Search This Blog

Friday 25 May 2012

حیا کی قیمت بڑی ہے بھیّا Price of Modesty

اوصاف کا گہنہ
حیا کی قیمت بڑی ہے بھیّا

  ہر دین کا ایک خا ص خلق ہوتاہے اور اسلام کا خلق یہی ’’حیا ‘‘ہے ۔حیا ایک خاص فطری وصف ہے جو انسان کے اندر بہت سی خو بیو ں کو پروان چڑھا تا ہے۔ مثلاً عفت و پا کبا زی، گنا ہوں سے بچنا، اللہ کی نافرمانیوں پر غیرت کھانا، کسی کے سا منے دست سوال دراز نہ کرنا اور سوال کر نے والے کو خالی ہاتھ نہ لوٹانا، احسان مندی کرنا، حق تلفی نہ کرنا، دوسروں کی غلطیوں پر چشم پو شی کر نا، سب اسی حیا کے مختلف مظا ہر ہیں۔حیا کے با رے میں ایک عام تصور ہے کہ یہ عورتوں کا وصف ہے اور اس کو بدرجہ اتم عورتوں کے اندر ہونا چاہیے۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ عورت کے اندر اللہ نے فطری طور پر شرم و حیا کا مادہ مرد سے زیا دہ رکھا ہے اور بہترین عورت یقیناوہی ہے جو حیا کے زیورسے آ راستہ ہے لیکن مردوں کے لیے حیا اتنا اہم ہے کہ معا شرتی اصلا ح اور تطہیر کے لیے مردوں کا باحیا ہونا کبھی کبھی عورتوں سے بھی زیا دہ اہم بن جا تا ہے ۔
حیا ایسا وصف ہے جسے خود ما لک و خا لق کا ئنات نے بھی اختیا ر فرمایا ہے۔ قرآن میں جا بجا اس کا تذکرہ ہے اور احا دیث میں بھی اللہ کے اس وصف کو بیا ن کیا گیا ہے ۔آپؐ نے فر ما یاکہ:
"عزت اور جلال وا لے خدا کے آگے جب کو ئی بندہ ہا تھ پھیلا کر کچھ بھلا ئی ما نگتا ہے تو وہ اس کو نا مراد لو ٹا تے ہو ئے شر ما تا ہے ‘‘۔ (بیہقی)
اللہ کے لئے حیا کے معنی:سید سلما ن ندوی ؒ، سیرت النبیؐ جلد ششم میں رقمطراز ہیں کہ اللہ کے لئے حیا کے معنی وہی ہوں گے جو اس کی ذات اقدس کے لا ئق ہیں مثلاً یہ کہ وہ اپنے بدکار بندوں کو بُرائی کرتے دیکھتا ہے لیکن ان کو پکڑتا نہیں اور اس کے آ گے جو ہا تھ پھیلا تا ہے اس کو نامُراد لو ٹا تا نہیں۔
حدیث ہے کہ: ’’ اللہ سب سے زیا دہ غیرت مند ہے اور اسی لیے اس نے بدکاریوں کو حرام کیا ہے‘‘۔(صحیح مسلم)
غور کیا جا ئے تو حیا کی یہی صفات مسلما ن مردوں میں بدرجۂ اتم موجود ہونا ضروری ہیں مثلاً اعلیٰ ظرفی، حق کے لیے جری و بے باک ہونا، بدکاریوں اور برائیوں کے سد باب کے لیے کمر بستہ ہو نے والے۔
حیا اور نبی کریم ؐ: احا دیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کنواری پردہ نشین لڑ کیوں سے زیا دہ حیا دار تھے۔
احادیث میں ہے کہ شرم و حیا کا اثر آپ ؐ کی ایک ایک ادا سے ظاہر ہوتا تھا۔ کبھی کسی کے سا تھ بد زبا نی نہیں کی، با زاروں میں جا تے تو چپ چاپ گزر جاتے۔ تبسم کے سوا کبھی لب مبا رک خندہ و قہقہہ بازی سے آشنا نہ ہو ئی۔بھری محفل میں کوئی با ت ناگوار ہوتی تو لحاظ کی وجہ سے زبان سے کچھ نہ فرماتے۔ چہرہ کے اثر سے ظاہر ہوتا اور صحابہ ؓمتنبہ ہوجاتے۔آپؐ کو کعبہ کے گرد برہنہ طواف سخت نا پسند تھا، حمام میں برہنہ نہا نے سے سختی سے منع فرمایا، عورتوں کے حمام میں جانے پر پا بندی لگا ئی۔معمول تھا کہ رفع حاجت کے لئے اس قدر دورنکل جا تے کہ آنکھو ں سے اوجھل ہو جا تے۔ مکہ معظمہ میں جب تک قیام تھاحدود حرم سے باہر نکل جاتے جس کا فاصلہ مکہ معظمہ سے کم از کم تین میل تھا ۔(سیرت النبیؐ جلد دوم سید سلمان ندوی صفحہ)
