Search This Blog

Monday 12 December 2016

رسول اللہ ص اور شہری منصوبہ بندی


سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم

سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم
شاہنواز فاروقی

انبیاء و مرسلین دنیا کے عظیم ترین انسان تھے۔ لیکن بعض انبیاء کو اپنی قوموں اور اپنے اصحاب سے اچھے تجربات میسر نہیں آئے۔ حضرت نوح ؑ ساڑھے نوسو سال تک تبلیغ کرتے رہے مگر ان کی قوم ٹس سے مس نہ ہوئی۔ چنانچہ حضرت نوح ؑ کی پوری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا۔ طوفانِ نوح آیا تو حضرت نوح ؑ کے ساتھ چالیس سے کم افراد تھے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت نوح ؑ کی قوم کے بدقماش لوگ حضرت نوحؑ کو زدوکوب کرتے رہتے تھے، یہاں تک کہ انہیں بوری میں بند کرکے مارتے تھے۔ اس تشدد سے حضرت نوح ؑ اکثر بے ہوش ہوجاتے۔

حضرت موسیٰ ؑ کی قوم بہت سوال کرنے والی تھی۔ اس سلسلے میں قربانی کی گائے کا واقعہ قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کبھی پوچھ رہی تھی کہ گائے بوڑھی ہو یا جوان ہو؟ اورکبھی سوال کررہی تھی کہ اس کا رنگ کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت موسیٰ ؑ پہاڑ پر گئے اور مقررہ دن سے زیادہ پہاڑ پر رک گئے تو ان کی قوم نے بچھڑا ایجاد کرلیا اور اس کو پوجنے لگی۔ حالانکہ حضرت موسیٰ ؑ اپنے چھوٹے بھائی حضرت شعیب ؑ کو اپنی قوم کے پاس چھوڑ کر گئے تھے جو خود بھی پیغمبر تھے۔ ایک موقع پر جنگ کا مرحلہ آیا تو حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کے لوگوں نے حضرت موسیٰ ؑ سے صاف کہہ دیا کہ ہم جنگ میں آپ کا ساتھ نہیں دیں گے، آپ کو لڑنا ہے تو آپ لڑیں اور آپ کا خدا لڑے۔ حضرت عیسیٰ ؑ پانچ اولوالعزم انبیاء میں سے ایک ہیں، لیکن آپ ؑ کے ایک حواری Judas یہودی نے ہی آپؑ کی مخبری کرکے آپؑ کو گرفتار کرایا اور صلیب تک پہنچایا۔ اسلام کی گواہی یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو صلیب پر چڑھائے جانے سے قبل ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ حالت میں آسمان پر اٹھا لیا، مگر حضرت عیسیٰ ؑ کے حواری نے انہیں قتل کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
سیرتِ طیبہ کا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ بلاشبہ اہلِ مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں رہنے نہ دیا۔ اہلِِ مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبِ ابی طالب میں طویل عرصے تک محصور رکھا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی۔ لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اصحاب فراہم ہوئے اُن جیسے لوگ نہ چشم فلک نے پہلے دیکھے تھے اور نہ بعد میں دیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپؐ پر فدا تھے۔ آپؐ ان کے سامنے تشریف فرما ہوتے تو وہ اتنے ادب سے گردن جھکا کر بیٹھ جاتے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور ذرا سی جنبش سے ان کے اڑ جانے کا اندیشہ ہو۔ آپؐ وضو کرتے تو آپؐ کے اصحاب وضو کا پانی زمین پر نہ گرنے دیتے۔ اسے پی جاتے یا جسم پر مَل لیتے۔ آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ مدینہ ہجرت کی تو راستے میں حضرت ابوبکرؓ کبھی آپؐ کے دائیں ہوجاتے، کبھی بائیں۔ کبھی ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے چلنے لگتے، کبھی پیچھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو پوچھا کہ ابوبکر کیا بات ہے؟ آپؐ کے استفسار پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ مجھے آپؐ پر دائیں جانب سے حملے کا خوف ہوتا ہے تو میں دائیں جانب ہوجاتا ہوں، بائیں جانب سے حملے کا اندیشہ ہوتا ہے تو میں بائیں جانب آجاتا ہوں۔

یہ تو خیر اصحاب کا معاملہ ہے۔ عام مسلمان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ عشق کرتے تھے۔ غزوۂ احد میں کفار اور مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہید ہونے کی افواہ اڑا دی۔ افواہ مدینہ پہنچی تو پورا مدینہ بے تاب ہوگیا۔ ایک خاتون بے تاب ہوکر گھر سے باہر نکل آئیں۔ انہیں میدانِ کارزار سے لوٹنے والے ایک صاحب نے بتایا کہ تمہارا بھائی شہید ہوگیا ہے۔ ان خاتون نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ ایک اور شخص سے ان کو اطلاع ملی کہ ان کا بیٹا بھی جنگ میں کام آگیا ہے، انہوں نے کہا: یہ بتاؤ رسول اللہ کس حال میں ہیں؟ تھوڑی دیر بعد انہیں ایک اور صاحب نے مطلع کیا کہ آپ کے شوہر بھی شہید ہوگئے ہیں تو انہوں نے سوال کیا کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں۔ یہ سن کر ان خاتون نے کہا کہ پھر مجھے کسی بات کا غم نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو شدتِ محبت اور شدتِ غم کے باعث حضرت عمرؓ کہنے لگے کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ رسول اللہ کا انتقال ہوگیا ہے تو میں اپنی تلوار سے اُس کا سر اڑا دوں گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر ایک عام عورت کا تبصرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کا مظہر تھا۔ اس عورت نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے اور انہیں بھی ایک دن دنیا سے رخصت ہونا تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہونے سے آسمان اور زمین کے درمیان رابطہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگیا ہے۔ یعنی اب زمین پر کبھی وحی کا نزول نہ ہوگا۔
سیرتِ طیبہؐ کا یہ واقعہ بھی مشہور ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کی جانب دیکھا اور فرمایاکہ میں نے اتنا خوبصورت چہرہ کبھی نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک کہا۔ تھوڑی دیر بعد وہاں سے ابوجہل کا گزر ہوا، اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھا اور منفی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے درست کہا۔ صحابۂ کرام نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دو مختلف باتوں کے جواب میں ایک ہی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں ایک آئینہ ہوں، میرے اندر سب کو اپنا عکس نظر آتا ہے۔ اور یہ بات بالکل درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس انسانوں کی تعریف متعین کرنے والی یا ان کے اصل کو Define کرنے والی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رابطے میں آئے اُن کی پانچ اقسام تھیں۔ پہلی قسم اُن لوگوں کی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تھے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح جانتے تھے، جن کو معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ان لوگوں نے کسی سوال یا تردد کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔ ان لوگوں میں حضرت ابوبکرؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت خدیجہؓ شامل تھیں۔ کچھ لوگ ایسے تھے جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست میل ملاقات نہ تھی۔ ان کے لیے قرآن مجید یا اللہ کا کلام تھا۔ چنانچہ انہوں نے جیسے ہی قرآن مجید سنا اُن کے دل کی دنیا بدل گئی۔ اُن کے دل نے گواہی دی کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال عمر فاروقؓ ہیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلے تھے مگر قرآن کا تھوڑا سا حصہ سن کر ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں۔ کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے ایمان لانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزہ طلب کیا۔ ان لوگوں کی دو اقسام تھیں۔ ایک وہ جنہوں نے معجزہ طلب کیا، معجزہ دیکھا اور ایمان لے آئے۔ دوسرے وہ جنہوں نے معجزہ دیکھا اور کہا کہ یہ تو جادو ہے، اور وہ ایمان نہیں لائے۔ لیکن کچھ لوگوں نے معجزے کو جادو کیوں کہا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کی روحانی اور نفسیاتی استعداد اتنی ہی تھی، وہ جادو کو پہچان سکتے تھے مگر معجزے کو نہیں پہچان سکتے تھے۔ انسانوں کی پانچویں قسم اُن لوگوں پر مشتمل تھی جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے۔ یہ وہ لوگ تھے جو سیاسی بالادستی یا طاقت کے غلبے کو اہم سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب اسلام کو سیاسی غلبہ یا طاقت حاصل ہوگئی تو ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ اب جزیرہ نمائے عرب میں اسلام ہی کا سکہ چلے گا۔ اس طرح کے لوگوں کی سب سے بڑی مثال ابوسفیان ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انسانوں کی یہ اقسام صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک تک محدود نہ تھیں۔ انسانوں کی یہ اقسام رہتی دنیا تک اسی طرح نمودار ہوتی رہیں گی جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں نمودار ہوئی تھیں۔ فرق یہ ہوگا کہ اب دنیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہیں، چنانچہ اب جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہوں گے وہ دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو دیکھیں گے۔ اسی طرح معجزے کا پہلو اب اسلام کی اُن جہات سے متعلق ہوگا جو دنیا میں موجود فکر کے دوسرے دھاروں سے زیادہ متاثر کن ہوں گی۔

غور کیا جائے تو سیرتِ طیبہ کے ساتھ ہمارے تعلق کی تین بنیادی جہتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی درجے کی عقیدت ہو۔ دوسرے یہ کہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو زندہ رکھیں۔ تیسرے یہ کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی درجے کی محبت ہو۔ عصرِ حاضر میں ان جہتوں کا معاملہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی درجے کی عقیدت ہے۔ عقیدت کا تقاضا جاں نثاری ہوتا ہے۔ آپ جس سے عقیدت رکھتے ہیں اس پہ اپنی جان نثار کردیتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے سامنے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی ایک کلمہ بھی کہہ دے تو مسلمان اپنی جان دے بھی سکتا ہے اور ایسا کلمہ کہنے والی کی جان لے بھی سکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کا حال یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں درود و سلام، نعتیہ محفلوں اور میلاد کا سلسلہ عام ہے۔ لیکن اس سلسلے میں مسئلہ یہ ہے کہ اکثر مسلمان ان محفلوں کے انعقاد کو کافی سمجھتے ہیں اور ان کا جذبہ مزید آگے بڑھ کر سیرتِ طیبہؐ کے سانچے میں نہیں ڈھلتا۔ سیرتِ طیبہؐ سے ہمارے تعلق کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ہمیں رسول اللہ سے انتہائی درجے کی محبت ہو۔ محبت کا تقاضا اتباع اور پیروی ہوتی ہے۔ انسان جس شخص سے محبت کرتا ہے اس کے جیسا بن جانا چاہتا ہے۔ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں، مگر ہمارے فکر و عمل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی جھلک کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت کا دعویٰ محض دعویٰ ہی ہے، اور محض دعوے سے نہ انفرادی زندگی میں انقلاب برپا ہوتا ہے نہ اجتماعی زندگی انقلاب سے ہمکنار ہوتی ہے۔ اقبال نے جوابِ شکوہ میں خدا کی زبان سے کہلوایا ہے:

