Search This Blog

Wednesday 12 September 2012

QURAN FAHMI AUR ASRI INKASHAFAT - DR. MUSHTAQ GANAI

اعجازِکلام اللہ
قرآن فہمی اور عصری انکشافات


قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری آسمانی کتاب ہے جو نبی کریمؐ پر نازل ہوئی۔ یہ مکمل دستور الحیات ہے اور اس کا اصل موضوع تمام انسانوں کو راہِ ہدایت پر گامزن کرناہے۔یہ اُم الکتاب جن حقائق پر روشنی ڈالتی ہے ، اُن کا بنیادی محور صحیح عقیدہ اور حسن عمل کی تلقین ہے۔ گویا قرآنِ حکیم کابنیادی مقصد انسان کے فکر ونظر اور عمل وکردارکی صحیح سمت متعین کرنا ہے۔ قرآن نے اللہ پر ایمان، اْس کی وحدانیت کے اقرار، رسالت کی ضرورت واہمیت ، قیامت اور حشر ونشر کے واقع ہونے کی معقولیت اور دوسرے اعتقادی امور کو باور کرانے کے لئے اس تمام کائنات ہی کو ایک بڑی نشانی اورواضح دلیل کے طور پرپیش کیاہے۔ واقعی جو بھی انسان بغیر کسی تعصب ،زمین ، آسمان ، چاند،سورج ، ستارے اور اس تمام کہکشانی نظام پر غوروفکر کرے گا وہ ضروران میں کائنات کی عظیم الشان نشانیوں کو دیکھے گا۔
اُمت مسلمہ کے عظیم نابغہ علامہ اقبال نے بھی اپنی تصانیف میں مدلل طور پر قرآن حکیم کی علمی اور عملی نوعیت کی طرف اشارہ کرکے قرآنی آیات بینات ہی کے حوالے سے بے شمار نشانیوں کی نشاندہی کی ہے۔اسی لئے عقل وتدبر رکھنے والے لوگ قرآنی آیات مبارکہ کے مطابق ہمیشہ ان نشانیوں کو دیکھ کر بے ساختہ پکاراْٹھتے ہیں کہ ربنا ماخلقت ھٰذا باطلاًء ( ترجمہ): اے ہمارے رب! آپ نے یہ ساری کائنات فضول پیدا نہیں کی ہے۔
علامہ اقبال اپنی فکر کے مطابق اس آیت کی توضیح کرتے ہوئے خطبات میں بیان کرتے ہیں کہ دنیا میں وسعت اور بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے بلکہ ہم کائنات میں اہم تبدیلیاں بھی دیکھتے رہتے ہیں اور لیل ونہار کی حرکت کے ساتھ ہم زمانہ کا خاموش اُتار چڑھائو کا بھی مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی بڑی نشانیاں ہیں۔اسی قرآنی حقیت کو اْجاگر کرنے کے لئے علامہ نے اپنے بلیغ شاعرانہ پیرائے میں بھی ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے ‘‘ کے عنوان سے کہا ہے   ؎
کھول آنکھ ،زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ،فضاء دیکھ!
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ!
ایام جدائی کے ستم دیکھ ، جفا دیکھ!
بے تاب نہ ہو ،معرکہ بیم ورجا دیکھ!
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گٹھائیں!
یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں
یقیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردُوں کے ستار ے  
دراصل قرآن حکیم کی تعبیرات کا کمال یہی ہے کہ اس میں قدرت کی ظاہری نشانیوں کو غیبی حقائق کے لئے بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔ ایک عام انسان بھی اس سے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق دلیل کے طور پر اخذ کرسکتاہے اور بالغ نظر دانشور،حکیم یافلسفہ دان بھی انہی الفاظ وتعبیرات میں اپنا مدعا پاکر اس پر مزید غور وفکر کرسکتاہے۔ اس طرح وہ عقلی دلائل اور براہین کی روشنی میں بھی ان حقائق کو تسلیم کرنے لگتاہے۔
کائنات کی ظاہری نشانیوں کو دلیل کے طورپر پیش کئے جانے کا یہ قدرتی نتیجہ ہے کہ اس کتاب مبین میں ضمنی طور پر مختلف علوم وفنون سے تعلق رکھنے والے مسائل کی طرف بھی اجمالاً اشارات وکنایات کئے گئے ہیں لیکن اصل مقصد ان علمی حقائق کا بیان نہیں ہے بلکہ غیبی حقائق کوتسلیم کراناہے جن کے لئے بطور دلیل ان کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید کی سورہ ’’المومنون‘‘ میں انسان کی تخلیق کے بارے میں ایک جگہ ارشاد ربانی ہے۔
ترجمہ: ’’ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا ، پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ میں نطفہ بنایا پھر ہم نے اس نطفے سے خون کا لوتھڑا بنایا۔ پھر اس خون کے لوتھڑے سے گوشت کی بوٹی بنایا ، پھر گوشت کی بوٹی کوہڈی بنایا ،پھر ہم نے ہڈیوںپرگوشت چڑھایا ، پھر ہم نے اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنادیا۔ کیسی شان والا ہے اللہ تمام صناعوں سے بڑھ کر ‘‘۔ 
اس آیت قرآنی میں جوحقیقت بیان کی گئی ہے جدید علم الجنین (Embroyology)سے حرف بہ حرف اس کی تصدیق ہوتی ہے اوریورپ کے بڑے بڑے اطباء یہ جان کر حیران ہوتے ہیں کہ ان حقائق کا اظہار چودہ سوسال پہلے کس طرح کیا گیا ہے۔لہٰذا بے شک یہ بھی قرآن پاک کا ایک بہت بڑا علمی اعجاز ہے جس کا مقصد اللہ کی قدرت او رشان تخلیق کا اظہار ہے لیکن یہ بھی ایک بین حقیقت ہے کہ اس بنیاد پر ہم قرآن کو "Embroyology"کی کتاب قطعاً قرار نہیں دے سکتے ہیں اور نہ ہی اس علم کی تمام جزوی تفصیلات کو جو ابھی تکمیل طلب ہیں قرآن پر مسلط کرسکتے ہیں بلکہ قرآن حکیم کی شان کتاب ہدایت کی رہے گی اور علمی اعجاز اس کی صداقت کی دلیل۔ دراصل کسی جدید یا قدیم انسانی علم کی فنی جزئیات سے اسی حد تک اس کا رشتہ جوڑا جاسکتاہے جو اس کے بنیادی مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔ اس کے بعد وہ قطعی اور یقینی بھی ہو۔
اس حقیقت کی مزید تشریح وتوضیح کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں واضح طور پر کہاہے کہ سائنس ابھی اْن حقائق تک مکمل طور پر نہیں پہنچ پایا ہے جن حقائق اور واردات کی نشاندہی قرآن نے آج سے چودہ سوسال پہلے کرکے رکھی ہے ،اس لئے کہ سائنسی انکشافات واخترافات بدلتے رہتے ہیں۔ آج ایک سائنسی ایجاد حقیقت دکھائی دیتی ہے کل وہی مفروضہ ثابت ہوتی ہے۔
