Search This Blog

Friday 18 May 2012

نمازِ جمعہ جماعت کی فرضیت فضیلت اہمیت

نمازِ جمعہ
جماعت کی فرضیت فضیلت اہمیت

اسلام میں جمعہ و جماعت دونوں کی بڑی فضیلت، اہمیت اور افادیت ہے۔قرآن مجید کے ایک سو چودہ سورتوں میں جہاں سورۂ جمعہ کی شکل میںسید الایام کی فضیلت و عظمت کو جتلایا وہاں جماعت کی اہمیت و افضلیت کو بھی سورۂ بقرہ میںذکر فرما کر واضح فرمایا۔پیغمبر اکرمؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ  یعنی جمعہ تمام دنوں کا سردار ہے…جمعہ تمام عیدوں سے افضل ہے، جمعہ مسکینوں کا حج ہے۔
پیغمبر اسلامؐ فرماتے ہیں کہ:’’خداوند تعالیٰ ہر رات ایک فرشتہ نازل کرتا ہے شب جمعہ ابتداء شب ہی سے یہ فرشتہ بلند ندا کرتا ہے کہ اگر کوئی سوال کرنے والا ہے تو ہم اسے بھی عطا کریں گے، اگر کوئی توبہ کرنے والا ہے تو ہم اسے بخش دیں گے، اے خیر طلب کرنے والو متوجہ ہو جائو۔ اے شر کوپسند کرنے والو! دور ہو جائو۔
اس طرح یہ فرشتہ ندا کرتا رہے گا یہاں تک کہ صبح ہو جائے گی اور وہ فرشتہ آسمان کی طرف واپس چلا جائے گا‘‘۔
ابوبصیر نے امام جعفر صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ یہ فرشتہ یہ ندا بھی دیتا ہے کہ اگر کسی کے رزق میں تنگی ہے تو وہ طلب کرے، ہم اسے وسعت رزق عطا کریں گے او راگر کوئی مریض بیماری دور ہونے کی دعا کرے تو ہم اسے شفا دیں گے۔
رسول اکرمؐ نے فرمایا:’’خداوند تعالیٰ نے دنوں میں سے جمعہ کا دن، مہینوں میں رمضان المبارک اور راتوں میں شب قدر کا انتخاب کیا ہے‘‘۔
حضرت علی مرتضیٰؑ کا فرمان ہے کہ:’’شب جمعہ عظمت والی رات ہے ، جمعہ کا دن روزِ روشن و نورانی ہے اگر کسی شخص کا شب جمعہ انتقال ہو تو وہ فشارقبر سے نجات پائے گا اگر کوئی جمعہ کے روز فوت ہو جائے گا اور اس دن کی حقانیت جانتا ہو تو خداوند عالم اسے آتش جہنم سے آزاد کردے گا‘‘۔
حضرت علیؑ نے فرمایا کہ:’’جمعہ کے دن خدا سے بہت زیادہ سوال کرو اور کثرت سے دعا مانگو، کیونکہ اس دن کے لمحات ایسے ہیں کہ جب دعا مستجاب ہوتی ہے بشرطیکہ یہ دعا قطع رحمی، گناہ کی آرزو یا والدین کی نافرمانی پر مبنی نہ ہو‘‘۔
آپؑ نے فرمایا کہ:’’جان لو کہ تمام خیرات اور نیکیوں کا اجر جمعہ کے دن دوگنا ہو جاتا ہے‘‘۔
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا کہ’’گراں قدر شب و روز کو میرے اوپر درود(صلوٰۃ) زیادہ بھیجا کرو اور یہ شب جمعہ اور روز جمعہ ہے‘‘۔
کسی نے پوچھا:’’یہ درود(صلوٰۃ)کس حد تک ہو؟ تو آپ نے فرمایا:’’سو سے زیادہ‘‘
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں کہ:’’جمعہ کے روز آخر شب تک دعا مستجاب ہونے کا وقت ہے‘‘۔
پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا:’’جو شخص نماز جمعہ کی طرف پیش قدمی کرے گا خدا اس پر آتش جہنم حرام کر دے گا‘‘۔
امام محمد باقرؑ نے فرمایا کہ’’جمعہ کے روز تمام عبادات میں سب سے زیادہ جو مجھے پسند ہے ، وہ محمدؐ و آل محمدؐ پر درود بھیجنا ہے‘‘۔