کی محمدؐ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں ’محمدؐ سے وفا‘ کا مفہوم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے سوا کچھ نہیں۔

نبی اکرم ﷺ بحیثیت مدبر اور ماہرسیاست

نبی اکرم ﷺ بحیثیت مدبر اور ماہرسیاست

(سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ )۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لیے جو دین بھیجا، وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے۔ جس طرح وہ عبادت کے طریقے بتاتا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے، اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہے اتنا ہی تعلق اس کا حکومت سے بھی ہے۔
اس دین کو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتایا اور سکھایا بھی، اور ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کردیا۔ اس وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جس طرح بحیثیت ایک مزکیِ نفوس اور ایک معلّم اخلاق کے ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، اسی طرح بحیثیت ایک ماہرِ سیاست اور ایک مدبرِ کامل کے بھی اسوہ اور مثال ہے۔
آج کی اس صحبت میں، اس کانفرنس کے محترم داعیوں کے ارشاد کی تعمیل میں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اسی پہلو سے متعلق چند باتیں مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
نئی شیرازہ بندی
اس امرِ واقع سے آپ میں سے ہرشخص واقف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مؤرخ علّامہ ابن خلدون نے تو اُن کو اُن کے مزاج کے اعتبار سے بھی ایک بالکل غیرسیاسی قوم قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بعض لوگوں کو اس رائے سے پورا پورا اتفاق نہ ہو، تاہم اس حقیقت سے تو کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اہلِ عرب اسلام سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت اور مرکزیت سے آشنا نہیں ہوئے ہیں، بلکہ ہمیشہ ان پر نراج اور انارکی کا تسلط رہا۔ پوری قوم جنگ جُو اور باہم نبرد آزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی، جس کی ساری قوت و صلاحیت خانہ جنگیوں اور آپس کی لوٹ مار میں برباد ہورہی تھی۔ اتحاد، تنظیم، شعور، قومیت اور حکم و اطاعت وغیرہ جیسی چیزیں، جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں، ان کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ ایک خاص بدویانہ حالت پر صدیوں تک زندگی گزارتے گزارتے ان کا مزاج نراج پسندی کے لیے اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ ان کے اندر وحدت و مرکزیت پیدا کرنا ایک امرِمحال بن چکا تھا۔ خود قرآن نے ان کو قوما لُدا کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، جس کے معنی جھگڑالو قوم کے ہیں اور ان کی وحدت و تنظیم کے بارے میں فرمایا کہ: لَو اَنفَقتَ مَا فِی الاَرضِ جَمِیعًا مَّآ اَلَّفتَ بَینَ قُلُوبِھِم (الانفال 8:62) ’’اگر تم زمین کے سارے خزانے بھی خرچ کرڈالتے جب بھی ان کے دلوں کو آپس میں جوڑ نہیں سکتے تھے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 23برس کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم ایک بنیانِ مرصوص بن گئی۔ یہ صرف متحد اور منظم ہی نہیں ہوگئی بلکہ اس کے اندر سے صدیوں کے پرورش پائے ہوئے اسبابِ نزاع و اختلاف بھی ایک ایک کرکے دور ہوگئے۔ یہ صرف اپنے ظاہر ہی میں متحد و مربوط نہیں ہوگئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی ہم آہنگ اور ہم رنگ ہوگئی۔ یہ صرف خود ہی منظم نہیں ہوگئی بلکہ اس نے پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا اور اس کے اندر حکم اور اطاعت دونوں چیزوں کی ایسی اعلیٰ صلاحیتیں ابھر آئیں کہ صرف استعارے کی زبان میں نہیں بلکہ واقعات کی زبان میں یہ قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلااستثنا دنیا کی ساری ہی قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا۔
اصلاحِ معاشرہ کی بنیاد
اس تنظیم و تالیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک بالکل اصولی اور انسانی تنظیم تھی۔ اس کے پیدا کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو قومی، نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے کوئی فائدہ اٹھایا، نہ قومی حوصلوں کی انگیخت سے کوئی کام لیا، نہ دُنیوی مفادات کا کوئی لالچ دلایا، نہ کسی دشمن کے ہوّے سے لوگوں کو ڈرایا۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے یا بڑے مدبر اور سیاست دان گزرے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی منصوبوں کی تکمیل میں انھی محرکات سے کام لیا ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے تو یہ بات آپؐ کی قوم کے مزاج کے بالکل مطابق ہوتی، لیکن آپؐ نے نہ صرف یہ کہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ ان میں سے ہرچیز کو ایک فتنہ قرار دیا اور ہر فتنے کی خود اپنے ہاتھوں سے بیخ کنی فرمائی۔
آپؐ نے اپنی قوم کو صرف خدا کی بندگی اور اطاعت، عالم گیر انسانی اخوت، ہمہ گیر عدل و انصاف، اعلائے کلمۃ اللہ اور خوفِ آخرت کے محرکات سے جگایا۔ یہ سارے محرکات نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ تھے۔ اس وجہ سے آپؐ کی مساعی سے دنیا کی قوموں میں صرف ایک قوم کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ ایک بہترین امت ظہور میں آئی جس کی تعریف یہ بیان کی گئی: (ترجمہ) ’’تم دنیا کی بہترین امت ہو، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لیے اٹھائے گئے ہو‘‘۔(آلِ عمران 3:110)
ہرقیمت پر اصولوں کی پاس داری
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ جن اصولوں کے داعی بن کر اٹھے، اگرچہ وہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا: فرد، معاشرہ اور قوم کی ساری زندگی پر حاوی تھے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہرگوشہ ان کے احاطے میں آتا تھا لیکن آپؐ نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کبھی کوئی لچک قبول نہیں کی، نہ دشمن کے مقابل میں، نہ دوست کے مقابل میں۔ آپؐ کو سخت سے سخت حالات سے سابقہ پیش آیا، ایسے سخت حالات سے کہ لوہا بھی ہوتا تو ان کے مقابل میں نرم پڑجاتا، لیکن آپؐ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپؐ نے کسی سختی سے دب کر کسی اصول کے معاملے میں کوئی سمجھوتا گوارا نہیں فرمایا۔ اسی طرح آپؐ کے سامنے پیش کش بھی کی گئی اور آپؐ کو مختلف قسم کی دینی و دنیوی مصلحتیں بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن اس قسم کی تدبیریں اور کوششیں بھی آپؐ کے کسی اصول کو بدلوانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ آپؐ جب دنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہربات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قائم تھی۔ دنیا کے مدبروں اور سیاست دانوں میں سے کسی ایسے مدبر اور سیاست دان کی نشان دہی آپ نہیں کرسکتے، جو اپنے دوچار اصولوں کو بھی دنیا میں برپا کرنے میں اتنا مضبوط ثابت ہوسکا ہو کہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ اس نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کمزوری نہیں دکھائی یا کوئی ٹھوکر نہیں کھائی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پورا نظامِ زندگی کھڑا کردیا، جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے زمانے کے مذاق اور رجحان سے اتنا بے جوڑ تھا کہ وقت کے مدبرین اور ماہرینِ سیاست اس انوکھے نظام کے پیش کرنے کے سبب سے حضورؐ کو دیوانہ کہتے تھے، لیکن حضورؐ نے اس نظامِ زندگی کو عملاً دنیا میں برپا کرکے ثابت کردیا کہ جو لوگ حضورؐ کو دیوانہ سمجھتے تھے، وہ خود دیوانے تھے۔
صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذاتی مفاد یا مصلحت کی خاطر اپنے کسی اصول میں کوئی ترمیم نہیں فرمائی بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کے لیے بھی اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دی۔ اصولوں کے لیے جانی اور مالی اور دوسری تمام محبوبات کی قربانی دی گئی۔ ہر طرح کے خطرات برداشت کیے گئے اور ہر طرح کے نقصانات گوارا کیے گئے، لیکن اصولوں کی ہر حال میں حفاظت کی گئی۔ اگر کوئی بات صرف کسی خاص مدت تک کے لیے تھی تو اس کا معاملہ اور تھا، اس کی مدت ختم ہوجانے کے بعد وہ ختم ہوگئی یا اس کی جگہ اس سے بہتر کسی دوسری چیز نے لے لی، لیکن باقی رہنے والی چیزیں ہرحال اور ہر قیمت پر باقی رکھی گئیں۔ آپؐ کو اپنی پوری زندگی میں یہ کہنے کی نوبت کبھی نہیں آئی کہ میں نے دعوت تو دی تھی فلاں اصول کی لیکن اب حکمتِ عملی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ پر فلاں بات بالکل اس کے خلاف اختیار کرلی جائے۔
اصولی سیاست
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اس اعتبار سے بھی دنیا کے لیے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپؐ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔
آپؐ جانتے ہیں کہ سیاست میں وہ بہت سی چیزیں مباح بلکہ بعض حالات میں مستحسن سمجھی جاتی ہیں جو شخصی زندگی کے کردار میں مکروہ اور حرام قرار دی جاتی ہیں۔ کوئی شخص اگر اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے جھوٹ بولے، چال بازیاں کرے، عہد شکنیاں کرے، لوگوں کو فریب دے یا ان کے حقوق غصب کرے تو اگرچہ اِس زمانے میں اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں، تاہم اخلاق بھی ان چیزوں کو معیوب ٹھیراتا ہے اور قانون بھی ان باتوں کو جرم قرار دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک سیاست دان اور ایک مدبر یہی سارے کام اپنی سیاسی زندگی میں اپنی قوم یا اپنے ملک کے لیے کرے تو یہ سارے کام اُس کے فضائل و کمالات میں شمار ہوتے ہیں۔ اُس کی زندگی میں بھی اُس کے اس طرح کے کارناموں پر اُس کی تعریفیں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی انھی کمالات کی بنا پر وہ اپنی قوم کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کے لیے یہی اوصاف و کمالات عرب جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو لوگ ان باتوں میں شاطر ہوتے تھے وہی اُبھر کر قیادت کے مقام پر آتے تھے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیاسی زندگی سے دنیا کو یہ درس دیا کہ ایمان داری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیادی اخلاقیات میں سے ہے، اسی طرح اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لوازم میں سے بھی ہے، بلکہ آپؐ نے ایک عام شخص کے جھوٹ کے مقابل میں ایک صاحبِ اقتدار اور ایک بادشاہ کے جھوٹ کو کہیں زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔ آپؐ کی پوری سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اس سیاسی زندگی میں وہ تمام مراحل آپؐ کو پیش آئے ہیں، جن کے پیش آنے کی ایک سیاسی زندگی میں توقع کی جاسکتی ہے۔
