Search This Blog

Thursday 31 May 2012

شر اور خیر


شر اور خیر

ایک روز میں نے قدرت للہ سے پوچھا “یہ جو اللہ والے لوگ ہوتے ہیں‘ یہ عورت سے کیوں گھبراتے ہیں۔”
“زیادہ تر بزرگ تو عورتوں سے ملتے ہی نہیں۔ ان کے دربار میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے.”
“یہ تو ہے.” وہ بولے.
“سر راہ چلتے ہوئے کوئی عورت نظر آجائے تو گھبرا کر سر جھکا لیتے ہیں. ان کی اس گھبراہٹ میں خوف کا عنصر نمایاں ہوتا ہے. وہ عورت سے کیوں ڈرتے ہیں؟”
“شاید وہ اپنے آپ سے ڈرتے ہیں.” قدرت نے کہا۔
“لیکن وہ تو اپنے آپ پر قابو پا چکے ہوتے ہیں‘ اپنی میں کو فنا کر چکے ہوتے ہیں.”
“اپنے آپ پر جتنا زیادہ قابو پا لو اتنا ہی بے قابو ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے.”
“آپ کا مطلب ہے شر کا عنصر کبھی پورے طور پر فنا نہیں ہوتا؟”
“شر کا عنصر پورے طور پر فنا ہو جائے تو نیکی کا وجود ہی نہ رہے۔ چراغ کے جلنے کے لئے پس منظر میں اندھیرا ضروری ہے۔”
“میں نہیں سمجھا. مجھے ان جملوں سے کتاب اور دانشوری کی بو آتی ہے۔”
“انسان میں جوں جوں نیکی کی صلاحیت بڑھتی ہے توں توں ساتھ ساتھ شر کی ترغیب بڑھتی ہے. شر کی ترغیب نہ بڑھے تو نیکی کی صلاحیت بڑھ نہیں سکتی.”
“سیدھی بات کیوں نہیں کرتے آپ۔”
قدرت میری طرف دیکھنے لگے.
“کہ تمام قوت کا منبع شر ہے. نیکی میں قوت کا عنصر نہیں۔ اللہ کے بندوں کا کام ٹرانسفارمر جیسا ہے. شر کی قوت کا رخ نیکی کی طرف موڑ دو .”

اقتباس : ممتاز مفتی کی کتاب “لبیک”

Sunday 27 May 2012

اقبال مندی کا خواب

اقبال مندی کا خواب

-سید فصیح اللہ حسینی
تاریخ عالم یہ بتاتی ہے کہ اربوں کھربوں انسانوں میں چند ہی ایسے نفوس ہوتے ہیں جو اپنے بعد بھی تاریخ کے صفحات پر اپنی یادوں اور کارناموں کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ 21 اپریل کا دن ایک ایسی ہی شخصیت کے کارناموں اور خدمات کو ذہن میں تازہ کرتا ہے جو ادب کی دنیا میں معمار کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک قوم کو موت کے احساس سے چھٹکارا دلا کر زندگی کی رمق ان میں پیدا کرنے کے لیے اپنا نظریہ پیش کرتا ہے، اور خود 21 اپریل 1938ء کو اس جہاں سے رخصت ہوجاتا ہے۔ یہ محسنِ قوم ’’ڈاکٹر علامہ محمد اقبال‘‘ ہیں۔ جب ادب کا نام لیا جائے تو معمارانِ ادب کے کارہائے نمایاں کا تذکرہ بنیاد کی اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ معمارانِ ادب ہی دراصل ادب کے وجود کو دوام بخشنے کا طرۂ امتیاز رکھتے ہیں۔ تاریخ کی بند کتاب کو کھولنے کی جسارت کی جائے اور معمارانِ وطن کی فہرست پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو اقبال ؒ کا نام دیگر ناموں میں صداقت کے ساتھ سرفہرست نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ ان عظیم المرتبت صاحبانِ قلم میں شمار کیے جاتے ہیں جن کی نوکِ قلم سے قومی منزلت، ملّی افتخار، دین و دانش کے چشمے، مقصدیت کی تصویر اور امتِ وسط کی شیرازہ بندی سیاہی کی صورت قرطاس پہ درج ہوکر قلبِ قاری میں راسخ ہوجاتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ صدی میں جتنا کام اقبال کے حوالے سے کیا جاچکا ہے کسی اور مسلم مفکر کے بارے میں نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود جو پہلو قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ شخصیت کے کارنامے، اس کی خدمات، اس کے نظریات اور معاشرے پر اس کے اثرات موضوع بحث رہتے ہیں لیکن شخصیت کی تعمیر میں ملوث عوامل، افراد کا کردار اور شخصیت کے معمار کا مزاج کسی حد تک سوانح نگاروں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے، اور یہ وہ دور ہوتا ہے کہ جب شخصیت اپنے معاشرے اور قرب وجوار کے ماحول کے مطابق اثرات اپنے اندر جذب کررہی ہوتی ہے۔ یہی وہ احساس ہے جس کے زیراثر اقبال کے خاندانی پس منظر اور خوش قسمت استاد کی تربیت کے پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے، جو کہ استاد طلبہ تعلقات کے حوالے سے بھی رہنمائی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اقبالؒ کا بچپن پنجاب کے قدیم شہر سیالکوٹ کی خاموش وخوابیدہ گلیوں میں گزرا۔ برہمن میں سیرو کے نام سے ایک شاخ ہے اور اقبال کے آبا و اجداد کا تعلق سیرو سے تھا۔ بابا لول حج سیروئوں کی نسل میں سب سے پہلے قبولِ اسلام کی نعمت سے بہرہ ور ہوئے۔ آبا واجداد نے مختلف علاقوں میں سکونت اختیار کی اور بالآخر سیالکوٹ ہجرت کرکے مستقل مستقر اسے بنالیا۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد سیالکوٹ میں مقیم تھے۔ جب شیخ نور محمد کی عمر چالیس برس کی ہوئی تو انہوں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک خوبصورت پرندہ یا سفید کبوتر آسمان سے زمین اور زمین سے آسمان کی طرف اڑا جارہا ہے۔ لوگ اسے پکڑنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ بالآخر وہ پرندہ ایک دم فضاء سے زمین پر آتا ہے اور سیدھا شیخ نور محمد کی گود میں آگرتا ہے۔ خواب سچے ہوتے ہیں، چنانچہ چند دن بعد نورمحمد کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جو اس سچے خواب کی تعبیر تھی۔ اقبال مندی کا خواب… خواب کی تعبیر کے دن 9 نومبر کی تاریخ تھی، سن 1877ء تھا۔ اس بچے کا نام بجا طور پر ’’محمد اقبال‘‘ رکھا گیا۔ اقبال کی والدہ ’’اماں بی‘‘ کا تعلق بھی سیالکوٹ کے ایک کشمیری گھرانے سے تھا۔ بے جی (اماں جی) ایک ملنسار، خوش مزاج اور ہمہ وقت خدمت کے لیے حاضر ایک شریف خاتون تھیں۔ بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا ان کا مقصد اور بہتر تربیت ان کا مشن ٹھیرا تھا۔ اسی والدہ کے گہوارۂ تربیت میں پرورش پانے والے بچے کو اقبال مند اور بلند تر ہونا ہی تھا۔ تربیت سے تیری میں، انجم کا ہم قسمت ہوا گھر مرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا یہ تو وہ سایۂ عافیت تھا جس کے زیراثر اقبال نے پرورش پائی، لیکن یہ سایہ ان کے لیے کس طرح ثمر آور ثابت ہوا… اس کے چند مظاہر ان کے بچپن کے واقعات سے ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ ہمارے لیے تزکیہ کا باعث ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تو معمول تھا کہ روز فجر کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا۔ ایک روز والد جب نماز کے بعد درود اور وظائف سے فارغ ہوکر گھر آئے تو مجھے مشغولِ تلاوت پایا۔ پوچھا: ’’تم کیا پڑھ رہے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’قرآن مجید…‘‘ کہتے ہیں: ’’سمجھتے بھی ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’کیوں نہیں، کچھ نہ کچھ سمجھ لیتا ہوں‘‘۔ والد صاحب خاموش ہوگئے اور اٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ ایک روز یہی واقعہ ہوا کہ گھر میں آئے اور میں نے تلاوت ختم کرلی تو بڑی نرمی سے کہنے لگے کہ ’’بیٹا قرآن مجید وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس پر اس کا نزول ہو۔ جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ قرآن مجید تمہارے قلب پر اتر رہا ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلبِ اقدس پر نازل ہوا تھا تو تلاوت کا مزہ نہیں، اور تم پوری طرح قرآن کو سمجھ بھی نہیں سکتے۔ اگر تم تلاوت اس طرح کرو جیسے یہ تم پر نازل ہورہا ہے یعنی اللہ خود تم سے ہمکلام ہے تو یہ تمہارے رگ و پے میں سرایت کرجائے گا۔‘‘ اقبال کہتے ہیں کہ والد صاحب کی باتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قرآن مجید دل کے راستے بھی انسانی شعور میں داخل ہوتا ہے۔ بالِ جبریل کا یہ شعر اسی واقعے کی یاد دلاتا ہے ؎ تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشاہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف اقبال آغاز میں سیالکوٹ کے مشہور عالم مولوی غلام حسین کے مکتب میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ وہاں ایک روز میرحسن، مولوی غلام حسین سے ملاقات کے لیے آئے۔ وہاں اتنے بچوں میں میر حسن کی نظر جب اقبال پر پڑی تو پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ یہ کس کا بیٹا ہے؟ جب پتا چلا کہ نور محمد کا لڑکا محمد اقبال ہے، تو نور محمد سے ملاقات کرکے اُن سے درخواست کی کہ اپنے لڑکے کو میرے پاس بٹھادو۔ میرحسن کے بے حد اصرار پر یہ اقبال اپنے اقبال کو مزید بلند کرنے کے لیے اس درویش صفت استاد کے مکتب کا درباری بن گیا۔ کوئلے کی صورت میں موجود پتھر جب تراش خراش کے بعد ہیرے کی شکل اختیار کرجاتا ہے تو دیکھنے والا ہیرے کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے لگتا ہے اور بے اختیار اس ہیرے کو تراشنے والے کی کاریگری اور فن کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب ایک شخص انسانیت کے لیے نمونہ بن جائے تو انسانیت اس شخصیت کی تعمیر کرنے والے کے بارے میں بے اختیار مدح سرائی کرتی نظر آتی ہے۔ اقبال ؒکی شخصی تعمیر کے تذکرے کے موقع پر ان کے استادِ محترم کا تذکرہ نہ کیا جائے تو اقبال کی شخصیت کے رنگ پھیکے معلوم ہوتے ہیں۔ میر حسن ایک روشن فکر رکھنے والے اہلِ علم تھے جو دین ودنیا کی مصلحت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے شاگردوں کی تربیت کیا کرتے تھے۔ وہ اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ لسانیات، ادبیات اور ریاضیات کے ماہر تھے۔ ایک راسخ العقیدہ اور عبادت گزار مسلمان کی حیثیت سے ان کے شب و روز بسر ہوتے تھے۔ میر حسن کا طریقہ تعلیم اس قدر شاندار تھا کہ استاد شاگرد باہم محفل جمانے کے بہانے ڈھونڈا کرتے تھے۔ میرحسن اپنے معمولات کا آغاز نماز تہجد سے کرتے… فجر کی نمازکے بعد عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے کے لیے قبرستان کا رخ کرتے۔ اسکول پہنچ کر پڑھائی کا آغاز ہوتا۔ کوئی بغدادی قاعدہ پڑھ رہا ہے، تو کوئی حکایاتِ سعدی سمجھ رہا ہے۔ میرحسن الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے بھی مطلب کو واضح کرنے کے لیے کئی کئی اردو، پنجابی اور فارسی کے اشعار سنادیا کرتے تھے۔ اقبال اور ان کے چند دوستوں کی استادِ محترم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اسکول سے فارغ ہوکر جلدی سے گھر پہنچتے اور جلدی جلدی کچھ کھاپی کر دوبارہ میرحسن کے گھرکا رخ کرتے اور شام تک وہیں قیام کرتے۔ اس دوران شام میں اکثر اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کبوتر بھی اڑاتے۔ اقبال کو میر حسن کے ہاں اپنا وقت گزارنے میں کچھ تامل نہ تھا، جبکہ ان کے والد کی طرف سے اس معاملے میں انہیں سرپرستی حاصل تھی۔ میر حسن کا یہ عالم تھا کہ جب گھر سے سودا لینے بھی نکلتے تو کوئی طالب علم اپنی کتاب لیے آجاتا اور کچھ نہ کچھ پڑھتا جاتا۔ اُس دور میں دراصل تربیت تعلیم وتدریس کا لازمی جزو تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس دور میں استاد کی تربیت میں معاشرت کے آداب، مجلس کے اطوار، ذمہ داری کا احساس، حسنِ اخلاق، سلیقہ وشعار اور اساتذہ کی تکریم سب کچھ شامل ہوتا تھا، اور اس سب کچھ کا مقصد انسان کی کردار سازی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اقبال نے اسی ماحول میں تربیت پائی اور جیّد اساتذہ سے فیض حاصل کیا، اس کا اعتراف اقبال خود اپنے الفاظ میں اس طرح کرتے ہیں ؎ وہ شمع بارگہِ خاندانِ مرتضوی رہے گا مثلِ حرم، جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو یہی وہ کردار ہے اقبال کے معماروں کا، جس کی بدولت ایسا گوہر تیار ہوا کہ جس سے عالم ادب جگمگا رہا ہے اور اس کی ضیا پاشیوں سے سارا عالم منور ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان روشنیوں کو اپنے سینوں میں جذب کیا جائے اور اس نور کے ذریعے اقبال کے نظریۂ خودی کو فروغ دیا جائے۔ کیوں کہ ہمارے لیے ہی اقبال نے کہا تھا ؎ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اصحاب رسول کی معاشی زندگی ۔ حضرت عمر فاروق ؓ