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ’’آخرت میں تم جنت کی طرف اس طرح سبقت کرو گے جس طرح نماز جمعہ کی طرف سبقت کرتے ہو‘‘
آنحضرتؐ فرماتے ہیں کہ:’’خدا نے نماز جمعہ تم پر واجب کی ہے اگر کوئی شخص میری زندگی میں یا میری وفات کے بعد اسے سبک سمجھ کر یا اس کا منکر ہو کر ترک کرے تو اللہ اسے پریشان حال کر دے گا اور اس کے کسی کام میں برکت نہیں دے گا۔جان لو کہ اس کی نماز قبول نہیں ہے اور اس کے نیک اعمال قبول نہیں ہیں جب تک وہ اپنے اس عمل سے توبہ نہ کرے‘‘۔
حضرت رسول خداؐکی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہو کر کہایا رسول اللہؐ میں متعدد بار حج بیت اللہ کے لئے تیار ہوا لیکن میری قسمت نے یاوری نہ کی اور عسرت و تنگدستی کی وجہ سے مجھے اس امیرخیر کی توفیق نہ ہو سکی۔ جواب میں آنحضرتؐ نے فرمایا، نماز جمعہ پڑھا کرو کیونکہ مسکینوں کا حج یہی ہے۔
محبوبہ کبریا محمد مصطفیؐ کا یہ ارشاد اس امر کو واضح کرتا ہے کہ حج بیت اللہ کے بہت سے اجتماعی برکات نماز جمعہ کے اجتماعات میں مضمر ہیں۔
اما م جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ:’’اے اللہ ان کی پریشانیوں کی کو کبھی دور نہ فرما جو جمعہ و جماعت سے دور رہیں‘‘۔
نماز جمعہ ایک عظیم اجتماعی عبادت ہے اور عبادت کی وہ عمومی تاثیر جو قلب و روح کو لطافت عطا کرتی ہے۔ دلوں کو گناہوں کی آلودگی اور معصیت سے دور رکھتی ہے، نیز انسانی کردار و ضمیر پر طہارت کی جلا کرتی ہے وہ سب اس میں موجود ہے۔
نماز جمعہ اجتماعی زاویۂ نگاہ سے ایک عظیم عبادت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ایک عظیم ہفتہ وار کانفرنس بھی ہے۔ اسی وجہ سے رسول کریمؐ کی اس حدیث میں جسے ’’نماز جمعہ کی اہمیت‘‘ واضح کی گئی کہ نماز جمعہ ان لوگوں کا حج ہے جو اپنی عسرت اور تنگدستی کی بناء پر مراسم حج میں شرکت کی قدرت نہیں رکھتے‘‘۔
اسلام اصل میں تین عظیم اجتماعات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اول یہ کہ وہ روزانہ کے اجتماعات جو نماز جماعت کی شکل میں مساجد میں رونما ہوتے ہیں، دوسرے وہ ہفتہ وار اجتماع جو نماز جمعہ کے عمل سے منسلک ہے اور تیسرے حج کا اجتماع ہے جو بیت اللہ کے سبب مکہ معظمہ میں رونما ہوتا ہے۔
آیت اللہ شیخ مکارم شیرازی ’’تفسیر نمونہ‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ ان تینوں اجتماعات میں نماز جمعہ کا اجتماع بڑی اہمیت و خصوصیت کا حامل ہے کیونکہ نماز جمعہ کے خطبہ میں خطیب کی توجہ زیادہ تر اجتماعی،سیاسی اور اقتصادی مسائل پر مرکوز ہوتی ہے ،اس لئے اس پرشکوہ اور عظیم اجتماع سے ذیل کے برکات حاصل ہوتے ہیں:
(۱مسلمان معارف اسلامی اور اہم اجتماعی و سیاسی حالات و واقعات سے آگاہ ہوتے رہتے ہیں۔
(۲مسلمانوں کی صفوں میں ہم آہنگی، اتحاد اور نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے۔
(۳مسلمانوں میں دینی روح اور نشاطِ معنوی کی تجدید ہوتی رہتی ہے۔