آپؐ نے ایک طویل عرصہ نہایت مظلومیت کی حالت میں گزارا اور پھر کم و بیش اتنا ہی عرصہ آپؐ نے اقتدار اور سلطنت کا گزارا۔ اس دوران میں آپؐ کو حریفوں اور حلیفوں دونوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے کرنے پڑے، دشمنوں سے متعدد جنگیں کرنی پڑیں، عہد شکنی کرنے والوں کے خلاف جوابی اقدامات کرنے پڑے، قبائل کے وفود سے معاملے کرنے پڑے، آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگوئیں کرنی پڑیں اور سیاسی گفتگوؤں کے لیے اپنے وفود ان کے پاس بھیجنے پڑے، بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات کرنے پڑے۔ یہ سارے کام آپؐ نے انجام دیے لیکن دوست اور دشمن ہر شخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ آپؐ نے کبھی کوئی وعدہ جھوٹا نہیں کیا، اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، کوئی بات کہہ چکنے کے بعد اس سے انکار نہیں کیا، کسی معاہدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ حلیفوں کا نازک سے نازک حالات میں بھی ساتھ دیا اور دشمنوں کے ساتھ بدتر سے بدتر حالات میں بھی انصاف کیا۔ اگر آپ دنیا کے مدبرین اور اہلِ سیاست کو اس کسوٹی پر جانچیں تو مَیں پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی آپ اس کسوٹی پر کھرا نہ پائیں گے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سیاست میں عبادت کی سی دیانت اور سچائی قائم رکھنے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سیاست میں کبھی کسی ناکامی کا تجربہ نہیں کرنا پڑا۔ اب آپ اس چیز کو چاہے تدبر کہیے یا حکمتِ نبوت۔
خوں ریزی سے پاک انقلاب
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا یہ بھی ایک اعجاز ہے کہ آپؐ نے عرب جیسے ملک کے ایک ایک گوشے میں امن و عدل کی حکومت قائم کردی۔ کفار و مشرکین کا زور آپؐ نے اس طرح توڑ دیا کہ فتح مکہ کے موقع پر فی الواقع انھوں نے گھٹنے ٹیک دیے، یہود کی سیاسی سازشوں کا بھی آپؐ نے خاتمہ کردیا، رومیوں کی سرکوبی کے لیے بھی آپؐ نے انتظامات فرمائے۔ یہ سارے کام آپؐ نے کرڈالے لیکن پھر بھی انسانی خون بہت کم بہا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی تاریخ بھی شہادت دیتی ہے اور آج کے واقعات بھی شہادت دے رہے ہیں کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں جانیں ختم ہوجاتی ہیں اور مال و اسباب کی بربادی کا تو کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے جو انقلاب برپا ہوا، اس کی عظمت اور وسعت کے باوجود شاید اُن نفوس کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہوگی جو اس جدوجہد کے دوران میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے شہید ہوئے یا مخالف گروہ کے آدمیوں میں سے قتل ہوئے۔
پھر یہ بات بھی غایت درجہ اہمیت رکھتی ہے کہ دنیا کے معمولی معمولی انقلابات میں بھی ہزاروں لاکھوں آبروئیں فاتح فوجوں کی ہوس کا شکار ہوجاتی ہیں اور مفتوحہ ملک کی سڑکیں اور گلیاں حرام کی نسلوں سے بھرجاتی ہیں۔ اِس تہذیب و تمدن کے عہد میں بھی اس صورتِ حال پر اربابِ سیاست شرمندگی اور ندامت کے اظہار کے بجائے اس کو ہرانقلاب کا ایک ناگزیر نتیجہ قرار دیتے ہیں، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں دنیا میں جو انقلاب رونما ہوا، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کوئی ایک واقعہ بھی ہم کو ایسا نہیں ملتا کہ کسی نے کسی کے ناموس پر دست درازی کی ہو۔
دنیوی کرّوفر کے بجائے فقر و درویشی
اہلِ سیاست کے لیے طمطراق بھی سیاست کے لوازم میں سے سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ عوام کو ایک نظام میں پرونے اور ایک نظم قاہر کے تحت منظم کرنے کے لیے اُٹھتے ہیں وہ بہت سی باتیں اپنوں اور بے گانوں پر اپنی سطوت جمانے اور اپنی ہیبت قائم کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ یہ ساری باتیں ان کی سیاسی زندگی کے لازمی تقاضوں میں سے ہیں۔ اگر وہ یہ باتیں نہ اختیار کریں گے تو سیاست کے جو تقاضے ہیں وہ انہیں پورا کرنے سے قاصر رہ جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے جب وہ نکلتے ہیں تو بہت سے لوگ ان کے جلو میں چلتے ہیں، جہاں وہ بیٹھتے ہیں ان کے نعرے بلند کرائے جاتے ہیں، جہاں وہ اُترتے ہیں ان کے جلوس نکالے جاتے ہیں، جلسوں میں ان کے حضور میں ایڈریس پیش کیے جاتے ہیں اور ان کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ جب وہ مزید ترقی کرجاتے ہیں تو ان کے لیے قصرو ایوان آراستہ کیے جاتے ہیں، ان کو سلامیاں دی جاتی ہیں، ان کے لیے بَرّی و بحری اور ہوائی خاص سواریوں کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ جب وہ کبھی کسی سڑک پر نکلنے والے ہوتے ہیں تو وہ سڑک دوسروں کے لیے بند کردی جاتی ہے۔
اُس زمانے میں ان چیزوں کے بغیر نہ کسی صاحبِ سیاست کا تصور دوسرے لوگ کرتے اور نہ کوئی صاحبِ سیاست ان لوازم سے الگ خود اپنا کوئی تصور کرتا، لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس اعتبار سے بھی دُنیا کے تمام اہلِ سیاست سے الگ رہے۔ جب آپؐ اپنے صحابہؓ میں چلتے تو کوشش فرماتے کہ سب کے پیچھے چلیں، مجلس میں تشریف رکھتے تو اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ کھانا کھانے کے لیے بیٹھتے تو دوزانو ہوکر بیٹھتے اور فرماتے کہ میں اپنے رب کا غلام ہوں اور جس طرح ایک غلام کھانا کھاتا ہے، اس طرح مَیں بھی کھانا کھاتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک بدو اپنے اس تصور کی بنا پر جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اُس کے ذہن میں رہا ہوگا، سامنے آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کانپ گیا۔ آپؐ نے اُس کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈرو نہیں، میری ماں بھی سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی، یعنی جس طرح تم نے اپنی ماں کو بدویانہ زندگی میں سوکھا گوشت کھاتے دیکھا ہوگا، اس طرح کا سوکھا گوشت کھانے والی ایک ماں کا بیٹا مَیں بھی ہوں۔ نہ آپؐ کے لیے کوئی خاص سواری تھی، نہ کوئی خاص قصر و ایوان تھا، نہ کوئی خاص باڈی گارڈ تھا۔ آپؐ جو لباس دن میں پہنتے، اس میں شب میں استراحت فرماتے اور صبح کو وہی لباس پہنے ہوئے ملکی اور غیرملکی وفود اور سفرا سے مسجد نبویؐ کے فرش پر ملاقاتیں فرماتے اور تمام اہم سیاسی امور کے فیصلے فرماتے۔
یہ خیال نہ فرمایئے کہ اُس زمانے کی بدویانہ زندگی میں سیاست اس طمطراق اور ٹھاٹ باٹ سے آشنا نہیں ہوئی تھی، جس طمطراق اور جس ٹھاٹ باٹ کی وہ اب عادی ہوگئی ہے۔ جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں ان کا خیال بالکل غلط ہے۔ سیاست اور اہلِ سیاست کی تو آشا ہی ہمیشہ سے یہی رہی ہے۔ فرق اگر ہوا ہے تو محض بعض ظاہری باتوں میں ہوا ہے۔ البتہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئے طرز کی سیاسی زندگی کا نمونہ دنیا کے سامنے رکھا، جس میں دنیوی کرّوفر کے بجائے خلافتِ الٰہی کا جلال اور ظاہری ٹھاٹ باٹ کی جگہ خدمت اور محبت کا جمال تھا، لیکن اس سادگی اور اس فقر و درویشی کے باوجود اس کے دبدبے اور اس کے شکوہ کا یہ عالم تھا کہ روم و شام کے بادشاہوں پر اس کے تصور سے لرزہ طاری ہوتا تھا۔
اہل اور تربیت یافتہ رفقا کی تیاری
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور آپؐ کے تدبر کا ایک اور پہلو بھی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ آپؐ نے اپنی حیاتِ مبارک ہی میں ایسے لوگوں کی ایک بہت بڑی جماعت بھی تربیت کرکے تیار کردی جو آپؐ کے پیدا کردہ انقلاب کو اس کے اصلی مزاج کے مطابق آگے بڑھانے، اس کو مستحکم کرنے اور اجتماعی و سیاسی زندگی میں اس کے تمام مقتضیات کو بروئے کار لانے کے لیے پوری طرح اہل تھے۔ چنانچہ اس تاریخی حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس انقلاب نے عرب سے نکل کر آس پاس کے دوسرے ممالک میں قدم رکھ دیا اور دیکھتے دیکھتے اس کرۂ ارض کے تین براعظموں میں اس نے اپنی جڑیں جمالیں اور اس کی اس وسعت کے باوجود اس کی قیادت کے لیے موزوں اشخاص و رجال کی کمی نہیں محسوس ہوئی۔ میں نے جن تین براعظموں کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کے متعلق یہ حقیقت بھی ہرشخص جانتا ہے کہ ان کے اندر وحشی قبائل آباد نہیں تھے بلکہ وقت کی جبار و قہار سلطنتیں نہایت ترقی یافتہ تھیں، لیکن اسلامی انقلاب کی فوجوں نے جزیرۂ عرب سے اٹھ کر اُن کو اُن کی جڑوں سے اس طرح اکھاڑ پھینکا گویا زمین میں اُن کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی اور اُن کے ظلم و جَور کی جگہ ہرگوشے میں اسلامی تہذیب و تمدن کی برکتیں پھیلا دیں جن سے دنیا صدیوں تک متمتع ہوتی رہی۔
دنیا کے تمام مدبرین اور اہلِ سیاست کی پوری فہرست پر نگاہ ڈال کر غور کیجیے کہ ان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر آتا ہے جس نے اپنے دوچار ساتھی بھی ایسے بنانے میں کامیابی حاصل کی ہو جو اس کے فکر و فلسفہ اور اس کی سیاست کے ان معنوں میں عالم اور عامل رہے ہوں، جن معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے عالم و عامل ہزاروں صحابہؓ تھے۔
نبیِ خاتمؐ اور پیغمبر عالمؐ
آخر میں ایک بات بطور تنبیہ عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی مرتبہ اور مقام یہ ہے کہ آپؐ نبیِ خاتمؐ اور پیغمبرِعالمؐ ہیں۔ سیاست اور تدبر اس مرتبۂ بلند کا ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔ جس طرح ایک حکمران کی زندگی پر ایک تحصیل دار کی زندگی کے زاویے سے غور کرنا ایک بالکل ناموزوں بات ہے، اس سے زیادہ ناموزوں بات شاید یہ ہے کہ ہم سیّدکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر ایک ماہرِ سیاست یا ایک مدبر کی زندگی کی حیثیت سے غور کریں۔
نبوت و رسالت ایک عظیم عطیۂ الٰہی ہے۔ جب یہ عطیہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو بخشتا ہے تو وہ سب کچھ اس کو بخش دیتا ہے، جو اس دنیا میں بخشا جاسکتا ہے۔ پھر حضورصلی اللہ علیہ وسلم تو صرف نبی ہی نہیں تھے بلکہ خاتم الانبیاؐ تھے۔ صرف رسول ہی نہیں تھے بلکہ سیّدالمرسلؐ تھے۔ صرف اہلِ عرب ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام عالم کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور آپؐ کی تعلیم و ہدایت صرف کسی خاص مدت تک ہی کے لیے نہیں تھی بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والی تھی۔ اور یہ بھی ہرشخص جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی دینِ رہبانیت کے داعی بن کر نہیں آئے، بلکہ ایک ایسے دین کے داعی تھے جو روح اور جسم دونوں پر حاوی اور دنیا و آخرت دونوں کی حسنات کا ضامن تھا، جس میں عبادت کے ساتھ سیاست اور درویشی کے ساتھ حکمرانی کا جوڑ محض اتفاق سے نہیں پیدا ہوگیا تھا بلکہ یہ عین اس کی فطرت کا تقاضا تھا۔ جب صورتِ حال یہ ہے تو ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سیاست دان اور مدبر اور کون ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ چیز آپؐ کا اصلی کمال نہیں بلکہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا آپؐ کے فضائل و کمالات کا محض ایک ادنیٰ شعبہ ہے۔

