیں کہا اے اسامہ (تمہیں خبر ہے)تم نے ذی یزن (بادشاہ)کا جوڑا پہن رکھا ہے۔انھوں نے بڑی رسان سے کہا میں ذی یزن سے بہتر ہوں میرا باپ اسکے باپ سے اورمیری ماں اسکی ماں سے بہترہے۔ جب میں مکہ واپس آیا تووہاں کے لوگوں کو اسامہ بن زید کی بات سنائی وہ ایک آزاد کردہ غلام کے فرزند کے اپنے دین پر ناز اورافتخار سے بڑے حیران ہوئے۔(طبرانی ،حاکم)

ایمان عظیم دولت


ایمان عظیم دولت 

سید قطب شہیدؒ


ابن عساکر نے عبداللہ ابن حذیفہ کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ یہ صحابی تھے، ان کو رومیوں نے گرفتار کرلیا اور اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ بادشاہ نے انہیں کہا کہ آپ نصرانی بن جائیں میں آپ کو اپنے اقتدار میں بھی شریک کرتا ہوں اور اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا: اگر تُو مجھے اپنی پوری مملکت دے دے اور تمام عربوں کی حکومت بھی عطا کردے اس کے عوض کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو ترک کردوں اور وہ بھی پلک جھپکنے جتنی دیر کے لیے، تو بھی میں یہ کام نہ کروں گا۔ اس نے کہا: تو پھر میں تمہیں قتل کردوں گا۔ انہوں نے کہا: تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ نے حکم دیا اور انہیں سولی پر چڑھا دیا گیا۔ پھر اس نے تیراندازوں کو حکم دیا کہ وہ ان کے ہاتھ اور پیروں کے قریب تیر ماریں۔ چنانچہ وہ تیر مارتے رہے اور بادشاہ ان کو نصرانیت کا دین پیش کرتا رہا، لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اس کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ ان کو سولی سے اتار دیں۔ چنانچہ انہیں تختہ دار سے اتارا گیا۔ اس کے بعد تانبے کی ایک (تیل کی) ہنڈیا یا دیگ لائی گئی۔ اسے گرم کیا گیا۔ اس کے بعد ایک مسلمان قیدی لایا گیا، اسے اس کے اندر پھینکا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چمکدار ہڈیاں بن کر رہ گیا۔ اس کے بعد پھر بادشاہ نے ان پر اپنا دین پیش کیا۔ پھر انہوں نے انکار کردیا۔ اب اس نے حکم دیا کہ ان کو بھی اس دیگ میں پھینک دیا جائے۔ انہیں لوہے کی چرخی پر چڑھایا گیا تاکہ اس کے اندر پھینک دیں۔ اس وقت وہ روئے۔ اُس وقت بادشاہ کو یہ لالچ پیدا ہوگیا کہ شاید اب مان جائیں، تو بادشاہ نے انہیں بلایا اور رونے کا سبب پوچھا۔ وہ بولے: میں رویا اس لیے ہوں کہ میری جان ایک ہے اور وہ بھی ابھی اس دیگ میں ڈال دی جائے گی اور ختم ہوجائے گی، لیکن میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے ہر بال کے برابر جانیں عطا ہوتیں اور وہ اللہ کی راہ میں قربان ہوتیں۔
ایک روایت میں ہے کہ بادشاہ نے ان کو قید کردیا اور کھانا بند کردیا۔ ایک عرصے تک یہ پابندی رہی۔ اس کے بعد انہیں شراب اور خنزیر بھیجا تو انہوں نے اس کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ بادشاہ نے بلا کر پوچھا کہ تم نے ان کو ہاتھ کیوں نہ لگایا؟ انہوں نے کہا: یہ چیزیں اِس وقت تو میرے لیے حلال ہیں لیکن میں تمہیں خوش کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس پر بادشاہ نے کہا: چلو میرے سر ہی کو چوم لو میں تمہیں اس کے عوض رہا کردوں گا۔ اس پر انہوں نے کہا: کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کردو گے؟ بادشاہ نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے اس کے سر کو چوم لیا اور بادشاہ نے وہ تمام قیدی رہا کردیے جو ان کے ساتھ تھے۔ جب وہ لوٹے تو عمرؓ بن الخطاب نے فرمایا: ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ عبداللہ ابن حذیفہ کا سر چومے اور میں اس کی ابتدا کرتا ہوں۔ وہ اٹھے اور انہوں نے ان کے سر کو چوما۔ اللہ دونوں سے راضی ہو۔

یہی حال حبیب ابن زید انصاری کا رہا۔ ان سے مسیلمہ کذاب نے کہا ’’کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہاں‘‘۔ پھر اس نے کہا: ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں رسول ہوں؟‘‘ توانہوں نے کہا: ’’میں نہیں سن رہا۔‘‘ وہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا۔ وہ یہی جواب دیتے رہے، یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں شہید ہوگئے۔

یہ اس لیے کہ عقیدہ اور نظریہ ایک عظیم دولت ہیں۔ نظریے میں کمزوری نہیں دکھائی جاتی اور رخصتوں پر عمل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگرچہ رخصت ہوتی ہے لیکن ایک مومن نفس اس کو ترجیح دیتا ہے کہ وہ عزیمت پر عمل کرے، کیونکہ نظریہ ایک ایسی امانت ہے جس پر انسان کی پوری زندگی اور پورے دنیاوی مفادات کو قربان کرنا چاہیے۔

(فی ظلال القرآن۔ جلد چہارم۔ تفسیر سورۂ النحل)

Monday 21 November 2016

گلوبلائیزیشن کا نعرہ اوراسلام

  *مجتبیٰ فاروق
گلوبلائیزیشن کا نعرہ اوراسلام
گلو بلائیزیشن بیسوی صدی کے اوا خرمیں شروع ہوا۔ یہ ۱۹۶۰ ء کی دہائی ہی سے اقتصادی پسِ منظر میں استعمال میں ہو نے لگا تھا۔اقتصا دیات اور منیجمنٹ کے لٹریچر میں سب سے پہلے لو یٹ (levits) نے۱۹۸۳ء میں اس اصطلاح کو استعمال کیا اور سماجیات کے میدان  میں سب سے پہلے رونالڈ  روباٹسن (Ronald Robertson) نے۱۹۸۰ ء کی دہائی کے آغاز میں مذکورہ اصطلاح کو استعمال کیا۔ذرائع ابلاغ اور تہذیبی و ثقافتی مطالعات میں اس کو سب سے پہلے مارشل ملکو ہانس (Marshel Mcluhans) نے اپنی کتاب  Understanding Medi میں60 19ء کی دہائی میں ہی استعمال کیا۔ اس کے بعد یہ اصطلاح انتہائی تیز رفتار ی کے ساتھ صر ف اکیڈمِک سطح پر ہی نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ اور کاروباری سطح تک بھی بڑے پیمانے پر استعمال میں ہونی لگی ۔(۱)
سب سے پہلے اس کا کریڈٹ ٹھیڈو لویٹ کو جاتا ہے کہ انھوں نے اس اصطلاح کو 1983 ء میں اپنے ایک مضمون Globlization of  Markets میں منظم طور پر استعمال کیا۔ (۲)
صحیح معنو ں  میں گلو بلائیزیشن کی اصطلاح پوری دنیا میں جنگ عظیم دوم کی سیاسی اتھل پتھل کے بعد کی پیداوار ہے اور ء1981 اور1990  ء کی دہا ئیوں میں اس کے مختلف تصورات نے عالمی مقبولیت حاصل کر لی۔پہلے اس کا دائرہ کار محدود تھا لیکن بعد میں اس میں وسعت آگئی ۔ڈاکٹر عبدا لعزیز عثمان کے مطابق گلو بلایزشن ایک عالمی سیاسی نظام ہے جسے بین الاقوامی سیاسی تبدیلیوں نے سرد جنگ کے اختتام کے بعد بر لن کی دیوار کے سقوط کے بعد اورجرمن کے اتحاد اورساوٹ یو نین کے بکھرا ئو کے بعد جنم دیا ۔(۳)
جدید سائنس اور ٹکنالو جی کی وجہ سے دنیا میں زماں و مکاں کی زیادہ اہمیت نہیں رہی۔مقامی، علاقائی،ملکی اور بین الا قوامی سطح پر دوری اور نزدیکی کی اہمیت بھی کم ہو گئی ہے۔غربت اور جہالت دن بدن کم کر نے کی کو شش کی جارہی ہیں۔سائنس و ٹکنا لو جی کی بے انتہاترقی نے پوری انسا نی آبادی کو ایک دوسرے کے قریب کیا اور اس کے وساطت سے نہ صرف ذہنوں اور دلوں میں معلو مات کا خزانہ جمع ہو گیا بلکہ انسان کے فکرو خیال میں نہ تھمنے والا انقلاب بھی پیدا ہوگیا ہے  ۔موجودہ دنیا میں ہر شخص ایک دوسرے کے معاملات سے بھی بھر پور واقفیت رکھتا ہے۔اس دور میں علم و حکمت اور معلو مات میں ہر دن بے حد اضافہ ہو تا جارہا ہے آج بین الاقوا می سطح پر فکری تہذیبی ،معاشرتی اور ثقافتی طور پر وسیع پیمانے پر تبادلہ ہو رہا ہے اور افکار و نظریات، علو م و سائنس اور معلو مات ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے منتقل ہو رہی ہیں۔
گلو بلا ئزیشن ایک انگریزی لفظ ہے ۔ اردو میں اس کو عالمگیر یت ،عالم کاری اور بین الا اقوامیت اور عربی میں عو لمہ کہا جاتا ہے یہ سب اصطلاحا ت کم و بیش ایک ہی معنی میں خوب استعمال ہو رہی ہیں۔ گلوبلائزیشن گلوب سے ماخوذہے جس کا معنی کائنات کے ہیں اس کی صفت گلو بل ہے جس کا معنی اردو آکسفوڑ ڈکشنری کے مطابق عالمگیر کے ہیں اور گلو بلایزشن کامعنی عالمی  بنانا ہے۔یہ مادیت پر مبنی عمل کا نام ہے۔جبکہ گلوبلاازم ایک نظر یہ ہے جو کسی دوسرے پر فکری،اقتصادی اور تہذیبی طور پر قبضہ کر نے اور اس میں اپنی پالیسیز اور بالا دستی نافذ کر نے کا نام ہے۔
 گلوبلایئزیشن میں اگر چہ آزاد تجارتی منڈی اور کارو بار کو عالمی سطح پر فر وغ دینے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ لیکن یہ اسی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ دوسرے پہلو بھی شامل ہیں  جن میںسیاسی پالیسیز، تہذیب و تمدن اور سائنس و ٹکنالو جی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
  گلو بلا ئزیشن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ " It is just a handy word for the internalization of trade and capital,the other name of the process is free trade" 4)
گلو بلا ئزیشن سر مایہ دار تجارت کو عالمی بنانے کے لئے بولا جاتا ہے اس عمل کے لئے دوسرا لفظ آزاد تجارت کا استعمال ہو تا ہے ۔ورلڈ ٹر یڈ آرگنائزیشن ایک عالمی تجارتی تنظیم ہے جو عالمگیر یت کی سب سے بڑی داعی بھی ہے وہ گلو بلا ئزیشن کی تعریف یو ں کر تی ہے :
’’ عالمگیر یت دنیا کے ممالک کے درمیان اقتصادی تعائون کا نام ہے یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کا مقصد جغرافیائی حدود کو ختم کرکے پوری دنیا کو ایک عالمی منڈی میں تبدیل کر نا ہے  ‘‘ (۵)۔
ماہر ین سیاسات اور اقتصادیات دنیا کو اقتصادی سیاسی،سماجی اور تہذیبی سطح پر گائوں سے تعبیر کر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا بالکل ایک گائوں کی طر ح ہے جہا ں لو گ ایک دوسرے سے نہ صر ف مانوس بلکہ اچھی واقفیت بھی رکھتے ہیں۔ تھامس لارسن (Thames Larson)  گلو بلا ئزیشن کی تعریف اس طر ح سے بیان کر تا ہے :
 " Globlization is the proces of shrinking of the world,the shortenmg of the distances and clourness of the things. It allows the intraction of any person on one part of the world to some one find on the other side of the world in order to benifit " (6)
 گلو بلا ئیزیشن ایک ایسے عمل کا نام ہے جس کے ذریعہ دنیا نے سکڑ کر ایک گائوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔فاصلے بہت کم اور مختصر ہو گئے۔انسانی تعلقات وسیع پیمانے پر بڑھ گئے ہیں۔ دنیا کے ایک کو نے میں رہنے والا انسان دوسرے کو نے میں رہنے والوں سے باخبر رہتا ہے اور یہ سب کچھ نفع کے حصول کے لیے ہو تا ہے۔گلو بلا ئیز شن نے مقامی اور علا قائی سطح سے ملکی سطح تک اور ملکی سطح سے بین الاقوامی سطح تک اقتصادی اور سیا سی طو ر پر دنیا کے ایک علا قے اور ملک،دوسرے علا قے اور ملک سے باہمی  روابطہ وسیع پیمانے پر بڑھا لئے ۔ جیسا کہ ایک دانشور کاخیال ہے کہ عالمگریت اس عمل کا نام ہے جس میں پو ری دنیا نے ایک سماجی رخ اختیار کر لیا ہے۔(7)
گلوبلائیزیشن کا مغربی چہرہ:
گلو بلائیز یشن اصل میں مغر ب کا پیدا کر دہ عالمی اقتصادی نظام ہے۔جو بظاہر خوشنما معلوم ہو تا ہے لیکن اندر سے  انتہائی خطر ناک ہے۔اس نعرہ کو بلند کر نے کے بعد مغر ب نے پو ری دنیا کو اپنی سیا سی ،اقتصادی اور فکر ی مفادات و تر جیحات کے تابع بنا نا شروع کیا تاکہ اپنی عالمی یکتا ئی  کے زور پر بین الا قوامی سر مایہ داریت ،استعماریت اور استبدادیت کو تحفظ دے سکے۔اسی عالمی نظام کے پس پردہ ان کے مقاصد اور تر جیحات میں احیائے اسلام کی تحر یکوں کو کچلنا،اسلام اور عالم اسلام کے خلاف عالمی برادری کو کھڑا کر نا ، دنیا کی اقتصادی اور معاشی حالت کو کنڑول اور اس پر اپنی اجارہ داری قائم کر نا شامل ہیں۔ (8)گلوبلائیز یشن کو کچھ ماہر ین ایک نیا مظاہرہ کہتے ہیں جو اپنی اصل حقیقت کو چھپا تی ہے وہ اس کو مغر ب کے لیے ایک مضبوط ہتھیار تصور کر تے ہیں جبکہ مغر ب کی فکر و تہذ یب سے مرعوب ماہرین اس کے بے حد ہم نوا اور قائل ہیں۔اور جد ید یت کے لئے اس کو اہم محر ک باور کر تے ہیں۔اس کے بر عکس بنیادپر ست گلو بلا ئیز یشن کو ہر مقا می اور علاقا ئی تہذ یب پر ایک حملہ قرار دیتے ہیں ان کے مطابق مغر ب کی کثیر المقدار صنعت (پاپ موسیقی، آرٹ،سنیما،ٹی وی،میڈیا، جنس وحسن پرستی ،صارفیت وغیر ہ وغیر ہ ) نے دنیا میں لبر ل ازم اور جنسی آوارگی کو خوب پھیلا یا اور مغر ب نے افکار و علو م کو اسکولر بنا کے مذ اہب و اقدار کو بر باد کر ڈالا۔O liver Roy کے مطابق بہت سے لو گ گلو بلا ئیز یشن کو مغر بیت ہی سمجھتے ہیں۔اور کچھہ لو گ اس کو امر یکیت باور کرتے ہیں۔ لیکن دونوں صورتوں میں گلوبلا ئیز یشن مغر بی یا امر یکی فکر و تہذ یب کو اختیا ر کر نے کا نام ہے۔(9) گلو بلا ئیز یشن میں جو تصور پیش کیا جارہا ہے جس کے تحت ہر ملک اپنی مصنوعات منڈی میں بلا روک ٹوک لاسکے گااور اس میں زبردست قسم کی دوڑہو گی جو اس میں پیچھے رہ جائے گا وہ مٹ جائے گا۔اس مقابلے میں وہی آگے بڑھ سکتا ہے جو طاقت ور ہو۔اس جنگ میں ساری کمائی امیر ممالک کے ہاتھ میں رہے گی ۔معروف دانشور ڈاکٹر فضل الر حمن اس حوالے سے رقمطراز ہیں کہ ’’ معشیت کی عالمگر یت کا مفہوم آزاد تجارت ہے قوانین و ضوابط کی کمی ہے،معا شی سرحدوں کو کھول کر بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کی آمد و رفت کو بے روک ٹوک فروغ دیتا ہے کمپٹشن کو ہر شعبہ زند گی میں ممکن بنا یا ہے مگر یہ پوری حکمت عملی امیرمما لک کے لیے تومفید ہے لیکن غریبوں کے لئے مفید کم ہے۔اور نقصان زیادہ۔(10)
   گلوبلا ئیز یشن کے تین نما یا ں پہلو:۔
 (۱) سیاسی ۔ (۲) اقتصادی اور (۳) تہذ یبی۔
 (۱)  سیاسی پہلو  :۔ عالمگیر یت کے نتیجے میں مغر بی اقوام نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر پو ری دنیا کو اپنا ذہنی غلام بنا رکھا ہے۔اس کے لئے وہ نت نئے ادارے،نظریات ،ٹکنالوجی ،کلچر سیاست اور تعلیم کو  استعمال کر رہے ہیں۔اس کے نتیجے میں باقی دنیا با لخصوص عالم اسلام احساس کمتری اور نفسیاتی دبائو کا شکار ہے۔ناپاک عزائم اور استعماری ذہینت کا حامل مغر ب عالم اسلام کے ہر کو نے میں نہ صرف مداخلت کر رہا ہے بلکہ وہاں سے بے شمار فائدے بھی حاصل کر رہا  ہے۔اس کا جو نتیجہ نکلا  وہ عامرا لر بیع کے الفاط میں یہ ہے:’’ مسلم ممالک پر قبضہ ہو نے کے بعد  عالم اسلام اپنے بنیادی ،وقیع  اور قدروقیمت کے حامل چیزیں مثلاً تہذ بیی ورثہ،علوم نقلیہ،طرز زند گی ،زبان،سماجی روابط ،اقتصادی تحفظ اور ملکی تشخص کھو دیا ۔(11)