(۴عام مشکلات کو حل کرنے کے لئے باہمی تعاون حاصل ہوتا رہا ہے۔
قرون اولیٰ کی اسلامی حکومتوں میں نماز جمعہ ایک طاقتور ہتھیار کی طرح رہی ہے۔ عادل حکومتیں مثلاً پیغمبر اسلامؐ اور آپؐ کے متبعین اس سے ہمیشہ اسلام کی بقاء و نفع کے لئے استفادہ کرتے تھے۔
امیر المومنین حضرت علیؑ نے فرمایا کہ
’’جمعہ کے دن اس وقت تک سفر نہ کرو جب تک نماز جمعہ ادا نہ کر لو البتہ وہ لوگ جو جہاد کے لئے محاذ جنگ پر روانہ ہورہے ہوں ان کے سفر میں کوئی حرج نہیں‘‘۔
امام رضاؑ نے فرمایا کہ’’اس شخص کے لئے خطرہ ہے کہ سلامت نہ رہے جو روز جمعہ، نماز جمعہ ادا کرنے سے پہلے سفر کرے‘‘
قرآن کریم سورۂ جمعہ میں واضح کرتا ہے کہ:’’جب جمعہ کے دن نماز کے لئے آواز سنو تو اپنے کاروبار زندگی بند کر دو اور نماز کی طرف چلو کیونکہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے‘‘۔
پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا کہ نماز جمعہ ادا نہ کرنے والوں کو چاہئے کہ نماز جمعہ ادا کریں ورنہ انہیں ذکر خدا میں غفلت برتنے والوں میں شمار کیا جائیگا۔
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ’’امام المسلمین پر واجب ہے کہ نماز جمعہ اور نماز عیدین کے لئے زندانوں میں موجود قیدیوں کو نماز کے اجتماع میں شرکت کے لئے لانے کا بندوبست کریں‘‘۔
امام محمد باقرؑ نے فرمایا کہ’’ جوکسی عذر کے بغیر مسلسل تین نماز جمعہ ترک کرے اس کے دل میں نفاق ہے‘‘
شرائط خطیب نماز جمعہ کے بایر میں رہبر عالم اسلام آیت اللہ امام خمینی فرماتے ہیں کہ نمازجمعہ کا خطبہ دینے والا ان صفات کا حامل ہو:
(۱فصیح و بلیغ ہو،(2) حالات سے واقفیت رکھتا ہو۔(3) بیان میں لکنت یا مجمل گوئی نہ ہو،(4)مسلمانوں کے مسائل سے آگاہ ہو خصوصاً اپنے شہر و ملک کے مسلمانوں کے مسائل کو جانتا ہو،(5) اسلام اور مسلمانوں کی مصلحتوں سے واقف ہو،(6) شجاع اور دلیر ہو یعنی راہ خدا میں کسی سے خوف و ہراس نہ کھائے، (7)اظہارِ حق اور ردباطل میں صراحت گوئی کو اپناتا ہو۔(8)حب دنیا اور اقتدار کی خواہشوں سے بلند ہو کیونکہ دنیا اور اقتدار سے محبت تمام خطائوں کی جڑ ہے۔(9) اپنے کلام کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے تمام تدابیر اختیار کرے۔ (10) صالحین و اولیاء کی نشانیوں سے اپنے آپ کو مزین کرے۔ (11) اپنا وعظ و خطبہ بشارت و نذرات کے ساتھ دے۔ (12) ہر اس عمل سے پرہیز کرے جو اس کے کلام کی اہمیت کو کم کرنے کا موجب بنے مثلاً فضول گفتگو،لڑائی جھگڑا وغیرہ (13) سردی، گرمی دونوں حالتوں میں سرپر عمامہ باندھے۔ (14) صاف ستھرے لباس میں خوشبو لگا کر سکون و وقار کے ساتھ منبر پر جائے۔(15) منبر پر پہنچنے کے بعد سب کو سلام کرے (16)خطبہ بلند آواز سے دے تاکہ تمام نمازی سن سکیں ،آج کل کے دور میں اس کے لئے لائوڈ سپیکر یا دیگر ذرائع کو بھی استعمال کرسکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment