Search This Blog

Sunday 27 May 2012

حضرت عمروؓ بن مرہ جہنی

حضرت عمروؓ بن مرہ جہنی

-طالب ہاشمی

بعدِ بعثت کے ابتدائی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک دن ایک اعرابی سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یوں عرض پیرا ہوئے: ’’اے ابنِ عبدالمطلب میں پچھلے حج کے موقع پر مکہ آیا تو یہاں ایک عجیب خواب دیکھا۔ سوتے ہوئے مجھے یوں نظر آیا کہ ایک نور کعبہ سے نکل کر یثرب کی پہاڑیوں تک جاپہنچا ہے اور قبیلہ جُہینہ کو ڈھانپ لیا ہے۔ پھر میں نے اس نور میں سے ایک آواز سنی کہ ظلمت کے بادل چھٹ گئے، اجالا پھیل گیا، آخری نبی تشریف لے آئے۔ اس کے بعد ایک تیز روشنی برآمد ہوئی جس میں حیرہ کے محل اور مدائن کے قصر ہائے ابیض دکھائی دینے لگے۔ اس وقت میرے کان میں یہ آواز آئی کہ اسلام آگیا، بُت ٹوٹ گئے اور صلۂ رحمی کا دور دورہ ہوا۔ یہ خواب دیکھ کر مجھ پر وحشت طاری ہوئی اور میں نے اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے جو میرے ساتھ حج کے لیے مکہ آئے تھے، خواب کا ماجرا بیان کیا، وہ بھی بہت حیران ہوئے۔ جب حج سے فارغ ہوکر ہم اپنے قبیلے میں واپس گئے تو ہم نے سنا کہ آپؐ لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے ہیں اور بت پرستی سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اب میں آپؐ کی خدمت میں یہ معلوم کرنے کے لیے آیا ہوں کہ آپؐ کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی کی باتیں بڑی توجہ سے سنیں اور پھر فرمایا: ’’بھائی! میں نبی مرسل ہوں اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمام بندگانِ خدا کو اسلام کی طرف بلائوں، بت پرستی ترک کرنے کی تلقین کروں اور اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت اور صلۂ رحمی کا حکم دوں۔ جو کوئی اس دعوت کو قبول کرے گا وہ جنت کا حقدار ہوگا، اور جو اس کو رد کرے گا اس کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا۔ تم میری دعوت کو قبول کرلو تو دوزخ کی آگ سے محفوظ رہو گے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر اعرابی نے بلاتامل عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو دعوت آپ دیتے ہیں صدقِ دل سے قبول کرتا ہوں اگرچہ عرب کے درودیوار سے اس کی مخالفت ہورہی ہے۔‘‘ یہ اعرابی جنہوں نے اُس وقت لوائے توحید کو تھاما جب ایسا کرنا تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف تھا، حضرت عمروؓ بن مُرّہ جُہنی تھے۔ ……٭٭٭…… حضرت عمروؓ کا شمار اپنے قبیلے کے عمائد میں ہوتا تھا اور لوگ ان کو بہت مانتے تھے۔ شعر گوئی کا نہایت پاکیزہ ذوق رکھتے تھے۔ شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اشعار پڑھے: شھدت بانّ اللہ حق و اننی لاِٰ لھِۃ الا حجار اوّل تارک فشمّرتُ عن ساق الا زارَ مھاجر الیک اَدُبُّ الغور بعذالدکادک لاصحب خَیرَ النّاس نفسًا و والدًا رسُولُ ملیک الناس فوق الحبائک (ترجمہ): ’’میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ اللہ حق ہے اور میں پتھروں کے معبودوں کو سب سے پہلے پس پشت ڈالنے والا ہوں، میں نے پوری سرگرمی کے ساتھ آپ کی طرف ہجرت کی ہے (یا میں نے ہجرت کے ارادے سے تہبند پنڈلیوں سے اوپر چڑھا لیا ہے) میں دشوار گزار راستوں سے آپ کی طرف چل رہا ہوں تاکہ اس ذاتِ گرامی کا شرفِ صحبت حاصل کروں جو بذاتِ خود بھی اور خاندانی حیثیت سے بھی تمام لوگوں میں بہترین ہے، زمین اور آسمان کے مالک کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تمام نیکیوں سے اعلیٰ و برتر ہے۔ یہ اشعار سن کر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر بشاشت پھیل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عمرو! تمہیں مبارک ہو (یا شاباش اے عمرو)‘‘۔ حضرت عمروؓ نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مجھے اپنی قوم میں جاکر تبلیغ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیے، شاید اللہ تعالیٰ میرے ذریعے سے اُن پر احسان کرے جس طرح اس نے آپ کے طفیل مجھ پر احسان کیا۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں تم اپنی قوم کو ہدایت دے سکتے ہو۔‘‘ حضرت عمروؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سن کر بہت خوش ہوئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمروؓ میری چند باتیں یاد رکھنا اور ہر حال میں ان پر عمل کرنا، وہ باتیں یہ ہیں کہ ہمیشہ نرمی سے کام لینا، سختی نہ کرنا، کسی سے حسد نہ کرنا، خودپسندی اور تکبر سے باز رہنا، اپنی گفتگو میں تلخی اور ترش روئی سے کام نہ لینا۔‘‘ حضرت عمروؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر عمل کرنے کا عہد کیا اور اپنی قوم کی طرف روانہ ہوگئے۔ ……٭٭٭…… حضرت عمروؓ اپنے قبیلے میں پہنچے تو سب سے پہلا کام انہوں نے یہ کیا کہ جس بُت کی پرستش کیا کرتے تھے اس کو توڑ ڈالا، پھر انہوں نے سب لوگوں کو جمع کیا اور ان سے یوں خطاب کیا: ’’اے بنو رُفاعہ، اے بنو جہینہ میں تمہارے پاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قاصد بن کر آیا ہوں اور تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں اور اس بات کی تلقین کرتا ہوں کہ قتل و غارت اور خونریزی کو چھوڑ دو، آپس میں صلۂ رحمی کرو، خدائے واحد کی عبادت کرو اور بتوں کو چھوڑ دو، جو میری دعوت پر لبیک کہے گا اس کے لیے جنت ہے، اور جو کوئی اس سے روگردانی کرے اس کے لیے جہنم ہے۔ اے میرے جہنی بھائیو! قبائلِ عرب میں اب بھی تمہاری ایک امتیازی شان ہے۔ دوسرے لوگوں میں رواج ہے کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھ لیتے ہیں اور باپ کے مرنے کے بعد بیٹا سوتیلی ماں سے شادی کرلیتا ہے، لیکن تم نے ہمیشہ ان باتوں کو مکروہ جانا۔ اب تم اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرلو تو دنیا اور آخرت کی بھلائیاں تمہارے حصے میں آئیں گی۔‘‘ حضرت عمروؓ کی باتوں میں کچھ ایسی تاثیر تھی کہ ایک شخص کے سوا سارا قبیلہ چند دن کے اندر اندر شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوگیا۔ یہ شخص بڑا سیاہ باطن اور شقی القلب تھا۔ حضرت عمروؓ سے کہا کرتا تھا: ’’اے عمرو بن مُرہ، تیری زندگی تلخ ہوجائے کیا تُو ہمیں اپنے معبودوں کو چھوڑنے کی تلقین کرتا ہے! کیا تیرا ارادہ ہے کہ ہم پارہ پارہ ہوجائیں، کیا تُو چاہتا ہے کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کریں! یہ تہامہ کا رہنے والا قُرشِی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیں کس بات کی طرف بلاتا ہے جس میں نہ کوئی کرامت ہے نہ کوئی شرافت۔