اصحاب رسول کی معاشی زندگی ۔ حضرت عمر فاروق ؓ

-عابد علی جوکھیو
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا شمار عظیم المرتبت صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ امیرالمومنین بننے کے بعد بھی انتہائی سادہ زندگی گزار کر امت کو سادگی اور قناعت کا درس دیا کہ یہ امت دنیوی جاہ و جلال سے بچ کر اپنی حقیقی منزل کی تیاری کرے۔ آپ کا نام عمرؓ اور فاروق لقب ہے، آپ قریش کی شاخ بنی عدی سے تعلق رکھتے تھے اور آٹھویں پشت میں آپ کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے۔ آپ کی مدتِ خلافت 13ھ تا 24ھ رہی۔ آپ کی خلافت کے دوران ہونے والی فتوحات اور اسلامی سرحدوں میں مسلسل اضافہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور اسی طرح عدلِ فاروقی بھی ہمارے ہاںمشہور ہے، لیکن ہم یہاں حضرت عمرؓ کی معاشی اور خانگی زندگی کے متعلق چند واقعات بیان کریں گے، جن سے نصف دنیا پر حکمرانی کرنے والے عادل حکمران کی معاشی اور خانگی زندگی کے متعلق آگاہی حاصل ہوگی کہ اصل کامیابی دنیوی طاقت، جاہ و منصب نہیں، بلکہ حقیقی کامیابی اپنے آپ کو دنیوی آلائشوں سے پاک رکھنا ہے۔ حضرت طلحہؓ کہتے ہیں کہ قبولِ اسلام اور ہجرت کے معاملے میں بہت سے لوگوں کو حضرت عمر ؓ پر فوقیت حاصل تھی لیکن زہد و قناعت میں وہ سب سے آگے تھے۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر ؓ کو کچھ مال دینا چاہا تو آپؓ نے فرمایا کہ مجھ سے زیادہ حاجت مند موجود ہیں جو اس کے زیادہ مستحق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے لے لو، پھر تمہیں اختیار ہے کہ اسے اپنے پاس رکھو یا صدقہ کردو۔ اگر انسان کو بے طلب مال مل جائے تو اسے لے لینا چاہیے۔ (ابو دائود) حضرت عمر ؓ نے کبھی بھی نرم کپڑا نہیں پہنا۔ بدن پر بارہ بارہ پیوند لگے کپڑے، سر پر پھٹا ہوا عمامہ اور پائوں میں پھٹی ہوئی جوتیاں ہوتی تھیں۔آپ ؓ اسی حالت میں قیصر و کسریٰ کے سفیروں سے ملتے۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓاور حضرت حفصہ ؓ نے آپؓ سے کہا کہ امیرالمومنین اب اللہ نے ہمیں کشادہ حال کردیا ہے، بادشاہوں کے سفراء اور عرب کے وفود آتے ہیں، اس لیے آپ کو اپنی طرزِ معاشرت میں تبدیلی لانی چاہیے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ افسوس تم دونوں امہات المو منین ہوکر مجھے دنیا طلبی کی ترغیب دیتی ہو۔ عائشہؓ ! کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت کو بھول گئیں کہ جب آپ کے گھر میں صرف ایک کپڑا ہوتا تھا جس کو دن کو بچھاتے اور رات کو اوڑھتے تھے۔ حفصہؓ! تم کو یاد نہیں ہے کہ ایک دفعہ تم نے بستر کو دوہرا کرکے بچھایا اور اس کی نرمی کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات بھر سوتے رہے۔ بلالؓ نے اذان دی تو آنکھ کھلی۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حفصہ! تم نے یہ کیا کیا کہ بستر کو دوہرا کردیا کہ میں صبح تک سوتا رہا۔ مجھے دنیاوی راحت سے کیا تعلق! اور بستر کی نرمی کی وجہ سے تم نے مجھے غافل کردیا۔ (کنزالعمال۔ ج 6، ص 350) ایک دفعہ اپنا کرتا ایک شخص کو دھونے اور پیوند لگانے کے لیے دیا۔ اُس نے اس کے ساتھ ایک نرم کپڑے کا کرتا پیش کیا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو واپس کردیا اور اپنا کرتا لے کر کہا: اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے۔ (کنزالعمال) ایک مرتبہ کپڑوں کے متعلق حضرت حفصہ ؓ نے گفتگو کی تو فرمایا کہ مسلمانوں کے مال میں اس سے زیادہ خرچ نہیں کرسکتا۔ حضرت انسؓ بن مالک کا بیان ہے کہ میں نے زمانہ خلافت میں دیکھا کہ آپؓ کے کرتے کے مونڈے پر تہہ بہ تہہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ (موطا امام مالک) حضرت عمرؓ نے اسی وظیفہ پر اکتفا کیا جو صحابہ کرامؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے لیے مقرر کیا تھا۔ چنانچہ آپ اسی پر رہے اور آپ کو سخت حاجتوں کا سامنا ہوا تو مہاجرین کی ایک جماعت جمع ہوئی۔ ان اصحاب شوریٰ میں حضرت عثمان‘ علی‘ طلحہ‘ زبیر رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ حضرت زبیرؓ نے کہا: اگر ہم لوگ حضرت عمرؓ سے کچھ زیادتی کے لیے کہیں جس کو وہ اپنے وظیفہ میں زیادہ کرلیں (تو کیسا ہے؟) حضرت علیؓ نے فرمایا: میں تو پہلے ہی سے اس بات کا سوچ رہا تھا۔ لہٰذا ہم کو (حضرت عمرؓ کے پاس لے چلو۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے فرمایا: وہ عمرؓ ہیں! آئو ذرا ہم تحقیق کرلیں کہ حضرت عمرؓ کا عندیہ کیا ہے؟ ہم لوگ حضرت حفصہؓ کے پاس چلیں اور ان سے چھپ کر پوچھیں۔ چنانچہ یہ حضرات حضرت حفصہؓ کی خدمت میں آئے کہ آپ حضرت عمرؓ کو ایک جماعت کی طرف سے یہ خبر پہنچائیں اور ان سے کسی کا نام نہ لیں مگر یہ کہ وہ دریافت کریں (تو بتادیں) اور یہ لوگ حضرت حفصہؓ کے پاس سے (یہ کہہ کر) چلے گئے۔ چنانچہ حضرت حفصہؓ اس بارے میں حضرت عمرؓ سے ملیں، پس انھوں نے حضرت عمرؓ کے چہرے میں غصہ کے آثار دیکھے اور پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ حضرت حفصہؓ نے کہا: میرے لیے ان کے (نام) بتانے کی کوئی سبیل نہیں جب تک میں آپ کی رائے نہ جان لوں۔ فرمایا: اگر میں جان لیتا کہ وہ کون لوگ ہیں تو ان کے چہرے بگاڑ دیتا، تُو میرے اور ان کے درمیان ہے، تجھے میں خدا کی قسم دیتا ہوں۔ سب میں بہتر وہ کون سا کپڑا تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرے گھر میں رکھ چھوڑا تھا؟ حضرت حفصہؓ نے فرمایا: دو کپڑے گیرو میں رنگے ہوئے جن کو آپؐ وفد سے ملاقات کے لیے پہنتے اور جنہیں پہن کر آپؐ جمعہ کا خطبہ دیتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: اور کون سا کھانا اعلیٰ درجہ کا آپؐ نے تیرے پاس پایا؟ کہا: وہی ہماری جَو کی روٹی جس پر ہم جب وہ گرم ہوتی اپنی کپی کا تلا نچوڑ دیتے اور اس کو ہم چکنا مالیدہ بنالیتے، ہم اس سے کھاتے اور اس سے آپؐ کو کھلاتے، اور اس کھانے کو بہت عمدہ سمجھتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: کون سا بستر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس بچھایا کرتے تھے جو زیادہ نرم ہوتا؟ حضرت حفصہؓ نے کہا: ہمارا ایک موٹا کمبل تھا‘ جس کو ہم گرمیوں میں چوہرا کرلیتے تھے اور اسے اپنے نیچے بچھا لیتے تھے، اور جب سردی ہوتی تھی‘ آدھا بچھا لیتے تھے اور آدھا اوڑھ لیتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے حفصہؓ ان لوگوں کو میری جانب سے یہ بات پہنچادینا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اندازہ مقرر کرگئے ہیں اور آپؐ نے زیادتی کے لیے اس کا محل مقرر کردیا ہے، اور امید (آخرت) ہی پر آپؐ نے کفایت فرمائی، اور بے شک میں نے ایک اندازہ مقرر کیا ہے۔ پس خدا کی قسم میں بھی مالِ زائد کو اس کے محل پر رکھوں گا‘ اور میں بھی اللہ کی امید پر کفایت کروں گا۔ میری اور میرے دونوں صاحب (حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ) کی مثال ان تین آدمیوں جیسی ہے جو ایک راستے پر چلے‘ پہلا چلا اور وہ توشہ لے گیا، پس منزل پر پہنچ گیا۔ اس کے پیچھے دوسرا اُس کے راستے پر چلا، یہ بھی اُس تک پہنچ گیا۔ پھر تیسرا ان دونوں کے پیچھے چلا، اگر ان کے طریقے کو پکڑے رہا اور ان کے زادِ راہ پر راضی رہا تو ان دونوں کے ساتھ مل جائے گا، اور انھی کے ساتھ رہے گا، اور اگر ان دونوں کے طریقے کے خلاف چلا تو ان دونوں کے ساتھ نہیں مل سکتا۔ (کما فی المنتخب الکنز ج 4، ص408) حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ میں بصرہ کی جامع مسجد کی ایک مجلس میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کچھ اصحابِ رسول حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زہد کا تذکرہ کررہے ہیں اور ان چیزوں کا تذکرہ کررہے ہیں جن سے اللہ پاک نے ان دونوں کے سینے کو اسلام کے لیے کھولا، اور ان دونوں حضرات کے حسنِ سیرت کا بیان کررہے ہیں۔ چنانچہ میں بھی اس مجمع کے قریب بیٹھ گیا۔ اس مجمع میں احنفؓ بن قیس تمیمی بھی لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہم لوگوں کو حضرت عمرؓ نے ایک سریہ (جنگ) میں عراق کی طرف روانہ فرمایا‘ اللہ پاک نے ہمارے ہاتھوں عراق اور فارس کے شہر فتح کرائے۔ ہم نے وہاں فارس اور خراسان کی چاندی پائی، اس کو ہم نے اپنے ساتھ رکھ لیا اور اس سے ہم نے اپنے لباس بنوائے، پس جب ہم حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؓ نے ہم سے اپنا چہرہ پھیرلیا اور بات نہ کی‘ یہ بات حضراتِ صحابہ کرامؓ پر نہایت گراں گزری، چنانچہ ہم آپؓ کے صاحبزادے حضرت عبداللہؓ کے پاس آئے۔ یہ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ہم پر امیرالمومنین حضرت عمرؓ کی جانب سے جو سختی پیش آئی اس کی ہم نے ان سے شکایت کی‘ حضرت عبداللہؓ نے کہا کہ امیرالمومنین نے تم پر وہ لباس دیکھا کہ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو استعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھا، اور نہ آپؐ کے بعد والے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو۔ یہ سن کر ہم اپنے مکان واپس آئے اور جو لباس ہمارے اوپر تھا، ہم نے اسے اتارا، اور ہم حضرت عمرؓ کے پاس اسی لباس میں آئے کہ جس میں وہ ہمیں دیکھا کرتے تھے، تو حضرت عمرؓ نے کھڑے ہوکر ہم لوگوں میں سے ایک ایک آدمی کو سلام کیا اور ہم میں سے ایک ایک آدمی سے معانقہ کیا‘ جیسے کہ اس سے پہلے ہم کو دیکھا ہی نہ تھا‘ ہم نے آپؓ کے سامنے مالِ غنیمت پیش کیا تو آپؓ نے اس کو ہم لوگوں میں برابر تقسیم کردیا۔ ان کے سامنے مالِ غنیمت میں وہ ٹوکریاں بھی نکلیں جن میں خبیص (چھوارے اور گھی وغیرہ سے بنا ہوا حلوہ) کی سرخ و سفید قسمیں رکھی ہوئی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے اس کو چکھا، اس کا مزا اچھا اور خوشبو اچھی پائی تو ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: خدا کی قسم اے مہاجرین اور انصار کی جماعت! تم میں سے بیٹا باپ سے اور بھائی بھائی سے اس کھانے پر ضرور لڑے گا۔ پھر آپؓ نے اس کے بارے میں حکم دیا کہ یہ ان لوگوں کی اولاد کی طرف پہنچایا جائے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مہاجرین اور انصار میں سے شہید ہوئے تھے۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور واپس چلے گئے۔ آپؓ کے پیچھے صحابہ کرامؓ آپؓ کے نقش قدم پر چلے اور صحابہؓ نے کہا کہ اے مہاجرین و انصار کی جماعت اس آدمی کے زہد کو اور اس کے حلیہ کو نہیں دیکھتے ہو؟ اس نے ہم لوگوں کے لیے ہمارے نفسوں کو حقیر کردیا جب سے کہ اللہ پاک نے اس کے ہاتھوں پر کسریٰ اور قیصر کے شہر فتح کیے اور مشرق و مغرب کی دونوں طرفیں۔ عرب اور عجم کے وفود اس کے پاس آتے ہیں اور اس پر یہ جبہ دیکھتے ہیں جس پر بارہ پیوند لگے ہوئے ہیں۔ اے اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت! کاش کہ تم ان سے پوچھتے۔ اور تم لوگ بڑے ہو‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد اور غزوات میں رہے ہو، اور تم سبقت لے جانے والے مہاجرین اور انصار میں سے ہو کہ یہ اپنا جبہ کسی نرم کپڑے کا بنالیں جس میں ذرا ان کا منظر ہیبت ناک ہو اور صبح و شام ان کے پاس ایک لگن کھانے کی آئے جسے یہ کھائیں، اور جو مہاجرین و انصار میں سے حاضر ہوں وہ کھائیں‘ سب نے بالاتفاق سن کر یہی کہا کہ اس کام کے لیے تو سوائے حضرت علیؓ بن ابی طالب کے اور کوئی موزوں نہیں‘ اس لیے کہ وہ تمام لوگوں میں سے حضرت عمرؓ کے سامنے جرأت سے کام لے سکتے ہیں اور حضرت عمرؓ ان کے داماد بھی ہیں‘ یعنی حضرت علیؓ کی بیٹی بھی حضرت عمرؓ کے نکاح میں ہے، یا اس کام کے لیے جرأت ان کی بیٹی حفصہؓ کرسکتی ہیں، وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور حضرت عمرؓ ان کی بات مان بھی لیں گے۔ چنانچہ لوگوں نے حضرت علیؓ سے بات چیت کی۔ انھوں نے کہا کہ میں یہ کام کرنے والا نہیں۔ تم لوگ ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں مدد لو‘ وہ امہات المومنین ہیں، حضرت عمرؓ پر جرأت کرسکتی ہیں۔ حضرت احنفؓ بن قیس فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ سے کہا، کہ یہ ایک ہی جگہ جمع تھیں… تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا: میں امیرالمومنین سے اس بات کو پوچھ لوں گی۔ حضرت حفصہؓ نے کہا: میرا خیال ہے کہ وہ کبھی بھی راضی نہ ہوں گے اور ابھی تم پر یہ بات واضح ہوجائے گی۔ چنانچہ یہ دونوں امیرالمومنین کے پاس آئیں۔ آپؓ نے ان دونوں کو اپنے قریب بٹھایا۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: اے امیرالمومنین! کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ آپ سے بات کروں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے ام المومنین! کہیے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت اور رضوان کی طرف اپنا راستہ اختیار کیا اور دنیا کا ارادہ نہیں کیا اور نہ دنیا نے آپؐ کا ارادہ کیا‘ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کرکے چل دیے اور جھوٹوں کو موت کے گھاٹ اتار گئے اور باطل لوگوں کی دلیلوں کو ناکارہ کرگئے‘ اپنی رعایا میں انصاف پھیلا گئے، سب میں تقسیم برابر رکھی اور اللہ پاک کی رضا مندیاں ہمیشہ ان کے سامنے رہیں۔ اللہ پاک نے ان کو اپنی رحمت اور اپنی رضوان کی طرف اٹھالیا اور انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونچے بلند مقام پر ملا دیا۔ نہ انھوں نے دنیا کا ارادہ کیا اور نہ دنیا نے ان کا۔ اور اللہ پاک نے آپؓ کے ہاتھوں کسریٰ اور قیصر کے خزانے اور ان کے شہر فتح کرائے اور آپؓ کی طرف ان کے مال بھیجے اور آپؓ کی اطاعت مشرق اور مغرب نے کی‘ ہم اللہ سے اور زیادتی کی اور اسلام میں تائید کی امید رکھتے ہیں۔ عجم کے ایلچی اور عرب کے وفود آپؓ کے پاس آتے ہیں اور آپؓ کے پاس ٹھیرتے ہیں، اور آپؓ پر یہ جبہ ہے جس میں آپؓ نے بارہ پیوند لگا رکھے ہیں۔ پس اگر آپؓ اس جبہ کو نرم کپڑے سے بدل دیتے جس میں آپؓ بھاری بھرکم اور مہیب دکھائی دیتے، اور صبح ایک لگن کھانے کی آپؓ کے سامنے آتی اور شام کو ایک لگن کھانے کی آتی‘ آپؓ کھاتے اور مہاجرین وانصار میں سے جو اُس وقت ہوتے وہ کھاتے (تو نہایت مناسب تھا)۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ بہت روئے‘ اس کے بعد فرمایا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا تم جانتی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیہوں کی روٹی سے دس دن یا پانچ دن یا تین دن پیٹ بھرا ہے؟ یا شام اور صبح کا کھانا ایک دن میسر آیا ہے؟ یہاں تک کہ آپؐ اللہ تعالیٰ سے مل گئے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: نہیں۔ پھر حضرت حفصہؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم جانتی ہو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھانا ایسی میز پر پیش کیا گیا ہو جو زمین سے ایک بالشت اونچی ہو‘ آپؐ تو کھانے کے لیے حکم دیتے تھے، وہ زمین پر رکھ دیا جاتا تھا اور میز کے لیے حکم دیتے تھے وہ اٹھا دی جاتی تھی۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ دونوں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم یہی بات ہے۔ اس کے بعد آپؓ نے دونوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ہو اور امہات المومنین ہو، اور تم دونوں کا تمام مومنین پر حق ہے، اور میرے اوپر تو خاص طور سے، اور تم دونوں مجھے دنیا میں رغبت دلانے آئی ہو؟ میں جانتا ہوں بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُون کا ایسا موٹا جبہ پہنا ہے‘ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کھال کو اس کے کھردرے پن سے کھجایا ہے‘ کیا تم دونوں اس بات کو جانتی ہو؟ ان دونوں نے کہا: خدا کی قسم ہاں۔ اس کے بعد آپؓ نے فرمایا: کیا تم جانتی ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عبا پر جو ایک تہہ والی ہوتی، سو رہا کرتے تھے؟ اور اے عائشہؓ تمہارے گھر میں تو ٹاٹ تھا جو دن میں بیٹھنے کا فرش ہوتا اور رات میں سونے کے لیے بچھونا۔ ہم آپؐ کے پاس جاتے‘ چٹائی کا نشان آپؐ کے پہلو پر دیکھتے۔ اور کیا اے حفصہؓ تُو نے مجھ سے یہ بیان نہیں کیا تھا کہ تُو نے ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بستر نرم کردیا تھا‘ آپؐ نے اس کی نرمی پائی اور سوگئے اور آپؐ کی آنکھ بجز حضرت بلالؓ کی اذان کے نہیں کھلی تو آپؐ نے تجھ سے اے حفصہ کہا تھا کہ اے حفصہ تُو نے کیا کیا؟ تُو نے اس رات بستر دوہرا کردیا؟ یہاں تک کہ مجھے صبح تک نیند گھیرے رہی۔ مجھے دنیا سے کیا غرض؟ اور مجھے کیا ہوگیا کہ تُو نے اے حفصہ! مجھے نرم بستر کی وجہ سے نماز سے غافل کردیا؟ (حضرت عمرؓ نے کہا) اے حفصہ کیا تُو نہیں جانتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے گئے تھے؟ آپؐ نے بھوکا رہ کر شام کی، اور سجدہ میں سورہے‘ اور ہمیشہ آپؐ رکوع اور سجدہ کرتے اور روتے اور رات اور دن کے اوقات میں گڑگڑاتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور رضوان کی طرف اٹھالیا۔ عمر نہ اچھا کھانا کھائے گا اور نہ نرم کپڑا پہنے گا۔ اس کے لیے اپنے دونوں ساتھیوں کا اسوہ (عمل) کافی ہے، اور نہ سوائے نمک اور روغنِ زیتون کے کسی دو سالن کو جمع کرے گا، اور میں گوشت مہینہ میں صرف ایک مرتبہ کھائوں گا، خواہ قوم کو یہ باتیں کتنی ہی ناپسندیدہ ہوں۔ یہ دونوں آپؓ کے پاس سے نکلیں اور اس کی اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے ہمیشہ اسی طرح بسر اوقات کی‘ یہاں تک کہ وہ اللہ عزوجل سے جا ملے۔ (کذافی منتخب کنزالعمال۔ ج 4، ص 408)