اتباع رسول ص ۔۔۔ ایمان کی اساس اور بنیاد


سلام اس پر جو دنیا کے لیے رحمت ہی رحمت ہے


Friday 2 December 2016

اوصاف محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وجود کا حصہ بنائیے


رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار اور عصر حاضر


مجدد الف ثانی رح کی جدوجہد کا امین کو ہوگا؟


نبوت کی کرنیں


سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ص کا یوم ولادت ۔ انسانیت کا سب سے عظیم اور مقدس واقعہ ہے


گناہوں پر ندامت اور اللہ تعالی کی طرف رجوع ۔ ایمان اور بندگی کا بنیادی تقاضہ


محبت اور انسان دوستی کے تقاضے ۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں


Sunday 27 November 2016

افتخار اسلام

افتخار اسلام

رضا الدین صدیقی


حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے زمانہ جاہلیت ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت تھی ۔میں نے اگرچہ ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا لیکن آپ سے دلی محبت رکھتا تھا۔ آپ ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے مجھے اس دوران میں یمن جانے کاموقع ملا۔ وہاں بازار میں حمیر کے امیر ذی یزن کا جوڑا پچاس درھم میں بک رہا تھا۔اس نے اسے اس نیت سے خرید لیا کہ میں اسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ میں وہ جوڑا لے کرمدینہ طیبہ حاضر ہوا اوراسے آپ کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا لیکن آپ نے اسے قبول نہیں فرمایا،میںنے بہت کوشش کی لیکن آپ رضامند نہ ہوئے اورارشادفرمایا :ہم مشرکوں سے کچھ نہیں لیتے ۔البتہ آپ نے فرمایا :ہاں اگر تم اس کی قیمت وصول کرلو تو ہم اسے خرید لیتے ہیں چنانچہ میںنے قیمت لے کر وہ جوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودے دیا۔ پھر میں نے ایک دن دیکھا کہ آپ نے وہ جوڑا زیب تن فرمالیا ہے۔اورمنبر پر فروکش ہیں۔آپ اس جوڑے میں اس قدر حسین نظر آرہے تھے کہ میں نے کبھی کوئی شخص اتنا حسین نہیں دیکھا ۔آپ یوں لگ رہے تھے جیسے چودھویں کا چاند۔آپ کودیکھتے ہی بے ساختہ یہ اشعار میری زباں پر جاری ہوگئے۔”جب ایک روشن اورچمک دارایسی منور ہستی ظاہر ہوگئی ہے۔جس کا چہرہ،ہاتھ ،پاﺅںسبھی درخشاں ہیں تواب اس کے بعد حکام،حکم دیتے ہوئے سوچیں گے۔
(یعنی اب آپ کا سکہ چلے گا نہ کہ دوسرے حاکموں اورسرداروں کا)“”جب یہ حکام بزرگی اورشرافت میں ان کا مقابلہ کریں گے تو یہ اُن سے بڑھ جائیں گے۔کیونکہ ان پر یہ مجدوشرافت اس کثرت سے بہائی گئی ہے ۔جیسے کسی پر پانی سے بھرے ہوئے بڑے بڑے ڈول ڈالے گئے ہوں۔ “حضور علیہ الصلوٰة والتسلیم یہ اشعار سن کرمسکرانے لگے۔ پھر آپ نے وہ جوڑا (آزاد کردہ غلام کے بیٹے) اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو عطاءفرمادیا۔جب میںنے اسامہ کو وہ لباس پہنے ہوئے دیکھا توانھیں کہا اے اسامہ (تمہیں خبر ہے)تم نے ذی یزن (بادشاہ)کا جوڑا پہن رکھا ہے۔انھوں نے بڑی رسان سے کہا میں ذی یزن سے بہتر ہوں میرا باپ اسکے باپ سے اورمیری ماں اسکی ماں سے بہترہے۔ جب میں مکہ واپس آیا تووہاں کے لوگوں کو اسامہ بن زید کی بات سنائی وہ ایک آزاد کردہ غلام کے فرزند کے اپنے دین پر ناز اورافتخار سے بڑے حیران ہوئے۔(طبرانی ،حاکم)

ایمان عظیم دولت


ایمان عظیم دولت 

سید قطب شہیدؒ


ابن عساکر نے عبداللہ ابن حذیفہ کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ یہ صحابی تھے، ان کو رومیوں نے گرفتار کرلیا اور اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا۔ بادشاہ نے انہیں کہا کہ آپ نصرانی بن جائیں میں آپ کو اپنے اقتدار میں بھی شریک کرتا ہوں اور اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا: اگر تُو مجھے اپنی پوری مملکت دے دے اور تمام عربوں کی حکومت بھی عطا کردے اس کے عوض کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو ترک کردوں اور وہ بھی پلک جھپکنے جتنی دیر کے لیے، تو بھی میں یہ کام نہ کروں گا۔ اس نے کہا: تو پھر میں تمہیں قتل کردوں گا۔ انہوں نے کہا: تمہیں اختیار ہے جو چاہو کرو۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ نے حکم دیا اور انہیں سولی پر چڑھا دیا گیا۔ پھر اس نے تیراندازوں کو حکم دیا کہ وہ ان کے ہاتھ اور پیروں کے قریب تیر ماریں۔ چنانچہ وہ تیر مارتے رہے اور بادشاہ ان کو نصرانیت کا دین پیش کرتا رہا، لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اس کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ ان کو سولی سے اتار دیں۔ چنانچہ انہیں تختہ دار سے اتارا گیا۔ اس کے بعد تانبے کی ایک (تیل کی) ہنڈیا یا دیگ لائی گئی۔ اسے گرم کیا گیا۔ اس کے بعد ایک مسلمان قیدی لایا گیا، اسے اس کے اندر پھینکا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چمکدار ہڈیاں بن کر رہ گیا۔ اس کے بعد پھر بادشاہ نے ان پر اپنا دین پیش کیا۔ پھر انہوں نے انکار کردیا۔ اب اس نے حکم دیا کہ ان کو بھی اس دیگ میں پھینک دیا جائے۔ انہیں لوہے کی چرخی پر چڑھایا گیا تاکہ اس کے اندر پھینک دیں۔ اس وقت وہ روئے۔ اُس وقت بادشاہ کو یہ لالچ پیدا ہوگیا کہ شاید اب مان جائیں، تو بادشاہ نے انہیں بلایا اور رونے کا سبب پوچھا۔ وہ بولے: میں رویا اس لیے ہوں کہ میری جان ایک ہے اور وہ بھی ابھی اس دیگ میں ڈال دی جائے گی اور ختم ہوجائے گی، لیکن میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے ہر بال کے برابر جانیں عطا ہوتیں اور وہ اللہ کی راہ میں قربان ہوتیں۔
ایک روایت میں ہے کہ بادشاہ نے ان کو قید کردیا اور کھانا بند کردیا۔ ایک عرصے تک یہ پابندی رہی۔ اس کے بعد انہیں شراب اور خنزیر بھیجا تو انہوں نے اس کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ بادشاہ نے بلا کر پوچھا کہ تم نے ان کو ہاتھ کیوں نہ لگایا؟ انہوں نے کہا: یہ چیزیں اِس وقت تو میرے لیے حلال ہیں لیکن میں تمہیں خوش کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس پر بادشاہ نے کہا: چلو میرے سر ہی کو چوم لو میں تمہیں اس کے عوض رہا کردوں گا۔ اس پر انہوں نے کہا: کیا تم میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کردو گے؟ بادشاہ نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے اس کے سر کو چوم لیا اور بادشاہ نے وہ تمام قیدی رہا کردیے جو ان کے ساتھ تھے۔ جب وہ لوٹے تو عمرؓ بن الخطاب نے فرمایا: ہر مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ عبداللہ ابن حذیفہ کا سر چومے اور میں اس کی ابتدا کرتا ہوں۔ وہ اٹھے اور انہوں نے ان کے سر کو چوما۔ اللہ دونوں سے راضی ہو۔

یہی حال حبیب ابن زید انصاری کا رہا۔ ان سے مسیلمہ کذاب نے کہا ’’کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہاں‘‘۔ پھر اس نے کہا: ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں رسول ہوں؟‘‘ توانہوں نے کہا: ’’میں نہیں سن رہا۔‘‘ وہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا۔ وہ یہی جواب دیتے رہے، یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں شہید ہوگئے۔