 (۲) اقتصادی پہلو:۔ گلو بلا ئیز یشن چونکہ تجارت اور مارکیٹ کو اپنے کنڑول میں رکھنے کا نام ہے ۔اس لیے مغر ب نے استبدادی پنجہ پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے ۔اس نے ریا ستوں اور ملکوں کو نہ صرف اپنا آلہ کار  بلکہ اپنا خدمت گار بنا رکھا ہے۔اس کے لیے اس نے بہت سے ذرائع کو استعمال کیا۔ مغر ب نے جنرل ایگر یمنٹ آف ٹرف امینڈ ٹریڈ (G.A.T.T)،ورلڈ بنک (World Bank) ،انٹر نیشل مانٹری فنڈ ( I.M.F)اور ورلڈ ٹر یڈ آرگنائزیشن (W.T.O)وغیرہ اداروں کو عالمگیر اقتصادی نظام کی تشکیل کے لیے ہی قائم کیاتاکہ پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھ سکے۔ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن (W.T.O)اور ورلڈ بنک کے قرضوں نے غریب ممالک بالخصوص مسلم ممالک کو معا شی بحران میں مبتلا کرایا۔موجودہ عالمگیریت مغربی استعماریت کے غالب ہو نے کی وجہ سے چھائی ہو ئی ہے اور اس نے تر قی پزیر ممالک کا معا شی ،ٹکنا لو جی ،تہذ یبی اور سیا سی پالیسیز کا رخ متعین کر رکھاہے۔غر یب اور مسلم ممالک سامراجیت کے پنجوں سے دوسری عالمگر جنگ کے بعد سے سیا سی طور سے کسی حد تک آزاد تو ہو ئے لیکن اقتصادی،سانئس و ٹکنالوجی اور تہذ یبی طور پر اپنے آپ کو مکمل طور سے غلو خلا صی حا صل نہ کر پائے۔
 (۳) فکری و تہذیبی پہلو:۔گلو بلا ئیز یشن کا ہدف جہاں سیاسی بالا دستی اور دنیا کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے عالمی معیشت کے لیے کام کر نا ہے وہیں مغر بی  فکر وتہذ یب او رثقافت کو پو ری طر ح سے دنیا میں نہ صرف فروغ دینا ہے بلکہ دوام بھی بخشنا ہے۔مغر ب اپنی تہذ یب کو اعلیٰ و بر تر سمجھ کر دنیا میں اس کو نافذ کر نا چاہتا ہے۔گلو بلا ئیز یشن کے اہداف،فلسفہ،طر یق کار،اور لوازمات سب مغر بی تہذ یب کے فیصلے ہی کے لیے ہے۔ گلو بلا ئیز یشن مغر بی کلچر کے غلبے کا دوسرا نام ہے۔ خاندان کی تباہی،اخلا قی قدروں کی پامالی ،عریانی،انسانیت نوازی اور بھائی چار گی کا فقدان،خود غر ضی اور مفاد پر ستی کا رواج ،انسانی حقوق کی پامالی ،عفت و عصمت پر حملے اور ہر شے حتی کہ انسان کا بھی خرید و فروخت ہونا۔ہم جنس پرستی کو معمول قرار دیا جائے گا۔طوائف کلچر کو مقبول بنا یا جائے گااور عورت کی آزادی کے نام پر اسے بے حیا ئی کی صلیب پر قربان کردیا جائے گا۔(12)جرمنی کے اسلامی مفکر ڈاکٹر مراد ہوف مین گلوبلائیزیشن کے  فکری پہلو کے متعلق لکھتے ہیںــ’’گلوبلائیزیشن نے امت مسلمہ کے درمیان تفریق پیدا کرنے اور اسلام کی اعلی اقدار  کے خلاف یورش کرنے کے لئے فکری حملے شروع کردئیے ہیں جن میں اس تحریک کے سب سے خطرناک ہتھیار جنس پرستی ،مادیت، فردیت،دولت اور ثروت کے ذریعہ فتنہ انگیزی کرنا ہے‘‘(۱۳)
 گلو بلا ئیز یشن کے منفی و مثبت اثرات
گلو بلا ئیز یشن کے بہت سے منفی اثرات اور پہلو ہیں۔اگر چہ اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔پہلے مثبت پہلو وں کا تذ کر ہ کیا جائے گا۔ (۱) راست بیرونی سرمایہ کاری نے تیسری دنیا (Third World)کے ممالک میں غربت کو کسی حد تک کم کر نے میں معاون ثابت ہو ئی ہے۔ جیسے بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں۔ (۲) بیرونی ریاستوںکی سرمایہ کاری کر نے سے اور تجارت کو فروغ ملنے سے تیسری دنیا کے متو سط طبقے کی حالت کچھ بہتر ہو ئی ہے۔
 (۳) ابلاغ کے مختلف جد ید ذرائع سے گلو بلا ئیزیشن کے عمل سے نت نئے ایشوز جیسے قانون کی حکمرانی ،انسانی حقوق،عوام کے سامنے جواب دہی کا حساس وغیرہ ،دنیا کے سامنے ابھر کر لایا۔
 (۴) دنیا میں لو گوں نے ایک دوسرے کو سمجھنا شروع کیا۔
 (۵) عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں دنیا بھر میں سنجید گی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔
 گلو بلا ئیز یشن کے منفی پہلو:
 (۱) مغر ب نے گلو بلا ئیز یشن کے ذریعہ مسلم روایات اور اسلامی فکر و تہذ یب کے تئیں مختلف غلط فہمیاںپھیلا ئیں۔(۲) گلو بلا ئیز یشن کے عمل سے دنیا کے چند سر مایہ داروں کے ہاتھوں دنیا کاکل سرمایہ میں 79فیصد دولت ایک بلین سے بھی کم لو گوں کے ہاتھوں میں ہے۔جبکہ دنیا کی کل آبادی میں صرف 11.2فیصد ہاتھوں میں 62,5فیصد دنیا کی دولت ہے۔اور مسلمان 5.3فیصد کے سرمایہ پر کنٹرول کئے ہوئے ہیں۔(۱۴) (۳) گلو بلا ئیز یشن کے اس دور میںتہذ یب ایک اہم عنصر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا جس کی دلیل پروفیسر ہنگنٹن کا نظریہ تصادم والا نظر یہ ہے ۔جس  میں  عالم اسلام اور مغر ب کے درمیان کشمکش کو عالمگیر تصادم کے طور پر پیش کیا۔
