Search This Blog

Wednesday 12 September 2012

MARDANE HAQ

مردانِ حق


یہ بات تاریخی بھی ہے او رسینہ بہ سینہ بھی نقل ہوتی چلی آرہی ہے کہ جب لل دید(لل عارفہ)عالمِ جذب میں برہنہ پھرتی رہتی تھی تواُسی زمانے میں میر سید علی ہمدانی امیر کبیرؒ نے وادیٔ کشمیر کو اپنی قدم بوسی کا شرف بخشا۔ جوںہی ایک دن لل عارفہ کی نظر حضرت امیرؒ پر پڑی تو وہ چلّا اُٹھی کہ ’’مردآگیا ، مرد آگیا ‘۔ اس لئے ستر پوشی کے لئے ایک دُکان میں گھس گئی ۔ وہاں دُکاندار سے جھڑک کھائی اور بھاگ کر ایک نانبائی کے جلتے ہوئے تنور میں چھلانگ لگائی۔نانبائی نے خوفزدہ ہوکر تنور کے دہن کو ڈھکن سے ڈھک لیا۔ پھر اچانک لل دید ملبس ہوکر تنور سے نکلی اور حضرت امیرؒ کے پاس جاکر سلام کیا۔ اس مناسبت سے کشمیر ی میں یہ ضرب  الامثال بن گئیں : ’’آئے یہ وأنس ، گیہ کاندرس‘‘…… ۔(یعنی دولت آئی تھی دُکاندار کے لئے لیکن گئی نانبائی کے گھر۔اس لئے مال اور دولت کے لحاظ سے اگر دُکاندار کوہفتے میں ایک بارلُوٹا جائے تو مضائقہ نہیں لیکن نانبائی کو ہر روز بھی لُوٹا جائے تو غم نہیں۔) کسی کواس واقعے میں التباس ہوسکتاہے لیکن مجھے نہیں ہے کیونکہ اللہ کے خاص بندوں کے لئے بھی بعید از فہم کام کر دکھانا مشکل نہیں ہے اگرچہ وہ عام طور پر ایسا نہیں کرتے کیونکہ ’’اس دنیا‘‘ کے باسیوں میں خدا شناسی تو ہوتی ہے لیکن خودنمائی نہیں ہوتی ۔ یہ لوگ نام ونمود کی خواہش نہیں رکھتے جو عام انسانوں کا شیوہ ہوتاہے ۔بات یہ نہیں کہ لل کے زمانے میں وادیٔ کشمیر میں کوئی مرد نہیں تھا ،بلکہ ’’مردانِ حق‘‘ بہت کم تھے جن سے پردہ کرنا لل عارفہ نے ضروری نہیں سمجھا!
بہت سارے لوگ جانتے ہوں گے کہ شمس تبریزیؒ ایک بلند پایہ فقیر تھا اور مجذوب بھی اور حضرت مولانا رومیؒ اُن کے معتقدِ خاص تھے۔یہ بھی بہت سارے لوگ جانتے ہوں گے کہ علامہ اقبال ؒ مولانا رومیؒ کو اپنا روحانی مرشد مانتے تھے ۔ و ہ فرماتے ہیں   ؎
مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم
تا غلامِ شمس تبریزیؒ نہ شُد
(مولو ی یعنی مولانا رومیؒاُس وقت تک ہرگز ’’مولائے روم‘‘ نہ بن سکا جب تک نہ وہ شمس تبریزیؒ کے غلام بن گئے ۔)
مولانا رومیؔ کے کلام ’’مثنوی مولانا روم‘‘ کے بارے میں جامیؔؒ نے فرمایاہے   ؎
مثنویٔ مولویٔ معنوی
ہست قرآں در زبانِ پہلوی
(مولانا رومؒؔ کی مثنوی اصل میں قرآن ہے جس کو فارسی میں لکھا گیا ہے۔)
عام لوگ شمس تبریزیؒ کو ’’پاگل دیوانہ مجذوب‘‘ مانتے تھے کیونکہ اُن کی حرکتیں عقل وخرد کی دُنیا کے اصولوں سے ٹکراتی تھیں ۔ روایات کے مطابق ایک روز شمس تبریزیؒ دن میں چراغ جلائے راستے پر جارہے تھے ۔ لوگ اُن پر فقرے کستے جارہے تھے اور شریر بچے پتھر اُچھالتے جارہے تھے کہ ’’دیکھو! دیوانہ سورج کی روشنی میں چراغ جلائے چل رہاہے !‘‘شمسؒ اس سب سے بے نیاز آگے ہی آگے جارہے تھے کہ مولانا رومیؒؔ اُن کے سامنے آگئے ! وہ اُن دنوں پابندِ شریعت عالم دین اور مردحق تھے ۔ انہوں نے شمسؒ کو روکا اور پوچھا: ’’حضرت ! چراغ جلائے کسے تلاش کررہے ہیں؟‘‘
شمس نے جواب دیا : ’’تجھے تلاش کررہا تھا ، سوتم مل گئے !!‘‘ اور پھر مولانا شمس تبریزیؒ کے غلام بن کے رہ گئے اور ’’ولی را می شناسد والی بات ہوگئی !(ولی کو ولی ہی پہچانتاہے۔)
مجذوبوں درویشوں کی دنیا بڑی ہی پُراسرار ہوتی ہے ۔ ان اسرار کو جاننے کا جو کھم وہی لوگ اُٹھاتے ہیں جن کو عقل سے دشمنی ہوتی ہے اور عقل کے دشمن جذب وشوق کی وسعتوں اور گہرائیوں کو کبھی نہیں جان سکتے ۔ حضرت علامہ نے درویشوں کی دنیا سے متعلق فرمایا ہے   ؎
جلا سکتی ہے شمعِ کشتہ کو موجِ نفس ان کی
اِلٰہی! کیا چھپا ہوتاہے اہلِ دل کے سینوں میں
تمنّا دردِ دل کی ہوتو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
 نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو دیکھ ان کو
 یدِ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں !
ترستی ہے نگاہ ِنار سا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کی ہے انہیں خلوت گزینوں میں
کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمنِ دل کو
کہ خورشیدِقیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں میں

ضروری نوٹ:- کشمیر یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب نے میرے کالم ’’رنگِ حیات ‘‘ کے تحت چھپے مضمون ’’ماس‘‘ میں ’’نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں…‘‘ کے سلسلے میں اعتراض کیا تھاکہ یہ شعر علامہ اقبالؒ نے درویشوں سے متعلق نہیں کہاہے ۔ ان سے عرض ہے کہ وہ مندرجہ بالا اشعار کو ’’بانگ درا‘‘ میں پڑھ کراپنی تشفی کرسکتے ہیں ۔
(’’کلیاتِ اقبال، اردو ،صدی ایڈیشن، صفحہ نمبر104،)
-----------------------
رابطہ:-سیر جاگیر سوپور(کشمیر)؛
 ای میل : armukhlis1@gmail.com
 موبائل: 9797219497

No comments:

Post a Comment