یہ اس لیے کہ عقیدہ اور نظریہ ایک عظیم دولت ہیں۔ نظریے میں کمزوری نہیں دکھائی جاتی اور رخصتوں پر عمل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگرچہ رخصت ہوتی ہے لیکن ایک مومن نفس اس کو ترجیح دیتا ہے کہ وہ عزیمت پر عمل کرے، کیونکہ نظریہ ایک ایسی امانت ہے جس پر انسان کی پوری زندگی اور پورے دنیاوی مفادات کو قربان کرنا چاہیے۔

(فی ظلال القرآن۔ جلد چہارم۔ تفسیر سورۂ النحل)

Monday 21 November 2016

گلوبلائیزیشن کا نعرہ اوراسلام

  *مجتبیٰ فاروق
گلوبلائیزیشن کا نعرہ اوراسلام
گلو بلائیزیشن بیسوی صدی کے اوا خرمیں شروع ہوا۔ یہ ۱۹۶۰ ء کی دہائی ہی سے اقتصادی پسِ منظر میں استعمال میں ہو نے لگا تھا۔اقتصا دیات اور منیجمنٹ کے لٹریچر میں سب سے پہلے لو یٹ (levits) نے۱۹۸۳ء میں اس اصطلاح کو استعمال کیا اور سماجیات کے میدان  میں سب سے پہلے رونالڈ  روباٹسن (Ronald Robertson) نے۱۹۸۰ ء کی دہائی کے آغاز میں مذکورہ اصطلاح کو استعمال کیا۔ذرائع ابلاغ اور تہذیبی و ثقافتی مطالعات میں اس کو سب سے پہلے مارشل ملکو ہانس (Marshel Mcluhans) نے اپنی کتاب  Understanding Medi میں60 19ء کی دہائی میں ہی استعمال کیا۔ اس کے بعد یہ اصطلاح انتہائی تیز رفتار ی کے ساتھ صر ف اکیڈمِک سطح پر ہی نہیں بلکہ ذرائع ابلاغ اور کاروباری سطح تک بھی بڑے پیمانے پر استعمال میں ہونی لگی ۔(۱)
سب سے پہلے اس کا کریڈٹ ٹھیڈو لویٹ کو جاتا ہے کہ انھوں نے اس اصطلاح کو 1983 ء میں اپنے ایک مضمون Globlization of  Markets میں منظم طور پر استعمال کیا۔ (۲)
صحیح معنو ں  میں گلو بلائیزیشن کی اصطلاح پوری دنیا میں جنگ عظیم دوم کی سیاسی اتھل پتھل کے بعد کی پیداوار ہے اور ء1981 اور1990  ء کی دہا ئیوں میں اس کے مختلف تصورات نے عالمی مقبولیت حاصل کر لی۔پہلے اس کا دائرہ کار محدود تھا لیکن بعد میں اس میں وسعت آگئی ۔ڈاکٹر عبدا لعزیز عثمان کے مطابق گلو بلایزشن ایک عالمی سیاسی نظام ہے جسے بین الاقوامی سیاسی تبدیلیوں نے سرد جنگ کے اختتام کے بعد بر لن کی دیوار کے سقوط کے بعد اورجرمن کے اتحاد اورساوٹ یو نین کے بکھرا ئو کے بعد جنم دیا ۔(۳)
جدید سائنس اور ٹکنالو جی کی وجہ سے دنیا میں زماں و مکاں کی زیادہ اہمیت نہیں رہی۔مقامی، علاقائی،ملکی اور بین الا قوامی سطح پر دوری اور نزدیکی کی اہمیت بھی کم ہو گئی ہے۔غربت اور جہالت دن بدن کم کر نے کی کو شش کی جارہی ہیں۔سائنس و ٹکنا لو جی کی بے انتہاترقی نے پوری انسا نی آبادی کو ایک دوسرے کے قریب کیا اور اس کے وساطت سے نہ صرف ذہنوں اور دلوں میں معلو مات کا خزانہ جمع ہو گیا بلکہ انسان کے فکرو خیال میں نہ تھمنے والا انقلاب بھی پیدا ہوگیا ہے  ۔موجودہ دنیا میں ہر شخص ایک دوسرے کے معاملات سے بھی بھر پور واقفیت رکھتا ہے۔اس دور میں علم و حکمت اور معلو مات میں ہر دن بے حد اضافہ ہو تا جارہا ہے آج بین الاقوا می سطح پر فکری تہذیبی ،معاشرتی اور ثقافتی طور پر وسیع پیمانے پر تبادلہ ہو رہا ہے اور افکار و نظریات، علو م و سائنس اور معلو مات ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے منتقل ہو رہی ہیں۔
گلو بلا ئزیشن ایک انگریزی لفظ ہے ۔ اردو میں اس کو عالمگیر یت ،عالم کاری اور بین الا اقوامیت اور عربی میں عو لمہ کہا جاتا ہے یہ سب اصطلاحا ت کم و بیش ایک ہی معنی میں خوب استعمال ہو رہی ہیں۔ گلوبلائزیشن گلوب سے ماخوذہے جس کا معنی کائنات کے ہیں اس کی صفت گلو بل ہے جس کا معنی اردو آکسفوڑ ڈکشنری کے مطابق عالمگیر کے ہیں اور گلو بلایزشن کامعنی عالمی  بنانا ہے۔یہ مادیت پر مبنی عمل کا نام ہے۔جبکہ گلوبلاازم ایک نظر یہ ہے جو کسی دوسرے پر فکری،اقتصادی اور تہذیبی طور پر قبضہ کر نے اور اس میں اپنی پالیسیز اور بالا دستی نافذ کر نے کا نام ہے۔
 گلوبلایئزیشن میں اگر چہ آزاد تجارتی منڈی اور کارو بار کو عالمی سطح پر فر وغ دینے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ لیکن یہ اسی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ دوسرے پہلو بھی شامل ہیں  جن میںسیاسی پالیسیز، تہذیب و تمدن اور سائنس و ٹکنالو جی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
  گلو بلا ئزیشن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ " It is just a handy word for the internalization of trade and capital,the other name of the process is free trade" 4)
گلو بلا ئزیشن سر مایہ دار تجارت کو عالمی بنانے کے لئے بولا جاتا ہے اس عمل کے لئے دوسرا لفظ آزاد تجارت کا استعمال ہو تا ہے ۔ورلڈ ٹر یڈ آرگنائزیشن ایک عالمی تجارتی تنظیم ہے جو عالمگیر یت کی سب سے بڑی داعی بھی ہے وہ گلو بلا ئزیشن کی تعریف یو ں کر تی ہے :
’’ عالمگیر یت دنیا کے ممالک کے درمیان اقتصادی تعائون کا نام ہے یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کا مقصد جغرافیائی حدود کو ختم کرکے پوری دنیا کو ایک عالمی منڈی میں تبدیل کر نا ہے  ‘‘ (۵)۔
ماہر ین سیاسات اور اقتصادیات دنیا کو اقتصادی سیاسی،سماجی اور تہذیبی سطح پر گائوں سے تعبیر کر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا بالکل ایک گائوں کی طر ح ہے جہا ں لو گ ایک دوسرے سے نہ صر ف مانوس بلکہ اچھی واقفیت بھی رکھتے ہیں۔ تھامس لارسن (Thames Larson)  گلو بلا ئزیشن کی تعریف اس طر ح سے بیان کر تا ہے :
 " Globlization is the proces of shrinking of the world,the shortenmg of the distances and clourness of the things. It allows the intraction of any person on one part of the world to some one find on the other side of the world in order to benifit " (6)
 گلو بلا ئیزیشن ایک ایسے عمل کا نام ہے جس کے ذریعہ دنیا نے سکڑ کر ایک گائوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔فاصلے بہت کم اور مختصر ہو گئے۔انسانی تعلقات وسیع پیمانے پر بڑھ گئے ہیں۔ دنیا کے ایک کو نے میں رہنے والا انسان دوسرے کو نے میں رہنے والوں سے باخبر رہتا ہے اور یہ سب کچھ نفع کے حصول کے لیے ہو تا ہے۔گلو بلا ئیز شن نے مقامی اور علا قائی سطح سے ملکی سطح تک اور ملکی سطح سے بین الاقوامی سطح تک اقتصادی اور سیا سی طو ر پر دنیا کے ایک علا قے اور ملک،دوسرے علا قے اور ملک سے باہمی  روابطہ وسیع پیمانے پر بڑھا لئے ۔ جیسا کہ ایک دانشور کاخیال ہے کہ عالمگریت اس عمل کا نام ہے جس میں پو ری دنیا نے ایک سماجی رخ اختیار کر لیا ہے۔(7)
گلوبلائیزیشن کا مغربی چہرہ:
گلو بلائیز یشن اصل میں مغر ب کا پیدا کر دہ عالمی اقتصادی نظام ہے۔جو بظاہر خوشنما معلوم ہو تا ہے لیکن اندر سے  انتہائی خطر ناک ہے۔اس نعرہ کو بلند کر نے کے بعد مغر ب نے پو ری دنیا کو اپنی سیا سی ،اقتصادی اور فکر ی مفادات و تر جیحات کے تابع بنا نا شروع کیا تاکہ اپنی عالمی یکتا ئی  کے زور پر بین الا قوامی سر مایہ داریت ،استعماریت اور استبدادیت کو تحفظ دے سکے۔اسی عالمی نظام کے پس پردہ ان کے مقاصد اور تر جیحات میں احیائے اسلام کی تحر یکوں کو کچلنا،اسلام اور عالم اسلام کے خلاف عالمی برادری کو کھڑا کر نا ، دنیا کی اقتصادی اور معاشی حالت کو کنڑول اور اس پر اپنی اجارہ داری قائم کر نا شامل ہیں۔ (8)گلوبلائیز یشن کو کچھ ماہر ین ایک نیا مظاہرہ کہتے ہیں جو اپنی اصل حقیقت کو چھپا تی ہے وہ اس کو مغر ب کے لیے ایک مضبوط ہتھیار تصور کر تے ہیں جبکہ مغر ب کی فکر و تہذ یب سے مرعوب ماہرین اس کے بے حد ہم نوا اور قائل ہیں۔اور جد ید یت کے لئے اس کو اہم محر ک باور کر تے ہیں۔اس کے بر عکس بنیادپر ست گلو بلا ئیز یشن کو ہر مقا می اور علاقا ئی تہذ یب پر ایک حملہ قرار دیتے ہیں ان کے مطابق مغر ب کی کثیر المقدار صنعت (پاپ موسیقی، آرٹ،سنیما،ٹی وی،میڈیا، جنس وحسن پرستی ،صارفیت وغیر ہ وغیر ہ ) نے دنیا میں لبر ل ازم اور جنسی آوارگی کو خوب پھیلا یا اور مغر ب نے افکار و علو م کو اسکولر بنا کے مذ اہب و اقدار کو بر باد کر ڈالا۔O liver Roy کے مطابق بہت سے لو گ گلو بلا ئیز یشن کو مغر بیت ہی سمجھتے ہیں۔اور کچھہ لو گ اس کو امر یکیت باور کرتے ہیں۔ لیکن دونوں صورتوں میں گلوبلا ئیز یشن مغر بی یا امر یکی فکر و تہذ یب کو اختیا ر کر نے کا نام ہے۔(9) گلو بلا ئیز یشن میں جو تصور پیش کیا جارہا ہے جس کے تحت ہر ملک اپنی مصنوعات منڈی میں بلا روک ٹوک لاسکے گااور اس میں زبردست قسم کی دوڑہو گی جو اس میں پیچھے رہ جائے گا وہ مٹ جائے گا۔اس مقابلے میں وہی آگے بڑھ سکتا ہے جو طاقت ور ہو۔اس جنگ میں ساری کمائی امیر ممالک کے ہاتھ میں رہے گی ۔معروف دانشور ڈاکٹر فضل الر حمن اس حوالے سے رقمطراز ہیں کہ ’’ معشیت کی عالمگر یت کا مفہوم آزاد تجارت ہے قوانین و ضوابط کی کمی ہے،معا شی سرحدوں کو کھول کر بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کی آمد و رفت کو بے روک ٹوک فروغ دیتا ہے کمپٹشن کو ہر شعبہ زند گی میں ممکن بنا یا ہے مگر یہ پوری حکمت عملی امیرمما لک کے لیے تومفید ہے لیکن غریبوں کے لئے مفید کم ہے۔اور نقصان زیادہ۔(10)