قرآن کے سورہ السجدہ آیت نمبر 53میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: ’’عنقریب یہ ہماری نشانیاں آفاق میں بھی دیکھیں گے اور اپنے آپ میں بھی ، یہاں تک کہ انہیں معلوم ہوجائے گاکہ یہ حق ہے یعنی ہم عنقریب انہیں دْنیا میں بھی اپنے نمونے دکھلائیں گے ‘‘۔ 
اسی طرح ایک حدیث ہے کہ رسول رحمت ؐ کے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور یہ خبر دی کہ آئندہ آنے والے دور میں فتنے اُٹھیں گے۔ آپؐ نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ اس سے نکلنے کا راستہ کیاہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب یعنی قرآن حکیم۔ اس میںآپؐ سے پہلے کی خبریں بھی ہیں او رآپؐ کے بعد جو کچھ پیش آنے والا ہے اس ک بھی خبریں ہیں۔
اللہ کے بھیجے ہوئے دین حنیف یعنی اسلام میں قیامت تک کی باتیں چھپادی گئی ہیں اور لازم ہے کہ یہ باتیں ہردور میں ظاہرہوجائیں گی تب ہی ہم اس کی آیات پر غور وفکر کرکے اجتہادی کاوشیں تیز کرسکتے ہیں۔ تاریخ کے آئینے میں اس کی ایک اہم مثال ہم یوں پیش کرسکتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت کا مصری مغرور بادشاہ فرعون سمندر میں غرق کردیا گیا اور قرآن میں فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا : ’’پس آج ہم تیرے بدن کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لئے عبرت بنے رہو او ربے شک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ‘‘۔ 
اس آیت مبارکہ کے مطابق فرعون کا جسم معجزاتی طور پر محفوظ رکھا گیا تاکہ اہل اسلام اس صداقت کا استعمال کرکے بعد کی نسلوں کے سامنے کتاب اللہ کی صداقت کا ثبوت پیش کرسکیں مگر آج تک ملت مسلمہ میں سے کوئی فرد اس اہم ترین قرآنی صداقت پر عملی اور تحقیقی انداز سے غوروفکر نہیں کرسکا،یعنی اتنی صدیاں گزرنے کے بعد بھی مسلم علماء اس نشانی پر پردہ نہ اٹھاسکے اور نہ ہی مزید غورو فکر اور جستجو کرسکے تاکہ قرآن کی ایک ناقابل انکار صداقت کے طور پر اس فرعونی جسم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے متحمل ہوسکتے۔ یہاں تک کہ ایک فرانسیسی اسکالر پروفیسر لورٹ (Lort) نے 1898ء میں فرعون کے اس محفوظ جسم کو اہرام کے اندر سے نکالا۔ پھر اس ممی کئے ہوئے جسم کو قاہرہ کے میوزیم میں رکھا گیا۔ اس کے بعد پہلی بار 1907ء کو پروفیسر سمتھ(Ellist Smith) نے اس جسم کے غلاف کو کھول کر اس کا مشاہدہ اور مطالعہ کرکے اس پر"The Royal Mummies" نام کی کتاب تصنیف کی۔
اس کے بعد ایک فرانسیسی دانشور ڈاکٹر موریس بکائی نے اس دریافت شدہ مواد (Material)کواسلام کی صداقت کیلئے استعمال کیا۔ موریس بکائی 1975ء میں خود قاہرہ گیا اور وہاں اس نے براہِ راست طور پر میوزیم میں اس کا مطالعہ کیا۔ اس معاملہ کی کامل تحقیق وتفتیش کے لئے بکائی نے باضابطہ عربی زبان وادب سیکھی۔ پھر اپنی بھرپورتحقیق کے بعد اپنی شاہکار تصنیف فرانسیسی زبان میں رقم کی۔
اس طرح قرآن کی مذکورہ پیشین گوئی کو علمی اور عملی طور پر ثابت کرنے والا ایک غیر مسلم عالم یا دانشور بن گیا جوبعد میں مسلمان ہوا۔اس کو اللہ کی طرف سے یہ توفیق نصیب ہوئی کہ وہ اس قرانی صداقت کو تمام دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اہل ہوا کہ وہ لوگ جو اس مقدس کتاب یعنی قرآن پاک کی سچائی کیلئے جدیدثبوت چاہتے ہیں وہ قاہرہ کے مصری میوزیم میں شاہی ممیوں کے کمرہ کو دیکھیں وہاں وہ قرآن کی اُن آیات کی شاندار عملی تصدیق پالیں گے جو کہ فرعون کے جسم سے متعلق ہیں۔
یہاں ہمیں رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک فرمان پر بھی نظر رکھنی چاہئے جو صحیح البخاری کتاب الجہاد میں مذکورہے اورجس میں رسول اکرمؐ فرماتے ہیں کہ :’ ’اللہ کسی فاجر شخص کے ذریعہ بھی اس دین حنیف کی مدد فرمائے گا ‘‘۔ 
اس حدیث مبارکہ پر غور وفکر کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اگر ایک فاجروفاسق انسان کے اندر غوروفکر کی صحیح اسپرٹ موجود ہو تو وہ بڑے بڑے تخلیقی کارنامے انجام دے سکتاہے اور اس کے برخلاف ایک مسلمان ومومن اگر اس صلاحیت او رصلابت سے محروم ہو تو اس دنیا میں وہ کوئی بڑا معرکہ قطعاً انجام نہیں دے سکتا۔ لہٰذا ہمیں یہاں سوچ بچار کرنا چاہئے کہ ہم کیوں لایعنی اور فضول باتوں اورفروعات پر اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں۔علامہ اقبال نے بھی غالباً اسی صداقت کے پس پردہ اپنے یہ اشعار رقم کئے ہیں کہ   ؎
کافر بیدار دل پیش صنم
بہ زدیندار کہ خفت اندرحرم
یا
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مردِ مسلمان بھی کافر وزندیق
اسی لئے علامہ اقبال کے نزدیک قرآن حکیم عظیم الشان نفسیاتی اور ذہنی انقلاب کا مظہرہے جس نے ہر دور کے ذی حس اور باصلاحیت نابغائوں  (Genius Personalities )کو زبردست متاثر کیا ہے۔ اپنے انگریزی خطبات یعنی "The Reconstruction of Religious Thought in Islam"کے پہلے لیکچر میں علامہ اسی حقیقت کی پردہ کشائی کرتے ہوئے گوئٹے اور ایکرمین کی مثال دیتے ہوئے یوں قرآن کی علمی عظمت اُجاگر کرتے ہیں۔