(۴)جرائم نے اب عالمگیر شکل اختیار کر لی ہے نشیلی ادویات کے کاروبار نے سرحدوں کی کوئی معنویت نہیں رکھی اور کچھ عالمگیر نو عیت کی بیمار یاں بھی بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہیں۔ جیسے ایڈ س جو ایک وبا کی طر ح دنیامیں پھیل رہی ہے۔
(۵) ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے اقتصادیات کے میدان میں قدروں کو پامال کیا اور صرف کا رجحان (consummer culture)بھی غلط طر یقے سے بڑھتا ہی جارہا ہے جس کی وجہ سے مادہ پر ستی میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے۔      
(۶) زند گی کے ہر شعبے میں عالم کاری کا عنصر داخل ہو رہا ہے جسکی وجہ سے عالم اسلام کے خلاف فوبیاں پیدا کیا گیا ۔اور طاقت ور ممالک ان کو اپنے  پنجہ استبداد میں رکھنے کے لیے کو ئی کسرباقی نہیں چھو ڑرہا ہے۔
 (۷) گلو بلا ئیز یشن کا ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ سائنس اور ٹکنالو جی کی بے حد تر قی کے ذریعے مغر ب نے مسلم سماجوں کے تہذ یبی تشخص کو تہس نہس کیا۔’’ہم اور ہمارا ایک ‘‘(Nuclier Family)کا تصور ،ضبط ولادت اور سماجی روابط کا ٹوٹنا گلو بلا ئیز یشن کی ہی دین ہیں۔
 (۸) میڈ یا گلو بلا ئیز یشن کا ایک مو ثر اور طاقت ور ہتھیار ہے جس کے ذریعے  دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویر پیش کی  جارہی ہے۔(۱۵)
اسلام میں عالمگیر یت کا تصور
    ظہور اسلام سے پہلے دنیا کے تمام مذاہب علا قائی اور قومی نو عیت کے تھے کو ئی فرد کسی دوسرے فر د کا مذ ہب قبول نہیں کر سکتا تھا ۔ بعثت اسلام کے وقت دنیا میں چار بڑے مذاہب یہو دیت ،عیسائیت ، ہندوازم اور بد ھ مت تھے لیکن ان میں سے کو ئی بھی مذ ہب اپنی اصل حالت اور ہیت میں نہیں تھا بلکہ ہر لحا ظ سے ان کی جملہ تعلیمات مسخ ہو چکی تھیں بالفاظہ دیگر یہ سبھی مذاہب محر ف (Distorted) تھے ان مذ اہب کے پاس دنیا ئے انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کے لیے کو ئی رہنما ئی نہ تھی۔ان میں نہ تو دنیا وی زند گی گزار نے کے لیے کو ئی لائحہ عمل تھا اور نہ ہی ان کے ہاں انسان کے مو ت کے بعد کے متعلق تعلیم یا رہنما ئی تھی۔مذکو رہ چاروں مذاہب کا نظر یہ زند گی اور کائنات محدود ہے ۔ذیل میں ان چاروں مذاہب کی محدود یت کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔
 (۱) یہو دی مذہب :۔ یہو دی مذہب کا دائرہ کار صرف  قوم بنی اسرا ئیل تھا یعنی یہ مذہب صر ف بنی اسرائیل تک ہی محدود تھا۔تورات میں اس قوم کے لیے ایک رہنما اصول یہ بھی تھا:
         مو سیٰ ؑ کو ہم نے ایک شریعت دی جو بنی اسرائیل کی میراث ہو۔(۱۶)      
تورات کی ایک دوسری آیت میں وارد ہے کہ :
 اس مذہب کا بنیادی مقصد بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد کرانا تھا۔(۱۷)
 (۲) عیسا ئی مذہب:۔ عیسا ئی مذ ہب بھی صرف بنی اسرائیل قوم کے لیے خاص تھا اس مذہب کی بنیادی غر ض وغایت یہو دی مذ ہب اور یہو دیوں کی اصلاح کر نا تھی۔حضر ت عیسیٰ ؑ صرف بنی اسرائیل  کی گمشدہ بھیڑوں کی طر ف مبعوث ہو ئے  تھے۔حضرت عیسیٰ ؑ فر ماتے ہیں:
 میں اسرائیل کے گمشدہ بھیڑوں کے سوا کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔(۱۸)
 (۳) ہندومت:۔ ہند و ازم ہندوستان کا نہایت قدیم مذہب ہے اس مذ ہب میں ویدوں کو کافی اہمیت حاصل ہے۔لیکن ویدوں کی تعلیم و قرات صرف برہمنوں کے لئے مخصوص تھی۔ہندوازم میں اگر وید تمام لو گوں کے لیے ہو تی تو پھر صرف بر ہمن کے لیے وید وں کی قرات کیوں مخصوص کردی جاتی؟۔اس مذ ہب میں نچلی ذاتوں کو وید اور اس قبیل کی دوسری  مذ ہبی کتابوں کو سننے تک کی اجازت نہیں تھی اور اس کے علاوہ اپنی عبادت گاہوں میں داخلہ کی بھی ممانعت تھی۔اور اگر نچلی ذات سے کوئی غلطی سے داخل ہوتا تو اس کو مارا پیٹا جاتا اور مندر کو دھلایا جاتا ہے ۔
 (۴) بدھ مذہب:۔ بد ھ مذہب صحیح معنوں میں بر ہمنوں کی تنگ نظری اور ان کی کار ستانیوں کے خلاف ایک رد عمل اور ان کی اصلاح کے لیے وجود میں آیا۔اس مذ ہب میں راہبانہ اور زاہدانہ تصور زیادہ پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کبھی بھی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کی طر ف دعوت نہیں دی۔یہ محدود رسم و رواج پر مشتمل مذہب ہے۔
