Search This Blog

Thursday 8 June 2017

روزے کے لیے متعین و مخصوص موسم نہ ہونے کے فوائد



روزے کے لیے متعین و مخصوص موسم نہ ہونے کے فوائد
ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم (پیرس)

یہودی، عیسائی اور ہندو یا تو خالص شمسی حساب کرتے ہیں یا قمری سال میں وقت بہ وقت کبیسہ (Intercalation) کر کے ایک مہینہ کا اضافہ کرتے ہیں تاکہ قمری سال کی مدت بھی اتنی ہی طویل ہوا کرے جتنی شمسی سال کی ہے اس لحاظ سے ان کے روزے ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتے ہیں ۔ مسلمان قمری حساب کا حساب کرتے ہیں ان کی جنتری چاند کے مہینوں کے لحاظ سے ہوتی ہے جس میں کبیسہ(Intercalation) نہیں کیا جاتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روزہ رکھنے کا مہینہ رمضان بتدریج باری باری سال کے ہر موسم میں آتا ہے ۔

قمری سال کے مہینوں سے حساب کرنا بہتر ہے یا شمسی سال کے مہینوں سے ؟ جس کرۂ ارض پر ہم بستے ہیں اس کا موسم ہر جگہ یکساں نہیں ہے لوگ ہر موسم کی شدت سے تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔ خواہ گرمی کی شدت ہویا سردی کی۔ اس طرح کسی علاقہ کی گرمی اور سردی کے موسم محض اضافی امر ہیں ۔ مثلاً جاڑ ے کا موسم مکہ میں بڑ ا خوشگوار ہوتا ہے اور وہ قطبوں کے قریب (کناڈا، شمالی یورپ میں ) ایسا نہیں ہوتا۔ گرما قطب شمالی اور جنوبی کے قریب بہترین موسم ہے لیکن خط استواء کے پاس اور ریتلے صحرا میں ایسا نہیں ہے ۔ موسم بہار ہرجگہ ایک معتدل موسم ہو سکتا ہے ، لیکن خطِ استواء کے قریب بہت سے ملکوں میں (مثلاً جنوبی ہندوستان میں )موسم بہار ہوتاہی نہیں ، یہاں کے لوگ موسمِ بہار جانتے ہی نہیں ۔ اور ان ملکوں میں صرف تین موسم ہوتے ہیں ۔ سردی، گرمی اور بارش۔ ایک ایسے مذہب کیلئے جو تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے ، اگر ہم روزہ رکھنے کیلئے کوئی خاص زمانہ مقرر کر دیں تو بعض لوگوں کیلئے مدامی طور پر آسانی ہو گی اور بعض لوگوں کیلئے مدامی سختی اورتکلیف یا کسی اور طرح زمین کے بعض علاقوں کے باشندوں کیلئے سہولت بخش نہ ہو گا لیکن اگر روزہ رکھنے کے زمانے میں موسم باقاعدگی کے ساتھ بدلتے رہیں تو آسانی اور سختی باری باری سے آتے رہیں گے اور کوئی شخص روزہ کا قانون بنانے والے پر خفا نہ ہو گا۔ ا سکے علاوہ روزہ رکھنے کیلئے موسموں کی اس تبدیلی کا یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ ہر قسم کے موسم میں روزہ رکھنے کے عادی ہوجائیں اور یہ عادت کاٹ کھانے والے جاڑ ے میں اور جھلسانے والے گرما میں کھانے اور پینے سے رک جانے کی یہ قابلیت ، مومن کو صبر کرنے کی قوت عطا کرتی ہے مثلاً جنگ کے محاصرہ کے وقت ، غذا اور غلہ کے تاجروں اور آب رسانی کے عملے کی ہڑ تال کے وقت جبکہ کھانا ، پانی مشکل سے ملتا ہے یا ملتا ہی نہیں ۔

(اقتباس: روزہ کیوں؟ از ڈاکٹر حمیداللہ)