"The main purpose of the Quran is to awaken in man the higher consciousness on his manifold relations with Allah and the universe. It is in view of this essential aspect of the Quranic teachings that Goethe, while making a general review of Islam as an educational force, said to Eckermann; you see this teaching never fails; with all our systems, we cannot go, and generally speaking no man can go, farther than that.
اس خطبے میں اقبالؒ اسی حقیقت کی طرف واضح اشارات کرتے ہیں کہ قرآن حکیم کا مقصد مشاہدات فطرت کے اندر پنہاں حقائق کا شعور انسان کے دل ودماغ میں پیدا کرناہے۔لیکن قرآن کا اندازِ بیان اور طریق فکر مسلمانوں کو واقعات وحقائق پر عملی وتجرباتی اسلوب سے غور وفکر کی دعوت دیتاہے ،جس پر لبیک کہہ کر ماضی میں مسلمانوں نے جدید سائنس کی بنیاد ڈالی۔ یہ کام انہوں نے اْس دور میں انجام دیا جب لوگوں نے حق کی تلاش کیلئے مظاہر کو عبث سمجھ کر ترک کردیاتھا۔ قرآن نے خارجی تغیرات سے نبردآزما ہوکر اپنی اندرونی قوتوں کو اْبھارنے کی طرف انسان کی توجہ مبذول کرائی۔ اس طرح انسان عارضی چیزوں سے نمٹ کر دائمی وجود کی جانب مائل ہوئے۔
رسول مقبولؐ نے اس طریق تعلیم کو فرض قرار دے کر اور علم کو اپنا ہتھیار بتلا کر اُمت کے ہرفرد کو غوروفکر کی ترغیب دے دی۔اسی علم وفکر کی ترغیب اور اسی ذہنی انقلاب کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان سیاست ، تہذیب او رتمدن کے علاوہ علم وفن کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے گئے اور کوئی پانچ سوسال تک علمی دنیا پر پورے آن بان کے ساتھ چھائے رہے۔ مشاہدے اور نظریے کے اسی امتزاج (Synthesis)سے جدید سائنس کی بناء مسلم علماء اور دانشوروں نے رکھی۔علامہ اقبال اسی لئے قرآن وسائنس یا کتاب وحکمت دونوں چیزوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں   ؎
برگ وساز ماکتاب وحکمت است
ایں دو قوت اعتبارِ ملت است
آں فتوحات جہان ذوق وشوق
اہل فتوحات جہان تحت وفوق
قرآن حکیم ایک ایسا لافانی معجزہ ہے جس میں دنیا ئے عالم کو اللہ کی طرف سے یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسی ایک سورت یا آیت بنا کرپیش کیجئے۔یہ چیلنج پچھلے پندرہ سوبرسوں سے برابر برقرار ہے۔ یہ ایک عظیم الشان اعجاز ہے قرآن حکیم کا اور علامہ اقبال کے نزدیک قرآن مجید کی قوتِ تاثیر کی تعلیمات اس کا سب سے بڑا وجہ اعجاز ہے   ؎
نسخۂ اسرارِ تکوین حیات
بے ثبات از قوتش گیردثبات
حضرت عمرفاروق ؓ کے ایمان لانے کے تاریخی واقعہ کو علامہ اقبال اس قرآنی قوتِ تاثیر اور تعلیمات کا اعجاز قرار دیتے ہوئے یوں نغمہ سنج ہیں   ؎
زشام ما بروں آور سحر را
بہ قرآں بازخواں اہل نظر را
تو میدانی کہ سوزِ قرأتِ تو
دِگر گوں کرد تقدیر عمرؓ را
علامہ اقبال کی نظر میں قرآن کوئی ایسی نظریاتی کتاب نہیں ہے جوانسان کی زندگی یا اس کائنات کی وسیع اور تہہ در تہہ پنہائیوں سے لاتعلق ہو بلکہ قرآن رشد وہدایت کے پورے نظام کوزندگی اور کائنات کے حوالے اور ان کے تقاضوں سے ترتیب دیتاہے۔ قرآنی تعلیم وتربیت کے مطابق انسان اور کائنات کی تخلیق بغیر کسی مقصد کے عمل میں نہیں لائی گئی بلکہ اس کائنات کا ہر ایک مظہرکسی نہ کسی پوشیدہ حقیقت کے اظہار کا نام ہے اور ان پوشیدہ مظاہر کے ظاہر ہوتے ہی اہل علم تفکر وتدبر کے بعد قرآنی الفاظ ہی کے مطابق پکار اْٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب! آپ نے اس کائنات کو عبث پیدا نہیں کیا۔ مظاہر کائنات او رشخصیت انسانی کے متعلق یہی مثبت اور اجتہادی نظریہ قرآنی اسپرٹ کی ایک بہترین توضیح ہے جو علامہ اقبال اپنے ایک انگریزی مقالہ میںیوں پیش کرتے ہیں۔
"In the words of the Quran, the universe that confronts us is not "batil". It has its uses, and the most important use of it is that the effort to overcome the obstruction offered by it sharpens our insight and prepares us for an insertion into what lies below the surface of phenomena."
علامہ ملت اسلا میہ کو اسی لئے فروعات میں اْلجھنے کے بجائے روح قرآن تک پہنچنے کی ترغیب دیتے ہیں اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق قرآن کی طرف مجتہدانہ توجہ کرنے کی اشد ضرورت پر زور دیتے ہیں۔آپ فقر قرآن اختیار کرنے یعنی سادگی ، پاکیزگی اور ایثار وغیرت پر مبنی معاشرہ کی تعمیر وتشکیل نو کے لئے انفرادی واجتماعی ذمہ داریوں کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے ملت کو یہی پیغام دیتے ہیں    ؎
فقر قرآن احتساب ہست وبود
نے رباب ومستی و رقص و سرود
فقر مومن چیست ؟ تسخیر جہات
بندہ از تاثیر او مولاصفات
فقر کافر خلوت دشت ودراست
فقر مؤمن لرزۂ بحر و براست  
ترجمہ:قرآن کا فقر ہست وبود کا احتساب کا نام ہے۔یعنی کائنات اوراس میں جو کچھ موجود ہے،اس کا حساب رکھنا ہے ۔ اس کے اچھے بُرے کو پرکھنا ہے نہ کہ راگ اور رنگ میں مست ہوناہے جو کہ آج کل مشاہدے میں آتا رہتاہے ۔
مومن کا فقرکیا ہے؟یعنی مومن کے فقر سے کیا آپ واقف ہیں ؟ مومن کا فقر کائنات کو تسخیر کرناہے ۔ اپنے تصرف میں لانا ہے ۔ اس پر چھاجاناہے ،اسی فقر سے اللہ کے ایک بندے میں اُس کی صفات عالیہ پیدا ہوسکتی ہیں،جب کہ کافر کا فقر بیابان اور گھر میں تنہا رہنے کا نام ہے ،اس کے برعکس مومن کافقر بحر وبر یعنی خشکی اور تری پر لرزہ طاری کرتاہے یا تمام بحر وبر کو متحرک بناتاہے ۔