آپؐ بچپن ہی سے بہت حیا دار تھے۔ مشہور وا قعہ ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت اینٹیں اُٹھا اُٹھا کر لا رہے تھے۔اپنے چچا عباس ؓکے کہنے پر تہبند اتا ر کر کندھے پر رکھنا چاہا تو حیا کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے۔ ہوش آیا تو زبان پر تھا میرا تہبند، میرا تہبند۔ (بخاری)
بعض موا قع پر آپ صلعم کو صحا بہ کرام کے کسی عمل سے تکلیف ہوتی تھی لیکن آپ صلعم حیا کی وجہ سے خاموش رہتے۔ جیسے حضرت زینب ؓکے ولیمہ کے روز صحابہ ؓدیر تک بیٹھے رہے، آپ صلعم کو نا گوار محسوس ہوتا رہا لیکن منع نہ فرمایا یہا ں تک کہ اللہ تعا لیٰ نے خصوصی حکم نا زل فرما کر ان امور سے منع فرما یا۔
حیا اور صحا بہ کرام ؓ:- صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ جلیل القدر بزرگ تھے جن کی تر بیت وحی الٰہی کی روشنی میں خود نبی کریم صلعم نے کی۔ ان کے فطری اوصا ف کو پروان چڑھایا، ان کی موروثی صفات کو صحیح رخ دیا اور تاریخ کے بہترین انسان بنا کر کھڑا کیا۔خلفا ئے راشدینؓ میں حضرت عثمانؓ سب سے زیا دہ حیا دار تھے اور نبی کریم صلعم بھی ان کی اس صفت کا لحاظ رکھتے تھے۔ با قی صحا بہ کرام ؓکے سامنے اگر کبھی پنڈلیاں کھول کر بیٹھ جاتے تھے تو حضرت عثمان ؓ کی آمد پر ڈھا نپ لیتے تھے کہ ان کی حیا پسند طبیعت پر یہ ناگوار نہ گز رے۔حضرت عمرؓ کی حیا غیرت ِمردانہ کا روپ رکھتی تھی۔ اللہ کے دین کے با رے میں وہ بہت باغیرت تھے اور بے شما ر تا ریخی واقعات ہیں کہ جب انہوں نے چاہا کہ کسی دشمن خدا کی گردن تن سے جدا کر دیں اور رسول صلعم کے حلم نے اس سے روکا۔پر دہ کے احکا م آنے سے قبل حضرت عمر ؓکئی مر تبہ نبی کریم صلعم سے اس با ت کا اظہا ر کر چکے تھے کہ آپ صلعم کے گھر میں ہر طرح کے لوگ آتے ہیں ،بہتر ہے کہ امہا ت المومنین پردہ کیا کریں۔ پردے کے بغیر کوئی عورت پہچان لی جا تی تو ان کو نا گوار ہوتا۔ سورہ نو ر میں جب زنا اور قذف کے احکام نا زل ہو ئے اور چار گواہوں کی پا بندی عائد کی گئی تو حضرت سعد بن عبادہ ؓنے اس پر قدر ے گرمجوشی کااظہا ر کیا کہ مرد اگر(خدانخواستہ) اپنی بیوی کو غلط کاری کرتے دیکھے تو چار گواہ لانے تک تو کام تمام ہوجائے گا۔ یہ کیسا قانون ہے؟ نبی کریم صلعم نے اس تبصرے پر ناگواری کا اظہا ر فرمایا تو صحا بہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلعم سعد بن عبادہ ؓکے با رے میں جلدی نہ فرمائیے یہ بہت غیرت مند ہیں۔