امن کا مہینہ رمضان المبارک



امن کا مہینہ رمضان المبارک
محمد آصف اقبال

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم کا ہر کام، اس کے لیے ہے، مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ اس دن فحش بات نہ کرے، شور نہ کرے، اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑائی لڑے تو دو مرتبہ کہہ دے کہ میں روزے دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، روزے دار کے منہ کی مہک اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے زیادہ خوشبو دار ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: جب افطار کرتا ہے تو افطار پر خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے پر خوش ہوگا (الفتح الربانی: ترتیب مسند احمد)۔ حدیث نبوی ۖکی روشنی میں رمضان کے مہینہ کی فضیلت، روزہ کی اہمیت اور اس کے فوائد، اللہ سے قربت اور اس کے مخصوص حکم کی بجاآوری کے نتیجہ میں رب العالمین کی تجلی اور اس سے حاصل ہونے والی لا محدود خوشی کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ مسلمان کے لیے روزہ نہ صرف عبادت ہے بلکہ اس کی فلاح، ترقی اور ارتقا کا ذریعہ ہے۔ روزہ کے دوران اس کی شخصیت خود اس کے لیے اور عالم انسانیت کے لیے امن و امان کا ذریعہ بنتی ہے وہیں اس میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ امن و امان کے قیام کے بغیر انسان کا ارتقا رک جاتا ہے، وہ ترقی نہیں کر پاتا اور نہ ہی وہ اللہ کا قرب حاصل کر پاتا ہے۔ حدیث میں یہ بات بہت صراحت کے ساتھ کہی گئی ہے کہ جب تم روزہ کی حالت میں ہو اور کوئی تم سے بد کلامی کے ساتھ پیش آئے یا لڑائی کرے تو اس سے کہہ دیا جائے کہ میں روزہ سے ہوں۔ روزہ سے ہوں یعنی اس حالت میں نہیں ہوں کہ تم سے تمہارے اس غلط رویہ کا غلط انداز سے جائز بدلہ لوں بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم روزہ جیسی مخصوص عبادت میں خلل نہ ڈالو۔ میرا تعلق اس وقت راست اللہ سے منسلک ہے اور میں دوران ِعبادت اس تعلق کو منقطع نہیں کرنا چاہتا۔ روزہ دن بھر کی عبادت: ہم جانتے ہیں کہ جب بندہ نماز میں اللہ کے سامنے ظاہری و باطنی طور پر تعلق استوار کر لیتا ہے تو دورانِ نماز وہ لوگوں سے بات چیت نہیں کرتا، اللہ کی جانب رخ کرنے کے بعد اِدھر ادھر نہیں دیکھتا، اگر کوئی بدکلامی کرنے یا لڑنے جھگڑنے پر آجائے تو بحالت نماز اس سے پرہیز کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح روزہ کی حالت میں بھی بندہ عبادت میں ہوتا ہے، اللہ سے اس کا تعلق استوار ہو چکا ہوتا ہے، لہذا روزہ کی حالت میں وہ لڑائی جھگڑے، بدکلامی وغیرہ سے پرہیز کرتا ہے اور اپنی عبادت میں خلل ڈالنے والوں سے نرمی اختیار کرتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ میں روزہ سے ہوں یا میں روزہ دار ہوں۔ سلامتی ہو تم پر اور اللہ تعالی تم کو ہدایت عطا فرمائے۔ اگر ایک مرتبہ ایسا کرنے پر وہ اپنے رویہ سے گریز نہیں کرتا تو اس کو دوبارہ متوجہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح روزے کے ڈھال ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ روزہ نفسانی شہوت سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزہ کا مقصد صرف کھانا پینا ترک کر دینا نہیں، بلکہ دوسرے گناہوں اور اخلاقی خرابیوں سے بھی بچانا ہے۔ حدیث میں روزے کے ڈھال ہونے کا بیان ہے اور کہا گیا کہ جب تم روزے سے ہو تو فحش بات نہ کرو اور شور و شغب نہ کرو۔ پھر جب تم کو پرہیز کرنے کی عادت ہو جائے گی تو یہی تمہاری ڈھال ہوگی جو تمہاری حفاظت کرے گی ہر اس برائی سے جس سے اللہ اور اس کا رسول منع کرتے ہیں۔
 
رمضان کے عشروں کی حقیقت: رمضان کے مہینہ کو اللہ رب العزت نے تین عشروں میں تقسیم کیا ہے۔ اور ہر عشرہ (دس دن)کی خاص فضیلت رکھی ہے۔ پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا مغفرت کا اور تیسرا عذاب جہنم سے نجات کا ہے۔ پہلے عشرہ کی ابتدا ہی سے اللہ رب العالمین کی بے انتہا رحمتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔ جس کا ظاہری مشاہدہ اس طرح ہوتا ہے کہ امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والا ہر عام و خاص بندہ اللہ کی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہو جاتا ہے۔ اس کو اس مشینی دور میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور انسان مادی ترقی کے لیے جنونی حد تک سرگرم عمل ہے، اللہ تعالی اس کو توفیق بخشتا ہے کہ وہ اس بھنور سے نکل کر نیکی کے موسمِ بہار میں عبادت کی جانب راغب ہو، نیکی کے کام انجام دے، روزے داروں کا روزہ کھلوائے، برائیوں اور معصیت کے کاموں سے پرہیز کرے، غریبوں، مسکینوں، حاجتمندوںکی مدد کرے، بے انتہا فیاضی کا مظاہرہ کرے اور اللہ تعالی کی رحمتیں سمیٹتا چلا جائے۔ اس طرح جب وہ ان کاموں میں مصروف ہو جائے گا اور اللہ کی عبادت کو شعوری طور پر انجام دینے والا بن جائے گا تو نہ صرف رحمت بلکہ اس کی مغفرت بھی کی جائے گی۔ صراط مستقیم پر خود چلنے اور معاشرہ میں لوگوں کو تعاون کرنے کے نتیجہ میں جو معاشرہ وجود پذیر ہوتا ہے اس کا لازمی تقاضہ ہے کہ ایسے افراد کو جہنم سے بچا لیا جائے۔ مزید اس آخری عشرہ میں شب قدر کی تلاش، اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی، آئندہ اپنی زندگی کو اللہ کے بتائے طریقہ پر استوار کرنے کا عہد، قرآنِ حکیم کا مطالعہ، یہ سب مل کر اس کے لیے نجات کا سامان بہم پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالی رمضان المبارک کے مہینہ کے اختتام پر اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ تقوی کیا ہے؟ زندگی کا یہ راستہ جس پر انسان سفر کر رہا ہے، دونوں طرف افراط و تفریط، خواہشات اور میلاناتِ نفس، وساوس اور ترغیبات، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خار دار جھاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس راستے پر کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے چلنا اور اطاعتِ حق کی راہ سے ہٹ کر بد اندیشی و بد کرداری کی جھاڑیوں میں نہ الجھنا، یہی تقوی ہے اور اس ہی کے لیے اللہ تعالی نے روزے فرض کیے ہیں۔ یہ ایک مقوی دوا ہے جس کے اندر خدا ترسی و راست روی کو قوت بخشنے کی خاصیت ہے۔ مگر فی الواقع اس سے یہ قوت حاصل کرنا انسان کی اپنی استعداد پر موقوف ہے۔ اگر آدمی روزے کے مقصد کو سمجھے اور جو قوت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کے لیے تیار ہو اور روزے کی مدد سے اپنے اندر خوف خدا اور اطاعتِ امر کی صفت کو نشو و نما دینے کی کوشش کرے تو یہ چیز اس میں اتنا تقوی پیدا کر سکتی ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی سال کے باقی گیارہ مہینوں میں وہ زندگی کی سیدھی شاہراہ پر دونوں طرف کی خار دار جھاڑیوں سے اپنے دامن کو بچائے ہوئے چل سکتا ہے۔ اس صورت میں اس کے لیے روزے کے نتائج (ثواب)اور منافع (اجر)کی کوئی حد نہیں۔ لیکن اگر وہ اصل مقصد سے غافل ہو کر محض روزہ نہ توڑنے ہی کو روزہ رکھنا سمجھے اور تقوی کی صفت حاصل کرنے کی طرف توجہ ہی نہ کرے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے نامہ اعمال میں بھوک پیاس اور رتجگے کے سوا اور کچھ نہیں پا سکتا۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کا ہر عمل خدا کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے، ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ روزہ مستثنی ہے، وہ میری مرضی پر موقوف ہے، جتنا چاہوں اس کا بدلہ دوں (متفق علیہ)۔