MARDANE HAQ

مردانِ حق


یہ بات تاریخی بھی ہے او رسینہ بہ سینہ بھی نقل ہوتی چلی آرہی ہے کہ جب لل دید(لل عارفہ)عالمِ جذب میں برہنہ پھرتی رہتی تھی تواُسی زمانے میں میر سید علی ہمدانی امیر کبیرؒ نے وادیٔ کشمیر کو اپنی قدم بوسی کا شرف بخشا۔ جوںہی ایک دن لل عارفہ کی نظر حضرت امیرؒ پر پڑی تو وہ چلّا اُٹھی کہ ’’مردآگیا ، مرد آگیا ‘۔ اس لئے ستر پوشی کے لئے ایک دُکان میں گھس گئی ۔ وہاں دُکاندار سے جھڑک کھائی اور بھاگ کر ایک نانبائی کے جلتے ہوئے تنور میں چھلانگ لگائی۔نانبائی نے خوفزدہ ہوکر تنور کے دہن کو ڈھکن سے ڈھک لیا۔ پھر اچانک لل دید ملبس ہوکر تنور سے نکلی اور حضرت امیرؒ کے پاس جاکر سلام کیا۔ اس مناسبت سے کشمیر ی میں یہ ضرب  الامثال بن گئیں : ’’آئے یہ وأنس ، گیہ کاندرس‘‘…… ۔(یعنی دولت آئی تھی دُکاندار کے لئے لیکن گئی نانبائی کے گھر۔اس لئے مال اور دولت کے لحاظ سے اگر دُکاندار کوہفتے میں ایک بارلُوٹا جائے تو مضائقہ نہیں لیکن نانبائی کو ہر روز بھی لُوٹا جائے تو غم نہیں۔) کسی کواس واقعے میں التباس ہوسکتاہے لیکن مجھے نہیں ہے کیونکہ اللہ کے خاص بندوں کے لئے بھی بعید از فہم کام کر دکھانا مشکل نہیں ہے اگرچہ وہ عام طور پر ایسا نہیں کرتے کیونکہ ’’اس دنیا‘‘ کے باسیوں میں خدا شناسی تو ہوتی ہے لیکن خودنمائی نہیں ہوتی ۔ یہ لوگ نام ونمود کی خواہش نہیں رکھتے جو عام انسانوں کا شیوہ ہوتاہے ۔بات یہ نہیں کہ لل کے زمانے میں وادیٔ کشمیر میں کوئی مرد نہیں تھا ،بلکہ ’’مردانِ حق‘‘ بہت کم تھے جن سے پردہ کرنا لل عارفہ نے ضروری نہیں سمجھا!
بہت سارے لوگ جانتے ہوں گے کہ شمس تبریزیؒ ایک بلند پایہ فقیر تھا اور مجذوب بھی اور حضرت مولانا رومیؒ اُن کے معتقدِ خاص تھے۔یہ بھی بہت سارے لوگ جانتے ہوں گے کہ علامہ اقبال ؒ مولانا رومیؒ کو اپنا روحانی مرشد مانتے تھے ۔ و ہ فرماتے ہیں   ؎
مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزیؒ نہ شُد
(مولو ی یعنی مولانا رومیؒاُس وقت تک ہرگز ’’مولائے روم‘‘ نہ بن سکا جب تک نہ وہ شمس تبریزیؒ کے غلام بن گئے ۔)
مولانا رومیؔ کے کلام ’’مثنوی مولانا روم‘‘ کے بارے میں جامیؔؒ نے فرمایاہے   ؎
مثنویٔ مولویٔ معنوی
ہست قرآں در زبانِ پہلوی
(مولانا رومؒؔ کی مثنوی اصل میں قرآن ہے جس کو فارسی میں لکھا گیا ہے۔)
عام لوگ شمس تبریزیؒ کو ’’پاگل دیوانہ مجذوب‘‘ مانتے تھے کیونکہ اُن کی حرکتیں عقل وخرد کی دُنیا کے اصولوں سے ٹکراتی تھیں ۔ روایات کے مطابق ایک روز شمس تبریزیؒ دن میں چراغ جلائے راستے پر جارہے تھے ۔ لوگ اُن پر فقرے کستے جارہے تھے اور شریر بچے پتھر اُچھالتے جارہے تھے کہ ’’دیکھو! دیوانہ سورج کی روشنی میں چراغ جلائے چل رہاہے !‘‘شمسؒ اس سب سے بے نیاز آگے ہی آگے جارہے تھے کہ مولانا رومیؒؔ اُن کے سامنے آگئے ! وہ اُن دنوں پابندِ شریعت عالم دین اور مردحق تھے ۔ انہوں نے شمسؒ کو روکا اور پوچھا: ’’حضرت ! چراغ جلائے کسے تلاش کررہے ہیں؟‘‘
شمس نے جواب دیا : ’’تجھے تلاش کررہا تھا ، سوتم مل گئے !!‘‘ اور پھر مولانا شمس تبریزیؒ کے غلام بن کے رہ گئے اور ’’ولی را می شناسد والی بات ہوگئی !(ولی کو ولی ہی پہچانتاہے۔)
مجذوبوں درویشوں کی دنیا بڑی ہی پُراسرار ہوتی ہے ۔ ان اسرار کو جاننے کا جو کھم وہی لوگ اُٹھاتے ہیں جن کو عقل سے دشمنی ہوتی ہے اور عقل کے دشمن جذب وشوق کی وسعتوں اور گہرائیوں کو کبھی نہیں جان سکتے ۔ حضرت علامہ نے درویشوں کی دنیا سے متعلق فرمایا ہے   ؎
جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس ان کی
اِلٰہی! کیا چھپا ہوتاہے اہلِ دل کے سینوں میں
تمنّا دردِ دل کی ہوتو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
 نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
 یدِ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں !
ترستی ہے نگاہ ِنار سا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کی ہے انہیں خلوت گزینوں میں
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمنِ دل کو
کہ خورشیدِقیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں

ضروری نوٹ:- کشمیر یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب نے میرے کالم ’’رنگِ حیات ‘‘ کے تحت چھپے مضمون ’’ماس‘‘ میں ’’نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں…‘‘ کے سلسلے میں اعتراض کیا تھاکہ یہ شعر علامہ اقبالؒ نے درویشوں سے متعلق نہیں کہاہے ۔ ان سے عرض ہے کہ وہ مندرجہ بالا اشعار کو ’’بانگ درا‘‘ میں پڑھ کراپنی تشفی کرسکتے ہیں ۔
(’’کلیاتِ اقبال، اردو ،صدی ایڈیشن، صفحہ نمبر104،)
-----------------------
رابطہ:-سیر جاگیر سوپور(کشمیر)؛
 ای میل : armukhlis1@gmail.com
 موبائل: 9797219497

GENERAL KAMZORI

جنرل کمزوری


 سرکاری ہسپتالوں ،نرسنگ ہوموں او رڈاکٹروں کے پرائیوٹ کلینکوں میں حاضری دینے والے مریضوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ان مریضوں کی ہوتی ہے جنہیں ’’کمزوری‘‘ کی شکایت لاحق ہوتی ہے لیکن ڈاکٹروں سے مشورہ کرنے سے قبل ایسے مریض ’’ ہر قسم کے نسخے‘‘آزما چکے ہوتے ہیں ۔ چالیس سالہ تاجر عبدالحمید کو محسوس ہورہا تھاکہ وہ روز بروز کمرور ہوتا جارہاہے ، اس نے اپنی کمزوری دور کرنے کے لئے انواع واقسام کے رنگ برنگی انجکشن لگوائے ، ڈھیر ساری اشتہاری ادویات کا استعمال کیا مگر کمزوری دن بدن بڑھتی چلی گئی اور آخر کار اسے ہسپتال میں بھرتی ہونا پڑا جہاں آزمائشات کے بعد اسے سرطانِ معدہ کا مریض قرار پایا گیا ۔
            ظریفہ بیگم کئی ماہ سے محسوس کررہی تھی کہ وہ کمزورہوتی جارہی ہے ، کوئی بھی کام شروع کرنے کے چند لمحوں بعد وہ خستہ ہوکر لیٹ جانے کے لئے مجبور ہو جاتی ۔ اس کے شوہر نے دوافروشوں سے کئی قسم کے ’’ٹانک‘‘ اور لال پیلے انجکشن خرید کرلائے اور اپنی بیوی پر آزمائے مگر سب بے سود۔ جب کمزوری دن بدن بڑھتی گئی تو ظریفہ بیگم کو اسپتال پہنچایا گیا جہاں اسے سرطان خون کا مریض قرار دیا گیا ۔
            شریفہ بانوہر وقت تھکی تھکی سی ،کھوئی کھوئی سی رہتی تھی۔ اسے ہر وقت یوں محسوس ہوتاتھاجیسے اسکی ٹانگوں میں ’’جان‘‘ ہی نہیں ہے ۔ وہ گھر میں روزمرہ کے کام انجام دینے میں بھی دشواری محسوس کرتی تھی ۔اس کی بھوک میں نمایاں کمی ہوچکی تھی مگر وزن میں اضافہ ہورہا تھا ، جو کوئی اسے دیکھتا ، اس سے فوری کہتا ،’’ تم تو پھول گوبھی کی طرح پھولتی جارہی ہو‘‘…اس کے باپ نے اس کے لئے طاقتی دوائیاں لائیں ، لوکل دوافروش نے ڈھیرسارے طاقتی انجکشن تجویز کئے مگر کمزوری کے ساتھ ساتھ احساس خستگی دن بدن بڑھتا ہی گیا ۔ تنگ آکر اس کی ماں اسے ایک ماہر معالج کے پاس لے گئی ، ڈاکٹر نے کئی ٹیسٹ تجویز کئے …رپورٹوں کو دیکھ کر پتہ چلا کہ شریفہ بانو ہایپوتھائیرایڈزم بیماری میں مبتلا ہے۔
            پچاس سالہ عبدالرحیم کوکئی ماہ سے لگ رہا تھاکہ وہ دن بدن کمزور ہوتا جارہاہے ۔ وہ محلے کی گلی کے نکّڑ پر دوافروش کے پاس گیا ، جس نے فوری طور پر فتویٰ صادرکیا کہ عبدالرحیم کی ’’جنرل کمزوری‘‘ کی وجہ یہ ہے کہ ’’اس کی جسم کی ساری رگیں خشک ہوچکی ہیں اور اس کو تر وتازہ کرنے کے لئے کم از کم ’’چار بوتلیں گلوکوز‘‘ لازمی ہیں ‘‘۔ عبدالرحیم کودکان کے اندر گندے بیڈ پر لٹایا گیا اور صرف ایک گھٹنے میں گلوکوز کی چار بوتلیں عبدالرحیم کے جسم کے اندر پہنچا دی گئیں۔جب عبدالرحیم کھڑا ہو تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ اسپتال میں بھرتی ہونے کے بعد پتہ چلا کہ اس کا بلڈ شوگر چار سو دس گرام فی ڈسی لیٹر اور بلڈ پریشر 180/110ہے ۔ اس پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور وہ اب چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہاہے۔
            حامد علی ایک نوجوان گریجویٹ ہے ، چند ماہ بے کار رہنے کے بعد وہ ’’جنرل کمزوری‘‘ محسوس کرنے لگا ، اس نے کئی اشتہاری ادویات استعمال کیا اور کئی طاقتی انجکشن لگوائے ،کئی نیم حکیموں ، دوافروشوں اور غیر سند یافتہ معالجوں کے ساتھ مشورہ کیا جنہوں نے اس کے لئے صرف ٹانک ،طاقتی کیپسول اور ’’پاور انجکشن‘‘ تجویز کئے ۔ کمزوری کے ساتھ ساتھ اس کی نیند بھی کم ہوگئی وہ ہر وقت اُداس اور گم صم رہنے لگا۔ اور اسے احساسِ تنہائی ستانے لگا ۔ اس کا دوست اسے کسی ماہر اور سند یافتہ معالج کے پاس لے گیا جس نے تفصیل کے ساتھ اس کی داستانِ غم سنی اور پھر مفصل معائنہ کیا …اور معالج نے اسے ڈپریشن کا مریض قرار دیا… صرف  تین ہفتہ ادویات کا استعمال کرنے کے بعد حامد علی کی کمزوری دور ہوگئی اور وہ اپنے آپ کو چست اور توانا محسوس کرنے لگا ۔
            کمزوری کا احساس کوئی بیماری نہیں بلکہ کسی خاص بیماری کی ایک علامت ہے ۔ اکثر لوگ کمزوری کو ایک مرض تصور کرتے ہیں او راسے دور کرنے کے لئے ہر قسم کی طاقتی دوائیاں آزماتے ہیں ۔ ان ادویات سے ’’کمزوری‘‘ دور ہونے کا نام نہیں لیتی ہے ہاں کچھ ایسی پیچیدگیاں شروع ہوتی ہیں جو مریض کو عمر بھر تڑپاتی ہیں ۔
            کمزوری اور تھکن کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنا ناممکن ہے لیکن پھر بھی یہ ضروری ہے کہ مریض اپنے معالج سے یہ کہہ دے کہ ’’وہ کمزوری محسوس کررہاہے یا کوئی نہ  کوئی کام شروع کرنے کے بعد جلدی تھک جاتاہے‘‘۔
            جب جسم کے عضلات کی کارکردگی میں نمایاں کمی واقع ہو جائے اور کوئی روز مرہ کام کرنے کے لئے ’’اضافی زور‘‘ لگانا پڑے تو کہا جاسکتا ہے کہ فرد’’ کمزوری ‘‘کا شکار ہواہے ۔
            ’’جنرل کمزوری‘‘ اور تھکن دونوں کو ایک ساتھ استعمال میں لایا جاتاہے لیکن پھر بھی مریض سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ ’’جنرل کمزوری ‘‘ سے اس کی کیا مراد ہے ۔ اکثر عورتیں ڈاکٹروں سے یہ خواہش ضرورکرتی ہیں کہ ان کے شوہر ’’جنرل کمزوری‘‘ کے شکار ہیں ، اس لئے ان کے لئے کوئی طاقتی دوا تجویز کی جائے یعنی بیویوں کو شوہروں کی فکر ہروقت لاحق رہتی ہے ۔ میں نے اپنی میڈیکل پریکٹس میں کبھی کسی مرد کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا ہے ’’ڈاکٹر صاحب میری بیوی کمزور ہوگئی ہے اس کے لئے کوئی ٹانک لکھ دیجئے ‘‘ جبکہ اکثر عورتیں (جو خود مریض ہوتی تھیں) مجھ سے یہ کہا ہے ’’ڈاکٹر صاحب ان کے لئے کوئی ٹانک لکھ دیجئے نا ، یہ بہت کمزور ہو گئے ہیں ‘‘۔ یہ بات توجہ طلب بھی اور غور طلب بھی ہے ۔ آپ غور کیجئے اور جنرل کمزوری کے وجوہات پڑھئے۔
وجوہات:
            ٭ڈپریشن: دورحاضر میں ڈپریشن ایک عام بیماری ہے جو بھی اس بیماری میں مبتلا ہوگا وہ ’’جنرل کمزوری‘‘ یا کسی اور خاص کمزوری کا شکار ہوگا ۔ ڈپریشن میں مبتلا مریض ہر وقت یہ محسوس کرتاہے کہ اس کے ’’اندر‘‘ توانائی ختم ہوچکی ہے اور وہ کوئی بھی کام انجام دینے کے قابل نہیں ہے ، وہ ہر وقت اپنے آپ کو تھکا ہوا اور ’’گرا ہوا‘‘ محسوس کرتاہے ، کوئی کام شروع کرنے کے بعد اس پر عجیب قسم کی غنودگی طاری ہوتی ہے اور وہ کام ادھورا چھوڑ کر حالت ِ اضطراب میں ٹہلنے لگتاہے یالیٹ کر سونے کی کوشش کرتاہے مگر اس کی تھکن دور نہیں ہوتی ہے اور و ہ پریشان ہوکر سوچنے لگتاہے کہ اس کی کمزوری کی کیا وجہ ہے ۔ اگر جنرل کمزوری کے ساتھ ساتھ آپ کو لگتاہے کہ آپ کی نیند آپ سے روٹھ گئی ہے ، آپ کی یاداشت آپ سے بے وفائی کررہی ہے ، آپ کی خوشیاں آپ کو نظر نہیں آتی ہیں اور آپ کی بھوک کم زیادہ ہوتی جارہی ہے تو آپ کسی ماہر معالج سے مشورہ کریں کیونکہ آپ ڈپریشن جیسی قابل علاج بیماری میں مبتلا ہیں ۔
            ٭ تھائیرائیڈ : ٹھائیرائیڈ گلینڈ سے ہمارے جسم کے سبھی خلیات کی منظم کارکردگی کے لئے ایک ہارمون ترشح ہوتاہے ۔ یہ ہارمون جسم کو توانائی استعمال کرنے میں ’’راہ نمائی‘‘ کرتاہے ۔ اگر یہ ہارمون کم مقدر میں ترشح ہونے لگے تو فرد ’’ مرضِ ہایپوتھائیرایڈزم‘‘ میں مبتلا ہوجاتاہے ۔ اس مرض میں مبتلا مریض ہر وقت ’’جنرل کمزوری‘‘ اور تھکن محسوس کرتاہے ۔ کمزوری کے علاوہ مریض درج ذیل علائم کا اظہار کرتاہے ۔ زودخستگی ، وزن میں اضافہ ، ڈپریشن ، یاداشت میں خلل، قبض ، جلد کی خشکی اور کھردراپن ، سردی کا حد سے زیادہ احساس ، بالوں کا گرنا اور بالوں کی چمک کا کم ہونا ،ناخنوںکا کھردراپن ، جلد کا زردی مائل ہونا ۔
            اگرتھائیرایڈگلینڈ ، ہارمون تھائیراکسین زیادہ مقدار میں ترشح کرنے لگے تو فرد مرض ’’ہایپرتھائیرایڈزم‘‘ میں مبتلا ہوجاتاہے ۔اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد مریض جنرل کمزوری محسوس کرنے کے علاوہ درج ذیل علائم محسوس کرتاہے۔
            ٭جلدی تھکاوٹ کا احساس٭ وزن میں کمی ٭رفتار قلب میں تیزی اور بے اعتدالی ٭گرمی کا حد سے زیادہ احساس٭ اکثر اوقات بدن کا پسینے میں شرابور ہونا٭چڑچڑا پن ٭عضلات کی کمزوری اورگردن کے سامنے والے حصے میں اُبھار کا نمودار ہونا ۔
خون کی کمی: کوئی بھی لڑکی یا عورت کمزوری محسوس کرے تو اسے خون کی جانچ کروانی چاہئے ۔ کشمیر میں اٹھانوے فیصد عورتیں خون کی کمی میں مبتلا ہیں ۔ سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم لڑکیوں اور حاملہ عورتوں میں اس بیماری کی شرح اور بھی زیادہ ہے ۔جسم کے خون میں موجود سرخ خلیات کے اندر ہیموگلوبن کی کمی سے دماغ اور جسم کے باقی خلیات اور نسیجوں کو صحیح مقدار میں آکسیجن نہیں ملتاہے
            اسلئے خون کی کمی میں مبتلا ہرعورت جنرل کمزوری محسوس کرنے کے علاوہ ہروقت اُداس ،کھوئی کھوئی اور پریشان سی رہتی ہے ۔ اس لئے اگر کوئی لڑکی یا شادی شدہ عورت کمزوری کی شکایت کرے تو فوری طور CBCیعنی خون کی مکمل جانچ کروانا لازمی ہے تاکہ یہ مشخص ہو کہ اس کا ہیموگلوبن کتنا ہے اور کس قسم کی ’’خون کی کمی‘‘ میں مبتلا ہے ۔ خون کی کمی کو پورا کرنے کے بعد کمزوری خود بخود دور ہو جائے گی۔
            جسم میں لازمی نمکیات سوڈیم اور پوٹاشیم کی کمی سے احساسِ کمزوری ہوسکتاہے ۔ اگر کسی وجہ سے جسم کے لئے ضروری نمکیات میں ’’بے اعتدالی‘‘ وجود میں آئے تو فرد کمزوری محسوس کرے گا ۔
            گولین بیری سنڈروم: یہ نسوں کی ایک خاص بیماری ہے جس میں مبتلا مریض ٹانگوں اور بازوئوں میں بے حد کمزوری محسوس کرتاہے ۔ یہ بیماری دھیرے دھیرے عضلات پر اثر انداز ہوکر مریض کو ناکارہ بنا دیتی ہے ۔
            حساسیت: جو لوگ کسی الرجی (حساسیت) کے شکار ہوتے ہیں اور اس پر قابو پانے کے لئے ضد حساسیت ادویات کا استعمال کرتے ہوں وہ اکثر اوقات ’’جنرل کمزوری‘‘ محسوس کرتے ہیں اس لئے اگر آپ کسی الرجی کے شکار ہیں اور کوئی دوا لے رہے ہیں تو آپ کی کمزوری کی وجہ اس دوائی کے اثرات جانبی ہیں ۔ گھبرائیے نہیں لیکن پھر بھی اپنے معالج سے صلاح مشورہ کرلیں شاید وہ کوئی متبادل ، دوائی تجویز کرے جس سے کمزوری کا احساس کم ہو ۔
            جسم میں پانی کی کمی : ماہرین کی رائے ہے کہ جب جسم میں پانی کی تعداد کم ہو جاتی ہے تو جسمانی کارکردگی بھی متاثر ہوجاتی ہے ۔ جسم میں پانی کی کمی سے خون کا حجم بھی کم ہوسکتاہے (جسم کے اعضاء آکسیجن کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں) اور اس کے نتیجے میں کمزوری کا احساس ہوسکتاہے ۔ دن میں دس بارہ گلاس پانی پینے سے جسم میں پانی کی کمی کے امکانات نفی کے برابر ہوجاتے ہیں اور کمزوری بھی محسوس نہیں ہوتی ہے ۔اس لئے اپنے جسم کو پانی کی کمی کا شکار ہونے نہ دیں اور ہاں اتنا زیادہ پانی (تین لیٹر سے زیادہ) بھی نہ پی لیں کہ جسم پر اضافی بوجھ پڑے اور آپ کمزوری محسوس کرنے لگیں ۔
            جنرل کمزوری کے وجوہات میں آنکھوں ،دل ، جگر،لبلبہ اور خون کی کئی بیماریاں بھی شامل ہیں ۔اگر آپ کو لگ رہاہے کہ آپ ’’کمزور‘‘ ہو چکے ہیں یا ہورہے ہیں تو دوافروش کے پاس جاکر طاقتی دوا بوتلیں یا رنگ برنگی انجکشن مت خریدیئے۔اخباروں میں چھپے اشتہاری طاقتی کیپسولوں کا استعمال نہ کریں ،ٹی وی اسکرین پر دکھائے جانے والی ’’طاقتی ادویات‘‘ کا استعمال نہ کریں اور نہ ہی (جیسا کہ ہمارے ہاں عام رواج ہے ) اپنی وریدوں کے ذریعہ اپنے جسم کو اضافی گلوکوز سے ناکار بنائیں ۔ کسی ماہر معالج سے صلاح مشورہ کریں اور اسے تفصیل کے ساتھ اپنی ’’کمزوری ‘‘ کے متعلق اطلاعات فراہم کریں تاکہ آپ کو یہ پتہ چلے کہ آپ کی ’’جنرل کمزوری‘‘ کی بنیادی وجہ کیا ہے ۔جب معلوم ہوجائے تو علاج بالکل آسان ہے ۔ اپنی کمزوری دور کرنے کے لئے کسی بھی صورت میں کوئی بھی دوائی (ٹانک، طاقتی بوتل ،کیپسول ،ٹیبلٹ ، انجکشن) استعمال نہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے آپ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں ، اپنے آپ سے بے وفائی کرتے ہیں اور اپنے لئے ان پیچیدگیوں کو دعوت دیتے ہیں جو پھر عمر بھر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گی ۔

TAKHLEEQ KA BEMISAL SHAHKAR - DIMAGH (BRAIN)

تخلیق کا بے مثال شاہکار دماغ



دماغ انسان کی تخلیقی قوتوں کا مرکز اور غورو تفکر کا مقام ہے۔ اسی دماغ کی ہمت سے انسان اللہ کے سر بستہ رازوں تک پہنچ سکتا ہے اور اس دماغ کی قوتوں کو اگر انسان اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں اور توفیق کے مطابق ، اللہ ہی کے لیے اللہ کے قریب پہنچنے کی خاطر استعمال کرے تو یہ اس کا بے پناہ مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اللہ سے محبت قلب سے کی جاتی ہے اور اس کے بارے میں غور و تفکر دماغ سے کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں۔‘‘ اور اس راز کو دماغ کے صحیح استعمال سے ہی پایا جا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں انسانوں کو اپنی نشانیوں پر غور کرنے کی بار بار دعوت دیتا ہے کیونکہ یہ نشانیاں اسے اللہ کی پہچان حاصل کرنے اور اللہ کے راز تک پہنچنے میں مدد کرتی ہیں۔ ’غور‘ کی دعوت ثابت کرتی ہے کہ دماغ لازماً اللہ کی پہچان حاصل کرنے اور اللہ کے راز تک پہنچنے میں مدد گارثابت ہو سکتا ہے کیونکہ غور کرنا، سوچنا سمجھنا اسی کاکام ہے۔
 دماغی انسانی جسم کے کل وزن کا صرف دو فیصد ہوتا ہے لیکن جسم کی پوری قوت کا بیس فیصد حصہ اسی کے مصرف میں ہوتا ہے۔دماغ جاندارکے اندرونی ماحول میں یکسانیت پیدا کرتا ہے اور اسے بیرونی ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ دماغ ہی ایک جاندار میں ؛ استدلال ، فراست و بصارت اور ذکاء یعنی intelligence کا منبع ہے۔
دماغ اپنے افعال کا ایک بڑا حصہ خودکار طور پر اور بلا جاندار کی شعوری آگاہی کہ انجام دیتا رہتا ہے ،  مثال کے طور پر حسی نظام کے افعال جیسے ، حسی راہ کاری ( sensory gating ) اور متعدد حسی اتحاد (multisensory integration) ، چلنا اور دیگر کئی استنباتی افعال مثلا سرعت قلب، فشار خون، سیالی توازن اور جسمانی درجہ حرارت وغیرہ۔ یہ وہ چند افعال ہیں جو دماغ جاندار کو احساس ہوئے بغیر انجام دیتا رہتا ہے۔
ان افعال سمیت کئی دیگر افعال ، دماغ اور حرام مغز (spinal chord)کی ہم اہنگ فعالیت کے ذریعہ کنٹرول کئے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ جانداروں کے کئی سادہ روی (behaviors) مثلاreflexes اور بنیادی حرکات وغیرہ ایسے بھی ہیں جو کہ صرف حرام مغز کی سطح پر ہی نبٹا دی جاتے ہیں اور ان کے لئے عام طور پر دماغ کو مداخلت نہیں کرنا پڑتی۔
ہمارا دماغ مختلف اقسام کے خلیات سے مل کر بنتا ہے، ان خلیات میں سے کچھ تو اصل کام کرنے والے خلیات ہوتے ہیں جن کو عصبون(neurons) کہا جاتا ہے جبکہ کچھ خلیات ان اصل کام کرنے والے خلیات یعنی عصبون کو سہارا اور امداد فراھم کرنے والے خلیات ہوتے ہیں؛ ان امدادی خلیات کو سریشہ (glial cells )کہا جاتا ہے۔
دماغ کا تار نما خلیہ ،جسے عصبون کہا جاتا ہے،کا میں ایک جسم (Soma)ہوتا ہے اور اس جسم سے ایک تار یا دھاگے نما لمبا سا حصہ دم(axon) کی صورت نکلتا ہے جو اس شکل میں سیدھی جانب بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔دماغ کے عصبون خلیات ایسے ہی معلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں کہ جیسے بجلی کے تار بجلی کو منتقل کرتے ہیں۔
تار نما عصبون خلیات کا تانا بانا دماغ میں ایک نہایت ہی نازک اور بہت ہی اعلیٰ تنظیم کے ساتھ یوں بنا گیا ہے جیسے کوئی مہنگا قالین دھاگوں کے تانوں بانوں سے بن دیا جاتا ہے۔ یہ تار نما خلیات اپنے اپنے مخصوص راستے رکھتے ہیں اور اپنے اندر سفر کرنے والی معلومات و خیالات کو بالکل درست اور صحیح صحیح مقام تک پہنچا دیتے ہیں۔
دماغ دراصل مرکزی عصبی نظام کا ایک ایسا حصہ ہے جس میں عصبی نظام کے تمام اعلی مراکز پائے جاتے ہیں۔ اکثر جانداروں میں دماغ سر میں موجود ایک ہڈی کے صندوق میں محفوظ ہوتا ہے جسے کاسہ سر یا کھوپڑی کہتے ہیں اور چار بنیادی حسیں (بصارت، سماعت، زائقہ اور سونگھنا) اسکے بالکل قرب و جوار میں ملتی ہیں۔ فقاریہ (vertebrates)جانداروں (مثلا انسان) کے عصبی نظام میں تو دماغ پایاجاتا ہے مگر غیرفقاریہ (in vertebrates)جانداروں میں عصبی نظام دراصل عصبی عقدوں یا یوں کہہ لیں کہ عصبی خلیات کی چھوٹی چھوٹی گرہوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دماغ ایک انتہائی پیچیدہ عضو ہے، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دماغ میں تقریبا 100 ارب ( ایک کھرب) خلیات پائے جاتے ہیں۔ اور پھر ان 100 ارب خلیات میں سے بھی ہر ایک ، عصبی تاروں یا ریشوں کے ذریعے تقریبا 10000 دیگر خلیات کے ساتھ رابطے بناتا ہے۔
بنیادی طور پر جانداروں کی اکثر انواع کے دماغ (بشمول انسان) کو اگر کاٹ کر دیکھا جائے تو یہ اپنی ساخت میں دو الگ رنگوں میں نظر آنے والے حصوں کا مظاہرہ کرتا ہے، ایک حصہ تو وہ ہوتا ہے جو کہ عام طور پر بیرونی جانب  پایا جاتا ہے اور خاکی مادے (gray matter) پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جو کہ اندر کی جانب ہوتا ہے اور سفید رنگت کا نظر آتا ہے اسے سفید مادہ (white matter) کہتے ہیں۔خاکی مادے میں دراصل، عصبونات کے جسم (soma) پائے جاتے ہیں جبکہ سفید مادے میں عصبونات سے نکلنے والے تار نما ریشے یعنی محوار (axon) پائے جاتے ہیں۔ چونکہ محواروں پر چربی کی بنی ہوئی ایک عزلی(insulating) تہہ چڑھی ہوئی ہوتی ہے جسکو میالین (myalin) کہتے ہیں اور اسی چربی کی تہہ کی وجہ سے سفید مادہ ، سفید رنگ کا نظر آتا ہے۔
دماغ سے نکلنے والے اعصاب کو دماغی اعصاب کہا جاتا ہے، جو کہ سر اور ملحقہ علاقوں کا دماغ سے رابطہ کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ جبکہ دماغ کے نچلے حصے سے ایک دم نما جسم منسلک ہوتا ہے جو ریڑھ کی ہڈی میں اتر جاتا ہے اسکو حرام مغز کہتے ہیں، حرام مغز سے نکلنے والے اعصاب کو نخاعی اعصاب کہا جاتا ہے اور یہ تمام جسم کو اعصابی نظام سے منسلک کرتے ہیں۔
وہ اعصابی ریشے جو کہ مرکزی عصبی نظام یعنی دماغ اور حرام مغز سے پیغامات کو جسم کے دوسرے حصوں تک پہنچاتے ہیں انکو صادر (efferent) کہا جاتا ہے اور وہ جو کہ جسم کے مختلف حصوں سے اطلاعات اور حصوں کو دماغ اور حرام مغز میں لے کر آتے ہیں یا وارد ہوتے ہیں انکو وارد (afferent) کہا جاتا ہے۔ کوئی عصب ؛ وارد بھی ہوسکتا ہے ، صادر بھی اور یا پھر مرکب بھی۔
سائنسدانوں کی انسانی دماغ کی ہیئت اور کام کرنے کے طریقے پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ انسان کا دماغ دو حصوں پر مشتمل ہے‘ بایاں حصہHemisphere Left-اور دایاں حصہHemisphere Right۔بالکل سننے، سونگھنے اور دیکھنے کے اعضاء کی طرح۔ جس طرح دونوں آنکھیں ، دونوں کان، دونوں ہاتھ یا ٹانگیں، آپس میں مل جل کر بھی کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی قوت میں اضافے کا باعث بننے کے علاوہ اپنے اپنے حصے کا کام علیحدہ علیحدہ بھی سر انجام دیتے ہیں اسی طرح دما غ کے دونوں حصوں کے علیحدہ علیحدہ کام ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کے مدد گار بھی ہیں۔دماغ کے بائیں حصے کا تعلق ہماری باہر کی دنیا سے ہے اور دائیں کا تعلق اند رکی دنیا سے۔ بائیں حصے کی مدد سے ہم چیزوں کو دیکھتے ، گنتے، حساب کرتے، چیزوں کی ہیئت کے متعلق اندازہ لگاتے ہیں، یہ حصہ ہمیں روز مرہ کے کاموں ، اْٹھنے بیٹھنے، بات چیت کرنے، کھانے، دفتری کام یا خرید و فروخت وغیرہ میں مدد دیتا ہے۔ اسی حصے میں ہمارے روزمرہ معمول کے احساسات جن کا تعلق ظاہری دنیا سے ہے مثلاً خوشی ،غم، غصہ، پسند و ناپسند محبت، نفرت وغیرہ بھی پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ دائیں حصے کا تعلق ہماری باطنی قوتوں سے ہے۔ مثلاً تخلیق کی قوت جیسے مصوری، شاعر ی،ادب، حقیقی عشق کی قوت ، جس کے تحت انسان بڑے بڑے مصائب سے ٹکرانے کا حوصلہ پاسکتا ہے، وجدان کی قوت جس کے ذریعے باطنی اسرار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے وغیرہ۔انسانوں کی کثیر تعداد صرف بائیں حصے کی حکمرانی میں زندگی گزار دیتی ہے اور قوتوں سے مالا مال دائیں حصے کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں دیتی۔ روزمرہ مشینی زندگی میں اس طرح الجھے رہتے ہیں کہ تخلیق یا خالق کی طرف دھیان ہی نہیں جانے پاتا یہاں تک کہ عبادت کے دوران بھی بائیں حصے کے تحت رہتے ہیں، روبوٹ کی طرح اس کے اشاروں پر اٹھتے بیٹھتے ،رکوع اور قیام و سجدہ کرتے ہیں اور دائیں حصے کو استعمال نہ کرکے اپنے اندر موجود اپنے خالق ومالک سے کوئی تعلق نہیں جوڑتے۔ اگر غور کیا جائے تو سمجھ یہ ہی آتا ہے کہ اللہ نے انسان کے دماغ کے دوحصے اس لیے بنائے تھے کہ بائیں کے ذریعے باہر کی دنیا کے کام احسن طریقے سے سر انجام دئیے جاسکیں اور دائیں کے ذریعے اپنے اللہ سے تعلق جوڑ لیا جائے اور اس کی تمام مخلوق بشمول اپنی یعنی انسان کی حقیقت کو سمجھ پائیں۔ 
courtesy: Kashmiruzma

Sunday 9 September 2012

The Indispensability of Abundant Zikr and Muraqabah

The Indispensability of Abundant Zikr and Muraqabah

for the Seeker - Translation of a talk given by Shaykh Zulfiqar Ahmad 




The first lesson in the esteemed Naqshbandi Silsilah is Latifa-e-Qalb. Upon this, the seeker traveling the spiritual path (salik) engages in the spiritual exercise ofmuraqabah, where he or she sets aside some private time to sit and reflect on Allah. In this exercise the salik strives to empty the heart of all thoughts and imagines the blessings and mercy of Allah entering the heart and erasing its darkness. As if in gratitude to being cleansed of darkness the heart joyfully calls out the Name of Allahover and over again… Allah! Allah! Allah! 
A general scientific principle states that whenever a vacuum is created, something comes in to fill it and therefore the vacuum does not stay as is. Similarly when we sit and strive to remove all thoughts from our heart the aim is to create a void that will hopefully be filled with thoughts of Allah.
Darkness and light cannot coexist in the same space. Hence the more we strive to rid our hearts of filth, the hope is that divine light, goodness and blessing will enter to replace the darkness that was there. This is why it is extremely important to domuraqabah in abundance. Wherever in the Holy Quran we find the command to practice dhikr, the word is accompanied with the adjective signifying abundance (dhikr-e-kathir).
O you who believe! Celebrate the praises of Allah, and do this often [33:41]
What then is meant by abundant dhikr? At all times a person is either lying down, sitting or on his feet. Abundant dhikr refers to remembering Allah at all times in all these states.
To clarify this, the elders usually present the example of a man who falls ill and is running a high fever. Under this scenario his doctor prescribes antibiotics three times a day for seven days, so that it would take a total of 21 pills to cure the fever. Now, if this person breaks this sequence and has one pill every 3 days, even if he were to have a total of 22 his illness will not be cured.
Why then is the illness not cured even though the person takes more of the medication? Despite the accuracy of the diagnosis and the effectiveness of the medicine, it was not taken in the quantity prescribed by the physician and so the person remains ill. This indicates that quantity counts for a lot in some matters, especially here. Thus even if a patient skips a dose of his medication just one time, the doctor tells him to start the course again from the beginning for the sake of effectiveness.
Consequently, quantity in dhikr is absolutely crucial for a seeker on this path. A littledhikr does the seeker no benefit.
Little do they hold Allah in remembrance [4:142]
The result of this is;
(They are) distracted in mind even in the midst of it, being (sincerely) for neither one group nor for another whom Allah leaves straying, never wilt thou find for him the way [4:143]
A person whose dhikr is insufficient becomes a victim of doubt. He does not tread with confidence the path that leads him to his destination - his feet falter and he constantly changes direction. On the other hand, abundance of dhikr eliminates the darkness of the heart. It is thus that our elders tell us that the filth of thought (fikr) is only removed by the abundance of remembrance (dhikr).
How can a person tell whether a particular thought is inspired by Allah or the Devil (Shaitan)? Remembrance (dhikr) and piety (taqwa) reveal this distinction. The Holy Quran says Allah grants furqan to whoever has taqwa.
He will grant you a criterion (to judge between right and wrong) [8:29]
Furqan is the ability to distinguish between right and wrong, the insight that distinguishes between good and evil. While there may be no apparent basis for making this distinction, this internal light [1] allows a person to differentiate between righteousness and wickedness. This furqan is a blessing that Allah grants to those who engage in plentiful dhikr.
So we must strive to remember Allah lying down, sitting, and whenever we are on our feet. The hearts of the believers should be connected with their Lord in every situation until the very traces of sinfulness are erased from every vein and muscle of their bodies. Constant remembrance leads to spiritual connection (nisbah) to Allah, and cleanses a person completely when it permeates the body. Such a person submits his entire being to Allah and his life and death become only for Allah, and Allahdoes not let down a person who so completely gives himself up to Him. The Glory of Allah is His alone, and He never abandons the one who submits to Him, but rather protects His servant.
The basic rule for one who seeks to gain all this benefit is to engage in abundantdhikr, and this is one criterion that the majority of seekers fail to meet. They givebay'ah [2] and most of them even change their lifestyle and appearance, but fail to do sufficient dhikr. If they sit for muraqabah at all it only lasts five or ten minutes, and they fail to realize that Allah is not found through mere minutes of muraqabah! Even the world cannot be gained with just a few minutes of effort, so how can we expect to reach the Lord of the worlds by such a meager attempt?
It is commonly understood that if one wishes for a meeting with someone of importance, then he or she will have to wait in line for one's turn just because of the high rank and demand of the individual or party sought after. For example, people line up for hours and sometimes days for an audience with a famous movie or sports star just because of that individual's high status in society. Now if people are required to wait for a meeting with another human being, then surely a meeting with Allah the Lord of the Worlds mandates a waiting period also. This waiting time is fulfilled throughmuraqabah.
A person who thus spends his life sitting with his head lowered yearning for a meeting with Allah , fulfills his waiting time on the Day of Judgment. Consequently the one who does not do this in the world will have to spend the necessary wait time in the Hereafter. But the wait time in the Hereafter is indeed grueling! Someone will have to stand in wait for a thousand years - someone for a thousand more.
Abundance in dhikr is so important that Allah ordained it upon His Prophets. Allahcommanded Prophet Musa:
Go, you and your brother, with My Signs, and slacken not either of you in keeping Me in remembrance [ 20:42 ]
Whenever our elders say or command something their words carry potency and weight. How incredibly important must dhikr be in our lives if Allah is issuing the command and on the receiving end are two prophets?
So if we want the love of the world and the darkness of sin to be erased from our hearts, the only way to achieve this is through abundant dhikr. Just like the earth is cleansed when rain falls upon it, hearts are purged when mercy rains down upon them through abundant dhikr.
Hadrat Shah Waliullah Muhaddith Dehlvi (may the mercy of Allah be upon him) has written that there are two ways in which the earth regains purity if there is filth upon it.
1. Water pours down in such abundance that the filth is completely washed away. 
2. The sun shines down so intensely that all trace of filth is burned away.

Similarly, there are only two ways to attain purification of the heart. One way is to engage in so much dhikr that mercy rains down upon one's heart to such an extent that it eliminates the filth and cures the diseases of the heart. The other is to remain in the company of a righteous Shaykh and serve him, and like the sun the heart of theShaykh shines its rays upon his heart. The resulting blessing (faidh) removes all signs of the filth and a person's heart is rendered pure.
Thus, we should be frequent and regular in our dhikr so that Allah grants us annihilation of the heart (fana-e-qalbi), a blessing attained after the heart is purified in which a person is forever occupied in the remembrance of his Lord. However, this does not mean that he always sits in prayer and forsakes all other responsibilities. Rather the opposite is true and he takes care of all his worldly and family responsibilities but with a constant awareness of and a deep connection with Allah.
The love of the world has taken over our hearts and we are constantly thinking about it! Even if we make the firm intention not to think about worldly affairs during prayer or throughout the day we cannot let go of these thoughts. This is called annihilation in the world (fana-fid-duniya). Today we are so absorbed in the world that despite our best efforts we are not able to rid our hearts of preoccupation with it. If only we would gain such a level of annihilation in Allah (fina-fillah) that we wouldn't be able to forget Him even if we tried. Such is the station that we aspire towards, and how pitiful is our present state! It is our prayer that Allah grants us this lofty station, so that our life is spent upon goodness and our feet remain firm on the path that leads us to Him. Ameen.
---------------------------------------------------------------------------------
[1] A saying of the Prophettells us “Beware of the insight of a believer, for he sees with the light (nur) of Allah
[2] Students begin their spiritual journey by taking an oath (bay'ah) with a spiritual master (Shaykh). This oath entails seeking forgiveness from Allah for past sins and renewing a lifetime commitment to living according to the Holy Quran and the example (sunnah) of the Prophet. The Messenger took such pledges from many of his companions, and hence the act of bay'ah is classified by traditional scholars as a sunnah.
Printer Friendly Page - Send to Print