صحا بہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے حیا اور غیرت کا صحیح مفہوم سمجھا۔ ان کی حیا نے انہیں ہر طرح کی بے حیا ئی، فحا شی اور عریانی سے روکے رکھا۔ معاشرے کو پاکیزہ رکھا۔ حیا نے ان کو ایک دوسرے پر ہر طرح کی دست درازی سے روکے رکھا۔ وہ احسان کی قدر کرنے وا لے، سا ئلین کو نہ لوٹانے والے تھے۔ وہ اتنے غیرت مند تھے کہ معا شرے میں کسی کو کھلے عام گناہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی لیکن ان کی حیا اسلامی حیا تھی ۔اس میں کمزوری اور بزدلی کا عنصر شامل نہ تھا کہ وہ حق با ت کر نے سے شرما جائیں۔ کا فروں کے سامنے کلمہ حق نہ کہہ سکیں۔ جابر و ظالم حکمرانوں کے سامنے اللہ کی کبریائی نہ بیان کرسکیں۔ ظالموں کو ظلم سے روکنے میں کوئی چیز مانع نہ ہوتی تھی۔ اللہ کے دین کے دفاع میں وہ بہت غیرت مند تھے۔ صحابہ کرام ؓ کو حیا نے ان مواقع پربھی دلیر بے جھجک اور آزاد بنادیا دیا تھا جہاں دین سیکھنے کی ضرورت ہوتی تھی،حتی کہ صحابیات ؓبھی سوال کر نے سے نہ کتراتیں اور احسن طریقے سے سوال کرتیں۔
حضرت عا ئشہؓ فرماتی ہیں انصار کی عورتیں کس قدر اچھی عورتیں تھیں کہ دین کا علم حاصل کر نے سے ان کو حیا نہیں رو کتی تھی۔ (مسلم)
اس دور کی مسلمان عورتیں بھی حیا میں مثالی تھیں اور مسلمان مرد بھی بدرجہ اتم اس صفت سے متصف تھے۔سب اللہ سے بھی حیا کرتے تھے اور ہر طرح کی نافرمانی اور فحاشی سے اجتناب کرتے تھے اور آپس میں بھی حیا کر تے تھے۔ مردوں میں غیرت بدرجۂ اتم تھی جو حیا کا مظہر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مسلم معاشرے میں کو ئی بہن، بیٹی، بیوی اور کوئی عورت بے حیائی کے ساتھ باہر نکلنے کی جرات نہ کر سکتی تھی اور حضرت عمرؓ اور سعد بن عبا دہ ؓ جیسے جری اور غیرت مند انسان معاشرے میں حیا کی ترویج کے لئے موجود ہوتے تھے۔
روایتی مسلم معاشرے اور حیا:-آج سے چند سال پیشتر تک ہمارے دیہا ت اور چھوٹے شہروں میںمردانہ حیا اورغیرت زندہ تھی۔ گھروں کے اندر بھی عورتیں دو پٹے اتارنے کا تصور نہ کرسکتی تھیں،مرد کھانس کر، کھنکھارکریا آواز دے کر گھر کے اندر دا خل ہو تے اور گھر کی تما م خواتین اپنی چادریں اور دوپٹے درست کر لیتیں۔ بھائی غیرت مند تھے کہ بہنوں کو بے پردہ ساتھ با ہر لے جا نے پر معترض ہو تے تھے۔ شوہر بیوی کو دوستوں کے سامنے لانے میں جھجھک رکھتے تھے۔
خا ندان میں ایک نہ ایک ایسا باکردار اور رعب دار مرد ضرور ہو تا تھا جس سے سب حیا کر تے تھے اور اس کے سا منے عورتیں تو کیا لڑکے بھی غلط کا م کر نے سے جھجکتے تھے،بڑوں کے سامنے حیا کی جا تی تھی، نگاہیں نیچی رہتی تھیں، اونچا نہیں بولا جاتا تھا۔ کھلے عام نافرمانی نہیں کی جاتی تھی۔ ناگوار باتوں کو بھی برداشت کیا جاتا تھا۔ شادی بیاہ میں مرد اور عورتیں الگ الگ ہوتے تھے۔ دلہن اور حیا  لا زم و ملزوم تھے۔ دلہن کو رخصت کرتے وقت باپ اور بھا ئی ملتے تھے تو حیا کی وجہ سے اس اس کو پورا ڈھک دیا جاتا تھا ،وہ باغیرت باپ اور بھائی دلہن کے ننگے سر پر ہا تھ نہ پھیرتے تھے۔ بسوں میں سفر کرتے ہو ئے مرد کسی عورت کو کھڑا دیکھتے تو اسے جگہ دے دیتے اور خود کھڑے ہوجاتے۔ گھر کی عورتوں کے لباس پر بھی مردوں کی نظر رہتی تھی اور غلطی پر ٹوکا جاتا تھا۔ ایسے لڑکوں اور مردوں کو سخت نا پسند کیا جا تا تھا جو عورتوں میں گھسے رہتے تھے، جو بیویوں کو بے پردہ باہر لے جا نے میں کوئی باک نہ رکھتے تھے بلکہ صاف کہا جا تا تھا کہ فلاں بہت بے غیرت ہے، اس کی بیوی اور بہن ایسے با زا روں میں گھو متی ہے۔
آج کیا ہوگیا ہے…؟اے مسلمان مردو!اے بھا ئیو!آج کیا ہوگیا ہے۔ کہاں گئی مسلمان مردوں کی حیا اورغیرت …؟
آج دنیا بھر میں اسلام مظلوم اور اجنبی ہے۔ مسلمان ہونا ایک جرم بن گیا ہے۔ ہرجگہ مسلمان کی عزت نفس پامال کی جا رہی ہے۔ جہاں خون بہہ رہا ہے مسلمان کا بہہ رہا ہے۔ عرب سے لے کر ایشیا، افریقہ اور یورپ تک کوئی جان ارزاں ہے تو مسلمان کی۔ وائٹ ہائوس میں ایک مکھی کے مر نے پر این جی اوز حرکت میں آجاتی ہیں لیکن افغانستان، عراق، پاکستان میں ڈرون حملوں اور بم دھماکوں اور میزائل حملوں میں مارے جانے والے انسان شاید کیڑے مکوڑوں سے بھی کم اہم ہیںاورارضِ کشمیر میں انسانی حقوق اور تکریم انسانیت کی کوئی قدروقیمت ہی نہیں… کیوں؟
سوشل سیب سائٹوں پر آ ئے دن اسلام کی بے حر متی کی جاتی ہے لیکن ایک وقتی جوش کے بعد سب ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔کیوں؟ اس لیے کہ مسلما نوں کے اندروہ ایمانی غیرت اور حیا نہیں رہی جو کفر کو چیلنج کر سکے،جو ظالموں کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچا سکے۔  آج امت کے سپوتوں کی آنکھوں پر ما دیت کی پٹی بندھ گئی ہے۔ حکمران ڈالروں کے عوض یہودو نصا ریٰ کے با جگزار بن چکے ہیں۔ بے دین سیا ست دان اقتدار کی ہوس میں ایمان و حیا فروخت کر چکے ہیں اور وہی کرسیوںپر قابض ہیں۔
تعلیم بے حیا کارپردازوں کی وجہ سے تجا رت بن چکی ہے اور اپنے اصل معنی کھو چکی ہے۔ اب تعلیم صرف روٹی کمانے کے گر سیکھنے کا نا م ہے اور لگ بھگ استاد اور طبیب جو آج اپنا مقام کھوچکے ہیں، اس لیے کہ ان کے یہاں ٹیوشن اور فیس نے علم اور ہمدردی کی جگہ لے لی ہے۔عدلیہ اور مقننہ میں، معدودے چند کے سوا، رشوت کے بندے اور غلا م ہیں۔ سچ بتائیں اللہ سے حیا کر نے وا لے آج کدھر گئے ہیں…؟ بندوں سے تو بندے بہت ڈرتے ہیں۔ ہر ہر کام کر نے سے قبل یہ ضرورسوچا جاتا ہے کہ لوگ کیاکہیں گے؟ یہ کتنے لوگ سوچتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے، فرشتے دیکھ رہے ہیں۔ان سے حیا کریں، ان سے ڈر کر اپنے رویے اور اعمال بدلیں اور اپنے ارد گرد کے معا شرے اور ماحول کو بدلنے کی کوشش کریں۔