 عبادات کی حکمت: اسلام میں جو اعمال اور عبادات فرض یا واجب کی گئی ہیں ان میں حکمت پوشیدہ ہے۔ دراصل اللہ تعالی نے بندوں پر خصوصی مہربانی کرتے ہوئے ان کے لیے وہی اصول و ضوابط مقرر فرمائے ہیں جو بندے کی کامیابی اور سعادت دارین کا موجب ہیں۔ اللہ تعالی کے دربار میں مقبول عبادت کا سب سے اہم اور بنیادی قاعدہ خلوصِ نیت اور حضور قلبی ہے۔ اگر عبادت کا بنیادی محرک رضائے الہی نہ ہو تو اس عبادت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ثواب بلکہ حدیث نبوی ۖکے مطابق: کتنے ہی روزہ دار ہیں جنہیں ان کے روزے سے سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔ دوسری اہم بات یہ کہ اسلام عبادت گزاروں کو مشقت میں نہیں ڈالتا بلکہ عبادات میں آسان شرائط کے ساتھ رخصت بھی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی بیمار ہے تو اسے روزہ نہ رکھنے کی آزادی ہے، کہ تندرستی کے بعد رکھے یا اگر تندرستی کی امید نہیں ہے تو فدیہ ادا کرے (یہ بھی یاد رہے کہ بلا عذر عبادات سے محرومی ابدی محرومی ہے)۔ آخری بات یہ کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر ان تمام عبادات کے گہرے اثرات مرتب ہونے چاہیں۔ یہ فرائض محض عبادت برائے عبادت نہیں، بلکہ اخروی فلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی زندگی پر ان کے اثرات و فوائد بھی ملحوظ رکھے گئے ہیں۔ اسلام نے کوئی ایسا عمل فرض نہیں کیا جس کے نتائج انسان کی عملی زندگی میں ظاہر نہ ہوں۔ شریعت نے اگر کسی چیز کا حکم دیا ہے تو وہ سراسر خیر ہی ہوتا ہے اور بندوں کی زندگی پر اس کا براہ راست مثبت اثر ہوتا ہے، اور اگر کسی عمل سے منع کیا ہے تو اس لیے کہ وہ انسانی زندگی کے لیے ضرر رساںہے۔ ارشاد ربانی ہے: (پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے)جو اس پیغمبر، نبی امی ۖ کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور بندشیں کھولتا ہے، جن میں جکڑے ہوئے تھے (اعراف:)۔

 رمضان کا پیغام: معلوم ہوا کہ یہ مہینہ ہدایت حاصل کرنے اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے کا ہے۔ اس ماہ مبارک میں معاشرہ میں ایک ایسی فضا قائم ہو جاتی ہے جس میں ہر طرف بندے سکون و عافیت اور محبت و ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے اور بدکلامی سے گریز کرتے ہیں، آپس میں ملتے جلتے اور روزہ داروں کے افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کی نہ صرف تلاوت کرتے ہیں بلکہ اس کا شعوری طور پر مطالع کرتے ہیں۔ قرآنی احکامات کو اپنی زندگی میں رائج کرتے ہیں اور تقوی کی صفت سے ہمکنار ہونے کی مکمل سعی و جہد کرتے ہیں۔ اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں لے آتے ہیں جو اسلامی معاشرہ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ مہینہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ برادرانِ وطن کے لیے بھی یہ پیغام پیش کرتا ہے کہ اگر اسلام کے مطابق زندگی کو ڈھال لیا جائے تو یہ سکون و عافیت کی فضا جو چہار جانب محسوس کی جارہی ہے وہ آئندہ دنوں میں بھی برقرار رہ سکتی ہے بشرطیکہ جس طرح رمضان میں شب و روز گزارے ہیں اسی طرح سال کے گیارہ مہینوں میں بھی ان پر عمل کیا جاتا رہے۔

سحری اور افطار کا مسنون وقت



سحری اور افطار کا مسنون وقت
از:   محمد اسلم غازی

                وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِص ثُمَّ اَتِمُّواالصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج ..... (البقرہ : 187)  ترجمہ: اور راتوں کو کھائو پیو یہاں تک کہ تم کو رات کی سیاہ دھاری سے صبح کی سفید دھاری نمایاں نظر آجائے۔ پھر رات ہونے تک اپنا روزہ پورا کرو۔
                روزہ انسان میں صبر اور تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ صبر کا مفہوم ثابت قدمی ہے۔ یعنی روزہ اللہ کی اطاعت میں ثابت قدمی پیدا کرتا ہے۔ تقویٰ کا مفہوم اللہ کا ڈر ہے یعنی روزہ اللہ کا ڈر پیدا کرتا ہے۔ روزہ صبح صادق کے وقت سحری کرنے سے شروع اور غروب آفتاب کے و قت افطار پر ختم ہوتا ہے۔ سحری اور افطار کے آداب ملحوظ رکھنا روزہ دار کے لیے ضروری ہے۔ فی زمانہ سحری اور افطار کے بہت سے آداب کا لحاظ کیا جاتا ہے لیکن ختم سحری اور افطار کے اوقات  میں بڑی شدت برتی جاتی ہے۔ اس مضمون کے ذریعے سحری اور افطار کے مسنون اوقات کی نشان دہی اور ان میں برتی جانے والی شدت کا ازالہ مقصود ہے۔
 
                اوقات سحری و افطار کے خوشنما و دیدہ زیب رنگین کارڈ رمضان المبارک کی آمد سے ہفتہ بھر قبل سے ہی مساجد کے باہر تقسیم ہونے لگتے ہیں۔ ہر چھوٹا بڑا انتہائی شوق سے یہ کارڈ حاصل کرتا ہے تاکہ رمضان میں اُسے اوقات سحری و افطار کی معلومات بسہولت ملتی رہے۔ ان کارڈوں پر احتیاطاً سحری کا وقت صبح صادق کے آغاز سے 10منٹ قبل اور افطار کا وقت غروب آفتاب سے 5منٹ بعد درج کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر صبح صادق  04:55 پر ہے تو ختم سحری 04:45 درج ہوگا اور غروب آفتاب 07:13پر ہے تو وقت افطار 07:18 درج ہوگا۔ محلے کی مساجد میں صبح صادق ہونے سے نصف گھنٹہ قبل سے ہی لائوڈ اسپیکر پر اعلان شروع کردیے جاتے ہیں کہ سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے۔ بعض جگہ تو صبح صادق سے دس منٹ قبل ہی ختم سحری کا اعلان بذریعہ اذان کیا جاتا ہے جو جہالت اور دین سے عدم واقفیت کا ثبوت ہے کیونکہ صبح صادق سے قبل اذان فجر دینا غلط ہے۔ اس اذان کو سن کر کوئی نماز فجر پڑھ لے تو وہ ادا ہی نہیں ہوگی۔ صبح صادق ہونے کے بعد ہی نماز فجرپڑھی جانی چا ہیے۔ ختم سحری سے قبل مساجد کے لائوڈ اسپیکروں سے بار بار تیز آواز میں توجہ دہانی کرانا مناسب طریقہ نہیں ہے۔ اس سے بچنا چاہیے کیونکہ دیگر خلق خدا کو خواہ مخواہ پریشانی ہوتی ہے۔ اسی طرح اکثر مساجد میں مؤذن حضرات مغرب کی اذان کارڈ پر مطبوعہ وقت سے بھی دو تین منٹ بعد دیتے ہیں۔ گویا اصل غروب آفتاب کے 78منٹ بعد افطار کیا جاتا ہے جوغلط ہے۔
 
                قرآن کے مطابق رات کی سیاہ دھاری سے صبح کی سفید دھاری نمایاں نظر آنے کو صبح صادق کہا جاتا ہے۔ آسمان میں صبح صادق کے آثار اچانک نہیں بلکہ دھیرے دھیرے نمودار ہوتے ہیں جس میں چند منٹ لگتے ہیں۔ قرآن کے الفاظ ''صبح کی سفید دھاری نمایاں ہونا'' اس پر دلالت کرتے ہیں کہ سحری بلا جھجک صبح صادق تک کھائی جاسکتی ہے۔ حضور اور صحابہ کا طرز عمل بھی یہی تھا جس کے ثبوت میں چند احادیث پیش کی جارہی ہیں  :
(1)         حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ نبی نے فرمایا ''جب تم میں سے کوئی اذان کی آواز سنے اور اس وقت برتن بھی اس کے ہاتھ میں ہو تو وہ اس برتن کو اپنے ہاتھ سے نہ رکھے جب تک کہ اپنی حاجت اس سے پوری نہ کرلے۔'' (ابودائود۔ حوالہ تفہیم الاحادیث۔ جلد4صفحہ 82(
(2)         رسول اللہ نے فرمایا ''کھائو پیو، بلند ہونے اور اوپر اٹھنے والی دھاری تمہیں پریشان و مضطرب نہ کرے۔ جب تک سرخ پھیلی ہوئی دھاری نمودار نہ ہو اس وقت تک کھائو پیو۔'' (ابودائود، ترمذی، حوالہ: ایضاً صفحہ 84 ،97(
                اہل علم حضرات کا تعامل یہی ہے کہ روزہ دار پر اس وقت تک کھانا حرام نہیں ہوتا جب تک کہ سرخ دھاری افق پر نہ پھیل جائے(حوالہ: ایضاًصفحہ84)
                امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق سحری تاخیر سے کھانے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ (حوالہ: ایضاً صفحہ84)

 اسی طرح افطار میں عجلت کرنا پسندیدہ عمل ہے۔ دلیل کے طور پر چند حدیثیں پیش ہیں:
(1)         حضرت سہل سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ''لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔'' (متفق علیہ، حوالہ ایضاً صفحہ75)
(2)         حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ مجھے اپنے بندوں میں سے سب سے زیادہ پسند وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں۔'' (ترمذی۔ حوالہ ایضاً صفحہ84)
(3)         حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ''یہ دین نمایاں اور غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود اور نصاریٰ افطار کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔'' (ابودائود، ابن ماجہ۔ حوالہ ایضاً صفحہ89)

سحری میں تاخیر اور افطار میں عجلت پسندیدہ عمل اس لیے قرار دیے گئے ہیں کہ مسلمان اللہ کے حکم کی اطاعت ٹھیک اسی طرح کرتا ہے جس طرح ایک فوجی اپنے کمانڈر کے Caution کاشن پر فوراً عمل کرتا، اُس کے حکم کی تعمیل میں ثابت قدمی دکھاتا اور اس کی حکم عدولی سے ڈرتا ہے۔ اگر فوجی کمانڈر کے بتائے ہوئے وقت سے پہلے ہی کام بند کردے یا حکم ملنے کے سات آٹھ منٹ بعد اس پر عمل کرے تو کیا ایسا فوجی کمانڈر کے عتاب سے بچ سکتا ہے؟ ایک فوجی کی طرح مسلمان بھی یہ نہیں کرسکتا کہ اللہ نے تو فرمایا کہ صبح صادق تک اور غروب آفتاب کے فوراً بعد کھائو پیو مگر وہ صبح صادق نمایاں ہونے سے پندرہ منٹ پہلے اور غروب آفتاب کے 8منٹ بعد تک کھانے پینے سے رکے رہنے کو زیادہ محتاط اور قرین حکمت و مصلحت سمجھے۔ نعوذباللہ کیا یہ خدا سے زیادہ حکیم بننا نہیں ہے؟ کیا یہ خدا کی حکم عدولی اور اس سے بے خوفی نہیں ہے؟

                سائنس کی مدد سے انسان کو صبح صادق، طلوع اور غروب آفتاب کے اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہوگئے ہیں جن میں سیکنڈ بھر کی غلطی کا امکان بھی نہیں ہے۔ یہ دراصل سائنس کا نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کا کمال ہے جس نے اپنی کائنات میں سورج، چاند اور ستاروں کی گردش کا ایک انتہائی چست نظام ترتیب دے رکھا ہے۔ اللہ نے اپنے فضل سے اس کا علم انسانوں کو عطا کردیا ہے لیکن بعض لوگ خدا کے اس نظام پر بھروسہ نہیں کرتے۔ بعض ایسے بھی ہیں جو عذر پیش کرتے ہیں کہ گھڑیاں درست نہیں ہوتیں اس لیے افطار میں تاخیر کرنا چاہیے۔ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے کہ تمام مسلمانوں کی گھڑیاں غلط وقت بتاتی ہیں۔ تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ دنیا کے کام کرنے کے لیے تو لوگ اپنی گھڑیاں درست اور صحیح وقت پر کرتے ہیں لیکن دینی حکم پر عمل کرنے کے لیے بجائے گھڑی ٹھیک کرنے کے افطار کے وقت میں ہی من مانی تاخیر کی جارہی ہے۔ اگر کسی کو اپنی گھڑی کے بارے میں شک ہو کہ آگے یا پیچھے ہے تو اُسے دوسروں سے صحیح وقت معلوم کرکے ٹھیک وقت پر افطار کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کا یہ رویہ قطعاً درست نہیں ہے کہ غروب کا وقت یقینی طور پر معلوم ہے اور اکثر مسلمانوں کی گھڑیاں بھی صحیح وقت بتا رہی ہیں اس کے باوجود وقت غروب کے 78 منٹ بعد افطار کریں۔ البتہ کوئی مسلمان ایسی جگہ رہتا ہو جہاں وقت طلوع و غروب کا تعین ممکن نہ ہو، نہ اُس کے پاس کوئی ٹائم ٹیبل ہو، نہ گھڑی ہو تو وہ آسمان کے آثار یعنی روشنی اور سیاہی کو اپنا رہنما بنا کر سحری اور افطار کرے۔