حضرت عمروؓ بن مرہ جہنی

حضرت عمروؓ بن مرہ جہنی

-طالب ہاشمی

بعدِ بعثت کے ابتدائی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک دن ایک اعرابی سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یوں عرض پیرا ہوئے: ’’اے ابنِ عبدالمطلب میں پچھلے حج کے موقع پر مکہ آیا تو یہاں ایک عجیب خواب دیکھا۔ سوتے ہوئے مجھے یوں نظر آیا کہ ایک نور کعبہ سے نکل کر یثرب کی پہاڑیوں تک جاپہنچا ہے اور قبیلہ جُہینہ کو ڈھانپ لیا ہے۔ پھر میں نے اس نور میں سے ایک آواز سنی کہ ظلمت کے بادل چھٹ گئے، اجالا پھیل گیا، آخری نبی تشریف لے آئے۔ اس کے بعد ایک تیز روشنی برآمد ہوئی جس میں حیرہ کے محل اور مدائن کے قصر ہائے ابیض دکھائی دینے لگے۔ اس وقت میرے کان میں یہ آواز آئی کہ اسلام آگیا، بُت ٹوٹ گئے اور صلۂ رحمی کا دور دورہ ہوا۔ یہ خواب دیکھ کر مجھ پر وحشت طاری ہوئی اور میں نے اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے جو میرے ساتھ حج کے لیے مکہ آئے تھے، خواب کا ماجرا بیان کیا، وہ بھی بہت حیران ہوئے۔ جب حج سے فارغ ہوکر ہم اپنے قبیلے میں واپس گئے تو ہم نے سنا کہ آپؐ لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے ہیں اور بت پرستی سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اب میں آپؐ کی خدمت میں یہ معلوم کرنے کے لیے آیا ہوں کہ آپؐ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی کی باتیں بڑی توجہ سے سنیں اور پھر فرمایا: ’’بھائی! میں نبی مرسل ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمام بندگانِ خدا کو اسلام کی طرف بلائوں، بت پرستی ترک کرنے کی تلقین کروں اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت اور صلۂ رحمی کا حکم دوں۔ جو کوئی اس دعوت کو قبول کرے گا وہ جنت کا حقدار ہوگا، اور جو اس کو رد کرے گا اس کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا۔ تم میری دعوت کو قبول کرلو تو دوزخ کی آگ سے محفوظ رہو گے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر اعرابی نے بلاتامل عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو دعوت آپ دیتے ہیں صدقِ دل سے قبول کرتا ہوں اگرچہ عرب کے درودیوار سے اس کی مخالفت ہورہی ہے۔‘‘ یہ اعرابی جنہوں نے اُس وقت لوائے توحید کو تھاما جب ایسا کرنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف تھا، حضرت عمروؓ بن مُرّہ جُہنی تھے۔ ……٭٭٭…… حضرت عمروؓ کا شمار اپنے قبیلے کے عمائد میں ہوتا تھا اور لوگ ان کو بہت مانتے تھے۔ شعر گوئی کا نہایت پاکیزہ ذوق رکھتے تھے۔ شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اشعار پڑھے: شھدت بانّ اللہ حق و اننی لاِٰ لھِۃ الا حجار اوّل تارک فشمّرتُ عن ساق الا زارَ مھاجر الیک اَدُبُّ الغور بعذالدکادک لاصحب خَیرَ النّاس نفسًا و والدًا رسُولُ ملیک الناس فوق الحبائک (ترجمہ): ’’میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ اللہ حق ہے اور میں پتھروں کے معبودوں کو سب سے پہلے پس پشت ڈالنے والا ہوں، میں نے پوری سرگرمی کے ساتھ آپ کی طرف ہجرت کی ہے (یا میں نے ہجرت کے ارادے سے تہبند پنڈلیوں سے اوپر چڑھا لیا ہے) میں دشوار گزار راستوں سے آپ کی طرف چل رہا ہوں تاکہ اس ذاتِ گرامی کا شرفِ صحبت حاصل کروں جو بذاتِ خود بھی اور خاندانی حیثیت سے بھی تمام لوگوں میں بہترین ہے، زمین اور آسمان کے مالک کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تمام نیکیوں سے اعلیٰ و برتر ہے۔ یہ اشعار سن کر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر بشاشت پھیل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عمرو! تمہیں مبارک ہو (یا شاباش اے عمرو)‘‘۔ حضرت عمروؓ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مجھے اپنی قوم میں جاکر تبلیغ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیے، شاید اللہ تعالیٰ میرے ذریعے سے اُن پر احسان کرے جس طرح اس نے آپ کے طفیل مجھ پر احسان کیا۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں تم اپنی قوم کو ہدایت دے سکتے ہو۔‘‘ حضرت عمروؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر بہت خوش ہوئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمروؓ میری چند باتیں یاد رکھنا اور ہر حال میں ان پر عمل کرنا، وہ باتیں یہ ہیں کہ ہمیشہ نرمی سے کام لینا، سختی نہ کرنا، کسی سے حسد نہ کرنا، خودپسندی اور تکبر سے باز رہنا، اپنی گفتگو میں تلخی اور ترش روئی سے کام نہ لینا۔‘‘ حضرت عمروؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر عمل کرنے کا عہد کیا اور اپنی قوم کی طرف روانہ ہوگئے۔ ……٭٭٭…… حضرت عمروؓ اپنے قبیلے میں پہنچے تو سب سے پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ جس بُت کی پرستش کیا کرتے تھے اس کو توڑ ڈالا، پھر انہوں نے سب لوگوں کو جمع کیا اور ان سے یوں خطاب کیا: ’’اے بنو رُفاعہ، اے بنو جہینہ میں تمہارے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں اور تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی تلقین کرتا ہوں کہ قتل و غارت اور خونریزی کو چھوڑ دو، آپس میں صلۂ رحمی کرو، خدائے واحد کی عبادت کرو اور بتوں کو چھوڑ دو، جو میری دعوت پر لبیک کہے گا اس کے لیے جنت ہے، اور جو کوئی اس سے روگردانی کرے اس کے لیے جہنم ہے۔ اے میرے جہنی بھائیو! قبائلِ عرب میں اب بھی تمہاری ایک امتیازی شان ہے۔ دوسرے لوگوں میں رواج ہے کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھ لیتے ہیں اور باپ کے مرنے کے بعد بیٹا سوتیلی ماں سے شادی کرلیتا ہے، لیکن تم نے ہمیشہ ان باتوں کو مکروہ جانا۔ اب تم اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرلو تو دنیا اور آخرت کی بھلائیاں تمہارے حصے میں آئیں گی۔‘‘ حضرت عمروؓ کی باتوں میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ ایک شخص کے سوا سارا قبیلہ چند دن کے اندر اندر شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوگیا۔ یہ شخص بڑا سیاہ باطن اور شقی القلب تھا۔ حضرت عمروؓ سے کہا کرتا تھا: ’’اے عمرو بن مُرہ، تیری زندگی تلخ ہوجائے کیا تُو ہمیں اپنے معبودوں کو چھوڑنے کی تلقین کرتا ہے! کیا تیرا ارادہ ہے کہ ہم پارہ پارہ ہوجائیں، کیا تُو چاہتا ہے کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کریں! یہ تہامہ کا رہنے والا قُرشِی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیں کس بات کی طرف بلاتا ہے جس میں نہ کوئی کرامت ہے نہ کوئی شرافت۔‘‘ بعض اہلِ سِیَر نے اس شخص سے یہ اشعار منسوب کیے ہیں: ان بن مرۃ قداتی بمقالۃ لیست مقالۃ من یرید صلاحا انی لاحسب قولہ و فعالہ یوما وان طال الزمان زباحا لیسفہ الاشیاخ ممن قدمضی من رام ذٰلک لا اصاب فلاحا (ترجمہ) ’’عمرو بن مُرّہ وہ بات لے کر آیا ہے جو صلاح پسند لوگوں جیسی نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ عمرو بن مُرّہ کا قول و فعل ایک دن غلط ثابت ہوگا اگرچہ اس میں کچھ دیر ہوجائے۔ وہ ہمارے گزرے ہوئے بزرگوں کو بے وقوف ثابت کرنا چاہتا ہے، اور جس خلف کا ارادہ ایسا ہو وہ کبھی بھلائی کا منہ نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ حضرت عمروؓ بن مُرّہ اس نابکار کے جواب میں فرماتے تھے: ’’ہم میں سے جو جھوٹا ہو خدا اس کے عیش کو تلخ، اس کی آنکھوں کو اندھا اور اس کی زبان کو گونگا کردے۔‘‘ حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی ’’تاریخ‘‘ میں خود حضرت عمروؓ بن مُرّہ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ خدا کی قسم یہ شخص اُس وقت تک نہ مرا جب تک وہ گونگا، بہرا اور اندھا نہ ہوگیا اور اس کا منہ گل کر گر نہ پڑا۔ یہ اس کے لیے ایسی مصیبت تھی جس نے اس کو کھانا کھانے سے بھی محروم کردیا تھا۔ کچھ مدت بعد حضرت عمروؓ بن مُرّہ اپنے قبیلے کو ساتھ لے کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں زندگی میں برکت اور رزق میں کشائش کی دعا دی اور ان کے لیے ایک فرمان لکھ دیا جس کا خلاصہ یہ ہے: ’’اے مسلمانانِ جہینہ، تمہارے لیے جہینہ کی ساری زمین ہے نرم اور پتھریلی، چشمے اور وادیاں۔ تم جہاں چاہو اپنے جانوروں کو چرائو اور جہاں پانی پائو اپنے استعمال میں لائو۔ بشرطیکہ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ دیتے رہو اور پانچوں وقت کی نمازیں ادا کرتے رہو۔ اور بھیڑ بکریوں کے دو ریوڑ یکجا ہوں (یعنی ایک سو بیس بکریاں ہوں) تو دو بکریاں نکالی جائیں گی، اور اگر ایک ایک ریوڑ ہو تو چالیس میں سے ایک بکری نکالی جائے گی۔ کھیتی میں کام آنے والے بیلوں پر کوئی صدقہ نہیں اور نہ کسی کنویں سے زمین کو پانی دینے والی اونٹنیوں پر۔‘‘ اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اُس وقت لکھا گیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے تھے اور اسلام ایک غالب قوت کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمروؓ بن مُرّہ کے قبولِ اسلام کا صحیح زمانہ کیا تھا؟ علامہ ابن اثیرؒ نے ’’اُسُد الغابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ انہوں نے ہجرتِ نبویؐ سے پہلے مکہ آکر اُس وقت سعادتِ ایمانی حاصل کی جب مشرکین نے اسلام کی مخالفت میں طوفان برپا کررکھا تھا۔ لیکن حافظ ابن حجرؒ نے ’’اصابہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمروؓ بن مُرّہ نے سیدنا حضرت مُعاذؓ بن جبل سے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اپنے قبیلے میں واپس جاکر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ ان کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں سارا قبیلہ چند دن کے اندر اندر سعادت اندوزِ اسلام ہوگیا۔ اگر حافظ ابن حجرؒ کی روایت کو درست مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمروؓ بن مُرّہ نے ہجرتِ نبوی کے بعد مدینہ آکر اسلام قبول کیا۔ ان دونوں روایتوں کی تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ حضرت عمروؓ بن مُرّہ نے ہجرتِ نبوی سے پہلے مکہ آکر اسلام قبول کیا اور اپنے وطن واپس چلے گئے۔ ہجرتِ نبوی کے بعد وہ دوبارہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ آئے، حضرت معاذؓ بن جبل سے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے قبیلے میں واپس جاکر اسے بھی مشرف بہ اسلام کیا۔ اس کے بعد اپنے اہلِ قبیلہ کو ساتھ لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور محولہ بالا فرمان یا وثیقہ حاصل کیا۔ ……٭٭٭…… اربابِ سِیَر نے حضرت عمروؓ بن مُرّہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن انہوں نے عہدِ رسالت میں حضرت عمروؓ بن مُرّہ کی دوسری سرگرمیوں کا ذکر نہیں کیا۔ البتہ ’’طبقات الکبیر‘‘ میں علامہ ابن سعدؒ کاتب الواقدی نے اتنا ضرور لکھا ہے کہ عمروؓ بن مُرّہ کو جہاد فی سبیل اللہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عمروؓ بن مُرّہ بعض غزواتِ نبوی میں ضرور شریک ہوئے ہوں گے۔ مخدوم محمد ہاشم سندھیؒ نے اپنی کتاب ’’بذل القوۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے7 ہجری میں ایک مہم حضرت عمروؓ بن مُرّہ کی قیادت میں اپنے چچا زاد بھائی ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب کی طرف بھیجی۔ وہ قبیلہ جہینہ اور مزینہ کے چند رفقاء کے ساتھ اس مہم پر گئے اور مخالف فریق کو شکست دے کر واپس آئے۔ (ابو سفیان فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوگئے) حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں شام فتح ہوا تو بہت سے صحابہ کرامؓ نے شام میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور ان میں حضرت عمروؓ بن مُرّہ بھی شامل تھے۔ شام میں ان کی زندگی کے لیل و نہار لوگوں کو قرآن و سنت اور اوامر و نواہی کی تعلیم دینے میں گزرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قلب ِ گداز عطا کیا تھا، مخلوقِ خدا کی خدمت اور خیر خواہی کو اپنا جزوِ ایمان سمجھتے تھے۔ حافظ ابن حجرؒ نے ’’اصابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے امیر معاویہؓ کے پاس جا کر یہ حدیث بیان کی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو امام (حاکم) محتاجوں، دوستوں اور حاجت مندوں کے لیے اپنا دروازہ بند کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاجتوں اور دعائوں کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دے گا۔ امیر معاویہؓ نے یہ حدیث بڑے غور سے سنی اور اسی وقت ایک خاص افسر اس کام کے لیے مقرر کر دیا کہ وہ لوگوں کی حاجتیں اور ضرورتیں معلوم کرے اور انہیں پورا کرے۔ حضرت عمروؓ بن مُرّہ نے طویل عمر پائی اور اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہد ِ حکومت میں کسی وقت سفرِ آخرت اختیار کیا۔ حضرت عمروؓ بن مُرّہ کے صحیفہ اخلاق میں اخلاص فی الدین کا پہلو سب سے نمایاں ہے۔ اپنے اشعار میں بڑے جوش و خروش سے اسلام پر فخر کا اظہار کیا کرتے تھے ،اس کا نمونہ یہ شعر ہیں: انی شرعت الان فی حوض التقی وخرجت من عقد الحیاۃ سلیما ولبست اثواب الخلیم فاصبحت اُمّ الغوایۃ من ھویٰ عقیما یعنی میں تقویٰ کے حوض میں تیرا اور زندگی کی مشکلات سے صحیح سالم نکل آیا۔ میں نے حلیم کا لباس پہن لیا اور گمراہیوں کی ماں میری خواہش سے ناامید ہوگئی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Friday 25 May 2012