وائے افسوس! سڑکیں، چوک اور چوراہوں پر لگے شیطا ن کی فحاشی کو مات دیتے ہوئے سا ئن بورڈ آج کسی عمرؓ کو آواز دیتے ہیں۔اسکولوں، کالجوں میں بے پردہ نوجوان لڑکیوں کے جم غفیر کسی سعد بن عبادہ ؓ کی غیرت کے منتظر ہیں۔ دکانوں پر لگے بورڈبے حیائی کی حدود پھلانگ رہے ہیں۔اشتہارات کی بے باک اور فحش دنیا ہے۔ اور غیرت مندوں کی غیرتیں نہ جانے کہاں چلی گئی ہیں…؟
اکبر الہ آبادی مرحوم چند بے پردہ عورتوں کو دیکھ کر غیرت قومی سے زمین میں گڑ گئے تھے۔ آج بے اختیار ان کے شعر یا د آتے ہیں جو مردانہ غیرت کی صحیح تصویر کشی کرتے ہیں ۔
 بے پردہ نظر آئیں مجھ کو چند بیبیاں
اکبر وہیں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
 پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ کیا ہوا؟
کہنے لگیں عقل پر مردوں کی پڑ گیا
شادیوں کے اوقات پر عورتوں کا حد سے نکلنا، دلہن کا نیم برہنہ لباس، نامحرم مردوں کا عورتوں کو مختلف زاؤیوں سے فوکس کر کر کے کیمرے میں بند کر کے فلمیں بنانا اور باپ ، بھائی کی غیرت کے کان پر جوں تک نہ رینگنا، اور تو اور بعض دیندار گھرانوں میں بھی اس موقع پر حیا کا جنازہ اٹھتا نظر آتا ہے کہ دل خوف سے کانپ جاتا ہے ۔ اے بہت حیا اور غیرت والے اﷲ!تیری یہ چشم پوشی ہمارے لئے عذاب بن کر نہ نازل ہو جائے ۔بے پردگی تو ایک طرف، آج ساتر اور باحیا لباس ہی معاشرے سے عنقا ہوگیا ہے۔ (الا ماشاء اللہ)نہ کپڑا بنانے والے مرد یہ دیکھتے ہیں کہ کتنا باریک کپڑا بنا رہے ہیں ،نہ بیچنے والے اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کتنا گناہ کما رہے ہیں بلکہ جب باپردہ و باحیا عورت کپڑا خریدنے جا تی ہے اور باریک کپڑے لینے سے انکار کرتی ہے تو بہت سے بزازبھی کہتے ہیں بہن جی لے جا ئیں یہ دھونے سے موٹاہوجائے گا۔اس ضمن میں بہت سارے لوگ اور سہل انگاری اور کو تا ہی کا شکار ہوتے ہیں اور بعض نامور دکا نوں پر بکنے وا لے سوٹ اور کپڑے بھی حیا کے بنیا دی تقا ضے ہی پورے نہیں کرتے۔ یہ بہت تشویشناک بات ہے ۔
حیا کی ترویج:ایمانی زوال کے اس دور میں ہمیں قر آن و سنت رسول صلعم کی طرف رجو ع کرنا ہے اور اپنے مردوں اور عورتوں میں حیا کے وہ بیج بونے کی کوشش کرنا ہے جومعاشرے کو وا پس پا کیزگی کے اس معیار کے قریب لے آئیں ،جو صحابہ کرامؓ کے دور کے خا صہ تھا۔گھر کے اندر مردنگران ہے، چرواہا ہے۔ اس کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور گھر والوں کے لیے صحیح تعلیم کا بندوبست کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقدیسِ نسواں کا محا فظ دراصل مرد ہی ہے۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہوجائیں تو معا شرے سے ان برائیوں کا خاتمہ ہوجائے جو عورتوں کی بے مہا ری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
………
ibrjamal38@gmail.com

No comments:

Post a Comment