‘‘ بعض اہلِ سِیَر نے اس شخص سے یہ اشعار منسوب کیے ہیں: ان بن مرۃ قداتی بمقالۃ لیست مقالۃ من یرید صلاحا انی لاحسب قولہ و فعالہ یوما وان طال الزمان زباحا لیسفہ الاشیاخ ممن قدمضی من رام ذٰلک لا اصاب فلاحا (ترجمہ) ’’عمرو بن مُرّہ وہ بات لے کر آیا ہے جو صلاح پسند لوگوں جیسی نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ عمرو بن مُرّہ کا قول و فعل ایک دن غلط ثابت ہوگا اگرچہ اس میں کچھ دیر ہوجائے۔ وہ ہمارے گزرے ہوئے بزرگوں کو بے وقوف ثابت کرنا چاہتا ہے، اور جس خلف کا ارادہ ایسا ہو وہ کبھی بھلائی کا منہ نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ حضرت عمروؓ بن مُرّہ اس نابکار کے جواب میں فرماتے تھے: ’’ہم میں سے جو جھوٹا ہو خدا اس کے عیش کو تلخ، اس کی آنکھوں کو اندھا اور اس کی زبان کو گونگا کردے۔‘‘ حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی ’’تاریخ‘‘ میں خود حضرت عمروؓ بن مُرّہ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ خدا کی قسم یہ شخص اُس وقت تک نہ مرا جب تک وہ گونگا، بہرا اور اندھا نہ ہوگیا اور اس کا منہ گل کر گر نہ پڑا۔ یہ اس کے لیے ایسی مصیبت تھی جس نے اس کو کھانا کھانے سے بھی محروم کردیا تھا۔ کچھ مدت بعد حضرت عمروؓ بن مُرّہ اپنے قبیلے کو ساتھ لے کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں زندگی میں برکت اور رزق میں کشائش کی دعا دی اور ان کے لیے ایک فرمان لکھ دیا جس کا خلاصہ یہ ہے: ’’اے مسلمانانِ جہینہ، تمہارے لیے جہینہ کی ساری زمین ہے نرم اور پتھریلی، چشمے اور وادیاں۔ تم جہاں چاہو اپنے جانوروں کو چرائو اور جہاں پانی پائو اپنے استعمال میں لائو۔ بشرطیکہ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ دیتے رہو اور پانچوں وقت کی نمازیں ادا کرتے رہو۔ اور بھیڑ بکریوں کے دو ریوڑ یکجا ہوں (یعنی ایک سو بیس بکریاں ہوں) تو دو بکریاں نکالی جائیں گی، اور اگر ایک ایک ریوڑ ہو تو چالیس میں سے ایک بکری نکالی جائے گی۔ کھیتی میں کام آنے والے بیلوں پر کوئی صدقہ نہیں اور نہ کسی کنویں سے زمین کو پانی دینے والی اونٹنیوں پر۔‘‘ اس فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اُس وقت لکھا گیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے تھے اور اسلام ایک غالب قوت کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمروؓ بن مُرّہ کے قبولِ اسلام کا صحیح زمانہ کیا تھا؟ علامہ ابن اثیرؒ نے ’’اُسُد الغابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ انہوں نے ہجرتِ نبویؐ سے پہلے مکہ آکر اُس وقت سعادتِ ایمانی حاصل کی جب مشرکین نے اسلام کی مخالفت میں طوفان برپا کررکھا تھا۔ لیکن حافظ ابن حجرؒ نے ’’اصابہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمروؓ بن مُرّہ نے سیدنا حضرت مُعاذؓ بن جبل سے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد اپنے قبیلے میں واپس جاکر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔ ان کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں سارا قبیلہ چند دن کے اندر اندر سعادت اندوزِ اسلام ہوگیا۔ اگر حافظ ابن حجرؒ کی روایت کو درست مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمروؓ بن مُرّہ نے ہجرتِ نبوی کے بعد مدینہ آکر اسلام قبول کیا۔ ان دونوں روایتوں کی تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ حضرت عمروؓ بن مُرّہ نے ہجرتِ نبوی سے پہلے مکہ آکر اسلام قبول کیا اور اپنے وطن واپس چلے گئے۔ ہجرتِ نبوی کے بعد وہ دوبارہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ آئے، حضرت معاذؓ بن جبل سے قرآن کی تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے قبیلے میں واپس جاکر اسے بھی مشرف بہ اسلام کیا۔ اس کے بعد اپنے اہلِ قبیلہ کو ساتھ لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور محولہ بالا فرمان یا وثیقہ حاصل کیا۔ ……٭٭٭…… اربابِ سِیَر نے حضرت عمروؓ بن مُرّہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن انہوں نے عہدِ رسالت میں حضرت عمروؓ بن مُرّہ کی دوسری سرگرمیوں کا ذکر نہیں کیا۔ البتہ ’’طبقات الکبیر‘‘ میں علامہ ابن سعدؒ کاتب الواقدی نے اتنا ضرور لکھا ہے کہ عمروؓ بن مُرّہ کو جہاد فی سبیل اللہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حضرت عمروؓ بن مُرّہ بعض غزواتِ نبوی میں ضرور شریک ہوئے ہوں گے۔ مخدوم محمد ہاشم سندھیؒ نے اپنی کتاب ’’بذل القوۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے7 ہجری میں ایک مہم حضرت عمروؓ بن مُرّہ کی قیادت میں اپنے چچا زاد بھائی ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب کی طرف بھیجی۔ وہ قبیلہ جہینہ اور مزینہ کے چند رفقاء کے ساتھ اس مہم پر گئے اور مخالف فریق کو شکست دے کر واپس آئے۔ (ابو سفیان فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوگئے) حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں شام فتح ہوا تو بہت سے صحابہ کرامؓ نے شام میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور ان میں حضرت عمروؓ بن مُرّہ بھی شامل تھے۔ شام میں ان کی زندگی کے لیل و نہار لوگوں کو قرآن و سنت اور اوامر و نواہی کی تعلیم دینے میں گزرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قلب ِ گداز عطا کیا تھا، مخلوقِ خدا کی خدمت اور خیر خواہی کو اپنا جزوِ ایمان سمجھتے تھے۔ حافظ ابن حجرؒ نے ’’اصابہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے امیر معاویہؓ کے پاس جا کر یہ حدیث بیان کی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو امام (حاکم) محتاجوں، دوستوں اور حاجت مندوں کے لیے اپنا دروازہ بند کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی حاجتوں اور دعائوں کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دے گا۔ امیر معاویہؓ نے یہ حدیث بڑے غور سے سنی اور اسی وقت ایک خاص افسر اس کام کے لیے مقرر کر دیا کہ وہ لوگوں کی حاجتیں اور ضرورتیں معلوم کرے اور انہیں پورا کرے۔ حضرت عمروؓ بن مُرّہ نے طویل عمر پائی اور اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہد ِ حکومت میں کسی وقت سفرِ آخرت اختیار کیا۔ حضرت عمروؓ بن مُرّہ کے صحیفہ اخلاق میں اخلاص فی الدین کا پہلو سب سے نمایاں ہے۔ اپنے اشعار میں بڑے جوش و خروش سے اسلام پر فخر کا اظہار کیا کرتے تھے ،اس کا نمونہ یہ شعر ہیں: انی شرعت الان فی حوض التقی وخرجت من عقد الحیاۃ سلیما ولبست اثواب الخلیم فاصبحت اُمّ الغوایۃ من ھویٰ عقیما یعنی میں تقویٰ کے حوض میں تیرا اور زندگی کی مشکلات سے صحیح سالم نکل آیا۔ میں نے حلیم کا لباس پہن لیا اور گمراہیوں کی ماں میری خواہش سے ناامید ہوگئی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

No comments:

Post a Comment