حیا کی قیمت بڑی ہے بھیّا Price of Modesty

اوصاف کا گہنہ
حیا کی قیمت بڑی ہے بھیّا

  ہر دین کا ایک خا ص خلق ہوتاہے اور اسلام کا خلق یہی ’’حیا ‘‘ہے ۔حیا ایک خاص فطری وصف ہے جو انسان کے اندر بہت سی خو بیو ں کو پروان چڑھا تا ہے۔ مثلاً عفت و پا کبا زی، گنا ہوں سے بچنا، اللہ کی نافرمانیوں پر غیرت کھانا، کسی کے سا منے دست سوال دراز نہ کرنا اور سوال کر نے والے کو خالی ہاتھ نہ لوٹانا، احسان مندی کرنا، حق تلفی نہ کرنا، دوسروں کی غلطیوں پر چشم پو شی کر نا، سب اسی حیا کے مختلف مظا ہر ہیں۔حیا کے با رے میں ایک عام تصور ہے کہ یہ عورتوں کا وصف ہے اور اس کو بدرجہ اتم عورتوں کے اندر ہونا چاہیے۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ عورت کے اندر اللہ نے فطری طور پر شرم و حیا کا مادہ مرد سے زیا دہ رکھا ہے اور بہترین عورت یقیناوہی ہے جو حیا کے زیورسے آ راستہ ہے لیکن مردوں کے لیے حیا اتنا اہم ہے کہ معا شرتی اصلا ح اور تطہیر کے لیے مردوں کا باحیا ہونا کبھی کبھی عورتوں سے بھی زیا دہ اہم بن جا تا ہے ۔
حیا ایسا وصف ہے جسے خود ما لک و خا لق کا ئنات نے بھی اختیا ر فرمایا ہے۔ قرآن میں جا بجا اس کا تذکرہ ہے اور احا دیث میں بھی اللہ کے اس وصف کو بیا ن کیا گیا ہے ۔آپؐ نے فر ما یاکہ:
"عزت اور جلال وا لے خدا کے آگے جب کو ئی بندہ ہا تھ پھیلا کر کچھ بھلا ئی ما نگتا ہے تو وہ اس کو نا مراد لو ٹا تے ہو ئے شر ما تا ہے ‘‘۔ (بیہقی)
اللہ کے لئے حیا کے معنی:سید سلما ن ندوی ؒ، سیرت النبیؐ جلد ششم میں رقمطراز ہیں کہ اللہ کے لئے حیا کے معنی وہی ہوں گے جو اس کی ذات اقدس کے لا ئق ہیں مثلاً یہ کہ وہ اپنے بدکار بندوں کو بُرائی کرتے دیکھتا ہے لیکن ان کو پکڑتا نہیں اور اس کے آ گے جو ہا تھ پھیلا تا ہے اس کو نامُراد لو ٹا تا نہیں۔
حدیث ہے کہ: ’’ اللہ سب سے زیا دہ غیرت مند ہے اور اسی لیے اس نے بدکاریوں کو حرام کیا ہے‘‘۔(صحیح مسلم)
غور کیا جا ئے تو حیا کی یہی صفات مسلما ن مردوں میں بدرجۂ اتم موجود ہونا ضروری ہیں مثلاً اعلیٰ ظرفی، حق کے لیے جری و بے باک ہونا، بدکاریوں اور برائیوں کے سد باب کے لیے کمر بستہ ہو نے والے۔
حیا اور نبی کریم ؐ: احا دیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کنواری پردہ نشین لڑ کیوں سے زیا دہ حیا دار تھے۔
احادیث میں ہے کہ شرم و حیا کا اثر آپ ؐ کی ایک ایک ادا سے ظاہر ہوتا تھا۔ کبھی کسی کے سا تھ بد زبا نی نہیں کی، با زاروں میں جا تے تو چپ چاپ گزر جاتے۔ تبسم کے سوا کبھی لب مبا رک خندہ و قہقہہ بازی سے آشنا نہ ہو ئی۔بھری محفل میں کوئی با ت ناگوار ہوتی تو لحاظ کی وجہ سے زبان سے کچھ نہ فرماتے۔ چہرہ کے اثر سے ظاہر ہوتا اور صحابہ ؓمتنبہ ہوجاتے۔آپؐ کو کعبہ کے گرد برہنہ طواف سخت نا پسند تھا، حمام میں برہنہ نہا نے سے سختی سے منع فرمایا، عورتوں کے حمام میں جانے پر پا بندی لگا ئی۔معمول تھا کہ رفع حاجت کے لئے اس قدر دورنکل جا تے کہ آنکھو ں سے اوجھل ہو جا تے۔ مکہ معظمہ میں جب تک قیام تھاحدود حرم سے باہر نکل جاتے جس کا فاصلہ مکہ معظمہ سے کم از کم تین میل تھا ۔(سیرت النبیؐ جلد دوم سید سلمان ندوی صفحہ)
آپؐ بچپن ہی سے بہت حیا دار تھے۔ مشہور وا قعہ ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت اینٹیں اُٹھا اُٹھا کر لا رہے تھے۔اپنے چچا عباس ؓکے کہنے پر تہبند اتا ر کر کندھے پر رکھنا چاہا تو حیا کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے۔ ہوش آیا تو زبان پر تھا میرا تہبند، میرا تہبند۔ (بخاری)
بعض موا قع پر آپ صلعم کو صحا بہ کرام کے کسی عمل سے تکلیف ہوتی تھی لیکن آپ صلعم حیا کی وجہ سے خاموش رہتے۔ جیسے حضرت زینب ؓکے ولیمہ کے روز صحابہ ؓدیر تک بیٹھے رہے، آپ صلعم کو نا گوار محسوس ہوتا رہا لیکن منع نہ فرمایا یہا ں تک کہ اللہ تعا لیٰ نے خصوصی حکم نا زل فرما کر ان امور سے منع فرما یا۔
حیا اور صحا بہ کرام ؓ:- صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ جلیل القدر بزرگ تھے جن کی تر بیت وحی الٰہی کی روشنی میں خود نبی کریم صلعم نے کی۔ ان کے فطری اوصا ف کو پروان چڑھایا، ان کی موروثی صفات کو صحیح رخ دیا اور تاریخ کے بہترین انسان بنا کر کھڑا کیا۔خلفا ئے راشدینؓ میں حضرت عثمانؓ سب سے زیا دہ حیا دار تھے اور نبی کریم صلعم بھی ان کی اس صفت کا لحاظ رکھتے تھے۔ با قی صحا بہ کرام ؓکے سامنے اگر کبھی پنڈلیاں کھول کر بیٹھ جاتے تھے تو حضرت عثمان ؓ کی آمد پر ڈھا نپ لیتے تھے کہ ان کی حیا پسند طبیعت پر یہ ناگوار نہ گز رے۔حضرت عمرؓ کی حیا غیرت ِمردانہ کا روپ رکھتی تھی۔ اللہ کے دین کے با رے میں وہ بہت باغیرت تھے اور بے شما ر تا ریخی واقعات ہیں کہ جب انہوں نے چاہا کہ کسی دشمن خدا کی گردن تن سے جدا کر دیں اور رسول صلعم کے حلم نے اس سے روکا۔پر دہ کے احکا م آنے سے قبل حضرت عمر ؓکئی مر تبہ نبی کریم صلعم سے اس با ت کا اظہا ر کر چکے تھے کہ آپ صلعم کے گھر میں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں ،بہتر ہے کہ امہا ت المومنین پردہ کیا کریں۔ پردے کے بغیر کوئی عورت پہچان لی جا تی تو ان کو نا گوار ہوتا۔ سورہ نو ر میں جب زنا اور قذف کے احکام نا زل ہو ئے اور چار گواہوں کی پا بندی عائد کی گئی تو حضرت سعد بن عبادہ ؓنے اس پر قدر ے گرمجوشی کااظہا ر کیا کہ مرد اگر(خدانخواستہ) اپنی بیوی کو غلط کاری کرتے دیکھے تو چار گواہ لانے تک تو کام تمام ہوجائے گا۔ یہ کیسا قانون ہے؟ نبی کریم صلعم نے اس تبصرے پر ناگواری کا اظہا ر فرمایا تو صحا بہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلعم سعد بن عبادہ ؓکے با رے میں جلدی نہ فرمائیے یہ بہت غیرت مند ہیں۔
صحا بہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے حیا اور غیرت کا صحیح مفہوم سمجھا۔ ان کی حیا نے انہیں ہر طرح کی بے حیا ئی، فحا شی اور عریانی سے روکے رکھا۔ معاشرے کو پاکیزہ رکھا۔ حیا نے ان کو ایک دوسرے پر ہر طرح کی دست درازی سے روکے رکھا۔ وہ احسان کی قدر کرنے وا لے، سا ئلین کو نہ لوٹانے والے تھے۔ وہ اتنے غیرت مند تھے کہ معا شرے میں کسی کو کھلے عام گناہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی لیکن ان کی حیا اسلامی حیا تھی ۔اس میں کمزوری اور بزدلی کا عنصر شامل نہ تھا کہ وہ حق با ت کر نے سے شرما جائیں۔ کا فروں کے سامنے کلمہ حق نہ کہہ سکیں۔ جابر و ظالم حکمرانوں کے سامنے اللہ کی کبریائی نہ بیان کرسکیں۔ ظالموں کو ظلم سے روکنے میں کوئی چیز مانع نہ ہوتی تھی۔ اللہ کے دین کے دفاع میں وہ بہت غیرت مند تھے۔ صحابہ کرام ؓ کو حیا نے ان مواقع پربھی دلیر بے جھجک اور آزاد بنادیا دیا تھا جہاں دین سیکھنے کی ضرورت ہوتی تھی،حتی کہ صحابیات ؓبھی سوال کر نے سے نہ کتراتیں اور احسن طریقے سے سوال کرتیں۔
حضرت عا ئشہؓ فرماتی ہیں انصار کی عورتیں کس قدر اچھی عورتیں تھیں کہ دین کا علم حاصل کر نے سے ان کو حیا نہیں رو کتی تھی۔ (مسلم)
اس دور کی مسلمان عورتیں بھی حیا میں مثالی تھیں اور مسلمان مرد بھی بدرجہ اتم اس صفت سے متصف تھے۔سب اللہ سے بھی حیا کرتے تھے اور ہر طرح کی نافرمانی اور فحاشی سے اجتناب کرتے تھے اور آپس میں بھی حیا کر تے تھے۔ مردوں میں غیرت بدرجۂ اتم تھی جو حیا کا مظہر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلم معاشرے میں کو ئی بہن، بیٹی، بیوی اور کوئی عورت بے حیائی کے ساتھ باہر نکلنے کی جرات نہ کر سکتی تھی اور حضرت عمرؓ اور سعد بن عبا دہ ؓ جیسے جری اور غیرت مند انسان معاشرے میں حیا کی ترویج کے لئے موجود ہوتے تھے۔
روایتی مسلم معاشرے اور حیا:-آج سے چند سال پیشتر تک ہمارے دیہا ت اور چھوٹے شہروں میںمردانہ حیا اورغیرت زندہ تھی۔ گھروں کے اندر بھی عورتیں دو پٹے اتارنے کا تصور نہ کرسکتی تھیں،مرد کھانس کر، کھنکھارکریا آواز دے کر گھر کے اندر دا خل ہو تے اور گھر کی تما م خواتین اپنی چادریں اور دوپٹے درست کر لیتیں۔ بھائی غیرت مند تھے کہ بہنوں کو بے پردہ ساتھ با ہر لے جا نے پر معترض ہو تے تھے۔ شوہر بیوی کو دوستوں کے سامنے لانے میں جھجھک رکھتے تھے۔
خا ندان میں ایک نہ ایک ایسا باکردار اور رعب دار مرد ضرور ہو تا تھا جس سے سب حیا کر تے تھے اور اس کے سا منے عورتیں تو کیا لڑکے بھی غلط کا م کر نے سے جھجکتے تھے،بڑوں کے سامنے حیا کی جا تی تھی، نگاہیں نیچی رہتی تھیں، اونچا نہیں بولا جاتا تھا۔ کھلے عام نافرمانی نہیں کی جاتی تھی۔ ناگوار باتوں کو بھی برداشت کیا جاتا تھا۔ شادی بیاہ میں مرد اور عورتیں الگ الگ ہوتے تھے۔ دلہن اور حیا  لا زم و ملزوم تھے۔ دلہن کو رخصت کرتے وقت باپ اور بھا ئی ملتے تھے تو حیا کی وجہ سے اس اس کو پورا ڈھک دیا جاتا تھا ،وہ باغیرت باپ اور بھائی دلہن کے ننگے سر پر ہا تھ نہ پھیرتے تھے۔ بسوں میں سفر کرتے ہو ئے مرد کسی عورت کو کھڑا دیکھتے تو اسے جگہ دے دیتے اور خود کھڑے ہوجاتے۔ گھر کی عورتوں کے لباس پر بھی مردوں کی نظر رہتی تھی اور غلطی پر ٹوکا جاتا تھا۔ ایسے لڑکوں اور مردوں کو سخت نا پسند کیا جا تا تھا جو عورتوں میں گھسے رہتے تھے، جو بیویوں کو بے پردہ باہر لے جا نے میں کوئی باک نہ رکھتے تھے بلکہ صاف کہا جا تا تھا کہ فلاں بہت بے غیرت ہے، اس کی بیوی اور بہن ایسے با زا روں میں گھو متی ہے۔
آج کیا ہوگیا ہے…؟اے مسلمان مردو!اے بھا ئیو!آج کیا ہوگیا ہے۔ کہاں گئی مسلمان مردوں کی حیا اورغیرت …؟
آج دنیا بھر میں اسلام مظلوم اور اجنبی ہے۔ مسلمان ہونا ایک جرم بن گیا ہے۔ ہرجگہ مسلمان کی عزت نفس پامال کی جا رہی ہے۔ جہاں خون بہہ رہا ہے مسلمان کا بہہ رہا ہے۔ عرب سے لے کر ایشیا، افریقہ اور یورپ تک کوئی جان ارزاں ہے تو مسلمان کی۔ وائٹ ہائوس میں ایک مکھی کے مر نے پر این جی اوز حرکت میں آجاتی ہیں لیکن افغانستان، عراق، پاکستان میں ڈرون حملوں اور بم دھماکوں اور میزائل حملوں میں مارے جانے والے انسان شاید کیڑے مکوڑوں سے بھی کم اہم ہیںاورارضِ کشمیر میں انسانی حقوق اور تکریم انسانیت کی کوئی قدروقیمت ہی نہیں… کیوں؟
سوشل سیب سائٹوں پر آ ئے دن اسلام کی بے حر متی کی جاتی ہے لیکن ایک وقتی جوش کے بعد سب ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔کیوں؟ اس لیے کہ مسلما نوں کے اندروہ ایمانی غیرت اور حیا نہیں رہی جو کفر کو چیلنج کر سکے،جو ظالموں کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچا سکے۔  آج امت کے سپوتوں کی آنکھوں پر ما دیت کی پٹی بندھ گئی ہے۔ حکمران ڈالروں کے عوض یہودو نصا ریٰ کے با جگزار بن چکے ہیں۔ بے دین سیا ست دان اقتدار کی ہوس میں ایمان و حیا فروخت کر چکے ہیں اور وہی کرسیوںپر قابض ہیں۔
تعلیم بے حیا کارپردازوں کی وجہ سے تجا رت بن چکی ہے اور اپنے اصل معنی کھو چکی ہے۔ اب تعلیم صرف روٹی کمانے کے گر سیکھنے کا نا م ہے اور لگ بھگ استاد اور طبیب جو آج اپنا مقام کھوچکے ہیں، اس لیے کہ ان کے یہاں ٹیوشن اور فیس نے علم اور ہمدردی کی جگہ لے لی ہے۔عدلیہ اور مقننہ میں، معدودے چند کے سوا، رشوت کے بندے اور غلا م ہیں۔ سچ بتائیں اللہ سے حیا کر نے وا لے آج کدھر گئے ہیں…؟ بندوں سے تو بندے بہت ڈرتے ہیں۔ ہر ہر کام کر نے سے قبل یہ ضرورسوچا جاتا ہے کہ لوگ کیاکہیں گے؟ یہ کتنے لوگ سوچتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے، فرشتے دیکھ رہے ہیں۔ان سے حیا کریں، ان سے ڈر کر اپنے رویے اور اعمال بدلیں اور اپنے ارد گرد کے معا شرے اور ماحول کو بدلنے کی کوشش کریں۔
وائے افسوس! سڑکیں، چوک اور چوراہوں پر لگے شیطا ن کی فحاشی کو مات دیتے ہوئے سا ئن بورڈ آج کسی عمرؓ کو آواز دیتے ہیں۔اسکولوں، کالجوں میں بے پردہ نوجوان لڑکیوں کے جم غفیر کسی سعد بن عبادہ ؓ کی غیرت کے منتظر ہیں۔ دکانوں پر لگے بورڈبے حیائی کی حدود پھلانگ رہے ہیں۔اشتہارات کی بے باک اور فحش دنیا ہے۔ اور غیرت مندوں کی غیرتیں نہ جانے کہاں چلی گئی ہیں…؟
اکبر الہ آبادی مرحوم چند بے پردہ عورتوں کو دیکھ کر غیرت قومی سے زمین میں گڑ گئے تھے۔ آج بے اختیار ان کے شعر یا د آتے ہیں جو مردانہ غیرت کی صحیح تصویر کشی کرتے ہیں ۔
 بے پردہ نظر آئیں مجھ کو چند بیبیاں
اکبر وہیں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
 پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ کیا ہوا؟
کہنے لگیں عقل پر مردوں کی پڑ گیا
شادیوں کے اوقات پر عورتوں کا حد سے نکلنا، دلہن کا نیم برہنہ لباس، نامحرم مردوں کا عورتوں کو مختلف زاؤیوں سے فوکس کر کر کے کیمرے میں بند کر کے فلمیں بنانا اور باپ ، بھائی کی غیرت کے کان پر جوں تک نہ رینگنا، اور تو اور بعض دیندار گھرانوں میں بھی اس موقع پر حیا کا جنازہ اٹھتا نظر آتا ہے کہ دل خوف سے کانپ جاتا ہے ۔ اے بہت حیا اور غیرت والے اﷲ!تیری یہ چشم پوشی ہمارے لئے عذاب بن کر نہ نازل ہو جائے ۔بے پردگی تو ایک طرف، آج ساتر اور باحیا لباس ہی معاشرے سے عنقا ہوگیا ہے۔ (الا ماشاء اللہ)نہ کپڑا بنانے والے مرد یہ دیکھتے ہیں کہ کتنا باریک کپڑا بنا رہے ہیں ،نہ بیچنے والے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کتنا گناہ کما رہے ہیں بلکہ جب باپردہ و باحیا عورت کپڑا خریدنے جا تی ہے اور باریک کپڑے لینے سے انکار کرتی ہے تو بہت سے بزازبھی کہتے ہیں بہن جی لے جا ئیں یہ دھونے سے موٹاہوجائے گا۔اس ضمن میں بہت سارے لوگ اور سہل انگاری اور کو تا ہی کا شکار ہوتے ہیں اور بعض نامور دکا نوں پر بکنے وا لے سوٹ اور کپڑے بھی حیا کے بنیا دی تقا ضے ہی پورے نہیں کرتے۔ یہ بہت تشویشناک بات ہے ۔
حیا کی ترویج:ایمانی زوال کے اس دور میں ہمیں قر آن و سنت رسول صلعم کی طرف رجو ع کرنا ہے اور اپنے مردوں اور عورتوں میں حیا کے وہ بیج بونے کی کوشش کرنا ہے جومعاشرے کو وا پس پا کیزگی کے اس معیار کے قریب لے آئیں ،جو صحابہ کرامؓ کے دور کے خا صہ تھا۔گھر کے اندر مردنگران ہے، چرواہا ہے۔ اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور گھر والوں کے لیے صحیح تعلیم کا بندوبست کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقدیسِ نسواں کا محا فظ دراصل مرد ہی ہے۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہوجائیں تو معا شرے سے ان برائیوں کا خاتمہ ہوجائے جو عورتوں کی بے مہا ری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
………
ibrjamal38@gmail.com

اسلام کے زیر سایہ دُرست فہم کامل عمل

اسلام کے زیر سایہ
دُرست فہم کامل عمل

کوئی بھی کلمہ گو اس وقت تک کامل ومکمل مسلمان نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کے دل میں یہ عقیدہ پورے طور پر راسخ نہ ہو کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو زندگی کے تمام گوشوں میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے اور اس میں کتربیونت اور دین ودنیا کی تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم  کے ذریعہ دنیا کو جو دین یا نظامِ حیات عطا کیا ہے وہ اس طور پر عطا کیا کہ اس میں ہر ہر چیز کے لئے اس کا مناسب مقام اور اس کا موزوں حجم بھی خود ہی متعین کیا ہے جس میں کسی طرح کی کمی بیشی یا افراط وتفریط کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اس لئے کہ اسلام مختلف شعبہ ہائے حیات اور متنوع احکام کا مجموعہ ہے ۔اس میں فرائض وواجبات،سنن ومستحبات، مباحات ومکروہات اور محرمات بھی ہیں اور وہ عقیدہ وعبادت،اخلاق ومعاشرت، معیشت وسیاست ،فن وریاضت اور زندگی کے دیگر پہلوؤں پر بھی مشتمل ہے جن میں سے کسی بھی پہلو کو نظر انداز کرنا یا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا یا اس کو اس کا صحیح مقام نہ دینا یا اس میں کسی طرح کا بھی افراط وتفریط کرنا جائز نہیں ہے،اس کو ایک مثال کے ذریعہ بآسانی یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ملک کا نقشہ اس وقت تک مکمل اور قابلِ قبول نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ اس میں مندرجہ ذیل شرائط پوری طرح موجود نہ ہوں:
۱:- ملک کے تمام شہر ودیہات اور تمام مقامات اور سرحدیں اس میں مکمل طور پر موجود ہوں،ان میں ذرہ برابر کوئی کمی بیشی نہ ہو۔
۲:-ہر جگہ اور ہر چیز اس کے صحیح مقام پر موجود ہو۔
۳:-ہر جگہ اور ہر چیز اس کے حقیقی حجم اور صحیح شکل میں ہو۔
جب ملکی نقشہ ان تینوں شرائط پر پورا اترتا ہو اسی صورت میں اس کو صحیح اور قابل قبول نقشہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح اسلام کا بھی مسئلہ ہے جس کا ایک مکمل نقشہ ہے جو ناقابلِ تقسیم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ہم نے اس ’’الکتاب‘‘ (یعنی: قرآن) میں کوئی چیز چھوڑی نہیں ہے‘‘۔(سورۃ الانعام:۳۸)اس لئے اسلام بھی اسی صورت میں مقبول ، صحیح اور مکمل ہو گا جبکہ اس میں یہ سب شرائط مکمل طور پر موجود ہوں:وہ کامل ومکمل اور زندگی کے تمام گوشوں پر مشتمل ہو،اس کے احکام میں سے ہر حکم اس کے مناسب وصحیح مقام پر ہو جہاں اللہ اور اس کے رسولؐ نے اس کو متعین کیا ہو،اور اس کاہر حکم اس کے اصل حجم اور موزوں شکل میں موجود ہو،اگر اسلام کو اس کے مکمل اور صحیح نقشہ کے ساتھ سمجھا جائے اور مانا جائے تو یہ دین کا صحیح فہم اور اس کا صحیح نفاذ ہے اور یہی اسلام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی مقبول ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دین کو صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا ہے اور وہ اللہ کے نزدیک بھی ناقابل قبول ہے۔ ایسے لوگوںکے بارے میں قرآن کریم میں بہت سخت وعید سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیںاور اللہ اور اس کے رسولوں ؑکے درمیان تفریق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر تو ایمان رکھتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ درمیانی راہ اختیار کریں تو(یاد رکھو کہ)یہی حقیقی کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لئے ہم نے رسواکن عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔(سورۃ النسائ:۱۵۰۔۱۵۱)
چنانچہ اگر ہم اسلام کے صرف کسی ایک پہلو یا حکم کو اختیار کریں اور اسی پر عمل پیرا رہیں ، پھر اس کو اس کے اصل حجم اور حقیقی شکل سے کہیں زیادہ اہمیت دیں یہ سمجھ کر یہی مکمل اسلام ہے تو اس کو جُزوی اسلام کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟!اس صورت میں ہماری مثال اندھوں کی اس جماعت کی سی ہو گی جن کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ان کو ایک ہاتھی مل گیا،اور جب ان سے کہا گیا کہ ہاتھی کے بارے میں بیان کریں  کہ وہ کیسا ہے؟تو ان میں سے ہر ایک نے اس کو اپنے ہاتھ سے چھُو کر دیکھا،کسی کے ہاتھ میں اس کا دانت آیا تو اس نے کہاکہ ہاتھی تو ایک سپاٹ ہڈی کی طرح ہوتا ہے،کسی کا ہاتھ اس کے پیٹ پر پڑا تو اس نے کہا کہ ہاتھی ایک مسطح چیز کی طرح ہوتا ہے،کسی کا ہاتھ اس کی ٹانگ پر پڑا تو اس نے کہا کہ وہ تو ایک نرم ستون کی طرح ہے،غرض یہ کہ ہر ایک نے اسی اعتبار سے بیان کیا جتنا حصہ اس کے ہاتھ لگا اور جیسا اس کو محسوس ہوا۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہاتھی ان سب اعضاء کے مجموعہ کا نام ہے۔ یہی حال بہت سے لوگوں کااسلام کے بارے میں بھی ہے ۔بعض کہتے ہیں کہ اسلام صرف انفرادی زندگی کے لئے ہے،اجتماعی زندگی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے،بعض کہتے ہیں اسلام صرف عبادت کی حد تک محدود ہے ،معاشرت ومعیشت ، سیاست وتجارت اور انسان کی عمومی زندگی سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے،بعض کا دعویٰ ہے کہ اسلام کا تعلق دل اور اندرون سے ہے ،ظاہر سے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔غرض یہ کہ جزوی اسلام کی مختلف شکلیں اور متنوع دعوے!!!!لیکن کیا حقیقت یہی ہے؟کیا قرآنِ کریم اور أسوہ نبویؐ سے یہی تعلیم ملتی ہے؟ کیا نبی کریم صلعم  نے زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کو نافذ کر کے نہیں دکھایا؟ورنہ مکہ سے ہجرت اورترک وطن کی صعوبتیں برداشت کرنے کی کیا ضرورت تھی؟مشرکین مکہ تو جزوی اسلام یا انفرادی اسلام کے لئے پوری طرح تیار تھے اور لے دے کی پالیسی بارہا اپنانے کی پیش کش  بھی کی۔اصل بات یہ ہے کہ نبی کریمصلعم کی مکمل زندگی ایک مسلمان کے لئے مکمل أسوہ نہیں ہے جس میں زندگی کا ہر پہلو شامل ہے۔نبی کرمؐ اور صحابہ کرامؓ سے بہتر کوئی اور اسلام کی صحیح عکاسی کرسکتا ہے؟یہ تو یہود کی صفت تھی(جن کو ہم ہر نماز میں مغضوب علیہم کہہ کر ان سے برأ ت کا اعلان کرتے ہیں) جنہوں نے دین میں تقسیم کر ڈالی تھی اور ان کو سخت طریقہ سے قرآن میں وعید سناتے ہوئے کہا گیا کہ:’’کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر تو ایمان رکھتے ہو اور ایک حصہ کا انکار کرتے ہو۔۔۔۔۔‘‘(سورۃ البقرہ: ۸۵)۔ مسلمانوں کو تو صاف اور واضح حکم دیا گیا ہے کہ: ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ‘‘۔(البقرۃ؛۲۰۸)اسی کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ حسن البنا شہیدؒ نے فرمایا ہے کہ’’:ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اسلام کے جملہ احکام اور اس کی تعلیمات کامل ومکمل ہیں جو لوگوں کے دنیا وآخرت کے تمام امور کو منظم کرتی ہیں۔چنانچہ اسلام عقیدہ وعبادت بھی ہے اور وطن وشہریت بھی،نظام اور حکومت بھی اور روحانیت وعمل بھی اور مصحف وقوت بھی۔۔۔۔۔‘‘۔
نبی کریمؐ نے جو دین امت کو دیا ہے وہ ایک مکمل نظام حیات ہے اور صرف وہی دین تمام انسانیت کے لئے نجات کا ذریعہ ہے۔احادیث وسیرت میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب کسی نے کسی غیر ضروری عمل میں مبالغہ کیا یا اس کو وہ اہمیت دی جو اس کو نہیں دینی چاہئے تھی تو نبی کریم ؐسخت ناراض ہوئے اور سختی کے ساتھ اس عمل سے روکا۔لہٰذا کسی ایک ہی جز پر پورا فوکس کرنا یا اسی کو پورا دین سمجھ لینا یا اپنی طرف سے دین میں کوئی چیز داخل کرناایک خطرناک جرم اور دین کے بارے میں ناقص فہم کا نتیجہ ہے ۔ یہ طرز عمل اسلام کے ساتھ ناانصافی ہے جس کوترک کئے بغیر نجات کا کوئی راستہ مل سکتا نہیں ہے۔
ہم سب انفرادی سطح پر،اجتماعی سطح پر،جماعتوں اور تحریکوں کی سطح پراس بات کا جائزہ لیں کہ کس کے پاس اسلام کا مکمل نقشہ ہے اور کامل اسوۂ حسنہ ہے ۔دین ہم سے یہی مطالبہ کرتا ہے کہ اس کو پہلے صحیح طور پر مکمل شکل میں سمجھا جائے اور پھر پوری طرح اس پر عمل کیا جائے۔ایک مسلمان کے سامنے اسلام کا مکمل نقشہ ہو جس میں ہر چیز کو اس کے حقیقی حجم کے ساتھ اس کا صحیح مقام دیا گیا ہواور یہی اسلام کا مکمل نقشہ ہے جس میں کمی وبیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے،اور اسی کے بارے میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر تکمیل دین کا اعلان کرتے ہوئے نبی آخرالزماںؐ کی لسانِ حق بیان نے فرمایا کہ:’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر لیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا‘‘۔سورۃ المائدۃ:۳
Email: enayatwani@gmail.com

مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست Welfare State of Madinah

مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست

میر افسر امان 


’’اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے ‘‘(بنی اسرائیل۸۰) یعنی ا ے اللہ مجھے دنیا میں اقتدار عطا کر دے یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے۔تا کہ اس دنیا کے بگاڑ کو درست کر سکوں۔اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذ کیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔اللہ نے یہ دعا خود اپنے نبی ؐ کو سکھائی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اقامتِ دین اور نفاذِ شر یعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے لیے کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ومندوب ہے۔اللہ نے مدینے کی حکومت رسول ؐ کو عطا فرمائی ۔ رسول ؐ نے اللہ کی حدود کی حفاظت کے لیے وعظ و تذکیر کے ساتھ ساتھ اُس حکومت سے بھی مدد لی۔مدینے کی اسلامی ریاست کو سمجھنے سے پہلے ان واقعات کو سمجھ لینا ضروری ہے جو اس وقت وقوع پذیر ہوئے ۔ رسول ؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو کفارِ مکہ نے اُن کو وہاں بھی سکون سے نہیں چھوڑا۔ ہر وقت رسولؐ کو تکلیف پہنچانے کی کوششوں میں لگے رہے اور زبردستی جنگیں مسلط کیں جس میں غزوہ بدر،غزوہ اُحد اور غزوہ خندق شامل ہیں جبکہ اللہ کے رسول ؐ نے اول روز سے ہی ان کو کہا تھا میں ایک کلمہ ’’لا الہٰ الا ّ اللہ‘‘ تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں اگر تم اسے مان لو اس پر عمل کرو تو عرب اور عجم تمہار امطیع ہو جائے گا اس کلمے کی تعبیر کیا تھی؟ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہو گی نہ کہ کسی قوم یا قبیلے کی۔ دنیوی حکمران اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں سے عوام پر حکومت کریں گے۔ انسانیت جو دکھوں کے مارے سسک رہی ہے یہ ظلم ختم ہو گا اورہر کسی انسان کا احترام کیا جائے گا۔ ہر ایک کے ساتھ عدل اور انصاف کیا جائے گا۔ امن امان ہو گالوگ خود ایک دوسروں کے مال اور عزت کے نگہبان بن جائیں گے۔برابری اور انصاف کے ساتھ ترقی اور تعلیم کا انتظام ہو گا سب کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔ زکوۃ کا نظام قائم ہو گا تواتنی خوشحالی ہو جائے گی کہ لوگ دولت لیکر پھر رہے ہوں نگے مگر لینے والا کوئی نہ ملے گا ۔ انسانی حقوق میں سب برابر ہونگے ہر ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے گا کسی کو استثنیٰ نہیں ہوگا۔ سود کا خاتمہ کر کے آذاد تجارت کا نظائم قائم کیا جائے گا جب مدینے کی اسلامی فلاعی ریاست قائم ہوئی تو رسول اللہ ؐ کی کہی ہوئی سب باتیں پوری ہوئیں۔ مدینے کی اسلامی ریاست قائم ہونے سے پہلے غزوہ بدر ہوئی اس میں مسلمانوں کو اللہ نے فتح دی اور قریش کے بڑے بڑے سورما قتل ہوئے اس پر مشتشرقین نے اپنی کتابوں میں حوالے دیے کہ اسلام قریش پر بھاری ہو گیا اور ایک ریاست بن گیا بدر کے بعد ہی اسلام کی کامیابی شروع ہوئی بدر کے بعد جنگ اُحد ہوئی جو قریش نے جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے شروع کی تھی۔اسکے بعد سارے عرب کے مشرک جمع ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے ۔مدینے کے یہود نے بھی ان کا ساتھ دیا خصوصاً بنی قریضہ نے مشرکوں سے ساز باز کی مگر اللہ نے وقت پر اپنے پیارے رسول ؐ کو وحی کے ذریعے اطلاع کر دی اس محاصرے میں اللہ نے ایک رات آندھی بھیجی اورصبح مشرکوں کا نام ونشان باقی نہ رہا ۔اس پر رسول ؐ نے اصحاب ؓ سے کہا اب قریش تم پر حملہ آور نہیں ہوں سکیں گے بلکہ تم ان پر حملہ آور ہو گے۔ 8 ؁ھ کو رسول ؐ دس ہزار صحابہ ؓ کے ساتھ مکہ پر حملہ آور ہوئے اورمکہ فتح ہوا۔ امام ابن قیم ؒ لکھتے ہیں یہ وہ فتح اعظم ہے جس کے ذریعے اللہ نے اپنے دین کو،اپنے رسول ؐ کو،اپنے ا ما نت دار لشکر کو، اپنے شہر اور اپنے گھر کو کفار اور مشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس سے لوگ اللہ کے دین میںفوج در فوج داخل ہوئے اور دنیا کا چہرہ روشنی سے جگمگا اٹھا ۔ رسول ؐ نے مدینہ میں تشریف لاتے ہی مواخاۃ کا ایک مثالی نظا م قائم کیا تھا جو دنیا میں کہیں بھی موجود نہ تھا۔ ہجرت کر کے آنے والوں اورمدینہ کے اندر رہنے والوںکے ساتھ بھائی چارہ کا نظام قائم کیا۔ مہاجر کو انصار کا بھائی بنایا۔ انصاریوں نے اپنی زمینیں مہاجرین بھائیوں کو دیں اور مال اسباب میں اپنے مہاجر بھائیوں کو شریک کیا۔ دوسری طرف مہاجر بھائیوں نے اُن کا شکریہ ادا کرتے ہویٗ کہا انصار ی بھائیوں ہمیں بازار کا راستہ بتا دو،ہم خود زیست کے سامان کا انتظام اللہ کے حکم سے کر لیں گے۔اگر ایک انصاری بھائی کی دو بیویاں تھیں تو انہوں نے اپنی ایک بیوی کو طلاق دے دی تاکہ مہاجر بھائی اُس سے شادی کر لے۔اور اِس کے علاوہ اور بہت سے واقعات جو کہ مدینہ کی اسلامی ریاست میں واقعہ ہویٗ، دنیا نے دیکھے اور سنے کہ کس طرح انصاری بھائیوں نے مہاجربھائیوں کے لیے قربانیاں دیں۔ اِس کے علاوہ مدینہ میں رہنے والے دوسرے مذا ہب کے لوگوں سے میثاقِ مدینہ کے نام سے معاہدہ کیا جس کے تحت سب اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں۔مگر مدینہ پر اگر باہر سے حملہ آور آیٗ تو اُس کا سب مل کر مقابلہ کریں گے۔اپنے تنازعات کو رسول ؐ کے سامنے پیش کریں گے۔رسول ؐ کا جو بھی فیصلہ ہو گا مانا جایٗ گا۔ مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست میں رسول ؐ اللہ کے دس سال قیام کے دوران اسلام کے تمام قوانین اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے۔ آخر میں حجۃالوادع کے موقعے پر رسول ؐ اللہ نے لاکھ سے زائد صحابیوں ؓکے اجتماع میں اُ ن سے مخاطب ہو کر دریافت کیا ۔۔۔کیا میںنے اللہ کا پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیا؟ سب صحابہ ؓ نے کہا آپ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔رسول ؐ اللہ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف کر کے کہا اے اللہ آپ کے بندے گواہی دے رہے ہیں کہ میں نے آپ کا پیغام آپ کے بندوں تک پہنچا دیا ہے۔ آپ بھی اس بات پر گواہ رہیے کہ ٓپ کا پیغام آپ کے بندوں تک پہنچ گیا ہے ۔اس کے بعد اِس آیت کا نزول ہوا کہ ’’ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا ‘‘( المائدہ ۳) یہ دین کیا تھا جو مکمل کر دیا گیا۔دنیا کے انسانوں دستور عمل تھا جس پر رہتی دنیا تک انسانوں نے عمل کرنا ہے اور یہی اللہ کو پسند ہے۔یہ صرف مدینہ کی ایک اسلامی فلاحی ریاست ہی نہیں تھی کہ وہ قائم ہو گئی اللہ کی طرف سے اُس کے سربراہ رسول ؐ اللہ مقرر ہو گے ۔ یہ مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنے کا دستور ہے جو اللہ تعالیٰ نے مکمل کر دیا ہے اب رہتی دنیا تک انسانوں نے اس پر عمل کرنا ہے۔ مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست میں رسول ؐ نے اس دستور پر عمل کر کے دکھایامدینے کی اسلامی ریاست میں رسول ؐ ہی قانون ساز تھے رسولؐ ہی انتظامیہ کے ذمہ دار تھے ۔رسولؐ ہی عدلیہ کے چیف جسٹس تھے ۔رسول ؐ ہی فوجوں کے کمانڈر ان چیف تھے۔رسول ؐ ہی خارجہ پالیسی بنانے والے اور خارجہ امور کے ذمہ دار تھے۔رسول ؐ ہی داخلہ پالیسی بنانے والے اور اس کو چلانے والے تھے۔رسول ؐ کے حکم سے سزائیں ناٖفذہوتی تھیں۔ رسول ؐ اللہ ہی خارجہ امور یعنی دنیا کے دوسرے ملکوں کوسفیر بھیجتے تھے۔ رسول ؐ نے دنیا کے بادشاہوں کو دعوتی خطوط لکھے تھے۔یعنی لوگوں کے بنیادی اخلاق سے لیکر ریاست کی تمام ذمہ داریاں رسولؐ کے ہاتھ میں تھیں۔ اس ریاست نے دنیا کے لیے راہنما اصولوں کا تعین بھی کر دیا۔یعنی دنیا میں حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہو گی۔انصاف کے معاملے میں کسی کو بھی استثنیٰ نہ ہوگا۔اگر اللہ کے رسول ؐاور مدینہ کی اسلامی ریاست کے سربرائہ کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓسے بھی خداناخواستہ چوری کی غلطی ہو جائے تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ خزانہ اسلامی ریاست کے عوام کا ہے نہ کہ کسی حکمران کا جو کہ عوام کی فلاح بہبود پر خرچ ہو گا نہ کہ موجودہ دور کے حکمرانوں کی طرح ناجائز مراعات اور ذاتی کاموں پر ۔۔۔

اللہ مالک یہ مال ودولتِ دُنیا یہ رشتہ وپیوند

اللہ مالک
یہ مال ودولتِ دُنیا یہ رشتہ وپیوند

سورۂ نور کی آیت نمبرـ ۳۳ میں پہلے تو مُکاتبت کا حکم دیا گیا یعنی کسی آقا کا شرعی غلام اُس سے کہے کہ میں کما کر اِتنا مال تجھے دے دوں تو آزاد ہوجاؤں، اور مالک اسے منظور کرلے (اور اس کے لئے مستحب بھی یہی ہے)۔ پھر جب شرط پوری ہوجائے تو غلام آزاد ہوجاتا ہے۔
 پھراسی آیت میں آگے یہ فرمایا گیاکہ ’’ اور اللہ تعالیٰ کے اُس مال میں سے اُن(حاجتمندوں)کو بھی دو جو (مال) اللہ تعالیٰ نے تم کو دے رکھا ہے۔‘‘آیت کے اس ٹکڑے سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں:
(۱)یہ کہ اصل مالک مال اور ہر چیز کا اللہ تعالی ہی ہے۔
(۲)یہ کہ اُسی نے اپنے فضل و کرم سے اس کے ایک حصّہ کا ہمیں مالک بنا دیا ہے۔
(۳)یہ کہ جس چیز کا ہم کو مالک بنایا ہے اس پر کچھ پابندیاں بھی اُس نے لگائی ہیں۔بعض چیزوں میں خرچ کرنے کو ممنوع قرار دیا اور بعض چیزوں میں خرچ کرنے کو لازم و واجب اور بعض میں مستحب اور افضل قرار دیا ہے، اور اسے بے محل و بے موقع خرچ کرنے کو حرام قرار دیا اور برمحل و موقع پر خرچ کرنے کو حلال لیکن وہاں بھی اندھا دُھند اسراف سے منع فرمایا ہے۔(معارف القرآن)
بے شک مسلمانوں کا بلکہ ہر انسان کا عقیدہ یہی ہونا چاہئے کہ مال وجائیداد کا اور ہر کسی چیز کا۔جاندار ہویا بے جان۔ مالکِ اصلی صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
قرآن کریم میں کتنے ہی مقامات پر یہ آیت آئی ہے۔’’اور اللہ ہی کی مِلک ہیں آسمان اور زمین۔ (نور)‘‘ ، ’’اور جو کچھ بھی آسمانوں میں اور جو کچھ بھی زمین میں ہے(سب)اللہ ہی کی مِلک ہے اور اللہ ہی کافی کارساز ہے۔(نسائ)‘‘
اُس کی کارسازیٔ عالم کو ناکافی سمجھ کر کسی مخلوق کی طرف التفات کرنا اور اُس مخلوق سے کارسازی کی توقع رکھنا کیسی خرافات  ہے۔(تفسیر ماجدی)
قرآن کریم میں یہ آیاہے: ’’(اے مؤمنو!)تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہو درآنحالیکہ آسمان اور زمین سب آخر میں اللہ ہی کے رہ جائیں گے(وہی ان کا وارثِ اصلی ہے)۔ (حدید)‘‘ ، ’’اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا۔(آل عمران)‘‘۔’’حالانکہ اللہ ہی کے تو ہیں آسمانوں اور زمین کے خزانے البتہ منافقین ہی نہیں سمجھتے۔(منافقون)’’اور جو چیز بھی ہے ہمارے پاس اُس کے (خزانے کے) خزانے ہیں اور ہم اسے ایک مقدار معیّن ہی سے اتارتے رہتے ہیں (حسبِ حکمت و مصلحت)۔(حجر)
یہی تعلیم انبیاء ؑ بھی ہمیں دیتے آئے ہیں: پس(موسیٰؑ نے)ان کے لئے(یعنی شعیبؑ کی بیٹیوں کیلئے اُن کے گلے کو) پانی پلا دیا، پھر ہٹ کر سایہ میں آگئے اور عرض کی کہ اے میرے پروردگار!  تو جو نعمت بھی مجھے دے دے میں اس کا حاجت مندہوں۔(القصص)۔
آپؑ سایہ میں آکر بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ سے رزق کیلئے دعا کی۔ معلوم ہوا کہ کاملین کی شان اپنی ہر حاجتِ قلیل وکثیر کا حق تعالیٰ کے سامنے ظاہر کرنا ہے۔(تھانویؒ)
حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ: اللہ(ہی) کا سہارا رکھو اور صبر کئے رہو زمین اللہ ہی کی ہے وہ جس کو چاہے اپنے بندوں میں سے اس کا مالک بنادے اور انجام کار خدا سے ڈرنے والوں ہی کے ہاتھ رہتا ہے۔ (اعراف)۔
جب یہ معلوم ہوا کہ سب کچھ اُسی اللہ کا ہے تو ہمیں اُسی کا محتاج بن کر رہنا چاہئے اور یہ عقیدہ اپنے دلوں میں راسخ کرنا چاہئے کہ وہی جب چاہتا ہے تو دے دیتا ہے اور جب چاہتا ہے تو چھین لیتا ہے(آل عمران)۔کہہ دو! اے اللہ مالک بادشاہی کے! دیتا ہے تو حکومت جسے چاہے اور چھین لیتا ہے حکومت جس سے چاہے اور عزت دیتا ہے تو جسے چاہے اور ذلت دیتا ہے جسے چاہے، تیرے ہی ہاتھ میں ہے خیر بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔(آل عمران)
جس کو چاہتا ہے کشادگی عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے تھوڑا دیتا ہے ماپ کردیتاہے یا پھر بالکل ہی تنگی سے دیتا ہے:’’اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو اُس کی مشیت ہوتی ہے خوب روزی دے دیتا ہے اور(جس کو چاہتا ہے) تنگی سے دیتا ہے۔(القصص)۔ ’’بے شک تیرا پروردگار جس کیلئے چاہتا ہے رزق بڑھا دیتا ہے اور (وہی) تنگی (بھی) کردیتا ہے۔(اسرائ)‘‘ ۔ ’’تو کہہ میرا رب ہے جو کشادہ کر دیتا ہے روزی جس کو چاہئے اور ماپ کردیتا ہے جسکو چاہئے لیکن بہت لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔(سبا)‘‘۔
 یعنی روزی کی فراخی یا تنگی اللہ کے خوش یانا خوش ہونے کی دلیل نہیں۔ دیکھتے نہیں! دنیا میں کتنے بدمعاش،شریر،دہرئے،ملحد مزے اُڑاتے ہیں حالانکہ ان کو کوئی مذہب بھی اچھا نہیں کہتا۔ اور بہت سے خدا پرست پرہیزگار اور نیک بندے بظاہر فاقے کھینچتے ہیں، تو معلوم ہوا کہ دولت و افلاس یا تنگی و فراخی کسی کے محبوب و مقبول عند اللہ ہونے کی دلیل نہیں۔ یہ معاملات تو دوسری مصالح اور حکمتوں پر مبنی ہیں۔ جن کو اللہ ہی جانتا ہے مگر بہت لوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھتے۔(تفسیر عثمانیؒ)
اور وہی اللہ جس کو جب چاہتا ہے تو بے حساب دے دیتا ہے:ـاور اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار دے دیتا ہے ۔ (نور)‘‘، ’’بے شک اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دے دیتا ہے۔(آل عمران)۔
مطلب یہ ہوا کہ دنیوی مال و دولت کا تعلق مصالح تکوینی سے ہے سو یہ مال و دولت کی افراط، یہ روپیہ کی ریل پیل، یہ بڑی بڑی تجارتی کوٹھیاں اور بڑے بڑے ساہوکارے ہرگز کوئی معیار مقبولیت یا حق و صداقت کا نہیں۔ چاہے وہ جاہ و تموّل ذاتی و شخصی ہو یا قومی و اجتماعی، کوئی اس میں بھول نہ پڑے۔ (تفسیر ماجدیؒ)؂‘
انسان محض اپنے علم وہنر مندی سے یا اپنی چالاکی اور زیر کی سے یہ سب کچھ حاصل نہیں کرسکتاجب تک اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم شامل حال نہ ہو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ بد عقیدت لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ مال ودولت جاہ وحشمت، حکومت وامارت حاصل ہوتی ہے تو صرف اپنے علم وہنر مندی سے۔
قارون نے کہا تھا:مجھ کو تو یہ سب میری ہنر مندی سے ملا ہے۔(القصص)
قارون(بھی کہتا ہے) کہ میں مالیات و معاشیات کا ماہرہوں۔ مجھے جو کچھ بھی ملا ہے، یہ میں نے اپنی قوتِ بازو سے، اپنے علم و ہنر کے زور سے کمایا ہے نہ میرے اوپر کوئی احسان ِ غیبی، نہ میری کمائی میں دوسروں کا حق۔(تفسیر ماجدیؒ)
 اصل بات تو یہ ہے کہ مال و دولت دینے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہ چاہے تو علم والے کو دے چاہے تو کم علم والے کو دے چاہے تو چالاک وزیرک زبردست محنت کش کو دے چاہے تو کم چالاک کم محنت کش کو دے، چاہے تو دیندار متقی کو دے چاہے تو بے دین فاسق فاجر کو دے،کیونکہ دولت، حکومت، امارت وغیرہ کی تقسیم محض مشیت تکوینی کے مصالح کائناتی کے اعتبار سے ہوتی رہتی ہے۔اسے قربِ الٰہی، اخلاقی افضلیت وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں:’’اُسی (اللہ) کے پاس ہیں کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی، پھیلا دیتا ہے روزی جس کے واسطے چاہے اور ماپ کر دیتا ہے (جس کیلئے چاہے) وہ ہر چیز کی خبر رکھتا ہے۔ (شوریٰ)
تمام خزانوںکی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔اُسی کو قبضہ اور اختیار حاصل ہے کہ جس خزانہ میں سے جس کو جتنا چاہے مرحمت فرمائے۔ تمام جانداروں کو وہ ہی روزی دیتا ہے، لیکن کم و بیش کی تعیین اپنی حکمت کے موافق کرتا ہے۔ اسی کو معلوم ہے کہ کون چیز کتنی عطا کی مستحق ہے اور اس کے حق میں کس قدر دینا مصلحت ہوگا۔(تفسیرِ عثمانیؒ)
اور اللہ تعالیٰ بڑا وسعت والا بڑا جاننے والا ہے۔(نور)
جسے چاہئے وہ’واسِع‘غنی کرسکتا ہے، خوشحالی سے نواز سکتا ہے۔اُس کے ہاں کوئی تنگی، کمی تو ہے نہیں۔اور پھر وہ ’علیم‘ ہر ایک کی اہلیت وصلاحیت، ظرف وبساط سے خوب واقف، جسے فقر کا اہل دیکھے گا، اُسے فقیر ہی رکھے گا۔(تفسیر ماجدیؒ)
معاشیات کو، مسائل معاش کو، ربو بیت الٰہی کے عام قانون سے عملاً خارج سمجھ لینا،عصرحاضر کی سب سے بڑی گمراہوں میں سے ہے۔ قرآن پاک نے بار بار اس گمراہی پرضرب کاری لگائی ہے۔اور بار بار اعلان کیا ہے کہ جسمیات و روحانیات کے سارے دوسرے وسائل کی طرح معاشیات بھی اسی کی مشیت کے محکوم و تابع ہے۔(تفسیر ماجدیؒ)
 جنہیں مال و دولت کی فراوانی حاصل ہوچکی ہو وہ یہ نہ سمجھنے لگیں کہ یہ کوئی انہیںکے ذاتی استحقاق کا نتیجہ ہے اور بس بلکہ یہ مال و دولت، جاہ و حشمت اُن کیلئے آزمائش کا ذریعہ ہے جیسے کہ تنگ دستوں اور فقیروں کی تنگ دستی و فقر اُن کے لئے آزمائش ہوتی ہے لیکن انسان! اُسے اُس کا پروردگار جب آزماتا ہے، یعنی اُسے انعام اکرام دیتا ہے، تو کہتا ہے میرے پروردگارنے میری قدر بڑھادی، اور جب وہ اُسے(اس طرح) آزماتا ہے کہ اُسکی روزی اُس پر تنگ کردیتا ہے، تو کہتا ہے میرے پروردگارنے مجھے بے قدر کردیا؛ یہ بات نہیں[دراصل یہ دونوں حالتیں اُس کی آزمائش ہے](الفجر)۔
ناشکرے انسان کا بھی عجب حال ہوتا ہے۔ جب حق تعالیٰ کی طرف سے اُسے جاہ، مال وغیرہ کسی قسم کا بھی اکرام واعزاز عطا ہوتا ہے، تو مقصود اس سے اس کی شکر گذاری کا امتحان ہوتا ہے، لیکن وہ اپنی حماقت سے یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ جو کچھ مجھے حاصل ہوا ہے، میری ذاتی قابلیت کا قدرتی ثمرہ ہے اور میں تو مستحق ہی اسی اکرام واعزاز کا تھا۔ گویا مقصود بالذات اسی دنیا کو سمجھتا، اور اس کی فراخی کو دلیل اپنی کامیابی کی قرار دیتا ہے۔…… ناشکرے انسان پر جب مال کی تنگی کردی جاتی ہے تو مقصود اس سے اُس کے صبرو تسلیم کا امتحان ہوتا ہے لیکن وہ ہر طرف شکایت وحکایت کا دفتر کھولے پھرتاہے، اور دنیا کی کمی کو اپنی محرومی اور بدنصیبی پر محمول کرتا ہے۔ (تفسیر ماجدیؒ)
چونکہ یہ مال ودولت حقیقت میں ہماری مِلک تو ہے نہیں بلکہ اصل مالک تو سب چیزوں کا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔مجازی مالک سب فناہوجائیں گے اور بالآخر سب کچھ بے اختیار اُسی مالک حقیقی کے پاس پہنچ جائے گا۔اسی لئے یہ مال و دولت فی نفسہٖ ہمیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ اُس کے متعلق جو اُس مالکِ حقیقی کا حکم ہے اُسے بجا لانے سے ہی ہمیں کچھ فائدہ حاصل ہو سکتا ہے:مال اور اولاد دنیوی زندگی کی ایک رونق ہیں اور باقی ر ہ جانے والے اعمالِ صالحہ آپ کے پروردگار کے ہاں ثواب کے اعتبار سے بھی کہیں بہتر ہے اور اُمید کے اعتبار سے بھی کہیں بہتر۔(کہف)۔
یعنی مال واولاد اسی دنیوی زندگی کی ایک بہار اور اس کا ضمیمہ ہیں۔تو جب خود دنیا ہی کو ثبات نہیں تو اس کے تابع وضمیمہ کی بے ثباتی تو اور بھی بڑھ کر ہوگی۔یہ مال و اولاد کو تحقیراً محض زینت حیات دنیوی کہنا خود ان کے مال، اولاد ہونے کے اعتبار سے ہے لیکن اگر انہی کو خدا پرستی اور دین طلبی کا ذریعہ بنالیا جائے، اور ان سے اطاعت الٰہی وخدمت دین کا کام لیا جانے لگے تو یہی مال و اولاد مقصود ومطلوب بن جاتے ہیں اور ان کا شمار بھی عین باقیات صالحات میں ہونے لگتا ہے۔(تفسیر ماجدیؒ)۔
کافروں ناشکروں کا مال تو اُنہیں کچھ کام ہی نہیں آتا۔ابو لہب(جس کا نام عبدالعزٰی بن عبد المطلب ہے)آنحضرتؐ کا حقیقی چچا تھا لیکن اپنے کفرو شقاوت کی وجہ سے حضورؐ اور دین اسلام کا شدید ترین دشمن تھا۔ غرض اُس کی شقاوت اور حق سے عداوت انتہاء کو پہنچ چکی تھی۔ اُس پر جب اللہ کے عذاب سے ڈرایا جاتا تو کہتا کہ اگر سچ مچ یہ بات ہونے والی ہے تو میرے پاس مال و اولاد بہت ہے۔اُن سب کو فدیہ میں دے کر عذاب سے چھوٹ جاؤں گا۔اُس کی بیوی اُمِّ جمیل کو بھی پیغمبرؐ سے بہت ضد تھی۔جو دشمنی کی آگ ابولہب پھڑکاتا تھا، یہ عورت گویا لکڑیاں ڈال کر اُس کو اور زیادہ تیز کرتی تھی اُس کے گلے میں ایک ہار بہت قیمتی تھا اور کہا کرتی کہ لات و عزی کی قسم، اس کو محمدؐ کی عداوت پر خرچ کر ڈالوں گی۔اس پر اللہ تعالیٰ نے اُن دونوں میاں بیوی کے حق میں فرمایا:’’دو ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہوگیا نہ اُس کا مال (سرمایہ)اُس کے کام آیا اور نہ اُس کی کمائی(سرمایہ پرنفع)ہی کچھ کام آئی۔ (لہب) ۔’بے شک جن لوگوں نے کفر(اختیار)کیا اور وہ مرگئے اس حال میں کہ وہ کافر تھے سوان میں سے کسی سے ہرگز نہ قبول کیا جائیگا زمین بھر(بھی) سونا اگرچہ وہ اُسے(عذابِ دردناک سے بچنے کیلئے)معاوضہ میں دیناچاہیں۔(آل عمران)‘‘۔