دنیا کے ان چاروں بڑ ے مذاہب میں تصور کائینات (World View)اور عالمگیر یت کا رنگ نہیں پایا جاتا ۔ان میں تصور توحید ،تصور معاد اور تصور رسالت کے علاوہ سیاست معیشت اور معاشرت کے متعلق بھی کو ئی حقیقی ،واضح اور جامع تصور نہیں پا یا جاتا ۔اس کے بر عکس اسلام اپنے اندر عالمگیر یت اور آفاقیت رکھتا ہے اور اس کا تصور کائینات مدلل اور منقح ہے۔ اسلام میں سیاسی ،سماجی،اقتصادی اور معاشرتی تعلیمات بھی واضح اور جامع ہیں۔اس میں معیشت کے متعلق جو احکام ہیں ان میں آفاقیت پائی جاتی ہے۔سیاسیات کے بارے میں جو اصول و ضوابط ہیں ان میں نہ صرف وسعت بلکہ بین الاقوامیت کارنگ غالب ہے۔اسلام کی جو معا شرتی تعلیمات ہیں وہ نوع انسان کے لیے ہر لحا ظ سے قابل عمل اور مفید ہیں۔اسلام دین فطرت ہے اس میں دین اور دنیا یا جسم و روح کو متوا زی اہمیت دی گئی۔اس میں جہاں فرد کی تعمیر و تطہیر کے لیے جا مع تعلیمات مو جود ہیں وہیں معاشرہ کے لیے بھی ہمہ گیر رہنمائی مو جود ہے۔اسلام کی جملہ تعلیمات روز روشن کی طر ح عیاں ہیں۔ اسلام میں جہاں امیر اور سرمایہ دار طبقہ کے لیے رہنما ئی ہے  وہیں غریب اور نادار انسانوں  کے لیے بھی یہ خیر و فلاح کی راہ ہے۔اسلام جہاں انسان کو تنگ نائیوں اور ظلمات سے نکال کر ایک ایسے راستے کی طرف لے آتا ہے جہاں اس کے  لیے زند گی کے تمام شعبہ جات کے لیے رہنما اصول مو جود ہیں ۔وہیں یہ بھولے بھٹکے اور گمراہیوں میں پڑے ہو ئے لو گوں کے لیے بھی عظیم راہ اور سہارا ہے ۔اسلام نے ہمشیہ ظالم کو اسکے ظلم سے باز رکھا اور مظلوم کو اس کا حق دلا یا۔اسلام اللہ کی طرف سے ہر ایک کے لئے نازل ہوا ہے۔چھٹی صدی عیسوی  میںجس طرح سے عالم انسانیت اسلام کی راہ تاک رہی تھی وہیں آج اکسیویں صدی میں دنیا ئے انسانیت اس کی منتظر ہے۔ڈاکٹر بی، کے نارئن(Dr B.K Naryan)اسلام کے تاریخی رول کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:ــ’’ـاسلام دنیا میں اس وقت ظہو ر پزیر ہوا جب قدیم تہذ یبیں مثلاً باز نطیفی۔ایرانی اور ہند وستانی تہذ یبیں خشک ہو چکی تھیں اور ہر جگہ لوگ جابر طبقے اور ظالمانہ نظام سے نجات کے منتظر تھے۔ جو کہ قدیم تہذیبوں کی مشترکہ خصوصیت تھی‘‘۔(۱۹)
اسلام انسان کو تین طر ح کے تعلقات قائم کر نے پر زور دیتا ہے جو کہ انسانیت کی فلاح و بقا ء کے لیے انتہائی ضروری ہیں ۔ایک یہ کہ انسان کا تعلق اپنے رب کے ساتھ ہو۔دوسرا اس کا تعلق دوسرے انسانوں کے ساتھ ہو اور تیسرا اس کا تعلق اپنی ذات سے ہو ۔اس وقت دنیا میں ان تینوں تعلقات کا فقدان ہے اسی لیے ظلم و فساد ،بے اطمنانی  اور خون ریزی بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔اسلام اسی مرض کا علاج ہے۔اسلام عر ب میں مبعوث ہوا تو صرف پچاس برسوں میں پو رے عرب خطے کی حالت ہی بدل  کر رکھ دی ۔اس نے عر بوں جیسے جاہل  اور بگڑی ہو ئی قوم کو دنیا کی مہذ ب ترین قوم بنا دیا ۔یہی قوم بعد میں جہاں باں اور جہاں بین بن گئی۔اسلام مکمل نظام حیا ت ہے اس کا  ہر حکم  انسان کی فطر ت کے عین مطابق ہے جو ہر دور میں نوع انسانی کے در پیش مسائل کو حل کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ اب اسلام کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے آئیں اور دنیا کے سامنے اسلام کوایک نجات دہندہ اور واحدمتبادل کے طور پر پیش کر یں۔
قرآن مجید اور عالمگیریت
 قرآن کلام الہیٰ ہے اس کی جملہ تعلیمات عالمگیر اور ہمہ گیر ہیں ۔بنی نو ع انسان کے لیے رشد وہدایت ہی نہیں بلکہ آخر ی پیغام حق بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
 ’’ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تم پر اتاری ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے تاریکیوں سے نکا ل کر روشنی کی طر ف لاؤ۔‘‘(ابراہیم:۱)اس رب کے راستے کی طر ف جو زبروست اور حمیدہے:
تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً( الفرقان۔ ۱)
نہایت متبر ک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بند ے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے خبردار کرنے والا ہو۔    قرآن مجید ہر قوم کے لیے اور ہر زمانہ کے لیے دائمی ہدایت ہے۔اس کی تعلیمات کسی مخصوص قوم یا کسی خاص زمانے کے لیے نہیں ہیں بلکہ کل انسانیت اس کی مخاطب ہے۔ارشاد بارے تعالیٰ ہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۝۰ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ(یونس:۵۷)لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طر ف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفاء ہے اور جو اسے قبول کر ے ان کے لیے یہ رہنمائی اور رحمت ہے۔
ہر فرد اور ہر قوم قرآن مجید کا مخاطب ہے کیونکہ یہ اپنے خطاب کا آغاز الناس سے کر تا ہے۔قرآن مجید میں یا ایھاالناس کاخطاب ۱۹ مر تبہ آیا ہے ۔  (۲۰)
  سیرت محمدﷺ اورعالمگیریت
 سیرت محمد اللہ کے رسول ؐ سے پہلے جو انبیا ء کرام مبعوث ہو ئے تھے وہ کسی خاص قوم اور زمانہ کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے آئے تھے۔ان کی محدودیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ رُسُلاً إِلَی قَوْمِہِمْ ۔(سورہ روم :۴۷)اور ہم نے تم سے پہلے بھی پیغمبر ان کی قوم کی طر ف بھیجے۔حضرت محمد ؐ کسی خاص قوم،گروہ یا نسل  یا خطے کی رہنما ئی کے لیے  نہیں بھیجے گئے بلکہ پوری انسانیت کے لیے مبعوث ہو ئے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا و نذیرا۔ (سبا: ۳)
 اے نبی ؐ ہم نے تم کو سارے لو گوں کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
   اپﷺ نے ایک ایسا نظریہ پیش کیا  جو خیالی نہیں ہے بلکہ عملی ، آفاقی اور ہر لحاظ سے جامعیت کا حامل ہے۔ قرآن مجید میںایک اور جگہ آپ کی عالمگیر یت اور آفاقیت کی وضاحت ملتی ہے  ارشاد باری تعالی ہے :   قل یاایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا(سورۃ اعراف : ۲۰)
 اے نبی ؐ کہہ دیجیے کہ میں تم سب کی طر ف خدا کا بھیجا ہو ا رسول ہوں۔آپ دنیا ئے انسانیت کے لیے ہادی ،رہنما اور رحمت ہیں۔
ایک اور جگہ وارد ہے:   وَمَا أَرْسَلْنَاک رحمۃ للعامین۔ (سورۃ لانبیا ء :۷)
اللہ تعالی  نے آپ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ۔
آپ نے اپنی عالمگیر نبوت کے بارے میں ارشاد فرمایا :کان النبی یبعث الی قومہ خاصہ و ابعث الی الناس عامہ۔ (۲۱)ہر نبی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے لیکن میں تمام دنیائے انسانیت کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ آپ  پر نبوت کا سلسلہ اختتام پذیرہوا اور اب کسی نبی کا ظہور نہیں ہوگا ۔اس ضمن میں  میر ی اور مجھ سے پہلے انبیا ء کی مثال اس شخص کی طر ح ہے جس نے ایک مکان بنایا اور کہا جن وجمیل مکان بنایا لوگ اس مکان کے ارد گرد گھوم کر کہنے لگے کہ کیا ہی اچھا مکان ہے مگر اس میں ایک اینٹ نہیں ہے سو میں وہ اینٹ ہوں۔ایک اور حدیث میں اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا:
  وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون۔(۲۲) میں تمام مخلوقات کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا گیا  ہوں اور نبوت مجھ پر ختم ہو گئی۔ اللہ کے رسول ؐکی تعلیمات میں ہمہ گیر اور عالمگیر نمو نہ ہے اور آپؐ کی سیر ت ہر ایک سے کامل نمو نہ ہے۔آپ ؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا  ہو نے میں ہی عالم انسانیت کی حقیقی فلاح و کامرانی اور نجات مضمرہے۔
 امت مسلمہ اور عالمگیر یت
 امت مسلمہ ایک آفاقی امت ہے اس کی عالمگیر یت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْر ( حجرات : ۱۳)  لو گو۔ ہم نے  تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا  دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔
 تعارف کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ایک اور مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کا تعاون اور بقا باہم کا تصور اور باہمی احترام کا نظر یہ اس کے اندرشامل  ہے۔(۲۳)
 اس آیت میں عالم انسانیت کے لیے عالمگیر وحدت اور مساوات کا پیغام ہے گویا کہ اقوام عالم کی تقسیم اسلام کی نظر میں رنگ ، نسل ،علاقہ اور رسم و رواج معنی نہیں رکھتا ۔عالمی امت کے تصور کو قرآن مجید کا یہ بھی بیان ہے کہ: َ   ان ھذہ امتکم واحدۃ وانا ربکم فاتقون۔ (سورۃ المو من :53)
 یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے۔ اور میں تمہارا رب ہوں بس مجھ سے ڈرو۔
 امت مسلمہ کا اہم مشن ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
  وَکذالک جعلناکم امۃ و سطا لتکونو شحداء علی الناس ویکون السول علیکم شھیدا  ۔(البقر :43) ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسطہ بنا یا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول  تم پرگواہ ہو۔
  امت وسط سے مراد ایک ایسا اعلی اور اشرف گروہ ہے جو عدل و انصاف اور توسط کی روش پر قائم ہو جو دنیا کی قوموں میں صدرکی حیثیت رکھتا ہو۔جس کا مطلب سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق اور ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔(۲۴) قرآن مجید کے مطابق امت مسلمہ ایک بہتر ین گروہ ہے جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا  ہے۔اس عالمگیر امت کا مقصد وجود یہ ہے کہ یہ خیر و فلاح کا کام کر تے ہیں ۔اور شرو فساد سے لو گوں کو دور رکھتے ہیں اس لیے یہی آخر ی امت ہے ۔ اللہ کے رسول ؐ کا ارشاد ہے:
  اناآخر الانبیاء واتم آخرالامم۔   میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (۲۵)
  مذ کو رہ بحث سے یہ بات ظاہر ہو تی ہے کہ اسلام ہی وہ عالمگیر دین ہے جو صحیح معنوں میں حقیقی اور الہیٰ پیغام ہے۔جو دنیا ئے انسانیت کے لئے واحد نجات دہندہ ہے۔اسلام کا نصب العین آفاقی ہے اس کا خالق و مالک رب العالمین ہے اس کی کتاب یعنی قرآن مجید دائمی اور عالمگیر پیغام رحمت ہے پیغمبر اعظم عالمگیر ھادی و رہنما ہیں۔ امت مسلمہ نہ صرف خیرامت بلکہ عالمگیر امت ہے اسلام کی تعلیمات میں جملہ انسانی مسائل  کاحل موجود ہے۔جدید عالمی نظام اور گلوبلائیزیشن میں نہ کوئی ٹھوس لائحہ عمل ہے نہ ہی اس میں کسی انسانی مسئلہ کا حل ۔بلکہ یہ غریب ممالک کو اپنی مٹھی میں رکھنے کا نام ہے اس کے بر عکس اسلام کے عالمگیر نظام میں ہر لحاظ سے وسعت ہے اس کی بنیاد اور روح تو حید ہے جو کسی اور تہذ یب ،مذہب اور نظر یہ میں نہیں پایا جاتا۔ اسلام کا اپنا کائنا تی تصور (World view)ہے جو الہٰی ھدایات  پر مبنی ہے۔ امن عالم کے حوالے سے اسلام جو رہنمائی فراہم کرتا ہے۔اس کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔ اسلام میں احترام اور تکر یم انسانیت کی تعلیم تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور مساوات ،عدل و انصاف، حقوق انسانی اور عزت و عصمت کا تحفظ اس کی نما یاں خصوصیات  امتیازات ہیں۔
مصادر ومراجع
 (1) Ali Mohamadi ,edit,Islam Encountering Globlization,Routlege Eurzon london.P:1
(2) htt// wiki pedia,org/ Anti Globlization.                                                                                           
(۳) ڈاکٹر عبد العزیز عثمان،الحوارمن اجل التعایش (اردو تر جمہ مذا کرات بقائے باہم، پروفیسر محسن  عثمانی)انسٹچوٹ آف آبجکٹیو اسٹیڈ یزدہلی ،ص: 64
(۴) ائی ،او، ایس جرنل جلد 22,جنوری تا جولائی ،2000
(۵) مو لانا یا سر ند یم ،گلو بلا ئیز یشن اور اسلام،دارالکتاب دیو بند،ص:۶۰
(6) Larson thomes,The Race to the top:the real story of Globlization,Washington D C,P:9   
(7) Mortin Albrow and Elizabethking,Globlization,knowledge and Socity,london P: 9
 (۸) مقالات سیرت ،امت مسلمہ کے موجودہ مسائل ،درپیش چلیجز اور ان کا تدارک،وزارت مذ ہبی امور زکواۃ ،عشر پاکستان ص: ۶۰
(9) Roy olivier ,Globlization Islam the search for new Ummah ,columbia university press New yark p; 250
 (10)ڈاکٹر فضل الر حمن فر ید ی،دور حاضر کا کر ب اور اسلام کا نظام رحمت ،مر کز ی مکتبہ اسلای، دہلی ص 33
(۱۱)
(12) Dr. Noor Mohammad Osmani and Abu sadat ,islam cultural identity, Formation crises  and solution, HamdaradIslamicus ,Oct.December,2009,P:72                                                                                 
(۱۳)پروفیسر جہاں آرا ء ،گلوبلائیزیشن اور ہمارا نظام تعلیم، ماہنامہ میثاق،جون ۲۰۱۱،ص:۸۳
(۱۴)ڈاکٹر خالد علوی،اسلام اور عالمگیر یت ،دعوۃ اکیڈ یمی بین الاقوامی اسلام آباد ص : 17
(15)Shazadi Fakezada and Asherger chesty,Globlization and Religion  islamic  prespctive, www,savap.org.p.
(۱۶)استثنا،باب 33،آیت ۴۔بائبل سوسائٹی ہند مہا تما گاند ھی روڈ بنگلور
 (۱۷)خروج ،درس ۳ آیت ۷ تا ۱۲ بائبل سو سائٹی ہند مہا تما گند ھی روڈ بنگلور
 (۱۸) انجیل 5.24
(19)B.K Naryan ,pan islamism,Republican Books temple Road lahore 1987,p:1     
(۲۰)محمد فواد الباقی،المعجم المفہرس لا لفاظ القرآن۔دارالفکر بیروت،1987ص : ۱۱۱
 (۲۱) محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح،
 (۲۲)ڈاکٹر عبدالعزیز عثمان،الحوار من اجل التعاش۔اردو تر جمہ مذکرات برائے بقائے باہم از پروفیسر محسن عثمانی انسٹی  ٹیوٹ آف ابجیکٹو اسٹیڈیز ،ئنی دہلی صَ: ۵
(۲۳)صحیح البخاری ، کتاب الجہاد والسیر
) ۲۴)مولانا سید مودوی ،تر جمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی ،مر کزی مکتبہ پبلیشرز نئی دہلی۔ص : ۶۷ 
(۲۵) ابی عبد اللہ محمد بن یزید الر جعی،سنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن۔ باب  فتنہ الرجال
****