   گلوبلا ئیز یشن کے تین نما یا ں پہلو:۔
 (۱) سیاسی ۔ (۲) اقتصادی اور (۳) تہذ یبی۔
 (۱)  سیاسی پہلو  :۔ عالمگیر یت کے نتیجے میں مغر بی اقوام نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر پو ری دنیا کو اپنا ذہنی غلام بنا رکھا ہے۔اس کے لئے وہ نت نئے ادارے،نظریات ،ٹکنالوجی ،کلچر سیاست اور تعلیم کو  استعمال کر رہے ہیں۔اس کے نتیجے میں باقی دنیا با لخصوص عالم اسلام احساس کمتری اور نفسیاتی دبائو کا شکار ہے۔ناپاک عزائم اور استعماری ذہینت کا حامل مغر ب عالم اسلام کے ہر کو نے میں نہ صرف مداخلت کر رہا ہے بلکہ وہاں سے بے شمار فائدے بھی حاصل کر رہا  ہے۔اس کا جو نتیجہ نکلا  وہ عامرا لر بیع کے الفاط میں یہ ہے:’’ مسلم ممالک پر قبضہ ہو نے کے بعد  عالم اسلام اپنے بنیادی ،وقیع  اور قدروقیمت کے حامل چیزیں مثلاً تہذ بیی ورثہ،علوم نقلیہ،طرز زند گی ،زبان،سماجی روابط ،اقتصادی تحفظ اور ملکی تشخص کھو دیا ۔(11)
 (۲) اقتصادی پہلو:۔ گلو بلا ئیز یشن چونکہ تجارت اور مارکیٹ کو اپنے کنڑول میں رکھنے کا نام ہے ۔اس لیے مغر ب نے استبدادی پنجہ پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے ۔اس نے ریا ستوں اور ملکوں کو نہ صرف اپنا آلہ کار  بلکہ اپنا خدمت گار بنا رکھا ہے۔اس کے لیے اس نے بہت سے ذرائع کو استعمال کیا۔ مغر ب نے جنرل ایگر یمنٹ آف ٹرف امینڈ ٹریڈ (G.A.T.T)،ورلڈ بنک (World Bank) ،انٹر نیشل مانٹری فنڈ ( I.M.F)اور ورلڈ ٹر یڈ آرگنائزیشن (W.T.O)وغیرہ اداروں کو عالمگیر اقتصادی نظام کی تشکیل کے لیے ہی قائم کیاتاکہ پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھ سکے۔ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن (W.T.O)اور ورلڈ بنک کے قرضوں نے غریب ممالک بالخصوص مسلم ممالک کو معا شی بحران میں مبتلا کرایا۔موجودہ عالمگیریت مغربی استعماریت کے غالب ہو نے کی وجہ سے چھائی ہو ئی ہے اور اس نے تر قی پزیر ممالک کا معا شی ،ٹکنا لو جی ،تہذ یبی اور سیا سی پالیسیز کا رخ متعین کر رکھاہے۔غر یب اور مسلم ممالک سامراجیت کے پنجوں سے دوسری عالمگر جنگ کے بعد سے سیا سی طور سے کسی حد تک آزاد تو ہو ئے لیکن اقتصادی،سانئس و ٹکنالوجی اور تہذ یبی طور پر اپنے آپ کو مکمل طور سے غلو خلا صی حا صل نہ کر پائے۔
 (۳) فکری و تہذیبی پہلو:۔گلو بلا ئیز یشن کا ہدف جہاں سیاسی بالا دستی اور دنیا کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے عالمی معیشت کے لیے کام کر نا ہے وہیں مغر بی  فکر وتہذ یب او رثقافت کو پو ری طر ح سے دنیا میں نہ صرف فروغ دینا ہے بلکہ دوام بھی بخشنا ہے۔مغر ب اپنی تہذ یب کو اعلیٰ و بر تر سمجھ کر دنیا میں اس کو نافذ کر نا چاہتا ہے۔گلو بلا ئیز یشن کے اہداف،فلسفہ،طر یق کار،اور لوازمات سب مغر بی تہذ یب کے فیصلے ہی کے لیے ہے۔ گلو بلا ئیز یشن مغر بی کلچر کے غلبے کا دوسرا نام ہے۔ خاندان کی تباہی،اخلا قی قدروں کی پامالی ،عریانی،انسانیت نوازی اور بھائی چار گی کا فقدان،خود غر ضی اور مفاد پر ستی کا رواج ،انسانی حقوق کی پامالی ،عفت و عصمت پر حملے اور ہر شے حتی کہ انسان کا بھی خرید و فروخت ہونا۔ہم جنس پرستی کو معمول قرار دیا جائے گا۔طوائف کلچر کو مقبول بنا یا جائے گااور عورت کی آزادی کے نام پر اسے بے حیا ئی کی صلیب پر قربان کردیا جائے گا۔(12)جرمنی کے اسلامی مفکر ڈاکٹر مراد ہوف مین گلوبلائیزیشن کے  فکری پہلو کے متعلق لکھتے ہیںــ’’گلوبلائیزیشن نے امت مسلمہ کے درمیان تفریق پیدا کرنے اور اسلام کی اعلی اقدار  کے خلاف یورش کرنے کے لئے فکری حملے شروع کردئیے ہیں جن میں اس تحریک کے سب سے خطرناک ہتھیار جنس پرستی ،مادیت، فردیت،دولت اور ثروت کے ذریعہ فتنہ انگیزی کرنا ہے‘‘(۱۳)
 گلو بلا ئیز یشن کے منفی و مثبت اثرات
گلو بلا ئیز یشن کے بہت سے منفی اثرات اور پہلو ہیں۔اگر چہ اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔پہلے مثبت پہلو وں کا تذ کر ہ کیا جائے گا۔ (۱) راست بیرونی سرمایہ کاری نے تیسری دنیا (Third World)کے ممالک میں غربت کو کسی حد تک کم کر نے میں معاون ثابت ہو ئی ہے۔ جیسے بنگلہ دیش اور انڈونیشیا میں۔ (۲) بیرونی ریاستوںکی سرمایہ کاری کر نے سے اور تجارت کو فروغ ملنے سے تیسری دنیا کے متو سط طبقے کی حالت کچھ بہتر ہو ئی ہے۔
 (۳) ابلاغ کے مختلف جد ید ذرائع سے گلو بلا ئیزیشن کے عمل سے نت نئے ایشوز جیسے قانون کی حکمرانی ،انسانی حقوق،عوام کے سامنے جواب دہی کا حساس وغیرہ ،دنیا کے سامنے ابھر کر لایا۔
 (۴) دنیا میں لو گوں نے ایک دوسرے کو سمجھنا شروع کیا۔
 (۵) عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں دنیا بھر میں سنجید گی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔
 گلو بلا ئیز یشن کے منفی پہلو:
 (۱) مغر ب نے گلو بلا ئیز یشن کے ذریعہ مسلم روایات اور اسلامی فکر و تہذ یب کے تئیں مختلف غلط فہمیاںپھیلا ئیں۔(۲) گلو بلا ئیز یشن کے عمل سے دنیا کے چند سر مایہ داروں کے ہاتھوں دنیا کاکل سرمایہ میں 79فیصد دولت ایک بلین سے بھی کم لو گوں کے ہاتھوں میں ہے۔جبکہ دنیا کی کل آبادی میں صرف 11.2فیصد ہاتھوں میں 62,5فیصد دنیا کی دولت ہے۔اور مسلمان 5.3فیصد کے سرمایہ پر کنٹرول کئے ہوئے ہیں۔(۱۴) (۳) گلو بلا ئیز یشن کے اس دور میںتہذ یب ایک اہم عنصر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا جس کی دلیل پروفیسر ہنگنٹن کا نظریہ تصادم والا نظر یہ ہے ۔جس  میں  عالم اسلام اور مغر ب کے درمیان کشمکش کو عالمگیر تصادم کے طور پر پیش کیا۔
(۴)جرائم نے اب عالمگیر شکل اختیار کر لی ہے نشیلی ادویات کے کاروبار نے سرحدوں کی کوئی معنویت نہیں رکھی اور کچھ عالمگیر نو عیت کی بیمار یاں بھی بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہیں۔ جیسے ایڈ س جو ایک وبا کی طر ح دنیامیں پھیل رہی ہے۔
(۵) ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے اقتصادیات کے میدان میں قدروں کو پامال کیا اور صرف کا رجحان (consummer culture)بھی غلط طر یقے سے بڑھتا ہی جارہا ہے جس کی وجہ سے مادہ پر ستی میں بے حد اضافہ ہو رہا ہے۔      
(۶) زند گی کے ہر شعبے میں عالم کاری کا عنصر داخل ہو رہا ہے جسکی وجہ سے عالم اسلام کے خلاف فوبیاں پیدا کیا گیا ۔اور طاقت ور ممالک ان کو اپنے  پنجہ استبداد میں رکھنے کے لیے کو ئی کسرباقی نہیں چھو ڑرہا ہے۔
 (۷) گلو بلا ئیز یشن کا ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ سائنس اور ٹکنالو جی کی بے حد تر قی کے ذریعے مغر ب نے مسلم سماجوں کے تہذ یبی تشخص کو تہس نہس کیا۔’’ہم اور ہمارا ایک ‘‘(Nuclier Family)کا تصور ،ضبط ولادت اور سماجی روابط کا ٹوٹنا گلو بلا ئیز یشن کی ہی دین ہیں۔
 (۸) میڈ یا گلو بلا ئیز یشن کا ایک مو ثر اور طاقت ور ہتھیار ہے جس کے ذریعے  دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویر پیش کی  جارہی ہے۔(۱۵)
اسلام میں عالمگیر یت کا تصور
    ظہور اسلام سے پہلے دنیا کے تمام مذاہب علا قائی اور قومی نو عیت کے تھے کو ئی فرد کسی دوسرے فر د کا مذ ہب قبول نہیں کر سکتا تھا ۔ بعثت اسلام کے وقت دنیا میں چار بڑے مذاہب یہو دیت ،عیسائیت ، ہندوازم اور بد ھ مت تھے لیکن ان میں سے کو ئی بھی مذ ہب اپنی اصل حالت اور ہیت میں نہیں تھا بلکہ ہر لحا ظ سے ان کی جملہ تعلیمات مسخ ہو چکی تھیں بالفاظہ دیگر یہ سبھی مذاہب محر ف (Distorted) تھے ان مذ اہب کے پاس دنیا ئے انسانیت کے لیے رشد و ہدایت کے لیے کو ئی رہنما ئی نہ تھی۔ان میں نہ تو دنیا وی زند گی گزار نے کے لیے کو ئی لائحہ عمل تھا اور نہ ہی ان کے ہاں انسان کے مو ت کے بعد کے متعلق تعلیم یا رہنما ئی تھی۔مذکو رہ چاروں مذاہب کا نظر یہ زند گی اور کائنات محدود ہے ۔ذیل میں ان چاروں مذاہب کی محدود یت کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔
 (۱) یہو دی مذہب :۔ یہو دی مذہب کا دائرہ کار صرف  قوم بنی اسرا ئیل تھا یعنی یہ مذہب صر ف بنی اسرائیل تک ہی محدود تھا۔تورات میں اس قوم کے لیے ایک رہنما اصول یہ بھی تھا:
         مو سیٰ ؑ کو ہم نے ایک شریعت دی جو بنی اسرائیل کی میراث ہو۔(۱۶)      
تورات کی ایک دوسری آیت میں وارد ہے کہ :
 اس مذہب کا بنیادی مقصد بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد کرانا تھا۔(۱۷)
 (۲) عیسا ئی مذہب:۔ عیسا ئی مذ ہب بھی صرف بنی اسرائیل قوم کے لیے خاص تھا اس مذہب کی بنیادی غر ض وغایت یہو دی مذ ہب اور یہو دیوں کی اصلاح کر نا تھی۔حضر ت عیسیٰ ؑ صرف بنی اسرائیل  کی گمشدہ بھیڑوں کی طر ف مبعوث ہو ئے  تھے۔حضرت عیسیٰ ؑ فر ماتے ہیں:
 میں اسرائیل کے گمشدہ بھیڑوں کے سوا کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔(۱۸)
 (۳) ہندومت:۔ ہند و ازم ہندوستان کا نہایت قدیم مذہب ہے اس مذ ہب میں ویدوں کو کافی اہمیت حاصل ہے۔لیکن ویدوں کی تعلیم و قرات صرف برہمنوں کے لئے مخصوص تھی۔ہندوازم میں اگر وید تمام لو گوں کے لیے ہو تی تو پھر صرف بر ہمن کے لیے وید وں کی قرات کیوں مخصوص کردی جاتی؟۔اس مذ ہب میں نچلی ذاتوں کو وید اور اس قبیل کی دوسری  مذ ہبی کتابوں کو سننے تک کی اجازت نہیں تھی اور اس کے علاوہ اپنی عبادت گاہوں میں داخلہ کی بھی ممانعت تھی۔اور اگر نچلی ذات سے کوئی غلطی سے داخل ہوتا تو اس کو مارا پیٹا جاتا اور مندر کو دھلایا جاتا ہے ۔
 (۴) بدھ مذہب:۔ بد ھ مذہب صحیح معنوں میں بر ہمنوں کی تنگ نظری اور ان کی کار ستانیوں کے خلاف ایک رد عمل اور ان کی اصلاح کے لیے وجود میں آیا۔اس مذ ہب میں راہبانہ اور زاہدانہ تصور زیادہ پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کبھی بھی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کی طر ف دعوت نہیں دی۔یہ محدود رسم و رواج پر مشتمل مذہب ہے۔
دنیا کے ان چاروں بڑ ے مذاہب میں تصور کائینات (World View)اور عالمگیر یت کا رنگ نہیں پایا جاتا ۔ان میں تصور توحید ،تصور معاد اور تصور رسالت کے علاوہ سیاست معیشت اور معاشرت کے متعلق بھی کو ئی حقیقی ،واضح اور جامع تصور نہیں پا یا جاتا ۔اس کے بر عکس اسلام اپنے اندر عالمگیر یت اور آفاقیت رکھتا ہے اور اس کا تصور کائینات مدلل اور منقح ہے۔ اسلام میں سیاسی ،سماجی،اقتصادی اور معاشرتی تعلیمات بھی واضح اور جامع ہیں۔اس میں معیشت کے متعلق جو احکام ہیں ان میں آفاقیت پائی جاتی ہے۔سیاسیات کے بارے میں جو اصول و ضوابط ہیں ان میں نہ صرف وسعت بلکہ بین الاقوامیت کارنگ غالب ہے۔اسلام کی جو معا شرتی تعلیمات ہیں وہ نوع انسان کے لیے ہر لحا ظ سے قابل عمل اور مفید ہیں۔اسلام دین فطرت ہے اس میں دین اور دنیا یا جسم و روح کو متوا زی اہمیت دی گئی۔اس میں جہاں فرد کی تعمیر و تطہیر کے لیے جا مع تعلیمات مو جود ہیں وہیں معاشرہ کے لیے بھی ہمہ گیر رہنمائی مو جود ہے۔اسلام کی جملہ تعلیمات روز روشن کی طر ح عیاں ہیں۔ اسلام میں جہاں امیر اور سرمایہ دار طبقہ کے لیے رہنما ئی ہے  وہیں غریب اور نادار انسانوں  کے لیے بھی یہ خیر و فلاح کی راہ ہے۔اسلام جہاں انسان کو تنگ نائیوں اور ظلمات سے نکال کر ایک ایسے راستے کی طرف لے آتا ہے جہاں اس کے  لیے زند گی کے تمام شعبہ جات کے لیے رہنما اصول مو جود ہیں ۔وہیں یہ بھولے بھٹکے اور گمراہیوں میں پڑے ہو ئے لو گوں کے لیے بھی عظیم راہ اور سہارا ہے ۔اسلام نے ہمشیہ ظالم کو اسکے ظلم سے باز رکھا اور مظلوم کو اس کا حق دلا یا۔اسلام اللہ کی طرف سے ہر ایک کے لئے نازل ہوا ہے۔چھٹی صدی عیسوی  میںجس طرح سے عالم انسانیت اسلام کی راہ تاک رہی تھی وہیں آج اکسیویں صدی میں دنیا ئے انسانیت اس کی منتظر ہے۔ڈاکٹر بی، کے نارئن(Dr B.K Naryan)اسلام کے تاریخی رول کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں:ــ’’ـاسلام دنیا میں اس وقت ظہو ر پزیر ہوا جب قدیم تہذ یبیں مثلاً باز نطیفی۔ایرانی اور ہند وستانی تہذ یبیں خشک ہو چکی تھیں اور ہر جگہ لوگ جابر طبقے اور ظالمانہ نظام سے نجات کے منتظر تھے۔ جو کہ قدیم تہذیبوں کی مشترکہ خصوصیت تھی‘‘۔(۱۹)
اسلام انسان کو تین طر ح کے تعلقات قائم کر نے پر زور دیتا ہے جو کہ انسانیت کی فلاح و بقا ء کے لیے انتہائی ضروری ہیں ۔ایک یہ کہ انسان کا تعلق اپنے رب کے ساتھ ہو۔دوسرا اس کا تعلق دوسرے انسانوں کے ساتھ ہو اور تیسرا اس کا تعلق اپنی ذات سے ہو ۔اس وقت دنیا میں ان تینوں تعلقات کا فقدان ہے اسی لیے ظلم و فساد ،بے اطمنانی  اور خون ریزی بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔اسلام اسی مرض کا علاج ہے۔اسلام عر ب میں مبعوث ہوا تو صرف پچاس برسوں میں پو رے عرب خطے کی حالت ہی بدل  کر رکھ دی ۔اس نے عر بوں جیسے جاہل  اور بگڑی ہو ئی قوم کو دنیا کی مہذ ب ترین قوم بنا دیا ۔یہی قوم بعد میں جہاں باں اور جہاں بین بن گئی۔اسلام مکمل نظام حیا ت ہے اس کا  ہر حکم  انسان کی فطر ت کے عین مطابق ہے جو ہر دور میں نوع انسانی کے در پیش مسائل کو حل کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ اب اسلام کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے آئیں اور دنیا کے سامنے اسلام کوایک نجات دہندہ اور واحدمتبادل کے طور پر پیش کر یں۔
قرآن مجید اور عالمگیریت
 قرآن کلام الہیٰ ہے اس کی جملہ تعلیمات عالمگیر اور ہمہ گیر ہیں ۔بنی نو ع انسان کے لیے رشد وہدایت ہی نہیں بلکہ آخر ی پیغام حق بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
 ’’ یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تم پر اتاری ہے تاکہ تم لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے تاریکیوں سے نکا ل کر روشنی کی طر ف لاؤ۔‘‘(ابراہیم:۱)اس رب کے راستے کی طر ف جو زبروست اور حمیدہے:
تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَی عَبْدِہِ لِیَکُونَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً( الفرقان۔ ۱)
نہایت متبر ک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بند ے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے خبردار کرنے والا ہو۔    قرآن مجید ہر قوم کے لیے اور ہر زمانہ کے لیے دائمی ہدایت ہے۔اس کی تعلیمات کسی مخصوص قوم یا کسی خاص زمانے کے لیے نہیں ہیں بلکہ کل انسانیت اس کی مخاطب ہے۔ارشاد بارے تعالیٰ ہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ۝۰ۥۙ وَہُدًى وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ(یونس:۵۷)لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طر ف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفاء ہے اور جو اسے قبول کر ے ان کے لیے یہ رہنمائی اور رحمت ہے۔
ہر فرد اور ہر قوم قرآن مجید کا مخاطب ہے کیونکہ یہ اپنے خطاب کا آغاز الناس سے کر تا ہے۔قرآن مجید میں یا ایھاالناس کاخطاب ۱۹ مر تبہ آیا ہے ۔  (۲۰)
  سیرت محمدﷺ اورعالمگیریت
 سیرت محمد اللہ کے رسول ؐ سے پہلے جو انبیا ء کرام مبعوث ہو ئے تھے وہ کسی خاص قوم اور زمانہ کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے آئے تھے۔ان کی محدودیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ رُسُلاً إِلَی قَوْمِہِمْ ۔(سورہ روم :۴۷)اور ہم نے تم سے پہلے بھی پیغمبر ان کی قوم کی طر ف بھیجے۔حضرت محمد ؐ کسی خاص قوم،گروہ یا نسل  یا خطے کی رہنما ئی کے لیے  نہیں بھیجے گئے بلکہ پوری انسانیت کے لیے مبعوث ہو ئے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :وما ارسلناک الا کافۃ للناس بشیرا و نذیرا۔ (سبا: ۳)
 اے نبی ؐ ہم نے تم کو سارے لو گوں کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
   اپﷺ نے ایک ایسا نظریہ پیش کیا  جو خیالی نہیں ہے بلکہ عملی ، آفاقی اور ہر لحاظ سے جامعیت کا حامل ہے۔ قرآن مجید میںایک اور جگہ آپ کی عالمگیر یت اور آفاقیت کی وضاحت ملتی ہے  ارشاد باری تعالی ہے :   قل یاایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا(سورۃ اعراف : ۲۰)
 اے نبی ؐ کہہ دیجیے کہ میں تم سب کی طر ف خدا کا بھیجا ہو ا رسول ہوں۔آپ دنیا ئے انسانیت کے لیے ہادی ،رہنما اور رحمت ہیں۔
ایک اور جگہ وارد ہے:   وَمَا أَرْسَلْنَاک رحمۃ للعامین۔ (سورۃ لانبیا ء :۷)
اللہ تعالی  نے آپ کو سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ۔
آپ نے اپنی عالمگیر نبوت کے بارے میں ارشاد فرمایا :کان النبی یبعث الی قومہ خاصہ و ابعث الی الناس عامہ۔ (۲۱)ہر نبی اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے لیکن میں تمام دنیائے انسانیت کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ آپ  پر نبوت کا سلسلہ اختتام پذیرہوا اور اب کسی نبی کا ظہور نہیں ہوگا ۔اس ضمن میں  میر ی اور مجھ سے پہلے انبیا ء کی مثال اس شخص کی طر ح ہے جس نے ایک مکان بنایا اور کہا جن وجمیل مکان بنایا لوگ اس مکان کے ارد گرد گھوم کر کہنے لگے کہ کیا ہی اچھا مکان ہے مگر اس میں ایک اینٹ نہیں ہے سو میں وہ اینٹ ہوں۔ایک اور حدیث میں اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا:
  وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون۔(۲۲) میں تمام مخلوقات کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا گیا  ہوں اور نبوت مجھ پر ختم ہو گئی۔ اللہ کے رسول ؐکی تعلیمات میں ہمہ گیر اور عالمگیر نمو نہ ہے اور آپؐ کی سیر ت ہر ایک سے کامل نمو نہ ہے۔آپ ؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا  ہو نے میں ہی عالم انسانیت کی حقیقی فلاح و کامرانی اور نجات مضمرہے۔
 امت مسلمہ اور عالمگیر یت
 امت مسلمہ ایک آفاقی امت ہے اس کی عالمگیر یت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْر ( حجرات : ۱۳)  لو گو۔ ہم نے  تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا  دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔
 تعارف کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ایک اور مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کا تعاون اور بقا باہم کا تصور اور باہمی احترام کا نظر یہ اس کے اندرشامل  ہے۔(۲۳)
 اس آیت میں عالم انسانیت کے لیے عالمگیر وحدت اور مساوات کا پیغام ہے گویا کہ اقوام عالم کی تقسیم اسلام کی نظر میں رنگ ، نسل ،علاقہ اور رسم و رواج معنی نہیں رکھتا ۔عالمی امت کے تصور کو قرآن مجید کا یہ بھی بیان ہے کہ: َ   ان ھذہ امتکم واحدۃ وانا ربکم فاتقون۔ (سورۃ المو من :53)
 یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے۔ اور میں تمہارا رب ہوں بس مجھ سے ڈرو۔
 امت مسلمہ کا اہم مشن ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
  وَکذالک جعلناکم امۃ و سطا لتکونو شحداء علی الناس ویکون السول علیکم شھیدا  ۔(البقر :43) ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسطہ بنا یا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول  تم پرگواہ ہو۔
  امت وسط سے مراد ایک ایسا اعلی اور اشرف گروہ ہے جو عدل و انصاف اور توسط کی روش پر قائم ہو جو دنیا کی قوموں میں صدرکی حیثیت رکھتا ہو۔جس کا مطلب سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق اور ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔(۲۴) قرآن مجید کے مطابق امت مسلمہ ایک بہتر ین گروہ ہے جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا  ہے۔اس عالمگیر امت کا مقصد وجود یہ ہے کہ یہ خیر و فلاح کا کام کر تے ہیں ۔اور شرو فساد سے لو گوں کو دور رکھتے ہیں اس لیے یہی آخر ی امت ہے ۔ اللہ کے رسول ؐ کا ارشاد ہے:
  اناآخر الانبیاء واتم آخرالامم۔   میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (۲۵)
  مذ کو رہ بحث سے یہ بات ظاہر ہو تی ہے کہ اسلام ہی وہ عالمگیر دین ہے جو صحیح معنوں میں حقیقی اور الہیٰ پیغام ہے۔جو دنیا ئے انسانیت کے لئے واحد نجات دہندہ ہے۔اسلام کا نصب العین آفاقی ہے اس کا خالق و مالک رب العالمین ہے اس کی کتاب یعنی قرآن مجید دائمی اور عالمگیر پیغام رحمت ہے پیغمبر اعظم عالمگیر ھادی و رہنما ہیں۔ امت مسلمہ نہ صرف خیرامت بلکہ عالمگیر امت ہے اسلام کی تعلیمات میں جملہ انسانی مسائل  کاحل موجود ہے۔جدید عالمی نظام اور گلوبلائیزیشن میں نہ کوئی ٹھوس لائحہ عمل ہے نہ ہی اس میں کسی انسانی مسئلہ کا حل ۔بلکہ یہ غریب ممالک کو اپنی مٹھی میں رکھنے کا نام ہے اس کے بر عکس اسلام کے عالمگیر نظام میں ہر لحاظ سے وسعت ہے اس کی بنیاد اور روح تو حید ہے جو کسی اور تہذ یب ،مذہب اور نظر یہ میں نہیں پایا جاتا۔ اسلام کا اپنا کائنا تی تصور (World view)ہے جو الہٰی ھدایات  پر مبنی ہے۔ امن عالم کے حوالے سے اسلام جو رہنمائی فراہم کرتا ہے۔اس کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔ اسلام میں احترام اور تکر یم انسانیت کی تعلیم تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور مساوات ،عدل و انصاف، حقوق انسانی اور عزت و عصمت کا تحفظ اس کی نما یاں خصوصیات  امتیازات ہیں۔
مصادر ومراجع
 (1) Ali Mohamadi ,edit,Islam Encountering Globlization,Routlege Eurzon london.P:1
(2) htt// wiki pedia,org/ Anti Globlization.                                                                                           
(۳) ڈاکٹر عبد العزیز عثمان،الحوارمن اجل التعایش (اردو تر جمہ مذا کرات بقائے باہم، پروفیسر محسن  عثمانی)انسٹچوٹ آف آبجکٹیو اسٹیڈ یزدہلی ،ص: 64
(۴) ائی ،او، ایس جرنل جلد 22,جنوری تا جولائی ،2000
(۵) مو لانا یا سر ند یم ،گلو بلا ئیز یشن اور اسلام،دارالکتاب دیو بند،ص:۶۰
(6) Larson thomes,The Race to the top:the real story of Globlization,Washington D C,P:9   
(7) Mortin Albrow and Elizabethking,Globlization,knowledge and Socity,london P: 9
 (۸) مقالات سیرت ،امت مسلمہ کے موجودہ مسائل ،درپیش چلیجز اور ان کا تدارک،وزارت مذ ہبی امور زکواۃ ،عشر پاکستان ص: ۶۰
(9) Roy olivier ,Globlization Islam the search for new Ummah ,columbia university press New yark p; 250
 (10)ڈاکٹر فضل الر حمن فر ید ی،دور حاضر کا کر ب اور اسلام کا نظام رحمت ،مر کز ی مکتبہ اسلای، دہلی ص 33
(۱۱)
(12) Dr. Noor Mohammad Osmani and Abu sadat ,islam cultural identity, Formation crises  and solution, HamdaradIslamicus ,Oct.December,2009,P:72                                                                                 
(۱۳)پروفیسر جہاں آرا ء ،گلوبلائیزیشن اور ہمارا نظام تعلیم، ماہنامہ میثاق،جون ۲۰۱۱،ص:۸۳
(۱۴)ڈاکٹر خالد علوی،اسلام اور عالمگیر یت ،دعوۃ اکیڈ یمی بین الاقوامی اسلام آباد ص : 17
(15)Shazadi Fakezada and Asherger chesty,Globlization and Religion  islamic  prespctive, www,savap.org.p.
(۱۶)استثنا،باب 33،آیت ۴۔بائبل سوسائٹی ہند مہا تما گاند ھی روڈ بنگلور
 (۱۷)خروج ،درس ۳ آیت ۷ تا ۱۲ بائبل سو سائٹی ہند مہا تما گند ھی روڈ بنگلور
 (۱۸) انجیل 5.24
(19)B.K Naryan ,pan islamism,Republican Books temple Road lahore 1987,p:1     
(۲۰)محمد فواد الباقی،المعجم المفہرس لا لفاظ القرآن۔دارالفکر بیروت،1987ص : ۱۱۱
 (۲۱) محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح،
 (۲۲)ڈاکٹر عبدالعزیز عثمان،الحوار من اجل التعاش۔اردو تر جمہ مذکرات برائے بقائے باہم از پروفیسر محسن عثمانی انسٹی  ٹیوٹ آف ابجیکٹو اسٹیڈیز ،ئنی دہلی صَ: ۵
(۲۳)صحیح البخاری ، کتاب الجہاد والسیر
) ۲۴)مولانا سید مودوی ،تر جمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی ،مر کزی مکتبہ پبلیشرز نئی دہلی۔ص : ۶۷ 
(۲۵) ابی عبد اللہ محمد بن یزید الر جعی،سنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن۔ باب  فتنہ الرجال
****